” بس ..ختم کر اپنا ڈرامہ ..اور آرڈر کر .!!” احمد کے حکمیہ انداز پر وہ تپ کر سیدھا ہوا .. ” میرے ابّا پارٹ ٹائم میں آئس کریم پارلر نہیں چلاتے آدھی رات کو کس کو آرڈر دوں ؟آتمائیں آئیں گی ڈیلیور کرنے ؟؟..!!” “شرط کیوں لگائی تھی پھر ؟؟..!!” وہ غصّے سے پوچھنے لگی “دے جواب ..!!” احمد نے حیدر کو کہا تھا .. ” دل کر رہا تھا ..!!” اس نے مسکراتے ہوئے ہلکا ہلکا جھومتے زرنور کو آنکھ ماری تھی جس کا منہ حیرت سے کھلا تھا اور اگلے ہی لمحے اس کی گردن احمد کے ہاتھ میں تھی اس نے جھٹکے سے اسے صوفے کی پشت سے گرایا تھا جو سیدھا ریاض پر گرا تھا .. “یا وحشت ..!!” وہ ہڑ بڑا کر اٹھا .. ” اچھا خاصا شور شرابا مچ چکا تھا .. اپنی گردن چھڑوانے کی تگ و دود کرتے وہ ساتھ ہاۓ واۓ بھی کر رہا تھا .. ” زرنور ارمان کون ہے حیدر ؟؟..!!” بدستور گردن دبوچے اس نے نرمی سے پوچھا . “بھا ..بھابھی ہے میری ..!!” وہ مشکل سے بولا .. ” گڈ ..اب نور بانو کہے گا اسے ؟..!!” “نہیں ..کبھی بھی نہیں کہوں گا اس چڑیل کو نور بانو ..!!” اس نے مزید دباؤ ڈالا تھا .. ” بھائی …بھائی چھوڑ دے کبھی نہیں کہوں گا قسم لے لے ..!!” ریاض اور تیمور ہنس ہنس کر پاگل ہو رہے تھے .. چلو کوئی تو تھا جو اس شیطان کو قابو کر سکتا تھا .. احمد کے جھٹکے سے چھوڑنے پر وہ کھانستے ہوئے گہرے گہرے سانس لے رہا تھا .. شور کی آواز پر نیند سے بند ہوتی آنکھیں با مشکل کھولتے ہوئے ماہین باہر آئی تھی لیکن ان سب کو وہاں دیکھ کر بری طرح چونکی .. وال کلاک پر نظر کی تو رات کے چار بجنے والے تھے .. اور وہ لوگ ایسے وہاں موجود تھے جیسے شام کے چار بج رہے ہو … “تم لوگ سوۓ کیوں نہیں ابھی تک ؟اور یہ کیا شور شرابہ مچایا ہوا ہے ؟ رات کو تو چین لے لیا کرو ..!!” ماہین ان سب پر برہم ہو رہی تھی ایک تو پورے دن کی تھکن سے جسم درد کر رہا تھا اوپر سے رضا کو خاصی مشکل سے سلانے کے بعد جب دو گھڑی کے لئے آنکھ لگی تو ان کے شور کرنے پر وہ بھی خراب ہو گئی .. “بھابھی بچائیں مجھے ..یہ سب مل کر مجھے قتل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ..!!” وہ چیختا ہوئے ماہین کے پیچھے جا چھپا تھا جو پہلے ہی نیندوں میں تھی حیدر کی بات پر سر ہی گھوم گیا .. ” قتل ؟؟..!!” اس نے نہ سمجھی سے پوچھا .. ” احمد ..میرا دوپٹہ نہیں خراب کرو ..!!” موبائل کو سامنے کئے اس کی بند سکرین پر دیکھتے ہوئے وہ زرنور کے دوپٹے کے پلو سے گال پر لگی ہلدی صاف کر رہا تھا اس کے چیخنے پر سکون سے بولا تھا .. “میں اور دلا دوں گا ..!!” “میرا نیا سوٹ تھا ..!!” وہ رونے والی ہو گئی تھی صدمے س اس ہلدی میں بھیگے پلو کو دیکھ رہی تھی .. “زرنور بھابھی آپ کے ساتھ تو وہی کہاوت ہو گئی ..کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے کا ..ہاہا ..اسے کہتے لالچ بری بلا ..آئس کریم بھی نہیں ملی اور نئے دوپٹے کا بیڑا غرق بھی کروا لیا ..!!” ریاض اور تیمور ہنستے ہوئے اسے چھیڑے جا رہے تھے جس کے تاثرات غضبناک ہو رہے تھے حیدر تو اس کی پہنچ سے دور تھا لیکن ریاض تو پاس ہی کھڑا تھا اور اس ڈرامے میں تو وہ برابر کا شریک تھا .. “تم ..ٹھہر جاؤ ابھی بتاتی ہوں ..!!” صوفے پر سے کشن اٹھا کر وہ اسے مارنے کو لپکی تھی لیکن وہ ہنستے ہوئے چکما دے گیا تھا .. “تب تک حیدر کوئی ستر وجوہات ماہین کے گوش و گزار کر چکا تھا جس کی بیس پر وہ سب وہاں اسے قتل کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے ..ماہین کو اس کی ایک بات بھی پلے نہیں پڑی تھی .. “ارے دفع کریں بھابھی ..آپ سو جائیں ..میں بھی چلا ..!!” ہاتھ سے جمائی روکتے ہوئے ایک مسکراہٹ ان کی طرف اچھالتا وہ ریاض کے پیچھے بھاگا تھا .. زرنور کا تو بس نہیں چلتا تھا کے سب تہس نہس کر دے ..لگ رہا تھا جیسے “لالچ بری بلا ” ہے والی کہاوت اس کے لئے ہی کہی گئی تھی .. ماہین ان کو لائٹس آف کر کے سونے کی ہدایت کرتی پھر سے کمرے میں جا چکی تھی .. ایک شاکی نظر ان دونوں پر ڈال کر وہ بھی جانے کے لئے مڑ گئی تھی جب تیمور نے پیچھے سے آواز دی . ” بھابھی جان ..!!” “کیا مسلئہ ہے ؟..!!” وہ پھاڑ کھانے والے انداز میں بولی ” ڈرا کیوں رہی ہو ؟..میں تو بس اتنا کہ رہا تھا کے یہ. .اپنا پانی کا جگ لیتی جاؤ اپنا ..!!” تیمور نے ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے پھر خود ہی تعظیمآ وہ جگ اٹھا کر اس کی جانب بڑھایا تھا جو اس کے جھپٹ کر لیا تھا ..ساتھ ہی گھور کو احمد کو بھی دیکھا تھا جو صوفے پر لیٹ کر آنکھوں پر بازو رکھ چکا تھا .. “کیا ہوا سونے کا ارادہ نہیں ؟..!!” تیمور نے اس کے جانے کے بعد احمد سے پوچھا تھا .. اشارہ اس کے صوفے پر لیٹنے پر تھا . ” اب تو ٹائم ہی نہیں سونے کا ..تھوڑی دیر میں فجر ہو جاۓ گی تو پھر نماز پڑھ کر ہی سوؤں گا شاید ہی نیند آۓ .!!” “ہاں اب نیند آۓ گی بھی کسے ..؟ کل نکاح جو ہے ..!!” تیمور نے اس کی بات کو اپنے ہی رنگ میں لے کر شرارت سے کہا تھا .. اور وہ کیسے بھول سکتا تھا ؟.. کچھ ٹائم پہلے اشعر سے لگائی گئی اسے اپنی شرط یاد آ گئی تھی جب اس نے کتنے یقین اور وثوق سے کہا تھا کے وہ اس سے پہلے برات لے کر جاۓ گا .. دنیا میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جو ارمان خانزادہ کو اس کی بات سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر سکتی سواۓ اس کی محبّت اس کے عشق کے .. یہاں بھی وہ اسی کے ہاتھوں مجبور تھا ..
سات اکتوبر کی سنہری سی صبح پورے لان میں بکھری تھی گیارہ بجے ہی چہل پہل سی شروع ہو گئی تھی ایک تو دیر سے سونے اور پھر جلدی اٹھنے کے باعث ابھی بھی اس کی آنکھوں میں نیند کا خمار تھا سر الگ بھاری ہو رہا تھا ..لیکن خوشی و سرشاری ہر کیفیت پر حاوی تھی .. آج اس کا نکاح تھا احمد کے ساتھ ..وہی احمد جسے وہ پہلی نظر میں دیکھ کر ہی اپنا دل ہار بیٹھی تھی .. وہی احمد جسے پانے کے لئے وہ بے تحاشا روئی تھی جانے کتنی ہی دعائیں اس نے مانگی تھی لیکن خوش قسمتی بھی شاید اسی کو کہتے ہیں کے جسے وہ اپنی نمازوں میں گڑ گڑا کر مانگا کرتی تھی وہ تو بچپن سے اس کا محرم تھا اس کا شوہر تھا .. تھوڑی دیر پہلے ہی انوشے نے اس کا ہلکا پھلکا سا میک اپ کر دیا تھا ..سفید لمبی قمیض اور کیپری جس کے گلے اور آستینوں پر سرخ نگینوں کے ساتھ سنہرے دھاگوں سے کام ہورہا تھا اس پر سرخ رنگ کا دوپٹہ کندھے پر ڈالے وہ آئنے میں اپنا عکس دیکھتی مسلسل اسے ہی سوچے جا رہی تھی .. کتنا فورس کیا تھا اس نے شادی کے لئے لیکن اس نے صاف منع کر دیا تھا صرف اس وجہ سے کے.. “میں مناہل اور حارث کی شادی انجوۓ نہیں کر پاؤں گی “.. “یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی تم اپنی شادی کے بعد بھی تو ان کی شادی میں شرکت کر سکتی ہو ..!!”. وہ برا ہی مان گیا تھا .. ” تب وہ مزہ نہیں آۓ گا نہ ..!!” اپنے مزے کے آگے وہ اس کی خوشیوں اور خوا ہشات کو نظر انداز کر رہی تھی .. ” لیکن تم نے کہا تھاکے ڈگری کے بعد شادی کرو گی ..!!” ” ہاں کہا تھا میں نے ..اور میں کروں گی نہ لیکن پہلے مناہل کی ہوگی ..!!” اور پھر جانے کتنی ہی طویل بحث چلی تھی دونوں کی جس میں جیت زرنور کی ہی ہوئی تھی کیوں کے وہ جانتا تھا اسے ہارنا پسند نہیں اور اس سے وہ جیتنا نہیں چاہتا تھا … کتنے صبر سے وہ اس کی پڑھائی ختم ہونے کا ویٹ کر رہا تھا لیکن قسمت میں تو شاید یہ صبر اور انتظار ہی لکھا تھا .. “چلو کوئی نہیں ..جہاں اتنا انتظار کیا وہاں تھوڑا اور سہی ..!!” اور پھر اس نے ہی ہتھیار ڈالتے ہوئے دل کو سمجھا لیا تھا .. اور شادی سے پہلے اس نکاح کی فرمائش بھی تو اسی کی تھی .. ” تمہیں یاد ہے نہ احمد جب سی سائیڈ پر حارث نے مناہل کو پرپوز کیا تھا تم نے بھی مجھ سے وعدہ کیا تھا کے مجھ سے نکاح کرو گے ..!!” وہ اسے ایک جزب سے یاد دلارہی تھی .. ” یاد ہے ..اور تب میں نے کہا تھا کے ہمارا نکاح ہو چکا ..!!” اس نے بھی ساتھ ہی جتایا .. ” اور میں نے کہا تھا کےمیرا نکاح ارمان سے ہوا تھا اور مجھے احمد سے کرنا ہے ..!!” ” سو وہاٹ یار ..ارمان اور احمد دونوں میں ہی تو ہوں ..!!” اس نے ہاتھ جھلایا تھا .. ” میں اٹلی والے ارمان کو نہیں جانتی ..میں نے احمد کو دیکھا تھا اسی سے محبّت کی ہے اب نکاح بھی اسی سے کروں گی ..!!” اس نے جامعہ میں اپنا نام ہمیشہ احمد ہی رکھا تھا تاکے اسے شک نہ ہو ” لیکن یہ بھی مت بھولو کے تم سے محبّت وہ اٹلی والا ارمان ہی کرتا ہے یونی والا روڈ احمد نہیں ..!!” اس کا انداز شرارتی تھا .. ” لیکن مجھے پسند بھی تو وہی تھا ..!!” ” جلدی کرو بنو رانی ..اب کیا یہیں کھڑی رہو گی ؟..!!” انوشے نے اسے مسلسل ڈریسنگ کے پاس جمے دیکھ کر چھیڑا تھا .. خیالوں کا تسلسل ٹوٹا تو وہ بھی حقیقت کی دنیا میں واپس آئی .. “زرنور تم تیار نہیں ہوئیں ابھی تک ؟..!!” لائبہ بھی نک سک سی تیار اسے لینے آئی تھی ..نکاح کی رسم بس شروع ہی ہونے والی تھی .. ڈریسنگ کے شیشے میں سے اس نے پیچھے بیڈ پر پڑا وہ گرین کلر کا پرنٹڈ دوپٹہ دیکھا تھا جو احمد نے صبح ہی اسے بھجوایا تھا .. ہو بہو وہ بلکل ویسا ہی تھا جیسا اس نے کل رات پہن رکھا تھا اور احمد نے اسے ہلدی سے خراب کر دی تھا جانے صبح ہی صبح کہاں سے وہ ڈھونڈ ڈھانڈ کے لایا تھا ..
اتوار اور چھٹی کے دن بھی سب کی دوڑیں لگ گئیں تھیں نیند میں جھومتے ان لوگوں کو زبردستی اٹھا کر احمد اپنے ساتھ خانزادہ ولا لے گیا تھا وہاں سے تیار ہونے اور ناشتہ کرنے کے بعد ابھی سب بخاری ہاؤس پوری شان و شوکت کے ساتھ پہنچے تھے آنکھوں میں جتنی بھی نیند تھی سب احمد کے پے در پے پڑنے والے تھپڑوں نے بھگا دی تھی ابھی سب نہاۓ دھوۓ فریش سے بیٹھے تھے .. آج چھٹی ہونے کے باوجود بھی ان کی چھٹی نہیں تھی نکاح کی رسم کے بعد دوبارہ ملک ہاؤس جانا تھا مہندی بھلے سے دو دن بعد تھی لیکن اس کی تیاری میں دو ہفتے بھی کم تھے .. اس کی ساری ارینجمنٹس دیکھنا تھی ہال کا فائنل ٹچ دیکھنا تھا ٹیلر سے کپڑے اٹھانے تھے مینز سیلون کا چکر لگانا تھا اور سب سے بڑی بات ڈانس پریکٹس ..!! کتنی رازداری سے وہ سب اس کی تیاری کر رہے تھے تاکے لڑکیاں ان کے آئیڈیاز اور اسٹیپس کاپی نہ کر سکے .. ابھی یہ صرف دو گھنٹے ہی تھے ان کے پاس فرصت کے اس کے بعد پھر کام پر لگ جانا تھا .. “ارے دلہن کو لے آئیے ..!!” ہاتھ میں کیمرہ سنبھالے وہ دروازے پر آ کھڑا ہوا تھا .. فاریہ اس کا دوپٹہ پن اپ کر رہی تھی .. “دکھاؤ ذرا ..!!” لائبہ اور انوشے بھی وہیں آگئی تھی .. سفید لباس میں لال رنگ کا دوپٹہ سر پر اوڑھے ہاتھوں میں موتیے کے گجروں کے علاوہ بغیر کسی زیور و آرائش کے وہ بے حد حسین لگ رہی تھی ..مزید سبز نم آنکھوں نے اس کے حسن کو دہکا دیا تھا .. آنکھیں تھی کے بار بار نم ہوئی جا رہی تھی .. صرف دو ہفتے ہی تو رہ گئے تھے اس کی رخصتی میں .. یہ احساس اسے پل پل بے چین کئے دے رہا تھا “بہت پیاری لگ رہی ہیں آپ ..!!” براؤن کلر کی فراک اور چوڑی دار پاجامے میں سلیقے سے سر پر دوپٹہ اوڑھے فاریہ نے محبّت سے کہتے ہوئے گلے لگایا تھا .. وہ مسکرا دی تھی .. ” چوکھٹ سے ٹیک لگاۓ وہ بے زاری سے ان کا جذباتی سین دیکھ رہا تھا .. ” تجھے کیا ہوا ؟..!!” سیٹی پر دھن بجاتا وہ انھیں بلانے ہی آیا تھا جب دروازے پر ہی اسے جمے دیکھ کر پوچھا .. جس نے کچھ نہیں کہا تھا لیکن ہاتھ سے اندر اشارہ کیا تھا .. ریاض نے کھلے دروازے سے اندر جھانکا تھا جہاں زرنور زارا بخاری کے سینے سے لگی رونے میں مصروف تھی قریب ہی ماہین , انوشے , لائبہ اور فاریہ کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھی .. صرف مناہل نہیں تھی وہاں اور وہ شدّت سے اسے مس کر رہی تھی .. ” اس وقت رونے کی کیا تک بنتی ہے ؟..!!” وہ اچھنبے سے انھیں دیکھ رہا تھا .. “میں بھی آدھے گھنٹے سے یہی پوچھ رہا ہوں لیکن ..نو جواب ..!!” “ماہین بھابھی ..قاضی صاحب ویٹ کر رہے ہے ..!!” اس نے ادب سے کہتے ہوئے وقت کا احساس دلایا تھا .. ” ہاں بس آ رہے ہیں ..!!” اس کے جواب پر وہ کچھ مطمئن ہوا تھا .. ” دس بار کہ چکی ہیں یہ ہی بات ..!!” حیدر کی بات پر وہ چونکا .. ” تو پھر ؟..!!” ” پھر کیا اب مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا ..اب دیکھ اپنے بھائی کا کمال !!” فورآ ہی اس نے اپنی آواز کو بھاری بنایا تھا زارا آنٹی ..احمد نے نکاح کینسل کر دیا ہے وہ ناراض ہو کر جا رہا ہے ..!!” دروازہ بجا کر بد حواسی میں اس نے کہا تھا .. ” ہیں ؟..کینسل کر دیا کیا مطلب ؟..!!” وہ سب ایک دم ہی بوکھلاگئیں تھیں .. ” پتا نہیں کہ رہا ہے مجھے نور بانو سے شادی نہیں کرنی .جلدی کریں آپ روکیں اسے ورنہ وہ چلا جاۓ گا …!!” حیدر کی کمال اداکاری پر ریاض اسے داد دیے بغیر نہیں رہ سکا تھا .. انو شے اور فاریہ کے علاوہ وہ تینوں احمد کو روکنے کے لئے بوکھلاتے ہوئے وہاں سے گئی تھی ” ابے جا جلدی کر ..!!” حیدر کا اشارہ سمجھتے ہوئے وہ زرنور کے پاس آیا تھا .. جو ٹشو سے آنکھیں رگڑ رہی تھی لیکن آنسوں تھے کے پھر بھی بہے جا رہے تھے “بس کرو ..تم نے کیا ڈیم بنانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے …!!” احمد والی بات پر وہ گھبرائی نہیں تھی کیوں کے اچھے سے جانتی تھی کے احمد ایسا کبھی کر ہی نہیں سکتا اور دوسرا حیدر کی ڈرامے بازی بھی سب سمجھتی تھی .. ” تم لڑکی ہوتے تو پتا ہوتا اس وقت کیا فیلنگز ہوتی ہیں ..!!” وہ بھرائی ہوئی آواز میں ناراضگی سے بولی تھی ” معاف کرو ..ایک دفعہ انار کلی بن چکا کافی ہے ..!!” اس نے کہا تو زرنور کو تھا لیکن نگاہیں کسی اور پر ہی جمی تھی جسے دیکھ کر وہ چونکا تھا ..اور اس اتفاق پر بے ساختہ مسکرایا تھا .. “اوہو ..ایک جیسے کپڑے ..!!” حیدر نے شرارت سے ان دونوں کو چھیڑا تھا جو ایک جیسے سیم براؤن کپڑوں میں ملبوس تھے .. فاریہ تو سٹپٹا ہی گئی تھی پہلے ہی اس کے دیکھنے پر تلملارہی تھی .. زرنور اور انوشے بھی اس کے گھبرانے پر مسکرا دی تھی .. “نور بانو ..ابھی بھی موقع ہے تمہارے پاس ..!!” “کیسا موقع ؟ حیدر کے سنجیدہ انداز پر زرنور سمیت وہ سب اسے دیکھنے لگے تھے “بھاگ چلو میرے ساتھ ..یہ نہ ہو کے بعد میں تمہیں پچھتانا پڑے ..پھر تم مجھے آواز بھی دو گی تو میں نہیں آؤں گا ..اسی لئے کہ رہا ہوں سوچ لو ..!!” وہ سنگین انداز میں کہ رہا تھا “فٹے منہ ..!!” فاریہ اور انوشے کے دل نے ایک ہی بات کہی تھی .. ” اگر مجھے ہزار دفعہ بھی موقع ملے گا نہ تو میں اسی سے شادی کروں گی حیدر ..!!” وہ پرسکون لہجے میں بولی .. حیدر کچھ دیر تو اسے دیکھتا رہا پھر رونی شکل بنا کر ریاض کے گلے جا لگا .. ” اب مجھ سے کون کرے گا شادی ؟..!!” ” فکر مت کر ..تیرے جیسی بھی کوئی ہوگی دنیا میں جسے اللہ نے تیرے لئے بنایا ہوگا ..!!” وہ مسکراتے ہوئے اسے تسلی دے رہا تھا ..
وائٹ کاٹن کے سفید شلوار قمیض میں مہرون کلر کی شال سی اس نے گردن میں گھما کر ڈال رکھی تھی جس کا ایک سرا آگے تھا تو دوسرا پیچھے لٹک رکھا تھا .. ہمیشہ کی طرح وہ ہینڈسم لگ رہا تھا آستینوں کو فولڈ کرنے کے بجاۓ کلائی تک کئے کف بند کر رکھے تھے .. اس کے منع کرنے کے باوجود بھی کتنی ہی تصویریں ان لوگوں نے اس کی اتاری تھی .. تھوڑی ہی دیر میں ان کا نکاح ہو گیا تھا .. اس کے برابر میں بیٹھی سائن کرتے ہوئے اس کے ہاتھ کپکپا گئے تھے .. پہلی دفعہ میں تو اسے کچھ ہوش نہیں تھا .. پیدا ہوتے کے ساتھ ہی نکاح پڑھوا دیا گیا تھا .. لیکن اب احساس ہو رہا تھا کتنا مشکل ہوتا ہے ایسے ہی خود کو کسے کے نام کر دینا .. ماں باپ کے گھر کی دہلیز چھوڑ کر کسی اور کے آنگن کو آباد کر دینا .. اس کے لئے وہ نکاح تو پہلی دفعہ ہی تھا .. زرنور بخاری تو وہ کبھی تھی نہیں ہمیشہ سے ہی زرنور ارمان تھی اور ایک دفعہ پھر سے وہی بنی تھی .. عباد بخاری اور زارا بخاری کے گلے لگے وہ اس شدّت سے روئی تھی کے سب کی ہی آنکھیں نم ہو گئیں تھی یہاں تک کے the devil partner’s ریاض اور حیدر کی بھی ..واقعی میں کتنا مشکل ہوتا ہے لڑکی کے لئے یہ لمحہ .. ماحول ایک دم ہی بوجھل ہو گیا تھا .. جسے کم کرنے کے لئے حیدر نے ڈیک چلا دیا تھا .. “سجدے کئے ہیں لاکھوں .. لاکھوں دعائیں مانگی .. پایا ہے میں نے پھر تجھے .. چاہت کی تیری میں نے .. حق میں ہوائیں مانگی .. پایا ہے میں نے پھر تجھے ..
“سوچ رہا ہوں لگے ہاتھوں میں بھی نکاح پڑھوا ہی لیتا ہوں ..!!” حارث نے فیرنی سے انصاف کرتے ہوئے ان کو سوالیہ انداز میں دیکھا تھا .. ” اپنی یہ سوچ اپنے تک ہی رکھ ..ہم شدید کنوارے لڑکوں کے سامنے یہ نکاح شادی کی باتیں کر کے زخموں پر نمک مت چھڑکا کرو ..!!” ریاض تو جانے کس بات پر بھرا بیٹھا تھا اشارہ خود کی اور حیدر کی طرف ہی تھا .. “ارے بھائی تو نام بتاۓ گا لڑکی کا جبھی تو بات آگے چلائیں گے ..چل شاباش جلدی سے بتا نام !!” اشعر نے اسے پچکارتے ہوئے کہا تھا .. ریاض کو بے ساختہ ہی ہنسی آ گئی تھی .. (ابھی نام لوں گا تو یہیں منہ توڑ دے گا کمینہ ..) “لے تجھ سے نام پوچھا ہے اور تو ہنس رہا ہے ..!” ان کی سمجھ نہیں آیا تھا اس کا ہنسنا .. “رہنے دے بھائی ..!!” وہ ابھی بھی ہنسے ہی جا رہا تھا .. “مرضی ہے تیری نہ بتا …لیکن جب دل کرے میں حاضر ہوں ..تیری شادی میں ہی کرواؤں گا ..!!” اشعر نے بلکل بڑے بھائیوں کے سے انداز میں کہا تھا .. تیمور اور حارث نے آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے کئے تھے .. ” اہم اہم ..اشعر تجھے کیا کچھ زیادہ ہی پسند ہے یہ چوہدری ؟..!!” تیمور نے مصنوئی گلہ کھنکارتے ہوئے پوچھا تھا .. ” اہاں ..زیادہ نہیں بس تھوڑا سا ..!!” اس نے مسکرا کر جواب دیا تھا “ماشاء اللہ تھوڑے سے میں یہ حال ہے جب زیادہ پسند ہوگا تب تو پتا نہیں کیا ہوگا ..!!” حارث نے کہتے ہوئے ریاض کو دیکھا تھا جو سنگل صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا تھا .. انداز لاتعلق تھا لیکن اس کی مسکراہٹ صاف دکھائی دے رہی تھی جس کا مطلب تھا کے وہ ان کی باتوں کو انجوۓ کر رہا تھا ..
چوکنے انداز میں یہاں وہاں دیکھتے ہوئے وہ دونوں چھپتے چھپاتے وہاں پہنچے تھے ” علاقہ کلئیر ہے ..نکل لے برو ..!!” حیدر نے گردن اونچی کر کے دیکھنے کے بعد مطمئن لیکن محتاط انداز میں اسے کہا تھا .. ” چیک رکھنا ..اگر گڑ بڑ ہو تو مس کال دینا مجھے ..!!” گلے میں سے مہرون شال اتار کر اس کی جانب اچھالتا وہ ناب گھما کر دروازے کے پیچھے غائب ہو چکا تھا .. “یہ ہی کام رہ گیا حمزہ حیدر علی کا ..بس دوسروں کی ہی ملاقات کرواتے رہو ہنہ ..!!” وہ بڑبڑا کر رہ گیا ..
وہ جو اپنی پھولے پھولے بالوں والی سفید رنگ کی بلی مانو کو گود میں لئے بیٹھی پیار سے اس پر ہاتھ پھیر رہی تھی اچانک سے دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز پر چونکی تھی .. لیکن وہاں احمد کو دیکھ کر حیرانی سے بلی کو بیڈ پر بٹھا کر وہ کھڑی ہو گئی تھی .. (احمد اس سے ملنے آیا تھا ..؟؟ وہ بھی ایسے چوری چھپے ..؟؟) اسے یاد تھا جب اس نے ماہین کے سامنے کچھ دیر کے لئے اس سے ملنے کا کہا تھا تو اس نے صاف منع کر دیا تھا .. “کوئی ضرورت نہیں ..شادی کے بعد جتنی دل چاہے اتنی باتیں کر لینا لیکن رخصتی تک کوئی ملاقات نہیں سمجھے ؟..!!” اس وقت تو وہ سعادت مندی سے سر جھکا کر اس کی بات مان کر وہاں سے چلا گیا تھا .. لیکن اب ..؟؟!!” ” دیکھو ذرا محبّت میں کیا کیا کرنا پڑتا ہے ..!!” اس کے انداز پر وہ مسکراہٹ چھپا گئی تھی .. اس نے چینج نہیں کیا تھا ابھی بھی انہی کپڑوں میں ملبوس تھی .. وہ چلتے ہوئے اس کے پاس آ ٹھہرا تھا .. “ہاں تو جناب ہو گئی آپ کی خواہش پوری احمد سے نکاح کرنے کی ؟..!!” نگاہوں کو خیرہ کرتے اس کے حسین سراپے کا بغور جائزہ لیتے ہوئے اس نے بظاھر سنجیدگی سے پوچھا تھا لیکن آنکھوں میں شرارتی چمک بھی صاف نظر آ رہی تھی “ہاں ہو گئی ..!!” اس نے بھی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا تھا .. ساری افسردگی اس کا چہرہ دیکھنے کے بعد جیسے ختم ہی ہو گئی تھی .. “لیکن میری تو نہیں ہوئی نہ ..!!” اس نے انداز میں افسردگی سموتے ہوئے کہا .. ” ہو جاۓ گی خانزادہ ..صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے ..!!” اک نزاکت سے سرخ آنچل جھٹک کر وہ جانے لگی تھی لیکن تبھی اس کی نازک سی چوڑیوں اور مہندی سے سجی کلائی احمد کی گرفت میں آئی تھی .. ” یہ دنیا ہمیشہ سے کچھ دو اور کچھ لو کے اصولوں پر چل رہی مسز زرنور ارمان.. میں نے تمہاری خواہش پوری کی رخصتی منسوخ کروا کر اب تمہاری باری ..!!” اسے اپنے حصار میں قید کئے چہرے کے ایک ایک نقش کو نگاہوں سے چومتے ہوئے وہ بے خود ہوا جا رہا تھا .. ملکیت کا یہ شدید احساس دوسری دفعہ نکاح کرنے کے بعد ہی کیوں محسوس ہوا تھا ..؟ “اہاں ..پہلی بات تو یہ کے میں زرنور ارمان نہیں زرنور احمد ہوں مسٹر ..اسی نام سے مجھے مخاطب کیا کرو ..!!” اس کے چوڑے کندھے پر اپنی کہنی ٹکاۓ براہ راست اس کی گہری گرے آنکھوں میں جھانکتے ہوئے وہ جس اعتماد اور بے نیازی سے کہ رہی تھی وہ ارمان احمد خانزادہ کو پاگل کرنے کے لیے کافی تھا .. ” اور دوسری بات ..آج میں بہت خوش ہوں اپنی مرضی کے بندے سے میں نے دوسری دفعہ نکاح کیا ہے ..مانگو جو مانگنا ہے ..لیکن رخصتی کے علاوہ ..!!” فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے ساتھ حد بھی عائد کی تھی .. “میں مر ہی نہ جاؤں اس دریا دلی پر ..!!” سیدھے ہاتھ کا انگوٹھا اس کے گلابی رخسار پر پھیرتے ہوئے وہ اسے چھیڑنے کو بولا تھا .. ” میں جانتی ہوں رخصتی کرواۓ بغیر تم نہیں مرو گے ..!!” زرنور نے شرارت سے کہتے ہوئے نچلا لب دانتوں تلے دبایا تھا .. ” کیا تمہیں مجھ سے شرم نہیں آ رہی ؟..!!” احمد کا اشارہ اس کے خود سے بے حد قریب ہونے پر تھا کہاں تو وہ صرف ہاتھ پکڑنے پر ہی حیا سے سرخ پڑ جاتی تھی اور کہاں اب پٹر پٹر جواب دے رہی تھی “دو دفعہ نکاح کر چکی ہوں ..اب کہاں کی شرم ؟..!!” “لیکن رخصتی تو نہیں ہوئی نہ ..!!” “چلو اس کے بعد شرما لوں گی ..!!” سر سے ڈھلکتے ستاروں سے سجے آنچل کو دوبارہ سے جماتے ہوئے اس نے کہا تھا .. ” تم مجھے ارمان کیوں نہیں کہتی ؟..!!” “تم بھی تو مجھے زرنور نہیں کہتے صرف نور کہتے ہو ..!!” جواب بر جستہ تھا .. ” تم میری زندگی کا نور ہو میرے عشق کا نور ہو میری نگاہوں کا نور ہو میری جان .تمہارے بغیر یہ خانزادہ نہ پہلے کچھ تھا نہ اب ہے ..!!” محبّت سے چور لہجے میں کہتے ہوئے احمد نے اس کا آنچل پیچھے کرتے ہوئے استہقاق سے پہلی دفعہ اس کی پیشانی چومی تھی .. زرنور نے مسکراتے ہوئے آسودگی سے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں .. “ایک بات تم بھول گئے ..!!” وہ اس کا جھومر ٹھیک کر رہا تھا جب اس کی بات پر چونکا .. ” وہ کیا ؟..!!” ” دل ..!!” “مطلب ؟..!!” ” کیا میں تمہارے دل کا نور نہیں ہوں ؟..!!” اس کی معصومیت بھری مصنوئی خفگی پر وہ مسکراہٹ چھپا نہیں پایا تھا .. ” تم احمد کی نور ہو یار ..میری روح میں بستی ہوں میرے جسم و جان کی مالک ہو ..!!” “احمد ..!!” اس نے شکایاتی انداز میں اس کا نام لیا تھا .. ” اب کیا ؟..!!” وہ حیران ہوا تھا .. زرنور نے جھٹکے سے اس کے کالر پکڑ کر اپنی جانب کھنچا تھا .. ” مجھے تمہارے “دل” سے مطلب ہے خانزادہ ..!!” اس کے یہ انداز احمد کو پل پل گھائل کئے دے رہے تھے “لیکن میرے پاس دل نہیں ہے ..!!” وہ بے چارگی سے بولا پہلے تو وہ اس کی بات پر حیران ہوئی تھی لیکن پھر تیور بدلے .. “کسے دیا ؟..!!” وہ برہم نظر آتی تھی .. ” کافی سال پہلے تمہیں ہی دیا تھا جب تم لٹل اینجل تھی ..اپنے پاس ہی چیک کرو کہیں رکھ کر بھول گئیں ہوں گی ..!!” کالر چھڑوا کر اس کا مومی ہاتھ اپنے مظبوط ہاتھ میں لے کر احمد نے لبوں سے لگایا تھا .. ” پاگل ہو تم احمد ..!!” زرنور نے ہنستے ہوئے اس کے کندھے پر سر رکھا تھا.. “میں ہوش و حواس اپنے , اس بات پے کھو بیٹھا .. تم نے جو کہا ہنس کر , یہ ہے میرا دیوانہ ..!! وہ اس کے کان کے پاس گنگنایا تھا .. ” شاعری سے کام نہیں چلے گا میرا گفٹ نکالو ..!!” اس کے شانے پر نازک سے ہاتھ کا مکّا مارتے ہوئے اس نے باور کروایا تھا .. ” بعد میں لے لینا ..!!” اس کے سرخ زرتار آنچل سے ڈھکے سر پر اپنے لب رکھے اس نے آنکھیں بند کئے ہی کہا تھا .. ” تم نے آج تک مجھے کبھی کوئی گفٹ نہیں دیا احمد ..!!” وہ نہ چاہتے ہوئے بھی شکوہ کر گئی تھی .. ” رخصتی کروا لو نہ روزانہ ایک تحفہ دیا کروں گا ..!!” زرنور کو لگا وہ ایسے ہی کہ رہا ہے لیکن وہ مذاق کے موڈ میں نہیں تھا مکمل طور پر اس کے سحر میں کھویا ہوا تھا .. ” احمد ..!!” وہ اس کے حصار میں کسمسا رہی تھی .. اس کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھے پیچھے کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن سب بے سود .. احمد نے اسے خود میں بھنچا ہوا تھا .. ” کیا ہوا ؟..!!” اس کا سندر مکھڑا ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا تھا .. ” لیو می ..!!” اس نے ناراضگی سے کہا تھا .. “نہ چھوڑوں تو ؟..!!” اس کے چہرے پر جھکتے ہوئے وہ چیلنج کر رہا تھا .. زرنور کی سانس اٹکنے لگی تھی اس کے حصار میں .. ” سب سب ..ویٹ کر رہے ہوں گے .تم ..تم تو آ کر ہی بیٹھ گئے ہو ..چھوڑو مجھے ..!!” احمد نے اس کے مزاہمت کرتے دونوں ہاتھوں کو کلائیوں سے پکڑ لیا تھا .. ” تم نے ہی کہا تھا جو مانگنا ہے مانگ لو ..!!” احمد نے اس کی بات دلائی تھی .. ” ہاں تو مانگ لو نہ میں دے دوں گی منع کب کیا میں نے ؟ ..لیکن پہلے میرے ہاتھ چھوڑو ..!!” اس کا انداز جھنجھلانے کے ساتھ التجائیہ ہو گیا تھا .. (نہ جانے سب کیا سوچ رہے ہوں گے باہر ) ” تم زحمت مت کرو ..میں خود لے لوں گا ..!! اس کی نگاہوں میں خمار اتر آیا تھا .. ” کیا ؟ ..کیا لے لو گے ؟..!!” وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی .. لیکن اس نے کچھ نہیں کہا تھا بس زو معنی انداز میں مسکرا دیا تھا .. ” زرنور کی نظر اس کے کلین شیو گال پر پڑتے ڈمپل پر پڑی تھی جو اس کی آنکھوں کی طرح گہرا تھا .. اس کی ڈیپ گرے آنکھوں کے بعد اس ڈمپل نے ہی تو اسے دیوانہ کیا تھا .. بے خودی میں اس نے اپنی مخروطی انگلیوں سے اس ڈمپل کو چھوا تھا .. ایک وقت تھا جب اس کے دل میں اسے چھونے کی شدید حسرت ہوا کرتی تھی لیکن اب تو جیسے وہ اسے چھونے کی اس کی حقدار بن گئی تھی .. گردن آپ ہی ناز سے اٹھی تو شبنمی ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ در آئی .. ” میرے جذبات کو بہکاؤ مت یار ..!!” اس کا لہجہ آنچ دیتا ہوا تھا .. “اتنی سی بات پر ہی اس کی پلکیں رخساروں پر سایہ فگن ہو گئیں تھیں اب مجھے یقین ہو گیا ہے ..تم صرف میرے ہو احمد صرف میرے ..!!” مطمئن انداز میں کہتے ہوئے زرنور نے اس کے سینے پر سر دھرا تھا .. “میں تو ہمیشہ ہی کہتا تھا تم ہی یقین نہیں کرتی تھیں ..!!” احمد نے اسے پھولوں کی طرح خود میں سمیٹ لیا تھا .. “دھڑ ..دھڑ دھڑ ..!!” جبھی دروازے پر ہونے والی زور دار دستک سے دونوں سحر سے نکل آۓ تھے .. دروازہ پوری شدّت کے ساتھ بجایا جا رہا تھا جیسے ابھی کوئی توڑ کر اندر آ جاۓ گا .. ” آ رہا ہوں یار ..!!” بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ ڈور کے پاس آیا تھا ایک نظر مڑ کر اسے دیکھا دل پر ہاتھ رکھے بیڈ کے کونے پر ٹکی تھی .. آنکھوں میں خفگی تھی جیسے کہ رہی ہو ( کہا تھا نہ میں نے چلے جاؤ ..اب پتا نہیں کتنا آکورڈ لگے گا ..) اس کی ناراضگی بھی بجا تھی .. آنکھوں میں اس کی موہنی سی صورت سموتے ہوئے اس نے دروازہ کھول دیا تھا لیکن باہر جو کوئی بھی تھا شاید دروازہ توڑنے کی نیت سے دھکا مارنے لگا تھا لیکن اسی وقت دروازہ کھولنے کے باعث حیدر سیدھا احمد سے ٹکرایا تھا اور اس ٹکراؤ کے نتیجے میں دونوں ہی فرش پر گرے تھے .. ” اف ..کیا حرکت ہے یہ ؟..!!” اس نے خود پر گرے حیدر کو دیکھ کر دانت پیستے ہوئے پوچھا .. جس نے فورآ سے دانت نکالے تھے لیکن پھر اندر کر کے چہرے پر غضبناک تاثرات سجاۓ .. “ٹائم پتا ہے کتنا اوپر ہو چکا ؟..!!” ” ہاں تو پیسے دئے تھے نہ تجھے ؟..!!” ” اپنے پاس ہی رکھ لے تو وہ پانچ ہزار ..پتا ہے کتنی مشکل سے ان بھوتنیوں کو روک رکھا تھا میں نے ..!!” “یہ بھوتنیوں کسے کہ رہے ہو ؟..!!” کھلے دروازے پر کھڑی لائبہ نے گھور کر پوچھا اندر تو جا نہیں سکتی تھی کے دونوں بیچ میں ہی گرے پڑے تھے .. ” تمہیں ہی کہ رہا ہوں ..!!” وہ بگڑے انداز میں اٹھا تو احمد بھی کپڑے جھاڑتا ساتھ ہی کھڑا ہوا .. وہ جو اسے سخت سست کہنے لگی تھی ماہین نے روک دیا تھا ” لائبہ دفع کرو اسے ..پہلے ان صاحب کی خبر لو ..!!” اس کا اشارہ احمد کی طرف تھا جو بس بھاگنے کے چکر میں تھا لیکن برا ہوا جو ان سے سامنا ہو گیا .. ” کیا کر رہے تھے یہاں ؟..!!” ماہین نے کڑے تیوروں کے ساتھ پوچھا .. ” محفل میلاد کی دعوت دینے آیا تھا ..!!” حیدر کے ٹکڑا لگانے پر لائبہ نے اسے تیز نظروں سے دیکھا تھا .. ” تم تو چپ کرو ..!!” “اوۓ اشعر ..سنبھال اپنی بیوی کو ..!!” اس نے بھی زور سے اشعر کو آواز لگائی تھی .. ” میں کچھ نہیں کر رہا تھا ماہین آپی ..!!” اس نے جس بھولپن سے کہا تھا لائبہ اور حیدر کو ہنسی آ گئی تھی .. ” سیدھی طرح بتاؤ ..!!” اس نے آنکھیں نکالی .. “وہاٹ ربش ..یہ کیا حرکت ہے ریاض ؟..!!” سخت غصّے میں اس نے لائبہ اور ماہین کے پیچھے دیکھتے ہوئے بلند آواز سے کہا تھا .. بے ساختہ ہی دونوں پیچھے مڑی تھی اور یہی موقع تھا احمد کے پاس بھاگنے کا .. فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ فورآ وہاں سے نکل لیا تھا .. ” یہاں تو ریاض نہیں ہے ..!!”لائبہ نے اچھنبے سے کہا .. ” آگے دیکھو بہن ..خانزادہ بھی نہیں ہے ..!!” حیدر کے محفوظ انداز پر وہ جلدی سے سیدھی ہوئیں تھیں تب تک وہ چکما دے کر جا چکا تھا ہونٹوں پر ہاتھ رکھے زرنور ہنسے جا رہی تھی لیکن جب ان دونوں کو بدلتے تیوروں سے اپنی جانب بڑھتے دیکھا تو گڑبڑا کر ہاتھوں میں سے گجرے اتارنے لگی ..
بے خود کئے دیتے ہیں .. انداز حجابانہ .. آ ..دل میں تجھے رکھ لوں .. اے جلوہ جاناں نہ .. گنگناتے ہوئے وہ انگلی پر کی چین گھماتا کچن کی جانب جا رہا تھا جب مناہل کے کمرے میں سے کسی کے کھلکھلانے کی آواز پر چونکا تھا .. گھر میں توصرف مناہل اور آنٹی تھے لیکن یہ آواز تو ان میں سے کسی کی نہیں تھی .. لیکن یہ آواز ..یہ تو وہ پہچانتا تھا .. ہاں یہ آواز اس کے لئے اجنبی نہیں تھی .. کمرے کا دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا دیوار پر ہاتھ رکھے اس نے سر اندر ڈال کر جھانکا تھا اور جو چہرہ اسے نظر آیا تھا اسے دیکھ کر وہ گرتے گرتے بچا تھا .. “یا اللہ یہ لڑکی ؟..!!” وہ بے یقینی سے خود سے مخاطب ہوا تھا…