بے خود کئے دیتے ہیں .. انداز حجابانہ .. آ ..دل میں تجھے رکھ لوں .. اے جلوہ جاناں نہ .. گنگناتے ہوئے وہ انگلی پر کی چین گھماتا کچن کی جانب جا رہا تھا جب مناہل کے کمرے میں سے کسی کے کھلکھلانے کی آواز پر چونکا تھا .. گھر میں توصرف مناہل اور آنٹی تھے لیکن یہ آواز تو ان میں سے کسی کی نہیں تھی .. لیکن یہ آواز ..یہ تو وہ پہچانتا تھا .. ہاں یہ آواز اس کے لئے اجنبی نہیں تھی .. کمرے کا دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا دیوار پر ہاتھ رکھے اس نے سر اندر ڈال کر جھانکا تھا اور جو چہرہ اسے نظر آیا تھا اسے دیکھ کر وہ گرتے گرتے بچا تھا .. “یا اللہ یہ لڑکی ؟..!!” وہ بے یقینی سے خود سے مخاطب ہوا تھا .. اسے تو وہ ہزاروں کے حجوم میں بھی پہچان سکتا تھا ..دوبارہ سے سر اندر ڈال کر مشکوک انداز میں دیکھا .. “وہی ہے یا پھر میرا وہم ہے ؟..!!” لیکن نہیں اسے سو فیصد یقین ہو گیا تھا جینز کے اوپر پرنٹڈ لونگ شرٹ پہنے وہ لڑکی کوئی اور نہیں یشفہ ہی تھی .. لیکن یہ چلی گئی کہاں گئی تھی ؟.. اور واپس کیسے آ گئی ؟ وہ بھی یہاں ؟..!!” وہ اچھنبے سے سوچتا وہیں کھڑا رہتا اگر مناہل کی بے ساختہ نظر اس پر نہ پڑتی تو .. ” حیدر تم یہاں ؟…!!” سرعت سے اس نےاپنے پیلے آنچل کا گھونگھٹ سا نکالا تھا .. اس کی آواز میں حیرت پنہاں تھی کیوں کے بخاری ہاؤس سے ابھی کسی کی بھی واپسی نہیں ہوئی تھی .. لاشعوری طور پر اس کی نگاہ حیدر کی جانب اٹھی تھی .. سیاہ رنگ کی پینٹ شرٹ پہنے ڈارک گلاسز کو ہمیشہ کی طرح گریبان میں اٹکا رکھا تھا .. ” میں تو کسی کو ٹھکانے لگانے کچن میں جا رہا تھا جب دو چڑیلوں کے ہنسنے کی آواز نے مجھے یہاں جھانکنے پر مجبور کر دیا …!!” یشفہ کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی .. وہ ابھی بھی ویسا ہی تھا .. جانے کون ہوتے ہیں وہ لوگ جو وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں لیکن حمزہ بھی اپنے نام کا ہی ایک ڈھیٹ تھا .. “کچن میں کسے ٹھکانے لگانے جا رہے ہو ؟..!” مناہل نے اس کی پہلی بات ہی سنی تھی .. ” کوفتوں کو ..!!” وہ دیکھ یشفہ کو رہا تھا اور بات مناہل سے کر رہا تھا .. “تم کوفتوں کو ٹھکانے لگانے آۓ ہو ؟..!!” ” ہاں نہ ..کل ماہین بھابھی نے اتنے مزے کے ہرے مصالے کے بناۓ تھے کے میں نے اور ریاض نے تو ایک ڈونگا بھر کر چھپا بھی دیا تھا اب اسے ہی ٹھکانے میرا مطلب ہے کے کھانے آۓ ہیں ..!!” “تم کیا زرنور کے گھر سے کچھ کھا کر نہیں آۓ ؟..!!” حیدر کی بات پر جانے کیوں ان دونوں نے مسکراہٹ دبائی تھی .. ” نہیں ..ہم نے احمد کے ساتھ اسی کے گھر ناشتہ کر لیا تھا ..اس کے بعد کوفتوں کی وجہ سے کچھ کھایا ہی نہیں ..!!” “کیسی ہیں آپ یشفہ صاحبہ ؟..!!” بلآخر رہا نہ گیا تو بول ہی اٹھا اسے مخاطب کرنے اور دو چار کھری کھری سنے بغیر اسے چین کہاں آتا تھا .. لیکن جو بھی تھا یشفہ کو وہاں دیکھ کر اس کا موڈ خوش گوار ہو گیا تھا .. (اب آۓ گا اصل مزہ شادی کا ..) “ٹھیک ..!!” یک لفظی جواب دے کر وہ اپنے سوٹ کیس کی جانب متوجہ ہو گئی تھی .. انداز میں خفگی بھرا تاثر بھی صاف واضح تھا .. آخری ملاقات میں حیدر کے جارحانہ انداز پر وہ ابھی بھی ناراض تھی .. “یہ کیا رہنے کے لئے آئی ہے ؟..!!” حیدر نے اشارے سے مناہل سے پوچھا تھا .. “ہاں شادی تک یہیں رہے گی ..بڑی مشکل سے راضی کیا ہے ..!!” مناہل نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ بھی جبرآ مسکرا دی تھی .. ” تم لوگ پہلے تو دوست نہیں تھی تو پھر ؟..!!” حیدر کو اس کا اچانک وہاں ہونا سمجھ نہیں آ رہا تھا .. “خیر دفع کرو جہاں بھی ہوئی ہے ..ویسے بھی چڑیلیں اگر دوسری دنیا میں بھی ہو تو کیسے نے کیسے کر کے اپنی بچھڑی ہوئی سہیلیوں کے پاس پہنچ ہی جاتی ہے …!!” مناہل کے گھورنے پر وہ جلدی سے بولا تھا .. “ویسے وہ تمہارا بےوقوف عاشق تمہارے اکیلے ہونے کا فائدہ اٹھا کر تم سے ملنے آ رہا تھا بڑی مشکل سے پکڑ کر کمرے میں بند کیا اسے ..!!” “تم لوگوں نے حارث کو کمرے میں بند کر دیا ؟..!!” وہ حیرت سے بولی .. ” اور نہیں تو کیا ..اگر وہ تمہیں اس مایوں کے نیلے پیلے جوڑے میں دیکھ لیتا تو شادی والے دن بقول تم چڑیلوں کے روپ نہیں آتا نہ اور تم اسٹیج پر بیٹھی ہوئیں پوری منہ سے خون ٹپکانے والی آدم خور بھوتنی لگ رہی ہوتی ..!!” اس کا انداز لا پروا سا تھا .. ” کیوں نہیں آنے دیا تم نے اسے ؟ میں گھونگھٹ نکال کر بات کر لیتی جیسے تم سے کر رہی ہوں ..!!” مناہل برا ہی مان گئی تھی .. ” ایک تو تم لوگ کبھی اکیلے نہ رہنا دینا ہم بے چارے معصوموں کو ہر وقت ہی بلا بن کر سر پر سوار رہتی ہو ..!!” اس نے بےزاری سے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا (پتا نہیں کہاں رہ گیا ریاض ؟..!!) “مناہل کے چہرے پر غصے کے سے انداز دیکھ کر اس نے پھر سے پینترابدلہ تھا .. ” اگر تم کہو تو ملاقات کا انتظام کروا دیتا ہوں ..ابھی احمد اور نوربانو کی بھی کروا کر آ رہا ہوں ..!!” “واقعی میں ؟..!!” “ہاں نہ ..!!” “ٹھیک ہے پھر کروا دو .!!” اس نے شرمگیں انداز میں کہا لیکن لگ نہیں رہا تھا کہیں سے کے وہ شرما رہی ہے .. ” کروا دو پھر ..!!” حیدر نے اس کی نقل اتاری .. ” ایسے ہی کروا دوں ؟ پیسے لگتے ہیں بہن ..احمد سے پانچ ہزار لئے ہیں میں نے پورے ..لیکن چونکے تمہاری شادی قریب ہے ..اس لئے پکڑے جانے کا خطرہ بھی زیادہ ہے تو تم سے پورے دس ہزار لوں گا ..اور اگر رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تو میرا نام بھی نہیں آنا چاہیے ..!!” وہ پروفیشنل بزنس مین کے سے انداز میں جیسے ڈیل اوراس کی شرطیں بتا رہا تھا .. انداز اتنا سنجیدہ تھا جیسے سچ میں یہ اس کا پارٹ ٹائم بزنس ہو ..!!” “ایک دس منٹ کی ملاقات کے دس ہزار ؟ ..!!” وہ حیرت زدہ انداز میں بولی .. “مجھ سے کیوں مانگ رہے ہو ؟ حارث سے جا کر ہی لو ..!!” اگلے ہی لمحے نخوت سے ناک چڑھا کر بولی .. ” تم سے پہلے اسی نے کہا تھا لیکن پھر ڈیل کینسل کر دی اس کنجوس نے وہ تو ڈھائی ہزار پر ٹرخا رہا تھا اب تم ہی بتاؤ مہنگائی کے اس زمانے میں کون اتنے سستے میں ایسے جان جھوکم میں ڈالنے والے کام کرتا ہے ؟..اور دیکھو ذرا تمہارے لئے وہ دس ہزار بھی نہیں دے سکتا ..چہ چہ !!” حیدر نے افسوس سے سر ہلایا تھا .. ” حیدر ..اوے حیدر ..!!” ریاض کی حواس باختہ آواز پر اس نے چونک کر پیچھے دیکھا .. ” کیا ہوا ؟..!!” ” ابے کوفتے نہیں ہیں ..!!” “ہیں ؟؟..!!” وہ نہ سمجھی سے بولا .. ” پورا کچن چھان مارا لیکن کہیں نہیں ملے …!!” ریاض کے جذباتی لہجے پر حیدر کا دل ڈوب ڈوب گیا تھا .. ” کوفتے غائب ؟..اب میں کھاؤں گا کیا ؟..!!” وہ گہرے صدمے سے بولا .. ” مجھے کھالے ..!!” ریاض سلگ کر بولا .. “صرف اپنا خیال ہے تجھے کمینے اور میں جو ..!!” اس کی بات ادھوری رہ گئی تھی ایک ابرو اٹھا کر اس نے تعجب سے کھڑکی کے پاس کھڑی فون پر بات کرتی یشفہ کو دیکھا تھا .. ” یہ کہاں سے آگئی ؟..!!” اشاروں کنائیوں میں حیدر سے پوچھا .. ” اس سے زیادہ ضروری ابھی کوفتے ہیں ..تونے ٹھیک سے دیکھا تھا نہ ؟..!!” “ہاں نہ ایک ایک چیز دیکھی ہے لیکن نہیں ملے ..!!” اس کا انداز ہارے ہوئے جواری کی طرح تھا … کتنی مشکل سے سب کی نظروں سے بچا بچا کر اس ایک ڈونگے کی حفاظت کر رہے تھے .. “ایک دفعہ اور دیکھ لیتے ہیں ..!!” حیدر کو ابھی بھی امید سی تھی .. “اہم ..حیدر ریاض ..!!” اتنی دیر سے ہنسی کنٹرول کرتی مناہل اب بول ہی اٹھی تھی .. “انھیں ڈھونڈنے کی تکلیف مت کرو ..!!” ” کیوں .؟ تمہں پتا ہے وہ کہاں ہیں ؟..!!” دونوں فورآ ہی پر جوش ہو گئے .. “وہ… میں نے اور یشفہ نے کھا لئے ..تھینکس ٹو بوتھ آف یو ..تم لوگوں نے اسے چھپا کر رکھا ..سچ میں اگر وہ نہ ہوتے تو ہمیں باہر سے آرڈر کرنا پڑتا ..!!” اس نے محفوظ انداز میں بے چارگی اور شرارت کی ملی جلی کیفیت میں کہا تھا .. وہ دونوں سکتے کے سے انداز میں ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے تھے ..
شام کے وقت کوئی جا کر سب کی واپسی ہوئی تھی .. “خیریت ہے آج لڑکے والوں کی طرف سے دھمال ڈالنے کی آوازیں نہیں آ رہی ..!!” چاۓ کی چسکیاں لیتی انوشے نے ریلینگ سے ٹیک لگاۓ ہلکا سا جھک کر نیچے جھانکتے ہوئے شرارت سے پوچھا تھا .. دونوں ڈی جے ..کوفتے نہ ملنے کا سوگ منا کر بیٹھے ہوں گے .!!” موبائل پر زرنور اور احمد کے نکاح کی ویڈیو دیکھتی مناہل اور یشفہ نے ہنستے ہوئے کہا تھا .. یشفہ کی وہاں موجودگی ان سب کے لئے ہی سرپرائزنگ تھی کیوں کے اس نے تو شادی میں آنے سے معذرت کرلی تھی لیکن ایسے اچانک اسے وہاں دیکھ کر وہ سب ہی بے حد خوش ہوئی تھیں ..کیوں کے حیدر کے ساتھ اس کے بھڑنے کے قصے وہ اچھے سے جانتی تھی ..انوشے کے توست سے ان کی آپس میں دوستی ہوئی تھی .. اور پٹر پٹر بولتی اس گولڈن بالوں والی گڑیا سے تھوڑے ہی عرصے میں ان کو گہری دوستی ہو گئی تھی .. جو فاریہ کی ہم عمر تھی یعنی ان چاروں سے ایک ڈیڑھ سال چھوٹی ہی تھی ..
زر یہ دوپٹہ بھی لے جاؤ لہنگے کے ساتھ میچ نہیں ہو رہا یہ پنک کلر ..اسے چینج کروا کر آتشی رنگ لے لینا ..!!” مناہل نے اسے شاپر میں دوپٹہ ڈال کر دیا تھا .. صبح گیارہ بجے کا وقت تھاناشتہ کرنے کے بعد زرنور انوشے اور یشفہ سحرش بیگم کے ساتھ مال جانے کی تیاری کر رہیں تھیں ابھی بھی دو چار چیزیں خریدنی تھی اور یشفہ کی تو پوری شاپنگ رھتی تھی ..جس کا شادی بیاہ جیسی تقریبات کے ملبوسات خریدنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا .. اس لئے اب اس کی تیاری بھی ان لوگوں نے ہی کرنی تھی .. ” ٹھیک ہے لے آؤں گی اور ایسا کرو مجھے پارلر کا کارڈ دو آتے ہوئے بکنگ بھی کروا لیں گے ..!!” برش سے بال سنوار کر کیچر میں قید کرتے ہوئے اس نے کہا تھا .. انوشے نے لسٹ بنا کر اس پر سرسری سی نظر ڈالنے کے بعد مناہل کو پکڑا دی تھی .. ” ایک دفعہ اور دیکھ لو ..اگر کچھ رہ گیا ہے تو اس میں لکھ دو ..!!” “اب چلو بھی آتے آتے بھی پھر شام ہو جاۓ گی ..!!” زرنور نے ہینڈ بیگ چیک کرتے ہوئے انھیں جلدی کرنے کا کہا تھا .. “فاریہ تم نے کچھ منگوانا ہے ؟..!!” چھوٹی ٹرے میں چاۓ کے دو کپ رکھے اندر آتی فاریہ کو دیکھ کر انوشے نے پوچھا تھا ” نہیں انوشے ..میری تیاری کمپلیٹ ہے اور آپ لوگ پلیز جلدی آنے کی کوشش کیجئے گا ورنہ میرا سر پھٹ جاۓ گا اس تیز آواز سے ..!!” اس کا اشارا ڈیک پر تیز آواز سے چلتے گانوں کی طرف تھا .. جو حیدر اپنے دوست کی شاپ سے اٹھا لایا تھا جس کے آس پاس جانے پر بھی اس نے سب پر پابندی لگا رکھی تھی .. وہ لوگ تو اسے ڈانٹ ڈپٹ کر بند کروا دیتی تھی لیکن فاریہ کی اس سے اتنی فرینکنس نہیں تھی .. اور ایک سپیکر تو ان لوگوں نے بھی کمپیوٹر کے ساتھ کنیکٹ کر رکھا تھا جس پر “خالص شادی والے “گانے ہی بجاتی تھیں وہ لوگ اور اس کی آواز بھی صرف اتنی ہوتی تھی کے صرف اوپر کے پورشن میں ہی ہوتی تھی لیکن جب حیدر گانے لگاتھا تھا تو پورے محلے کے کان جھنجھنا اٹھتے تھے ایک تو وہ گانے شادی والے ہر گز نہیں ہوتے تھے اور دوسرا ایکو کے ساتھ ساتھ اس کے گلے کے سپیکر کا بھی فل والیوم ہوتا تھا .. ابھی بھی دونوں گلہ پھاڑ کر گا رہے تھے .. ” اسکی فکر مت کرو ماہین بھابھی تو گھر پر ہی ہے نہ تھوڑی دیر بعد ان سے کہ کر بند کروا لینا ..!!” زر نور نے مناہل سے کارڈ لے کر کلچ میں رکھتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا .. “جلدی کرو بچیوں ..!!” نیچے سے سحرش بیگم کے آواز دینے پر جلدی جلدی کرتی وہ لوگ نیچے اترنے لگی تھی ” ارے میں تو بھول گئی ..!!” اس نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے ٹرے مناہل کو دی اور جلدی سے ان کے پیچھے آئی .. ” زرنور ..ٹیلر کے پاس سے میری شرٹ بھی لے آنا جو فٹنگ کے لئے دی تھی ..!!” اس نے ریلینگ سے جھکتے ہوئے یاد دہانی کروائی تھی .. ” لے آئیں گے ..!!” وہ جو الٹی پی کیپ پہنے سیٹی بجاتے ہوئے باہر کی جانب جا رہا تھا ان لوگوں کو نک سک سے کہیں جانے کے لئے تیار دیکھ کر کیپ سے چہرہ چھپاتا الٹے قدموں پلٹا تھا ..لیکن تب تک ان کی نظر اس پر پڑ چکی تھی .. ” حیدر ہمیں مارکٹ لے چلو ..!!” اور حیدر نے سو دفعہ خود کو کوسا تھا .. ضرورت ہی کیا تھی گھر پر رکنے کی ؟.. ریاض اور احمد نے کتنا اصرار کیا تھا آفس چلنے کے لئے .. لیکن اس نے بھی صاف منع کر دیا تھا جیسے شادی تو اسی کی ہو رہی ہو .. اشعر اور تیمور بھی اپنے آفس میں تھے اور حارث بےچارہ کبھی ٹیلر کے کبھی ہال کے تو کبھی کہاں کے کام نمٹاتا پھر رہا تھا .. صرف ایک وہی سہی معنوں میں فارغ تھا جو ایک ہفتے سے ڈرائیور کے فرائض سنبھال رہا تھا .. لیکن اب وہ بھی تپ اٹھا تھا .. “دو چار دن خوشی خوشی لے کیا گیا تم لوگوں نے تو مستقل اپنا ڈرائیور ہی سمجھ لیا ..!!” وہ بگڑے موڈ سے بولا تھا .. ” ہاں تو گھر پر فارغ بیٹھ کر تم کرتے بھی کیا ہو ؟ سواۓ محلے والوں کاسکون برباد کرنے کے ..!!” اس نے بھی فورآ حساب بے باک کیا تھا .. ” یہ صرف آخری دفعہ ہے اس کے بعد کہیں نہیں لے کر جاؤں گا ..!!” وہ ہٹ دھرمی سے کہ رہا تھا .. ” بعد کی بعد میں دیکھی جاۓ گی ابھی تو چلو ..!! زرنور نے لاپرواہی سے ہاتھ جھلا یا تھا .. وہ صرف صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گیا تھا
“ویسے مجھے خوشی ہے کے کینیڈا جیسے ملک میں رہ کر بھی تم اپنی روایتوں کی اتنی پاسداری کرتی ہو ..!!” “بھلے سے میری ساری زندگی وہیں گزری ہے لیکن میں تو آج بھی پشاور کے رنگ میں ہی رنگی ہوئیں ہوں ..آپ کو پتا ہے میں پشاور صرف ایک دفعہ ہی گئی ہوں اپنی زندگی میں وہ بھی صرف چار سے پانچ دنوں کے لئے لیکن یہ دن ..جیسے نقش ہو گئے ہوں میرے دل پر ..اور دوسرا بابا اور ابی جان کی وجہ سے جنہوں نے اس ملک میں رہ کر کبھی مجھے پشاور کی کمی محسوس نہیں ہونے دی ..!!” وہ مسکرا کر کہتی ساتھ ساتھ کیچپ میں فرائیز بھی ڈبو ڈبو کر کھا رہی تھی جو ماہین نے اسے تھوڑی دیر پہلے بنا کر دی تھی .. “تمہیں تو ایک نظر دیکھ کر ہی پتا لگ جاتا ہے کے کسی کٹر پٹھان فیملی سے بلونگ کرتی ہو لیکن اشعر تو تم سے بہت مختلف ہے ..وہ تو جب تک بتاۓ نہ کے میں پٹھان ہوں کسی کو پتا بھی نہیں چلتا ..!!” قورمے کا مصالحہ بھونتے ہوئے وہ ہنستے ہوئے کہ رہی تھی .. “ارے نہیں آپی .بھائی صرف اپنے حلیے کی وجہ سے نہیں لگتے ورنہ تو اندر سے وہ پیور پٹھان ہے ..!!” اس کے انداز میں اشعر کے لئے فخر سا تھا .. انگلی اور انگوٹھے سے پیشانی مسلتا وہ سیدھا کچن میں آیا تھا .. ” بھابھی وہ ..!!” ڈائنگ ٹیبل کے گرد بیٹھی فاریہ کو دیکھ کر اس کی بات منہ میں ہی رہ گئی تھی .. اسی نے تو اس کا چین و سکون برباد کر کے رکھا ہوا تھا .. وہ دونوں چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوئی تھی .. فاریہ نے جلدی سے کندھے پر پڑا دوپٹہ سر پر ڈالا تھا .. ” تم اس وقت خیریت ؟..!!” ماہین نے حیرت سے پوچھا .. ابھی تو صرف ایک ہی بجا تھا اور وہ تو احمد کے ساتھ صبح آفس گیا تھا .. “وہ ..سر میں درد ہو رہا تھا اس لئے آ گیا ..آپ پلیز چاۓ بنوا دیں مجھے ..!!” اس نے بدستور پیشانی مسلتے ہوئے کہا تھا .. چہرے پر تھکن بھی صاف واضح تھی .. (بنوا دیں ؟؟..اتنے رعب سے یہ میرے لئے کہ رہا ہے ؟؟) وہ سلگ ہی تو اٹھی تھی .. “ٹھیک ہے میں بنا دیتی ہوں ..!!” ” نہیں آپ پریشان نہ ہو ..آپ اپنا کام کر لیں ..لیکن جو فارغ بیٹھا ہے اسے کہ دیں ..!!” ماہین اور فارریہ کے علاوہ وہاں تھا ہی کون ؟ اور وہ یقیناً اسی کے بارے میں کہ رہا تھا .. “ہاں فاریہ بنا دیں گی ..فاری ایک کپ بنا دو اس کے لئے ..!!” ماہین نے مصروف سے انداز میں کہا تھا .. وہ تلملا کر رہ گئی تھی .. اس کے انداز پر ریاض اپنی مسکراہٹ چھپا گیا تھا .. “سنیے ..ذرا جلدی بنائیے گا ..!!” مصنوئی سنجیدگی اس نے سیدھے اسے مخاطب کر کے کہا تھا جو مکمل اسے نظر انداز کرتی فریج سے دودھ نکال رہی تھی .. ریاض کی نظر ٹیبل پر پڑی آدھی فرائز سے بھری پلیٹ پر پڑی تھی جو وہ تھوڑی دیر پہلے کھا رہی تھی .. “بھابھی کیا یہ میں لے لوں ؟..!!” اس کا اشارہ پلیٹ کی طرف تھا .. ” یہ فاریہ کی ہے ریاض ..!!ا” (اور وہ میری ہے ..) یہ احساس ہی کتنا دلکش تھا اس کے لئے .. ” یہ اور بنا لیں گی اپنے لئے ..!!” آگےآ کر اسے اٹھاتا وہ کھاتے ہوۓ وہاں سے چلا گیا تھا .. لاکھ دل چاہنے کے باوجود بھی فاریہ اس کی چاۓ میں چینی کی جگہ نمک نہیں ملا سکی تھی .. اور پھر نمک ملانے سے ہوتا بھی کیا ؟.. جس حساب سے اسے ریاض سے پر غصہ آتا تھا اگر نمک کی جگہ زہر دستیاب ہوتا تو وہ کبھی نہ چوکتی ملانے سے .. بے دلی سے چاۓ بنا کر اس نے کپ میں نکالی تھی .. ” ایسا کرو فاری فریج پر بوکس رکھا ہے اس میں سے پین کلر بھی لے لو ..!!” “آپی میں نہیں جاؤں گی دینے ..!!” وہ بدک کر بولی .. ” ارے ..!!” ماہین بے ساختہ ہنسی تھی .. ” فکر نہیں کرو کچھ نہیں کہے گا ..وہ حیدر نہیں ہے ..!!” “لیکن ..!!” وہ منمنائی ..!!” ” چلی جاؤں نہ فاری ..میں کہ رہی ہوں نہ کچھ نہیں کہے گاوہ .. اور چاۓ ٹھنڈی ہو گئی تو پھر فائدہ ؟ ..!!” “لیکن مجھے نہیں پتا نہ کے وہ کہاں ہوں گے ..!!” اس نے پھر عذر تراشا .. سچ تو یہی تھا کے وہ اس کے سامنے جانا نہیں چاہتی تھی .. “حارث کے کمرے میں ہوگا ..!!” ماہین نے اس کا یہ بہانہ بھی سائیڈ پر کر دیا تھا ناچار اس نے بوکس میں سے ٹیبلٹ نکال کر ٹرے میں رکھی سر پر جمے دوپٹے کو پھر سے ٹھیک کرتی منہ بناتے ہوئے وہاں سے نکل کر حارث کے کمرے کے پاس آ رکی ۔۔گہری سانس لے کر خود کو کمپوز کیا .. ” بس جاؤں گی اور رکھ کر جلدی سے واپس آجاؤں گی ..گڈ !!” ہلکے سے دروازہ ناک کر کے اس نے اندر قدم رکھا تھا .. وہ جو صوفے پر آنکھوں پر بازوں رکھ کر لیٹا تھا کھٹکے کی آواز پر ہاتھ اٹھا کر اسے دیکھا تھا . جس نے مظبوطی سے ٹرے کو جکڑ رکھا تھا انداز تو ایسا تھا کے بس چلے تو وہیں فرش پر رکھ کر بھاگ جاۓ جلدی سے .. ایویں بالوں میں انگلیاں پھیرتا وہ اٹھ کر قدم قدم چلتا اس کے پاس آ رہا تھا .. فاریہ کا دل جانے کیوں زور سے دھڑکنے لگا تھا .. “لاؤ ..!!” اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر آواز کو بھاری بناتے ہوئے سنجیدہ انداز میں کہا .. فاریہ نے جلدی سے ٹرے اس کے ہاتھ میں دی تھی لیکن جلد بازی میں ہی اس کی انگلیاں ریاض کے ہاتھ سے ٹچ ہو گئی تھی .. اسے جیسے کرنٹ سا چھو گیا تھا .. وہ جو گھبرا کر وہاں سے بھاگنے کو تھی ریاض نے سرعت سے اس کی کلائی جکڑ لی تھی .. “تم ..تم نے ہاتھ کیوں پکڑا ہے میرا ؟؟..!!” خون ہی تو کھول اٹھا تھا اس کی جرات پر .. ” اوہ پلیز ..اب تھپڑ مت مار دینا ..میں تو کہ رہا تھا کے وہ اپنی فرائز کی پلیٹ لے جاؤ ..!!” ریاض نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑی خالی پلیٹ کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا .. ” سر میں مار لو اپنے ..!!” اس نے جھٹکے سے اپنی کلائی چھڑوا کر کھا جانے والے انداز میں کہا تھا .. ” اس کی ہمّت بھی کیسے ھوئی مجھے چھونے کی ؟..!!” “اتنا غصہ ؟؟..!!” وہ چھیڑتے ہوئے محفوظ انداز میں اس کا گلابی سے سرخ پڑتا چہرہ دیکھ رہا تھا .. ساتھ ہی کپ اٹھا کر ایک گھونٹ بھی بھرا تھا .. بے شک اس نے بے دلی سے بنائی تھی لیکن ذائقہ پھر بھی اچھا تھا .. ” زیادہ فری ہونے کی کوشش مت کرنا مجھ سے ..!!” وہ چبا کر اسے باور کروا رہی تھی .. باضابطہ دونوں کی پہلی بات چیت تھی .. ایک مار ڈالنے پر بضد تھی تو دوسرا مر جانے کے لئے بے قرار .. ریاض کا دل تو صرف اس کا خود سے مخاطب ہونے پر جھوم اٹھا تھا .. بھلے سے وہ اسے کڑوی کسیلی جو بھی سنا رہی تھی لیکن اس کے لئے تو یہ بھی بہت زیادہ تھا کے وہ اس سے بات کر رہی تھی .. ” معافی ..فاریہ صاحبہ ..!!” شوخ انداز میں اس نے فورآ ہی ادب سے سر جھکایا تھا .. آگ برساتی نظروں سے اسے گھور کر وہ پیر پٹختی وہاں سے گئی تھی .. وہ ہنستے ہوئے چاۓ پینے لگا تھا .. اس کی تو ایک ایک ادا دل کو بھاتی تھی .. ایک نہ ایک دن تو تمہیں ریاض چوہدری کا بننا ہی پڑے گا ..!!
لان میں رکھے بڑے سے پنجرے میں اڑتے پھرتے حارث کے آسٹریلین طوطے ..اور ٹھیک اس کے سامنے بیٹھی انھیں دیکھ کر رال ٹپکا کر ان پر نیت خراب کرتی زرنور کی مانو بلی .. طوطے دیکھ کر منہ میں پانی بھر آنا تو فطری تھا اب زرنور نے کبھی اسے گوشت کا ٹکڑا تک چکھایا نہ تھا لیکن اس کے علاوہ وہ اسے ہر چیز کھلا دیتی تھی جو وہ بیچاری صبر کرتے ہوئے چپ چاپ کھا لیتی تھی .. لیکن آخر کو تھی تو ایک جانور اور اوپر سے ایک بلی .. اگر زرنور اپنی پیاری مانو بلی کو طوطے دیکھ کر ایسے زبان چاٹتے دیکھ لیتی تو اس کے جانور ہونے کا بھی لہاز نہ کرتے ہوئے دو تھپڑ تو لگا ہی دیتی .. حیدر ہنستے ہوئے اس کو نیت لگاتا دیکھ رہا تھا جب ڈرائیوے سے شاپنگ بیگز ہاتھ میں پکڑے سر پر گاگلز ٹکاۓ یشفہ کو اندر جاتے دیکھا تھا لان میں سے ہی آواز دے کر روک لیا تھا .. “یشفہ بات سنو ..!!” جو نہ چاہتے ہوئے بھی رک گئی تھی .. ” بیٹھ جاؤ ..!!” اس نے لکڑی کی بینچ کی طرف اشارہ کیا تھا .. “میں ٹھیک ہوں یہیں ..جو کہنا ہے جلدی کہو ..!!ا” خاصے تکلف سے وہ وہاں کھڑی تھی جیسے مارے باندھے مروت نبھا رہی ہو .. ” تم جانتی ہو میں کیا پوچھنا چاہتا ہوں ..!!” ایک نظر اس کے سراپے کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے چہرے کو فوکس میں رکھتے ہوئے اس نے کہا تھا .. ” اور میں تمہیں بتانا ضروری نہیں سمجھتی ..!!” سرد انداز میں کہتی وہ جانے کے لئے پلٹ گئی تھی لیکن حیدر کی آواز نے قدم نے روک لئے .. ” محبّت کرنا کوئی جرم تو نہیں جو ایسے چھپاتی پھر رہی ہو ..!!” ” کیا فضول بکواس ہے یہ ؟..!” اس کے تیور یخلت ہی بدلے تھے .. ” تو پھر اس دن کے بعد سے تم غائب کہاں ہو گئیں تھیں ؟..!!” ” مجھے نہیں پتا تم کس دن کی بات کر رہے ہو ..!!” ” وہی دن ..جب میں نے تمہارے حقوق حاصل کرنے کی بات کہی تھی ..!!” اس کا انداز سنجیدہ تھا لیکن شرارتی آنکھیں صاف چگلی کھا رہیں تھیں .. ” تم کسی خوش فہمی میں مت رہنا کے تمہاری وجہ سے گئی تھی ..اس دن جو حرکت تم نے کی تھی نہ میں صرف تمہارا قتل کرنے سے خود کو باز رکھتے ہوئے وہاں سے گئی تھی کیوں کے میں تمہارا خون اپنے سر نہیں لینا چاہتی تھی ..!!” جب جب وہ حیدر کے لئے اپنے دل میں سوفٹ کارنر محسوس کرتی تھی تبھی وہ ایسا کچھ کر دیتا تھا کے وہ پھر سے اس سے بد گمان ہو جاتی .. ابھی بھی اس کی آنکھوں سے نکلتی چنگاریوں سے صاف معلوم پڑتا تھا کے وہ ابھی تک حیدر سے اس دن کے لئے شدید غصہ ہے جب وہ زبردستی اسے چادر اوڑھا کر مال سے نکال لایا تھا .. ” اچھا تو پھر تمہاری ڈریسنگ میں یہ چینج کیسے آگیا ؟..!!” اس کا اشارہ یشفہ کی بلیک پلازو اور کرتی کی طرف تھا .. وہ جو جینز اور ٹاپ کے علاوہ کچھ پہنتی ہی نہ تھی دو روز سے حیدر نے اسے ان کپڑوں میں نہ دیکھا تھا ..حیرت تو بجا تھی .. ” لسن ..تمہیں پہلے بھی کہا تھا اور اب دوبارہ کہ رہی ہوں ..میرے میٹرز میں ٹانگ مت اڑایا کرو ورنہ پچھتاؤ گے بہت ..!!” ایک ایک لفظ چبا کر کہتے ہوئے وہ تن فن کرتی وہاں سے گئی تھی .. وہ پرسوچ انداز میں اسے جاتا دیکھ رہا تھا .. “کب سدھرے گی یہ ؟؟..!!
“فاریہ , انوشے تم نے مانو کو کہیں دیکھا ہے ؟ کب سے ڈھونڈ رہی ہوں مل ہی نہیں رہی ..اس کے کھانے کا بھی وقت ہو گیا ہے !!” وہ تشویش زدہ انداز میں یہاں وہاں اسے ڈھونڈتی پھر رہی تھی .. لیکن ان کے جواب کی ضرورت ہی نہیں تھی کیوں کے اس نے اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لیا تھا ..اور سہی معنوں میں اس کا منہ کھل گیا تھا .. “الٹی پی کیپ پہنے حارث کا آسٹریلین طوطا ہاتھ میں دبوچے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے ناک کی سیدھ میں چلتا حیدر اور اس کے پیچھے پیچھے ہونٹوں پر زبان پھیر کر چٹخارے لیتی مانو بلی اور اس کے پیچھے حارث ..جو اپنا طوطا واپس لینے کے لئے اسے غصے سے سخت سست سنا رہا تھا .. کیوں کے بلیوں کی کسی چیز پد نظر پڑ جاۓ اور اس پر ان کی نیت خراب ہو جاۓ تو وہ پھر اسے ہضم کر کے ہی چھوڑتی ہیں ..!!” زرنور نے بہت مشکل سے اپنی مانو کو قابو کیا تھا جو میاؤں میاؤں کرتی حیدر کے قدموں میں لوٹ رہی تھی .. “کبھی کوئی سیدھا کام نہ کرنا تم ..!!” حارث اور زرنور کا ایک ہی خیال تھا .. وہ دونوں کھا جانے والے انداز میں اسے دیکھ رہے تھے .. حارث اس سے اپنا طوطا واپس لینے میں تو کامیاب ہو گیا تھا لیکن حیدر ابھی بھی زرنور کی گود میں بے حال ہوتی مانو میڈم کو تسلی دلا رہا تھا کے .. “پورا پنجرا بھرا ہوا ہے ابھی تو.. اور وہ ایک ایک کرکے سارے اس کے خدمت میں پیش کرے گا ..!!ا”
” لائبہ ..کہاں ہو تم ؟..!!” اسے یشفہ نے کہا تھا کے ا”آپ کو لائبہ بلا رہیں ہیں سٹور سے کچھ سامان نکالنا ہے “ لیکن یہاں تو وہ اسے نظر ہی نہیں آ رہی تھی .. اس کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی جب کسی نے اس کا بازو پکڑ کر دیوار سے لگایا تھا .. ” یہ کیا حرکت ہے تیمور ؟..!!” ہوش ٹھکانے پر آۓ تو اس کی شکل دیکھ کر وہ ناراضگی سے بولی .. ” مجھے یہ کرنے پر تم نے مجبور کیا ہے ..!!” وہ سکون سے اسے دیکھتے ہوئے نولا “میں نے ؟..!!” اس نے حیرت سے انگلی سے خود کی طرف اشارہ کرکے پوچھا .. ” ہاں تمہاری وجہ سے ..میری کال ریسو نہیں کرو گی میرے میسج کا رپلائی نہیں دو گی تو مجھے یہی کرنا پڑے گا نہ ..!!” دیوار پر اس کے دائیں بائیں ہاتھ جما کر اپنے حصار میں لئے وہ بے چارگی سے کہ رہا تھا .. “اب آپ مجھے خود ہی بتائیے ..کیا میں سب کے سامنے آپ کی کالز اور میسجز کے جواب دیتی اچھی لگوں گی ..؟!!” خفگی سے کہتے ہوئے اس نے سوال پوچھا تھا .. وہ کوشش کے باوجود بھی اپنی ہنسی روک نہ پایا تھا .. ” کیوں ہنس رہے ہیں ؟..!!” اس کے بلاوجہ کے ہنسنے پر مزید تپ چڑھی .. ” قسم سے انوش ..”آپ” کہتی ہوئی بڑی کیوٹ لگتی ہو ..!!” اس کو لمحہ لگا تھا تیمور کی بات سمجھنے میں اور جب سمجھ آئی تو جھینپ گئی .. ” اب جیسے بھی ہو ..عزت تو کرنا پڑے گی نہ آپ کی ..!!” چہرے پر مصنوئی بے چارگ طاری کرتے ہوئے وہ شرارت سے کہ رہی تھی .. ” مطلب دل سے عزت نہیں کرتی تم میری ..ہمم ..!!” اس نے جیسے کچھ سمجھنے کے انداز میں سر ہلایا تھا .. اس کے منہ پھلانے پر انوشے نے ہنستے ہوئے اس کے کندھے پر سر رکھا تھا .. ” ایک دل ہی تو ہے جو صرف آپ کی عزت کرتا ہے ..!!” اور تیمور کی تو مصنوئی ناراضگی انوشے کی خودسپردگی نے ہی ختم کر دی تھی .. ” اگر عزت کی جگہ محبّت کا لفظ ایڈ کر دیا جاۓ تو ؟..!!” اسے اپنے حصار میں قید کرتے ہوئے وہ کان کے پاس گنگنایا تھا .. ” تو میں کہوں گی کے ..!!” انوشے نے اپنا نازک سا ہاتھ اس کی آنکھوں پر رکھ دیا تھا .. ” کہ ؟؟..!!” وہ ہمہ تن گوش تھا .. “کہ ..!!” وہ تھوڑا سا جھکی .. تیمور بے خود ہونے لگا تھا .. اتنے میں اس نے اس نے سارا زور لگا کر خود کو اس کی قید سے نکالا تھا .. وہ جھٹکے سے آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہا تھا جو دروازے کا پٹ تھامے دور کھڑی تھی .. “تو میں کہوں گی کے ..تھوڑا سا انتظار …!!” ٹھینگا دکھا کر جھپاک سے باہر بھاگی تھی ..اور تیمور اس کی چالاکی پر ہنس دیا تھا ..
“ماشاءاللہ ..کیا خوب ڈیزائن بنایا ہے ..!!” انوشے زرنور کے مہندی لگا رہی تھی حیدر بھی پاس ہی گاؤ تکیے سے ٹیک لگاۓ بیٹھا مسلسل کچھ نہ کچھ بولے ہی جا رہا تھا اشعر اور ریاض ایکو کے ساتھ الجھے ہوئے تھے جو چل کر ہی نہیں دے رہا تھا .. ایک طائرانہ سی نظر اس نے ان سب پر ڈالی تھی اور پھر بیچ میں بڑی سی چاۓ کی ٹرے پٹخنے کے سے انداز میں رکھی .. ” یہ آخری دفعہ ہے اب کسی نے چاۓ کے لئے آواز لگائی تو دیکھنا پھر ..!!” نروٹھے انداز میں کہتی وہ زرنور کے ساتھ جا بیٹھی تھی .. ” خوش رہو ..سیدھی جنت میں جاؤ گی ..!!” حیدر نے جلدی سے دو کپ جھپٹتے ہوئے خوشدلی سے کہا تھا .. “اور تمہیں تو خاص طور پر کہ رہی ہوں اب چاۓ کا نام بھی نہیں نکلنا چاہیے تمہارے منہ سے ..!!” لائبہ اسے گھورتے ہوئے وارننگ دے رہی تھی .. دو گھنٹوں میں چار دفعہ چاۓ بنا چکی تھی دماغ ہی خراب ہو گیا تھا .. ” تم نے کہ دیا نہ ..اب کبھی بھی نہیں نکلے گا ..!!” حیدر نے اسے تسلی دلائی تھی .. ساتھ ہی اشعر اور ریاض کو مخاطب کیا جو پیچ کس اور پلاس پکڑے ابھی بھی مصروف تھے .. ” یار بھائی .تم لوگوں سے ایک کام کہا تھا کرنے کو وہ بھی ٹھیک سے نہیں ہو رہا ..کل فنکشن میں تو ناک ہی کٹوا دو گے ..!!” ” ہم اتنے ہی نالائق ہیں تو’ تو آجا ..!!” ریاض نے سلگ کر اسے کہا تھا .. “اب یہ تو چل نہیں رہا ..پھر تم لوگ شرافت سے تشریف کیوں نہیں لے جاتے ؟..!!” زرنور نے بظاھر مسکراتے ہوئے لیکن کاٹ دار انداز میں کہا تھا .. ابھی شام کی ہی تو بات تھی جب یشفہ ان سب کو زبردستی ڈانس پریکٹس کروا رہی تھی اور پتا بھی نہیں چلا کے کب سے ریاض اور حیدر سڑھیوں پر بیٹھے ان کے عجیب عجیب سے سٹیپس پر ہنس رہے تھے کیوں کے یشفہ کے لاکھ کوششوں کے بعد بھی ان سے ٹھیک سے ہو ہی نہیں رہا تھا ایک تو سب راضی ہی اتنی مشکل سے ہوئی تھیں کوئی تیار ہی نہیں تھا ڈانس کرنے کو وہ تو یشفہ نے ہی انھیں کنووینس کیا .. زرنور اور لائبہ کی نظر بے ساختہ ہی ان دونوں پر پڑی تھی اور اگلے ہی لمحے دونوں بیچ حال میں بیٹھے تھے اور وہ سب ان کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑیں تھیں .. ” شرم نہیں آتی ؟ ایسے چوری چھپے ہمارا ڈانس دیکھتے ہوئے ؟..!!” زرنور نے غصے سے پوچھا .. ” سامنے سے آپ لوگ دیکھنے نہیں دیں گی نہ ..اس لئے پیچھے سے دیکھا ..!!” ریاض نے بغیر شرمندہ ہوئے کہا تھا .. ” ویسے جو تم لوگ کر رہیں تھیں اسے ڈانس تو ہر گز نہیں کہتے ..!!” حیدر نے ہنسی ظبط کرتے ہوئے کہا .. ” تو کیا کہتے ہیں پھر ؟..!!” لائبہ کا انداز طنزیہ تھا .. “جو بھی کہتے ہوں لیکن ڈانس ہر گز نہیں کہتے ..!!” آخر میں دونوں ہی ہنس پڑے تھے .. ” اچھا تو تم بتا دو پھر کسے کہتے ہیں ڈانس ..!!” دونوں ہاتھ سینے پر باندھے یشفہ نے انھیں جیسے چیلنج کیا تھا .. حیدر اور ریاض نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا .. ” ہم بتا تو دیں گے ..لیکن پھر ایسا نہ ہو کے تم لوگ پاگل ہی ہو جاؤ ہمارا ڈانس دیکھ کر ..!!” “جسٹ شو می ..!!” گردن اکڑا کر کہتی وہ سپیکر پر ٹریک سیٹ کرنے لگی زرنور, انوشے اور لائبہ بھی سائیڈ پر ہو گئیں .. فاریہ مناہل کے ساتھ روم میں بیوٹیشن سے مہندی لگوا رہی تھی اور جو یشفہ کے ہزار دفعہ منت کرنے کے باوجود بھی نہیں مانی تھیں .. ” اور پھر پانچ منٹ بعد ان دونوں نے واقعی ان کو تالیاں بجانے پر مجبور کر دیا تھا .. “امیزنگ ..تم دونوں نے کہا سے سیکھا ؟..!!” وہ توصیفی انداز میں کہ رہی تھی .. ” اس کو چھوڑو ..اب یہ بتاؤ ہم سے سیکھنا ہے یا نہیں ؟..!!” “ہاں سیکھنا ہے نہ ..!!” ” گانا بتاؤ ..!!” ” دلبر ..!!” “یہ گانا ؟..!!” ان دونوں نے ہی برے منہ بناۓ تھے .. ” کیوں کیا ہوا ؟..!!” وہ حیرانی سے پوچھنے لگیں .. ” اس پر بھی کوئی ڈانس ہوتا ہے کیا ؟ خیر سکھا دیتے ہیں ..ٹریک لگائیے پلیز ..!!” ریموٹ پکڑے کھڑی یشفہ کو بے نیازی سے کہ کر وہ دونوں اپنی جگہ لے رہے تھے .. جس نے دانت پیستے ہوئے گانا لگا دیا تھا .. ” اب دیکھو ..یہ ایسے ایک ہاتھ اوپر اٹھاؤ پھر دوسرا گھما کر لے آؤ اور پھر تھوڑا سا ایسے گھوم جاؤ ..بہت سمپل ہے آرام سے کر لوگی ..!!ا” بتانے کے ساتھ ساتھ دونوں خود بھی کر کے دکھا رہے تھے .. اور پھر تقریباً تین گھنٹے بعد انہوں نے ان تینوں کو سٹیپس رٹوا دئے تھے.. ” اب ناک نہیں کٹوانا ..جیسے سکھایا ہے ویسے ہی کرنا ..!!” بللآخر وہ تین چار گانوں پر ڈانس سیکھنے میں کامیاب ہو ہی گئیں تھیں .. ” ارے جس کام کے لیے آۓ تھے وہ تو بھول ہی گئے .!!” دونوں جاتے جاتے پلٹے تھے .. ” ہاں تو ہم کہ رہے تھے کے کل مہندی ہے پھر برات اور پھر ولیمہ ..یعنی کے صرف آج کا دن ہی فری ہے کیوں کے اس کے بعد تو ہمارا بھائی پھانسی چڑھ جاۓ گا اس لئے ہم نے رت جگا مناکر اس کی آخری دن کی آزادی کو سیلیبریٹ کرنے کا سوچا ہے ..اگر آپ سب شرکت کرنا چاہیں تو موسٹ ویلکم ..!!” لڑکے والوں کی طرف سے دونوں اچھے سے نمائندگی کر رہے تھے .. ” ہم نہیں آ رہےنیچے ..جس نے جاگنا ہے اوپر آجاۓ .!!” جواب یشفہ کی جانب سے آیا تھا جو بے نیازی سے کہ کر اپنا فون اٹھا چکی تھی .. ” کوئی مسئلہ نہیں آپ لوگ آئیں یا ہم ..ایک ہی بات ہے ..!!” وہ لوگ تو جیسے آنے کو تیار ہی بیٹھے تھے .. اور اب یہاں آنے کے بعد سواۓ دماغ کھانے کے وہ کوئی اور کام نہیں کر رہے تھے ..
ساری رات باقی ماندہ تیاری اور پیکنگ میں گزری تھی ان لوگوں نے الگ دھیمی آواز میں میوزک لگا کر محفل جما رکھی تھی .. صبح فجر پڑھ کر کہیں سوۓ تو پھر گیارہ بجے ہی آنکھ کھلی .. اور ابھی بھی سب بھاگتے دوڑتے کام نمٹاتے پھر رہے تھے کیوں کے ٹائم سچ میں بہت کم رہ گیا تھا ..
مہندی کے حساب سے ان سب نے گھٹنے تک قمیض اور بڑے سے کامدار دوپٹے کے ساتھ غرارے بنواۓ تھے .. پارلر جانے میں تو ٹائم ہی ویسٹ ہوتا اس لئے بیوٹیشنز کو گھر ہی بلوا لیا گیا تھا جو ابھی سب کی تیاری کو بس فائنل ٹچ دے رہی تھی .. گرین کلر کے غرارہ سوٹ اور لائٹ سے میک اپ میں الٹے ہاتھ کی طرف سے جھومر لگاۓ وہ بے حد حسین لگ رہی تھی .. ناک میں پہنی ڈائمنڈ کی نوز پن الگ ہی لشکارے مار رہی تھی اس کا ارادہ نیچے جا کر مہندی کی تھالوں کا ایک دفعہ اور جائزہ لینےکا تھا لیکن اس کمرے کے بند دروازے کی طرف سفید شلوار اور ریڈ کرتے میں ملبوس ریاض کو بڑھتا دیکھ وہ وہیں تھم گئی تھی .. اور یہ وقت سوچنے کا ہر گز نہیں تھا اسے ہر حال میں ریاض کو وہاں جانے سے روکنا تھا .. اور پھر اسے ریاض پر جتنا غصہ تھا وہ جتنا بھی برالگتا تھا سب فیلنگز کو پس پشت ڈال کر وہ بھاگتی ہوئی اس سے پہلے وہاں پہنچی تھی اور تھوڑا سا پھیل کر اس بند دروازے کے آگے کھڑی ہو گئی .. وہ تو مہبوت ہی رہ گیا تھا ایک تو اس کے حسن کے باعث اور دوسرا اس کی حرکت ..!!” اسے یقین کرنے میں وقت لگا تھا کے وہ فاریہ ہی تھی جس نے اس کا راستہ روکا تھا .. “ک کیا کام ہے یہاں ؟..!!” اسےخاصا آکورڈ لگ رہا تھا یہ سب لیکن اسے روکنا بھی ضروری تھا .. اپنی تمام تر ناگواری کے باوجود اس سے مخاطب ہونا پڑ رہا تھا .. وہ چونک گیا تھا .. اور چونکنا تو بنتا تھا .. ایک تو فاریہ آفریدی نہ صرف اس کے سامنے کھڑی تھی بلکے بات بھی کر رہی تھی .. ” مجھے اندر سے کچھ سامان لینا ہے ..!!” اس کے ہوشربا حسن سے نظریں چراتے ہوئے اس نے کہا تھا .. ” اب ابھی نہیں جا سکتے ..بعد میں آ جائیے گا ..!!” وہ دل میں دعا کر رہی تھی کے یشفہ اور لائبہ جلدی سے اپنا کام ختم کر لیں .. ” فاریہ ..مجھے ابھی وہ سامان چاہیے ..ہال لے کر پہنچنا ہے ٹائم نہیں ہے ..!!” اپنے حیرانی پر قابو پاتے ہوئے وہ اسے کہ رہا تھا .. آج تو اس کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے لگ رہے تھے .. ” میں نے ایک دفعہ کہا نہ کے آپ اندر نہیں جا سکتے تو بس نہیں جا سکتے ..!!” وہ زچ ہو کر بولی تھی ایک تو اس کی نظروں سے جانے کیوں عجیب سا محسوس ہو رہا تھا .. وہ جب اسے نہیں دیکھتا تھا فاریہ کو تب بھی یہی لگتا تھا کے وہ اسے ہی دیکھ رہا ہے…
اسے یقین کرنے میں وقت لگا تھا کے وہ فاریہ ہی تھی جس نے اس کا راستہ روکا تھا .. “ک کیا کام ہے یہاں ؟..!!” اسےخاصا آکورڈ لگ رہا تھا یہ سب لیکن اسے روکنا بھی ضروری تھا .. اپنی تمام تر ناگواری کے باوجود اس سے مخاطب ہونا پڑ رہا تھا .. وہ چونک گیا تھا .. اور چونکنا تو بنتا تھا .. ایک تو فاریہ آفریدی نہ صرف اس کے سامنے کھڑی تھی بلکے بات بھی کر رہی تھی .. ” مجھے اندر سے کچھ سامان لینا ہے ..!!” اس کے ہوشربا حسن سے نظریں چراتے ہوئے اس نے کہا تھا .. ” اب ابھی نہیں جا سکتے ..بعد میں آ جائیے گا ..!!” وہ دل میں دعا کر رہی تھی کے یشفہ اور لائبہ جلدی سے اپنا کام ختم کر لیں .. ” فاریہ ..مجھے ابھی وہ سامان چاہیے ..ہال لے کر پہنچنا ہے ٹائم نہیں ہے ..!!” اپنے حیرانی پر قابو پاتے ہوئے وہ اسے کہ رہا تھا .. آج تو اس کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے لگ رہے تھے .. ” میں نے ایک دفعہ کہا نہ کے آپ اندر نہیں جا سکتے تو بس نہیں جا سکتے ..!!” وہ زچ ہو کر بولی تھی ایک تو اس کی نظروں سے جانے کیوں عجیب سا محسوس ہو رہا تھا .. وہ جب اسے نہیں دیکھتا تھا فاریہ کو تب بھی یہی لگتا تھا کے وہ اسے ہی دیکھ رہا ہے .. “تو تم مجھے اندر نہیں جانے دو گی ؟..!!” سینے پر بازوں لپیٹے وہ فرصت سے اسے دیکھ رہا تھا .. ” بلکل بھی نہیں ..!!” وہ ترنت بولی .. ” ٹھیک ہے پھر میں بھی یہیں کھڑا رہوں گا ..!!” اس نے ہٹ دھرمی سے کہا تھا .. عجلت میں سیڑھیاں اتر کر باہر کی جانب جاتے حیدر نے حیرت سے ان دونوں کو وہاں کھڑے دیکھا تھا .. پھر کیمرہ سنبھالے انہی کے پاس چلا آیا .. ” اجی میں نے کہا ..اشعر کی ہمشیرہ صاحبہ اور میرے کمینے دوست ..کیا کر رہے ہو یہاں اکیلے کھڑے ہوئے ؟..!!” اس کی فضول اینٹری پر ان دونوں نے ہی ناگواری سے اسے دیکھا تھا .. “کیا ہوا ؟؟ میں کیا غلط وقت پر آ گیا؟..!!” اس نے معصومیت سے باری باری ان دونوں کو دیکھا تھا .. لیکن ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی دروازہ کھلنے کی ہلکی سی آواز کے بعد لائبہ اور یشفہ نمودار ہوئی تھیں .. اپنی ہی دھن میں باہر آتی ان دونوں نے چونک کر وہاں ان تینوں کو کھڑے دیکھا تھا .. ” کیا ہوا ؟..!!” لائبہ نے حیرت سے پوچھا .. ” میں بھی وہی پوچھ رہا تھا کے ..کیا ہوا ؟؟.لیکن کچھ بتا ہی نہیں رہے مجھے ..!!” حیدر نے کندھے اچکاتے ہوئے ابرو اچکا کر فاریہ اور ریاض کو دیکھ کر کہا تھا .. لائبہ نے یشفہ کو اشارہ دیا تھا جسے سمجھ کر اس نے آثبات میں سر ہلاتے ہوئے ہاتھ میں پکڑی سرخ کپڑے سے ڈھکی ٹرے لئے فورآ وہاں سے آگے بڑھی تھی .. فاریہ بھی اس کی پیچھے ہی لپکی تھی .. ” لائبہ ..میں بتا رہا ہوں یہ مار کھاۓ گا اشعر سے دو تین دفعہ دیکھا ہے میں نے اسے اس کی بہن کے ساتھ فری ہوتے ..!!” حیدر کی بات پر جہاں لائبہ کا منہ حیرت سے کھلا تھا وہیں ریاض بھی بھونچکا رہ گیا تھا .. “ریاض ..یہ حیدر کیا کہ رہا ہے ؟..!!” وہ کڑے تیوروں سے اس پوچھنے لگی .. ” بکواس کر رہا ہے یہ .. تم تو جانتی ہو نہ اسے ..!!” وہ بوکھلا کر صفائی دینے لگا تھا .. ” جھوٹ بول رہا ہے لائبہ ..میں نے خود دیکھا ہے اپنی ان دونوں گناہ گار آنکھوں سے ..!!” “تیری تو ..!!” ریاض نے غصے سے اس کی گردن جھپٹنا چاہی تھی لیکن عین وقت پر وہ تیزی سے بھاگ لیا تھا…
ہال کی بکنگ کو کینسل کروا کر بڑے سے گراؤنڈ میں ارینجمنٹس کروائی گئی تھی .. کھلے آسمان کے نیچے یلو , گرین اور پنک کلر کی تھیم بے حد خوبصورت لگ رہی تھی .. ہر جگہ جیسے پھولوں کی بہار سی آ گئی تھی ..انٹرنس سے لے کر اسٹیج تک ہر سو مختلف رنگوں کے پھول ہی پھول بکھرے تھے .. اسٹیج پر بڑا سا لکڑی کا منقش جھولا رکھا گیا تھا جسے صرف گیندے کے پھولوں اور چھوٹی لائٹوں سے سجایا گیا تھا اور اس کے گرد سامنے کی طرف سے چھوڑ کر چھوٹے چھوٹے کلرڈ دیوں سے کور کیا گیا تھا .. اسٹیج سے نیچے دائرے کی شکل میں پینٹنگ سی بنی ہوئی تھی جسے مختلف کلرز سے بنایا گیا تھا اس پر ربنز سے سجا ہوا بڑا سا ڈھول اور سجی ہوئی تھالوں اور چھوٹی مٹکیوں میں مہندی رکھی ہوئی تھی .. اور ٹھیک اس کے سامنے بڑا سا ڈانس فلور بناتھا جس کے اراؤنڈ بھی گلاب کے پھول لگے تھے .. ٹیبل اور چئیرز پر پیلے , گلابی اور ہرے رنگ کے کور چڑھے تھے .. سب سے بڑھ کر لائٹنگ بہت زبردست کی گئی تھی نہ زیادہ ڈارک تھی اور نہ ہی تیز .. ڈنر کی تیاری کا انتظام ہال سے تھوڑی دور کیا گیا تھا لیکن چونکے ہال اوپن ائیر تھا اس لئے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک طرف کونے میں لائیو بار بی کیو کا بھی احتمام تھا جس میں پروفیشنل شیفز کی خدمات حاصل کی گئی تھی .. اس سارے سیٹ اپ کو ترتیب دینے کا سارا کریڈیٹ احمد اور اشعر کو ہی جاتا تھا جنہوں نے اپنی نگرانی میں یہ سب ارینج کروایا تھا لیکن کبھی ان کی غیر موجودگی میں حارث کو ہی یہ سب دیکھنا پڑتا تھا .. انٹرس سے اندر آتے ہی وہ سب مبہوت ہو کر ہر طرف کا جائزہ لے رہیں تھیں .. ہر چیز اتنی عمدگی اور خوبصورتی سے سجائی گئی تھی کے بے ساختہ ہی ان کے لب ستائیش سے کھلے تھے .. “امیزنگ یار ..کتنا خوبصورت لگ رہا ہے ..!!” اسٹیج پر رکھے بڑے سے جھولے پر بیٹھ کر ہلکے ہلکے جھولے لیتے ہوئے زرنور نے خوشی سے کہا تھا .. اس کی سوچ سے بھی زیادہ حسین لگ رہا تھا .. ” ویسے مجھے امید نہیں تھی کے یہ لڑکے اتنا اچھا کام کر سکیں گے ..!!” لائبہ نے کہتے ہوئے بیگ میں سے مناہل کا دوپٹہ نکالا تھا .. جو گھر سے چادر اوڑھ کر آئی تھی … “لیکن مجھے سو فیصد یقین تھا ..ایسا ہو ہی نہیں سکتا کے احمد کوئی کام کرے اور وہ بیسٹ نہ ہو ..!!” اس کے فخر سے کہنے پر وہ سب ہنس دی تھی .. ” بڑا پکّا رنگ چڑھ گیا تم پر تو احمد کا ..!!” پف سے چہرہ تھپتھپاتے ہوئے مناہل نے اسے چھیڑا تھا .. ” دو دن بعد پوچھوں گی میں تم سے کے حارث کا رنگ تم پر چڑھا یا نہیں ..!!” اس نے بھی مزے سے جواب دیا تھا .. “.بلکل ..اگر شادی کے بعد مناہل ہر جگہ بے وقت سوتی ہوئی پائی گئی تو ہم سمجھ جائیں گے اس پر بھی گہرا رنگ چڑھ چکا حارث کا ..!!” اس دفعہ جواب انوشے کی جانب سے آیا تھا .. “بلکل ٹھیک کہا انوشے ..!!” لائبہ اور زرنور نے ہنستے ہوئے اس کی حمایت کی تھی .. ” کچھ زیادہ دوستی نہیں ہو گئی ان دونوں کی ؟..!!” لائبہ نے یشفہ اور فاریہ کی طرف اشارہ کر کے ذرا بلند آواز سے کہا تھا تاکے وہ دونوں بھی سن لے .. وہ دونوں جو سیلفیز لینے میں مصروف تھیں ان کے شرارت سے کہنے پر ہنستے ہوئے وہاں آئی تھی .. ” ایسی بات نہیں ..لیکن آپ میرڈ گرلز کی باتوں میں ہمارا کیا کام ..؟ اس لئے ہم دونوں اپنی اپنی باتیں کر لیتے ہیں ..!!” فاریہ نے معصومیت سے کہا تھا .. ” ہاں تو ہم کون سا “ایسی ویسی ” باتیں کرتے ہیں ؟..!! لائبہ نے حیرت سے پوچھا .. ” ایسی ویسی نہیں لیکن ” ویسی ویسی ” تو کرتی ہیں نہ ؟؟..!!” یشفہ نے بھی مسکراہٹ دبا کر کہا .. “اچھا بیٹا..ایک دفعہ تم دونوں کی شادی ہو جاۓ پھر پوچھیں گے تم سے ..!!” زرنور نے اسے دھمکایا تھا .. جس پر دونوں ہی ہنسنے لگی تھیں .. تھوڑی ہی دیر میں سب گیسٹ آنا شروع ہو گئے تھے .. جنہیں حارث اور مناہل کے پیرنٹس ہی ویلکم کر رہے تھے .. ہال بھی آہستہ آہستہ کر کے بھرنے لگا تھا .. اگر کوئی نہیں پہنچا تھا تو لڑکے والوں کی گینگ ..!!” عمیر کے علاوہ ان میں سے کوئی بھی وہاں نظر نہیں آ رہا تھا .. تیار تو وہ سب ٹائم پر ہی ہو گئے تھے لیکن پتا نہیں کہاں رہ گئے تھے اور یہی چیز ان سب کی بے چینی کا سبب تھی .. دو چار دفعہ تو عمیر سے پوچھ بھی لیا تھا جس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا ..
دیکھا ہے تجھ کو جب سے ,میں تو ہل گیا .. لگتا ہے میرے سینے سے دل نکل گیا … ارے جو بھی میں کہوں تجھے لگتا ہے کیوں غلط .. تیرا دھیان کدھر ہے ,یہ تیرا ہیرو ادھر ہے … کافی دیر سے دھیمے سروں میں بجتے میوزک نے جو ایک سحر سا طاری کیا ہوا تھا اسے سنگر کی چیختی ہوئی آواز نے توڑا تھا .. لیڈیز اینڈ جنٹلمین .. اٹینشن پلیز ..!! ساؤنڈ سسٹم میں سے گونجتی آواز پر بے ساختہ سب کی نظریں انٹرنس کی جانب مڑی تھی جہاں سے ہلکا ہلکا سا دھواں اڑتا نظر آ رہا تھا .. “ہمیشہ کی طرح ہیوی بائیکز کا فلاپ آئیڈیا ..!!” لڑکیوں نےمنہ بنا کر ایک دوسرے کو دیکھا تھا .. “اس اینٹری پر اتنی شیخی بگھار رہے تھے ..؟؟!!” بےزاری سے ہاتھ جھلاتی وہ پلٹنے کو تھیں تبھی کسی ہارن کی آواز پر چونکی تھی .. ” یہ آواز بائیک کی تو نہیں ہے …!! تو پھر ..!!” وہ جھٹکے سے واپس پلٹی تھیں .. بے چین سی نظریں انٹرنس پر جمادی تھیں .. “جہاں سے دھواں چٹھا تو سرخ رنگ کے کرتے اور سفید شلوار میں چنری گلے میں لپیٹے آنکھوں کو چشمے سے ڈھکے دھیمی رفتار سے سائیکل چلاتا جیسے ٹہلنے نکلا ہو .. وہ کوئی اور نہیں احمد ہی تھا .. جس کی شخصیت کا رعب اور ایٹیٹیوڈ وہاں موجود ہر شخص کو اپنے سحر میں جکڑنے کو کافی تھا .. کہیں اوپر سے پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئی تھیں ..مسکراتے ہوئے انگوٹھے سے اپنے پیچھے کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ وہ سائیڈ پر ہوا تھا جہاں سے پھولوں اور لائٹوں سے سجا خراماں خراماں چلتا ہارن بجاتا رکشہ آتا دکھائی دیا .. دائیں بائیں طرف سے آدھے باہر لٹکے حیدر اور ریاض نے دو بورڈ ہاتھ میں اٹھا رکھے تھے جن پر جلی حرفوں میں .. Haris weds Manahil لکھا تھا .. اور اس دلہن کی طرح سجے رکشے کو چلا بھی حارث خود ہی رہا تھا .. جس کے آرابر برابر میں دو سائیکلز اور بھی تھیں جنہیں اشعر اور تیمور چلا رہے تھے وہ بھی پھولوں سے بھری تھیں جن کے آگے لگی ٹوکریوں میں شیشے کے گلاسوں میں کینڈلز اور مہندی رکھی تھی .. لڑکیوں نے ڈفرنٹ کلرز کے غرارے بنواۓ تھے تو ان سب نے بھی یارانہ دکھاتے ہوۓ ایک جیسے ہی کپڑے بنواۓ تھے ہر فنکشن کے لئے .. ابھی سب ریڈ کرتا اور سفید شلوار میں گرین اور یلو کلر کی چنری گلے میں ڈالے آنکھوں کو گاگلز سے چھپاۓ واقعی میں کسی ریاست کے سچ مچ کے خوبرو شہزادے لگ رہے تھے .. صرف حارث ہی تھا جس نے گہرے نیلے رنگ کا کڑھائی والا کرتا زیب تن کیا ہوا تھا .. جو چار گھنٹے انہوں نے “مینز سیلون ” میں جا کر وہاں بیچاروں کا سر کھایا تھا ان کی محنت ان کے چمکتے چہروں سے صاف ظاہر ہو رہی تھی .. گانوں کی تیز آواز میں بھنگڑے ڈالتے وہ اسٹیج کی جانب جا رہے تھے جن میں حارث بھی شامل تھا .. کیمرہ مینز ایک ایک سین کو کیپچر کرنے میں بے حال ہوئے جا رہے تھے .. ڈھولک پے تال ہے .. پائیل میں چھن چھن .. گھونگٹ میں گوری ہے .. سہرے میں ساجن .. میرے یار کی شادی ہے .. “ارے ہاتھ دو بھابھی صاحبہ ..!!” وہ سب اسٹیج سے نیچے کھڑے مناہل کو کہ رہے تھے جو پہلے سے پیلے اور ہرے خوبصورت سے غرارہ سوٹ میں آتشی رنگ کا دوپٹہ پنوں سے سیٹ کئے اور پھولوں کے زیورات پہنے شان سے اس جھولے پر بیٹھی تھی .. اب سب کا کہنا تھا کے وہ آگے آ کر ہاتھ بڑھا کر حارث کو اوپر آنے میں مدد دے .. لیکن لڑکیوں کے مسلسل ان کی بات سے اختلاف کرنے کی وجہ سے وہ نظر انداز کئے بیٹھی تھی .. “تو خود چلا جا بھائی ..یہ چڑیلیں مسلسل بھڑکا رہی ہیں ..وہ نہیں آۓ گی تجھے اوپر کھینچنے ..!!” تیمور نے ہمدردی سے کہتے ہوۓ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا “آۓ گی ..ضرور آۓ گی ..!!” حارث نے بھی انھیں بھرپور تسلی دلائی تھی جیسے خود سے زیادہ اس پر اعتماد ہو .. دونوں طرف سے پر زور ہوٹنگ کی جا رہی تھی اور جیت آخر میں لڑکے والوں کی ہی ہوئی .. اخر کو کب تک وہ وہاں کھڑے رہتے .. ناچار مناہل نے اٹھ کر اپنا مہندی اور چوڑیوں سے سجا نازک سا ہاتھ اس کی جانب بڑھا دیا تھا .. اور صرف اتنی سی بات پر ہی لڑکوں نے چیخ چیخ کراور سیٹیاں بجا کر ہال سر پر اٹھا لیا تھا .. حارث نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ مظبوطی سےتھاما تھا اور پھر ساتھ چلتے ہوئے دونوں اس جھولے پر براجمان ہو گئے تھے .. ” یقین نہیں آ رہا مجھے تو ..!!” حارث نے بیٹھتے ہی دھیمی آواز میں سرگوشی کی تھی .. پورے ایک ہفتے بعد ان دونوں کو ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا تھا ورنہ تو دونوں طرف سے اتنی سخت نظر رکھی جا رہی تھی کےملنا تو دور کی بات بامشکل ہی وہ ایک دوسرے کو دیکھ پاتے تھے .. ” کس بات کا ؟..!!” اس نے بھی ہلکی آواز میں پوچھا … ” یہی کے ..تم سچ میں مناہل ہو ..!!” “تو اس میں یقین نہ آنے والی کون سی بات ہے ؟..!!” اس کے انداز میں نے نیازی تھی .. ” اتنی خوبصورت مناہل آج سے پہلے تو کبھی نہیں دیکھی میں نے ..ہمیشہ ہی تمہیں سادہ حلیے میں دیکھا ہے …لیکن آج سچ میں بے حد پیاری لگ رہی ہو ..!!” اس کی طرف ہلکا سا رخ موڑے نظروں میں اس کا حسین مکھڑا بھرتے وہ سچے دل سے کہ رہا تھا .. مناہل کے چہرے پر گلابی سی بکھر گئی تھی … ” اب یہ مت سمجھنا کے میں بھی تمہاری تعریف کروں گی ..!!” اس نے فورآ ہی نخوت سے کہا تھا .. ” بلکل بھی نہیں ..میں جانتا ہوں اچھے سے ..میری مناہل کبھی ایسے کہ کر مجھے آسمان پر نہیں پہنچاۓ گی ..!!ا” حارث نے “میری مناہل ” پر زور دیتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا . “کرو ..کرو اور باتیں کرو ..!!” ایک ہاتھ گال تلے رکھے وہ سب مزے سے ان دونوں کو سرگوشیوں میں باتیں کرتے دیکھ رہے تھے .. وہ دونوں ہی گڑ بڑا گئے تھے .. نازش اور سحرش بیگم نے آگے آ کر ان کے ہاتھوں پر رکھے پان کے پتوں پر مہندی لگا کر ہزاروں روپے سر سے وار کر نظر اتاری تھی .. باری باری سب نے مہندی لگا کر مٹھائی کھلائی تھی .. “چلو ہاتھ آگے کرو ..!!” حارث کے برابر میں بیٹھی گولڈن اور سی گرین کے غرارے میں ملبوس زر نور نے تحکم سے اسے کہا تھا .. جو اس نے ان سب کے لاکھ منع کرنے اور خبردار کرنے کے باوجود بھی آگے کر دیا تھا .. جس پر زرنور نے پیارا سا لیکن چھوٹا سا کنگنا باندھ کر دس بارہ ڈھیلی سی گانٹھ لگادی تھی تاکے شادی کے بعد جب کنگنا کھلائی کی رسم ہو تو مناہل کو کھولنے میں آسانی ہو .. اور مناہل کا کنگنا انوشے نے باندھا تھا ٹائیٹ سا اور کافی گٹھانوں والا .. زرنور نے اس کا ہاتھ چھوڑ کر سب سے چھوٹی انگلی پر مہندی لگانے کے بعد اسے پکڑ لیا تھا .. ” نکالو اب دس ہزار ..!!” اس کے شائستگی سے مطالبہ کرنے پر ان کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں .. “لو بھئی شروع ہو گیا فقیرنیوں کا بزنس ..!!” ” اس چھوٹی سی انگلی پر مہندی لگانے کے دس ہزار ؟؟؟؟…!!” “ہاں تو تم سے کون مانگ رہا ہے ؟..خاموش کھڑے رہو !!” لائبہ نے ڈپٹ کر کہا تھا .. ” نوربانو ..میری انگلی بھی پکڑ لو ..قسم سے پورے پچاس ہزار دینے کو تیار ہوں ..!!” حیدر نے فورآ سے اپنا ہاتھ آگے کیا تھا “فکر مت کرو ..تمہاری باری پر اتنے ہی لینے کا ارادہ رکھتی ہوں میں ..!!ا” اس نے حیدر کو جواب دینے کے بعد پھر سے حارث سے مطالبہ کیا تھا .. “یہ تو سالیوں کی رسم ہے حارث ..نیگ تو تمہیں دینا ہی پڑے گا ..!!” ان کے پرزور انکار کی بناء پر ماہین نے اسے شرارت سے کہا تھا .. “کون سی رسم کہاں کا نیگ ؟؟..یہ تو سیدھا سیدھا لوٹ مار کا کیس ہے ..!!” “دے رہے ہو پیسے ؟..!!” وہ اپنی آخری وارننگ پر اتر آئی تھی .. ” لے لو بھئی تم نے جان کہاں چھوڑنی ہے میری لئے بغیر ..!!” حارث نے ہار مانتے ہوئے جیب سے اپنا والٹ نکالا تھا .. ہاتھ میں ڈھیر سارے نیلے ہرے نوٹ لہراتے ہوئے اس نے ان سب پر جتاتی ہوئی نظر ڈالی تھی .. “اس غریب آدمی کو لوٹنے کا آغاز اس رسم کے ذریعے کر دیا گیا تھا ..!!” سب ہم خیال تھے .. “اب ہماری باری ..!!” کہتے ہوئے جب وہ لوگ رسم کرنے اسٹیج پر چڑھے تو احتیاط لائبہ اور انوشے نے مناہل کو وہاں سے اٹھا کر نیچے رکھے صوفوں پر بیٹھنے میں مدد دی تھی .. ان بد تمیزوں سے کوئی بعید نہ تھی .. اور ہوا بھی وہی جس کی سب کو توقع تھی .. احمد تو رسم کر کے اور بڑا سا مٹھائی کا پیس اس کے منہ میں ٹھونس کر سائیڈ پر ہو گیا تھا لیکن اب پیچھے وہ لوگ تھے جو آستینیں چڑھاۓ مہندی کی پوری تھالیں اٹھاۓ اس کا چہرہ رنگین کرنے کے درپے تھے .. وہ ہڑبڑا کر سب کو باز رہنے کی تلقین کر رہا تھا .. کیوں کے مہندی کا رنگ خاصا پکّا ہوتا ہے اترنے میں ہی کافی دن لگ جاتے ہیں .. وہ ابٹن تھا جو اتر گیا تھا ..یہ مہندی تھی جس نے لاکھ کوششوں کے بعد بھی پھیکا نہیں پڑنا تھا .. ” دیکھ آج مہندی کا دن ہے اس لئے مہندی تو تجھے لگوانی ہی پڑے گی ..تاکے ہم بھی اپنی رسم پوری کر سکیں ..!!” اشعر آج دل کھول کر اس سے بدلہ لینے میدان میں اترا ہوا تھا .. اس کی شادی میں سب سے زیادہ اس حارث نے ہی تو تنگ کیا تھا اسے اب وقت آیا تھا اس سے گن گن کر حساب بے باک کرنے کا .. ” ہاں تو انسانوں کی طرح ہاتھ پر لگاؤ نہ ..چہرہ کیوں خراب کر رہے ہو ؟..!!” اس نے جھولے پر رکھا چھوٹا سا رنگین کور اور شیشوں سے بنے کشن کو اٹھا کر جیسے ڈھال کے طور پر سامنے کیا تھا .. ہر حال میں اپنے چہرے کو بچانا تھا .. پھر ہزار منتوں اور ترلوں کے بعد شیرٹن میں ڈنر کے بدلے اسے بخشنے پر تیار ہوئے تھے .. کھانا ایک واحد چیز تھی جسے کھانے کے لئے وہ ہر وقت تیار رہتے تھے اور جسے کھلا کر ان سے کوئی بھی بات منوائی جا سکی تھی .. بھوکے نہ ہو تو ..!!”
ان دونوں نے ایک طائرانہ سی نگاہ اس ٹیبل کے گرد بیٹھے ان چار نفوس پر ڈالی تھی .. جو سیلفیاں لینے اور اسے پوسٹ کرنے میں مصروف تھے .. آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کرتی وہ سہج سہج قدم اٹھاتی ان کے پاس آئی تھیں .. اور ہاتھوں میں پکڑ رکھی شیشے کی پلیٹوں میں خوبصورتی سے سجاۓ گئے ان لڈؤں کو ٹیبل پر رکھا تھا .. ان سب نے موبائل سے توجہ ہٹا کر حیرت سے ان پلیٹوں کو دیکھنے کے بعد یشفہ اور انوشے کو دیکھا تھا .. “یہ ہمارے یہاں کی رسم ہے ..ڈنر سےپہلے مہمانوں کو پہلے کچھ میٹھا کھلایا جاتا ہے تو میزبان ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کے ہم اس رسم کو پورا کریں ..!!” انوشے نے مسکراتے ہوئے آداب میزبانی نبھاتے ہوئے زرنور اور لائبہ کے رٹے رٹاۓ جملے دوہراۓ تھے .. تیمور تو دل پر ہاتھ رکھے گھائل ہی ہو گیا تھا .. موٹے موٹے گول سے لڈوؤں کو دیکھ کر تو سب کی آنکھیں چمک اٹھی تھی .. “ایک منٹ …ہم کیسے مان لے کے اس میں آپ کی کوئی شرارت نہیں ؟..!!” تیمور کو ہاتھ بڑھاتا دیکھ ریاض نے تنبہہ کرتے ہوئے خاصی پتے کی بات کہی تھی .. وہ دونوں گڑبڑا گئی تھی لیکن پھر جلد ہی بات کو سنبھالا .. ” لڑکی والے ہیں جناب ..پوری کوشش کریں گے آپ کی شایان شان میزبانی کی جاۓ ..!!” یشفہ نے مسکراتے ہوئے پلیٹ اٹھا کر حیدر کی جانب بڑھائی تھی .. وہ تو دمبخود ہی رہ گیا تھا .. “یشفہ ؟؟ اور وہ بھی اتنے پیار سے اسے لڈو پیش کر رہی تھی ؟؟.!!” ایک نہ ممکن سی بات لگتی تھی .. لیکن سچ وہی تھا جو وہ دیکھ رہا تھا .. اب انکار کرنا تو سراسر ان کے ساتھ نہ انصافی ہوتی .. جذبے لٹاتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے حیدر ننے اس کی بڑھائی گئی پلیٹ میں سے دو تین لڈو لے لئے تھے .. وہ دونوں تو جلدی سے ایکسکیوز کرتی وہاں سے بھاگی تھیں .. اور جاتے جاتے ٹیبل پر رکھی دونوں منرل واٹر کی بوتل بھی ساتھ ہی لے گئیں تھیں .. زرنور اور لائبہ نے خاص طور پر ان کو یہ کام کرنے کو کہا تھا .. ریاض کو جانے کیوں خطرے کی گھنٹی بجتی سنائی دے رہی تھی .. خوش شکل سے موتی چور کے لڈو کا پہلا بائٹ لیتے ہی دنیا جہاں کی مرچوں کا ذائقہ ان کے منہ میں گھل گیا تھا .. پسی ہوئی اور کٹی ہوئی کالی اور لال مرچوں کے علاوہ ہری مرچوں کو بھی خوب باریک کاٹ کر اندر اس کی فلنگ کی گئی تھی .. کانوں میں سے تو جیسے دھواں نکل آیا تھا .. اتنی تیز مرچیں حیدر نے زندگی میں دو دفعہ ہی چکھی تھیں وہ بھی یشفہ کے ہی ہاتھوں .. خوشی خوشی میں دو تین لڈو ایک ساتھ ہی کھا لئے تھے نتیجآ منہ بے تحاشا جل رہا تھا آنکھوں سے الگ پانی بہے جا رہا تھا .. مرچوں سے بے حال ہوتے انہوں نے پانی پانی کا شور مچا دیا تھا .. “اچھا تو یہ کام تھا جو اس بند کمرے کے پیچھے کیا جا رہا تھا ..تبھی فاریہ اسے اندر جانے سے روک رہی تھی …!!” ریاض کو اب سمجھ آئی تھی ساری بات ..!! اشعر ,تیموراور حیدر کی حالت دیکھتے ہوئے ریاض نے لاکھ لاکھ شکر ادا کیا تھا .. کے اس نے خطرے کو بھانپ لیا تھا جبھی بچ گیا .. پھولوں کی اوٹ میں سے دیکھ کر جہاں وہ ان تینوں کی حالت سے مزہ لے رہیں تھیں وہیں ریاض کی طرف سے بد مزہ بھی ہوئی تھیں .. سینے میں تو ٹھنڈ تبھی پڑتی جب اس کے منہ میں بھی وہ مرچیں گھلتی .. ریاض نے ٹھنڈے پانی کی بوتلیں لا کر ان کو دی تھی جو جلن کم کرنے اور پیچ و تاب کھانے کے ساتھ ساتھ ریاض کی صلواتیں بھی سن رہے تھے .. ” ضرورت ہی کیا تھی ندیدوں کی طرح لڈوؤں پر ٹوٹ پڑنے کی ؟؟..تھوڑی عقل سے ہی کام لے لیتے ..ان لڑکیوں نے کبھی اپنے مطلب کے لئے بھی اتنے احترام و ادب سے بات نہ کی اور کہاں ایک سٹوپڈ سی رسم کے لئے تمہیں عزت دیں گی ..!!” ریاض انھیں دل کھول کر باتیں سنا رہا تھا یہ جاننے کے باوجود کے اگر ان دونوں کی جگہ اگر فاریہ اسے اتنی محبّت سے وہ لڈو پیش کرتی تو واللہ اس نے پوری پلیٹ ہی چٹ کر جانی تھی .. کون سی مرچیں ؟ کہاں کی مرچیں ؟ کچھ یاد نہ رہتا سواۓ اس کے مسکراتے چمکتے چہرے کے ..!!
ہاتھ میں فون پکڑے تھوڑا سا اونچا کیے وہ اپنی تصویریں کلک کرنے میں مگن تھی جب فرنٹ کیمرہ پر اپنے پیچھے احمد کی شبہ دیکھی تو فورآ سے پلٹ کر اسے دیکھا .. “لے لو ایک میرے ساتھ بھی ..!!” احمد کے کہنے پر وہ مسکراتے ہوئے تھوڑی سی اس کے قریب آئی تھی .. لیکن تصویر سہی سے کلک ہو ہی نہیں رہی تھی ایک تو احمد کی ہائیٹ اس سے لمبی تھی دوسرا اس کا ہاتھ بھی ہلے جا رہا تھا .. “ادھر دو ..میں لیتا ہوں ..!!” احمد نے اس کے ہاتھ سے فون لے کر ساتھ ہی اس کے گرد اپنا بازوں پھیلا کر خود سے قریب کیا تھا .. وہ جھینپ کر نظریں جھکا گئی تھی .. وہ سر جھٹک کر ہنس دیا تھا .. بہت پیارا لگتا تھا اس کا کبھی کبھی کا شرمانا .. کتنے ہی لوگوں کی توصیفی نظریں ان کی طرف اٹھی تھیں .. جو ساتھ کھڑے اتنے پیارے لگ رہے تھے کے جیسے اللہ نے ہمیشہ سے ان دونوں کو ایک دوسرے کے لئے ہی بنایا ہو .. ریاض نے اپنے ہینڈی کیم میں ان کی سیلفی لیتے ہوۓ منظر کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا تھا .. ” پرفیکٹ سیلفی ..!!” ان دونوں کے پیچھے کولڈ ڈرنک کا گلاس ہاتھ میں پکڑے کھڑے حیدر نے توصیفی انداز میں کہا تھا .. وہ دونوں چونک کر پیچھے مڑے جو اچانک سے وہاں آیا تھا .. نہ محسوس انداز میں وہ احمد کے حصار سے نکلی تھی .. ” کیسی لگ رہی ہے تیری بھابھی ؟..!!” احمد نے اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر قریب کیا تھا .. ” کس بھابھی کی بات کر رہا ہے ؟ ..!!” اس نے انجان بن کر پوچھا .. ” یہ جو سامنے کھڑی ہے ..!!” اس نے زرنور کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا جو دونوں بازوں سینے پر باندھے محفوظ انداز میں ان دونوں کو دیکھ رہی تھی .. ” سوری میری سامنے کی نظر تھوڑی خراب ہے ..!!” “میں “زرنور ” کی بات کر رہا ہوں حمزہ حیدر علی صاحب ..!!” احمد نے اس کے نام پر زور دیتے ہوئے اسے کہا تھا ساتھ ہی زرنور کو بھی دیکھا تھا .. جس کے چہرے کے رنگ انوکھے سے تھے .. “کتنا پیارا لگتا ہے اس کے منہ سے میرا نام ..!!” وہ محبّت سے اسے دیکھ رہی تھی .. ریاض اپنی ہنس روک نہیں پایا تھا .. زرنور نے اپنے خیال میں تو دل میں ہی کہا تھا لیکن نہ صرف اس کے ہونٹوں سے یہ بات نکل چکی تھی اور ریاض کے کانوں تک بھی باخوبی پہنچ چکی تھی .. “بھائی یہ کہ رہی ہے ایک دفعہ اور میرا نام لینا ..!!” ریاض نے مصنوئی سنجیدگی سے احمد کو مخاطب کیا تھا جس نے ابھی بھی حیدر کی گردن جکڑی ہوئی تھی .. ” کون ؟..!!” وہ دونوں ہی ریاض کی طرف متوجہ ہوئے تھے .. ” حیدر کی” زرنور بھابھی ” ..!!” ریاض نے احمد کو آنکھ مارتے ہوئے شرارت سے کہا تھا .. جہاں حیدر نے اسے کھا جانے والے انداز میں دیکھا وہیں زرنور کا منہ بھی حیرت سے کھلا تھا .. ” تم نے سن لیا تھا ؟..!!” اس نے ریاض کو کہنی مارتے ہوئے سرگوشی میں پوچھا .. ” آہو ..!!” اس کے ہنسنے پر زرنور نے گھور کر اسے دیکھا .. ” نور بانو ..کہو تو میں تمہارا نام لے لیتا ہوں ..!!” حیدر نے جہاں دلکشی سے کہا تھا وہیں اس کے پیٹ میں احمد کا زوردار مکّا پڑا تھا . ” زندہ بچے گا تو لے گا نہ ..!!” احمد نے مسکراتے ہوئے اسے باور کروایا تھا .. ” مجھے سمجھ نہیں آتا ..تو یہاں لینے کیا آیا ہے ؟.جب اٹلی والوں نے تجھے نکال دیا تھا تو کہیں اور چلا جاتا لیکن نہیں ..تجھے تو میری نور بانو کے پیچھے ہی پڑنا تھا ..!!” احمد نے اسے ٹھیک سے اداس بھی نہیں ہونے دیا تھا ایک مکّا اور اس کے جڑ دیا تھا .. ” کس کی نور بانو ؟؟..!!” “آہ ..ظالم آدمی …!!” وہ کراہ اٹھا .. “جلدی بتا کس کی نور بانو ..؟؟!!” ویٹ ویٹ ..حیدر کی نور بانو اور احمد کی نور ..کلئیر ؟؟..!!” اس کے دونوں ہاتھ اٹھا کر جلدی سے کہنے پر احمد نے سوالیہ نظروں سے زرنور کو دیکھا تھا جیسے اس کی راۓ جاننا چاہ رہا ہو “بلکل بھی نہیں ..نور بانو نام تو مجھے سخت زہر لگتا ہے ..اور ویسے بھی میں صرف احمد کی نور ہوں ..!!” اس نے اپنی صراحی دار گردن ناز سے تان کر کہا تو احمد نے بھی ایک جاندار مسکراہٹ لبوں پر سجاتے ہوئے حیدر کو جتانے والے انداز میں دیکھا .. جو شکایتی نظروں سے زرنور کو دیکھ رہا تھا .. ” بہت ہی کوئی بے وفا لڑکی ہو تم ..اس کے آنے سے پہلے تو میرے آگے پیچھے ہی گھومتی تھیں اس کے آتے ہی مجھے بھول گئیں ..!!” اس کے انداز میں خفگی تھی .. ” اللہ گواہ ہے حیدر ..میں نے اپنے مطلب کے علاوہ کبھی تمہیں مخاطب بھی نہیں کیا ..!!” وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے سنجیدگی سے بولی .. احمد اور ریاض کے قہقے بے ساختہ تھے .. وہ رونی شکل بنا کر ریاض کے گلے لگا تھا .. ” یہ دونوں میاں بیوی مجھے خوش بھی نہیں ہونے دیتے ..!!” وہ شکایاتی انداز میں ریاض سے کہ رہا تھا .. ” تو یار تو اپنی بیوی لے آ نہ ..اب دوسروں کی بیویوں پر نظر رکھے گا تو یہی ہوگا ..!!” ریاض ہنسی ضبط کرتے ہوئے اسے ہمدردی سے مشورہ دے رہا تھا .. ” کوئی دیتا ہی نہیں مجھے ..!!ا” اس نے منہ بسورا .. ” مس یشفہ ..ایک منٹ بات سنیں گیں ؟..!!” ریاض نے تھوڑی دور فاریہ کے ساتھ کھڑی یشفہ کو اچانک ہی مخاطب کیا تھا .. حیدر جھٹکے سے اس سے الگ ہوا تھا .. یشفہ حیدر کی وجہ سے آنا نہیں چاہ رہی تھی لیکن نہ آنے کا کیا جواز پیش کرتی اسی لئے نہ چاہتے ہوئے بھی آگئی تھی لیکن فاریہ نہیں آئی وہ وہیں کھڑی رہی تھی .. ” جی ؟؟..!!” اس نے حیدر کو نظر انداز کر کے ریاض سے پوچھا تھا جو اس کے پیچھے کندھے پر بازو ٹکاۓ کھڑا اسے ہی دیکھ رہا تھا .. ” اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو کچھ پوچھنا چاہ رہا تھا آپ سے ..!!” “یہ تو اس بات پر ڈیپینڈ کرتا ہے کے میں مائنڈ کروں گی یا نہیں ..خیر آپ پوچھئے ..!!” “آؤ فاری سیلفی لیتے ہیں ..!!” زرنور نے اسے اکیلے کھڑے دیکھا تو فورآ ہی آواز دے کر اپنے پاس آنے کو کہا تھا وہ تو بہانہ بنا کر بھاگنے کے چکر میں تھی لیکن برا ہوا جو انوشے اور لائبہ وہیں آ گئی .. زرنور نے ان دونوں کو بھی بلا لیا تھا .. ناچار فاریہ کو بھی آنا پڑا .. ہاں تو میں پوچھ رہا تھا کے کہیں انگیجڈ تو نہیں آپ ؟ ریاض نے خاصی شرافت سے پوچھا تھا .. وہ سب بھی ان دونوں کی جانب متوجہ تھے .. یشفہ نے کن آنکھیوں سے حیدر کو دیکھا تھا جو مسکراہٹ دبانے کو چہرہ جھکا گیا تھا .. نہیں ..!!” اس نے سکون سے کہا تھا .. حیدر کے اندر جیسے ڈھیروں اطمینان اترا تھا .. “ارادے کیا ہیں تمہارے ؟؟..!!” لائبہ نے ہنستے ہوئے اسے آنکھیں دکھائی تھی .. ” فکر نہ کرو ..ارادے بڑے نیک ہیں میرے ..!!” اس نے گہری لیکن سرسری سی نظر فاریہ پر ڈالنے کے بعد مسکراتے ہوئے کہا تھا .. ” اچھا تو میں پوچھ رہا تھا کے آپ کو حید ..!!” وہ پھر سے یشفہ سے کچھ پوچھنے لگا تھا کے لیکن حیدر نے جلدی سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر خاموش کروا دیا تھا .. ” بس بس ..باقی کام میں کر لوں گا ..!!” وہ جلدی سے بولا تھا کہیں وہ کچھ الٹا سیدھا نہ کہ دے ..!!” اور پھر ری ایکشن کے طور پر یشفہ کی طرف سے بھی بھری محفل میں باتیں سننے کو نہ مل جاۓ ..!!” “ہو گئیں باتیں ؟چلو اب سیلفی لیتے ہیں ..!!” زرنور نے فورآ سے اپنے موبائل پر فرنٹ کیمرہ آن کر کے تھوڑا اونچا کیا تھا .. ” ایک بندے کے ساتھ تم سے سیلفی لی نہیں جاتی کہاں اتنے سارے لوگوں کو کور کرو گی ..!!” حیدر نے زرنور پر چوٹ کرتے ہوئے کہا تھا .. “لے کر دکھاؤں گی ..!!” وہ بھی مظبوطی سے بولی تھی .. “ارے میری صرف ناک آ رہی ہے ..!!” “اور میرے تو بال ہی نہیں آ رہے ..!!” وہ دونوں مسلسل اسے تنگ کئیے جا رہے تھے جس کی وجہ سے وہ ایک بھی تصویر لے نہ پائی تھی .. ” کہاں تھا نہ کے نہیں ہوگا تم سے ..!!” وہ دونوں صاف اس کا مذاق اڑا رہے تھے .. وہ انھیں سخت سست سنانے ہی لگی تھی جبھی اس کا مومی ہاتھ احمد نے اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اونچا کیا تھا اور بہت آرام سے سیلفی لی تھی جس میں سب تھے .. “اوۓ ہوۓ ..!!” ان سب نے ہی ہوٹنگ کی تھی .. وہ شرماتے ہوئے لائبہ کے پیچھے ہو گئی … ” اللہ نور بانو کو شرم آ گئی …!!” حیدر کے کہنے پر وہ سب ہنسنے لگے تھے جب کے ریاض احمد کو بہت سنجیدہ انداز میں اس کی اس کی حرکت پر سرزنش کر رہا تھا .. “محفل کے بھی کچھ ادب و آداب ہوتے ہیں بھائی ..آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا ایسے بیچ محفل میں ہمارے دلوں پر چھریاں چلانے کا ہمارے پاس بھی دل ہے ..ہمارے بھی کچھ جذبات ہیں ..!!” “ہاں تو میں نے کیا کیا ہے ؟..!!” وہ انجان بن کر بولا .. ” وہ جو خدمت خلق کا کارکن بن کر آپ نے “بھابھی” کی مدد کی ہے وہ مجھ سمیت یہاں موجود ہر شخص نے اپنی پوری دونوں آنکھیں کھول کر ملاحظہ کی ہیں ..!!” “میں خیال رکھوں گا آئیندہ ..!!” اس نے فورآ سینے پر ہاتھ رکھ کر ہلکا سا سر جھکاتے ہوئے مسکراہٹ چھپا کر کہا تھا .. ” بہت اچھی بات ہے ..!!” وہ بھی خفگی سے بولا تھا ..
تم کو پایا ہے تو جیسے کھویا ہو .. کہنا چاہوں بھی تو تم سے کیا کہوں .. کسی زبان میں .. وہ لفظ ہی نہیں .. کے جن میں تو ہو .. کیا تمہیں .. بتا سکوں .. میں اگر کہوں .. تم سا حسین … کائنات میں … نہیں ہے کہیں .. تعریف یہ بھی تو .. سچ ہے کچھ بھی نہیں …!!” بڑے سے ڈانس فلور پر حارث کا ہاتھ تھامے وہ گول گول گھوم رہی تھی .. پورے حال کی لائٹس بند تھی صرف سپاٹ لائٹس ان دونوں پر فوکس تھیں .. ان دونوں نے پریکٹس نہیں کی تھی لیکن پھر بھی کپل ڈانس کرتے بے حد پیارے لگ رہے تھے .. دولہا اور دلہن کی یار پرفارمنس سرپرائزنگ تھی سب کے لیے .. وہ خوبصورت تھی .بے حد .. اگر نہیں بھی ہوتی تو بھی حارث کے لئے دنیا کی حسین ترین لڑکی وہی ہوتی .. کیوں کے وہ اس سے محبّت کرتا تھا .. ابھی سے نہیں بچپن سے .. جب محبّت کے معنی سمجھ آنے لگے تھے .. تب سے اس کے دل پر ایک ہی نام نقش تھا .. اور ذہن کے پردے پر پر ایک ہی چہرہ چھایا رہتا تھا .. جو صرف اور صرف مناہل کا تھا .. وہ مناہل ملک جو اس کی نو عمر کی محبّت تھی .. اس کی چاہت تھی .. اس کی آرزو تھی .. جسے اس نے ہمیشہ کے لئے اپنا بنالینا تھا .. کس قدر خوش قسمت انسان تھا وہ .. کتنی آرام سے وہ اپنی محبّت ک حاصل کرنے والے تھا .. کوئی ظالم سماج کوئی رکاوٹ اس کی راہ میں حائل نہ تھی .. ریاض چوہدری کی نظر میں خوش قسمتی کی اعلی مثال وہی تو تھا ..
قریباً چار بجے ان کی واپسی ہوئی تھی .. سب ہی تھکن سے بے حال تھے جہاں جگہ نظر آئی وہیں پڑ کر سو گئے تھے .. لیکن دو نفوس ایسے بھی تھے جنہیں نیند سے زیادہ بھوک نے بے حال کر رکھا تھا .. یہ نہیں تھا کے انہوں نے کھانا نہیں کھایا تھا .. کھانا تو کھایا تھا اور کافی جم کر کھایا تھا لیکن پھر وہ بہت زیادہ ڈانس کرنے اور لڑکی والوں سے لڑنے کی وجہ سے ہضم ہو گیا تھا .. لڑائی اس بات پر ہوئی کے پہلے انہوں نے پرفارم کرنا تھا لیکن لڑکیوں نے جان بوجھ پہلے کرنے کا کہا اور جب وہ اپنے جوہر دکھا کر اسٹیج سے نیچے اتری تو لڑکوں کے چہرے پر غصہ صاف واضح تھا .. ان کے مطابق لڑکی والوں نے نہ صرف ان کے ڈانس سٹیپس کاپی کئے تھے بلکے اسے ماننے سے بھی انکاری تھیں “شرم نہیں آتی ہمارے سٹیپس کاپی کرتے ہوئے ؟؟…!!” غصّے میں بھرے حیدر نے یشفہ کو جا لیا تھا . جنہیں لیڈ بھی تو وہی کر رہی تھی .. یوٹیوب کیا صرف تمہارے ہی فون میں ہے ؟..!! اس نے تپانے والی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر آنکھیں پٹپٹا کر کہا تھا .. حیدر کو زیادہ غصہ بھی تو اسی پر تھا .. “دیسپسیتو ” سونگ پر جو ڈانس اس نے کرنا تھا وہ اس سے پہلے ہی یشفہ نے کر لیا تھا .. سٹیپ باۓ سٹیپ .. اور غصہ تو یشفہ کو بھی چڑھا تھا جب ان سب کے ساتھ ڈانس کرتے ہوئے حیدر نے نیچے کھڑی یشفہ کا اچانک ہی ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے اس کے کان میں سرگوشی کی تھی .. “لیٹس ڈانس بے بی ..!!” اس کا بس نہ چلتا تھا کے حیدر کا گلہ دبا دے لیکن اتنے لوگوں کی موجودگی میں وہ اسے کچھ کہ بھی نہ سکتی تھی کے سب کی نظریں ان دونوں پر ہی مرکوز تھیں .. ناچار اسے حیدر کے ساتھ قدم سے قدم ملانے پڑے تھے .. لیکن ڈانس کے بعد جب وہ اکیلے میں اسے ملا تو کافی باتیں سنا کر اس نے اپنا غصہ نکالا تھا لیکن حیدر پر کسی چیز کا اثر ہو جاۓ ؟؟ ہو ہی نہیں سکتا .. اس وقت بھی مسکراتے ہوئے اس کی ساری بری بھلی سن رہا تھا .. جب تک ریاض نے مائیکرو میں بریانی گرم کر کے ٹیبل پر رکھی تب تک وہ بھی احمد کے لئے کافی بنا چکا تھا .. ” جو کام تیری بیوی کے کرنے کے ہیں وہ تو مجھ سے کروا رہا ہے ..!!” حیدر نے اس کے سامنے مگ پٹہخنے کے سے انداز میں رکھتے ہوئے تپ کر کہا تھا .. ” میری بیوی کو ابھی نیند کی زیادہ ضرورت ہے اور میں اتنا ظالم شوہر تو نہیں جو صبح کے چار بجے اس سے کافی بنواؤں ..!!” اس نے مگ اٹھاتے ہوئے ان دونوں کو دیکھ کر کہا تھا “بنانی آتی ہوگی تو بناۓ گی نہ ..!!” وہ دونوں ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسے تھے .. ” نہیں آتی تو کیا ہوا ؟ مجھے تو آتی ہے نہ ؟..!!” ” یعنی کے تو بناۓ گا ساری زندگی ؟..!!” ” بنا لوں گا تو یہ کون سی بڑی بات ہے ؟..!! اس نے گھونٹ بھرا تھا .. ” کیا اسے محبّت کہتے ہیں ؟؟..!!” حیدر نے بریانی کا چمچ بھر کر منہ میں رکھتے ہوئے پوچھا .. ” نہیں اسے عشق کہتے ہیں ..!!” وہ بھی ہنس کر بولا تھا
صبح کے دس بجے حارث کے والد اظہر ملک اور عمیر نے حارث کے کمرے کا ڈور کھولا تھا .. پورا روم اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا .. لگتا تھا جیسے اس کمرے میں ابھی بھی رات ٹھہری ہوئی ہو .. عمیر سوئیچ بورڈ کی جانب بڑھا تھا لیکن بیچ میں کسی سخت چیز سے پیر ٹکرایا تھا .. اور اگلے ہی لمحے اس سخت چیز کے دونوں ہاتھوں نے عمیر کے پیر کو جکڑ لیا تھا .. ” نہیں جانے دوں گا ..کہیں بھی نہیں جانے دوں گا ..!!” عمیر نے جیب میں سے فون نکال کر جلدی سے ٹارچ آن کر کے اس چیز پر پھینکی تھی .. جہاں تیمور نے اس کے پیر کو اپنی محبوبہ سمجھتے ہوئے پکڑا ہوا تھا .. بیچ کمرے میں گھٹڑی بنا اپنی محبوبہ سوری عمیر کے پیر کو چھوڑنے پر راضی نہ تھا .. بہت مشکل سے سرکتے ہوئے عمیر نے سوئچ بورڈ پر ہاتھ مارا تھا جس کے باعث سارا کمرہ روشنی میں نہا گیا تھا .. حارث کا کمرہ چھوٹا نہیں تھا لیکن ان چھ نفوس کے لئے تو نہ کافی ہی تھا لیکن پھر بھی کتنا اتحاد تھا ان سب میں کتنے ہی دنوں سے اس کمرے میں ایڈجسٹ کئے رہ رہے تھے .. عمیر اور اظہر صاحب نے حیرت سے اس کمرے کا حال دیکھا تھا جسے دیکھ کر لگتا تھا کے ابھی ہلاکو خان جنگ لڑ کر گیا ہو .. بیڈ پر بڑی مشکل سے حارث اور احمد کے بیچ میں ریاض گھسا ہوا تھا بلکے دبا ہوا تھا .. اشعر صوفے پر تھا لیکن دونوں پیر نیچے لٹک رہے تھے .. کاوچ کے پاس بھی تکیہ اور بلینکٹ موجود تھی جس کا مطلب تھا کے تیمور وہاں سویا تھا لیکن یہ اسے بھی پتا نہ چل سکا کے کب وہ کروٹیں بدلتا دروازے کے پاس پہنچ گیا .. ” اور رہی بات حیدر کی تو وہ تو کہیں نظر ہی نہیں آ رہا تھا .. “کیا کریں ان کا بابا ؟.!!” عمیر نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے پوچھا تھا .. ” کرنا کیا ہے اٹھاؤ ان سب کو ..کل برات ہے آج سو کام کرنے ہیں اور یہ لوگ تو ایسے مدہوش پڑے ہیں جیسے کوئی ملک فتح کیا ہو ..!!” رعب سے کہتے ہوئے وہ پلٹ کر کمرے سے چلے گئے تھے وہ نفاست پسند انسان تھے اتنی بے ترتیبی ناگوار گزر رہی تھی طبیعت پر .. گہری سانس بھرتے ہوئے سب سے پہلے عمیر نے پنکھا اور اے سی بند کیا تھا پھر حیدر کی تلاش میں نظریں دوڑائی تھیں .. جو اس دفعہ بھی کہیں نظر نہ آیا .. عمیر کا خیال تھا کے وہ بیڈ پر ان تینوں کے نیچے دبا پڑا ہوگا یہی سوچتے ہوئے تیمور سے با مشکل اپنا پیر آزاد کرواتے ہوئے وہ بیڈ کے پاس آیا تھا ..اور سائیڈ ٹیبل پر پڑا آدھ بھرا پانی کا جگ اٹھا کر ان پر پھینکا جو فورآ ہی ہڑبڑا کر اٹھے تھے .. حارث کو پہلا گمان مناہل کا ہی گزرا لیکن مشکل سے آنکھیں کھولتے ہوئے جب عمیر کی شکل نظر آ ئی تو مطمئن ہو کے پھر سے بلینکٹ اوڑھ کر لیٹ گیا .. آستین سے بھیگا چہرہ صاف کرتے ہوئے ریاض بھی پھر سے اس کے ساتھ ہی گھس گیا ایک احمد تھا جو سوۓ ہوۓ ذہن کو حاضر کرنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہا تھا .. صبح نماز پڑھ کر وہ سوتا نہیں تھا لیکن کل اتنی نیند آ رہی تھی کے کوشش کے با وجود وہ خود کو سونے سے روک نہ پایا .. عمیر کے ذہن پر ایک خیال سا گزرا تھا .. اس نے جھک کر جہازی سائز بیڈ کے نیچے جھانکا تھا .. اس کا شک سہی تھا حیدر وہیں موجود تھا سینے کے بل لیٹے وہ مدہوش تھا .. عمیر نے بہت مشکل سے اسے پکڑ کر باہر کھنچا تھا .. ” حیدر ..حیدر ..!!” اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے وہ اسے اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا جو نیند میں غرق آنکھیں ہی نہیں کھول رہا تھا .. احمد اور عمیر بہت مشکل سے ان کو اٹھانے میں کامیاب ہوئے تھے ..