اسٹیج کا سرخ بڑا سا پردہ ایک دفعہ پھر سے ہٹا تھا لیکن منظر وہی تھا شاہی کرسیوں پر براجمان اکبر اور سلیم اور نیچے گدو پر مؤدب انداز میں نیم دراز وزرا .. دفتعآ ایک طرف سے لمبی چوڑی دو کنیزو کے پیچھے انار کلی آتی دکھائی دی جس نے دو پٹے سے بڑا سا گھونگھٹ نکال رکھا تھا .. جہاں سلیم کی آنکھوں میں چمک در آ ئی وہیں اکبر کو اسے دیکھ کر مایوسی ہوئی تھی وہ تو کسی اٹھارہ انیس سالہ دوشیزہ کا تصور کر رہا تھا لیکن یہ انار کلی تو شاید کچھ زیادہ ہی خوش خوراک تھی . “یہ کلی تو کہیں سے نہیں لگ رہی ..البتہ پورا درخت ضرور ہے ..!!” اکبر نے اپنی بات کا خود ہی مزہ لیا تھا .. ” کیا کھا کر آئی ہو انار کلی ؟صحت تو ماشاء اللہ ہے تمہاری ..!!” سلطان نے اسے نیچے سے اوپر بغور دیکھتے ہوئے پوچھا .. ” گھونگھٹ کے اندر تلملاتے ہوئے وہ خاموش رہا تھا .. ” کیا اس نے سیمنٹ کھائی ہے ؟..!!” اکبر نے تعجب سے اس کے ساتھ کھڑی کنیز سے پوچھا .. ” نہیں سرکار ..!!” علی نے اپنا بڑا سا سر نفی میں ہلایا ” تو پھر یہ جواب کیوں نہیں دے رہی ؟..!!” اکبر برہم ہوا .. “وہ سرکار انار کلی کل شمشان گھاٹ گئی تھی ..!!” “شمشان گھاٹ ؟؟ وہ کیوں ؟..!!” اس نے حیرت سے سیدھے ہو کر پوچھا .. ” اصل میں اسے چلّہ کاٹنا تھا لیکن جانے کیا تنتر منتر پڑھ کر آئی ہے کے خود کی ہی زبان ہی بند ہو گئی بے چاری کی ..!!” “تم کس لئے چلّہ کاٹنے گئی تھیں انار کلی ؟..!!” اس نے غضبناک انداز میں پوچھا .. ” بولو ..دو جواب ..!!” اس کی مسلسل خاموشی پر وہ چلا کر بولا .. ریاض نے دانت پیستے ہوئے علی کو ٹہکا دیا .. جو گڑبڑاتے ہوئے سامنے آیا .. ” وہ جی ..جاہ پناہ ابھی ہم نے بتایا نہ کے انار کلی اپنی زبان شمشان گھاٹ ہی چھوڑ آئی ہے ..وہ بول نہیں سکتی ..!!” “دفع کرو زبان کو اور شمشان گھاٹ کو ..ہمیں کوئی دلچسپی نہیں اس کی آواز سننے میں ..ہمیں بس اس کے ناچ سے مطلب ہے ..!!” “مند بدھی ..گانا بجاؤ ..!!” انگوٹھیوں سے بھرے ہاتھ کو کرسی کے ہتھے پر زور سے جماتے ہوئے اس نے سائیڈ پر لگے میوزیشنز کو حکم دیا تھا جو ریشمی لباس اور ٹوپی پہنے مختلف انسٹرومنٹس سنبھالے بیٹھے تھے .. “کک کون سا گانا بجاؤں انار کلی ؟..!!” انیس نے ٹوپی ٹھیک کرتے دانت نکالتے ہوئے ریاض کو دیکھ کر پوچھا .. “انار کلی تمہاری ماں ہے جو اس سے پوچھ رہے ہو ؟؟..!!” اکبر بری طرح بگڑا تھا .. ” مم معاف کر دیں سرکار ..وہ میں نے سوچا کے ناچنا جب اسے ہے تو اسی سے پوچھ لیتا ہوں ..!!” دونوں ہاتھ جوڑے وہ لجاجت سے بولا .. ” سوچنے کا کام تمہارا نہیں پاپی مورخ وہ ہم پر چھوڑ دو ..تم صرف گانا بجاؤ ؟..!!” کک کون سا بجاؤں سرکار ؟ لیلیٰ میں لیلیٰ یا پھر دلبر دلبر ..!!؟؟” “نہ ہمیں لیلیٰ پسند ہے اور نہ ہی دلبر ..!!” “تو پھر ؟..!!” “تم بجاؤ ..دیسی پسیتو ..!!” “ہیں ؟ یہ پسیتو کیا ہے جاہ پناہ ؟..!!” ڈھول پر ہاتھ رکھے وہ حیرت سے بولا .. ” ابّا کا مطلب ہے دیسپسیتو ..!!” سلیم نے جلدی سے تصییح کی تھی .. ” “لیکن ہمیں وہ نہیں آتا عالی جاہ ..!!” انیس نے ڈرتے ڈرتے کہا .. “اچھا تو پھر ..دو پیگ مار اور گھوم جا بجاؤ ..!!” خلاف توقع اکبر نے کچھ نہیں کہا .. ” ابّا جان ..گھوم جا نہیں بھول جا ہے ..بھول جا ..!!” اس کے کان میں گھس کر سلیم نے کہا تھا .. ” تم کیا یہاں گوگلی (گوگل ) بن کر بیٹھے ہو جو ہماری غلطیاں نکال رہے ہو ؟..!!” اس کی جانب رخ کئے وہ غصّے سے بولا .. ” میری کیا مجال ابّا حضور ..!!” وہ جلدی سے گڑبڑا کر بولا .. ” کیا بجاؤں حضور ؟ بھول جا یا پھر گھوم جا ؟..!!” انیس نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا .. ” ہمارا سر بجا دو ..سارا موڈ خراب کر دیا ..!!” اس نے بگڑے انداز میں گال تلے ہاتھ کی مٹھی بنا کر رکھی تھی .. ڈھول سینے سے لگاۓ وہ فورآ ہی پیچھے ہو کر بیٹھا تھا .. “کیا انار کلی کو واپس لے جائیں سرکار ؟..!!” علی نے عرض کی .. لیکن جواب سلیم کی طرف سے آیا .. ” ٹھیرو ابھی .. ” ہمیں آپ سے کچھ بات کرنی ہے ابّا حضور ..!!” علی سے کہنے کے بعد اس نے حیدر کو مخاطب کیا .. ” کرو بکواس ..!!” اس کا موڈ بدستور خراب تھا .. ” ہمیں انار کلی سے شادی کرنی ہے ..!!” وہ کوئی بم تھا جو وہاں بیٹھے سب وزراؤ اور کنیزوں پر پھٹا تھا اپنی اپنی جگہ سب اچھل گئے تھے ..اور اچھلا تو اکبر بھی تھا لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے رکھ کر تھپڑ اس کی گدّی پر مارا تھا .. “منع بھی کیا ہے تمہیں مت بیٹھا کرو دربار میں نشہ کر کے..لیکن تم نے تو جیسے ضد ہی پکڑ لی ہے ہماری ناک کٹوانے کی ..!!” اتنے بھاری ہاتھ کا تھپڑ کھانے کے بعد وہ بلبلا اٹھا تھا .. ” ہم اپنے ہوش و حواس میں ہیں ابا ..کوئی نشہ نہیں کیا ہوا ہم نے ..!!” وہ ناراضگی سے بولا تھا .. باقی سب سانس روکے ان کی گفتگو ملاحظه کر رہے تھے اور ریاض کا دل کا کر رہا تھا ابھی سب چھوڑ چھاڑ وہاں سے بھاگ لے .. آخر کو ہزاروں لوگوں کا معجمہ اسٹیج سے نیچے بیٹھے ان کا ڈرامے سے لطف اندوز ہو رہے تھے .. ” نشہ نہیں کیا تو پھر انار کلی کا نام کیسے نکلا تمہارے منہ سے ؟ کیا تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا نہیں کبھی اسے ؟ وہ کنیز ہے ..کنیز اور بہت لمبی چوڑی ..ہماری سات پشتو میں کبھی اتنی بھاری جسامت کی ملکہ نہیں گزری ..!!” “ہم اس کا وزن کم کروا دیں گے ابّا …!!” وہ منمنایا ..!! “کوئی ضرورت نہیں ۔۔ہم کسی صورت اسے اپنی بہو نہ بنا ئیں گے..اور تم انار کلی ..کیا اسی لئے شمشان گھاٹ گئیں تھی تاکے جنید بنگالی سے کہ کر ہمارے بیٹے پر کالا جادو کر واسکو ؟..ہم تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے ..غلاموں ..لے جاؤ اس بد بخت کنیز کو اور لے جا کر چھت پر چنوا دو ..!!” “سرکار اگر یہ موٹی .چھت توڑ کر کسی پر گر گئی اور اس کا دہانت ہو گیا تو ؟..!!” “اوہ ..یہ تو ہم نے سوچا ہی نہیں ..کافی پتے کی بات کئے ہو بدھی مان ..!!ا” اکبر کے کہنے پر شاہ ویز نے فورآ ہی گردن اکڑا ئی تھی .. ” ایسا کرو ..اس گستاخ کو اس پلر میں چنوا دو .ہمارا شہزادہ اسے پکڑ کر روز جھولا جھولے کرے گا .!!” اس نے چھت کو سہارا دئے کھڑے بڑے سے گول پلر کی طرف اشارہ کیا .. “انار کلی ہماری محبت ہے ابّا ..ہم آپ کو ایسا ہر گز نہیں کرنے دیں گے ..!!” میان سے تلوار کھینچ کر نکالتے ہوئے وہ گستاخی سے کہتے ہوئے جھٹکے سے اٹھا تھا لیکن اکبر اسی سکون سے بیٹھا رہا .. ” تو تم اس کنیز سے شادی کرنا چاہتے ہو ؟..!!” ” ہاں ..!!” سینے پر ہاتھ رکھے اس نے مظبوط لہجے میں کہا ساتھ ہی مڑ کر انار کلی کو دیکھا تھا جیسے تسلی دلائی ہو .. اور وہ تو بھاگنے کے چکروں میں تھا لیکن علی اور میر نے اسے دونوں طرف سے پکڑ رکھا تھا .. “شرم تو تم بیچ کھاۓ ہو سلیم ..کیسے بے شرمی سے ہمارے سامنے بار بار اس کا نام لے رہے ہو ..!!” اکبر نے گرج دار انداز میں گھور کر کہا .. “جب پیار کیا تو ڈرنا کیا ابّا ؟..!!” سلیم نے جس بے خوفی سے ڈائلوگ مارا تھا اتنی ہی زور سے ایک تھپڑ اور پڑا تھا اسے اکبر سے .. “روح افزاء کا کیا ہوگا گستاخ شہزادے ؟ جسے ہم نے تمہاری آس دلائی ہے ؟..!!” “اسے گھول کر پی جائیں ابّا حضور ..ہمیں روح افزاء نہیں صرف انار کلی چاہیے ..!!” گدّی سہلاتے اس نے ٹھوس انداز میں کہا .. “غلاموں ..!!” اس نے تالی بجا کر پاٹ دار آواز میں زور سے کہا .. ” اس بے شرم شہزادے کو بھی انار کلی کے ساتھ پلر میں قید کر دو ..!!” “یہ یہ ..کیا کہ رہے ہیں آپ ابّا حضور ؟؟..!!” وہ بوکھلا اٹھا .. “تمہارے لئے یہی ٹھیک ہے ..نہ تمہیں اپنے باپ کی فکر ہے اور نہ اس کی دی گئی زبان کی ..!!” “تمہارے سامنے دو راستے ہیں یا تو انار کلی کے ساتھ اس پلر میں قید ہو جاؤ یا پھر روح افزاء سے بیاہ کر لو ..!!” وہ شش پنج میں پڑ گیا تھا پھر تھوڑا سا انار کلی کے پاس آ کر رکا .. “ہمیں معاف کرنا انار کلی ..ہم روح افزاء سے شادی کر رہے ہیں کیوں کے ہم تمہیں ایسے مرنے نہیں دے سکتے ..ہمیں تم سے بہت انسیت ہے ..اگر تم پلر میں چلی گئیں تو ہم تو …!!” “اسے چپ کرواؤ کوئی ..!!” اکبر نے بے زاری سے اسے ٹوکا تھا “ہمیں اپنی محبّت کا یقین تو دلانے دیں ابّا ..!!” وہ شکوہ کناہ انداز میں گویا ہوا .. ” ضرورت نہیں اس کی ..اور اب دفع ہو جاؤ یہاں سے ..کیوں کے ہم آخری بار انار کلی کو ناچتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں ..!!” وہ بھاری دل لئے ایک الوداعی نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا .. ” بجاؤ گانا ..!!” اس کے حکم دینے پر اونگھتے ہوئے میوزیشنز فورآ سے ہوش میں آۓ تھے .. ” جب پیار کیا تو ڈرنا کیا ..تھا.. تھیا.. تھیا ..تھاااا .. پیار کیا کوئی چوری نہیں کی ..تھا تھا تھاااا .. چھپ چھپ آہیں بھرنا کیا ..تھیا تھیا تھیا ..تھاااا تھیاااا … ایک کان پر ہاتھ رکھے اس کی تھیا تھیا کی رٹ پر بد مزہ ہوتے وہ چیخ اٹھا تھا .. ” بند کرو اسے ..یہ کیا تھا تھا تھیا لگایا ہوا ہے ؟..!!” سس سرکار ..انار کلی تو اسی پر ناچتی ہے ..!!” انیس نے ایک طرف سے ڈھلکتی ٹوپی پھر سے سر پر جماتے ہوئے ڈرے انداز میں کہا .. ” تم ناچ کیوں نہیں رہیں انار کلی ؟..!!” وہ غضبناک انداز میں اس پر برسا .. ریاض کا بس نہ چل رہا تھا کے اسے کچا چبا جاۓ .. اس نے زور سے میر کے پیٹ میں کہنی ماری .. یہ سب ان کی کلاس کے ہی تو تھے .. ” ہاۓ سرکار ..میرا گردہ تور ڈالا اس نے ..!!” کنیز نے بلند آواز میں دوہائی دی .. ” کنیز …تمہاری اتنی جرات ؟ ہمارے سامنے ہمارے ہی غلاموں پر تشدد کر رہی ہو ؟..سپاہیوں ..لے کر جاؤ اسے ..اور قید کر دو ..!!” اس کے حکم دینے پر پیچھے کھڑے پنکھا جھلتے غلام فورآ سے پنکھے پھینک کر آگے آۓ تھے .. ” ایک سے بڑھ کر ایک بیوقوف ہے ہماری ریاست میں ..!!” اکبر نے ان دونوں کو گھورا تھا جو انار کلی کو وہاں سے لے جا رہے تھے .. ” سرکار …اب کون ناچے گا آپ کے لئے ؟..!!” انیس کو کچھ زیادہ ہی دکھ تھا اکبر کے لیے .. ” ہمارے لئے روح افزاء ناچے گی ..!!” وہ بغیر افسردہ ہوئے بولا .. ” وزیروں ..سلطنت کوفتہ کے بادشاہ کو ہماری طرف سے خط لکھو ..اور انھیں ہماری دعوت کا بتاؤ ..!!” شاہ ویز نے جلدی سے سائیڈ پر دھرا کاغذ قلم اٹھایا تھا .. ” سرکار ..کوئی گیت سناؤ آپ کو ؟؟..!!” “ہاں سناؤ ..!!” چھوٹی سی ٹیبل پر ٹوکری میں سے سیب اٹھا کر دانتوں سے کترتے ہوئے اس نے اجازت دی تھی “کون سا سناؤ حضور ؟..!!” اس نے ڈھول سیدھا کرتے ہوئے لجاجت سے پوچھا .. ” ایک تو ہم سے یہ نہ پوچھا کرو کے کون سا بجاؤں کون سا سناؤں …بس گا لیا کرو ..!!” اکبر نے بے زاری س جواب دیا تھا .. “اچھا سرکار ..تو پھر سنیے .. او حضور ر ر ر ر …تھا تھا تھا … “تیرا تیرا تیرا سرور ..ر ر ر ر …..تھیا تھیا تھیا تھا ااا …!!” اکبر نے ہاتھ میں پکڑا ادھ کھایا سیب اسے کھنچ مارا تھا .. جو “ر ” اور تھا تھیا کا ملاپ کروانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا ” انار کلی سے پہلے اسے دیوار میں چنواؤ ..!!” غصّے سے بولتے ہوئے وہ اپنی پوشاک جھٹکتا وہاں سے اٹھا تھا .. دربار برخاست …!!!”
فیئر ویل پارٹی میں بھی پورے ہال کوe اس خوبصورتی سے سجایا گیا تھا کے کسی اسپیشل تقریب کا گمان ہوا تھا یہاں سے وہاں خوش گپاں کرتے ہوئے ٹہلتے ہوئے سٹوڈنٹس بے فکری سے گھوم رہے تھے .. بیک ٹو بیک تین اسٹیج پلے ہوئے تھے بزنس ڈیپارٹ کے سٹوڈنٹس یعنی حیدر کی کلاس نے انار کلی اور سلیم پر کیا تھا اور انجنئرنگ کے فائنل ائیر کے سٹوڈنٹس نے ہیر رانجھا پر پرفارم کیا لیکن ابھی ایک پلے باقی تھا جو بی کام پارٹ ٹو کے سٹوڈنٹس یعنی ان لوگوں کے جونئیرز نے کرنا تھا .. اور حیدر لاکھ کوشش کے بعد بھی یہ جاننے میں کامیاب نہ ہو پایا تھا کے وہ لوگ آخر کس چیز پر پرفارم کرنے والے ہیں .. دو ہفتے سے وہ لوگ اتنی رازداری سے پریکٹس کر رہے تھے کے کوئی چاہنے کے باوجود بھی سن گن نہ لے پایا تھا ..حیدر کو بس اسی چیز کی بے چینی تھی .. ابھی بھی یونی کا چپا چپا دیکھنے اور ریاض سے مار کھانے کے بعد بوفے اسٹینڈ سے پلیٹ میں دو تین سینڈوچ رکھے وہ حارث اور اشعر کے ساتھ ایک جانب رکھی کرسیوں میں سے ایک پر جا بیٹھا تھا ان کا پلے توقع سے بھی زیادہ پسند کیا گیا تھا حارث ہینڈی کیم میں اشعر کو اپنی بنائی گئی ڈاکیو مینٹری کی ویڈیو دکھا رہا تھا جسے فائنل ٹچ تو تیمور نے ہی دینا تھا کیوں کے ایڈیٹنگ کا کام اسے ہی اچھا تھا .. “جونیئرز کا کچھ پتا چلا ؟ آخر کرنے کیا والے ہیں وہ ؟..!!” حیدر نے ان دونوں سے پوچھا تھا .. ” تو فکر مت ..کتنا ہی اچھا کر لیں وہ لوگ لیکن فرسٹ پرائز تجھے ہی ملنا ہے ..!!” حارث نے اس کے شانے پر تھپکی دیتے ہوئے تسلی دلائی تھی .. ” وہ تو مجھے پتا ہے کے فرسٹ پرائز مجھے ہی ملنا ہے لیکن ان کا بھی تو کچھ پتا چلے نہ ..اب ہیر رانجھا کی پریکٹس تو ہمارے سامنے ہی ہوئی تھی اور اس کا فائنل شو بھی دیکھ لیا اسی لیے مجھے اس کی ٹینشن نہیں لیکن اب یہ عادل اینڈ ٹیم کی طرف سے وہ مجھے تھوڑا ڈر لگ رہا ہے ..اتنی جو یہ لوگ رازداری دکھا رہے ہیں ضرور ہی کچھ اسپیشل ہوگا ..!!” اس کا انداز تشویش زدہ تھا اور وہ سہی کہ رہا تھا اسے واقعی میں ان کی طرف سے ٹینشن تھی .. عادل اینڈ ٹیم میں اسے ملا کر کل چھ بندے تھے .. اب دیکھنا یہ تھا کے حیدر سے اچھا کام یہ لوگ کر سکتے ہے یا نہیں ..
ایک عجیب سی بے چینی نے اس کے گرد گھیرا سا کیا ہوا تھا جس کی وجہ بھی وہ اچھے سے جانتی تھی ریاض چوہدری ..!!ا” ہاں وہی تو تھا جو اس کے ذہن و دل پر قابض ہوا جا رہا تھا ..وہ جتنا اسے اپنی سوچوں سے جھٹکنے کی کوشش کرتی اس کا خیال اتنی ہی شدّت سے اس پر حاوی ہوتا تھا .. وہ اس کے سامنے نہیں تھا لیکن ایسا لگتا تھا کے جیسے اس کی گہری براؤن آنکھیں اسے ہی دیکھ رہی ہوں اسی کے چہرے کا طواف کر رہی ہوں .. فاریہ کے جھنجھلاہٹ کا باعث اس کی پراسرار سی خاموشی تھی .. وہ کچھ کہتا ہی تو نہیں تھا ..لیکن اس کی آنکھیں .. کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بہت سی کہانیاں سنادیتی تھیں .. وہ ڈر جاتی تھی اس کی بھید بھری آنکھوں کی چمک سے .. دل کو عجب سا دھڑکا لگا رہتا تھا کے یہ انسان کچھ نہ کچھ غلط ضرور کرے گا .. اس کی خاموشی ایسے ہی نہیں ہے کسی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ لگتی تھی .. اور جس دن اس نے اپنی چپ توڑی ..!!” اس نے دہل کر اپنے دل پر ہاتھ رکھا تھا اس سے آ گے وہ سوچ نہ پاتی تھی .. ساری زندگی اس نے پاکستان سے باہر ایک آزاد ملک کے ماحول میں زندگی گزاری تھی .. اپنے لئے ریاض کی بدلتی نظر وہ پہلی ملاقات میں ہی پہچان گئی تھی جب ..!!” چار ماہ پہلے .. اشعر اور لائبہ کی مہندی کی رات ..!!” گرین اور یلو امتزاج کا لہنگا پہنے بڑا سا نیٹ کا دوپٹہ سلیقے سے شانو پر پھیلاۓ ہاتھوں میں کانچ کی میچنگ چوڑیاں چڑھاتے ہوئے وہ کوریڈور سے گزر رہی تھی تقریب کی ارینجمنٹ لان میں کی گئی تھی .. لیکن ایک تو اسے اونچی ہیل پہنے کا پہلے کوئی تجربہ نہیں تھا جانے کیسے لہنگا اسکے پیروں میں الجھا تھا وہ بوکھلا کر گرنے ہی لگی تھی کے عین اسی وقت اشعر کے کمرے سے گفٹس کے باکسز لئے نکلتے ریاض کی نگاہ اس پر پڑی تھی جلدی سے ڈبے ایک طرف اچھال کر وہ اس کی جانب بڑھا تھا لیکن اسے سنبھالتے سنبھالتے خود بھی گر پڑا تھا .. فاریہ کی چوڑیاں ساری یہاں وہاں بکھر گئیں تھیں آدھی تو ویسے ہی ٹوٹ گئیں تھیں .. وہ کاجل سے لبریز آنکھیں تحیر سے پھیلاۓ اسے دیکھ رہی تھی جو یک ٹک اس کی آنکھوں میں ہی دیکھے جا رہا تھا .. مہندی سے سجے اس کے دونوں ہاتھ ریاض کے سینے پر دھرے تھے ..جن کی نرماہٹ وہ اپنے دل میں اترتی صاف محسوس کر سکتا تھا .. اس کے لئے تو جیسے وقت ہی رک سا گیا تھا .. ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں اس نے گرنے کی وجہ سے فاریہ کے چہرے پر آئی لٹھوں کو پیچھے کیا تھا .. وہ تو حیرت زدہ ہی رہ گئی تھی اس کی اس قدر بے بے باکی پر ..صد شکر کے اس وقت سب لان میں تھے وہاں کوئی نہ تھا لیکن اگر کوئی انھیں اس حالت میں دیکھ لیتا تو ؟ .. اسے شرم سے جھرجھری آ گئی تھی ڈوب مرنے کا مقام تھا اس کے لئے تو .. “پیچھے ہٹو ..!!” اس کے سینے پر دباؤ ڈالتے ہوئے وہ اسے خود سے دور کرنے کی کوشش میں دبی آواز میں غرا کر بولی تھی .. ریاض کا تو جیسے سکتہ ٹوٹا تھا ..جھٹکے سے وہ حال کی دنیا میں واپس آیا اور جب فا ریہ کے سرخ چہرے پر نظر کی تو شرمندہ سا وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا اسے سہارا دینے کے لئے ہاتھ بھی بڑھایا تھا جسے نظر انداز کرتی وہ خود ہی لہنگا سنبھالتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی .. ریاض اس سے سوری کہنا چاہتا تھا لیکن وہ تو کچھ کہے سنے بغیر ہی تیکھی نظروں سے اسے گھورتی جلدی سے وہاں سے چلی گئی تھی ریاض کو لگا تھا جیسے ساری روشنیاں ہی ماند پڑ گئی ہو اس نے بے ساختہ خود کو اپنی اس حرکت پر کوسا تھا .. لیکن یہ بھی سچ تھا کے وہ خالی جسم لئے وہاں کھڑا رہ گیا تھا وہ حیران تھا اپنے دل کی بغاوت پر .. “اشعر کی بہن ؟؟..!!!” اس نے چونک کر اس راستے کو دیکھا جہاں سے وہ گئی تھی .. “نہیں ..نہیں !!” وہ سر تھام کر رہ گیا تھا ..
“یار چار بج گئے ہیں تم لوگ ابھی تک ہال میں نہیں گئے ؟ ان کا شو بس شروع ہی ہونے والا ہوگا ..!!” حیدر نے ان سب کو آرام دہ انداز میں وہیں گراؤنڈ میں کرسیوں پر جمے دیکھ کہا تھا ..
اسے کچھ زیادہ ہی جلدی تھی ان کا شو دیکھنے کی .. ” بیٹھ جا ..!!” تیمور نے ایک کرسی اس کی طرف بڑھا ئی تھی .. “لیکن ..!!” اسنے کچھ کہنا چاہا تھا .. “بیٹھ جا بھائی ..ان کا شو یہیں ہونے والا ہے ..!!” حارث کے لاپرواہی سے کہنے پر وہ حیران سا کرسی پر بیٹھا تھا اور ایک نظر گراؤنڈ میں مزے سے گھومتے ان سٹوڈنٹس کو دیکھا .. ” یہاں ؟؟…!!” اس نے کنفرم کرنے کے لئے ایک دفعہ اور پوچھا تھا .. اشعر نے آثبات میں سر ہلاتے ہوئے چپس کا پیکٹ اس کی جانب بڑھایا تھا .. جسے اس نے تھام تو لیا تھا لیکن اب ایک نئی بے چینی ہونے لگی تھی کے اتنے رش میں وہ کیسے پرفارم کریں گے .؟.. ہاتھ سے پنکھا جھلتے وہ بے زاری سے یہاں وہاں دیکھ رہا تھا جبھی احمد اس کے برابر میں آ بیٹھا تھا پروفیسر ہونے کی وجہ سے بلیک کلر کے کوٹ پینٹ میں ملبوس تھا لیکن کوٹ کے بٹن کھول رکھے تھے گرے آنکھوں کو بھی ڈارک گلاسز سے چھپا رکھا تھا .. ٹانگ پر ٹانگ رکھے کہنی کرسی کے ہتھ پر ٹکاۓ ہاتھ کی مٹھی سی بنا کر گال تلے رکھی ہوئی تھی گاہے بگاہے کلائی پر بندھی گھڑی پر بھی نگاہ ڈال لیتا تھا .. وہ مغرور نہیں تھا لیکن اسے پہلی دفعہ دیکھنے والے سب یہی راۓ اس کے بارے میں قائم کرتے تھے .. “برو ..تو پروفیسرز کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھا ؟..!!” حیدر نے اس کی جانب جھک کر رازداری سے پوچھا تھا ..کیوں کے اصولآ تو اسے وہیں بیٹھنا چاہیے تھا .. ” عادل نے ریکویسٹ کی تھی مجھ سے ..کے میں تم لوگوں کے ساتھ بیٹھوں ..ڈیٹس واۓ ..!!” اس نے ہلکے سے شانے اچکاۓ تھے .. تب حیدر نے دیکھا تھا وہ سب واقعی میں ایک لائن میں ہی بیٹھے تھے .. “اف ..کیا کرنے والا ہے یہ عادل ؟..!!” اس پر پھر بے چینی سوار ہو گئی جبھی ایک طرف بڑی سی میز پر اتنی دیر سے تین چار رکھے ایکو میں سے بجتے گانے رک گئے تھے .. “فریز ..!!” آواز گونجی تھی .. وہاں چلتے پھرتے سینکڑوں سٹوڈنٹس جیسے فریز ہو گئے تھے .. جو جہاں تھا وہیں تھم گیا .. “مطلب کے یہ سب ؟..!!” انہوں نے ابھی اتنا ہی سوچا تھا کے سامنے سٹئیرس پر بیٹھے گروپ میں سے ایک لڑکا اٹھا تھا ..سب کی نظریں اس پر اٹھی تھیں جو دو دو سٹیپس پھلانگ کر نیچے اترا تھا اور پاس ہی فریز ہوئے کسی لڑکے کو بلاوجہ تھپڑ رسید کر کے اس سے سن گلاسز چھین کر آنکھوں پر لگا چکا تھا .. “ایم این اے کا بیٹا ..حمزہ حیدر علی ہوں میں ..!!!” ایکو میں سے بجتی تیز آواز پر وہ سب حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے .. “مجھ سے پنگا کیا تو اسی وقت جیل کے اندر پٹخ سکتا ہوں ..!” دونوں ہاتھ جینز کی جیبوں میں اڑسے گردن اکڑاۓ وہ سر اونچا کئے کھڑا تھا .. وہ عادل کے گروپ کا ہی لڑکا تھا جو اس وقت غالباً حیدر بنا ہوا تھا .. ہزاروں لوگوں سے بھرا جامعہ کا گراؤنڈ سیٹیوں اور تالیوں سے گونج اٹھا تھا .. دفتآ اس نے دونوں ہاتھ سر کے اوپر لے جا کر شکریہ کے سے انداز میں جوڑے تھے پھر چٹکی بجائی تھی جس سے فریز ہوئے سٹوڈنٹس ہوش میں آ کر پھر سے موو کرنے لگے تھے سیٹی پر دھن بجاتے اچھلتا کھودتا دوبارہ سا سیڑھیاں چڑھ گیا تھا .. جونیئر حیدر ..!!” تیمور نے ہنستے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا تھا جو شاک سے نکلنے کے بعد سر نفی میں ہلاۓ ہنس دیا تھا .. ” کیا میں ایسے کرتا ہوں ؟..!!” وہ مصنوئی ناراضگی سے ان سے پوچھنے لگا تھا .. ” بلکل ..!!”. وہ یک زبان بولے تھے .. اتنے میں پھر سے ایکو میں تیز میوزک بجا تھا .. سب کی نظریں مین گیٹ کی جانب اٹھی تھیں جہاں دھواں دھواں سا ہو رہا تھا کچھ ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن اچانک ہی ایک ہیوی بائیک دھویں کو چیرتی تیزی سے اس طرف آتی دکھائی دی.. بائیک سوار نے ہیلمٹ پہن رکھا تھا لیکن بائیک کے آگے ہی بڑا سا “RC ” لکھا تھا جسکا مطلب صاف تھا .. ریاض چوہدری .. “لے تو بھی آ گیا ..!!” اشعر نے ہنستے ہوئے اسے کہا تھا .. لیکن اس بائیک سوار کے پیچھےبیٹھے پر جوش انداز میں دونوں ہاتھ اٹھاۓ حاضرین محفل کے شور کا جواب دیتے وہ لڑکا .. حیدر ؟..!! پھر سے ؟..!!” یہ اتنی جلدی وہاں کیسے پہنچا ..!!” وہ سب حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے … اپنا ہیلمٹ ہٹا کر وہ گردن اکڑاۓ سٹائل سے بائیک سے نیچے اترا تھا .. لیکن ایک جانب سے لڑکیوں کے ٹولے کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ وہ گھبراتے ہوئے وہاں سے بھاگا تھا .. سب جانتے تھے اس کی گرلز الرجک عادت کو .. ان کا رش کچھ ہٹا تو سامنے کا منظر بلکل صاف تھا کوئی بھی نہیں تھا صرف ایک شخص کے جو بلیک جینز اور ہڈی والی شرٹ پہنے ھڈ سر پر گراۓ سیڑھیوں پر ایک پیر کھڑا کیے دوسرا لٹاۓ پراسرار انداز میں بیٹھا تھا .. دلربا ..مانا ہے قاتل تیری ادا .. لاکھوں ہیں تجھ پے فدا .. یوں نہ ہم سے نظریں چرانا .. “میں دیوانہ ..ہوں میں دیوانہ .. ایسے جانے نہ دوں گا جانا ..!!” جھٹکے سے ھڈ اٹھا کر کھڑے ہوتے ہوئے اس نے ایک آنکھ دبائی تھی “کون ہوں میں ؟..!!” ایک ہاتھ کان کے پاس رکھے اس نے چیخ کر کہا “ارمان..احمد …خانزادہ ہ ہ ہ …!!!” سب کی یک زبان چنگھآرٹی ہوئی آواز گونجی .. شرارتی انداز میں سب کی گردنیں احمد کی جانب مڑی تھیں ..جو مسکراہٹ دبانے کی کوشش کر رہا تھا .. ..اپنے پیچھے ایک طرف اشارے کرتے وہ سائیڈ پر ہو گیا تھا جہاں سے غصے میں بھری دو لڑکیاں آتی دکھا ئی دی تھی .. اور ان کے پیچھے فدا انداز میں گرتر پڑتے آتے اشعر اور حارث کے کاپی .. کچھ تو بتا ارے کچھ تو بتا .. فون کا نمبر گھر کا پتا … ان کی حرکتوں پر ایکو بھی ساتھ ساتھ زور و شور بج رہا تھا .. مناہل اور لائبہ کے منہ حیرت سے کھلے تھے ..سب کے ہوٹنگ کرنے پر انہوں نے چہرے ہی چھپا لئے تھے لیکن اشعر اور حارث نے ایسی کوئی کوشش نہیں کی تھی دانت نکالے ڈھٹائی سے ہنستے رہے تھے … ہے اپنا دل تو آوارہ … نہ جانے کس پے آۓ گا .. کانوں میں ہینڈز فری لگاۓ وہ مگن سا چلتا جا رہا تھا ایک جگہ چونک کر رکا .. کیوں کے سامنے ہی دو لڑکے کھڑے کسی بات پر جھگڑ رہے تھے .. “اب تیری باری ہے ..بے غیرتاں .!!” حیدر نے تیمور کی جانب جھک کر شرارت سے کہا تھا .. ایک کان سے ہینڈز فری کھینچ کر نکالتے ہوئے وہ ان پر پل پڑا تھا .. “کیا ہوا ؟؟ …ارے کیا ہوا بھائی کیوں مار رہا ہے اسے ؟..!!” زور زور سے مکے مارتے ہوئے وہ ساتھ ہی چیخ کر دوسرے سے وجہ بھی پوچھ رہا تھا .. “ابے میں نے اس کا برگر گرایا ہے ..!!” وہ سرعت سے اپنے ساتھی تیمور سے بولا جو بنا بلاۓ نہ صرف اس کی مدد کو آیا تھا اوپر سے بات جانے بغیر اس کا ساتھ بھی دے رہا .. “اوہ ..مطلب میں غلط بندے کی سائیڈ لے رہا تھا اتنی دیر سے ..!!” اس نے سر پر ہاتھ مارا دوسرے ہی لمحے وہ آستین چڑھاتا اسے کالر سے پکڑ کر نیچے گرا چکا تھا .. “اوے ….او تیمور ..!!” سائیڈ پر سے آنی والی زور دار آواز پر سب کو گردنیں گھومی تھیں ..جہاں ایک دفعہ پھر حیدر صاحب کتابیں ہاتھ میں لئے موجود تھا .. اسے وہیں گرا چھوڑ کر وہ اس کی جانب بھاگا تھا .. تین لڑکے اب سامنے آ رکے تھے جنہوں نے پلے کارڈز ہاتھ میں اونچے کر کے اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا .. A Tribute to The Kings of KU ( Karachi Uni) The Best Buddies .. وہ سب چپ تھے ایک دم چپ ..دم سادھے سامنے دیکھ رہے تھے ..آج سے پہلے کبھی اتنا اسپیشل فیل نہیں ہوا تھا ..کیا واقعی میں جامعہ میں رونق ہم سے ہے ؟.. چھ ہیوی بائیکس ایک ساتھ وہاں آ کر رکی تھیں .. آنکھوں پر لگے گاگلز اتار کر ایک طرف پھینکے وہ سب ایک لائن میں کھڑے تھے .. تیرے ساتھ جو میرا ساتھ ہے .. پھر کیا مشکل کی بات ہے .. پھر دیکھو سہارے .. دوستوں سے بہاریں .. اس رشتے کو ہے یہ دعا … دکھ مل کر سنوارے سکھ مل کر گزاریں .. یار یاروں سے ہو نہ جدا .. چاہیے جتنی دیواریں حوصلہ پھر نہ ہارے .. یار یاروں سے ہو نہ جدا .. نہ نہ نہ نہ نہ نہ نہ نہ اس دفعہ ان چاروں کا حیران ہونا بنتا تھا ..وہ لوگ حیران تھے بہت زیاد کیوں کے سامنے موجود ان سب کے کاپیز گرین کلر کا کپڑا سا گلے میں ڈالے ایک ساتھ ایک جیسے سٹیپس پر پرفارم کر رہے تھے اور ایکٹ بھی کون سا ؟.. وہ جو ان سب نے چودہ اگست کے فنکشن میں کیا تھا .. سٹیپ باۓ سٹیپ ..سیم ایکسپریشن کے ساتھ .. تیز بجتے ایکو اور سامنے پرفارم کرتے ان سب کو دیکھ کر حیدر ایک ٹرانس سے نکلا تھا جیسے اس کا کنٹرول اتنا ہی تھا دوسرے ہی لمحے وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کے ساتھ شامل ہو چکا تھا ..خوشی سے بے قابو ہوتے عادل نے ایک گرین بڑا سا دوپٹہ ٹائپ اس کے گلے میں ڈال دیا تھا سٹیپس تو اسے ابھی بھی ازبر تھے .. کیا ہے من میں کہیں .. دل میں یہ جھانک لے .. رنگ چہرے کے سارے پڑھے .. وہ جو ہر درد کے سامنے آ گئے .. خود کو مشکل کے آگے کرے … سارے مل کے پکارے .. غم مل کے سدهارے .. اس رشتے کو ہے یہ دعا .. سکھ مل کے گزاریں دکھ مل کے سدھاریں.. یار یاروں سے ہو نہ جدا .. ٹیم کے لڑکے انھیں بھی اپنے ساتھ وہاں کھینچ لاۓ تھے .. “اس گستاخی کے لئے معافی …!!” عادل کی دیکھا دیکھی ان پانچ لڑکوں نے بھی کان شرارت سے کان پکڑ لئے تھے .. “میں نے تو آج آئینہ دیکھا ..!!” حیدر نے ہنستے ہوئے بے ساختہ اپنے کاپی کو گلے لگایا تھا .. ” لیکن میرے لئے بہت مشکل تھا تمہیں کاپی کرنا ..یار اتنی تباہی کیسے مچا لیتے ہو ؟ ..!!” ” حیدر بننا ہر کسی کے بس کی بات نہیں بیٹا ..اس کے لئے بہت زیادہ کیوٹنس اور ڈھیٹ ہونا چاہیے …!!” اس نے آنکھ مارتے ہوئے اس کا کندھا تھپکا تھا .. “آئی کین انڈرسٹینڈ ..!!” وہ بھی ہنس پڑا تھا ..
گروپ سلفیاں لیتے سب ہمیشہ ایک دوسرے سے رابطہ میں رہنے کے وعدے وعید لے رہے تھے .. اب طالب علمی کا دور گزر چکا تھا کل ڈگری بھی مل جانی تھی سب اپنے اپنے خوابوں کی تعبیر کو پانے کے سفر پر نکل پڑتے ایسے میں کسے یاد آتا کے کبھی ہمارا کوئی دوست کوئی غمگسار بھی ہوا کرتا تھا جس کے ساتھ مل کر ہم کتنے ہی شرارتیں کیا کرتے تھے لڑتے جھگرٹے بھی تھے لیکن پھر مان بھی تو جاتے تھے .. بھیگی آنکھوں اور مسکراتے لبوں کے ساتھ وہ سب نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو الوداع کہ رہے تھے .. کچھ تو ایسے بھی تھے جن کی ایک دن بھی ایک دوسرے سے نہ بنی تھی غصّہ اتنا آتا تھا کے اس کی شکل دیکھتے ہی راستہ بدل لیا کرتے تھے لیکن آج کے دن تو وہ بھی سارے شکوے شکایتیں بھلاۓ ایک دوسرے سے بغلگیر ہوئے فون نمبرز کے تبادلے کر رہے تھے کے جانے پھر کبھی ملاقات ہو یا نہ ہو …
چار سال کا یہ طویل عرصہ کیسے گزرا پتا ہی نہ چلا ابھی کل ہی کی تو بات لگتی تھی جب ان سب نے بی کام میں ایک ساتھ ایڈمشن لیا تھا کتنے ہی خوبصورت پل ,یادیں اس جامعہ سے جڑی تھیں سٹوڈنٹ لائف ہی تو پوری زندگی کا سب سے سنہرا دور ہوتا ہے جس میں صرف بے فکری ہوتی ہے مستی ہوتی ہے اور کچھ نہیں .. جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ سٹیپس پر کھڑے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے نیچے گراؤنڈ میں دیکھ رہا تھا جہاں ان کی کتنی ہی یادیں بکھری ہوئیں تھیں .. پروفیسرز کو تنگ کرنا اور سٹوڈنٹس کا جینا حرام کئے رہنا ان کے گروپ کی خاصیت سمجھی جاتی تھی ..اور وہ کونے میں لگا بڑا سا درخت جس کی چھاؤں میں بیٹھ کر انہوں نے کتنی کلاسیس بنک کی تھی اس درخت کو تو انہوں نے جیسے اپنی ذاتی پروپرٹی سمجھا ہوا تھا کوئی بھولے بھٹکے سے بھی وہاں آ جاتا تھا تو اس کی ایسی درگت بنتی تھی کے بیچارہ کانوں کو ہاتھ لگاتے وہاں سے بھاگتا تھا .. لمحے کے لئے حارث تھم گیا تھا وہ صاف دیکھ سکتا تھا اس درخت کے نیچے وہ احمد کے ساتھ بیٹھا تھا جس کے پیروں پر سر رکھے تیمور سو رہا تھا اسے اچھے سے یاد تھا جب ان سب نے مل اس کا چہرہ خراب کر کے اس پر پانی پھینک کر جگایا تھا اور پھر سیلفز بھی تو لی تھیں ..اور پہلے کتنی نیند آتی تھی تیمور کو .. ہر جگہ ہی سویا ہوا پایا جاتا تھا لیکن پھر یہ عادت اس سے حارث میں ٹرانسفر ہو گئی .. کسی نے پشت سے اس کا کندھا تھپکا تھا وہ چونک کر مڑا تھا پیچھے تو کوئی بھی نہ تھا لیکن .. سر پٹ دوڑتا حیدر اور اس کے پیچھے جان لینے کے درپے بھاگتا تیمور .. “حارث ..!! …ادھر ..ادھر دیکھو ..!!” زرنور کی آواز پر اس نے سائیڈ پر دیکھا تھا جہاں سے وہ اور مناہل باتیں کرتی ہوئی جا رہی تھی لیکن ایک جگہ وہ رکی تھی کیوں کے حیدر ان کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا تمیز کے دائرے میں رہتے ہوئے نجانے اس نے کیا کہا تھا اور پھر زمین پر لٹکتا اس کا دوپٹہ اٹھا کر جھاڑ کر اسے تھما کے سیلیوٹ کرتے ہوئے وہ واپس وہیں آ کر بیٹھا جہاں اشعر ,ریاض ,تیمور کے ساتھ وہ خود بھی تو تھا ..ہاں حارث بھی وہیں تھا اور زرنور کے ہرے سفید کپڑوں پر ہنس رہا تھا کے وہ چودہ اگست کا فلیگ لگ رہی ہے .. “کیا ہوا ؟..!!” احمد کی بات پر وہ چونک کر خیالوں سے باہر آیا تھا یادوں کا بلبلہ ہوا میں تحلیل ہو گیا تھا ..اب سامنے کوئی بھی نہ تھا گہری سانس بھرتے ہوئے وہ اس کی جانب متوجہ ہوا تھا .. ” اداس ہوں ..بہت زیادہ ..!!” اس کے افسردگی سے کہنے پر احمد نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا .. “خیر ہے ..اب تو ساری زندگی ہی یہاں نہیں گزار سکتے نہ ..کبھی نہ کبھی تو یہ دن آنا ہی تھا ..!!” ان لوگوں کے برعکس احمد کو زیادہ وقت نہیں ہوا تھا وہاں .. ” پھر بھی یار ..یہ بے فکری کے دن بھی کتنی جلدی ختم ہو گئے ..کل کونووکیشن ہے ..ڈگری مل جاۓ گی اس کے بعد شادی پھر آفس ,بچے ,گھر کی ذمہ داریاں ..جانے پھر کب یوں ساتھ مل بیٹھنا ہوگا ..!!” وہ اداسی سے کہے جا رہا تھا .. احمد کے پاس تسلی دلاسے دینے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا وہ اچھے سے اس کی فیلنگز سمجھ سکتا تھا .. ایسے موقعوں پر تسلی دلاسے دینے کے لئے شاید الفاظ بنے ہی نہیں .. یہ تو وہ وقت ہوتا ہے جب آزادی کو چھوڑ کر ذمہ داریوں کو مجبوری میں ہی سہی لیکن اپنانا پڑتا ہے ..
مایوں_اسپیشل
تین مہینے بعد ..!!”
بلیو جینز اور براؤن ٹی شرٹ پر سیاہ رنگ کا کوٹ پہنے بالوں کو جیل سے سیٹ کئے ایک ہاتھ میں سوفٹ ڈرنک کا کین پکڑے وہ ..”خانزادہ انڈسٹریز” کی شاندار سی بلڈنگ میں داخل ہوا تھا لفٹ کے ذریعے تیسرے فلور پر آتے ہوئے وہ ایک روم کے سامنے آیا تھا اور بغیر ناک کئے کین سے گھونٹ بھرتے سیدھا اندر بڑھا تھا جس کے باہر بیٹھی اس کمرے کے مالک کی سیکریٹری نے بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی .. وہ ضرور اس غیر اخلاقی حرکت پر نوٹس لے کر اسے روک کر باز پرس کرتی اگر اسے جانتی نہ ہوتی تو ..سر جھٹک کر وہ پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گئی .. پر تعیش خوبصورتی سے ڈیکوریٹ کئے اس روم کی “پاور چئیر پر پیچھے کو ٹیک لگاۓ بیٹھے احمد نے تعجب سے اسے دیکھا تھا .. “سلام ..!!” آدھا سلام کر کے خالی کین کو ڈسٹ بین میں اچھال کر وہ سائیڈ پر پڑے کاؤچ پر جا بیٹھا تھا .. “خیریت ہے برو ؟..!!” صوفے پر دونوں پیر اوپر کر کے گود میں کشن پر لیپ ٹاپ پر کام کرتے ریاض نے سر اٹھا کر چونک کر اسے دیکھا تھا .. “ہاں ..خیریت ہے کیوں ؟..!!” حیدر کو ان کا حیران سمجھ نہیں آیا .. پوچھا اس نے ریاض سے تھا لیکن جواب احمد کی جانب سے آیا تھا .. “سو ..خانزادہ انڈسٹریز کے ٹوئنٹی پرسنٹ شئیر ہولڈر کو کنٹریکٹ سائن کرنے کے دو ہفتے بعد آفس کو شکل دکھانے کا خیال آ ہی گیا ..!!” دونوں ہاتھوں کو باہم پھنساۓ راکنگ چئیر کو ہلکا سا گھماتے ہوئے اس نے نارمل سے انداز میں کہا تھا .. ” اب تو مجھے شرم دلانے کی کوشش مت کرنا کیوں کے تو اچھے سے جانتا ہے میری اور اس کی نہیں بنتی ..!!” لاپرواہی سے کہتے ہوئے اس نے ٹیبل پر پڑا فون اپنی جانب کھسکایا تھا .. ” میری کیا مجال کے تجھے شرم دلاؤں ؟ جب کے میں جانتا ہوں کے اگر شرم سے تیرا سامنا ہو جاۓ تو وہ بھی شرما کر بھاگ جاۓ ..!!” “تعریف کے لئے شکریہ ..!!” سر جھکاکر کورنش بجالاتے ہوئے اس نے نمبر ڈائل کر کے فون کان سے لگایا تھا جہاں اگلے ہی لمحہ رابطہ مل چکا تھا .. “حیات باجی ..زبردست سی ایک کپ چاۓ بھجوایے ملائی مار کے اور ساتھ میں کچھ سنیکس بھی ..!!” احمد کی سیکریٹری حیات مصطفیٰ جسے ایک دفعہ حیدر نے “حیات ڈئیر “کہ دیا تھا جس پر اس نے خاصا برا مناتے ہوئے احمد سے فوری اس کی کمپلین کی تھی اور بعد میں پھر احمد سے جھاڑ کھانے کے بعد نہ صرف اس نے حیات کو” سسٹر “کہ کر سوری کہا تھا اب تب سے اسے باجی ہی کہتا آ رہا تھا “گیارہ بج رہے ہیں حیدر صاحب ..ناشتہ نہیں کیا ؟..!!” احمد نے دو تین فائلیز اٹھا کر ان پر سرسری سی نظر ڈالتے ہوئے اس سے پوچھا تھا ..جو بے فکری سے پیر جھلاتے موبائل پر جھک چکا تھا .. ” وہ تو یہاں آنے میں ہی ہضم ہو گیا .!!” اسے جیسے اسی جواب کی توقع کی تھی حیدر سے . “گڈ ..ناشتہ کرنے کے بعد انھیں بھی دیکھ لینا ..اور ایک گھنٹے بعد نشاط اینڈ کمپنی سے جو میٹنگ ہے وہ بھی تجھے ہی کرنی ہے ..اور سب سے امپورٹنٹ چیز ..اگر ڈیل فائنل نہ ہوئی تو تیری خیر نہیں …!!” احمد نے وہ فائلیں اس کی جانب کھسکائی تھی اس نے موبائل سے نظریں ہٹا کر ایک ابرو اٹھا کر اسے دیکھا .. “میں کیسے میٹنگ کر سکتا ہوں ؟ ..میں نے تو کوئی تیاری ہی نہیں کی پریزینٹیشن کی ..نہ مجھے” ا “پتا ہے نہ “ب” ایسے منہ اٹھا کر میٹنگ کرنے جاؤں گا تو دو جوتے مار کر بھگا دیں گے مجھے .. !!” “ریاض ..!!” احمد نے اسے مخاطب کیا تھا .. ” میں نے کل میل کی تھی تجھے ..کیا تونے چیک کی حیدر ؟..!!” احمد کا اشارہ سمجھتے ہوئے اس نے لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے اس سے پوچھا .. ” نہیں تو ..!!” اس کا جواب بر جستہ تھا .. ” لیکن اس میٹنگ کا تو تجھے کنٹریکٹ والے دن ہی بتا دیا تھا ..!!” احمد نے اسٹینڈ پر پڑا کوٹ اٹھا کر پہنتے ہوئے اسے یاد دلایا تھا .. اب صحیح معنوں میں اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی تھی ..اچھے سے جانتا تھا کے احمد کام کے معاملے میں کتنا سخت ہے .. “میٹنگ ہی تو ہے صرف ..میری جگہ ریاض کر لے گا آخر کو وہ بھی تو تھرٹی پرسنٹ پارٹنر ہے اس کمپنی کا ..!!” فون کو ایک طرف رکھے اس نے لجاجت سے کہا تھا .. “مطلب تو نہیں جاۓ گا میٹنگ کرنے ؟..!!!” سیل فون کوٹ کی جیب میں رکھتے ہوئے اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا .. “نیکسٹ ٹائم پکّا چلا جاؤں گا برو ..وہ بھی پوری تیاری کے ساتھ ..!!” اس کے منت بھرے انداز پر احمد اور ریاض نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا .. ” چل ٹھیک ہے ..لیکن ہمارے واپس آنے تک آفس کو مانیٹر تو کر سکتا ہے نہ ؟..!!” “ہاں ہاں ..بلکل کر لوں گا تم دونوں ٹینشن فری ہو کر جاؤ ..اور نشاط انکل سے معذرت کر لینا میری طرف سے اور کہنا کے میٹنگ کے لئے تو حیدر نے ہی آنا تھا لیکن ضروری کام کی وجہ سے آ نہیں سکا !!” اس نے ریلکس انداز میں کاوچ پر نیم دراز ہوتے ہوئے کہا تھا اتنا ہی بہت تھا کے احمد مان گیا تھا .. “پہلی بات تو یہ کے” نشاط” کمپنی کے اونر کی بیٹی کا نام ہے اور دوسری بات یہ کے اس میٹنگ پر پہلے بھی مجھے اور احمد کو ہی جانا تھا اور ابھی بھی ہم ہی جا رہے ہیں کیوں کے تجھے بغیر کسی تیاری کے میٹنگ پر بھیج کر ہمیں اس کمپنی کا جنازہ نہیں نکالنا تھا ..!!” موبائل پر نمبرز پریس کرتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے لیپ ٹاپ اٹھاۓ وہ دروازے کی جانب بڑھا تھا .. “ریاض ..قریشیز کی فائل کا کام فائنل ہو گیا تو مجھے میل کرنا ..کب سے پینڈینگ میں پڑی ہے ان کے ساتھ میٹنگ .اور حیدر ..ہمارے واپس آنے تک یہ کام ختم ہو جانا چاہے …!!” ریاض کو ہدایت دیتے ہوۓ اس نے ٹیبل پر پڑی دو تین فائلز کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے حیدر کو یاد دہانی کروائی تھی .. جامعہ سے ریزائن دینے کے بعد اب وہ سارا ٹائم اپنا کمپنی کو دے رہا تھا عدیل خانزادہ بھی ساری ذمہ داریاں اس پر ڈال کر ریٹائرمنٹ لے چکے تھے .. ریاض کے والد ہاشم وسیم پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے ان کے کہنے کے با وجود اس نے وکالت نہیں پڑھی تھی ..اس لئے جب ڈگری کے بعد بزنس کا مسئلہ ہوا تو اس نے احمد سے مشورہ کیا تھا جس پر اس نے خود کے ساتھ پارٹنرشپ کی آفر کی تو اس نے خوشدلی سے قبول کر لی تھی اب ایک مہینے سے وہ تیس فیصد شئیر ہولڈر کی بیس پر اس کے ساتھ کام کر رہا تھا ..یہی حال حیدر کا بھی تھاموروثی سیاست سے بھاگ کر وہ احمد کے پاس ہی آیا تھا اب وہ بھی پچھلے دو ہفتے سے اس کا بیس فیصد پارٹنر تھا .. اشعر اور حارث نے بھی پارٹنرشپ میں کارز کا شو روم کھول لیا تھا جبکے تیمور اپنے باپ کے بزنس میں ہی ان کا ہاتھ بٹا رہا تھا ..
کھڑکی سے چھن چھن کر آتی سورج کی روپہلی کرنیں سیدھے اس کے چہرے پر پڑی تھیں کسمساتے ہوئے اس نے بلینکٹ سر تک تان لیا تھا لیکن دوسرے ہی لمحے کسی نے جھٹکے سے اس کے چہرے پر سے ہٹایا تھا .. “مناہل میڈم ..دس بج رہے ہیں ابھی بھی نہیں اٹھنا کیا ؟ بھول گئیں آج مایوں بیٹھنا ہے تم نے ..!!” “وہ تو شام کو ہے نہ ..ابھی سونے دو مجھے زر ..!!” کسلمندی سے کہتے ہوئے اس نے پھر سے بلینکٹ اوڑھنا چاہا تھا لیکن زرنور نے ایسا کرنے نہیں دیا تھا اس کے پاس سے اٹھا کر صوفے پر رکھ دیا تھا .. ” تو تم کیا پھر شام کو ہی اٹھوگی ؟ ..دیکھو ذرا شادی ہوئی نہیں اور ابھی سے حارث کی عادتیں اپنانے لگی ہو ..!!” زرنور کے باتیں سنانے پر جہاں وہ جھینپی تھی وہیں اندر آتی انوشے بھی ہنس دی تھی ..اب تو صرف حارث کا نام لینے پر ہی اس کے چہرے پر حیا کے رنگ بکھر جاتے تھے .. ” اٹھ گئے دلہے میاں ؟..!!” زرنور نے انوشے سے پوچھا تھا .. ” حیرت انگیز طور پر نہ صرف اٹھ گئے ہیں بلکے ڈیکوریشن بھی کروا رہے ہیں ..!!” انو شے شرارت سے کہ کر صوفے پر پھیلے شاپنگ بیگز کو اور باکسز کو اٹھا کر سائیڈ پر رکھنے لگی تھی دس دفعہ صاف کرنے کے بعد بھی جانے کیوں کمرہ بکھرا بکھرا ہی رہتا تھا .. شادی والے گھر میں کتنی ہی صفائی کر لو کم ہی ہوتی ہے .. باہر بھی چہل پہل شروع ہو چکی تھی شاید لائٹئنگ کا کام سٹارٹ ہو چکا تھا .. “اب تو اٹھ جاؤ ..!!” اسے دوبارہ سے سونے کی تیاری کرتے دیکھ زرنور نے کہا تھا .. ” یار بس پانچ منٹ ..!!” اس نے منت بھرے انداز میں کہتے ہوئے تکیہ چہرے پر رکھ لیا تھا . وہ پھر سے اٹھانے لگی تھی لیکن انوشے کے اشارہ کرنے پر رک گئی تھی .. حارث ..تم کیوں آ گئے یہاں ؟ فورآ باہر جاؤ ..دلہن کے کمرے میں آنے کی کسی کو اجازت نہیں ..!!” انو شے کے پاٹ دار انداز پر کہنے پر مناہل ہڑبڑا کر اٹھی تھی کے حارث اس کے کمرے میں کیا لینے آیا ہے ؟ لیکن سامنے حارث کے بجاۓ ان دونوں کی شرارتی مسکراہٹ دیکھنے کو ملی تو جھینپ مٹاتے اس نے اٹھنے کو ہی ترجیح دی تھی .. ایسے لہرا کے تو روبرو آگئی .. دھڑکنے بے تحاشا تڑپنے لگی .. تیر ایسا لگا درد ایسا جگا چوٹ دل پے وہ کھائی مزہ آگیا .. ایکو کی چنگھاڑتی ہوئی آواز پر ان دونوں کے کان جھنجھا اٹھے تھے بے ساختہ کانوں پر ہاتھ رکھے تھے .. مناہل وارڈروب سے کپڑے لئے واش روم جا چکی تھی .. اتنے تیز میوزک پر گھر کی دیواریں ہلتی ہوئی محسوس ہو رہیں تھیں ..لیکن یہ تو سائن تھا کے ..ہاں حمزہ حیدر علی کی تشریف آوری ہو چکی ہے ..
گزشتہ ایک مہینہ شادی کی تیاریوں میں ہی نکلا تھا لیکن ابھی بھی دسوں چیزیں تھیں جو خریدنا باقی تھی زرنور اور انوشے تو ایک ہفتے پہلے ہی وہاں رہنے آ گئی تھیں صبح شام مارکیٹوں اور ٹیلر کے ہاں چکر لگا کر اور پھر کپڑوں اور جیولری وغیرہ کو پیک کرنے میں پورا دن کیسے گزرتا تھا پتا بھی نہیں چلتا تھا لائبہ اور فاریہ بھی صبح آتی تو کہیں رات کو جا کر واپس جا پاتی تھی تیاریوں میں تو وہ سب ہی گھن چکر بنی ہوئی تھیں ابھی بھی آدھی چیزیں کوئی رہتی تھی لیکن حارث اور مناہل کی امی کے کہنے پر ہی اسے تین دن پہلے ہی مایوں بٹھایا جا رہا تھا کے باقی چیزیں تو بعد میں آتی رہیں گی کھلتے پیلے رنگ کے چوڑی دار پاجامے اور لونگ شرٹ پر شیفون کا بڑا سا دوپٹہ کندھے پر ڈالے وہ فریج میں سے پھولوں کا بڑا سا شاپر نکال رہی تھی جس میں ریاض کو ذبردستی بھیج کر پھولوں کے زیور تیار کرواۓ تھے .. ” ہئیے نور بانو ..آج تو سورج مکھی کا پھول لگ رہی ہو ..!!” حیدر کے چھیڑنے پر اس نے زور دار آواز سے فریج کا دروازہ بند کیا تھا .. ” شٹ اپ حیدر ..!!” “اچھا یہ بتاؤ کے ہال کیسا لگ رہا ہے ؟..!!” حیدر نے اس کی توجھ ہال کی جانب مبزول کروائی تھی جہاں اشعر اور ریاض ابھی بھی فائنل ٹچ دے رہے تھے .. دیواروں پر جا بجا لڑیوں کی صورت میں لٹکتے گیندے کے پھول اور لائٹس ..اور ٹھیک سامنے بڑے سے تخت کو پیلے رنگ کے کپڑے سے کوور کئے گیندے کے ہی پھولوں سے سجایا گیا تھا .. نشست کا انتظام بھی نیچے فرش پر ہی سفید اور پیلے رنگ کی چادر بچھا کر کیا گیا تھا .. تخت کے سامنے رکھی شیشے کی ٹیبل کو بھی پھولوں سے سجایاہوا تھا .. گو کے فنکشن بس چھوٹا سا ہی گھر میں کرنا تھا جس میں زیادہ مہمانوں کو بھی مدعو نہیں کیا گیا تھا لیکن ان لوگوں نے اس پر بھی کافی محنت کی تھی بڑی خوبصورتی سے ہال کو سجایا تھا .. بے ساختہ اسکے لب ستائش سے واؤ کے انداز میں کھلے تھے .. ” بس بس ..تعریف کی ضرورت نہیں ..!!” صرف اس کے انداز پر ہی حیدر نے گردن اکڑالی تھی .. زرنور نے اسے دیکھا تھا بے ساختہ اس کے حلیے پر ہنسی تھی .. چند پھولوں کی لڑیاں اس کی گردن مفلر کی صورت میں لپٹی ہوئی تھیں چہرے اور بالوں پر بھی جا بجا پتیاں چپکی ہوئیں تھیں .. “جا کر اپنا حلیہ ٹھیک کرو ..بلکل بندر لگ رہے ہو ..!!” “مجھے دیکھ کر تمہیں بندر کیوں یاد آ جاتا ہے ؟ ..!!” منہ بناتے ہوئے وہ ہاتھ سے بال سنوارنے لگا تھا .. “میری غلطی نہیں ..تمہاری حرکتیں ہی اس کی یاد دلادیتی ہیں ..!! بے نیازی سے کہتے ہوئے وہ پھول ٹرے میں منتقل کئے وہاں سے جا چکی تھی .. “بھلے سے بندر ہوں ..لیکن تم تو جانتی ہی ہوں گی نور بانو کے بندروں کا بھی ایک بادشاہ ہوتا ہے . the monkey king اور وہ کنگ میں ہوں ..!!” وہ پیچھے سے چلایا تھا…
پیلے رنگ کا لباس اور پھولوں کے زیور پہنے ہاتھوں میں سوٹ کے ہم رنگ ڈھیروں چوڑیاں چڑھاۓ دوپٹے کا گھونگھٹ سا نکالے وہ بے حد پیاری لگ رہی تھی حارث کی امی نے سب سے پہلے اسے ہلدی لگا کر رسم کا آغاز کیا تھا پھر باقی سب نے بھی اسے ہلدی لگائی تھی .. “ایک منٹ ..ایک منٹ ..کدھر چلے آرہے ہو ؟..!!” سیڑھیوں سے اوپر آتے دیکھ ان لوگوں کو زرنور اور لائبہ نے وہیں روک لیا تھا .. ملک ہاؤس ڈبل سٹوری تھا جہاں اوپر کے پورشن میں حارث کی فیملی رہتی تھی اور نیچے مناہل کی لیکن شادی کی وجہ سے لڑکیوں کے اصرار پر انھیں اوپر شفٹ کردیا گیا تھا کے نیچے سب مہمانوں کا آنا جانا لگا رہے گا اور ابھی مایوں کا انتظام بھی اوپر ہی کیا گیا تھا .. صبح سے ڈیکوریشن کے کام میں حال سے بے حال ہونے کے بعد ابھی سب نہا دھو کر فریش سے اوپر آۓ تھے تاکے رسم میں شرکت کر سکیں .. “انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کے آپ سب واپس نیچے تشریف لے جائیں ..کیوں کے یہ فنکشن خالصتآ لڑکیوں کا ہوتا ہے آپ سب کا یہاں کوئی کام نہیں .!!” چہرے پر مصنوئی مسکراہٹ سجاۓ لائبہ نے شرافت سے انھیں دفع ہو جانے کے لئے کہا تھا .. ” یہ کیا بات ہوئی ؟..چار گھنٹے لگا کر محنت ہم نے کی صبح سے مارکیٹ کے چکر لگا کر پاگل ہم ہو رہے ہیں کبھی پھول ختم ہو گئے کبھی تھال گم ہونے پر پھر سے لینے جا رہے ہیں اور ہمیں ہی یہاں سے بھگایا جارہا ہے ؟۔۔ٓ” سب سے زیادہ موڈ تیمور کا خراب ہوا تھا وہ صحیح کہ رہا تھا صبح سے اس کا ایک پیر گھر میں تھا اور دوسرا مارکیٹ میں .. سب سے بڑا دکھ تو انوشے کو نہ دیکھ پانے کا تھاکے جانے زرد رنگ میں کیسی لگ رہی ہوگی ایک تو وہ اس سے اتنا کتراتی رہتی تھی “شکریہ تمہاری قربانیوں کا ..لیکن ہم تمہیں پھر بھی نہیں بلا سکتے ..!!” لاؤنج چونکے کھلا سا تھا اس لئے ایک سرے سے دوسرے تک بڑا سا پیلے رنگ کا ہی کپڑا سا لگا دیا گیا تھا اور اب وہ لوگ لاکھ اچک اچک کر جھانکنے کے بعد بھی ٹھیک سے دیکھ نہیں پا رہے تھے .. ” کیا لنگوروں کو طرح اچھل رہے ہو سیدھے کھڑے رہو ..!!” زرنور نے گھور کر کہا تھا .. “نور بانو ..مجھے تو بلا لو ..ایک ڈی جے کی ضرورت تو پڑے گی نہ تم لوگوں کو میں گانے گا لیا کروں گا ..!! حیدر نے خوشامدی انداز میں اسے کہا تھا .. “کوئی ضرورت نہیں ..تمہارے گانے سن کر ہمیں سر درد نہیں کروانا ..!!” بازو سینے پر لپیٹے اس نے بے زاری سے کہا .. ” اوے ..تیری بے عزتی کر رہی ہے ..!!” تیمور نے حیدر کی جانب جھک کر کہا تھا .. “نہیں ..نہیں یہ بے عزتی تھوڑی ہے یہ تو پیار ہے اس کا ..!!” “اوے ..آ گئے تم لوگ ؟..!!” جبھی پردے کا کونہ ہلکا سا ہٹاتے ہوئے اشعر نے سر باہر نکال کر باچھیں کانوں تک پھیلاۓ مصنوئی حیرت سے کہا تھا لیکن اسے اندر دیکھ کر پہلے تو وہ اب شاک زدہ رہ گئے تھے لیکن اس کے بعد چیخ پڑے تھے .. “یہ یہاں کیا کر رہا ہے ؟..اسے کیوں اندر آنے دیا ؟ ..اسے کیوں منع نہیں کیا ..؟؟..!!” “چپ کرو ..کیوں اتنا شور مچا رہے ہو ؟..!!” دونوں نے کانوں پر ہاتھ رکھ لئے تھے .. ” وہ وہاں کیا کر رہا ہے ؟..!!” سب کا ایک ہی سوال تھا .. صدمہ ہی تو پہنچا تھا اسے وہاں دیکھ کر .. “کیمرہ مین کے فرائض سنبھال رہا ہے ..!!” “اس سے اچھی فوٹو گرافی تو مجھے آتی ہے ..!!” تیمور بد مزہ ہوا تھا .. “یار مجھے تو آنے دو اندر .. مجھے تو خود بلایا تھاتم لوگوں نے ..!!” وائٹ کاٹن کے شلوار قمیض پہنے حارث نے دوہائی دی تھی .. ” ہاں تو صرف تمہیں ہی بلایا تھا ساتھ میں ان بندروں کو لانے کی کیا ضرورت تھی ؟..!!” “میں تھوڑی لایا ہوں ..خود آۓ ہیں میرے پیچھے پیچھے ..!!” اس کی لا تعلقی پر وہ چیخ اٹھے تھے .. پہلے اشعر اور اب یہ .. ” کمینے …بے وفا تجھے جانے نہیں دیں گے ہم اکیلے ..!!” حیدر اور تیمور نے اسے دونوں بازو سے پکڑ لیا تھا .. ” چھوڑو ..ابے چھوڑو ..!!” “زرنور ..لائبہ بیٹا آنے دو بچوں کو اندر ..یہ بھی رسم کر لیں گے ..!!” سحرش بیگم کے اجازت دینے پر جہاں وہ دونوں بس مزہ ہوئی تھیں وہیں وہ لوگ بھی ایک دم ہی پر جوش ہو گئے تھے .. ” بھابھی جان ..پلیز سائیڈ پر ہو جائیں ..!!” ریاض نے مسکراتے ہوئے شرافت سے ہاتھ کے اشارے سے اسے ایک طرف ہونے کو کہا تھا .. جس پر انھیں گھورتے ہوئے نہ چاہتے ہوئے بھی اندر آنے دیا تھا ..
ابٹن کی تھال لئے وہ ابھی وہاں پہنچی تھی جب ریاض اور حیدر کی آواز کان سے ٹکرائی تھی .. تیری امّاں نے آج تجھے بھیجا .. یہ ڈھیلا جوڑا ..یہ نیلی پیلی چوڑیاں ..!!” سٹیل کی پلیٹ کو الٹا کئے اس پر پے در پے تھپڑ رسید کرتے ہوئے ایک ہی لائن کا راگ الاپے جا رہے تھے .. مناہل کی سات کلیوں والی فراک کو وہ دونوں “ڈھیلا جوڑا” کہ رہے تھے ..شکر کے وہ مایوں بیٹھی تھی ورنہ ان کی خیر نہیں تھی … اور اسے ہوش ہی کب تھا کسی چیز کا ..؟ حارث کے برابر میں بیٹھنے سے ہی وہ خود میں سمٹی جا رہی تھی .. خلاف عادت نظریں بھی جھکا رکھی تھیں .. “تم لوگ اپنے منہ ٹھیک کر لو پہلے ہی ان پیلے کپڑوں میں بھوتنیاں لگ رہی ہو ..!!” ” ریاض نے ان کے خراب موڈ پر چوٹ کی تھی جو ان کی وہاں موجودگی کی وجہ سے ہی تھا ..حیدر اور اشعر نے اس کی اتنی دیدہ دلیری پر کندھے تھپک کر شاباش دی تھی .. “بڑی ہمّت کی ہے بھائی جو منہ پر آئینہ دکھایا .. “شکریہ شکریہ ..!!” میز پر سے ابٹن کی تھال اٹھا کر وہ حارث کی سمت آیا تھا .. ” بھائی لوگ ..دوسرا بکرا بھی قربانی کے لئے تیار ہو چکا ..!!” پیچھے مڑ کر ان لوگوں کو کہتے ہوئے اس نے آستین چڑھاتے ہوئے تقریباً آدھی کٹوری ابٹن کی ہاتھ میں بھر کر حارث کے چہرے پر مل دی تھی .. اور صرف وہی نہیں ان سب نے بھی بے چارے کا وہی حشر کیا تھا پورا چہرہ , بال , کپڑے ..سب ابٹن میں بھر چکے تھے .. زر نور کا چہرہ غصے سے لال پڑ چکا تھا ایک تو ان لوگوں نے فنکشن خراب کیا اور دوسرا احمد وہاں موجود نہیں تھا .. اس کی نظریں بار بار سیڑھیوں کی جانب اٹھ رہی تھیں کے شاید اب آجاۓ ..لیکن ایک وہ تھا کے شاید نہ آنے کی قسم ہی کھا کر بیٹھا ہو جیسے .. ” نور بانو ..نور بانو .!!” حیدر کی کے آواز دینے پر جیسے خیال سے چونکی تھی .. ابھی کچھ کہنے ہی لگی تھی کے حیدر نے خوب سارا ابٹن اس کے چہرے پر لگا دیا تھا .. چند لمہے تو حیرت زدہ ہی رہ گئی کے یہ ہوا کیا ہے اس کے ساتھ ؟؟.. دوسرے ہی لمحے غصّے میں بھری وہ اس کو مارنے کو لپکی تھی .. لیکن فاریہ کے علاوہ ماہین انوشے اور لائبہ کے ہلدی میں بھرے چہرے دیکھے تو اور بھی زیادہ غصّہ آیا .. ” تم ..ٹھہر جاؤ ابھی بتاتی ہوں ..!!” میز پر دھرا شوپیز اٹھا کر وہ اسے مارنے کو لپکی ہی تھی کے وہ چکما دے گیا .. ” بقول حیدر کے اب صحیح والی بھوتنیاں لگ رہی تھیں وہ لوگ ..جب کے وہ سب جیسے آۓ تھے ابھی بھی ویسے ہی تھے مجال ہے جوہلدی کا ایک چھینٹا بھی لگا ہو ان کے چہرے یا کپڑوں پر .. اشعر نے ان سب کو وہاں سے نکلنے کا سگنل دیا تھا .. “ہمیں بہت اچھا لگا آپ کی تقریب میں آ کر ..بہت شکریہ ہمیں انوائٹ کرنے کے لئے ..!!” جاتے جاتے حیدر نے اچھے سمدھی ہونے کے فرائض نبھاۓ تھے .. ” بھابھیوں ..ہم لڑکے والے ہیں آفت تو مچائیں گے ہی نہ ؟…!!” وہ سب تو حارث کو لئے وہاں سے بھاگ لئے تھے ایک ریاض ہی تھا جو شیخی بھگارنے سیڑھیوں پر رک گیا تھا .. مناہل کا دوپٹہ ٹھیک کرتی فاریہ کی غیر ارادی نظر اس پر پڑی تھی ریاض نے بھی جبھی اسے دیکھا تھا ..نگاہوں کے تصادم پر جہاں وہ رخ ہی موڑ گئی تھی وہیں وہ مسکراتے ہوئے گہری سانس بھرتے ہوئے نیچے اتر آیا تھا .. ” کچھ تو کرنا پڑے گا ..!!”
“اوے ..چڑیل دیکھے گا ؟..!!” حیدر نے صوفے پر نیم دراز ریاض کے کان سے ہینڈز فری کھنچتے ہوئے پوچھا تھا ..!!” ” کہاں ہے ؟..!!” موبائل سائیڈ پر رکھتے ہوئے وہ فورآ سیدھا ہو کر بیٹھا .. ” وہ دیکھ ..!!” اس کے ہاتھ کے تعاقب میں اسنے دیکھا تھا جہاں زرنور کچن میں سے پانی سے بھرا جگ لئے نکل رہی تھی .. ” نور بانو ..رات کے دو بجے تم ایسے کیوں گھوم رہی ہو ؟ اگر کسی نے تمہیں دیکھ لیا ور ہارٹ اٹیک سے مر گیا تو ؟..!!” اس کے وہاں سے گزرنے پر حیدر نے کڑے انداز میں استفسار کیا تھا .. ” کوئی مجھے دیکھ کر ہارٹ اٹیک سے کیوں مرے گا حیدر ؟ میں کوئی بھوت ہوں کیا ؟ اور تم لوگ کیوں ابھی تک جاگ رہے ہو ؟..!!” پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا صرف لاؤنج کی لائٹس آن تھیں جہاں وہ تینوں بیٹھے تھے تیمور تو سنگل صوفے پر دونوں پیر اوپر کئے موبائل میں گھسا ہوا تھا جب کے وہ دونوں ویسے ہی وہاں بیٹھے تھے “ہم چڑیل کو بلانے کا منتر پڑھ رہے تھے اور دیکھو اثر ہو گیا اور تم آ گئیں ..!!” “تو پھر بچ کر رہنا کہیں یہ نہ ہو کے تمہاری ہی گردن اڑ جاۓ ..!!” حیدر کی بات پر اسے غصہ تو بہت آیا تھا لیکن ضبط کر کے بولی تھی .. ” میں تو شدّت سے منتظر ہوں ..اڑاؤں نہ میری گردن ..پلیز اڑاؤں نہ ..!!” وہ دلنشیں انداز میں بولا “بکواس بند کرو حیدر اور تمیز سے بات کیا کرو مجھ سے بھابھی ہوں میں تمہاری ..!!” “ہیں ..!!” وہ دونوں اپنی جگہ اچھلے تھے .. ” نیندوں میں ہے بے چاری ..!!” ریاض نے اس کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے تسلی دی تھی جس کا حیرت کی زیادتی سے برا حال ہو رہا تھا .. اس کے گھورتے ہوئے وہ جانے لگی تھی جب ریاض کی آواز پر رکی .. ” ارے زرنور ..آئس کریم تو کھالو ..ہم نے اسی لئے تمہیں روکا تھا .. ” آئس کریم ؟ کون سی آئس کریم ؟ اور تم دونوں کے پاس کہاں سے آئی اس وقت ؟..!!” وہ حیرت سے پوچھنے لگی .. ” ہے نہیں ..لیکن منگوا کر دے سکتے ہیں اگر تم شرط پوری کردو تو ..!!” ریاض کا انداز شرارتی تھا “کیسی شرط ؟..!!” وہ الجھن سے بولی تب ریاض نے حیدر کے اشارہ کرنے پر سینٹرل ٹیبل پر اخبار سے ڈھکی ہوئی شیشے کی کٹوری اٹھائی تھی .. جس میں موجود ابٹن دیکھ کر اس کی آنکھیں پھیلی تھیں . “ابٹن تو ختم ہو گیا تھا ..پھر تم لوگوں کے پاس ؟؟..!!” یخلت ہی اس کے تیور بدلے تھے شام کا منظر اچھے سے اس کی نگاہوں میں گھوم گیا تھا جو حال ان سب نے مل کر تقریب اور ان کا کیا تھا ..وہ کسی طور بھی نظر انداز کئے جانے کے قابل ہر گز نہیں تھا لیکن پھر خاموش ہو گئی کیوں کے بدلہ لئے بغیر تو ان کو بھی سکون نہیں ملنا تھا اور جس قسم کا بدلہ لینے کا انہوں نے سوچ رکھا تھا اب اس حرکت کو نظر انداز کرنا تو بنتا تھا .. “ہم نے چھپا لیا تھا ..!!” حیدر نے آنکھ میچ کر کہا .. ” کیا کروں میں اس کا ؟..!!” زرنور نے پیالی پکڑتے ہوئے سرد انداز میں پوچھا .. ” کیا مطلب کیا کروں اس کا ؟ جا کر اپنے میاں کے لگاؤ ..!!” صرف احمد تھا جو ان دونوں سے بچ گیا تھا وہ دور دور ہی رھتا تھا اس قسم کی رسموں سے اشعر اور لائبہ کی شادی کی رسموں میں بھی اس نے مارے باندھے ہی شرکت کی تھی لیکن ابٹن کی رسم میں جب وہ سب ہلدی لگانے کے لئے اس پر ہاوی ہونے لگے بہت مشکل سے خود کو بچاتے ہوئے وہ وہاں سے بھاگ نکلا تھا اور اس دفعہ تو وہ اندر ہی نہیں آیا تھا .. زرنور اچھے سے اس کی عادت جانتی تھی جبھی ابٹن ہاتھ میں پکڑے تھوڑا ہچکچائی تھی .. ” کیا ہوا ڈر گئی ؟..ارے فکر مت کرو تم تو احمد کی نور ہو تمہیں بلکل نہیں ڈانٹے گا وہ ..لیکن کیا پتا غصے میں وہ تمہیں ایک آدھ لگا ہی دے ..!!” وہ دونوں تسلی دینے سے زیادہ اسے ڈرا رہے تھے “میں زرنور ہوں ..حیدر یا ریاض نہیں ہوں جو وہ مجھے ڈانٹے گا ..میں بیوی ہوں اس کی مجھے کچھ نہیں کہے گا وہ ..!!” اس نے اندر کے ڈر کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے گردن اکڑا کر کہا تھا .. ” اچھا تو پھر جاؤ ..اور شرط کے مطابق دونوں گالوں پر لگانا ہے ورنہ بھول جانا آئس کریم کو ..!!” حیدر نے اسے جاتے دیکھ پیچھے سے آواز لگا کر کہا تھا لیکن بیس منٹ بعد بھی جب ابٹن ہاتھ میں پکڑے وہ جھنجھلائی سی وہاں سے گزرتی دکھائی دی تو حیدر چونکا تھا اس کے جانے کے بعد وہ دونوں سیل میں مووی لگا چکے تھے .. ” اے نور بانو ..ابھی تک ایسے ہی چکرا رہی ہو ..!!” ” نہیں ملا احمد ..میں نے پورے گھر میں دیکھ لیا ..!!” وہ بیزار سی بولی آئس کریم کے لالچ میں اس نے شرط مان تو لی تھی لیکن اب پچھتا رہی تھی پیچھے بھی نہیں ہٹ سکتی تھی کے وہ دونوں ریکارڈ لگا کر جینا حرام کر دیں گے .. آدھی سے زیادہ رات کو اتنی تیز خوشبو والا ابٹن لئے وہ پورے گھر میں گھوم رہی تھی ڈر الگ لگ رہا تھا کے کہیں کو جن بھوت نہ نظر آجائیں .. ” وہ تمہیں یہاں انسانوں کی دنیا میں ملے گا بھی نہیں اس وقت ..وہ چاند سورج کا عاشق بیٹھا ہوگا ٹیرس پر اور سگریٹ پھونکتے چودھویں کے چاند میں تمہاری شکل ڈھونڈ رہا ہوگا ..!!” ان کے مذاق اڑانے پر وہ گھورتی ہوئی سٹیپس چڑھنے لگی تھی .. پہلے ان کا ارادہ مناہل کے ساتھ شرط لگانے کا تھا لیکن ایک تو وہ مایوں بیٹھ چکی تھی دوسرا اب ان سب سے پردہ کر رہی تھی اور تیسرا وہ آرام سے یہ شرط جیت جاتی کیوں کے حارث صاحب اس وقت خراٹے بھر رہے تھے مطلب کے وہ آرام سے اسے ہلدی لگا کر شرط جیت لیتی .. اور لائبہ سے اس لئے نہیں لگائی کے اس سے بھی ہارنے کا پکّا پکّا خدشہ تھا کیوں کے اس کےصرف ایک بار ہی کہنے پر اشعر نے اس کٹو ری میں ہی اپنا منہ دے لینا تھا … ہنہ جورو کا غلام .. اشعر کے لئے ان سب کی سوچ یہی تھی ..
جیسے ہی ٹیرس کا دروازہ کھول کر اندر قدم رکھا ایک سرد ہوا کے جھونکے نے اس کا استقبال کیا تھا .. نظریں احمد کی جانب ہی اٹھی تھیں جو ریلینگ پر دونوں ہاتھ جماۓ کھڑا چاند کو ہی تک رہا تھا سیدھے ہاتھ کی انگلیوں میں سگریٹ بھی دبی تھی .. “احمد ..!!” زرنور کی آواز پر اس نے چونک کر اسے دیکھا تھا جو لان کے ہرے رنگ کے پرنٹڈ کپڑوں میں ملبوس تھی .. دوپٹہ نیٹ کا تھا لیکن سلیقے سے شانو پر پھیلارکھا تھا .. ” اس وقت یہاں کیوں آئی ہو نور ؟ ٹھنڈ لگ جاۓ گی ..!!” اس کے انداز میں تشویش تھی .. اکتوبر کے مہینے میں کراچی میں دن میں تو اتنی ٹھنڈ نہیں ہوتی تھی لیکن رات میں خنخی میں اضافہ ہو جاتا تھا .. وہ سگریٹ بوٹ تلے مسل کر اس کے پاس آیا تھا اور تب زرنور کو یاد آیا کے وہ تو اس سے ناراض تھی شام کو مایوں میں نہ آنے کے لئے .. لیکن پھر آئسکریم کا سوچتے ہوئے ناراضگی کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہوئے اس اپنا موڈ ٹھیک کیا تھا .. ” وہ ..مجھے پوچھنا تھا ..تمہیں ..تمہیں ابٹن سے کوئی الرجی تو نہیں ہے نہ ؟..!!” اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تھا .. ” وہاٹ ؟؟..!!” احمد کو سمجھ نہیں آیا تھا کے وہ رات کے دو بجے اس سے یہ پوچھنے آئی ہے .. ” بتاؤ نہ ..کسی قسم کی کوئی الرجی تو نہیں ہے نہ ؟..!!” اس نے بیچنی سے پوچھا .. ٹھنڈی ہوا اس کے جسم سے ٹکرا رہی تھی اسے اب واقعی ٹھنڈ لگنے لگی تھی .. ” نہیں تو ..!!” اس کا اتنا ہی کہنا تھا کے زرنور نے جلدی سے دو قدم آگے آ کر ہلدی سے بھرے ہاتھ اس کے چہرے پر مل دئے تھے .. وہ تو بھونچکا ہی رہ گیا تھا .. زرنور سے وہ کبھی اس قسم کی حرکت کی ایکسپکٹ نہیں کر سکتا تھا .. “what is this Noor? “ وہ ناراض نہیں تھا لیکن حیران ضرور تھا .. ” سس سوری احمد ..دیکھو ڈانٹنا نہیں مجھے ..اگر میں تم سے اجازت مانگتی تو مجھے پتا ہے تم کبھی نہ دیتے ..اسی لئے میں نے ایسے ..!!” انگلیاں مروڑتی وہ اپنے کئے پر نادم بھی تھی .. “ہاں ٹھیک ہے لیکن تم نے ایسا کیا کیوں ہے ؟..!!” ہاتھ سے اپنے گال پر لگا ابٹن ہٹا کر اس نے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا .. ” کیا واقعی نور نے یہ حرکت کی ہے ؟ اسٹرینج ..!!” “صاف نہیں کرو …!!” اسے رومال نکالتے دیکھ وہ بے ساختہ بولی .. وہ پے در پے اسے حیران کر رہی تھی .. ” ٹھیک ہے نہیں کر رہا ..لیکن لگایا کیوں ہے تم نے ؟ وہ بھی اس وقت ؟..!!” ” آئ ..آئس کریم کے لئے ..!!” اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا .. اب تو پکّا ڈانٹے گا .. ” ہیں ..؟!! ” حیدر اور ریاض نے مجھ سے شرط لگائی تھی اگر میں تمہیں ہلدی لگادوں تو وہ مجھے آئس کریم منگوا کر دیں گے ..!!” ایک ہی سانس میں اس نے جلدی سے کہ دیا تھا .. لیکن لب بھنچے اس کے دیکھنے پر گڑبڑا کر سر ہی جھکا لیا .. دوسروں کے سامنے خونخوار شیرنی بنے گھومنے والی اس کے سامنے بھیگی بلی بنی ہوئی تھی .. ” تمہیں لگتا ہے وہ دونوں تمہیں آئس کریم منگوا کر دیں گے ؟..!!” اس کا انداز بے تاثر تھا .. “کیوں نہیں منگوائیں گے ؟ جب شرط ہاریں گے تو پینلٹی تو بھرنی پڑے گی نہ ..!!” وہ جوش سے بولی تھی .. “بیوقوف ہو تم نور ..ایک تو بیٹ بھی کن سے لگا آئی ہو اور چلو اگر آئس کریم منگوا بھی دی انہوں نے جو کے ایک نہ ممکن سی بات ہے پھر بھی فرض کر لیتے ہیں اگر رات کے اس وقت آئس کریم آ بھی گئی تو کیا تمہیں لگتا ہے میں تمہیں کھانے دوں گا ؟..!!” وہ اسے ڈانٹ نہیں رہا تھا لیکن فکر مند ضرور تھا .. “نہیں صاف کرو نہ پلیز ..!!” اس کا رومال والا ہاتھ چہرے کی جانب بڑھتے دیکھ وہ ملتجی ہوئی تھی .. “جب تک وہ دونوں دیکھیں گے نہیں یقین بھی نہیں کریں گے کے میں نے شرط پوری کردی ہے ..!!” “ٹھیک ہے نہیں کر رہا صاف ..لیکن میری بھی ایک شرط ہے ..!!” زرنور اس کی آنکھوں کی شرارتی چمک دیکھ نہ سکی تھی ابھی صرف و صرف آئس کریم کا ہی جو خیال تھا .. ” اب کیا ؟..!!” وہ جھنجھلا گئی تھی .. ” یہ جو ابٹن میرے لگایا ہے اپنے بھی لگاؤ ..!!” ” ہیں ؟؟..!!” اس کی عجیب فرمائش پر وہ حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی .. ” لیکن ..وہ تو ختم ہو گیا ..!!” اس نے بے چارگی سے کہتے ہوئے غلط بیانی سے کام لیا تھا ..ابٹن لگانے کا سارا شوق اس کا شام کو ہی پورا ہو چکا تھا مزید کی آرزو نہ تھی .. “یہ تو کوئی مسلئہ نہیں ..!!” احمد کی گہری مسکراہٹ اسے سمجھ نہیں آئی تھی اور پھر دوسرے ہی لمحےوہ اسے اپنی جانب کھینچ چکا تھا ..
تھوڑی دیر میں وہ نیچے اترتی دکھائی دی تھی منہ بسورتی رومال سے گال رگڑتے وہ سخت ناراض لگتی تھی .. “نور بانو ..تمہیں احمد کو ابٹن لگانے بھیجا تھا خود ہی لگوا کر آ گئی؟؟..!!” وہ دونوں ہنستے ہوئے اسے چھیڑ رہے تھے .. اس سے پہلے کے وہ کوئی جواب دیتی اس کے پیچھے ہی بلیو جینز پر بلیک کلر کی ڈریس شرٹ پہنے الٹے ہاتھ سے بال سنوارتا احمد نیچے اترتا دکھائی دیا تھا جس کے بھی دونوں گال ابٹن میں بھرے تھے .. مطلب زرنور اپنی شرط پوری کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی اس نے احمد کو ہلدی لگا دی تھی لیکن کیسے ؟؟.. “کس نے شرط لگائی ہے میری بیگم سے ؟..!!” اس نے آتے ہی حیدر اور ریاض کو مخاطب کیا تھا تیمور بدستور موبائل میں مگن تھا جانے اتنی دیر سے کیا کر رہا تھا .. ” میں نے لگائی ہے ..!!” دانت نکوستے وہ فخر سے کہتے اٹھ کھڑا ہوا جیسے کوئی عظیم کام کیا ہو .. ” دیکھ لو کردی میں نے شرط پوری ….اب لاؤ میری آئس کریم ..!!” احمد کے چہرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے ہاتھ پھیلایا تھا .. ” کون سی آئس کریم نور بانو ؟..ہم نے تو کوئی آئس کریم کی بات ہی نہیں کی تھی صرف ابٹن لگانے کی بات ہوئی تھی کیوں ریاض سہی بول رہا ہوں نہ میں ؟.!!” حیدر نے فورآ پینترا بدلہ تھا “ہاں بلکل ..!!” اس نے زور و شور سے ہاں میں گردن ہلائی تھی .. ” احمد ..جھوٹ بول رہے ہیں یہ دونوں تم …تم تیمور سے پوچھ لو بھلے سے .. اس کے سامنے ہی ساری بات ہوئی تھی ..!!” وہ ٹھوس انداز میں احمد کو یقین دلانے لگی تھی جو دونوں ہاتھ سینے پر باندھے کھڑا تھا گالوں پر ابٹن ویسے ہی لگا تھا اس نے صاف نہیں کیا تھا “اس سے کیا پوچھ رہا ہے احمد ؟ تجھے اپنے بھائی کی بات کا یقین نہیں ؟ شرم کرو زرنور کیسے منہ پر جھوٹ بول رہی ہو.. ہم پاگل ہیں جو رات کے اس پہر تمہیں ایسی حرکت کرنے کو کہیں گے ؟..!!” ریاض تو برا ہی مان گیا تھا “مطلب میں الزام میں لگا رہی ہوں ؟..!!” وہ تلملا اٹھی تھی .. ” اور نہیں تو کیا ..!!” “تیمور ..تم بتاؤ نہ احمد کو کیسے ان لوگوں نے مجھے روکا تھا ..!!” زرنور نے اس کا کندھا جھنجھوڑ دیا تھا ” اسے تنگ مت کرو ..یہ تمہاری بات کا جواب نہیں دے گا ..صاحب مصروف ہیں اپنی محترمہ سے حلال چیٹنگ کرنے میں ..!!” حیدر کے طنز کرنے پر اس نے دو گھنٹے سے موبائل پر جھکا سر اٹھایا تھا اور بے تاثر نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے فون کی سکرین اس کے سامنے کی تھی جہاں ..!! “کینڈی کرش ؟؟..!!” ریاض اور حیدر نے بے ساختہ ایک دوسرے کو دیکھا .. “تو اتنی دیر سے کینڈی کرش کھیل رہا تھا برو ؟..!!” وہ حیرت سے چیخ پڑے .. وہ دونوں تو نجانے کتنی باتیں اسے سنا چکے تھے کتنا اس کا مذاق بنایا تھا ..انھیں پکّا یقین تھا کے وہ انوشے سے بات کر رہا ہوگا لیکن .. ” میری محترمہ گیارہ بجے ہی سو گئی تھی اور ابھی ..!! اس نے ہاتھ کو چہرے کے قریب کر کے گھڑی میں ٹائم دیکھا .. ” ساڑھے تین بج رہے ہیں …!!” دانت پیستے ہوئے وہ ان کو گھور رہا تھا .. “اوہ ..ہمیں غلط فہمی ہو گئی تھی ..!!” ریاض نے سر کھجاتے ہوئے خجالت سے کہا تھا .. “احمد ..میری آئس کریم ..!!” موضوع سے دھیان ہٹتے دیکھ اسنے احمد کا بازو کھنچا تھا “کون منگوا رہا ہے تم دونوں میں سے ؟..!!” اس نے باری باری دونوں کو دیکھا .. ” میں تو نہیں …اگر میری منگوائی گئی آئس کریم کھانے کے بعد اس کا گلہ خراب ہو گیا اور آواز بیٹھ گئی تو یہ حلق پھاڑ کر گانے نہیں گا سکے گی اور سارا الزام مجھے دے گی ..!!” ریاض تو دامن بچاتا فورآ سے صوفے پر نیم دراز ہو کر ہینڈز فری لگا چکا تھا .. ” میری طرف تو دیکھنا بھی نہیں ..نہ تو میرے پاس پیسے ہیں اور نہ ہی موبائل ..جس پر میں آرڈر کر سکوں ..!!” یہ لے فون ..!!” تیمور نے اپنا فون اس کی طرف اچھالا تھا جسے اسنے سرعت سے کینچ کیا تھا .. ” اور پیسوں کی فکر مت کر ..وہ ہم تیری جیبوں میں سے نکال ہی لیں گے ..!!” تیمور نے اس کی حالت سے مزہ لیتے ہوئے کہا اسے بھی موقع مل گیا تھا بدلہ لینے کا .. ” اوہ ..مجھے ابھی یاد آیا اتنی رات ہو گئی مجھے تو بہت نیند آ رہی ہے ..!!” ہاتھ سے جمائیاں روکتے وہ بھاگنے لگا تھا لیکن احمد نے اسے گردن سے پکڑ کر روک لیا تھا ..اور پھر تیمور کی جانب دکھیلا جس نے اسے پیچھے سے پکڑ کر قابو کر لیا تھا ” میری بیوی سے شرط لگانے سے پہلے تجھے ہزار دفعہ سوچ لینا چاہیے تھا حیدر ..!!” “تم ..اپنے شوہر کو بیچ میں کیوں لے آتی ہو ؟..!!” اس نے غصے سے زرنور کو آنکھیں دکھائی .. ” تم بھی لے آؤ اپنی بیوی کو کس نے منع کیا ہے ؟..!!” وہ بھی چمک کر بولی لیکن حیدر کو تو گہرا صدمہ لگا تھا .. ” ہاۓ ..میرے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہے یہ لڑکی ..!!” تیمور کے ہی گلے لگے وہ رونی شکل بناتے ہوئے بولا تھا .. ” بس ..ختم کر اپنا ڈرامہ ..اور آرڈر کر .!!” احمد کے حکمیہ انداز پر تپ کر سیدھا ہوا .. ” میرے ابّا پارٹ ٹائم میں آئس کریم پارلر نہیں چلاتے آدھی رات کو کس کو آرڈر دوں ؟آتمائیں آئیں گی ڈیلیور کرنے ؟؟..!!” “شرط کیوں لگائی تھی پھر ؟؟..!!” وہ غصّے سے پوچھنے لگی “دے جواب ..!!” احمد نے حیدر کو کہا تھا .. ” دل کر رہا تھا ..!!” اس نے مسکراتے ہوئے ہلکا ہلکا جھومتے زرنور کو آنکھ ماری تھی جس کا منہ حیرت سے کھلا تھا اور اگلے ہی لمحے اس کی گردن احمد کے ہاتھ میں تھی اس نے جھٹکے سے اسے صوفے کی پشت سے گرایا تھا جو سیدھا ریاض پر گرا تھا .. “یا وحشت ..!!” وہ ہڑ بڑا کر اٹھا .. ” اچھا خاصا شور شرابا مچ چکا تھا .. اپنی گردن چھڑوانے کی تگ و دود کرتے وہ ساتھ ہاۓ واۓ بھی کر رہا تھا .. ” زرنور ارمان کون ہے حیدر ؟؟..!!” بدستور گردن دبوچے اس نے نرمی سے پوچھا . “بھا ..بھابھی ہے میری ..!!” وہ مشکل سے بولا .. ” گڈ ..اب نور بانو کہے گا اسے ؟..!!” “نہیں ..کبھی بھی نہیں کہوں۔۔۔