“ابے رک جا ..کہاں بھاگے جا رہا ہے ..!!” بخاری ہاؤس کے پورچ میں گاڑی رکتے ہی تیمور کو اتر تے دیکھ حارث نے اس کا بازو پکڑ کر روکا تھا .. ” اصولآ تو تجھے یہاں آنا نہیں چاہیے تھا کیوں کے نکاح کے بعد ہمارے معاشرے کے اصول کے مطابق میاں بیوی کا رخصتی تک پردہ ہوتا ہے اور اس سے پہلے ان کا ایک دوسرے کے سامنے آنا معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن اگر تو یہاں آ ہی گیا ہے تو کوئی بات نہیں لیکن یہ پھلوں کے ٹکرے اٹھا کر لے آ جب تک ہم اندر تم دونوں کے پردے کا انتظام کروا دیتے ہیں ..!!” حارث نے بیک سیٹ پر پڑے دو تین ٹوکروں کی طرف اشارہ کر کے تفصیل سے کہا تھا جس پر وہ سلگ اٹھا تھا .. ” اور کیا میں پوچھ سکتا ہوں کے احمد اور زرنور کا یہ پردہ کیوں نہیں کروایا جاتا ؟؟..!!” اس نے طنز سے پوچھا “بھائی وہ اٹلی کی پیداور ہے اس پر یہ رول لاگو نہیں ہوتا ..!!” تبھی اس کے سائیڈ سے کھڑکی پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے ریاض نے اندر جھک کر کہا تھا .. ناز اور ولید ان کے ساتھ ہی عباد بخاری کے گھر آ گئے تھے راستے سے انہوں نے پھلوں کے ٹوکرے بھی لئے تھے “اس نے ” ہنہہ” کہ کر سر جھٹکا تھا حارث اور ریاض ہنستےہوئے اندر جانے لگے تھے جب وہ پیچھے سے چلایا .. ” یار کچھ تو خیال کرو مجھے سے یہ ٹوکرے اٹھوا رہے ہو میں ایک رات کا دولہا ہوں ..!!” وہ روہانسا ہو گیا تھا ” بیٹا جی رات گئی بات گئی ..شرافت سے اٹھا کر لے آ اور دیکھ تیرا ہی فائدہ ہے انوشے بھابھی خوش ہو جائیں گی کے میرا میاں میرے لئے بنفس نفیس ٹوکرے اٹھا کر لایا ہے ..ہاؤ سوئیٹ ..!!” وہ دونوں اس کو چھیڑتے ہاتھ پر ہاتھ مارتے اندر کی جانب بڑھنے لگے تھے جبکے وہ دل میں ان کو گالیاں دیتا بھناتے ہوئے گاڑی میں سے ٹوکرے نکالنے لگا .. ریاض کے سیل پر کال آ رہی تھی حارث کو اندر جانے کا اشارہ کرتے ہوئے اس نے شرٹ کی جیب سے فون نکالا تھا گلاس ڈور کے پاس ہی کھڑے اس نے فون کان سے لگایا تھا دوسری جانب اس کی والدہ رباب تھیں وہ ان سے بات کرنے لگا جان بوجھ کر شرارت سے وہ دروازے کے بیچ و بیچ پھیل کر کھڑا تھا ایک ہاتھ بھی پھیلا رکھا تھا تاکے اسے جانے کا راستہ نہ ملے اتنے میں وہ بھی قریب آ گیا تھا دونوں بازؤں میں بھاری بھاری ٹوکرے اٹھاۓ .. ” ہٹ جا کمینے ..!!” اس نے دانت پیس کر دبی آواز میں کہا .. ” ذرا امی سے بات کر لوں پھر دونوں ساتھ چلیں گے ..!!” اس کے شرارتی انداز پر تیمور کا دل کیا تھا وہ اسی کے سر پر دے مارے .. ” پھر تقریباً پانچ منٹ تک ریاض نے اسے وہاں روکے رکھا تھا جو جلے بھنے انداز میں اسے گھور رہا تھا ریاض کا اس کی حالت پر قہقہ لگانے کا جی چاہا تھا پھر جلدی سے خدا حافظ کہ کر وہ نہایت ہی ادب سے سائیڈ پر کھڑا ہوا تھا اور جھک کر اسے جانے کا اشارہ کیا .. ” دیکھ لوں گا تجھے تو ..!!” اس کو گھورتے ہوئے وہ ٹہکا مار کے اندر بڑھا تھا جس کے نتیجے میں ریاض کا فون نیچے گرا .. ” ابے ٹکریں کیوں مار رہا ہے ؟..!!” اس نے جھک کر اپنا فون اٹھایا تھا .. اندر جانے کے لئے قدم بڑھاۓ ہی تھے کے وہیں تھم کر رہ گیا دل کی دنیا میں عجب ہی شور سا اٹھا تھا سوچا بھی نہیں تھا کے جسے رات بھر خوابوں میں دیکھتا رہا ہے سوچتا رہا ہے وہ ایسے اچانک سے نظر آ جاۓ گی گلابی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس بلوچی کڑھائی والی چادر سے خود کو ڈھانپے وہ اس کے دل میں ہی تو اترتی جا رہی تھی لمحے کے ہزارویں حصے میں وہ ہوش میں آیا تھا بغیر پلک جھپکے وہ جو سامنے اشعر اور زرنور کے ساتھ کھڑی فاریہ کو دیکھے جا رہا تھا خفیف سے ہوتے ہوئے سائیڈ سے اندر آیا تھا کیوں کے ان دونوں کا رخ بھی باہر کی طرف ہی تھا وہ دامن بچا کر گزر جانا چاہتا تھا لیکن اشعر کے آواز دینے پر ناچار رکنا پڑا وہ نہیں چاہتا تھا کے اشعر اس کی وارفتگی دیکھ لے .. ” کہاں گم ہے ہیرو ؟..!!” اشعر خوشگواری سے کہتے ہوئے اس سے گلے ملا تھا “تجھے نہیں بتا سکتا ..!!” ریاض کی زومعنی بات پر اس نے گھور کر دیکھا ” ایسی کیا بات ہے جو مجھے نہیں بتا سکتا ؟؟..!!” فاریہ ان دونوں کو باتیں کرتے دیکھ دانستہ رخ موڑ کر زرنور سے بات کرنے لگی تھی ریاض نے کن انکھیوں سے اس کا یہ گریز دیکھا تھا “یار تھوڑی پرسنل ہے سمجھا کر نہ ..!!” “ہمارے بیچ کب سے کچھ پرسنل ہونے لگ گیا ؟..!!” “جب سے تیری بہن کو دل دیا ہے ..!!” وہ دل میں بولا تھا زبان سے اگر کہتا تو اشعر سے دو جھانپڑ تو کھا ہی لیتا .. ” بعد میں بتاؤں گا نہ تفصیل سے ..!!” وہ ٹالتے ہوئے ہال میں بیٹھے ان لوگوں کے پاس آیا تھا جہاں عباد بخاری عدیل خانزادہ ولید صاحب کے ساتھ عمیر حارث تیمور اور احمد بھی بیٹھے تھے وہ بھی مشترکہ سلام کرتے نیچے فلور کشن پر احمد کے ساتھ بیٹھا تھا .. “حیدر نظر نہیں آ رہا ..!!” اس کی کمی محسوس کرتے ہوئے ریاض نے پوچھا تھا “نکلا تو ہمارے ساتھ ہی تھا ابھی تک پہنچا نہیں ؟..!!” “ایم این اے صاحب زبردستی اسے اپنے پارٹی آفس لے گئے جتنی اس کی جان جاتی ہے سیاست سے ظہور انکل اتنا ہی اس کو انوولڈ کرتے ہیں ..!!” جواب تیمور کی جانب سے آیا تھا .. “چلو اچھا ہے جتنا وہ ایم این اے کا بیٹا ہونے کا رعب جھاڑتا رہتا ہے اس کی بھرپائی بھی تو کرنی پڑے گی نہ ..؟” حارث کی بات پر وہ سب متفق تھے “فاریہ تھوڑی دیر تو رک جاؤ ..!!” زرنور اسے روکنے پر مصر تھی جب کے وہ جانے پر بضد تھی .. ” میں بعد میں آجاؤں گی زرنور ..!!” “تمہاری بعد تو جانے کب آۓ گی اشعر تم چھوڑ دو تھوڑی دیر کے لئے اسے.. یہاں تو سب موجود ہیں یہ وہاں اکیلی گھر میں کیا کرے گی ؟..!!” اسے کہنے کے بعد وہ اشعر سے بولی .. ” یار میں کہاں منع کر رہا ہوں ؟…فاری رک جاؤ اگر زرنور اتنا اصرار کر رہی ہے تو ..!!” اشعر کے کہنے پر وہ تزبزب سی ہوئی تھی ریاض کی موجودگی میں وہ وہاں رکنا نہیں چاہتی تھی جبھی تو اس کے آنے سے پہلے ہی نکل جانا چاہتی تھی ریاض ان کی جانب سے پیٹھ کئے بیٹھا تھا لیکن سامنے لگے بڑے سے آئنے میں وہ تینوں کھڑے صاف دکھائی دے رہے تھے فاریہ کا اسی کی جانب رخ تھا .. وہ گہری نظروں سے اس کے چادر سر پر اوڑھنے کی وجہ سے ادھ چھپے چہرے کا بغور جائزہ لے رہا تھا شاید پاکستان کی ہوا اسے راس آ گئی تھی پہلے سے کہیں زیادہ نکھر گئی تھی .. “ٹھیک ہے میں کچھ دیر کے لئے رک جاتی ہوں لیکن اس کے بعد آپ کو مجھے جانے کی اجازت دینا پڑے گی ..!!” وہ بولتی ہوئی اتنی معصوم سی لگتی تھی زرنور نے بے ساختہ اسے اپنے ساتھ لگایا تھا .. ” جو آپ کا حکم ..!!” اس کے شوخی سے کہنے پر وہ جھینپ گئی تھی چہرہ پہلے ہی کسی کی پر حدت نگاہوں کے لمس سے جھلس رہا تھا وہ اچھے سے جانتی تھی صرف ایک ہی شخص تھا جو سب کی موجودگی میں اتنی دیدہ دلیری سے اسے دیکھ سکتا تھا .. ” ریاض چوہدری ..مرو گے تم ..!!” دل میں بڑبڑاتی پھر وہ وہاں رکی نہیں تھی زرنور کے ساتھ فورآ اندر چلی گئی تھی سر جھکاۓ وہ مسکرا دیا تھا ..
ناز ولید کے پہلو میں بیٹھی وہ مسلسل نروس ہو رہی تھی تیمور کے والدین سے وہ پہلی دفعہ ملی تھی لیکن ایسا لگ بلکل نہیں رہا تھا دونوں ہی خاصی محبّت سے اس سے ملے تھے ناز ولید جو سارے راستے یہ سوچتی آئیں تھیں کے جانے وہ لڑکی کیسی ہوگی تیمور نے کیسے پسند کیا ہوگا ؟ انوشے کو دیکھنے کے بعد ان کے سارے خدشے آپ ہی دم توڑ گئے تھے وہ گڑیا سی نرم و نازک ڈری سہمی سی انوشے انھیں اس قدر پیاری لگی تھی کے انہوں نے بے ساختہ ہی اسے ساتھ لگاتے اس کی پیشانی چومی تھی .. ” میں جانتی تھی میرے بیٹے کی پسند معمولی ہو ہی نہیں سکتی ..مجھے افسوس ہے بیٹا آپ کی نانو کا ..لیکن کوئی بات نہیں آج سے آپ میری بیٹی ہیں اور ہمارے ساتھ ہی رہیں گی ..!!” وہ پر جوش سی ہو گئیں تھیں جب کے نانو کے زکر پر اس کی آنکھیں پھر بھل بھل بہنے لگیں تھی .. ” بیٹا کیوں آپ ایسے رو رہی ہو ؟..آج سے میں صرف تیمور کی ہی نہیں آپ کی بھی مما ہوں ..ہوں چلو اب آنسو صاف کرو ..!!” پیار سے کہتے ہوئے وہ خود ہی اس کے آنسو صاف کرنے لگیں .. ” ساری زندگی مجھے یہی قلق تھا کے میری کوئی بیٹی نہیں جس سے میں اپنے دل کی ہر بات شئیر کروں کچھ اس کی سنو کچھ اپنی سناؤ ..اور دیکھو اللہ نے میری خواہش پوری کردی تمہاری صورت میں ..!!” وہ پیار سے اس کے بھیگے چہرے کو دیکھتے ہوئے بول رہی تھی انوشے تو اپنی قسمت پر ہی حیران تھی وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کے نانو کے علاوہ بھی کوئی اس سے اتنی شفقت سے پیش آۓ گا اتنے پیار سے بات کرے گا اس کی دلجوئی کرے گا ..ناز کے گلے لگے وہ اختیار کھوتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی وہ تو پریشان ہی ہو گئیں تھیں اس کے رونے سے .. ” کوشش بے کار ہے آنٹی ..آپ تیمور کو بلائیے ..وہیں محترمہ کا رونا بند کرواۓ گا ..!!” مناہل کے شرارت سے کہنے پر اس کا چہرہ گلنار ہو گیا تھارونے کی وجہ سے آنکھوں اور ناک سے ساتھ اب چہرہ بھی لال ہو گیا تھا “کہیے تو بلا لیتی ہوں وہ تو ویسے ہی غصے میں بھرا بیٹھا ہے کے کوئی اسے اپنی بیوی سے ملنے نہیں دے رہا ..!!” لائبہ کے ہنستے ہوئے کہنے پر وہ جھینپ گئی تھی.. ناز ولید ان کی شرارت پر مسکرا دی تھیں
” ارمان ..تمہارا فون کہاں ہے ؟..!!” ان لوگوں سے باتیں کرتے ہوئے عدیل خانزادہ کے اچانک سے پوچھنے پر وہ گڑبڑایا تھا نظر سیدھی ہی تھوڑی دور ملازمہ کے ساتھ ڈائنگ ٹیبل پر کھانا لگاتی زرنور کی طرف گئی تھی جو بے ساختہ امڈتی مسکراہٹ کو چھپانے کو چہرہ جھکا گئی تھی “چارج ہو رہا ہےڈیڈ ..!!” نظریں ملاۓ بغیر اس نےنارمل سے انداز میں جھوٹ کہا تھا اب یہ تو کہ نہیں سکتا تھا کے آپ کی بہو نے چھین لیا .. ” جبھی تو میں کہوں یہ آج ہمارے ساتھ کیسے بیٹھا ہے ؟ اور اس پر یہ کے باتیں بھی کر رہا ہے ..!!” اشعر کے شرارت سے کہنے پر اس نے گھورا تھا .. ” اچھا یہ لو حیات کی دس کالز آ چکی ہہیں مجھے ,تم سے بات کرنا چاہ رہی ہے کسی فائل کا پوچھ رہی تھی ..!!!” عدیل صاحب نے اپنا فون اس کی جانب بڑھایا تھا “اوہو …حیات !!” ان سب نے آنکھیں گھماتے ہوئے ہوٹنگ کی تھی .. ” دیکھ رہی ہو زرنور ..شوہر کے بعد اب سسر صاحب کے سیل پر بھی کالز آنے لگیں ہیں حیات میڈم کی ..سنبھال لو اسے ورنہ وہ لے اڑے گی اسے اٹلی ..!!” ریاض نے گردن موڑ کر اونچی آواز میں اسے خبردار کیا تھا .. ” بھلے سے لے جاۓ ..مجھے پروا نہیں ..!!” اس کے ناک چڑھا کر کہنے پر ان سب نے بے ساختہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لئے تھے .. ” ہاہ ہ ..دیکھ احمد کیا کہ رہی ہے ..!!” “مطلب تم اجازت دے رہی ہو اسے حیات سے دوسری شادی پر ؟؟..!!” حارث ایک دم ہی پر جوش ہوا .. احمد اسے گھورتے ہوئے فون لے کر کچن کے ساتھ ہی بنی سیڑھیوں پر جا بیٹھا تھا جو ڈائنگ ٹیبل کے ٹھیک سامنے تھی دو سٹیپس چھوڑ کر بیٹھے اس نے موبل پر نمبر پریس کر کے کان سے لگایا تھا نظریں تو اسی پر جم تھی جو ملازمہ کو ہدایتیں دے رہی تھی .. ” میری بلا سے دوسری کیا تیسری اور چوتھی بھی کر لے آخر کو ان کا رائٹ ہے لیکن شادی کے بعد آپ سب ان کے مرڈر کی خبر سننے کے لئے پہلے سے تیار رہیے گا کے دوسری شادی کے فورآ بعد کسی نے سر میں ہتھوڑے مار کر قتل کر دیا …میں نہ ٹھیک کہا نہ احمد .؟؟..!!” معصومیت کے ریکارڈ توڑتے ہوۓ اس نے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے کہا تھا ان سب کے فلک شگاف قهقے پورے گھر میں گونج رہے تھے احمد خفیف سا ہوتے ہوئے فون پر میٹنگ سے مطلق اسے ہدایتیں دے رہا تھا…
“کدھر شہزادے ؟..!!” نظر بچا کر زرنور کے کمرے کی جانب بڑھتے ہوئے جانے کہاں سے ریاض اور حارث نے اسے گھیر لیا تھا… وہ دانت پیس کر رہ گیا… ” تین گھنٹے ہو گئے مجھے یہاں آۓ ہوئے میں نے ابھی تک اپنی بیوی کو نہیں دیکھا اس سے ملا نہیں ..یہ کہاں کا انصاف ہے ؟..!!” دانت پر دانت جماۓ وہ انھیں کھا جانے والے انداز میں دیکھ رہا تھا “بیٹا ..یہ نکاح کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا اور ویسے بھی تیری بیوی پر اس وقت تین چار چڑیلوں کا قبضہ ہے جو تجھے کسی صورت اس سے ملنے نہ دیں گی ..بہتر ہے تو اپنی جگہ واپس جا کر بیٹھ جا ..!!” حارث کا اشارہ لائبہ زر نور مناہل اور فاریہ کی طرف تھا ناز ولید زارا بخاری اور ماہین کے ساتھ ڈرا ئنگ روم میں تھیں .. ” ارے جاؤ یار ..دیکھتا ہوں کون روکتا ہے مجھے ..!!” خطرناک تیور لئے اس نے دروازے کی ناب گھمائی تھی لیکن کمرہ اندر سے لاک تھا .. دروازہ تو نہیں کھلا لیکن تیمور کا خون ضرور کھول گیا تھا “چہ چہ ..دیکھ لے بھائی ان کو شاید پہلے سے پتا تھا کے تو یہ غیر اخلاقی حرکت ضرور کرے گا جبھی پہلے سے حفاظتی اقدامات کئے ہوۓ ہیں ..!!” ریاض کے چوٹ کرنے پر وہ غصے کے گھونٹ بھر کر رہ گیا تھا .. ” چل کوئی بات نہیں ..تو دروازہ بجا لے ..!!” اشعر نے آرام سے حل پیش کیا جس پر اس نے فورآ ہی عمل درآمد کرتے ہوئے دروازہ پیٹ ڈالا تھا .. وہ تو غصے میں پاگل ہو رہا تھا اس لئے جانتا نہیں تھا کے سا کیا کر رہا ہے لیکن پیچھے کھڑے وہ تینوں اچھی طرح سے جانتے تھے .. ایک تو وہ اتنے زوردار انداز میں دروازہ بجا رہا تھا وہ بھی کس کا ؟ جی ہاں زرنور کا ..!!” وہ بوکھلاتے ہوئے وہاں سے بھاگنے کا سوچ ہی رہے تھے کے جھٹکے سے دروازہ کھلا .. ” تمہیں تمیز نہیں ہے ؟ ایسے ناک کرتے ہیں ؟..توڑوگے کیا ؟ ..!!” زرنور نے بغیر کسی لحاظ کے تیز لہجے میں کہا .. ” مجھے انوشے سے ملنا ہے ..!!” اس نے بھی بغیر لگی لپٹی رکھے کہا .. ” وہ …انوشے سو رہی ہے ..!!” زرنور نے پورا دروازہ نہیں کھولا تھا صرف سر باہر نکالا ہوا اس لئے کوئی دیکھ نہیں پا رہا تھا کے وہاں ہو کیا رہا ہے ؟.. ” دیکھو زرنور ..میں صرف پانچ منٹ کے لئے ملوں گا میں نے کل سے اسے دیکھا بھی نہیں ..!!” تیمور کے التجایا انداز پر وہ اس سے نے با مشکل مسکراہٹ چھپائی تھی لیکن ان تینوں نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی تھی زرنور کے آنکھیں دکھانے کی بھی پرواہ کئے بغیر دل کھول کر ہنستے وہ مسلسل اس کا ریکارڈ لگا رہے تھے .. ” اس کی طبیعت خراب ہے تیمور بڑی مشکل سے سوئی ہے اس لئے اسے اٹھانا مناسب نہیں ورنہ وہ پھر رونے لگ جاۓ گی لیکن تم فکر مت کرو وہ جیسے ہی اٹھے گی میں تمہیں بلا لوں گی ..اب بھاگو یہاں سے ..!!” جھپاک سے سر اندر کئے وہ پھر سے لاک لگا چکی تھی لیکن دوسرے ہی لمحے پھر سر باہر نکالا .. “اور ہاں ..دوبارہ ناک کرنے کی غلطی مت کرنا ورنہ ساری زندگی دیدار سے محروم رہو گے ..سمجھ گئے دولہا بھائی ؟..!!” تیمور کا دل کر رہا تھا کے اسی بند دروازے سے اپنا سر پھوڑ لے جسے وہ دوبارہ لاک کر چکی تھی .. ہنسی سے بے حال ہوتے ان لوگوں کو غصے سے گھورتے وہ دھم دھم کرتا وہاں سے نکلا تھا ..
بری سی شکل بناۓ وہ بیزاری سے ڈرائیونگ کر رہا تھا اسے جتنا برا سیاست میں حصّہ لینا لگتا تھا شاید اس سے زیادہ برا کچھ اور نہیں لگتا تھا اس کے والد ظہور دلاور ایک بہت ہی مظبوط حلکے کے منتخب نمائندے تھے اسی لئے وہ اپنے اکلوتے بیٹے حیدر کو اس کی تمام تر ناگواری اور حیلو بہانوں کے باوجود اکثر ہی پارٹی آفس لے جاتے تھے بقول ان کے .. “میرے بعد اس سیٹ پر تم نے ہی بیٹھنا ہے ..!!” اور وہ ہر بار ہی پر زور مخالفت کرتا تھا جسے وہ کسی خاطر میں نہ لاتے تھے .. آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا اس کا ارادہ پہلے تیمور کی طرفت اور پھر وہاں سےزرنور کے گھر جانے کا تھا لیکن وہ صبح ہی صبح زبردستی اسے لئے آفس چلے گئے تھے جب انھیں حیدر کو کہیں اپنے ساتھ لے جانا ہوتا تھا تو وہ ایک دن پہلے ہی بتا دیتے تھے جس کے اگلے دن وہ ان کے جاگنے سے پہلے ہی نو دو گیارہ ہو جاتا یا پھر امپورٹنٹ کلاس یا پھر پریکٹکل کا بہانہ بنا دیتا لیکن اس بار وہ پھنس گیا تھا کیوں کے ظہور دلاور نے اسے پہلے سے نہیں بتایا تھا لیکن جیسے ہی وہ تیار ہو کر نکلنے لگا انہوں نے وہیں اسے دھر لیا .. وہاں جا کر تو وہ سخت بیزار ہوا تھا اب اسے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی بوڑھے بوڑھے سیاستدانوں , کیمپئین مینیجر اور دیگر سٹاف سے ملنے اور عوام کو در پیش مسائل سن کر ان کے حل کے بارے میں جاننے کی ؟.. سب سے بڑی چیز مخالف پارٹی کے خلاف مواد مل جانے پر وہ کیوں کر خوشی سے بے قابو ہو جاتا ؟ لیکن پھر اپنے باپ کی گھوریوں کے باعث اپنی ڈھیروں ناگواری چھپاتے ہوئے اس نے ایک چھوٹی سی سپیچ کر ہی دی تھی جس کا آدھے سے زیادہ مٹیرئیل اس کے باپ کا ہی تھا جو وہ کبھی کبھی ٹی وی پر ان کے ٹاک شوز میں سنتا رہتا تھا .. خیر اس ٹوٹی پھوٹی تقریر پر بھی جی بھر کے اس کے لئے تالیاں پیٹی گئیں مبارکباد دی گئیں وہ الگ کچھ نے تو اسے اگلے ایم این اے کے طور پر ابھی سے قبول کر لیا تھا .. کہیں دو بجے کے قریب جا کر ظہور صاحب نے اس پر ترس کھاتے ہوئے جانے کی اجازت دی تھی وہ تو لمحہ زائع کئے بنا فورآ سے گاڑی بھگا لے گیا تھا حلانکے سب نے کافی اصرار کیا تھا کے کھانا تو کھا کر جاۓ آخر کو بالخصوص اس کے لئے دعوت کا اہتمام کیا تھا لیکن اس نے شائستگی سے معذرت کر لی تھی ابھی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے بھی اس کے ذہن میں لوڈشیڈنگ اور ٹوٹی سڑکیں ہی گھوم رہیں تھیں .. “حد ہے یار ..!!” چکراتے سر کو اس نے با مشکل تھاما تھا ایک تو نیوی بلیو شلوار قمیض پہنے دونوں استینوں کے کف بند کئے آنکھوں پر ڈارک گلاسز لگاۓ شریف بچہ بنا وہ خاصا پیارا لگ رہا تھا اسے یاد بھی نہیں تھا کے اس نے کتنی تعداد میں آج لوگوں کے ساتھ سیلفیز بنوائی ہے .. اب جو بھی سنتا کے یہ ظہور دلاور کا بیٹا ہے فورآ ہی موبائل میں کیمرہ لگاتے اس کے پاس پہنچ کر ایک سیلفی کی فرمائش داغ دیتے .. گاگلز آنکھوں سے ہٹ کر سر پر ٹکے تھے اور آستینیں فولڈ ہو کر کہنی سے بھی اوپر جا پہنچی تھی .. بیزاری سی بیزاری جھلک رہی تھی اس کے ہر انداز میں .. سگنل پر گاڑی روکتے وہ پھر کوفت کا شکار ہوا تھا جتنی جلدی وہ وہاں پہنچنا چاہتا تھا اتنی ہی اسے دیر ہو رہی تھی .. آنکھیں موند کر اس نے سر سیٹ کی بیک سے ٹکا لیا تھا چند گہر ے سانس لے کر خود کو پر سکون کرتے اس نے آنکھیں کھولی تھی جانے کس احساس کے تحت اس نے گردن موڑ کر اپنی جانب سے کھڑکی سے باہر دیکھا ..سگنل ابھی تک بند تھا .. وہاں سامنے کوئی شاپنگ پلازہ تھا اور اسکی پارکنگ لاٹ میں کھڑی اس لڑکی پر اسے یشفہ کا گمان ہوا تھا وہ چونک کر سیدھا ہوا .. حیدر اسے پہچان گیا تھا وہ وہی تھی لیکن اکیلی نہیں تھی ساتھ میں راحم بھی تھا وہ اسے صرف احمد کے دوست کی حثیت سے ہی جانتا تھا .. اسکی تیوریاں چڑھی تھی . ایک تو راحم کے ساتھ ہونے پر اور دوسرا اس کی ڈریسنگ پر .. جس نے ہمیشہ کی طرح بلیک ٹائٹس پر بلیک ہی کلر کا گھٹنوں سے ذرا نیچے تک جاتا ٹاپ پہن رکھا تھا چھوٹا سا سکارف گلے میں بے پرواہی سے پڑا تھا جو شاید اس نے بے دلی سے لیا ہوا تھا بال بھی اونچی پونی میں بندھے تھے .. اب مانا کے ساری زندگی باہر رہ کر آئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو ہر گز نہیں کے وہاں کے رنگ ڈھنگ یہاں بھی اپناۓ رکھے ہزاروں لوگ وہاں موجود تھے کیا پتا کون کیسی نظروں سے دیکھ رہا ہو .. یشفہ کے کپڑوں پر اسے پہلی دفعہ جی بھر غصّہ آیا تھا .. راحم اسے چھوڑ کر گاڑی میں بیٹھ کر جا چکا تھا وہ بھی پرس کندھے پر لٹکاتی پلازہ چلی گئی تھی .. سگنل کھولتے ہی حیدر نے یو ٹرن لیا تھا اور گاڑی سیدھا اسی پلازہ کے سامنے لا کر روکی جھٹکے سے دروازہ کھول کر وہ باہر نکلا تھا اور تیز تیز قدم اٹھاتا وہ اندر آیا تھا پورا مال شیشے کی طرح چمک رہا تھا اس کی تلاش میں اس نے نظریں دوڑائی تھیں جو ایک پرفیوم شاپ میں کھڑی مختلف خوشبوئیں ہاتھ کی پشت پر لگا لگا کر چیک کر رہی تھی شاپ کیپر کا انداز دیکھ کر اس کی رگیں تن گئیں تھیں جو یشفہ کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے اپنے ساتھ کھڑے دوسرے لڑکے کی طرف دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کر رہا تھا .. اس کی برداشت سے باہر ہو رہا تھا یہ سب .. وہ فورآ اندر کی جانب بڑھا پہلی ہی کلاتھ شاپ سے بڑی لیکن سادی سی کریم کلر کی چادر خرید لایا جس کے صرف کنارے ہی مہرون کلر کے دھاگوں سے بنے ہوئے تھے وہ سیدھا اس کی طرف آیا تھا جو ابھی بھی وہیں کھڑی تھی .. “اف تم یہاں ہو ؟ اور میں تمہیں کب سے ڈھونڈ رہا ہوں ..!!” حیدر نے اس کے شانوں پر چادر پھیلا کر اپنے گھیرے میں لیتے ہوئے ایسے کہا جیسے نہ جانے کتنی اچھی انڈراسٹینڈنگ ہو دونوں کی .. یشفہ حیرت سے حیدر کو اور اس چادر کو دیکھ رہی تھی جس میں وہ پوری چھپ گئی تھی .. ” تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟ اور یہ ..؟؟!!” اس سے پہلے کے وہ کچھ کہ کر چادر ہٹا دیتی حیدر نے مزید اسے قریب کیا تھا .. “باہر چل کر بات کریں ؟..!!” حیدر نے دانت پیستے لیکن بظاھر مسکراتے ہوئے کہا تھا “یہ کیا حرکت ہے حیدر ؟..چھوڑو مجھے ..!!” قہر بار نگاہ ان دونوں سیلز بوائیز پر ڈالتے وہ اسے اپنے ساتھ گھسیٹتے باہر لے آیا تھا جو اس کی اینٹری پر بد مزہ سے ہوئے تھے .. “دل کر رہا ہے ایک رکھ کر تھپڑ لگاؤں تمہارے منہ پر ..!!” وہ دونوں مال کے اندر ہی تھے لیکن قدرے سنسان گوشے میں .. ” وہ تو بلبلا ہی اٹھی تھی ایک تو اسے پرفیوم نہیں خریدنے دئے زبردستی چادر پہنا کر یہاں لے آیا اور اب تھپڑ مارنے کی بات کر رہا ہے ؟ ” دماغ تو نہیں خراب ہو گیا تمہارا ؟..ایک تو میرا پیچھا کرتے یہاں پہنچ گئے اور اوپر سے یہ ..!!” اس نے ناگواری سے شانوں پر پڑی اس چادر کو دیکھا تھا .. ” پوچھ سکتی ہوں کیوں کی ہے تم نے یہ گھٹیا حرکت ؟..!!” “کاش کے یہ گھٹیا حرکت تم خود کر لیتیں .. خود کو ڈھکنا تمہارے نزدیک گھٹیا ہے ؟.. تمہیں شرم نہیں آتی اس طرح کے کپڑے پہن کر گھر سے باہر جاتے ہوئے ؟.. ہزاروں روپے ایسے ہی خرچ کر دیتی ہو ڈھنگ کے کپڑے نہیں خرید سکتی ؟؟.. اس کی آواز اونچی نہیں تھی لیکن لہجہ ضرور تیز تھا .. اس کے لفظوں کی کاٹ سے اس کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا .. “آئندہ اگر تم مجھے ان واہیات کپڑوں میں نظر آئیں تو پھر دیکھنا کیا کرتا ہوں تمہارے ساتھ ..!!” اتنے درشت لہجے میں وہ اسے دھمکی دے رہا تھا … یشفہ حمین کو دھمکی دے رہا تھا .. جس سے آج تک کسی نے سخت انداز میں بات تک نہ کی تھی .. وہ اس پر غصہ ہو رہا تھا ؟ وہ بھی صرف اس کے کپڑوں کی وجہ سے ؟ لمحے میں اس کی آنکھیں لال انگارہ ہوئیں تھیں .. ” تم ..باپ نہیں ہو میرے نہ ہی میں تمہاری سرونٹ ہوں ..بہتر ہوگا کے اپنی اوقات میں رہ کر بات کیا کرو مجھ سے ..آئندہ اگر تم نے مجھے چھونے کی کوشش کی تو “تم”دیکھنا پھر …!!” خود پر ضبط کرتے ہوئے وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بے خوفی سے بول رہی تھی ورنہ دل تو چاہ رہا تھا کے اس کا سر پھاڑ دے … آخر وہ ہوتا کون تھا اس کی ذات پر حکم چلانے والا ؟ نوچنے کے سے انداز میں چادر اتار کر اس نے حیدر کے منہ پر ماری تھی .. “چہرے سے کونا ہٹاتے وہ لب بھنچے اسے دیکھ رہا تھا .. ” یہ کوشش میں ہزار دفعہ اور کروں گا ..اگر نہیں مانو گی میری بات تو اپنا ہی نقصان کرواؤ گی ..تمہارے باپ کو بھلے سے فکر نہیں ..لیکن میں ہر گز ..ہر گز برداشت نہیں کروں گا تمہارا بے پردہ ہو کر گھر سے باہر نکلنا ..!!” “اور کیا میں پوچھ سکتی ہوں کے کس رشتے کے ناتے آپ مجھ پر پابندی لگا رہے ہیں ؟..” سینے پر بازوں لپیٹے وہ چھبتے ہوئے لہجے میں پوچھ رہی تھی .. آج سے پہلے اس نے کبھی حیدر کا ایسا جارحانہ انداز نہیں دیکھا تھا .. اس کا سر تو پہلے ہی دکھ رہا تھا مزید اس کی ہٹ دھرمی کے باعث دکھنے لگا تھا موڈ الگ خراب ہو چکا تھا .. ” بتا دوں گا میری جان اتنی بھی کیا جلدی ہے ؟ فلحال تو یہ پہنو اور باہر آؤ میں ویٹ کر رہا ہوں ..!!” معنی خیز سے کہ کر چادر اس پر اچھالتے ہوئے وہ جانے کو مڑا تھا لیکن اس کی سخت آواز پر پنجوں کے بل واپس پلٹا .. ” میں کہیں نہیں جا رہی تمہارے ساتھ ..!!” “کوئی بات میں لے جاتا ہوں ..!!” حیدر نے اچانک ہی اس کا بازو پکڑ لیا تھا .. ” تم ..تم .زبردستی نہیں کر سکتے میرے ساتھ ..!!” وہ تو حیران ہی رہ گئی تھی اس کی اتنی جرات پر.. “یہ زبردستی میں تھوڑی دیر پہلے بھی کر چکا ہوں شاید بھول گئی ہیں آپ ۔۔۔!!” اس کی مزاحمت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ کھنچتے باہر لے آیا تھا اور فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول اسے اندر دکھیلا تھا .. ” تم اچھا نہیں کر رہے میرے ساتھ ..!!” وہ دروازہ کھول کر اتر جانا چاہتی تھی لیکن وہ لاک لگا کر ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکا تھا ..
“ایک منٹ محترمہ …!!” احمد نے کوریڈور میں ہی ٹرے میں سوپ کا پیالہ رکھ کر لے جاتی زرنور کو روکا تھا .. ” فرمائیے محترم..!!” شرارت چھپاۓ وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی .. ” میرا فون واپس کر دیجیے ..!!” ” کیوں ؟ کسے فون کرنا ہے ؟ حیات کو یا پھر عفیرا کو ؟..!!” عنایہ کو ..!!” اس کے سنجیدہ انداز پر وہ چونکی تھی لیکن دوسرے ہی لمحے غصّہ عود کر آیا .. ” عنایہ ؟اب یہ عنایہ کون ہے ؟..اور کس کس سے تمہاری دوستی ہے آج ہی بتا دو سب کے نام !!” ” یار لمبی لسٹ ہے اب کس کس کا بتاؤں ؟..!!” احمد کے لاپرواہی سے کہنے پر اس کی جان جل گئی تھی .. ” ہمم ..تو تم چاہتے ہو کے میں یہ باؤل تمہارے اوپر الٹ دوں ؟..!!” “یار تو ابھی تک گیا نہیں ؟..مریم ناراض ہو جاۓ گی نہ پھر اور تو جانتا تو ہے وہ تیرے لیٹ پہنچنے پر کتنا غصہ کرتی ہے ..!!” “اس سے پہلے کے وہ کچھ کہتا جانے کہاں سے آ کر ریاض نے ایک ہاتھ اس کی گردن میں ڈال کر ناراضی سے کہا تھا .. ” مریم ؟؟؟…آ …ہاں ..مریم مریم ..!!” اس نے سوالیہ نظروں سے ریاض کو دیکھا تھا لیکن اس کے اشارہ کرنے پر ایک دم ہی کچھ سمجھ کر جھٹ بولا تھا .. زرنور حیرت سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی .. ” یہ مریم کون ہے ؟..!!” “میری اٹلی کی دوست ہے تم نہیں جانتی ..!!” بے پرواہی سے کہتے ہوئے وہ بازل کی جانب متوجہ ہوا تھا جو ان کے پاس آ کر رکا تھا .. ” یہ لیں احمد بھائی ..آپ کا فون میں نے چارج کر دیا ..!!” ” شکریہ بازل ..!!” فون پکڑتے اس نے خوش دلی سے کہا تھا .. ” اچھاسن ..مریم کو میرا سلام کہنا ..!!” ریاض کے خوشدلی سے کہنے پر جہاں زر نور کا منہ کڑوا ہوا تھا وہیں بازل چونکا تھا .. ” کون مریم ؟؟..!!” اس نے پوچھا ریاض سے تھا لیکن جواب زرنور کی طرف سے آیا تھا .. ” تمہارے احمد بھائی کی اٹلی کی گرل فرینڈ ..!!” اس نے تپ کرلیکن “گرل فرینڈ” پر زور دیتے ہوئے کہا تھا ساتھ ہی احمد کو گھورا بھی تھا جو فون ملتے ہی اس پر مصروف ہو چکا تھا .. ” ہیں ؟ احمد بھائی کی فرینڈ ؟ پھر تو میرا بھی سلام کہئے گا ..!!” بازل کے خوشی سے کہنے پر جہاں وہ دونوں بے ساختہ ہنسے تھے وہیں وہ پیر پٹختی واک آؤٹ کر گئی تھی