میں نے تو کی محبّت تو نے کی بیوفائی تقدیر یہ ہماری کس موڑ پر لے آئی … ٹوٹے ہیں اس طرح دل آواز تک نہ آۓ .. ہم جیسے جی رہے ہیں کوئی جی کے تو بتاۓ … ہم جیسے جی رہے ہیں کوئی جی کے تو بتاۓ …. سموسے چٹنی میں ڈبو ڈبو کر کھاتے ہوئے گانے کی ٹانگے توڑنے کا عمل بھی پوری شدّت سے جاری و ساری تھا سامنے والی ٹیبل پر بیٹھی بے نیاز سی نظر آنے والی یشفہ کو دیکھ دیکھ کر ایسے سرد آہیں بھر رہا تھا کے ریاض نے ٹوک ہی دیا اسے … “بس کر دے یار …اتنی ٹھنڈی آہیں بھر رہا ہے کہیں سردی نہ لگ جاۓ تجھے …!!” “تو نہیں سمجھے گا ریاض …تو نہیں سمجھے گا …” ہاتھ سے دل مسلتے ہوئے اس نے جیسے جذبات کنٹرول کرتے ہوئے کہا .. “تیری حرکتیں مجھے مشکوک کر رہی ہیں ..” چاۓ کا گھونٹ بھرتے اس نے غور سے حیدر کو دیکھتے ہوئے کہا “یقین کر میرا ..میں سیرئس ہوں …!!” [ ] سنجیدہ انداز میں بولتے ہوئے اس نے تیمور کی پلیٹ میں رکھا سموسہ بھی اچک لیا تھا جو موبائل پر مصروف ہونے کی وجہ سے اس کی حرکت دیکھ نہ پایا تھا “نہیں حیدر …دنیا ادھر کی ادھر کی ہو سکتی ہے لیکن تو سیرئیس نہیں ہو سکتا …!!” ریاض نے کہتے ہوئے گردن موڑ کر ٹیبل پر رکھے لیپ ٹاپ کے ساتھ مصروف یشفہ کو دیکھنے کے بعد دوبارہ حیدر کو دیکھا تھا جس کی نظریں پہلے سے ہی اس پر جمی تھی وہ اس طرح سے بیٹھے تھے کے حیدر تو براہ راست اسے دیکھ سکتا تھا جبکے ریاض کی اس طرف پشت تھی .. اچانک ہی یشفہ نے اپنے چہرے پر کسی کی پر حدت تپش محسوس کر کے دراز پلکیں اٹھا کر حیدر کو دیکھا تھا نگاہوں کے ٹکراؤ پر جہاں حیدر کے ہونٹوں پر بے ساختہ جاندار مسکراہٹ آئی تھی وہیں یشفہ کی آنکھوں میں غصے کے شولعے لپکنے لگے تھے “اس پیار سےےے میری طرف نہ دیکھووو … پیار ہو جاۓ گاااا ….!! بلند آواز سے گنگناتے ہوئے مسکراہٹ چھپانے کو اس نے چاۓ کا کپ لبوں سے لگایا تھا … “مت چھیڑ بھوکی شیرنی کو ..کھا جاۓ گی تجھے …” اسے خبردار کرتے ہوئے ریاض اپنی کرسی ٹھیک اس کے سامنے رکھ کر بیٹھ گیا جس سے یشفہ اس کے پیچھے چھپ سی گئی تھی حیدر اسے دیکھ نہیں پا رہا تھا “ہٹ موٹے ..کیوں دیوار بن کر بیٹھ گیا ہے ؟؟…!!” حیدر نے بد مزہ ہوتے ہوئے کہا “تو مجھے بہت عزیز ہے حیدر ..اور میں نے نہیں چاہتا کے تو بے موت مارا جاۓ ..!!” سکون سے کہتے ہوئے اس نے مارکیٹنگ کی کتاب کھول کر چہرے کے سامنے کر لی تھی چھن سے ایک نسوانی وجود اس کی نظروں کے سامنے لہرایا .. ایک دل نشین سی مسکراہٹ نے اس کے لبوں کا احاطہ کر لیا تھا …!! سر جھٹک وہ پھر سے کتاب پر دھیان لگانے لگا “چلو چھوڑو یہ ناراضگی وراضگی ..آؤ ہم سموسے کھاتے ہیں …!!” ہلکا سا سائیڈ پر جھکتے ہوئے ریاض کے پیچھے سے نظر آتی یشفہ کو دیکھ کر اس نے کہا تھا جس کا میٹر فورآ ہی گھوما تھا “مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ ؟ ..!!” ہاتھ مار کر لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے اس نے بھڑک کر پوچھا “مسئلہ ؟؟؟نہیں پڑوسن مسئلہ تو کوئی نہیں ہے ..میں تو بس چٹنی مانگ رہا تھا ..میرا آدھ سموسہ رہ گیا ہے اور چٹنی ختم ہو گئی ہے ..اگر تھوڑی سی دے دو تو بڑی مہربانی ہو گی …!!” حیدر کے اس قدر لجاجت سے کہنے پر ریاض نے با مشکل اپنی ہنسی روکی تھی یشفہ نے اسے جواب دینا بھی ضروری نہ سمجھا تھا اور پاس سے گزرتے وجاہت کو آواز دے کر روک کر سموسوں کی پلیٹ خوشی سے اسے پکڑا دی چٹنی سمیت …!!” جسے اس نے چکھا تک نہ تھا .. کینہ طوز نگاہوں سے جاتے ہوئے وجاہت کو دیکھتے ہوئے اس نے پھر سے یشفہ کو دیکھا تھا جو اپنا سامان سمیٹ رہی تھی .. یہ جو اتنی اکڑ تم دکھا رہے ہو ہماری محبّت کا ہی اعجاز ہے ورنہ ہم کیا جانتے نہیں تمہیں اور تمہارے غرور کو … (زینب خان ) حیدر کے پڑھے گئے شعر پر یشفہ کے حرکت کرتے ہاتھ ساکت ہوئے تھے ..!! خطرناک تیور لئے وہ اس کی طرف بڑھی تھی ریاض فورآ سائیڈ پر ہو کر تیمور کے ساتھ بیٹھ گیا حیدر کی موت اسے صاف نظر آ رہی تھی زور سے ٹیبل پر ہاتھ مار کر وہ اس کی جانب جھکی … “بات سنو میری ..نہ مجھے تم میں پہلے کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی اب ہے .. آخری بار تمہیں کہ رہی ہوں مجھ سے پنگا مت کرو ..بہت برا حشر کروں گی تمہارا …!!” چہرے کے تاثرات کی طرح اس کی آواز میں بھی سختی اور سرد پن تھا …!! سر جھٹک کر وہ اس طرح سے ہنسا تھا جیسے یشفہ نے کوئی مزاحیہ بات کہی ہو ٹیبل پر رکھے اس کے سرخ ا سپید ہاتھ کے برابر میں اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے وہ بھی اس کی جانب جھکا تھا اپنی شرارت اور محبّت سے چمکتی آنکھیں اس نے آگ برساتی یشفہ کی آنکھوں میں گاڑی تھی … “ایک دفعہ اور کہو نہ یہ ہی بات …پلیز …اچھی لگ رہی ہے تمہارے منہ سے …!!!” بے بسی اور غصّے سے بھینچے گئے گلابی لبوں کو حیدر نے بہت قریب سے دیکھا تھا .. اس کی دل کی دنیا میں ایک شور سا اٹھا تھا مسمرائز سا وہ اس کو دیکھتا رہ گیا … “پاگل ہو تم ؟؟ سمجھ نہیں آتی میری بات ؟؟؟…!!” بت بنے بیٹھے حیدر کو اس نے غصے سے کہا “پاگل کر کے پوچھتی ہو تم پاگل ہو کیا ؟؟ ایک تو تمہاری یہ ادائیں …!!” سر جھٹک کر پیچھے ہو کراس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی تھی ساتھ ہی ریاض کے پاس رکھی پانی کی بوتل اٹھائی .. اتنے قریب سے یشفہ کو دیکھنے پر اس کے حواس ساتھ چھوڑنے لگے تھے بڑی مشکل سے جذبات کنٹرول کرتے ہوئے اس نے اس پر سے اپنی نظریں ہٹائی تھی جو لپک لپک کر اس کے چہرے کا طواف کر رہی تھی ہاں وہ اتنی سحر انگیز تھی جو حیدر جیسے بندے کو پاگل کردے ….!!! “آئندہ مجھ پر کومنٹس اچھالنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچ لینا ..بہتر ہوگا تمہارے لئے …!!!” تپے ہوئے انداز میں چبا کے کہتے ہوئے وہ جھٹکے سے سیدھی ہوئی تھی اور ایک گھوری اس پر ڈال کر مڑ گئی تھی کچھ دیر پہلے جہاں وہ بیٹھی تھی وہاں سے اپنا بیگ اور لیپ ٹاپ جھپٹنے کے سے انداز میں اٹھا کر کینٹین سے ہی چلی گئی تھی …!!” ریاض اور تیمور نے ایک دوسرے کو ہنستے ہوئے دیکھنے کے بعد حیدر کو دیکھا تھا جو پر سوچ انداز میں بوتل سے گھونٹ بھر رہا تھا “کروالی عزت ؟؟ مل گیا سکون ؟؟ تیرا بھی ڈھیٹ پنے میں کوئی ثانی نہیں ..اتنی تیری بے عزتی کرتی ہے وہ لیکن مجال ہے جو تجھے کچھ عقل ہو …!!” ریاض نے اسے شرم دلانے والے انداز میں کہا “تجھے کیا پتا ریاض اس نفرت میں بھی اس کی محبّت چھپی ہے …!!” حیدر کے دل نشین انداز میں بولنے پر وہ دونوں ہی بے ساختہ ہنسے تھے “وہ محبّت کرے گی ؟؟وہ بھی تجھ سے ؟؟ ہاہا …!!!” تیمور نے ریاض کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے ہنس کر رہا ” کرے گی بیٹا سب کرے گی …اتنی آسانی سے تو نہیں چھوڑنے والا میں اسے …!!” حیدر کے چیلنجنگ انداز میں کہنے پر ان دونوں نے معنی خیزی سے ایک دوسرے کو دیکھا تھا .. تبھی کوئی اندھی طوفان بنا کینٹین میں داخل ہوا …!! کچھ دیر رک کر اس نے کسی کو تلاشنا چاہا … حیدر اور ریاض کے ساتھ بیٹھے تیمور پر نظر پڑتے ہی وہ بولا .. “تیمور …جلدی کر سائنس ڈیپارٹمنٹ میں وکی اور خاور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں …میں جا رہا ہوں تو بھی بھاگ کے آجا …!!” خبر دینے والا قاصد جیسے ہی آیا تھا ویسے ہی واپس بھاگ لیا تھا اور تیمور خبر ملتے ہی اپنا سامان چھوڑ چھاڑ آستینیں چڑھاتا اس کے پیچھے لپکا تھا .. مار دھاڑ کے شوقین تیمور کو اپنا من پسند مشغلہ مل گیا تھا .. خبر دینے والے فرقان جیسے اس کے دس بارہ قاصد اور بھی تھے .جن کو اس نے اسی کام کے لئے رکھا ہوا تھا جہاں بھی لڑائی جھگڑے کا کوئی سین ہوتا سب سے پہلے جاۓ وقوع پر تیمور کی موجودگی لازمی ہوتی تھی … وہ اور اس کے کارندے دونوں پارٹیوں میں بھرپور تیل چھڑک کر آگ لگانے میں پیش پیش ہوتے تھے جیسے کے آج ہوا تھا …!! خاور اور وکی کے درمیان جھگڑے کی وجہ اتنی بڑی نہیں تھی لیکن تماشائیوں نے بات کو ہوا دے کر بہت بڑا بنا دیا تھا .. “دل کرتا ہے گلہ دبا دوں اس ڈان کا فضول میں “بھائی ” بنا گھومتا ہے ..تو لکھ لے حیدر میری بات کسی دن مر مرا جاۓ گا یہ منحوس …!!!” ریاض نے چڑے ہوئے انداز میں تیمور کی طرف اشارہ کر کے کہا … “ابے تیرا کیا جا رہا ہے ؟مرنے دے اسے …کم از کم بریانی تو ملے گی …” کہتے ہوئے اس کی ساری توجہ موبائل کی طرف تھی جہاں فیس بک پر وہ کچھ دیر پہلے کی لی گئی سیلفی پوسٹ کر رہا تھا “پھر تو تجھے میرے مرنے پر بھی کوئی افسوس نہیں ہوگا …ہے نہ ؟؟” ریاض نے اسے چیک کرنا چاہا “آفکورس یار …بلکے تیرے مرنے پر مجھے زیادہ خوشی ہو گی ..کیوں کے تیرے سوئم پر بریانی کے ساتھ قورمہ بھی ہوگا ..انکل اور آنٹی کو بڑی محبّت ہے نہ اپنے اکلوتے پیس سے ..اسی لئے وہ صرف بریانی پر تو ٹرخائیں گے نہیں …!!” “میں وصیت کر کے جاؤں گا کے میرے سوئم پر اس بھوکے کو کھانا نہ دیا جاۓ ….!!” ریاض کے تپ کر کہنے پر اس نے قہقه لگایا تھا … “اور تجھے لگتا ہے کے میں وہ وصیت کسی کے ہاتھ لگنے دوں گا ؟؟….!!!” حیدر کے شرارت سے کہنے پر اس نے سر جھٹکا تھا .. “کمینوں کا بھی باپ ہے تو …!!” حیدر کو کہنے کے بعد وہ اپنا توجہ کتاب کی طرف مرکوز کر چکا تھا “چل تونے مانا تو صحیح کے تو میری گندی اولاد ہے ..!! کوئی نہیں جیت سکتا تھا اس سے .. “پڑھنے دے حیدر ..!!!” ریاض اسے کہتے ہوئے کتاب میں سر دے چکا تھا …
نرم گرم سی خوشبو پورے گھر میں چکراتی پھر رہی تھی گردن فخر سے اکڑاۓ گرما گرم خوشبو دار لزانیہ کی پلیٹ یشفہ نے اس کے سامنے رکھی جو آفس سے گھر جانے کے بجاۓ وہیں چلا آیا تھا “کھائیے ہائم صاحب اور داد دیجئے میرے ذائقے کی …!!” اس نے فرضی کالر اکڑاتے ہوئے کہا .. “امیزنگ یار ماننا پڑے گا ذائقہ بہت ہے تمہارے ہاتھ میں …!!” راحم نے کانٹے سے تھوڑا سا پیس منہ میں رکھتے ہوئے ستائش سے کہا تھا .. اور وہ اتنی سی تعریف پر ہی کھل گئی تھی “بس ڈن ہو گیا …میں نے تمہیں لزانیہ کھلایا اب تم مجھے لونگ ڈرائیو پر لے کر چلو گے …!!” کافی پھینٹتے ہوئے اس نے فیصلہ سنایا … “اتنے چھوٹے سے لزانیہ کی اتنی بھاری قیمت چکانی پڑے گی مجھے ؟؟…!!” راحم نے پلیٹ کی طرف اشارہ کر کے بےچارگی سے کہا جی بلکل …!!” اس نے اسی انداز میں کہا “میڈم ..میں غریب بندہ دن بھر کا تھکا ہارا آفس سے سیدھا یہاں پہنچا ہوں صرف تمہارے بلانے پر ..چینج بھی نہیں کیا میں نے شاور بھی نہیں لیا ..کچھ تو رحم کھاؤ ..!!” اس نے چہرے پر دنیا جہاں کی مسکنیت طاری کرتے ہوئے کہا ..راحم کی شکل دیکھ کر اس کی ہنسی چھوٹ گئی تھی “فور یور کائنڈ انفو ..ابھی دن ڈھلا نہیں ہے …اور ویسے بھی لونگ ڈرائیو کے ساتھ اب تم مجھے اچھا سا لنچ بھی کرواؤ گے .. آ آ نو مور آرگیو …آ رہی ہوں میں بس دو منٹ میں ریڈی ہو کر ..!!” کچھ بولنے کے لئے اس کا منہ کھلتا دیکھ یشفہ نے اسے بیچ میں ہی ٹوک دیا تھا کافی کا کپ اس کے سامنے رکھ کے وہ جلدی سے تیار ہونے چل دی .. “اوۓ ..یشفہ بات تو سنو یار ….!!” راحم نے اسے پیچھے سے آواز دے کر روکنا چاہا “بس دو منٹ …!!” کہتے ہوئے وہ سیڑھیاں چڑھ گئی تھی سر جھٹک کر مسکراتے ہوئے وہ کافی پینے لگا …
سرما کی نرم چمکیلی دھوپ پورے گراؤنڈ میں پھیلی ہوئی تھی ٹھنڈی ہوائیں بھی جسم کو لگتی بھلی معلوم ہو رہی تھی .. کلاس لے کر وہ اپنے آفس کی جانب جا رہا تھا جبھی کوریڈور میں چلتے اس کے قدم تھمے تھے گردن موڑ کر اچھنبے سے اس نے گراؤنڈ میں لگے ہجوم کو دیکھا کچھ شورو غل کی بھی آوازیں بھی آ رہی تھی .. یقیناً پھر جھگڑا …!!” وہ سیدھا وہیں آیا تھا اور بلند آواز میں راستہ دینے کو کہا اس کی آواز سنتے ہی ٹکٹ فری شو دیکھتے سب سٹوڈنٹس سائیڈ پر ہو گئے تھے جھمگٹا ہٹتے ہی جو صورتیں اسے نظر آئی ان میں سے ایک پر اسے سو فیصد یقین تھا کے کوئی ہو نہ ہو اس نے یہاں ضرور ہونا ہے .. ہجوم ہٹتے ہی جو منظر اسے دیکھنے کو ملا تھا وہ اس کا میٹر گھمانے کے لئے کافی تھا .. “ہر لڑائی جھگڑے کے پیچھے تیمور ہی کیوں نکلتا ہے آخر ؟؟؟…!!” “گریبان چھوڑو اس کا …!!” احمد نے کافی سخت لہجے میں تیمور کو کہا تھا جو وکی کو گریبان سے پکڑے کھڑا تھا پروفیسر ارمان کو دیکھ کر سب مؤدب سے سیدھے ہوئے تھے “کیا لگتا ہے تم لوگوں کو ؟؟ یہ جامعہ کوئی کبڈی کا اکھاڑا ہے جو تم سب ایک کے بعد ایک اپنے داؤ پیچ آزماتے ہو..مجھے بتاؤ میں کونسی زبان میں تم لوگوں کو سمجھاؤں جو تمہاری عقل میں میری بات آجاۓ .. ایک بار نہیں دو بار نہیں ہزار بار بار تمہیں سمجھایا پیار سے منع کیا ڈانٹ سے سمجھایا پڑھنے کی جگہ ہے اس کا تقدس خراب نہ کرو ..لیکن نہیں تم لوگوں کو تو wwc کا چیمپئن بیلڈ ملتا ہے نہ ایک دوسرے کو مار کر ؟؟ آخری بار ..بس آخری بار میں تم لوگوں کو سمجھا رہا ہوں آئندہ مجھے یہ مار کٹائی نظر نہ آۓ ..ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا …!!! گوٹ اٹ تیمور ولید ؟؟؟…!!” جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالیں بے نیاز سے کھڑے تیمور کو دیکھ کر احمد نے سختی سے پوچھا جسے سو فیصد یقین تھا کے یہ لیکچر اس کے بارے میں نہیں دیا جا رہا “گوٹ اٹ سررر گوٹ اٹ …!!” “سر” پر زور ڈالتے ہوئے چہرے کے تاثرات کنٹرول کرتے ہوئے کہا تھا باقی سب بھی گردن جھکاۓ اس کی ڈانٹ پھٹکار سن رہے تھے .. ایک نظر اس نے اپنے کلائی پر بندھی گھڑی پر ڈالی تھی آج کے آخری پیریڈ ختم ہونے میں بس پانچ دس منٹ ہی رہتے تھے مطلب جامعہ سے چھٹی کا وقت تھا “کلاس میں چلو سب …!!!” ایک طائرانا سی نظر احمد نے اس بیس تیس سٹوڈنٹس کے ٹولے پر ڈالنے کے بعد کہا “سر ..سارے پیریڈز تو ہو چکے …اب تو چھٹی ہونے والی ہے …!!” اعظم نے بتیسی نکالتے ہوئے کہا “جانتا ہوں میں .لیکن آج تم سب کی ایکسٹرا کلاس ہے …یہی تمہارے لئے بہتر ہے نہیں باز نہ آنا تو پھر …ایسے ہی صحیح …!!” اس کی بات سن کر جہاں کچھ سٹوڈنٹس کے چہرے پر ہوائیاں اڑی تھی وہیں کچھ کے چہرے پر سکون پھیلا تھا .. کیوں کے وہ دوسرے ڈیپارٹمنٹ کے تھے ایک نے تو احمد سے کہ بھی دیا تھا “سر ..ہم تو جا سکتے ہیں نہ ؟ کیوں کے جو سبجیکٹ ہمارے ہیں وہ تو آپ پڑھاتے ہی نہیں …!!” “کوئی بات نہیں آج اکاؤنٹنگ پڑھ لو …کچھ جاۓ گا نہیں تمہارا …میں بھی تو دیکھوں نہ کے انجنئیرنگ اور میڈیکل کے سٹوڈنٹس “بیلنس شیٹ ” اور “انکم اسٹیٹمنٹ” بناتے کیسے لگیں گے ..سو بیک ٹو دا کلاس ..ہری اپ ..!!!” ہدایت جاری کرتے ہوئے وہ مڑ گیا تھا پیچھے وہ سب برے برے منہ بناتے وکی اور خاور کے ساتھ خود کو بھی کوستے کلاس کی طرف بڑھے تھے … ضرورت ہی کیا تھی ان کارٹونوں کا شو دیکھنے کی …؟؟ تیمور تو آنکھ بچاتا احمد کے پیچھے بھاگا تھا ..
“گھر کتنا خالی خالی لگ رہا ہے نہ اشعر ؟..!!” لائبہ نے چاۓ کا کپ اسے پکڑاتے ہوئے افسردگی سے کہا “کیوں بھئی خالی خالی کیوں لگ رہا ہے ؟ کیا میں یہاں نظر نہیں آ رہا تمہیں ؟؟۔۔!!” اس نے چھیڑنے والے انداز میں کہا وہ اس کے ساتھ ہی صوفے پر آ بیٹھی اور اس کا ہاتھ ہٹا کر اس کے کندھے پر اپنا رکھا تھا “ہماری شادی کو ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں ؟ لیکن دیکھو نہ امی ابو بھائی بھابھی سب چلے گئے ..!!” اس کے انداز میں بھی اداسی تھی “یار بھائی بھابھی کو تو واپس جانا ہی تھا بھائی وہاں جاب کرتے ہیں ان کا اپنا بزنس تو ہے نہیں ..یاد نہیں ہماری انگیجمنٹ میں بھی صرف دو دن کے لئے آۓ تھے اور ابو کو اپنا میڈیکل چیک اپ کروانا تھا ایسے موقع پر انہیں امی کی ضرورت ہوتی ہے اسی لئے امی ان کے ساتھ چلی گئیں …جانتی ہو ابو کے دوست قادر انکل بچپن کے بہت گہرے دوست ہیں اور اتفاق سے ڈاکٹر بھی ہیں ..کافی عرصے سے ابو انہی سے اپنا علاج کروارہے ہیں ..یقین کرو اگر مجبوری نہ ہوتی تو کوئی بھی نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر نہ جاتا …!!” اشعر نے اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے نرم سے اس کے سلکی بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے خاصی تفصیل سے کہا “ٹھیک ہے میں نے مان لیا سب کی مجبوری تھی ..لیکن فاریہ ؟ وہ تو رک سکتی تھی نہ ؟ْ اب بتاؤ میں کیا کروں اتنے بڑے گھر میں اکیلی ؟؟!!” اسے پھر شکوہ یاد آیا “پہلی بات تو یہ کے میری بہن تمہاری طرح بیوقوف نہیں خاصی عقلمند ہے یہاں رکنے سے زیادہ اس نے لندن جانا بہتر سمجھا ..تاکے نئے نویلے دولہا دلہن کو ایک ساتھ ٹائم سپنڈ کرنے کا موقع ملے ..اور رہی بات تمہارے اکیلے ہونے کی تو ..تم اکیلی کہاں ہو ؟ یہ چھے فٹ کا خوبرو شوہر تمہارے ساتھ نہیں ؟؟…!!” اشعر کا انداز ابھی ابھی شرارتی تھا “تمہاری بات الگ ہے اشعر ..اب میں سارا سارا دن صرف تمہی سے بات کرتی رہوں گی تو بہت جلد اکتاجاؤں گی تم سے ..اور میرادل نہیں کرے گا تم سے بات کرنے کو ..پھر بتاؤ کیا کرو گے تم ؟؟..!!” لائبہ نے مسکراہٹ دباتے ہوئے بےچارگی کے سے انداز میں کہا “تم اور مجھ سے بیزار ہو جاؤ ؟؟ایسا ہو ہی نہیں سکتا ..میں مان ہی نہیں سکتا ..کیوں کے میں جانتا ہوں جتنی محبّت میں تم سے کرتا ہوں تم بھی مجھ سے اتنی ہی کرتی ہو ..لائبہ کبھی اشعر سے بیزار نہیں ہو سکتی تم میری سانسوں میں بستی ہو یار میں کبھی تمہیں خود سے جدا نہیں کروں گا چاہے کچھ عرصے کے بعد میں تمہیں اچھا لگو یا نہ لگو تمہیں مجھ سے محبّت ہو یا نہ ہو ..لیکن تمہیں ہمیشہ اشعر کی لائبہ بن کر رہنا پڑے گا …!!!” اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اشعر نے اپنی محبّت کی بے پناہ شدّت کا احساس دلایا تھا ساتھ ہی اپنے سینے پر رکھے اس کے دودھیا مومی ہاتھ کو عقیدت سے چوما تھا “تم تو سرئیس ہی ہو جاتے ہو ..!!” اس کی جذبے لوٹاٹی آنکھوں میں وہ دیکھ نہ پائی تھی فورآ سے نگاہ جھکاگئی تھی اس کی نظروں کی تپش سے لائبہ کے گال سرخ پڑنے لگے تھے اشعر نے مسکراتے ہوئےاسے اپنے ساتھ لگایا تھا ..
صبح کے آٹھ بجے کا وقت تھا کمرے میں اندھیرا کئے پردے گراۓ وہ گہری نیند میں تھا جب کسی نے بے دردی سے اس کے منہ پر سے بلینکٹ کھینچ کر ٹھنڈے پانی کا جگ اس کے چہرے پر پھینکا تھا وہ ایک دم ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا ” مناہل ….کیا ہے یار ؟؟؟ کیوں تم میری نیند کی دشمن بنی ہوئی ہو ؟؟….!!” حواس ٹھکانے آنے پر اس نے آنکھیں مسلتے ہوئے ناراضگی سے کہا “مجھے غصہ مت دلاؤ حارث …دس دفعہ تمہیں اٹھانے آ چکی ہوں ہزار دفعہ الارم لگا چکی ہو ں ..لیکن مجال ہے جو تمہاری نیند ٹوٹ جاۓ …!! نہیں آج تو تم مجھے بتا ہی دو رات کو نشہ کر کے سوتے ہو کیا جو تم سے صبح اٹھا نہیں جاتا ؟؟…!!” ایک ہاتھ کمر پر جماۓ لڑاکا عورتوں کی طرح وہ بیچارے نیند سے بے حال ہوتے حارث پر برس رہی تھی “پاگل ہو گئی ہو ؟ میں کیوں کرنے لگا نشہ ؟…!!” اس نے بیڈ سے کھڑے ہوتے ہوئے ناراضگی سے کہا ساتھ ہی کوفت سے اپنی بھیگی ٹی شرٹ کو دیکھا “اور آخری دفعہ کہ رہا ہوں میں تمہیں ..آئندہ تم مجھے ایسے نہیں اٹھاؤ گی …خدا کا خوف کرو یار سادہ پانی پھینکو سمجھ آتا ہے لیکن یہ تم آئس کیوبز کیوں ڈالتی ہو پانی میں ؟؟ اتنی زور سے لگتی ہیں …دیکھو ذرا پورا چہرہ لال ہو گیا میرا ..!!” حارث نے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا “میرے اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی تمہیں شرم نہیں آتی حارث ..روز تمہاری وجہ سے مجھے دیر ہو جاتی ہے ..آخر کو کب بنو گے تم انسان ؟” مناہل نے بلینکٹ سمیٹتے ہوئے کہا انداز میں ناراضگی کا عنصر صاف جھلک رہا تھا “یار میں بہت کوشش کرتا ہوں جلدی اٹھنے کی لیکن رات کو تم مجھے سونے ہی نہیں دیتی ..اسی لئے پھر صبح میری آنکھ بھی نہیں کھلتی …!!” وارڈ روب میں سے اپنی شرٹ نکال کر مناہل کی طرف اچھالتے ہوئے اس نے ہاتھ سے پریس کرنے کا اشارہ کیا تھا “ ہاہ …میں کوئی ظالم بوس ہوں کیا جو تم سے اوور ٹائم لگواتی ہوں ؟..اور کام کی زیادتی کی وجہ سے تمہیں نیند نہیں آتی …؟” مناہل نے اپنے چہرے پر سے شرٹ ہٹا کر طنزیہ انداز میں پوچھا اور رات کو میں نے بلیک والی شرٹ پریس کی تھی نہ تمہاری ..اب پھر سے کیوں کروا رہے ہو ؟؟ …!!” “کیوں کے مجھے یہ والی پہننا ہے پلیز اسے پریس کردو ..اور رہی نیند والی بات تو تمہیں پتا ہے جب ہم رات کو کوئی ہارر مووی دیکھتے ہیں تو ساری رات نیند نہیں آتی خواب میں چڑیل اور بھوت ناچتے رہتے ہیں …!!” “تو تم رات کو ڈر کے مارے سو نہیں پاتے ہارر مووی دیکھنے کی وجہ سے ؟؟…!”استری اسٹینڈ کے پاس آتے ہوئے اس نے تعجب سے پوچھا “نہیں یار میں کہاں دیکھتا ہوں ہارر موویز …وہ تو میں تمہیں ایگزامپل دے رہا تھا …!!” “لیکن تھوڑی دیر پہلے تم کہ رہے تھے کے تمہیں میری وجہ سے نیند نہیں آتی اور اب کچھ اور کہ رہے ہو …!! ایک منٹ رکو ذرا ….تم ..تم مجھے چڑیل کہ رہے ہو ؟؟…!!” شرٹ کو چھوڑے اس نے انگلی سے خود کی طرف اشارہ کر کے حیرت سے پوچھا حارث نے بے ساختہ اپنی مسکراہٹ دبائی تھی “دیر سے ہی سہی لیکن سمجھ گئی ہو ….!!” الماری سے ٹیک لگاۓ دونوں بازوں سینے پر باندھے وہ سکون سے اس کے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھ رہا تھا “تم …عزت راس ہی نہیں تمہیں …پکڑو اسے اور خود پریس کرلو ..آئندہ اگر مجھے کوئی کام کہا نہ تم نے تو دیکھنا پھر کیا کروں گی میں …!!” غصّے سے شرٹ اس کے چہرے پر پھینک کر وہ پیر پٹختی وہاں سے جانے لگی تھی حارث نے سرعت سے اس کا بازو پکڑ کر روکا تھا “چھوڑو میرا ہاتھ …!!” اس نے غصیلے انداز میں کہا “ایک تو تم ناراض بہت جلدی ہو جاتی ہو یار …اور ویسے برا تو اس بے چاری چڑیل کو لگنا چاہیے جس سے میں نے تمہیں ملایا ہے …!!” “حارث …!!” مناہل نے دانت کچکچاۓ … “یہ صرف میں ہوں جو تمہیں برداشت کر لیتی ہوں اگر کوئی اور لڑکی ہوتی نہ تو …منہ پر مار کے جاتی تمہارے انگوٹھی …!!” مناہل نے اسے گھورتے ہوئے کہا تھا حارث نے جھٹکے سے اسے خود سے قریب کیا تھا “تمہاری جگہ کسی اور لڑکی کو میں سوچنا بھی گناہ سمجھتا ہوں مناہل …میرے دل کی دنیا اگر کوئی آباد کر سکتا ہے تو ..وہ صرف تم ہو …تمہارے علاوہ کوئی اور نہیں …!!!” گھمبیر لہجے میں کہتے اس کے انداز میں ایسا کچھ تھا مناہل کی پلکیں رخساروں پر سایہ فگن ہو گئی کانپتے ہاتھوں سے اس نے حارث کو پیچھے کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس اونچے پورے مرد کو پیچھے کرنا اس نازک سی گڑیا کے بس کی بات نہ تھی دل کر رہا تھا اس کی بے باک نظروں سے خود کو بچا کر کہیں بھاگ جاۓ لیکن اس کے دونوں بازوں حارث کی گرفت میں تھے … اس نے پھونک مار کر مناہل کے چہرے پر آنے والی گستاخ لٹھوں کو پیچھے کیا تھا اس سے پہلے کے وہ کچھ کہتا دھڑ سے دروازہ کھولتا کوئی اندر آیا تھا “بس …موقع ملنا چاہیے تم دونوں کو تو …یہ کوئی وقت ہے ؟ دیر نہیں ہو رہی تم دونوں کو جامعہ کے لئے ؟ حد ہوتی ہے کسی چیز کی آٹھ بج رہے ہیں اور تم ..تم تیار ہی نہیں ہوئے ابھی تک …اور مناہل چلو جاؤ تم کچن میں …” ماہین نے کڑے انداز میں ان دونوں کو سنائی تھی ہڑبڑا کر وہ دونوں ہی ہوش میں آۓ تھے میں …میں آ ہی رہی تھی بھابھی ..” گھبراہٹ پر قابو پاتی وہ جلدی سے وہاں سے بھاگی تھی کیا یار بھابھی …سارے رومانٹک موڈ کا کباڑا کر دیا آپ نے …!” بالوں میں ہاتھ پھیرتے اس نے مصنوئی ناراضگی سے کہا “بہت ہی بے شرم ہو گئے ہو تم تو.. حارث …تمہارے بھائی کو شکایت کرنی ہی پڑے گی تمہاری کے حارث صاحب سے صبر نہیں ہوتا اس کی شادی کا سوچیں کچھ ..” ماہین کے طنزیہ انداز میں کہنے پر اس نے دانت نکوسے تھے “میں تو کہتا ہوں کر ہی لیں ..بلکے بھائی کے ساتھ ساتھ امی ابو سے بھی کر لیں اور ساتھ میں چاچو اور چاچی سے بھی کر لیں ..سوچیں زرا کتنا مزہ آۓ گا میری شادی میں اور سب سے بڑی بات آپ کو دیورانی مل جاۓ گی اور مجھے بیوی ..کیسا ؟؟؟…!!” اس نے ماہین کے کندھے پر کہنی ٹکاتے ہوئے آنکھ میچ کر کہا “ابھی تمہاری منگنی کو ہوئے مہینہ بھی نہیں ہوا اور ابھی سے شادی کی پڑ گئی ؟ صبر کے ساتھ انتظار کرو شادی تو تمہاری اگلے سال ہی ہوگی …اور مناہل کو تنگ مت کیا کرو زیادہ …سکون سے پڑھنے دو اسے …!!” ماہین نے اس کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا “مطلب آپ بات نہیں کریں گی شادی کی ؟” حارث نے نروٹھے انداز میں پوچھا “بلکل کروں گی ..لیکن پہلے تم دونوں ڈگری تو لے لو ..پڑھائی ختم ہو جاۓ اس کے بعد …” “ڈگری تو دو ملنے میں تو بس دوچار مہینے ہیں مطلب ..میری شادی بھی دوچار مہینے میں ؟؟” حارث نے جوش اور خوشی کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ کہا “او بھابھی آپ گریٹ ہیں یار …” اس نے ماہین کو شانو سے پکڑ کر گھوما ڈالا تھا .. “اف حارث …چھوڑو مجھے چکر آرہے ہیں ..” “ماہین نے اس کے کندھے پر چپت لگائی تھی “پاگل ہو تم پورے ..!!” اس کے گھور کر کہنے پر اس کی بانچھیں کان تک پھیلی تھی “پہلے نہیں تھا .ہاں لیکن اب ہو گیا ہوں …!!” “جانتی ہوں میں ..جلدی سے نیچے آجاؤ ناشتے کے لئے ..!!” ماہین اسے تاکید کرتی چلی گئی تھی وہ بھی بالوں میں ہاتھ پھیرتا مسکراتے ہوئےشاور لینے چلا گیا ….
“پوری جامعہ میں صرف ایک سر وہاج ہی ہیں کے جن کا لیکچر آرام سے سمجھ آ جاتا ہے اور اسے بار بات اسٹڈی کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ..!!” دھوپ کے باعث آنکھوں پر ہاتھوں کا چھجا سا بناتے ہوئے اس نے سوفٹ ڈرنک کے گھونٹ بھرتے ہوئے مناہل سے کہا تھا جو تھوڑی دیر پہلے فوٹو کاپی کرواۓ گئے نوٹس کو فائل میں ترتیب سے لگا رہی تھی ا”اچھا جی ..اور پروفیسر ارمان کے بارے میں کیا خیال ہے جناب کا ؟…!!” اس نے مسکراتے ہوئے چھیڑنے والے انداز میں پوچھا “پہلی بات تو یہ کے اس کا اور میرا ڈیپارٹ مختلف ہے لیکن اگر وہ میرا ٹیچر ہوتا بھی تو ..مجھے کہنے کی ضرورت تو نہیں کے وہ میرے فیوریٹ پروفیسرز میں ٹاپ اوف دا لسٹ ہوتا ..!!” شانے اچکا کر کہتے ہوئے اس نے چلنے کا اشارہ کیا تھا احمد کے ذکر پر اس کی سبز آنکھوں کی چمک اور ہونٹوں پر مہکتی نرم سی مسکراہٹ سےاس کے دل میں موجود احمد کی محبّت کے لئے مناہل کو اندازہ لگانا مشکل تھا اس نے دل سے اپنی پیاری دوست کی خوشیوں کی دعا کی تھی “کیا خیال ہے یونی کے بعد لائبہ کی طرف چلیں ؟” خالی کین اس نے ڈسٹ بن میں اچھالتے ہوئے مناہل سے پوچھا “ہاں یار ..ویسے بھی تو کتنے دن ہو گئے ببل سے ملے ہوئے ..!” “ٹھیک ہے پھر لاسٹ پیریڈ بنک کرتے ہیں ..اور ہاں اسے بتائیں گے نہیں سرپرائز دیں گے ..! اس نے کھڑے کھڑے پلین ترتیب دیتے ہوئے کہا جبھی اس کی نظر سامنے گراؤنڈ میں درخت کے نیچے بیٹھے اس وجود پر پڑی تھی جو ہڈ والی جیکٹ پہنے ہڈ سر پر گراۓ موبائل میں تقریباً گھسا ہوا تھا ان دونوں نے ایک دوسروں کو دیکھا اور پھر اس کے پاس پہنچیں تھیں اس نے چونک کر موبائل پر سے سر اٹھا کر دیکھا جہاں وہ دونوں اس کے سامنے بیٹھیں عجیب نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی “کیا ہوا بھابھیوں ؟ ایسے کیوں دیکھ رہی ہو ؟ کھاؤ گی کیا مجھے ؟ ہیں ناشتہ نہیں کیا ؟..!!” کانوں میں سے ہینڈز فری کھینچ کر اتارتے ہوئے اس نے مشکوک انداز میں پوچھا “کیا یہ تمہاری کلاس کا وقت نہیں ؟ پڑھنے کا دل نہیں تو پھر یونی کیوں آتے ہو ؟ جب دیکھو بھاگ بھاگ کر ہمارے ڈیپارٹمنٹ پہنچ جاتے ہو ..!!” مناہل نے اس کے سر پر کتاب مارنے کے بعد کہا “سوری ؟ کس کا ڈیپارٹمنٹ ؟ ہمارا ؟ ..کیوں بھئی حارث صاحب نے یہ ڈیپارٹمنٹ خرید کر تمہارے نام کر دیا ہے کیا ؟ ہنہ ہمارا ڈیپارٹمنٹ ..!!” حیدر نے اس کی نقل اتارتے ہوئے سر جھٹکا تھا “اف بندر ..جتنا پوچھا جاۓ صرف اتنا جواب دیا کرو ..کلاس کیوں بنک کی فضول میں ؟؟..!” اب کی دفعہ زرنور نے زور سے بھاری کتاب اس کے کندھے پر ماری تھی “یار کوئی کلاس بنک نہیں کی میں نے ..وہ تو تمہارے جلاد شوہر نے نکال دیا مجھے کلاس سے ..اور پلیز اس کتاب کو ہتھیار سمجھ کر اٹیک نہ کیا کرو مجھ پر ..!!” کندھا سہلاتے ہوئے اس نے ناراضگی سے کہا “احمد نے تمہیں کلاس سے نکل دیا ؟ لیکن کیوں ؟۔..!!” ان دونوں نے ہی حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا جو بیگ میں نہ جانے کیا تلاش کر رہا تھا “اسے میری شکل دیکھ کر ہنسی آ جاتی ہے ..اس لئے نکال دیا ..!!” بیگ میں سے چپس کا پیکٹ نکالتے ہوئے اس نے خفا انداز میں کہا “اب تم دونوں ہی بتاؤ وہ مجھے ایسے ہی کلاس سے باہر نکالتا رہا تو بتاؤ میں کیسے پڑھوں گا ؟ سیمسٹر کی تیاری کیسے کروں گا ؟ اگر میں فیل ہو گیا تو میرے ماں باپ نکال دیں گے مجھے گھر سے …!!” لہجے کو غمگین بناتے ہوئے اس نے خاصے جذباتی انداز میں کہا جیسے حیدر سے زیادہ تو کوئی کتابی کیڑا ہو ہی نہیں سکتا “رہنے دو بھائی ..جیسے کے ہم جانتے ہی نہیں کے کتنے پڑھاکو ہو تم ..!!” زرنور لاپروائی سے کہتے ہوئے اپنا میسنجر چیک کرنے لگی تھی لیکن حیدر کی دل خراش چیخ پر وہ دونوں ہی اپنی جگہ پر ڈر سے اچھل پڑی تھی آس پاس سے گزرتے سٹوڈنٹس بھی اس کی چیخ سن کر بوکھلا کر رک گئے تھے کے بھلا ایسی کون سی چیز ہے جس نے یونی کے شیطان کو چیخنے چلانے پر مجبور کر دیا ہے “پاگل ہو گئے ہو حیدر ؟؟ بھوت دیکھ لیا ؟ کیوں ایسے چیخ ماری تم نے ؟؟؟..!!” ان دونوں نے دہل کر پوچھا ” نور بانو ..میں جان دے دوں گا اپنی اگر مجھے دوبارہ بھائی کہا تو ..!!” انگلی اٹھا کر اس نے وارننگ دینے والے انداز میں شدت جذبات سے کہا تھا ان سب نے ایک لمحے کو رک کر اس کی بات کو سمجھا تھا اور جب سمجھ آ گئی تو رکنے والے سٹوڈنٹس تو برا بھلا کہتے پھر سے اپنے کاموں میں لگ گئے تھے مناہل بھی اس کو گھورتی پاس بیٹھی فریال کی طرف متوجہ ہو چکی تھی جو اس نوٹس کے بارے میں کچھ پوچھ رہی تھی “اور میں تمہاری جان لے لوں گی اگر تم نے دوبارہ مجھے نو بانو کہا تو …زر نور ہے میرا نام زر نور ..بٹھالو اپنے دماغ میں ..!!” غصے سے اسے گھورتے ہوئے زرنور نے کتاب بیگ جو بھی ہاتھ لگا اس پر تابڑ توڑ حملے کر دئے “اے نور بانو …ہٹو …ہٹو یار کیا کر رہی ہو ؟ مر جاؤں گا میں ..کیسے زندہ رہو گی میرے بغیر ؟؟ میں جانتا ہوں بہت محبّت کرتی ہو تم مجھ سے …لیکن دیکھو ایسے اظہار نہیں کرتے ..میں تمہیں بتاتا ہوں ..آہ ہ ..رکو تو صحیح ..!!” مار کھاتے ہوئے بھی اس کے ڈرامے ختم نہیں ہو رہے تھے “دیکھو ذرا اس ظالم نے ان معصوموں کو بھی نکال دیا ..میں یہ ظلم برداشت نہیں کروں گا ..احتجاج کروں گا میں ہاں ..خاموش نہیں بیٹھوں گا …یہ مت سمجھ ..آہ ہ ..!!” اس کی فراٹے بھرتی زبان کو مناہل کے زور دار تھپڑ نے روکا تھا جو اس کے کندھے پر لگا تھا “آہستہ بولو ..لاؤڈ سپیکر فٹ کیا ہوا ہے حلق میں ؟؟..!!” مناہل کے غصے سے کہنے پر وہ کندھا سہلاتے ہوئے کینہ طوز نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا ” میں جانتا ہوں مناہل تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن اب حارث سے تمہاری منگنی ہو چکی ہے تو پلیز ..اس بات کا غصہ مجھ پر مت اتارو ..اب کچھ نہیں ہو سکتا ..بہتر یہی ہوگا کے مجھے بھول جاؤ …!!” حیدر کے اس سنجیدہ اور کسی حد تک غیر سنجیدہ انداز پر مناہل کا دل کیا تھا کے بال نوچ لے ..لیکن اپنے نہیں ..جی ہاں اسی شیطان پلس بندر پلس حیدر کے .. حیدر کو جہنم میں بھیج کر زرنور مڑ کر ان دونوں کو دیکھنے لگی جو کسی بات پر ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوۓ بے تحاشا ہنس رہے تھے ساتھ ہی تیمور نے خود کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک چپت اویس کے لگاتے ہوئے ٹشو میں لپٹا چکن رول اس سے جھپٹ لیا تھا احتجاج کرنے پر مزید ایک اور تھپڑ اسے نوازا تھا ..چہ چہ بے چارا ..رول پر فاتحہ پڑھتے ہوۓ وہ تو بھاگ لیا تھا جب کے ان دونوں کو حیدر نے آواز دے کر وہیں بلا لیا .. “کیوں بھائی لوگ ..تمہیں کس جرم میں کلاس بدر کیا سلطان نے ؟؟..!!” حیدر نے تیمور کے ہاتھ سے ادھ کھایا رول جھپٹتے ہوئے پوچھا اس کی حرکت پر زرنور اور مناہل کو اپنا شک یقین میں بدلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا کے ہو نہ ہو اب سب کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا ..”بھوکا خاندان ” جس کی نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ اگر سالم آدمی بھی نگل جاۓ تو ان کے پیٹ “اور دو اور دو ” کے نعریں مارتے رہیں .. “یار ہمارا جرم بھی تیرے سے مختلف نہیں تھا ..حلانکے ہمارے چہروں پر کوئی لطیفے تو لکھے نہیں جو اسے ہنسی آ جاتی ہے ..زیادہ نہیں بس دو چار ہی اشارے کیے تھے ..بس اسی پر ہمیں دفع ہو جانے کے لئے کہ دیا ..سو ہم بھی مزید عزت افزائی سے بچنے کے لئے نکل آۓ ..لو جی اسے بھی کک آوٹ کر دیا ..!!” ریاض نے تفصیل سے کہتے ہوئے ان کی توجہ حارث کی طرف مبزول کروائی تھی جوٹہلتا ٹہلتا ان کی طرف ہی آ رہا تھا “کیوں بھائی .تجھے کون سے لطیفے سنانے کی پاداش میں نکالا گیا ؟” “ابے نکالنے کو چھوڑ ..مجھے تو اندر ہی نہیں آنے دیا اس نے ..کلاس میں پہنچتے ہی دروازے سے ہی بہانے سے لائبریری بھیج دیا کتابیں لینے ..مجھے پتا تھا صرف مجھے وہاں سے بھگانے کے لئے کہا ہے ..اس لیے میں ادھر آ گیا ..!!” حارث کے کندھے اچکا کر ہنستے ہوئے کہنے پر حیدر نے ایک جتاتی ہوئی نظر زرنور پر ڈالی تھی “مجھے کیوں گھور رہے ہو ایسے ؟ کیا میں نے بولا ہے اسے کے ان بندروں کو مت آنے دیا کرو کلاس میں ..؟؟” زرنور کے پھاڑ کھانے والے انداز میں کہنے پر مناہل کے علاوہ ان چاروں نے بوکھلا کر اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی تھی “آہستہ یار ..بہرا کرو گی کیا جامعہ کو ؟؟” ریاض کی جھنجھناتے اعصاب ٹھکانے لگاتے ہوئے متفکر آواز .. “یار سچ بتاؤ یہ آواز تمہارے اندر سے ہی نکلی تھی کیا ؟” تیمور کا حیرت بھرا انداز “بیچارہ احمد ..چہ چہ ساری زندگی بنا کانوں کے گزارے گا اپنی اس سے شادی کے بعد ..” دوست پلس محبوبہ کی فکر میں کہا گیا حارث کا جملہ .. “ابھی تم مجھ سے پوچھ رہی تھی نہ کے میں نے حلق میں سپیکر فٹ کروایا ہوا ہے ؟ تو اس کا جواب ہے “ہاں ” ..ہاں میں نے اس (نور کی طرف اشارہ کر کے )دکان سے خریدا تھا وہ سپیکر ..!!” حیدر نے کہا تو مناہل سے کہا تھا لیکن بھڑک وہ گئی تھی “کیا ؟؟ کیا کہا تم نے مجھے ؟؟ دکان ؟؟ اتنی ہمّت تمہاری ..تم نے مجھے دکان کہا ؟؟” زرنور کی آواز اتنی بلند ضرور تھی کے وہ لوگ اس دفعہ کانوں میں انگلیاں ٹھونسنے کے بجاۓ سختی سے ہاتھ جمانے پر مجبور ہو گئے تھے .. ذرا سی آواز بھی کان کے پردے پر لگ جانے پر بہرے ہو جانے کا خدشہ تھا .. “تمہیں نہیں کہا ..میں نے خود کو بولا ہے خود کو ..!!” دونوں ہاتھ سینے پر رکھے ساری ذمہ داری خود پر لیتے ہوئے صرف زرنور کو ٹھنڈا کرنے کے لئے کہا تھا جس نےایک سلگتی نظر اس پر ڈال کر نخوت سے سر جھٹکا تھا “تم لوگ کلاس تو لے نہیں رہے ..تو پھر سیمسٹر کی تیاری کیسے کرو گے ؟ پڑھو گے کیسے ؟..!” مناہل نے بات کا رخ بدلتے ہوئے کہا کہیں پھر کوئی طوفان نہ اٹھ کھڑا ہو .. “دو گھنٹے کی ایکسٹرا کلاس ہوگی پروفیسر کے گھر پر ..!!” ریاض نے پیر سیدھے کرتے ہوئے اسے بتایا تھا “مطلب تم بے چارے یونی کے بعد بھی پیریڈز بھگتاؤ گے ؟..!!” “کیا ہو گیا مناہل ؟ ان کی شکلیں ہیں کیا پڑھنے والی ؟ تمہیں لگتا ہے یہ کمبائین اسٹڈی کریں گے ؟ مستی مذاق اور ہلڑ بازی کے علاوہ ان کو کچھ آتا ہی کہا ہیں ؟.!!” زرنور کی بات پر بجاۓ برا ماننے کے اور شکایات کرنے کے ان چاروں نے ہی توصیفی انداز میں اسے دیکھا “واہ کیا کہنے ..مطلب کیا ہی کہنے ..کتنی باریک بینی سے ہمارا جائزہ لیا ہے …اب لگ رہا ہے کےتم کسی پروفیسر کی بیوی ہو ..!!” تیمور نے خاصے ستا ئشی انداز میں کہا تھا ..بس تالیاں بجانے کی کسر ہی رہ گئی تھی “ڈھیٹ پنے میں تو کوئی ثانی ہی نہیں تم لوگوں کا ..!!” زرنور نے پھر انھیں شرمندہ کرنا چاہا تھا لیکن بھول رہی تھی کے وہ بھی اپنے نام کے ہی ہیں
“جی بلکل ..ہمارے جیسے بس ہم ایک ہی اورجنل پیس ہیں اس دنیا میں ..چراغ لے کر بھی ڈھونڈو گی تو نہیں ملیں گے ہم جیسے …!!” حیدر کے کالر کھڑا کرنے پر ان تینوں نے داد دینے والے انداز میں اس کا کندھا تھپکا تھا زرنور نے نظر انداز کرنا ہی بہتر جانا “چلو مناہل ..کہیں ان فارغ لوگوں کے پاس بیٹھ کر ہم بھی ان کے جیسے نہ ہو جائیں ..!!”.فائل اور بیگ اٹھا کر وہ کھڑی ہو گئی تھی “بہت مبارک ہو ..شہزادی نور بانو نے ایک نۓ ٹیگ سے نوازا ہے ہمیں ..!!” حیدر نے خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے مصافحہ کے لئے ریاض کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا جس نے اس سے بھی زیادہ خوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گرم جوشی سے ہاتھ ملا کر جواب میں اسے بھی مبارک باد دی تھی اتنی آگ اسے ان دونوں کے ڈرامے سے نہیں لگی تھی جتنی حارث اور تیمور کے قہقوں سے لگی تھی اس سے پہلے کے وہ کچھ سست سناتی مناہل اس کا بازو پکڑ کر زبردستی وہاں سے نکال لے گئی تھی پیچھے ان شیطانوں کے قہقے پوری جامعہ میں گونج رہے تھے ..
لان کی سیڑھیوں پر بیٹھی چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں گراۓ وہ گردن موڑے آم کے گھنے درخت پر چہچاتی چڑیوں کو دیکھ رہی تھی لیکن جانے کیوں آج ان چڑیوں کا گیت بھی اداس لگ رہا تھا اور آج تو اس کا ہرا بھرا پھولوں کی خوشبوؤں سے مہکتا لان بھی ویران سا تھا پہلے تو وہ یہاں قدم رکھتے ہی فریش اور ہلکی پھلکی ہو جاتی تھی لیکن پچھلے کچھ دنوں سے ہر چیز ہی سو گوار لگ رہی تھی جب دل کی دنیا ہی اداس ہو تو آنکھوں کو کچھ بھلا نہیں لگتا چاہے وہ دنیا کی کتنی ہی خوبصورت چیز کیوں نہ ہو اس گھر کی دہلیز کو اگر کوئی پار کر سکتا تھا تو وس بس اس کے مرحوم باپ کی بہن اور اس کا بیٹا تھا جسے ہمیشہ سے انوشے کا منگیتر بتایا گیا تھا لیکن انوشے کے دل میں اس کے حوالے سے کسی بھی قسم کے کوئی جذبات نہیں تھے اپنا رشتہ جاننے کے باوجود بھی اس نے ابرار کو کسی خاص نظر ئیے سے نہیں سوچا تھا لیکن تیمور ولید اس کی زندگی میں آنے والا وہ پہلا مرد تھا جس کو وہ چاہ کر بھی اپنے ذہن و دل سے نہ نکال سکی تھی اسے خبر ہی نہ ہو سکی تھی کے کب اس نے اپنے دل کا تخت و تاج اس کے حوالے کر دیا مردانہ وجاہت کا شاہکار وہ وجہہ مرد تھا نظر انداز کئے جانے کے تو قابل ہی نہیں تھا اب اگر اس کا دل تیمور کی محبّت میں گرفتار ہو بھی چکا تھا تو یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی لیکن انوشے کو لگتا تھا جیسے اس سے کوئی جرم سر زد ہو گیا ہو اور جو کچھ اس نے تیمور کے ساتھ کیا تھا وہ تو خود کو اس سے نظریں ملانے کے قابل بھی نہیں سمجھتی تھی وہ اپنی ہی سوچوں میں گم بیٹھی تھی جبھی دروازے پر ہونے والی دستک نے چونکا دیا تھا گہری سانس لیتی دوپٹہ ٹھیک کرتی ہوئی وہ دروازے کے پاس آئی تھی اور بغیر پوچھے دروازہ کھول دیا پوچھ کر کرنا بھی کیا تھا ؟ پھوپو کے علاوہ کوئی ہے کیا جو اس گھر میں قدم رکھے ؟؟” بس یہی سوچتے ہوئے اس نے دروازہ وا کر دیا لیکن سامنے موجود شخصیت کو دیکھ کر یقین کرنے میں اسے کافی ٹائم لگا تھا …. ” السلام عليكم انوشے ..کیسی ہیں آپ ؟ اور یہ پتھر کیوں بن گئی ہیں مجھے دیکھ کر ؟ میں کوئی تیمور تھوڑی ہوں …اور راستہ تو دیں یار ..آپ تو جم کر ہی کھڑی ہو گئی ہیں …!!” نان اسٹاپ بولتے ہوئے وہ بت بنی انوشے کو سائیڈ پر کرتا خود ہی اندر آ گیا تھا وہ تو ہڑبڑا کر ہوش میں آئی تھی دوسرے ہی لمحے وہ اس کی جانب پلٹی ” حیدر …تم یہاں کہاں سے آ گئے ؟ ایڈریس کیسے ملا تمہیں ؟ اور تمہیں بتایا کس نے کے میں یہاں رہتی ہوں ؟؟.!!” حیرت بھرے انداز میں کہتے ہوئے اس نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی تھی ” افوہ …صبر تو کریں سب کچھ ایک ساتھ یہی کھڑا کر کے پوچھ لیں گی کیا ؟..!!!” “اوہ …تم آؤ نہ اندر..! “ اسے احساس ہوا تو جلدی سے بولی “شکر آپ کو خیال تو آیا …” وہ کہتے ہوئے اس کے پیچھے ہی ڈرائنگ روم میں آیا تھا گھر کافی بڑا تھا اور نہایت ہی خوبصورتی سے سیٹ کیا گیا تھا حیدر ستائش سے ڈرائنگ روم میں لگے ڈیکوریشن شوپیز اور د دیوار پر لگی پینٹنگز دیکھ رہا تھا جس کا اس نے اظھار بھی کر دیا تھا ” کافی اچھا ڈیکوریٹ کیا ہوا ہے آپ نے گھر کو “ ..”سارا دن فارغ ہی تو رہتی ہوں میں گھر میں اسی لئے کچھ نہ کچھ کرتی ہی رہتی ہوں …تم بتاؤ کیسے ملا ایڈریس ؟؟” انوشے نے سنگل صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا ” ایڈریس تو تیمور سے ہی لیا ہے لیکن آپ یہ بتایے ..یونی کیوں نہیں آ رہی ہیں ؟ سمسٹر سٹارٹ ہونے والا ہے تیاری نہیں کرنی آپ نے ؟” “میں گھر پر ہی تیاری کروں گی حیدر ..یونی جانے کا اب دل ہی نہیں کرتا اس نے اپنی گود میں دھرے دودھیا ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے کہا ” “دیکھیں انوشے ہر کسی سے زیادہ اہم آپ کے لئے آپ کی پڑھائی ہے اگر آپ اس “گھامڑ ” کے پیچھے اپنی پڑھائی کا نقصان کریں گی تو سوری ٹو سے لیکن میں یہ نہیں کرنے دوں گا آپ کو ..تیمور کی طرف سے آپ مطمئن ہو جا ئیں ..وہ آپ کو تنگ نہیں کرے گا ..” حیدر نے بغور اس کے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھتے ہوئے کہا تھا “نہیں حیدر …ایسی تو کوئی بات نہیں ہے “وہ جلدی سے بولی تھی ” بھلے سے جو کوئی بھی بات ہو لیکن آپ مجھ سے وعدہ کریں …آپ کل سے یونی دوبارہ سے جوائن کریں گی …کریں گی نہ ؟…!!” “لیکن حیدر ..” اس نے ہچکچاتے ہوئے کچھ کہنا چاہا تھا “ “لیکن ویکن کچھ نہیں …بس ہاں یا نا میں جواب دیں مجھے …کل آئیں گی آپ یونی ؟” وہ ٹھوس انداز میں بولا ” حیدر میں …نہیں آ سکتی ..” انوشے نے بے بسی سے کہا تھا ” ٹھیک ہے پھر …جا رہا ہوں میں خدا حافظ …” ناراضگی سے کہتے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا ” حیدر ..حیدر میری بات تو سنو “وہ اس کے اچانک سے کھڑے ہو جانے پر بوکھلا گئی تھی ” اچھا ٹھیک ہے …میں کل آوں گی یونی ..اب خوش ؟” انوشے نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا تھا ” روزانہ ؟؟ ” حیدر نے پوچھا ” ہاں روزانہ ..” اس نے بھی حامی بھر لی تھی ” بہت ضدی ہو تم ..اچھا بتاؤ کچھ کھاؤ گے ؟” اس نے آداب میزبانی نبھاتے ہوئے پوچھا تھا “بلکل کھاؤں گا ..جو کچھ بھی ہے اس وقت آپ کے کچن میں سب لے آئیے ..کیوں میں نے لنچ نہیں کیا یونی سے سیدھا یہیں آیا ہوں ” سینٹر ٹیبل پر پڑا ٹی وی کا ریموٹ اٹھا کر وہ وہیں صوفے پر نیم دراز ہو گیا تھا ” ٹھیک ہے لاتی ہوں …” وہ مسکراکر کہتے ہوئے کچن میں چلی گئی تھی اس کے جاتے ہی حیدر نے موبائل نکال کو تیمور کو “بھابھی مان گئی ” کا میسج کیا تھا
ابھی سورج پوری طرح سے ڈھلا نہیں تھا پرندے فضاؤں میں اڑتے ابھی بھی رزق کی تلاش میں سرگرداں تھے اکا دکا لوگوں کے علاوہ ساحل سمندر ویران سا تھا ایک پر اسرار سا سکون تھا جو وہاں محسوس ہو رہا تھا صرف ساحل پر لہروں کے سر پٹخنے کا شور تھا جو کانوں کو بھلا معلوم ہوتا تھا کھلی ہوا میں مکئی بھوننے کی خوشبو جب نتھنوں سے ٹکراتی تھی تو ایک سر مستی سے پورے بدن میں دوڑتی محسوس ہوتی تھی وہ پوری طرح سے منظر کے سحر میں کھوئی ہوئی تھی جب احمد نے اس کے کندھے کے گرد بازو پھیلا کر اپنے حصار میں لیا تھا لمحے کو وہ چونکی تھی ایک سحر سا تھا جو ٹوٹا تھا گہری سانس لے کر اس نے اپنا سر احمد کے کندھے پر رکھا تھا “تمہیں پتا ہے احمد ..میں ہزاروں دفعہ پہلے بھی یہاں آ چکی ہوں لیکن پہلے کبھی اتنا سکون محسوس نہیں ہوا ..کبھی ایسی فیلنگز نہیں ہوئی !!” دور لہروں کو دیکھتے ہوئے وہ اتنے دھیمے انداز میں بولی تھی کے احمد کو با مشکل ہی سنائی دیا تھا “وہ اس لئے میری جان کے ..اس دفعہ میں تمہارے ساتھ ہوں نہ ..!!” اس نے “میں” پر زور دیتے ہوئے جتا کر کہا تھا ” بس سارا کریڈٹ خود ہی لے جایا کرو …اب ایسا بھی تو ہو سکتا ہے نہ کے پچھلی دفعہ کے مقابلے میں آج میرا موڈ اچھا ہو ..!!” ہوا سے اڑتے بالوں کو ایک ادا سے جھٹکتے ہوئے اس نے ناز سے کہا تھا “ہمم ..اور موڈ اس لئے اچھا ہے تمہارا کیوں کے میں تمہارے ساتھ ہوں ..!!” اس کے شرارت سے کہنے پر زرنور نے مصنوئی خفگی سے اسے کہنی ماری تھی “اتنی خوش فہمی بھی اچھی نہیں ہوتی ..!!” اس کے ناک چڑھا کر نخوت سے کہنے پر احمد نے اس کی ننھی سی ناک دبائی تھی ” لیکن میں جانتا ہوں ..یہ خوش فہمی نہیں محترمہ کو واقعی میں میرے ساتھ ہونے پر خوشی اور سکون ملتا ہے ..!!” احمد کے چھیڑنے والے انداز پر وہ مسکرا دی تھی کتنا ہی وہ اس کے سامنے پوز کرے لیکن سچ تو یہی تھا جو وہ بیان کر رہا تھا “ہاں ملتا ہے تو پھر ؟؟!!” “تو پھر یہ کے جب مان ہی لیا ہے تو اظہار میں کیسی جھجھک ؟؟..!!” زر نور جانتی تھی وہ اس کے منہ سے کیا سننا چاہتا ہے .. اس کی گھنی پلکیں رخساروں پر سایہ فگن ہو گئی تھی ” تم جانتے ہو احمد کے ..میرے دل میں کیا ہے ..میں بار بار اظہار کرنے کی قائل نہیں ہوں ..صرف ایک ہی دفعہ کروں گی اور جب کروں گی تو ..کسی شکایت کا موقع نہیں دوں گی تمہیں ..!!” ایک احمد تھا جو اس کے چہرے سے نظریں ہٹا نہیں پاتا تھا ایک زرنور تھی جو اس سے نظریں ملا نہیں پاتی تھی اتنا خوبصورت اسے ڈوبتے سورج کا منظر نہیں لگ رہا تھا جتنا اپنے پہلو میں موجود محبوب کے چاند جیسا چمکتا مکھڑا لگ رہا تھا صرف اتنا سا ہی کہنے پر اسے اپنے دل پر ٹھنڈی پھوار برستی محسوس ہوئی تھی “اب چلیں مسٹر ..اور کتنی دیر رکنا ہے یہاں ؟چار بجے نکلے تھے ہم لائبہ کے گھر سے اور اب چھ بج رہے ہیں ..!!” اس نے اپنی کلائی میں بندھی نازک سی ریسٹ واچ احمدکی آنکھوں کے سامنے لہرائی تھی “ٹھیک ہے چلو ..!!” نہ چاہتے ہوئے بھی وہ مان گیا تھا.. جھک کر فولڈ کئے جینز کے پائینچو کو ٹھیک کر کے وہ سیدھا ہوا تھا ایک آخری نظر ڈوبتے سورج پر ڈال کر وہ اسے ساتھ لئے اپنی کار کی جانب بڑھا تھا زر نور کے بعد وہ منظر اس کا دوسرا عشق تھا ..
“اوۓ ..سنگل پسلی …ادھر لا بال اور نکل یہاں سے ..” تیمور نے رعب سے فٹبال کھیلتے فرقان کو کہا تھا جو خاصی کمزور جسامت کا دبو سا لڑکا تھا “مم ..میری بال ہے ..” اس نے بال کو مظبوطی سے پکڑ کر منمناتے ہوئے کہا “ہاں تو میں نے کب کہا کے میں اپنے گھر سے لایا ہوں ..کھیل کر واپس کر دوں گا ..چل ادھر لا “ تیمور نے کہتے ہوئے جھپٹ کر اس کے ہاتھ سے بال چھین لی تھی ” نکل اب یہاں سے …!!” اس نے چٹکی بجا کر اسے جانے کا اشارہ کیا فرقان منہ بسورتے ہوئے سائیڈ پر رکھی سنکی بینچ پر بیٹھ گیا جہاں ریاض پہلے سےدونوں پیر اوپر کر کے لیپ ٹاپ گود میں رکھ کر کانوں پر ہیڈز فون چڑھاۓ بیٹھا اسائمنٹ بنا رہا تھا اس نے سرسری سی نظر تیمور پر ڈالی تھی جس کے چہرے پر خوشی پھوٹتی صاف دکھائی دے رہی تھی پچھلے دنوں کے مقابلے میں آج اس کا موڈ خوش گوار تھا کیوں کے جس کام کے لئے اس نے حیدر کو کہا تھا وہ اس نے خوش اسلوبی سے انجام دیا تھا جب سے اس نے کام ہو جانے کا میسج کیا تھا تب سے ہی تیمور ہوا کی طرح اڑتا پھر رہا تھا انوشے سے آخری ملاقات کے بعد اسے لگا تھا کہ وہ کبھی اسے نہیں دیکھ پاۓ گا ..!! لیکن بھلا ہو حیدر کا جس نے اسے دوبارہ سے یونی جوائن کرنے پر آمادہ کر لیا تھا ابھی بھی مسرور انداز میں بال کو زمین پر مارے وہ کھیلنے میں مصروف تھا جبھی وکی ہانپتا کانپتا وہاں سے گزرتے ہوئے ان کے پاس رکا تھا “کیا ہو گیا بھائی ؟ یہ مرگی کے دورے کیوں پڑ رہے ہیں تجھے ؟…!!” ریاض نے لیپ ٹاپ بند کر کے ہیڈ فونز اتارتے ہوئے پوچھا “ “ایک بری خبر ہے میرے پاس ..تم لوگ سنو گے تو تمہارا بھی سکون غارت ہو جاۓ گا ..!!” دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھ کر جھکے اس نے پھولے سانس کے ساتھ کہا “ایسی کون سی خبر ہے جس نے تجھے ہلا کر دیا ؟؟…!!” فٹبال کے ساتھ نبردآزما تیمور نے اس کی حالت کے پیش نظر کہا “اس خبر نے مجھے تو صرف ہلایا ہے لیکن تم لوگوں کو تو چکرادے گی …!!” “او بھائی ..لمبی مت کر سیدھے بتا کیا بات ہے .؟.!!” ریاض نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا “تم لوگوں نے شاید نوٹس بورڈ نہیں دیکھا جبھی اتنے سکون سے بیٹھے ہو …جاؤ دیکھو جا کر وہاں موت کا پروانہ لگ چکا ہے … دو مہینے بعد ہونے والے فائنل سمسٹر اسی منتھ کے لاسٹ میں ہو رہے ہیں ..!!” وہ کوئی خبر تھی یا ایٹم بم تھا جو ان دونوں کے سر پر پھٹا تھا دونوں ہی اپنی جگہ پر سن رہ گئے تھے کچھ بولا ہی نہ گیا “کیوں …نکل گئی نہ ہوا ؟ ہو گئی نہ بولتی بند ؟؟ ..تم لوگ بیٹھے رہو شاک میں ..میں جا کر اوروں کو بھی یہ موت کی خبر دے آؤں …!!” وہ جیسے وہاں آیا تھا ویسے ہی بھاگ نکلا تھا فرقان پہلے ہی جا چکا تھا تیمور اور ریاض نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا “احمد کے بچے …!!!” دونوں کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا تیمور نے ہاتھ میں پکڑی فٹبال سائیڈ پر پھینک کر اور ریاض اپنا سامان سمیٹ کر غصّے میں بھرے وہاں سے پروفیسر احمد کے آفس کی جانب بڑھے تھے …