ٹی وی لاؤنج میں جاتے اس کی نظر غیر ارادی طور پر باہر کی جانب اٹھی تھی جہاں وہ لان کے سٹیپس پر منہ پھلاۓ بیٹھا تھا ماہین کو ہنسی کے ساتھ اس پر ترس بھی آیا تھا جو انوشے سے ملنے کی سر توڑ کوششوں کے بعد ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ان لوگوں کے پاس سے اٹھ گیا تھا جنھوں نے اس کا ریکارڈ لگاتے ہوئے ناک میں دم کر رکھا تھا .. “تیمور ..!!” ماہین کی آواز پر اس نے چونک کر سر گھما کر اسے دیکھا تھا .. ” جی آپی …!!” فورآ سے مؤدب سا اٹھا تھا .. ” چلو میرے ساتھ ..!!” اس کا بازو پکڑتے ہوئے اس نے اندر کی طرف قدم بڑھاۓ تھے .. “لیکن کہاں ؟..!!” وہ حیرت سے بولا .. ” ابھی پتا چل جاۓ گا ..!!” ماہین کے لبوں پر شرارتی سے مسکراہٹ تھی ..
“ایڈیٹ گاڑی روکو ..سنا نہیں تم نے ؟ آئی سیڈ اسٹاپ دا کار ..!!” وہ مسلسل چیخ رہی تھی لیکن وہ بھی ڈھیٹ بنے کان لپیٹے اپنی ساری توجہ ڈرائیونگ پر مرکوز کئے ہوئے تھا “میں تمہیں جان سے مار دوں گی حیدر ..!!” وہ غصّے سے غرا رہی تھی .. ساتھ ہی دونوں ہاتھوں سے حیدر کا بازوں بھی جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا .. “بہت شوق ہے تمہیں میرے ساتھ مرنے کا ؟..!!” اس کی گرفت سے اپنا بازو چھڑاتے ہوئے وہ غصے سے بولا کیوں کے یشفہ کے مسلسل مزاہمت سے گاڑی ڈس بیلنس ہو رہی تھی .. “میں کہ رہی ہوں گاڑی روک دو ورنہ اچھا نہیں ہوگا ..!!” ” ابھی کون سا اچھا کر رہی ہو ؟؟..!!” وہ معلق پرواہ نہیں کر رہا تھا .. بے بسی کے مارے اس کی آنکھوں میں آنسو آ ٹھرے تھے جنہیں اس نے بے دردی سے رگڑا تھا .. دھیان سے ڈرائیونگ کرتے اس پر لعنت بھیج کر وہ اس کی طرف سے رخ موڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی تھی .. جب مزاہمت بے کار تھی تو کیا فائدہ خود کو ہلکان کرنے کا ؟.. حیدر نے اس کی لاتعلقی دیکھی ضرور تھی لیکن کہاں کچھ نہیں .. “اچھا ہے کچھ دیر خاموش رہے ..!!” جانے پہچانے راستوں پر گاڑی دوڑتے دیکھ وہ چونکی تھی .. حیرانی سے وہ گنگ رہ گئی تھی جب اس نے پندرہ منٹ بعد ٹھیک اسی کے گھر کے سامنے کار روکی .. سلور کلر کا بڑا سا گیٹ ..جس پر لگی یشفہ پیلس کی نیم پلیٹ ..!! ہاں وہ اسی کا گھر تھا .. ” اتنا حیران ہونے کی ضرورت نہیں ..ماں ,بہن ,بیٹی گھر کی عزت ہوتی ہیں اور گھر کی عزت گھر میں ہی اچھی لگتی ہے ..میری کافی فی میل فرینڈز ہیں ..لیکن میں نے کبھی انھیں اس قسم کے کپڑوں میں نہیں دیکھا حتی کے اگر وہ ہم سے یا کسی بھی لڑکے سے بات کرتی ہیں تو ایک حد میں رہ کر کرتی ہیں لیکن جیسے تم ..!!” “تو تم مجھے یہ بتانا چاہتے ہو کے وہ کس قدر پاکیزہ ہے اور میں اتنی ہی بے پردہ ..؟؟..!!” اس کی بات کاٹ کر وہ زخمی نظروں سے اسٹئیرنگ پر جمے اس کے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے بولی تھی .. ” تم ہوتے کون ہو مجھے جج کرنے والے ؟ ہاں ؟؟…میری مرضی میں جہاں جاؤں ,جیسے دل کرے ویسے کپڑے پہنوں ..جس سے چاہے بات کروں تم ہوتے کون ہو مجھے صحیح غلط بتانے والے ؟؟..جب میرے باپ کو مجھ پر اعترض نہیں تو تمہارا بھی کوئی حق نہیں بنتا مجھ پر پابندیاں لگانے کا ..!!” شدید غصے سے اس کی تھوڑی لرز رہی تھی بس نہیں چل رہا تھا کے سامنے موجود اس شخص کو گولیوں سے چھلنی کر دے .. حیدر نے سکون سے اس کی ساری بات سنی تھی ” میں تم پر کوئی پابندی نہیں لگا رہا ..نہ ہی مجھے یہ حق حاصل ہے لیکن …میں نہیں جانتا کے میں کیوں تمہارے لئے اس قدر پوزیسو ہو رہا ہوں اوکے ..اور میں یہ بھی نہیں چاہتا کے میرے علاوہ تمہیں کوئی اور دیکھے ..اور رہی بات حق کی تو ..!!” حیدر کی نظریں اس کے گال پر موجود سیاہ تل پر پھسلی تھیں .. “.وہ بھی میں بہت جلد حاصل کر لوں گا …!!” اس کے ٹھوس انداز پر وہ محض غصے و بے بسی کے گھونٹ بھر کر رہ گئی تھی .. ” میرا وقت بھی تو آۓ گا نہ ..!!” حیدر نے اس کی جانب جھکتے ہوئے لاک کھول دیا تھا .. وہ جو اس کے جھکنے پر نہ گواری سے پیچھے کو ہوئی تھی اب قہر بار نگاہ اس پر ڈالتی سرعت سے دروازہ کھول کر اترنے اور زور سے بند کرنے کے بعد جلدی سے گیٹ کھول کر اندر چلی گئی تھی بے خبری میں وہ کریم کلر کی چادر بھی اپنے ساتھ ہی لے گئی تھی جو حیدر نے دوسری مرتبہ اس کے شانو پر ڈالی تھی .. سر سے گاگلز اتار کر آنکھوں پر لگاتے ہوئے اس نے سیٹی پر شوخ دھن بجاتے پھر سے کار سٹارٹ کی تھی ..!!”
“چلو لڑکیوں نکلو باہر کب سے یہاں ڈیرہ جما کر بیٹھی ہو ..!!” ناب گھما کر اندر آتے اس نے مصنوئی گھوری سے ان سب کو نوازا تھا جو خاصے آرام دہ انداز میں بیڈ پر براجمان باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ انوشے کی دل جوئی میں مصروف تھیں ماہین کے ساتھ تیمور کو دیکھ کر سب ہی سیدھی ہو کر بیٹھی تھی .. جو عادت کے بر خلاف نظریں جھکاۓ سنجیدہ سا لگ رہا تھا .. انوشے کی نظر بے ساختہ اس پر اٹھی تھی جو سفید شلوار قمیض میں ڈیشنگ سا لگ رہا تھا لیکن ساتھ ہی ڈھیروں ناراضگی بھی چہرے پر سجائی ہوئی تھی .. ” کسی اور کو بھی ملاقات کا موقع دو ..!!” ان چاروں کو وہیں جمے دیکھ اس نے تنبہہ کرتے ہوئے شرارت سے کہا تھا .. جس پر وہ لوگ معنی خیزی سے انوشے کو دیکھتی اٹھ کھڑی ہوئیں تھیں .. تبھی تیمور نے اس کی آنکھوں میں جھانکا تھا نگاہیں چار ہونے پر اس نے فورآ سے نظریں جھکالی تھیں .. “ٹھیک ہے تیمور میاں ..صرف بیس منٹ ہے تمہارے پاس جتنی بھی حکایت دل بیان کرنی ہے کردو ..!!” ماہین کے چھیڑنے پر وہ جھینپ گیا تھا .. “تم ہی سنبھالوں اپنی بیگم کو .. ہم باہر ہی کھڑے ہیں جیسے ہی ٹائم پورا ہوگا ہم آ جائیں گے ..!!” زرنور شرارت سے وارننگ دیتے ہوئے باہر چلی گئی تھی جس کے پیچھے مناہل لائبہ اور فاریہ بھی تھیں .. دروازہ لاک کرتے وہ آہستہ روی سے چلتے اس کے پاس آکر بیڈ کے کنارے پر ٹکا تھا بیڈ کی بیک سے ٹیک لگاۓ بلینکٹ اوڑھے وہ نیم دراز تھی تیمور کو اپنے پاس بیٹھتے دیکھ نہ محسوس انداز میں پیچھے کو ہوئی تھی نظریں بدستور جھکی ہوئیں تھیں … تیمور نے شدت سے محسوس کیا تھا اس کا گریز لیکن کہا کچھ نہیں .. ” اب کیسی طبیعت ہے ؟..!!” گود میں دھرے اس کے ہاتھ کو تیمور نے استحقاق لیکن نرمی سے اپنے ہاتھ میں لیا تھا ٹھیک ہے ..!!” َآواز جانے کیوں بھرا گئی تھی .. ” اس نے آہستہ سے انوشے کا چہرہ اوپر کیا تھا گہری سیاہ آنکھیں پانی سے بھری ہوئی تھیں تیمور کے مظبوط ہاتھ میں موجود اس کا نازک سا ہاتھ لرز رہا تھا .. ” زندگی کی نئی شروعات ایسے رو دھو کر تو نہیں کی جاتی یار ..!!” اس نے نرمی سے اس کے گال پر بہتے آنسوؤں کو صاف کیا تھا .. ” میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا ..!!” “چاہا تو میں نے بھی کبھی نہیں تھا کے ایسا ہو لیکن شاید ہماری قسمت میں ایسے ہی ملنا لکھا تھا ..!!” اس کے مومی ہاتھ کو ہولے سے دباتے ہوئے وہ نرمی سے کہ رہا تھا .. ” مما چاہتی ہیں کے تمہیں ابھی گھر لے جائیں لیکن زارا آنٹی تمہیں بھیجنے پر راضی نہیں اب بتاؤ تم کیا چاہتی ہو ؟ چلو گی میرے ساتھ ؟..!!” “ابھی ؟؟..!!” “اس نے گھبرا کر بے ساختہ پوچھا .. “ہاں تو ..تمہارا کیا رخصت ہونے کا ارادہ نہیں ؟..!!” اس کا انداز چھیڑنے والا تھا “ابھی ڈرائنگ روم میں یہی بحث چل رہی ہے لیکن آخری فیصلہ تو تمہارا ہی ہوگا ..!!” “میں نہیں جانا چاہتی ابھی ..یہ سب اتنا اچانک سے ہوا .مجھے ..کچھ وقت لگے گا ..!!” وہ دھیمے انداز میں لب کاٹتے ہوئے بولی کے کہیں اسے برا نہ لگ جاۓ “کوئی بات نہیں تمہیں جتنا ٹائم چاہیے لے سکتی ہو لیکن یہ مت بھولنا کے تم نے آنا میرے پاس ہی ہے ..!!” اس کی پر شوق نظریں اپنے چہرے پر جمے دیکھ وہ کنفیوژ سی ہو رہی تھی .. ” وہ ..انکل اور آنٹی نے تمہیں کچھ کہا نہیں ؟.میرا مطلب ڈانٹا نہیں ایسے شادی کرنے پر ؟…!!” انوشے نے اس کا دھیان خود پر سے ہٹانے کے لئے پوچھا تھا اشارہ ان کے نکاح کی طرف ہی تھا .. ساتھ ہی اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے نکالنے کی کوشش کی تھی جو وہ چھوڑنے پر راضی نہیں تھا .. ” شادی نہیں صرف نکاح ..شادی تو تب ہوتی جب تم رخصت ہو کر میرے ساتھ چلتی اور رہی بات مما پاپا کی تو خیر وہ دونوں کافی ناراض تھے مجھ سے مما تو غصہ ہی ہو گئیں تھیں کے نجانے میں کس سے نکاح کر لیا لیکن تم سے ملنے کے بعد وہ کافی پر سکون ہیں اس کا مطلب تو یہی ہوا نہ کے مما کو تم پسند آ گئی ہو ..!!” انوشے کو بے ساختہ ناز ولید کا انداز یاد آیا تھا جو وہ اس سے ملتے ہی کتنی خوش لگ رہیں تھیں کتنا پیار کر رہیں تھیں لگ ہی نہیں رہا تھا جیسے کے پہلی دفعہ وہ ان سے مل رہی ہو.. ” ایگزامز کے بارے میں کیا سوچا پھر ؟ دینے ہیں یا نہیں ؟..!!” تیمور کی آواز اسے خیالوں کی دنیا سے باہر نکال لائی تھی .. ” میری کوئی تیاری نہیں.. جتنا بھی پڑھا تھا کچھ بھی یاد نہیں مجھے ..!!” اس کی آواز پھر سے نم ہو گئی تھی .. “کوئی بات نہیں نیکسٹ ائیر کلئیر کر لینا ..ویسے اگر تم چاہو تو میں پڑھا سکتا ہوں تمہیں …!!” وہ بھیگی آنکھوں سے مسکرادی تھی .. ” تم بزنس کے سٹوڈنٹ ہو اور میں آرٹس کی ..کیسے پڑھاؤ گے پھر ؟..!!” وہ تو اس کے چہرے کی شادابی میں ہی کھو گیا تھا مبہوت ہو کر وہ بھیگے مکھڑے کو دیکھ رہا تھا “بزنس کے علاوہ بھی میں کافی کچھ پڑھا سکتا ہوں اگر تم پڑھنا چاہو تو ..!!” اس نے خاصی زومعنی بات کہی تھی .. ” اب تم جاؤ ..سب کیا سوچ رہے ہوں گے کے اتنی دیر سے تم یہاں بیٹھے ہو ..!!” وہ گڑبڑا کے بولی مزید اس کی نظروں کا . سامنا کرنے کی ہمّت نہیں تھی اس میں “کوئی کچھ نہیں سوچتا ..ہاں لیکن تم زبردستی مجھے یہاں سے نکالنا چاہو تو یہ اور بات ہے ..!!” وہ چھیڑنے سے باز نہیں آیا .. ” پلیز تیمور ..!!” وہ ملتجی انداز میں گویا ہوئی .. ” اب ایسے کہو گی تو تمہیں اپنے ساتھ ہی لے جاؤں گا ..!!” ایک ہاتھ میں اس کا ہاتھ تھامے دوسرے سے اس نے قمیض کی جیب سے ایک کیس نکال تھا پھر اسے کھول کر ایک جگ مگ کرتی سرخ یاقوت سے مزین ڈائمنڈ کی رنگ نکال کر اس کی انگلی میں سجا دی تھی .. ” تمہارا نکاح کا تحفہ ..!!” اس کا ہاتھ اٹھا کر نظروں کے سامنے کرکے تنقیدی انداز میں دیکھنے کے بعد اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا .. ” اب زیادہ اچھی لگ رہی ہے ..تم بتاؤ کیسی لگی ؟!!” “بہت خوبصورت ہے ..!!” اسے سچ میں وہ نازک سی انگوٹھی پسند آئی تھی .. ” ہاں ہے تو سہی ..لیکن میری بیوی سے زیادہ نہیں ..!!” “وہ پھر شوخی سے بولا .. ” کچھ زیادہ ہی نہیں پھیلنے لگے تم ؟..!!” اس نے مصنوئی گھور کر کہا … ” اب تو باقاعدہ پرمٹ مل چکا ہے مادام ..!!” خوشی تو اس کے انگ انگ سے جھلک رہی تھی آخر کو اس کا عشق اس کا جنوں ہمیشہ کے لئے ہم سفر جو بن چکا تھا
“کیا کھانے کے بعد چاۓ پلانے کی روایت ختم ہو چکی ہے ؟..!!” ڈائنگ ٹیبل کی چیئر گھسیٹ کر ماہین کے سامنے بیٹھتے وہ بے زاری سے بولا تھا .. آنکھیں الگ بوجھل ہو رہی تھیں .. ” یا اللہ..! تم لوگ کیا چاۓ کے نشئی ہو .؟ کیا اشعر تیمور اور وہ حیدر ..جسے دیکھو بس دن رات چاۓ پلاتے رہو ..اور وہاں اگر حارث کو چاۓ نہ دو تو ان صاحب کی آنکھیں نہیں کھلتی ..!!” شامی کباب کی ٹکیاں بنا کر ٹرے میں رکھتے ماہین نے تعجب سے کہا تھا .. “اس کی ویسے بھی نہیں کھلتی ..!!” مناہل نے کر کہا .. ” ویسے ایک چاۓ لور کو آپ فراموش کر گئیں ہیں بھابھی ..!!” “کسے ؟..!!” اس کے حیرت سے پوچھنے پر مناہل نے شرارت سے زرنور کی طرف اشارہ کیا تھا جو برنر کے سامنے کھڑی سوجی کا حلوہ بھون رہی تھی .. “یہ تو ان سب کی بھی سردار ہے ..!!” ماہین کے کہنے پر وہ سب ہی ہنس دی تھی .. بھابھی!!! ..چاۓ !!!” ریاض نے ٹیبل بجا کر اسےپھر سے اپنی جانب متوجہ کیا تھا . “صبر کر جاؤ لڑکے بنا تو رہی ہے فاریہ ..!!” “ہیں ..؟؟!!” وہ جو کرسی پر ڈھیلا سا بیٹھا تھا سنبھل کر سیدھا ہوا .. چاۓ کی طلب میں یہاں وہاں دیکھے بغیر وہ سیدھا ماہین کے پاس آیا تھا اب جو گردن گھما کر اندر دیکھا تو کاؤنٹر کے سامنے اسے زرنور اور فاریہ کھڑی دکھائی دی تھیں .. لیکن بد مزہ ہوتے ہوئے اس نے نظروں کا زاویہ بدل لیا تھا .. “ایک اشعر کم تھا جو اب یہ سو گز کی چادر بھی ؟؟..!!” “ریاض ..تمہیں چاۓ اتنی ہی پسند ہے تو پھر کسی کو لے کیوں نہیں آتے جو تمہیں صبح شام کے علاوہ بھی چا ۓ بنا بنا کر پلاتی رہے ..!!” لائبہ کے چھیڑنے پر وہ سب بھی متوجہ ہوئی تھیں .. ” مطلب کسے لے آؤں ؟؟..!!” وہ نا سمجھی سے بولا .. سر میں جیسے ٹیسیں اٹھ رہیں تھیں .. “ڈفر ..شادی کر لو اور بیوی کو لے آؤ ..پھر وہ پوری کرے گی تمہاری چاۓ کی فرمائشیں ..!!” مناہل کے کہنے پر وہ لوگ بھی ہنسنے لگیں تھیں .. ” ویسے آئیڈیا تو برا نہیں ..!!” زرنور نے بھی اپنا حصّہ ڈالا .. “ہاہ ..مجھے کون دے گا اپنی لڑکی ؟..!!” وہ سرد آہ بھرتے ہوۓ بولا .. ” ہاۓ ..کیوں نہیں دیگا ؟ آخر کمی کیا ہے میرے ویرے میں ؟..تم نام لو لڑکی کا ابھی جا کر اس کا ہاتھ مانگ آئینگے …!!” لائبہ فورآ ہی پرجوش ہو گئی تھی .. “سچی لائبہ ؟؟..!!” وہ اس سے بھی زیادہ پر جوش ہوا .. “ہاں ہاں ..تم بس نام بتاؤ اگر کوئی پسند ہے تو .!!” “پسند تو مجھے ہے ..لیکن جانے دو ..تمہارے بس کی بات نہیں ..!!!” افسردگی سے کہتے ہوئے وہ پیچھے کو ٹیک لگا کر بیٹھا تھا .. ” یہ کیا بات کردی تم نے ؟..میں نے کہا نہ تم بس مجھے اس کا اتا پتہ بتاؤ باقی میرا کام ہے ..!!” وہ کمر کس کر میدان میں اتر آئی تھی .. “نام تو میں تمہیں سہی وقت آنے پر بتاؤں گا لیکن سوچ لو پھر ..بعد میں مکر مت جانا ..!!” “اگر نہ کر سکوں تو بولنا ..!!” اس نے ناک چڑھا کر فخر سے کہا تھا .. وہ سر جھکاۓ مسکرا دیا تھا .. ” چلو تھوڑا تو راستہ آسان ہوا ..!!” “اس سے وعدہ کرنے سے پہلے ایک دفعہ سوچ لو لائبہ ..کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں ..اور ریاض چوہدری تو ویسے ہی جان کو آجاتا ہے ..اور جب تک اسے اپنی من پسند چیز نہ مل جاۓ یہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی چین و سکوں غارت کئے رکھتا ہے ..!!” حلوے پر بادام پستے کی ہوائیاں چھڑکتے ہوئے زرنور نے ریاض کو چھیڑتے ہوئے کہا تھا .. جو فورآ سے کورنش بجا لایا تھا .. “تعریف کے لئے شکریہ بھابھی ..لیکن میں تو ایسا ہی ہوں اب کوئی بھلے سے مجھے ضدی ,خود سر یا پھر آنا پرست کہے ..مجھے فرق نہیں پڑتا ..مجھے بس اپنی “من پسند چیز ” سے مطلب ہے ..اب چاہے سے وہ میرے کسی دوست کے پاس ہو یا دشمن کے پاس اگر وہ دینے پر راضی ہوا تو ٹھیک ..ورنہ آپ تو جانتی ہیں کے مجھے چھین کر لینے میں بھی کوئی عار نہیں ..ایسے نہ سہی تو ویسے سہی ..!!” اس نے کندھے اچکا کر کہا تھا لہجہ خود باخود ہی سنجیدہ ہو گیا تھا .. کپوں میں قہوہ ڈالتے فاریہ کے ہاتھ کانپ اٹھے تھے اتنی دیر سے وہ اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس کی آخری بات پر انجانا سا خوف اس کے دل میں جاگا تھا .. بقول فاریہ کے .. اس کی خراب نیت وہ پہلی ملاقات میں ہی پہچان گئی تھی ..!!” اگر ریاض کی اس کی سوچوں تک رسائی ہوتی تو وہ اس وقت وہاں بیٹھا قہقے لگا رہا ہوتا .. ” خراب نیت اور وہ بھی میری ؟؟ اوہ گاڈ ..!!”
زرنور اور مناہل نے لاؤنج میں رکھی شیشے کی سینٹرل ٹیبل پر کپوں کی اور شیشے کی کٹوریوں میں نفاست سے سجے حلوے کی ٹرے رکھی تھی ساتھ ہی مناہل نے زبردستی حارث سے ریموٹ جھپٹ کر ٹی وی بند کیا تھا جس پر وہ پچھلے دو گھنٹوں سے کرکٹ میچ دیکھ رہے تھے .. “یار تھوڑا سا رہ گیا تھا ..!!” اشعر نے بد مزہ ہوتے ہوئے کہا .. ” ایک گھنٹے سے یہی کہے جا رہے ہو ..!!” زرنور نے گھور کر کہا .. ” رہنے دے بھائی ..ہمارے ٹی وی دیکھنے سے اس کا الیکٹریسٹی کا بل زیادہ آ جاۓ گا ..!!” تیمور کے شرارتی بے تکے انداز پر وہ کچھ کہنے ہی لگی تھی جبھی ریاض کی بد مزہ سی آواز پر وہ سب اس کی جانب متوجہ ہوئے تھے جو ایک کپ ہاتھ میں پکڑے برا سا منہ بناۓ ہوئے تھا … ” ایک گھنٹے سے میں چاۓ کے لیے پاگل ہو رہا ہوں ..اور ملا دیکھو کیا ہے ؟ یہ پھیکا ابلا ہوا قہوہ ؟..!!” وہ سخت ناراض لگ رہا تھا ” ابے گدھے ..یہ پھیکا ابلا ہوا نہیں پشاور کا اسپیشل الائچی قہوہ ہے ..!!” وہ اشعر کی پہنچ سے دور سنگل صوفے پر بیٹھا تھا جبھی اس نے کہتے ہوئے ایک کشن اسے کھینچ مارا تھا .. ” ہاں ریاض تم چیک تو کرو ..سچ میں بہت ٹیسٹی ہے ..!!” “معاف کرو ..مجھے کوئی شوگر نہیں جو یہ پھیکا قہوہ پیوں ..!!” “یہ لو ..یہ گڑ کی ڈلی منہ میں رکھ لو ..پھر پینے میں مزہ آۓ گا ..!!” لائبہ نے ایک پلیٹ اس کی طرف بڑھائی تھی جس میں گڑ کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے رکھے تھے .. ” اس نے بے دلی سے ایک پیس اٹھا کر منہ میں ڈالا تھا اور پھر قہوے کا کپ لبوں سے لگا کر گھونٹ بھرا تھا .. اس کے چہرے پر پسندیدگی کے رنگ نمایاں ہوئے تھے .. “ہمم ..ٹیسٹ تو واقعی میں لا جواب ہے ..!!” اس نے ایک اور گھونٹ بھرا .. تھوڑی دیر پہلے کی چھائی کثافت اب چھٹ چکی تھی .. فاریہ کے ہاتھ میں ذائقہ بہت ہے ..میں نے بھی ایک دو بات ٹراۓ کیا تھا لیکن مجال ہے جو یہ ذائقہ آ جائے ..!!” حلوے کی چمچ بھر کر منہ میں رکھتے ہوئے لائبہ نے حسرت سے کہا تھا .. “بھئی یہ ان پٹھانوں کی ڈش ہے اور میرے خیال سے تو ان دونوں پٹھانوں میں سے صرف فاریہ ہی ٹھیک سے بنا سکتی ہے کیوں کے پہلی بات تو پٹھان مرد یہ اشعر ..کبھی ہاتھ پیر نہیں ہلاۓ گا صدا کا سست اور کاہل اور دوسرا یہ اب پٹھان کہیں سے لگتا نہیں ..!!” حارث نے اشعر پر چوٹ کرتے ہوئے کہا تھا..
فاریہ کے ہاتھ میں ذائقہ بہت ہے ..میں نے بھی ایک دو بار ٹراۓ کیا تھا لیکن مجال ہے جو یہ ذائقہ آ جائے ..!!” حلوے کی چمچ بھر کر منہ میں رکھتے ہوئے لائبہ نے حسرت سے کہا تھا .. “بھئی یہ ان پٹھانوں کی ڈش ہے اور میرے خیال سے تو ان دونوں پٹھانوں میں سے صرف فاریہ ہی ٹھیک سے بنا سکتی ہے کیوں کے پہلی بات تو پٹھان مرد یہ اشعر ..کبھی ہاتھ پیر نہیں ہلاۓ گا صدا کا سست اور کاہل اور دوسرا یہ اب پٹھان کہیں سے لگتا نہیں ..!!” حارث نے اشعر پر چوٹ کرتے ہوئے کہا تھا .. “کیوں بے ؟ میں کہاں سے پٹھان نہیں لگتا ؟ ..!!” وہ فورآ تیوری چڑھا کر سیدھا ہو بیٹھا “میں بتاتا ہوں ..!! دیکھ پہلا تو یہ کے ..تو نسوار نہیں کھاتا ..!!” اس نے شہادت کی انگلی اٹھا کر کہنے کے بعد ایک اور انگلی اٹھائی .. “اور دوسرا یہ کے تو پشتو نہیں بولتا اور تیسرا تو پشاوری کھانے بھی نہیں کھاتا اور سب سے بڑی وجہ ..تو پشتو میں گالیاں بھی نہیں دیتا ..!!” اخری بات تیمور نے شرارت سے کہی تھی .. ” میں اتفاق کرتا ہوں ..!!” وہ ہنس پڑا .. ” لیکن میں دس سال کا تھا جب پشاور سے کراچی آیا اور اب تو چودہ پندرہ سال ہو گئے مجھے یہاں رہتے ہوئے ..مکمل طور پر رنگ چکا ہوں میں کراچی کے رنگ میں لیکن یہ مت بھولنا پٹھان کی غیرت جاگنے میں وقت نہیں لگتا ..بھلے اوپر سے میں کیسا ہی بن جاؤں لیکن اندر سے تو ایک پٹھان ہی رہوں گا نہ اور فطرت بھی کبھی بدلا کرتی ہے ؟..!!” “امیزنگ …!!” اشعر کے تفصیلی جواب پر حارث نے تالیاں پیٹ کر مصنوئی ستائش سے کہا .. ” لگتا ہے انوشے نے اسے دو جوتے نہیں لگاۓ ..جبھی اتنا بول رہا ہے ..!!” ریاض نے وہی کشن اٹھا کر اس کے منہ پر مارا تھا جو کچھ دیر پہلے اشعر نے اس کی سمت اچھالا تھا .. زرنور نے آنکھوں ہی آنکھوں میں لائبہ اور مناہل کو اشارے کئے تھے جسے سمجھتے ہوئے ان دونوں نے مسکراہٹ دباتے ہوئے سر آثبات میں ہلایا تھا.. “کیسا لگا قہوہ ؟..!!” لائبہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے برابر والے سنگل صوفے پر براجمان ہو چکی تھی .. ریاض کو اندازہ نہیں تھا کے وہ موبائل پر نیوز فیڈ دیکھتے دیکھتے تین کپ پی چکا تھا .. “کافی اچھا ہے ..!!” اس نے ستائش سے کہا نظریں بدستور سکرین پر ہی جمی تھی “کتنا اچھا ؟؟..!!” کشن گود میں رکھتے ہوئے مناہل نے ابرو اچکاتے ہوئے شرارت سے پوچھا .. کی پیڈ پر ٹائپنگ کرتیں اس کی انگلیاں رکی تھی نظر اٹھا کر اس نے سامنے دیکھا تو مشکل سے تھوک نگلتے سیدھا ہو کر بیٹھا .. انداز میں ہلکی سی گھبراہٹ تھی جیسے چوری پکڑے جانے کا خدشہ ہو .. وہ تینوں بھی تو ٹھیک اس کے سامنے معنی خیزی سے مسکراتے ہوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کرتی اسے تک رہیں تھیں .. “پھنس گیا بیٹا ..!!” اس نے خود سے کہا .. ” یہ لو ریاض ..!!” زرنور نے خوش دلی سے کہتے ہوئے ایک کپ مزید اس کی جانب بڑھایا تھا .. ” نہ ..نہیں اس کی ضرورت نہیں ..!!” اس نے جلدی سے منع کرتے کن انکھیوں سے تیمور ,حارث اور اشعر کو دیکھا تھا جو اپنی ہی کسی بحث میں الجھے تھے ان کی طرف متوجہ نہ تھے .. ” کوئی بات نہیں ..لے لو ریاض ..جہاں تین کپ پی لئے وہاں ایک اور سہی ..!!” لائبہ نے زبردستی کپ اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا .. “تم رباب آنٹی کی پریشانی ختم کیوں نہیں کر دیتے ؟..!!” “کون سی پریشانی ؟؟۔۔” کپ میں چمچ گھماتے ہوئے اس نے حیرت سے مناہل سے پوچھا .. ” اہم اہم ..شادی والی ..!!” زرنور نے آنکھیں گھمائی .. ” جب نصیب میں لکھا ہوگا ہو جاۓ گی ..!!” اس نے لاپروائی سے کہتے ہوئے کپ ہونٹوں سے لگایا تھا ..لیکن دوسرے ہی لمحے مناہل کی بات پر اچھو لگ گیا .. “جیسے ..نظریں چار ہوئیں اور محبت ہوئی ایسے شادی بھی ہو جاۓ گا ..!!” لائبہ نے جلدی سے اسے پانی کا گلاس پکڑایا .. “تمہیں نہیں کہ رہی بدھو ..وہ اپنی اور حارث کی بات کر رہی ہے ..!!” زرنور نے اسے مصنوئی آنکھیں دکھائی لیکن لبوں پر شرارت ہنوز موجود تھی .. ٹشو سے لب تھپتھپاتا وہ فورآ ہی اٹھ کھڑا ہوا ان لڑکیوں سے کچھ بعید نہیں تھی کچھ بھی اگلوا سکتی تھی منہ سے .. ” ارے کدھر بیٹھو تو صحیح ..ارے روکو تو ..!!” لائبہ نے اسے لاؤنج کے دروازے پر ہی جا لیا .. ” اگر کہو تو بات چلائیں ؟..سچ مجھے تو کوئی اعتراض نہیں تمہیں اپنا نندوئی بنانے پر ..!!” لائبہ تو پر جوش سی ہو گئی تھی .. ” مجھے کوئی انٹرس نہیں تمہاری نند میں ..!!” لہجے کو بے نیاز بناتے فولڈ کی گئی آستینوں کو ٹھیک کرتے ہوئے کف بند کر رہا تھا .. ” جبھی تین کپ قہوے کے پی گئے ..سوری چار ..!!” مناہل نے ہنستے ہوئے زرنور کو ٹہکا دیا تھا .. ” بلکل ..اور پتا نہیں جب انٹرس ہوگا تو کیا تعداد ہوگی ان کپوں کی ..!!” ریاض کا سہی معنوں میں اپنا سر پیٹ لینے کا دل کیا تھا .. جانے کہاں بھول چوک ہوئی اور یہ چڑیلیں اس کے سر پڑ گئیں تھی اور ان چڑیلوں کو ان تینوں نے بھی دیکھا تھا .. ” آیت الکرسی پڑھ لے ..!!” ان کے نرغے میں بری طرح پھنسے ریاض کو دیکھ کر حارث نے ہانک لگا کر مفید مشورہ دیا تھا .. ” “لائبہ ..زرنور ..مناہل ..ایسا ..کچھ بھی نہیں ہے جیسا تم لوگ سوچ رہی ہو ..!!” وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولا .. “ایسا کچھ نہیں تو پھر روشنی ڈالو ان چار کپوں پر ..!!” مناہل کی بات پر ان دونوں نے بھی ہاں میں ہاں ملائی تھی .. “یار مجھے بس اچھا لگا اور میں نے پی لیا ..ڈیٹس اٹ ..تم لوگ تو پیچھے ہی پڑ گئیں ہو ..!!” وہ زچ ہو گیا تھا جان چھڑوا کر بس بھاگ جانا چاہتا تھا کہیں راز دل کسی پر عیاں نہ ہو جاۓ .. ” ان تینوں نے رخ موڑ کر ڈرائنگ روم میں سے آتی فاریہ اور ماہین کو دیکھا تھا جو کسی بات پر ہنس رہی تھیں .. اور دیکھا تو ریاض نے بھی تھا لیکن پھر جلد ہی خود کو بے نیاز کر لیا .. اسے دیکھ کر ہوش کھو دینے کا نہ وہ موقع تھا اور نہ ہی محل .. ” “اہم ..اہم ..!!” گلے کھنکھارتی وہ پھر اسے چھیڑنے کے موڈ میں تھیں .. ” خدا حافظ ..!!” چبا کر کہتے ہوئے وہ وہاں رکا نہیں تھا تیز قدم اٹھاتا فورآ ہی چلا گیا تھا پیچھے ان کی ہنسی کی جھنکار ہر سو گونج رہی تھیں .. ” یا اللہ خیر ..یہ میں ہمیشہ راستہ بھٹک کر بھوتنیوں کے ڈیرے پر کیوں آجاتا ہوں ..!!” ان کا ارادہ اب فاریہ کی خبر لینے کا تھا لیکن نو وارد کی آواز پر چونک کے مڑی جہاں حیدر محتاط انداز میں دونوں ہاتھ سامنے کو اٹھاۓ ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے اندر آ رہا تھا .. نیلی جینز پر ریڈ ٹی شرٹ پہنے دوپہر کے مقابلے میں کافی فریش لگ رہا تھا .. ” اوۓ …حیدر آ گیاااا ..!!” تیمور نے وہیں سے بیٹھے بیٹھے نعرہ مارا .. “ہاں ..آ گیا ..!!” اس نے بھی اسی جوش سے جواب دیا ” پہلے یہ بتاؤ ..تھے کدھر تم ؟؟..!!” ماہین نے اس کا کان مروڑ دیا تھا .. “ارے ..ارے کان تو چھوڑیں ..بتا رہا ہوں نہ ..!!” وہ چلایا .. ماہین نے اس کا کان چھوڑ دیا تھا “اب پہلے آپ لوگ مجھے یہ بتائیے کے ریاض کو کیا کہا ہے ؟ میں نے اتنی آوازیں دی اسے لیکن سنی ہی نہیں اس نے ..کیا کوئی بات ہوئی ہے ؟..!!” اس نے کان کی لو رگڑتے ہوئے سوالیہ انداز میں ان سے پوچھا .. ” ضرور تم تینوں نے ہی کچھ کہا ہوگا ؟..!!” حیدر نے مناہل ,لائبہ اور زرنور کو کہا تھا جو ہنس رہیں تھیں .. ” ہم تو مذاق کر رہے تھے ..وہ سیرئیس ہو گیا ..!!” زر نور نے کندھے اچکاۓ .. ” وہ تو میں اس سے پوچھ ہی لوں گا لیکن نور بانو ..مجھے زبردست سی چاۓ بنا کر دو پہلے ..تم شاید دنیا کی واحد لڑکی ہو جسے کچھ بنانا نہیں آتا کچھ کرنا نہیں آتا لیکن ..چا ۓ تم بڑی مزیدار بناتی ہو ..!!” ” یہ تم میری تعریف کر رہے ہو یا انسلٹ ؟..!!” اس نے ماتھے پر بل ڈال کا گھورا ..!!” “تم جانتی ہو نور بانو میں مر کر بھی تمہاری تعریف نہیں کروں گا سو اسے تم انسلٹ سمجھ سکتی ہو اپنی ..!!” اس نے تپانے والی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر کہا تھا اس دوران لائبہ اور مناہل فاریہ کی جانب متوجہ ہو چکی تھیں .. ” زہر کتنی چمچ ڈالوں ؟..!!” زرنور نے بھی اسے کے انداز میں کہا ” اس کی ضرورت نہیں تم اپنی انگلی گھما دینا ..اور یقین کرو اگر اس کا صرف ایک گھونٹ بھی کسی آدم خور جن کو پلا دیا نہ تو وہیں تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دیگا اور اس کے سارے چیلے تمہیں اپنا آقا نامزد کر لیں گے .. اوہو ..کیا منظر ہوگا جب سارے جنات تمہیں اپنی ملکہ بنا کر ساتھ لے جا رہے ہوں گے ..!!” آنکھیں میچیں وہ تصور کرتے ہی خاصا لطف اندوز ہو رہا تھا .. “کر لی بکواس ؟؟..!!” اس نے گھورتے ہوئے پوچھا .. ” تمہاری شان میں بکواس کرتے ہوئے تو میں پوری رات یہیں کھڑے کھڑے بتا سکتا ہوں ڈئیر نور بانو ..!!” ریاض وہاں موجود ہوتا تو ضرور ہی حیدر کو گلے لگا لیتا .. چلو اس نے میرا بدلہ پورا کر دیا ..!!” “حیدر تم بیٹھو ..میں بنا دیتی ہوں چاۓ ..!!” ماہین نے ان کی بحث ختم کرواتے ہوئے کہا ” اوکے ماہین بھابھی ..لیکن کھانا آپ اسی سے گرم کروائیے گا ..اس سے بھی کچھ کام کروالیا کریں ..!!” “کیا مطلب ؟ تم کیا ہمیشہ کی طرح بھوکے ہی آۓ ہو ؟؟..!!” زرنور نے مصنوئی حیران انداز میں طنز کیا .. ” ہاں بلکل ..کیوں کے مجھے تمہارا بڑا خیال تھا مجھے پتا تھا میری نور بانو میرے انتظار میں ابھی تک بھوکی پیاسی دروازے پر لٹکی میری راہ تک رہی ہو گی کے میں آؤں تو پھر ساتھ کھانا کھائیں ..اور دیکھو میرا کہا سچ ہوا تم مجھے یہیں مل گئیں ..!!” وہ اور بھی کچھ بولتا لیکن اسے خونخوار انداز میں پنجے جھاڑتے دیکھ فورآ سے چیختے ہوئے ان لوگوں کی جانب دوڑ لگا دی
وہ مغموم سی کچن کے ساتھ اوپر جاتی سٹیپس پر بیٹھی تھی دونوں بازؤں کو گھٹنوں کے گرد باندھ رکھا تھا ایک کپ بھی ساتھ ہی پڑا تھا جس میں موجود چاۓ کب کی ٹھنڈی ہو چکی تھی اس نے ایک گھونٹ بھی نہ لیا تھا .. کتنا مشکل ہے سارا دن خوشی کا ماسک چہرے پر سجا ۓ رکھنا کسی کو یہ نہ پتا چل سکے کے کتنی اداسیوں نے اس کے اندر ڈیرے ڈال رکھے ہیں .. اس کی سوچوں کا محور صرف احمد کے گرد ہی گھوم رہا تھا .. وہ جو کہتی تھی کے اسے کسی چیز سے فرق نہیں پڑتا تو .. غلط کہتی تھی .. اسے فرق پڑتا تھا اور بہت زیادہ پڑتا تھا .. وہ اپنی چیزیں بانٹنے کی عادی نہ تھی ..خاص کر وہ چیزیں جو اس کی من پسند ہوں .. بھلے سے احمد کوئی چیز نہیں تھا ایک آزاد جیتا جاگتا انسان تھا لیکن تھا تو زرنور کا عشق نہ ؟.. ایک رشتہ تھا ان کے درمیان جس نے دونوں کو ایک دوسرے سے باندھ رکھا تھا وہ اس کی پہلی محبّت تھا.. اور شاید آخری بھی احمد کا رویہ اسے دکھ دیتا تھا اپنے علاوہ اور کسی کے ساتھ وہ اسے برداشت نہیں کر سکتی تھی .. ہاں وہ اس کے لئے شدّت پسند تھی کیوں کے وہ اس سے محبّت کرتی تھی .. ایک موتی پلکوں کی باڑ توڑ کر رخسار پر بہ گیا تھا جسے اس نے بہنے دیا تھا .. رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے اور وہ جانتا بھی نہیں تھا کے زرنور اس کے انتظار میں اب تک جاگ رہی ہے .. سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا انوشے بھی کب کی سو چکی تھی وہ خود بھی تو نیند کی کتنی دیوانی تھی .. بوجھل دل لئے وہ اٹھنے کا ارادہ کر ہی رہی تھی جب کوئی ہولے سے اس کے برابر میں بیٹھا تھا .. اس نے چونک کر اپنے ساتھ بیٹھے شخص کو دیکھا پھر لب بھینچ کر چہرے پر ڈھیروں ناراضگی طاری کر لی “ناراض ہو ؟..!!” وہ ملائمت سے پوچھ رہا تھا ” نہیں ..!!” “کیوں ؟؟..!!” “کیوں کے میں تھک گئی ہوں تم سے ناراض ہو ہو کر ..!!” “لیکن میں تو نہیں تھکا تمہیں منا منا کر ..!!” “جبھی بار بار میرا دل توڑ دیتے ہو ..!!” نہ چاہتے ہوۓ بھی انداز میں شکوہ در آیا .. ” جوڑتا بھی تو خود ہو نہ پھر ..!!” احمد نے نیچے دھرا اس کا سرد ہوتا ہاتھ اٹھا کر اپنے ہاتھوں میں قید کر لیا تھا .. ” کیا ضرورت تھی ابھی بھی آنے کی ؟ بیٹھے رہتے کسی عفیرا یا مریم کے پاس ..!!” “دونوں میں سے کوئی بھی اس وقت اویلیبل نہیں تھی اس لئے مجبورآ واپس آنا پڑا ..!!” “بہت افسوس ہو رہا ہے نہ ؟..!!” وہ طنز سے پوچھنے لگی ساتھ ہی اپنا ہاتھ بھی اس کی گرفت سے نکالنے کی کوشش کر رہی تھی جو چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا ” نہیں افسوس تو نہیں ہے ..کیوں کے مریم کا کوئی وجود نہیں اور عفیرا اس وقت اسپیشل برانچ والوں کے قبضے میں ہے ..!!” ” کیا مطلب ؟..!!” مزاحمت چھوڑ کر وہ اچھنبے سے پوچھنے لگی .. ” وہ اس لئے کے عفیرا کا باپ انڈر ورلڈ کے لئے کام کرتا ہے جن کا وہ خاص آلہ کار ہے جس کا کنکشن کہیں نہ کہیں را سے بھی ملتا ہے اور رہی بات عفیرا کی تو اس کا کوئی لینا دینا نہیں اپنے باپ سے کے وہ کیا کچھ کرتا پھر رہا ہے کس قسم کی تنظیم سے وابستہ ہے لیکن وہ اتنی بے خبر بھی نہیں یقیناً کچھ نہ کچھ تو وہ جانتی ہی ہو گی جس کی وجہ سے اس گروہ کو پکڑا جا سکے ..!!” ” تمہیں اتنی ڈیٹیل کس نے دی ؟ اور یہ کام تو ایجنسی والوں کا ہے ..اب یہ مت کہنا کے تم کوئی ایجنٹ ہو ..!!” اس کے منہ بنانے پر وہ مسکرایا تھا .. ” وہ اس لئے کے جو کام میں نے کیا وہ سیکرٹ ایجنٹ سیف یاسر کو کرنا تھا لیکن اتفاق سے وہ میرا دوست ہے میں یونی میں پہلے سے تھا اور ایک ایک سٹوڈنٹ کو اچھے س جانتا تھا تو اس نے آفیسرز سے بات کر کے یہ ذمہ داری میرے سر لگا دی کیوں کے عفیرا کو اپنی جانب متوجہ کر کے گھیرنے میں بھی ٹائم لگنا تھا اور وہ تو ویسے ہی میرے آگے پیچھے گھوم رہی تھی اس لئے پھر میں ہی موزوں لگا انھیں اس کام کے لئے ..!!” کندھے اچکاتے ہوئے اس کا لہجہ آخر میں شرارتی ہو گیا تھا .. اسے اپنے اندر سکون سا اترتا محسوس ہوا تھا اسے کوئی مطلب نہیں تھا عفیرا کون ہے ؟ کہاں گئی کیا ہوا اس کے ساتھ ..وہ جہاں کہیں بھی رہے بس احمد سے دور رہے ..اس کے آس پاس وہ اسے برداشت نہیں کر سکتی تھی ” جب اتنے دنوں سے ڈرامہ کر رہے تھے تو بتایا کیوں نہیں ؟ فضول میں میری جان جلاتے رہے ..!!” اتنی جلدی ناراضگی ختم کرنے کے موڈ میں تو وہ بھی نہیں تھی .. ” کیوں کے مجھے رول فولو کرنا تھا جس میں سختی سے منع کیا گیا تھا کسی کو اپنے مشن کے بارے میں بتانے سے ..خاص کر کسی لڑکی کو کیوں کے تم لوگ پیٹ کی ہلکی ہوتی ہو بغیر سوچے سمجھے کسی کے بھی سامنے کچھ بھی بول دو ..!!” ” سیدھے کہو نہ کے تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں تھا ..اگر بتا دیتے تو میں بھی تمہاری ہیلپ کر دیتی ..!!” “کس میں ؟ ..عفیرا اور میرا سین آن کروانے میں ؟..!!” اس نے شرارتی انداز میں اپنا بازو اس کے کندھے سے ٹکرایا تھا .. ” زیادہ پھیلو نہیں اب ..!!” وہ اس کی شوخی پر گڑبڑاتی اٹھنے لگی تھی لیکن اس کا ہاتھ ابھی بھی احمد کی گرفت میں تھا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے دوبارہ کھنچ کر بٹھا لیا .. ” میں پورے دن کا تھکا ہارا اس وقت گھر آیا ہوں اور تم بجاۓ میرا حال چال پوچھنے کے مجھ سے باتیں کرنے کے اٹھ کر جا رہی ہو ؟..!!” اس کے شکوے پر زرنور کو ہنسی آ گئی تھی .. ” رات کا ایک بج رہا ہے احمد ..اس وقت میں تم سے کیا باتیں کروں ؟..!!” وہ اپنا رخ اس کی جانب موڑے کہ رہی تھی .. نیم روشنی میں بھی وہ اس کے چہرے پر پھیلی تھکن کو صاف دیکھ سکتی تھی اسے بے ساختہ پیار سا آیا تھا .. ” اچھا میں تمہارے لئے چاۓ بنا دیتی ہوں ..!!” “میں چاۓ نہیں پیتا یار ..!!” “اور بلیک کافی مجھے بنانی نہیں آتی ..!!” اتنے بر جستہ جواب پر دونوں ہی ہنس دئے تھے “میں بنا لوں گا تم میرے ساتھ کھڑی ہو جانا ..سیکھ بھی جاؤ گی ..!!” “لیکن مجھے نہیں سیکھنا ..میں چاہتی ہوں ہمیشہ تم ہی کافی بناؤ مجھے اپنے ساتھ کھڑا کر کے ..!!” اس کا انداز چھیڑنے والا تھا .. “ٹھیک ہے کوئی مسئلہ نہیں لیکن جس دن مجھے پتا چل گیا کے تمہیں کافی بنانی آ گئی ہے تو اس دن سے تمہاری ڈیوٹی میں سنبھال لوں گا ..یعنی کے ساتھ کھڑے رہ کر تنگ کرنے کی ..!!” ” جھوٹ ..میں نے کب تمہیں تنگ کیا ؟..!!” وہ حیرت سے بولی .. وہ ہلکے سے اس کی جانب جھکا تھا اپنی گرے آنکھیں اس کے سبز کانچ جیسی آنکھوں میں گاڑی تھیں .. “تم کچھ نہیں کرتیں ..لیکن تمہاری یہ آنکھیں..!! کیا میں جانتا نہیں کے کتنی بار میری طرف اٹھتی ہیں ..!!” اس کے گالوں پر حیا کی سرخی چھا گئی تھی وہ سہی کہ رہا تھا اتنا بے خبر وہ تھا نہیں جتنا بنتا تھا .. ” تو کیا ہوا اگر میں تمہیں دیکھتی ہوں تو ؟ میرا حق ہے تم پر ..!!” اس نے ناز سے گردن اٹھا کر کہا تھا .. ” تم تو اپنے حق کا استعمال کرتی رہتی ہو ..لیکن جس دن میں نے کیا نہ تو پھر شکایتیں مت کرنا ..!!” خود کو اس کے سحر سے نکالتا وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا .. یہ لڑکی اس پر جادو سا ہی تو کر دیتی تھی .. “آجاؤ تمہیں کافی بنانا سکھاؤں ..!!” احمد نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تھا .. “میں صرف ساتھ کھڑی رہوں گی ..!!” اس نے مسکراتے ہوئے اپنا مرمریں ہاتھ اس کے چوڑی ہتھیلی پر رکھ دیا تھا ..
سارا سال بے فکری اور موج مستی میں گزارنے کے بعد موسمی پڑھاکو یونی کے کونے کونے میں بکھرے دکھائی دے رہے تھے ہر کسی کی سرخ ڈورو والی آنکھیں کئی رت جگوں کی کہانیاں بیان کر رہی تھی خیر اللہ اللہ کر کے جیسے تیسے ہوا پیپرز دے کر آگئے اب تو بس دعاؤں کا ہی سہارا تھا احمد پر تو دہری مصیبت آن پڑی تھی پروفیسر کی حثیت سے جامعہ کے متعدد کام نمٹانے کے بعد اسے راتوں کو دیر تک جاگ کر ان لوگوں کو بھی پڑھانا ہوتا تھا جو فائنلز تک کے لئے بوریہ بستر سمیٹ کر اسی کے گھر شفٹ ہو گئے تھے .. امتحان کا جن واپس بوتل میں بند ہوا تو کچھ سکون نصیب ہوا جیسے سر سے بھاری دیوار ہٹ گئی ہو جس کے گرنے کے پل پل خدشہ رہتا ہو پورا مہینہ سر جھاڑ منہ پھاڑ پھرنے والے پھر سے اپنی پرانی روٹین میں لوٹ آۓ تھے .. جامعہ میں فیئرویل پارٹی کی تیاریاں عروج پر تھی ہر کوئی ہی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتا نظر آ رہا تھا اس کے لئے مختلف گروپس میں بٹے سٹوڈنٹس نے ہفتہ بھر پہلے سے ہی تیاری شروع کردی تھی کوئی ڈرامے میں پرفارم کر رہا تھا کچھ ہینڈ مینڈ کرافٹ پر کام کر رہے تھے اس کے علاوہ پچاس سے ساٹھ سٹوڈنٹس نے فلیش موب بھی تیار کر رکھا تھا سب سے زیادہ محنت بھی اسی پر لگی تھی کیوں بیس گانوں پر ایک جیسے سٹیپس پرفارم کرنا کوئی آسان کام تو نہ تھا .. حیدر نے بھی ایک پلے لکھا تھا مشھور مغل اعظم اکبر پر جس کا رول وہ خود ہی کر رہا تھا سلیم کا رول اس نے اشعر کو دیا تھا اور انار کلی کا وقار کو ..اس پلے میں اس نے کسی لڑکی کو نہیں لیا تھا ہر کسی کا رول آل ٹو آل سب لڑکے ہی کر رہے تھے اس کی تیاری میں انھیں پورا ڈیڑھ ہفتہ لگا تھا .. حارث اور تیمور کیمرے سنبھالے کچھ نہ کچھ شوٹ کرتے پھر رہے تھے فیئرویل پارٹی کے لئے انہوں نے ایک چھوٹی سی پندرہ سے بیس منٹ کی ڈاکیو مینٹری بھی بنانی تھی جس کی شوٹنگ کا سارا کام وہ دونوں ہی سنبھالے ہوئے تھے پروفیسرز و سٹوڈنٹس کے اظہار خیال اور پلے کے ڈاریکٹر و ایکٹرز وغیرہ کے چھوٹے چھوٹے سے انٹرویوز بھی جس میں شامل تھے .. بلاخر وہ دن بھی آن پہنچا جس کے لیے سب نے اپنی جان لگا دی تھی وہ دن یونی میں ایک افرا تفری لے کر آیا تھا ہر کوئی ہی پرجوش تھا ان میں صرف ایک ریاض تھا جو پر سکون سا گراؤنڈ میں ایک طرف کرسی ڈالے بیٹھا تھا .. لاکھ منت سماجت کرنے کے باوجود بھی اس نے کسی کام میں حصّہ لینے سے صاف انکار کر دیا تھا نتیجآ سب کے چہروں پر گھبراہٹ واضح تھی اور وہ مطمئن تھا کسی چیز کوئی ٹینشن نہ تھی .. جبھی مناہل اور زرنور اسے ڈھونڈتے ہوئے وہاں پہنچی تھی “ریاض… ریاض ..بات سنو بہت ضروری کام ہے تم سے ..!!” ان کے سانس پھولے ہوئے تھے .. حیدر نے ان کو بھی اپنے ساتھ خوار کر رکھا تھا کوئی نہ کوئی کام وہ ان کے ذمہ لگا ہی دیتا تھا .. “حکم کرو میری بھابھیوں ..!!” وہ شوخ انداز میں بولا .. دونوں ہاتھ بھی سر کی پشت پر باندھے تکیہ سا بنا رکھا تھا ” تمہیں ابھی اور اسی وقت انار کلی بننا ہوگا ..!!” انہوں نے کوئی بھی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا تھا .. “وہاٹ …!!!” وہ حیرت سے سیدھے ہوتے چیخ پڑا تھا .. “میں انار کلی بنو گا ؟ دماغ تو نہیں خراب ہو گیا تم لوگو کا ؟ ” مجبوری ہے دیور جی ..ہماری انار کلی نے عین وقت پر دھوکہ دے دیا ..وقار نے آنے سے صاف منع کر دیا کیوں کے ایک دفعہ تیمور نے اس کی جم کے پٹائی کی تھی جس کا اس نے بدلہ نکالا !!” ان دونوں کو کافی غصہ تھا اس پر کیوں کے اس کی وجہ سے اتنے دنوں کی محنت پر پانی پھرنے والا تھا .. “میں ریاض ہوں یار ..رضیہ نہیں ..کیسے بن جاؤں انار کلی ؟..اور مجھے تو ڈائلوگز سٹوری سینز وغیرہ مجھے کچھ نہیں معلوم ..!!” وہ زچ ہو گیا تھا .. “اس کی فکر تم مت کرو اشعر اور حیدر دیکھ لیں گے تم بس اسٹیج پر کھڑے ہو جانا ..!!” “بلکل نہیں ..میں کوئی نہیں بن رہا انار کلی ..!!” “ہٹو یہ ایسے نہیں مانے گا ..مجھے اٹھا کر ہی لے جانا پڑے گا اپنی بہو کو ..!!” جبھی ان دونوں کو پیچھے ہٹاتے ہوئے زرق برق لباس پہنے مغل اعظم بنے ہاتھ میں تلوار لہراتے ہوئے حیدر اس کی طرف بڑھا تھا.. “ریاض نے تو اس کو اپنی جانب آتے دیکھ بوکھلاہٹ میں دوڑ لگا دی تھی .. ان دونوں نے پوری یونی گھوم لی تھی سب نے ہی مزے لے کر یہ تماشا دیکھا تھا کچھ نے موبائل میں بھی محفوظ کر لیا تھا تلوار لہراتے اکبر بادشاہ انار کلی کے پیچھے پیچھے بھاگ رہے تھے کے بس آج ہی اس خود سر کنیز کا نکاح اپنے شہزادے سے پڑھوانا ہے ..
بڑے سے اسٹیج پر دربار سج چکا تھا اونچی سی سجی ہوئی کرسی پر لباس پھیلاۓ شان و تمکنت سے گردن اکڑاۓ بادشاہ اکبر(حیدر ) بیٹھے تھے شہزادہ سلیم بھی (اشعر )مغرور انداز اپناۓ اس کے برابر میں براجمان تھا ان کے پیچھ دو غلام بڑے سے پنکھے آہستہ آہستہ جھل رہے تھے اس کے سامنے تین چار وزیر بھی قربانی کے بکرے کی طرح سجے نیچے ریشم کی چادر بھچے گدوں پر گاؤں تکیوں سے ٹیک لگاۓ بیٹھے تھے “آج ہم بہت خوش ہیں ..!!” بادشاہ اکبر کی بھاری آواز دربار میں گونجی .. ” کیوں مہارآج ؟..آپ کا جیتو پاکستان میں دس تولہ سونا نکل آیا ہے ؟..!!” وزیر شاہ ویز نے انتہائی شائستگی سے پوچھا .. “نہیں مند بدھی ..اگر ایسا ہوتا تو ہم یہاں “کانٹا لگا ” والا ناچ کر رہے ہوتے ..!!” “ابا حضور ..پھر کیا ایسی خوشی آپ کو ملی ہے جو “کانٹا لگا والا ڈانس کرنے سے روک رہی ہے ..؟!!” سلیم نے گردن موڑ کر استفسار کیا .. ” یہ خوشی تم سے منصوب ہے نقلی شہزادے …!!” “اہم اہم ..!!” سلیم کے کھنکھارنے پر اس نے جلدی سے تصیح کی .. “میرا مطلب ہے شہزادے سلیم ..!!” “کیا آپ اپنا تخت شہزادے کے حوالے کر رہے ہیں حضور ؟..!!” وزراؤں نے پوچھا .. ” نہیں میرے وزیروں ..ہم نے سلطنت کوفتہ کی شہزادی “روح افزاء ” سے اپنے شہزادے کا رشتہ طے کر دیا ہے ..جلد ہی ہم ان دونوں کو گھول کر پی جائیں گے ..ہمارا مطلب ہے کے شادی کر دیں گے ..!!” سلیم کے سستے ایکسپریشن .. وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا .. ” یہ آپ کیا کہ رہے ہیں ابا حضور ..ہم روح افزاء سے شادی ہر گز نہیں کریں گے ..!!” وہ سخت لہجے میں بولا .. ” تمہاری شادی روح افزاء سے ہی ہوگی سلیم ..اور خبردار جو تم نے کسی بد چلن “نورس یا جام شیریں “کا نام لیا تو ..!!” “سرکار ..اگر سلطنت کوفتہ میں کوئی شاہی کڑاہی ٹائپ خاتون ہوں تو ہماری بات بھی چلایے ..!!” بوڑھے وزیر شاہ ویز نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے کہا .. ” اوقات میں رہو پاپی بڈھے ..اس پر اپنی رال مت ٹپکاؤں ..کیوں کے ہم اس پر اپنی نیت خراب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ..اور بہت جلد اس کام سے فارغ ہو کر ہم کڑاہی سے بیاہ رچائیں گے ..!!” “سرکار آپ کی اور شہزادے کی شادی کیا ایک ہی دن ہو گی ؟..!!” “نہیں ..پہلے شہزادے اور روح افزاء کی ہو گی اور پھر ہم اپنے ولیمے میں روح افزاء سے ناگن ڈانس کروائیں گے ..!!” شہزادہ سلیم سوچ میں گم تھا کے کیسے ابا حضور کو اپنے معاشقے کی خبر دے .. ” ہماری خوشی کو بڑھایا جاۓ ..انار کالی کو پیش کیا جاۓ .ہمیں اس کے تباہ کن ناچ سے فیض یاب ہونا ہے ..!!” “سرکار ..انار کالی نہیں انار کلی ..!!” پنکھا جلتے غلام نے سرگوشی کی .. ” نام میں کیا رکھا ہے مند بدھی ؟ ہمیں تو ناچ سے مطلب ہے پیش کیا جاۓ ہماری کنیز کو ..!!” اکبر کے سائیڈ رخ سے تالی بجا کر حکم دینے پر سائیڈ پر کھڑی دو کنیزیں آداب آداب کرتی جلدی سے پردے کے پیچھے گئیں تھیں ..
بیک اسٹیج وہ تینوں ریاض کو زبردستی پکڑے کھڑے تھے جو بس بھاگنے کے موقع ڈھونڈ رہا تھا .. ” دیکھ صرف دو منٹ میں تیری اینٹری ہے ..گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں اشعر اور حیدر سنبھال لیں گے تجھے بس خاموش رہنا ہے ..!!” موبائل پر وقت دیکھتے حارث اسے سمجھا رہا تھا .. ” خاموش کیا رہنا ہے ؟ وہ کمینہ مجھے ناچنے کے لئے بلا رہا ہے ..!!” ریاض کے غصے سے کہنے پر زرنور نے جلدی سے ایک نقاب اٹھا کر اس کے چہرے پر باندھ دیا تھا اب صرف اس کی آنکھیں ہی نظر آ رہی تھیں .. ” تو مسئلہ کیا ہے ؟ جا کر بیٹھنا آہستہ سے کھڑے ہونا اور دو چار بار گھوم کر واپس آ جانا تمہیں کون مدهو بالاوالا اصلی ڈانس کرنے کے لیے کہ رہا ہے ..!!” “یار لیکن ..!!” “کوئی لیکن ویکن نہیں ..اور یہ انار کلی فراک پہنتی تھی شرارہ نہیں ..!!” حارث نے اس کا لہنگا اوپر سے فولڈ کر دیا تھا نیچے اس کی بلیک جینز اور نائیک کے جوتے صاف نظر آ رہے تھے مناہل نے اسے دوپٹہ اوڑھا کر لمبا سا گھونگٹ نکال دیا تھا “خود سے مت اٹھانا یہ ..اگر حیدر کہے ہو تو اٹھا لینا ..!!” وہ دوپٹہ سیٹ کرتے ہوئے ساتھ ہدایتیں بھی دے رہی تھی…