“ناشتہ دے دووو ..!!” زور سے ٹیبل بجاتے ہوئے اس نے جتنی بلند آواز سے کہا تھا اتنی ہی زور سے لائبہ نے ہاتھ میں پکڑا چمٹا اس کے کندھے پر مارا تھا .. “آنکھیں تو کھل نہیں رہی تمہاری اٹھتے کے ساتھ ہی شور مچا دیا ناشتے کا ..!!” اسے ڈپٹ کر وہ پھر سے کاؤنٹر کی جانب مڑ کر پراٹھے پر گھی لگانے لگی تھی .. ” دو گھنٹے پہلے سے اٹھا ہوا ہوں ..!!” اس نے با مشکل آنکھیں کھولتے ہوئے ناراضگی سے کہا تھا .. ” اور جب سے ییں بیٹھے آوازیں لگاۓ جا رہے ہو ..صبر نہیں ہوتا تم سے ؟؟..!!” کیٹل میں چاۓ نکالتی زرنور نے بھی گھور کر تیمور کو دیکھا تھا .. “اتنی دیر سے تو کر رہا ہوں ..لیکن تم جیسی پھوہڑ لڑکیاں میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی ایک ناشتہ نہیں بنایا جاتا تم لوگوں سے ..!!” خفگی میں وہ بول تو گیا تھا لیکن جب ان دونوں کے غضبناک چہرے دیکھے تو اندازہ ہوا کے کس قدر سنگین جرم وہ کر چکا ہے .. “بن گیا ناشتہ ؟..!!” اشعر اپنی ہی دھن میں کہتے ہوئے کچن میں آیا تھا .. “اوہ ..تمہیں ناشتہ چاہیے ؟؟…!!” لائبہ نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹا کر پوچھا .. ” ہاں ..وہ بھی تمہارے ہاتھوں کا ..!!” اشعر نے بالوں میں ہاتھ پھیر کر دلفریبی سے کہا تھا .. ” تیمور تو خود پر سے توجہ ہٹتے دیکھ فورآ سے باہر کی جانب بھاگا تھا لیکن وہاں آتی انوشے سے ٹکراتے ٹکراتے بچا تھا .. ” آرام سے تیمور ..!!” لاشعوری طور پر انوشے نے اس کا بازو پکڑ لیا تھا .. ” یہ آرام ہی تو نہیں میری زندگی میں …!!” انوشے کو دیکھتے ہی اس کے ہوش و حواس ٹھکانے جا لگے تھے .. ہونٹوں پر نرم سی مسکراہٹ در آئی تھی .. “انوشے پکڑ لو اسے ..جانے مت دینا ..!!” زرنور نے وہیں سے آواز لگا کر اسے کہا تھا .. ” ہیں ..؟؟!!” وہ حیران ہوئی تھی لیکن جبھی تیمور نے جلدی سے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر اس کے سامنے کر دئے تھے .. ” یہ لو ..پکڑ لو مجھے اور دیکھو صحیح سے پکڑ نہ ورنہ بھاگ جاؤں گا میں …!!!” اس کے انداز پر وہ ضبط کے باوجود ہنس دی تھی .. ” اب دیکھو کیسے آنکھیں کھلی ہیں …!!” زرنور نے تیمور پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا .. ” کیا ہوا لائبہ ڈئیر ؟..یہ صبح ہی صبح تمہارا چہرہ لال ٹماٹر کی طرح کیوں ہو رہا ہے ؟..!!” اشعر نے ٹوکری میں رکھا سیب اٹھا کر دانتوں سے کترتے ہوئے غور سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا .. ” اشعر ..میرا دماغ پہلے ہی خراب ہو رہا ہے مزید تنگ مت کرو ..!!” ہاٹ پاٹ کا ڈھکن زور سے بند کرتے ہوئے اس نے وارن کرنے والے انداز میں کہا تھا .. ” ارے وہی تو پوچھ رہا ہوں کے ہوا کیا ہے ؟..!!” “مت پوچھو ..بہتر ہوگا یہ ..!!” اسے گھورتی ہوئی وہ پھر سے اپنا کام کرنے لگی تھی .. بات اصل میں یہ تھی کے آج ماہین کی طبیعت تھوڑی ناساز تھی رات سے ہی سر میں درد ہو رہا تھا اس کی وجہ سے وہ ٹیبلٹ لے کر آرام کر رہی تھی ننھے رضا کو بھی فاریہ اور یشفہ ہی سنبھال رہیں تھیں آج ناشتے کی ساری ذمہ داری بھی زرنور اور لائبہ کے سر ہی تھیں زرنور کو تو کچھ خاص بنانا نہیں آتا تھا اس لئے اس نے جیسے تیسے کرکے صرف چاۓ اور آملیٹ بنایا تھا پراٹھے اور بھنا ہوا قیمہ لائبہ نے بنایا تھا ویسے تو .کچن کی سری ذمہ داری ماہین کے سر تھی جس بڑی مہارت سے اس نے یہ سارا کام سنبھال رکھا تھا وہ قابل ستائش تھا ورنہ تو وہ چھ لوگ جس طرح اسے تنگ کرتے تھے کھانے کے ماملے میں وہ اچھے سے جانتی تھیں ..وہ سب بھی اس کی پوری پوری مدد کرواتی تھی لیکن آج اس کی ہدایتوں کے بغیر سب کرنے میں جانے کیوں مشکل در پیش آ رہی تھی .. جو ناشتہ اس کی موجودگی میں ایک گھنٹے میں ہی تیار ہو جاتا تھا اسے وہ دونوں تین گھنٹے لگا کر بنانے میں ہی بے حال ہو گئیں تھیں .. اوپر سے بار بار تیمور کی دہائیوں اور اشعر کے بے حساب وہاں لگنے والے چکروں سے وہ ویسے ہی تپ گئیں تھیں .. وہ تو شکر تھا کے حیدر اور ریاض وہاں موجود نہ تھے ورنہ تو جانے کیا حال ہوتا کچن کا اور ان دونوں کا .. اوران کی نیند پوری ہوتی تو موجود ہوتے نہ؟.. عمیر نے روم میں جانے پر پابندی لگا دی تھی انھیں باہر نکال کر لاک ہی کر دیا تھا ..نیچے پورشن میں تو سب مہمان جمع تھے اسی لئے تکیے سنبھالے وہ دونوں اوپر ہی آگئے تھے .. اب کبھی صوفے پر آڑھے ترچھے پڑے ہوتے تو کبھی نیچے قالین پر بے ترتیب نظر آتے …
وہ گہری نیند میں تھی جانے کس احساس کے تحت اس کی نیند ٹوٹی تھی بھاری ہوتی پلکوں کو اس نے آہستہ سے اٹھایا تھا ..اور آنکھیں کھولتے ہی جو چہرہ اسے نظر آیا تھا وہ چونکی تھی .. حواس نیند سے جاگے تو وہ بوکھلا کر اٹھ بیٹھی .. جسے وہ خواب سمجھ رہی تھی وہ حقیقت کا روپ دھارے گرے کلر کی شلوار قمیض میں فریش سا بیڈ پر اس کے قریب ہی بیٹھا تھا .. پہلا خیال دوپٹے کی طرف ہی گیا جو سائیڈ پر تکیے کے قریب پڑا تھا اس نے جھٹ سے اٹھا کر پیشانی تک گرایا .. وہ دلچسپی سے اس کی ساری کاروائی دیکھ رہا تھا .. ” کیا کر رہے ہو تم یہاں ؟؟..!!” اس کے تاثرات کی طرح آواز بھی حیرت سے لبریز تھی .. “دیکھنے آیا تھا تمہیں ..!!” مناہل کے برعکس وہ سکون سے بولا تھا .. ” بہت غلط حرکت ہے یہ حارث ..اگر کسی نے دیکھ لیا تو ؟..!!” اس کا سارا دھیان دروازے کی طرف تھا کے کہیں کوئی آ نہ جاۓ .. حلانکے اس نے اندر آنے کے بعد لاک کر دیا تھا .. “دیکھنے دو ہمیں کیا ..!!” اس نے کندھے اچکاۓ .. “حارث ..کسی نے دیکھ لیا تو بہت باتیں بنائیں گے سب ..پلیز جاؤ یہاں سے ..!!” وہ ڈرے ہوئے انداز میں کہ رہی تھی نظریں بار بار دروازے کی جانب ہی اٹھ رہیں تھیں .. ” ریلکیس مناہل ..کوئی کچھ نہیں کہے گا ..!!” “لیکن تم ..!!” اس نے کچھ کہنا ہی چاہا تھا کے بے ساختہ نظر اپنے الٹے ہاتھ پر پڑی تھی جو پتا نہیں کتنی دیر سے حارث کے ہاتھ کی مظبوط گرفت میں تھا .. مہندی والا کنگنا بھی اسے ہاتھ میں بندھا تھا ” کب آۓ تھے تم ؟..!!” اس نے بدلے ہوئے انداز میں پوچھا تھا ” آدھے گھنٹے پہلے ..!!” وہ اسے مسلسل حیران کئے دے رہا تھا .. (یہ اتنی دیر سے یہاں بیٹھا تھا اور میں کتنے مزے سے سو رہی تھی ) “میں نے سوچا تمہیں جگا دوں ..لیکن یہاں تو نہ آئس کیوبز تھیں اور نہ ہی پانی کا جگ ..!!” حارث نے اس کے چمکتے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا .. ” میں بھی کچن سے ہی لے کر آتی تھی .ویسے حیرت ہو رہی ہے مجھے .آج مجھ سے پہلے کیسے اٹھ گئے تم ؟؟.!!” غیر محسوس انداز میں وہ اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے نکالنے کی کوشش کر رہی تھی .. ” میں تو اپنے وقت پر ہی اٹھا ہوں ..آج تم نے دیر کردی ..کیا ہوا نیند نہیں آئی ساری رات ؟ مجھے ہی سوچتی رہی ہو نہ ؟؟..!!” وہ جو بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی خفگی سے اسے دیکھا تھا ” اتنا فارغ سمجھ رکھا ہے تم نے مجھے ؟..!!” “مطلب کے رات تم نے میرے بارے میں نہیں سوچا ؟..!! “نہیں ..!!” “جھوٹ بول رہی ہو نہ ؟..!!” “تمہاری قسم ..!!” “میری جھوٹی قسم کھا رہی ہو …مجھے شادی سے پہلے ہی مروانے کا ارادہ ہے کیا ؟..!!” ” اللہ نہ کرے ..کیسی باتیں کر رہے ہو ؟..!!” اس نےڈھیروں ناراضگی سے کہتے ہوئے اپنی ہتھیلی اس کے لبوں پر رکھی تھی .. ” تو پھر سچ بتاؤ ..سوچا تھا مجھے ؟؟..!!” حارث نے اپنے ہونٹوں پر سے اس کا ہاتھ ہٹا کر اسے بھی گرفت میں لے لیا تھا .. ” ہاں سوچا تھا تو پھر ؟؟…!!” اس نے نروٹھے انداز میں آخر کار اقرار کر ہی لیا تھا ورنہ تو اس سے کچھ بعید نہ تھی کے پورا دن ہی اس کے کمرے میں بیٹھا رھتا .. ” جبھی تو میں آ گیا ..کے ساری رات تم مجھے یاد کرتی رہی ہو ..ایک چھوٹی سی ملاقات تو بنتی ہے ..!!” “اور اگر کسی نے دیکھ لیا نہ تو میرا تو کچھ نہیں جاۓ گا لیکن تمہاری اچھی خاصی عزت افزائی ہو سکتی ہے بہتر ہوگا اب نکلو یہاں سے ..!!” مناہل نے اسے پٹری سے اترتے دیکھ فورآ سے ہری جھنڈی دکھائی تھی .. ” ابھی نہیں یار …ابھی میرا رومانٹک موڈ ہو رہا ہے ..!!” مناہل کا دل تو ویسے ہی اس کے اتنے قریب بیٹھنے پر زور زور سے دھڑک رہا تھا رہی سہی کسر اس کو باتیں پوری کر رہی تھیں .. ” سوری یار ..بلاوجہ ہی نیند خراب کردی میں نے تمہاری ..لیکن سچ تو یہ ہے کے یہ دو دن دو سالوں پر محیط لگ رہے ہیں ..پتا نہیں کب ہوگی میری شادی ..!!” اس کے مصنوئی بے چارگی سے کہنے پر وہ ہنس پڑی تھی .. ” صرف ایک ہی تو رہ گیا ہے ..اتنا سا بھی صبر نہیں کر سکتے ؟..!!” “میرے دل سے پوچھو یہ ایک دن کتنا بڑا ہوتا ہے ..!!” ” مسٹر ڈرامے باز ..اب نکلئیے یہاں سے اس سے پہلے کے کوئی آ جاۓ ..!!” “جا رہا ہوں بھئی ..مجھ سے زیادہ تو تمہیں دوسروں کی فکر ہے ..!!” اس کے ہاتھ چھوڑ دیے تھے حارث نے لیکن کھڑا نہیں ہوا تھا بلکے تھوڑا اور اس کے قریب ہوا تھا .. اور وہ جو اسے اتنے آرام سے جاتے دیکھ تھوڑی ریلیکس ہوئی تھی اپنے قریب آتے دیکھ سٹپٹائی تھی .. حارث نے اسے کچھ بھی بولنے کا موقع دئے بغیر بہت آہستہ سے اس کی صبیح پیشانی کو چوما تھا .. مناہل سے پلکیں اٹھانا دوبھر ہو گیا تھا .. پہلے کہاں اس نے حارث کا یہ انداز دیکھا تھا .. “اب سو جاؤ ..!!” اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی وہاں سے اٹھتے ہوئے کہا تھا .. (نیندیں اڑا کر کہ رہا ہے کے سو جاؤ.. اونہہ !!)
ہے مبارک آج کا دن رات آئی ہے سہانی .. شادمانی او شادمانی …!!
“اؤۓ .تو بیڈ کے نیچے سویا تھا ؟ عمیر بھائی بتا رہے تھے کے انہوں نے بڑی مشکل سے نکالا تجھے وہاں سے ..!!” تیمور نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا .. “میں تو بیڈ پر ہی سویا تھا رات کو ..پتا نہیں کس وقت نیچے گرا ..یہ احمد نے ہی ریاض کو “آگے ” کرنے کے چکر میں گرایا مجھے ..!!” ” مطلب ؟؟..!!” ” مطلب یہ کے نالائقوں ..احمد صاحب کو بیڈ پر سونا تھا جہاں پہلے سے میں حارث اور ریاض سو رہے تھے ..ریاض اور میں کونے پر تھے بیچ میں حارث تھا .. اس نے ریاض کو جگہ بنانے کا کہا تو وہ سرکتا سرکتا حارث کے پاس پہنچ گیا ..اور ایسے ان لوگوں نے سازش کر کے مجھے دھکا دے کر گرا دیا اور خود مزے سے سو گئے ..!!” وہ منہ بسورتے ہوئے بولا تھا ساتھ ہی لیز کے پیکٹ میں سے چپس نکال نکال کر منہ میں بھی رکھ رہا تھا .. “ابے اگر تو اٹھا ہوا تھا اور ساری کاروائی دیکھ رہا تھا تو کچھ بولا کیوں نہیں ؟..!!” ریاض نے حیرت سے پوچھا .. ” نیندوں میں تھا نہ میں ..اتنی ہمّت ہی نہیں تھی کے اٹھ کر دوبارہ سے بیڈ پر سوتا اس لئے صبر شکر کے ساتھ وہیں سونے کا فیصلہ کیا لیکن کروٹیں بدلتے شاید میں بیڈ کے نیچے چلا گیا ..!!” پورا لاونج بکھرا پڑا تھا نیچے قالین پر بیٹھیں وہ سب باقی کا بچا کچا سامان پیک کرنے میں مصروف تھیں جبھی گاؤ تکیے سے ٹیک لگاۓ نیم دراز احمد کو حارث نے مخاطب کر کے کہا تھا .. ” کچھ گانا وانا ہی سنا دے یار اتنے دن ہو گئے تونے کچھ سنایا ہی نہیں .. “تو بتا دے کیا سنے گا ؟..!!” اس نے موبائل پر ہی سر جھکاۓ جواب دیا تھا .. ” چل گانے کو چھوڑ آج کوئی شعر سنا دے ..!!” حیدر کے پر جوش انداز پر اس نے مسکرا کر سیل آف کر کے سائیڈ پر رکھا .. ” ایک غزل سناتا ہوں ..!!” “ارشاد ارشاد ..!!” وہ فورآ سے دوزازوں ہو کر بیٹھا تھا .. ” اجازت تو لے لے پہلے ..!!” پیکنگ میں ان کی مدد کرواتے ریاض نے ہنستے ہوۓ کہا تھا اشارہ زرنور کی طرف ہی تھا .. ” اجازت ہےجناب ؟..!!” احمد نے مسکرا کر اسے دیکھتے ہوئے اجازت چاہی تھی .. “اہم اہم ..!!” ” اوہووو …!!” ان سب کے ہوٹنگ کرنے پر وہ سٹپٹا گئی تھی .. ” ارے ظالم دے دو اجازت …!!” اس دفعہ تیمور نے کہا تھا .. “اور یہ “جناب ” کا چہرہ ایک دم لال ہو چکا ہے ..بلکل کسی انار کی طرح ..!!” زر نور کو دیکھتے ہوئے حیدر کی کمینٹری بھی جاری تھی .. “دے بھی دو “اجازت ” کب سے انتظار کر رہا ہے بچہ ..!!” ان کے مسلسل بولنے پر اسے ہاں کرتے ہی بنی .. لیکن جھٹ پیپر اٹھا کر خود کو مصروف ظاہر کرنے لگی .. لیکن سچ تو یہی تھا کے اس کی سماعتیں اسی جانب لگی تھی .. احمد ٹھیک اس کے سامنے ہی تو بیٹھا تھا اپنے چہرے پر اس کی نظروں کی تپش وہ صاف محسوس کر سکتی تھی .. “ہاں تو عرض کیا ہے …!!” “ارشاد بھائی ارشاد ..!!” وہ سب یک زبان بولے تھے چہرے پہ میرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن “اوۓ ہوۓ ہوۓ ..!!” “سن تو لو پہلے …!!” “اوکے اوکے ..!!” چہرے پر میرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن رازوں کی طرح اترو میرے دل میں کسی شب دستک پہ میرے ہاتھ کی کھل جاؤ کسی دن پیڑوں کی طرح حسن کی بارش میں نہالوں بادل کی طرح جھوم کے گھِر آؤ کسی دن خوشبو کی طرح گزرو میرے دل کی گلی سے پھولوں کی طرح مجھ پہ بکھر جاؤ کسی دن پھر ہاتھ کو خیرات ملے بندِ قبا کی پھر لطف شب وصل کو دھراؤ کسی دن
گزریں جو میرے گھر سے تو رک جائیں ستارے اس طرح میری رات کو چمکاؤ کسی دن میں اپنی ہر اک سانس اسی رات کو دے دوں سر رکھ کے میرے سینے پہ سو جاؤ کسی دن
“زبردست یار .!!” “کمال کر دیا ..!!” “محفل لوٹ لی ..!!!” ان سب کی معنی خیز سی شرارتی نظریں ان دونوں پر ہی جمی تھی .. ” نور بانو ..اگر میں تمہارے لئے غزل پڑھوں تو کیا تم ایسے ہی شرماؤ گی ؟..!!” حیدر نے شوخی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا .. ” پڑھ کر دکھا ..!!” احمد نے ڈھکے چھپے لفظوں میں اسے دھمکی دیتے ہوئے پیچھے کو ٹیک لگائی تھی .. حیدر نے برا سا منہ بنایا تھا .. نجانے کہاں سے آ گیا تھا یہ ویلن .. “اس سے بھی زیادہ شرماؤں گی ..پلیز پڑھوں نہ میرے لئے کچھ …!!” دوپٹے کا کونہ مروڑتے ہوئے اس نے خوشی سے کہا تھا .. کوئی اور وقت ہوتا تو حیدر پورا دیوان ہی مرتب کر دیتا اس کے لئے .. لیکن اس وقت احمد اس کے برابر میں ہی بیٹھا تھا .. ینی گردن اڑنے کا خدشہ سو فیصد تھا .. ” مجھے کہاں یہ شعر و شاعری آتی ہے ؟..میری طرف سے میرا دوست پڑھے گا ..!!” اس نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ آرام سے گیند ریاض کے کوٹ میں ڈال دی تھی .. ” ہاں تو میں کون سا دیوانہ شاعر ہوں ..؟!!!” ریاض نے اسے گھورتے ہوئے کہا تھا .. ” ارے ایک دو شعر تو سب کو ہی آتے ہیں ..سنا دے یار ..!!” حیدر کے ساتھ وہ سب اسے فورس کرنے لگے تھے .. ” زرا ہم بھی تو دیکھیں کے کیا چھپا ہوا ہے شہزادے کے دل میں ..!!” اشعر نے شرارت سے کہا تھا .. وہ سر نیچے کئے مسکرا دیا تھا .. پھر کن آنکھیوں سے لائبہ اور یشفہ کے پیچھے چھپی بیٹھی اس سیاہ رنگ کے لباس میں موجود دشمن جاں کو دیکھا تھا .. “عرض کیا ہے ..!!” نچلا لب دانتوں تلے داب کر اس نے کہا .. ” تو عرض کر ہی دے بھائی ..کیوں کے “اجازت ” دینے والی یہاں موجود نہیں ..!!” تیمور کے شرارتی انداز پر اس کا دل چاہا تھا کے جھٹ سے کہ دے .. ” کیوں نہیں ہے وہ یہاں ؟..یہیں تو ہے ..!!” “یہ کہاں دل کو لگا لیا ہم نے ..!!” اس کے پہلی لائن پڑھتے ہی حیدر نے سیٹی بجائی تھی… میں خود پر حیران ہوں کے… یہ کیا کیا ہم نے… میں اس کو چاہتا ہوں… یہ اس کے گماں میں بھی نہیں … اک طوفان اٹھے گا … گر اس کو بتا دیا ہم نے …!!” حیدر نے تعریف کرتے ہوئے جھٹ مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا تھا .. جسے ریاض نے شکریہ کہتے تھام لیا تھا .. ” اب نام بتا فٹافٹ …!!” ” ریاض چوہدری ..!!” اس نے دانت نکالے .. ” ابے ڈھکن اپنا نہیں ..” اس ” کا نام بتا ..!!” اشعر نے اسے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا تھا .. ” اچھا اس کا ؟؟…!!” ریاض نے اس کو لمبا کھینچا تھا .. ” ہاں اب جلدی بتا ..!!” “وقت آنے پر بتاؤں گا ..ابھی نہیں ..!!” ٹکا سا جواب دیتے ہوئے وہ کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا تھا .. “ریاض ..میں بتا دوں ؟؟..!!” بظاہر موبائل پر سر جھکاۓ اس نے سنجیدگی سے کہا تھا لیکن لہجے میں شرارت صاف واضح تھی .. ریاض کو تو گویا سانپ سونگھ گیا تھا .. وہ بے یقین نظروں سے احمد کو دیکھ رہا تھا .. ” کیا اسے سچ میں پتا چل گیا ؟..!!” اور دل تو فاریہ کا بھی دھڑکنا بھول گیا تھا .. سانس روکیں اس کی سماعتیں ان کی طرف ہی لگیں تھیں .. تجھے پتا ہے ؟..!!” وہ سب اب اس کے سر ہو گئے تھے .. ” پکّا تو نہیں پتا ..بس تھوڑا سا شک ہے ..جو یقیناً کوئی غلط فہمی ہوگا ..ہے نہ ریاض ؟؟..!!” “شک …؟؟کہاں بھول چوک ہوئی مجھ سے ؟؟..!!” “پتا نہیں ..!!” جلدی سے کہ کر وہ وہاں سے چلا گیا تھا .. گھبراہٹ سی ہونے لگی تھی .. اسے اپنی فکر نہیں تھی صرف فاریہ کا خیال تھا اس کی ذات پراٹھا کوئی سوال وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا .. کیا پتا صرف احمد کی غلط فہمی ہی ہو .. شاید وہ کسی اور کے بارے میں بات کر رہا ہو .. بہر حال اسے احمد سے تو بات کرنی ہی تھی .. سب کے سامنے اتنی بڑی بات اس نے ایسے ہی تو نہیں کی ہوگی …
ملک ہاؤس کا مین گیٹ چوپٹ کھلا ہوا تھا اندر باہر مانو ایک رش سا لگا تھا گھر کے باہر ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے جا رہے تھے ساتھ ہی مرد حضرات پیسے بھی لٹا رہے تھے .. لان میں ہی سحرا بندی کی رسم ادا کی جا رہی تھی .. رسم کے مطابق تو سحرا بہنوئی کی طرف سے ہوتا ہے .. وہ ہی تیار کروا کر باندھتا ہے لیکن زرنور کو وہ ہمیشہ سے اپنی بہن ہی کہتا تھا تو اس لئے یہ رسم بھی پھر احمد نے ہی پوری کی تھی .. بدلے میں حارث نے اس کے پسندیدہ برینڈ کی خوبصورت سی رسٹ واچ دی تھی .. کاجل لگانے کی رسم ماہین نے کی تھی جسے حارث نے نیگ کے طور پر گولڈ کی چین دی تھی .. سب لڑکیاں نازش بیگم اور محمود صاحب کے ساتھ پارلر سے ہی میریج ہال جا چکی تھیں برات کے استقبال کی تیاریاں بھی تو کرنی تھی .. جلدی جلدی کرتے بھی ساڑھے نو بج چکے تھے اظہر صاحب کے ہی بار بار کہنے پر وہ لوگ گاڑیوں میں بیٹھ کر نکلے تھے ورنہ تو ان کی سیلفیاں ہی ختم نہیں ہو رہی تھی ..
جس گاڑی میں اظہر صاحب اور سحرش بیگم تھے اسے احمد ڈرائیو کر رہا تھا ان کے پیچھے عمیر اور ماہین کی کار تھی .. اور دلھے میاں کی اسپیشل پھولوں سے سجی ہوئی کار کو اشعر ڈرائیو کر رہا تھا جس میں اس کے ساتھ صرف حارث ہی موجود تھا .. حیدر ,ریاض اور تیمور کی گاڑی ان سے آگے تھی .. اصولآ تو دلھے کی کار کو سب سے آگے ہونا چاہیے تھا لیکن وہی سب سے پیچھے تھی .. اس کی کار کے پیچھے صرف دوسرے رشتے داروں کی گاڑیاں تھی ایسے یہ تیس پینتس گاڑیوں کا قافلہ میریج حال کی جانب گامزن تھا .. پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت اظہر صاحب اور عمیر کی کارز کو آگے نکلتا دیکھ وہ لوگ اپنی گاڑیاں روک کر باہر اتر آۓ تھے .. اور پھر اگلے پانچ منٹ میں پورا آسمان فائرنگ کی آوازوں سے گونج رہا تھا .. پورا روڈ ہی جام کر دیا تھا .. ٹرافک کے باعث عوام کی گاڑیاں بیچ سڑک پر ہی پھنس گئیں تھیں اور جن کی نہیں پھنسی تھی وہ اپنی مرضی سے گاڑی روک کر کھڑکیوں کے شیشے گراۓ دلچسپی اور مزے سے اس انوکھی برات کو دیکھ رہے تھے جس میں دولہا شیروانی اور سہرا پہنے ہونے کے باوجود اپنے یار دوستوں سمیت ہوائی فائرنگ کرنے کے ساتھ ساتھ ڈھول کی تیز آواز پر بھنگڑے بھی ڈال رہا تھا .. کہاں دیکھا ہوگا ایسا دولہا جسے اپنی شادی کی اس قدر خوشی تھی کے چھپاۓ نہیں چھپ رہی تھی جسے وہ کھل کر انجؤۓ بھی کر رہا تھا .. گشت پر نکلی پولیس موبائل نے جب ایک مصروف شاہراہ کا یہ حال دیکھا تو سر چکرا گیا .. اس سڑک پر اس قدر ٹرافک ہوتا تھا کے کوئی مجبوری میں بھی اپنی گاڑی نہیں روکتا تھا اور کہاں وہ لوگ پوری برات کو وہاں اکھٹا کئے کھڑے جشن منا رہے تھے تھے نہ صرف بھنگڑے ڈال رہے تھے سر عام اسلحے کی نمائش کے ساتھ ہوائی فائرنگ بھی کر رہے تھے .. جیسے برات نہ لے کر جا رہے ہوں .. ڈاکوؤں کا کوئی قافلہ ہو جو اپنی جیت پر گلی گلی جشن منا رہا ہو بڑی مشکل سے ایس ایچ او راستہ بناتے اپنے اہلکاروں کے ساتھ ان تک پہنچا تھا .. “کیا ہو رہا ہے یہ ؟؟..!!” تیز شور کے باعث اس نے گرجدار آواز میں پوچھا … ” لونگ ٹائم سے پینڈنگ ..ساڈے ویرے دی ویڈنگ ہے ..!!” گانوں کی کان پھاڑتی آواز کے ساتھ حیدر نے بھی چلا کر کہا تھا .. ” موبائل میں بٹھاؤ ان سب کو ..!!” غضبناک تاثرات لئے اس ایس ایچ او نے اپنے اہلکاروں تحکم سے کہا تھا .. گورمنٹ تو پھر ہمارا گلہ پکڑے گی کے ہم شہر میں شہریوں کے امن و سکون کا خیال نہیں رکھتے .. “سر اس “ویرے” کو بھی ؟..!!” کانسٹیبل نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے حارث کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا جس کا پسٹل پکڑے ایک ہاتھ فضا میں بلند تھا .. جی میں سے تڑ تڑ نکلتی بلٹس ایس ایچ او کے سر میں ہتھوڑے کی طرح بج رہیں تھیں .. (میرے علاقے میں اتنی دیدہ دلیری سے اسلحے کی نمائش ؟؟).. “پہلے اسی کو بٹھاؤ …!!!” وہ دانت کچکچا کر بولا
آدھے گھنٹے میں وہ سب تھانے موجود تھے .. “خدا کا خوف کرو کچھ ..شادی بیاہ میں اتنی فائرنگ کون کرتا ہے ؟ لگ رہا تھا جیسے لڑکی کو لینے نہیں “اٹھانے ” جا رہے ہوں ..اور تم دولھے میاں ..تم تو اپنی شادی کی خوشی میں باؤلے ہی ہو گئے ہو ..رنگے ہاتھوں تمہیں فائرنگ کرتے ہوئے پکڑا ہے ..کچھ اندازہ ہے ؟ پرچہ کٹ سکتا ہے تم لوگوں کے خلاف .. ..!!” ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھا وہ درمیانی عمر کا ایس پی گھورتے ہوئے ان سب کو کہ رہا تھا .. ” حارث کے علاوہ وہ سب کھڑے تھے وہ اکیلا اس ایس پی کے سامنے چئیر پر بیٹھا تھا .. “دیکھیں سر ..پہلی پہلی شادی کر رہا ہوں نہ ..اس لئے خوشی میں تھوڑی زیادہ فائرنگ کردی ..ورنہ ہم تو ..!!” ” تھوڑی سی فائرنگ ؟ ..پورا آسمان گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج رہا تھا ..اور تم ادھر آؤ ذرا ..!!” ایس پی کی نظر اچانک ہی حیدر پر پڑی تھی .. ” کیا اپ مجھے بلا رہے ہیں سر ؟..!!” اس نے انگلی اپنے سینے پر رکھتے ہوئے شائستگی سے پوچھا .. ” ہاں تمہیں ہی بلا رہا ہوں ..ظہور دلاور کے بیٹے ہو نہ تم ؟؟..!!” موٹے سے چشمے کے پیچھے بڑی بڑی آنکھوں سے اس نے گھورتے ہوۓ پوچھا .. جی میں “ایم این اے ظہور دلاور کا بیٹا حمزہ حیدر علی ہوں ..نام تو سنا ہی ہوگا ..!!” شان و تمکنت سے کہتے ہوئے وہ گردن اکڑاتے ہوئے حارث کے برابر والی چئیر پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھا تھا .. ” بلکل ..نام بھی سنا ہے اور ٹی وی پر بہت دفعہ دیکھ بھی رکھا ہے ..!!” ایس پی نے طنز سے کہا تھا .. ” مشھور بندہ ہوں سر ..ٹی وی پر تو آتا رہتا ہوں ..!!” اس نے بے نیازی سے کہ کر ہاتھ جھلایا تھا .. ” ٹھیک ہے پھر تیار ہو جاؤ ایک دفعہ اور ٹی وی پر آنے کے لئے ..پریس کو کال کر دی ہے میں نے ..بس پہنچنے ہی والے ہوں گے ..!!” اس نے گھڑی پر وقت دیکھتے ہوئے تیز مسکراہٹ سے کہا تھا .. ” ضرور بلائیے ..میں بھی کہ دوں گا کے تھوڑے سے پیسے ہتھیانے کے چکر میں معصوم اور شریف لڑکوں کو تھانے اٹھا لاۓ ..!!” “تم جھوٹ بولو گے ؟؟..!!” اس نے خشمگیں انداز میں پوچھا .. ” ہمیں بھی تو فضول میں یہاں لایا گیا ہے ..!!” وہ بھی تڑخ کر بولا .. ” فضول میں ؟؟..اگر تو دہشت گردوں کی طرح گولیاں چلاتے تم لوگوں کی پستولوں سے کسی کو گولی لگ جاتی تو ..!!” ایس پی سخت لہجے میں انھیں دیکھتے ہوئے پوچھا .. ” تو ہم اسے ہوسپٹل لے جاتے سمپل ..!!” تیمور کے کندھے پر بازو ٹکاۓ کھڑے ریاض نے آرام سے کہا تھا .. لیکن یہی بے فکرا انداز اسے آگ لگا گیا تھا .. ” سمپل ؟؟ …گل خان پہلے اسکو جیل میں ڈالو ..!!” “ہیں ..ہیں ..؟ میں نے کیا کیا ہے ؟..!!ا” وہ بوکھلا کر سیدھا ہوا تھا .. ” میں نے کیا کیا ہے ؟..!!ا” ایس پی نے اس کی نقل اتاری .. ” بتاتا ہوں ابھی تمہیں کے کیا کیا ہے تم نے ..!!
آدھے گھنٹے میں وہ سب تھانے موجود تھے .. “خدا کا خوف کرو کچھ ..شادی بیاہ میں اتنی فائرنگ کون کرتا ہے ؟ لگ رہا تھا جیسے لڑکی کو لینے نہیں “اٹھانے ” جا رہے ہوں ..اور تم دولھے میاں ..تم تو اپنی شادی کی خوشی میں باؤلے ہی ہو گئے ہو ..رنگے ہاتھوں تمہیں فائرنگ کرتے ہوئے پکڑا ہے ..کچھ اندازہ ہے ؟ پرچہ کٹ سکتا ہے تم لوگوں کے خلاف .. ..!!” ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھا وہ درمیانی عمر کا ایس پی گھورتے ہوئے ان سب کو کہ رہا تھا .. ” حارث کے علاوہ وہ سب کھڑے تھے وہ اکیلا اس ایس پی کے سامنے چئیر پر بیٹھا تھا .. “دیکھیں سر ..پہلی پہلی شادی کر رہا ہوں نہ ..اس لئے خوشی میں تھوڑی زیادہ فائرنگ کردی ..ورنہ ہم تو ..!!” ” تھوڑی سی فائرنگ ؟ ..پورا آسمان گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج رہا تھا ..اور تم ادھر آؤ ذرا ..!!” ایس پی کی نظر اچانک ہی حیدر پر پڑی تھی .. ” کیا اپ مجھے بلا رہے ہیں سر ؟..!!” اس نے انگلی اپنے سینے پر رکھتے ہوئے شائستگی سے پوچھا .. ” ہاں تمہیں ہی بلا رہا ہوں ..ظہور دلاور کے بیٹے ہو نہ تم ؟؟..!!” موٹے سے چشمے کے پیچھے بڑی بڑی آنکھوں سے اس نے گھورتے ہوۓ پوچھا .. جی میں “ایم این اے ظہور دلاور کا بیٹا حمزہ حیدر علی ہوں ..نام تو سنا ہی ہوگا ..!!” شان و تمکنت سے کہتے ہوئے وہ گردن اکڑاتے ہوئے حارث کے برابر والی چئیر پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھا تھا .. ” بلکل ..نام بھی سنا ہے اور ٹی وی پر بہت دفعہ دیکھ بھی رکھا ہے ..!!” ایس پی نے طنز سے کہا تھا .. ” مشھور بندہ ہوں سر ..ٹی وی پر تو آتا رہتا ہوں ..!!” اس نے بے نیازی سے کہ کر ہاتھ جھلایا تھا .. ” ٹھیک ہے پھر تیار ہو جاؤ ایک دفعہ اور ٹی وی پر آنے کے لئے ..پریس کو کال کر دی ہے میں نے ..بس پہنچنے ہی والے ہوں گے ..!!” اس نے گھڑی پر وقت دیکھتے ہوئے تیز مسکراہٹ سے کہا تھا .. ” ضرور بلائیے ..میں بھی کہ دوں گا کے تھوڑے سے پیسے ہتھیانے کے چکر میں معصوم اور شریف لڑکوں کو تھانے اٹھا لاۓ ..!!” “تم جھوٹ بولو گے ؟؟..!!” اس نے خشمگیں انداز میں پوچھا .. ” ہمیں بھی تو فضول میں یہاں لایا گیا ہے ..!!” وہ بھی تڑخ کر بولا .. ” فضول میں ؟؟..اگر تو دہشت گردوں کی طرح گولیاں چلاتے تم لوگوں کی پستولوں سے کسی کو گولی لگ جاتی تو ..!!” ایس پی سخت لہجے میں انھیں دیکھتے ہوئے پوچھا .. ” تو ہم اسے ہوسپٹل لے جاتے سمپل ..!!” تیمور کے کندھے پر بازو ٹکاۓ کھڑے ریاض نے آرام سے کہا تھا .. لیکن یہی بے فکرا انداز اسے آگ لگا گیا تھا .. ” سمپل ؟؟ …گل خان پہلے اسکو لاک اپ میں ڈالو ..!!” “ہیں ..ہیں ..؟ میں نے کیا کیا ہے ؟..!!ا” وہ بوکھلا کر سیدھا ہوا تھا .. ” میں نے کیا کیا ہے ؟..!!ا” ایس پی نے اس کی نقل اتاری .. ” بتاتا ہوں ابھی تمہیں کے کیا کیا ہے تم نے ..!! “گل خان ..فون گھماؤ ان سب کے گھر والوں کو ..اور بتاؤں ان کے سپوتوں کے کارنامے ..!!” “ارے سر ..آپ کیوں گل خاناں کو پریشان کر رہے ہیں بار بار ؟..میرے پاس “آئی فون ایکس” ہے نہ ..نیا ہی لیا ہے میں نے ..دیکھئیے اچھا ہے نہ ؟؟بس قیمت پوچھ کر شرمندہ مت کیجئے گا ..وہ میں کسی کو نہیں بتاتا ..!!” حیدر نے فخریہ انداز میں گردن اکڑاتے ہوئے ہاتھ میں پکڑا فون لہرایا تھا .. ” ایک بات بتاؤ مجھے ..!!” ایس پی نے ضبط کے گھونٹ بھرے تھے .. ” کیا میں شکل سے پاگل لگتا ہوں تم لوگوں کو ؟..!!” اس کے جواب میں تھانے کا ہال کمرہ ان کے اونچے قہقوں سے گونج اٹھا تھا .. ” آپ کی غلطی نہیں ہے سر ..جو بھی “ہم سب “سے پہلی دفعہ ملتا ہے یہی سوال کرتا ہے ..وی کین انڈراسٹینڈ ..ہاہا ..!!” اشعر کی بات پر ایک قہقه اور پڑا تھا .. “بس ..آج کی رات تم لوگ لاک اپ میں ہی گزارو گے ..!!” اس نے ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوئے اٹل انداز میں کہا .. “مجھے تو جانے دیں سر ..میری شادی ہے آج ..وہ بھی پہلی پہلی والی ..!!” حارث نے رونی شکل بنا کر کہا تھا .. ” نہیں تو تم بتاؤ ..ہم کیا یہاں دس دس نکاح کئے بیٹھے ہیں جو تمہاری پہلی شادی ہے ..اور کیا کر رہے ہو یہ تم ؟؟ ..!!” اس نے حارث کو جواب دینے کے بعد غصّے سے حیدر کو کہا تھا جو موبائل میں فرنٹ کیمرہ لگاۓ وکٹری کا نشان بناتے ہوئے اپنے ساتھ ساتھ اسے بھی فوکس کر چکا تھا .. ” سیلفی لے رہا ہوں سر ..اپنے پیج پر پوسٹ کروں گا .. “کلر ہینڈسم” killer handsome کے نام سے میرا پیج ہے ..آپ بھی ضرور لائک کیجئے گا ..اور ہاں اپنی آئی ڈی بتائیے ..میں اس سیلفی پر ٹیگ کروں گا آپ کو ..مسکرائیے تو سہی ..!!” “اوۓ ..ہماری بھی لے ..!!” اشعر ,تیمور اور ریاض بھی جلدی سے اس کے پیچھے آۓ تھے .. “لے لی سیلفی ؟..!!” اس نے سنجیدگی سے پوچھا .. ” جی جی سر ..بہت اچھی آئی ہے ..دیکھیں ..بلکے رہنے دیں میرے پیج پر دیکھ لیجئے گا ..لائک کومنٹ اور شئیر کرنا ہر گز مت بھولئے گا ..!!” لاک اپ میں بند قیدیوں اور وہاں کے سٹاف کا ہنس ہنس کر برا حال ہو چکا تھا .. ہنسی چھپاۓ نہیں چھپ رہی تھی .. ” سر پریس والے نہیں آۓ ابھی تک ..!!” حیدر نے یہاں وہاں گردن گھماتے ہوئے پوچھا تھا .. جیسے ابھی کونے کھدروں سے رپورٹرز اپنے کیمرے سنبھالے نکل پڑے گے .. اس کے جواب دینے سے پہلے ہی دو اہلکاروں کی معیت میں چلتے ہوئے وہاں آتا احمد نظر آیا تھا .. سب کی گردنیں اس کی جانب مڑی تھیں .. جو شاہانہ قدم اٹھاتا اس کی ٹیبل تک آیا تھا .. جس کے سامنے رکھی دونوں کرسیوں پر تو حیدر اور حارث بیٹھے تھے .. اس لئے سائیڈ پر پڑی کرسی اٹھا کر حیدر کے ساتھ رکھتے ہوئے وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھا تھا .. جانتا تھا کے جو کام وہ لوگ وہاں تھوڑی سی دیر میں کر چکے ہیں ..ایسے میں بیٹھنے کے لئے کرسی کی پیشکش تو ہر گز نہیں کی جاۓ گی .. ” آپ کا تعارف ؟..!!” ایس پی نے سر سے پیر تک اس کا بغور جائزہ لیتے ہوئےمشکوک انداز پوچھا تھا .. جو اس وقت ان سب کی طرح سیاہ رنگ کی شلوار قمیض کے ساتھ کریم کلر کے واسکٹ میں ملبوس تھا .. ” جی میں خانزادہ گروپ آف انڈسٹریز کا آنر ارمان احمد خانزادہ ہوں ..میں یہاں ان کی ضمانت کے لئے آیا ہوں.. جانتا ہوں انہوں نے کافی سنگین جرم کیا ہے جس کی وجہ سے انہیں آریسٹ کیا گیا ..لیکن چونکے آج شادی ہے ان صاحب کی وہ بھی “پہلی والی “ اس نے ہاتھ سے حارث کی طرف اشارہ کیا تھا ” ..اگر تو برات ٹائم پر نہیں پہنچی تو آپ سمجھ سکتے ہوں گے کے لوگ کس قدر باتیں بنائیں گے ..غلطی ان کی ہے جرم انہوں نے کیا ہے ..لیکن سزا لڑکی اور اس کے گھر والوں کو تو نہیں ملنا چاہیے نہ ..وہاں وہ سب برات کے استقبال کی تیاریاں کئے بیٹھے ہیں اس بات سے انجان کے دولہا اس وقت تھانے میں موجود ہے ..!!” اپنی بات ختم کر کے وہ پیچھے کو ٹیک لگا کر بیٹھا تھا .. ایس پی کے ساتھ ساتھ وہاں موجود ہر شخص متاثر نظر آتا تھا .. اس کے بات کرنے کا انداز ہی ایسا تھا فورآ ہی سامنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا تھا .. ” دیکھیں مسٹر خانزادہ ..نو ڈاؤٹ ..آپ کی باتیں اپنی جگہ درست ہے .اور میرا کوئی ارادہ نہیں تھا صبح سے پہلے ان سب کو رہا کرنے کا لیکن آپ کے لئے میں اتنا کر سکتا ہوں ..کے آپ صرف دولھے میاں کو اپنے ساتھ لے جائیں ..لیکن یہ یار دوست ..آج کی رات ہمارے ساتھ یہیں رت جگا منائیں گے ..!!ا” اس کے شائستگی سے کہنے پر جہاں حارث کے چہرے پر اطمینان و سکوں پھیلا تھا وہیں وہ سب بے چین ہو اٹھے تھے .. “سوری سر ..لیکن یہ ہمارے بغیر برات لے کر نہیں جاۓ گا ..!!” حیدر نے مطمئن انداز میں کہا تھا جیسے حارث پر سو فیصد بھروسہ ہو .. “کیوں بھئی ..ان کے بغیر جاؤ گے یا رات ان کے ساتھ بسر کرو گے ؟..!!” اس نے حارث کی جانب رخ کر کے پوچھا … ” چلا جاؤں گا سر ..اکیلے ہی چلا جاؤں گا ..بھلے سے آپ ان سب کو یہیں رکھ لیں بس مجھے جانے دے ..ورنہ وہ لڑکی انکار کر دے گی ..اگر اس نے مجھ سے شادی نہ کی تو میں نے اسی تھانے میں اپنی جان دے دینی ہے ..!!” حارث نے جس انداز میں کہا تھا ایس پی سمیت وہ سب مسکرا دئے تھے .. “اسے جانے دیں سر ..یہ اکیسوی صدی کا رانجھا ہے وہ لڑکی ویسے ہی جلالی ٹائپ کی ہے اگر اس نے غصے وسے میں انکار کر دیا تو اس نے واقعی میں خود کشی کر لینی ہے ..!!” تیمور کے کہنے پر سب ہنسنے لگے تھے ..
پہلے ہی اتنا وقت زائع ہو چکا تھا اس لئے برات کے پہنچتے ہی تھوڑی ہی دیر میں نکاح کی رسم ادا کر دی گئی تھی جس کے بعد حارث سمیت ان سب کی اظہر صاحب اور محمود صاحب کی خدمت میں حاضری لگی تھی .. جنہوں نے ان سب کو اچھی خاصی جھاڑ پلائی تھی .. وہ سب بھی سر جھکا ۓ ادب سے سنتے رہے تھے کیوں کے سامنے ان کے ماں باپ بھی تو کھڑے تھے .. جنہیں بطور خاص بلا کر ان کا کارنامہ بتایا گیا تھا احمد کے پاس اشعر کا فون اظہر صاحب کی موجودگی میں ہی تو آیا تھا .. وہ تو خود بھی پولیس اسٹیشن جانا چاہتے تھے لیکن احمد نے سہولت سے انھیں منع کیا تھا کیوں کے ان کے وہاں سے جانے سے معاملہ بگڑ بھی سکتا تھا .. اور واقعی میں اس نے اپنا کہا سچ کر دکھایا تھا .. آدھے گھنٹے میں ہی وہ ان سب کو لئے حال میں موجود تھا ..
بظاھر تو وہ ریاض سے ہی بات کر رہا تھا لیکن نگاہیں تھوڑی دور زرنور اور انوشے کے ساتھ کھڑی ان کی باتوں پر ہنستی یشفہ پر ہی جمی تھی .. جو آج مکمل مشرقی لڑکی ہی لگ رہی تھی .. لیکن اتنا ہیوی ڈریس وہ کس طرح سے کیری کر رہی تھی صرف وہی جانتی تھی .. اپنے چہرے پر تپش سی محسوس ہوئی تو اس نے ٹھٹھک کر یہاں وہاں دیکھا تھا لیکن سامنے ہی حیدر پر نظر پڑی تو لب بھینچ لیے .. وہ اس کی طرف متوجہ نہ تھا لیکن وہ جانتی تھی ..اس کا دھیان سب اسی کی طرف لگا تھا .. ان دونوں سے ایکسکیوز کرتی وہ سیدھی ان کے پاس آئی تھی .. “ریاض بھائی ..دو منٹ دے سکتے ہیں آپ ؟ مجھے اس سے کچھ بات کرنی ہے ..!!” “یا شیور بہنا ..!!” حیدر کے ساتھ والی چئیر پر بیٹھا ریاض پہلے تو اس کے اچانک آنے اور اس قسم کا مطالبہ کرنے پر چونکا تھا لیکن پھر خوشدلی سے کہتے ہوئے فورآ سے اپنی جگہ سے اٹھا تھا اور معنی خیزی سے حیدر کو دیکھتے وہاں سے چلا گیا تھا .. حیدر تو فورآ ہی سیدھا ہو بیٹھا تھا .. ساتھ ہی نچلا لب دانتوں تلے دبا کر مسکراہٹ روکنے کی کوشش کر رہا تھا .. کن آنکھیوں سے اس نے یشفہ کا جائزہ لیا تھا …جو سپاٹ چہرہ لئے اپنا لہنگا اور دوپٹہ سنبھالتی چئیر اس کے سامنے رکھ کر بیٹھی تھی .. ” اگر کسی نے ہمیں دیکھا تو باتیں بہت بنے گیں ..!!” حیدر کا اشارہ ان دونوں کے آمنے سامنے بیٹھنے پر تھا .. جسے یشفہ نے نظر انداز کر کے اس کی شرارت سے چمکتی آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑیں تھیں .. ” مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ ؟؟..!!” چہرے کے بر عکس اس کی آواز میں غصے کا تاثر تھا .. ” کوئی ایک ہو تو بتاؤں نہ ..!!” دونوں ہاتھ سینے پر باندھے اس نے سکون سے کہا تھا .. ” ٹھیک ہے ..!!” اس نے جیسے سمجھتے ہوئے سر ہلایا .. ” سیدھے طریقے سے بتاؤ کے چاہتے کیا ہو مجھ سے ؟..!!” “بات یہ ہے یشفہ ڈئیر کے ..!!” ہاتھوں کو باہم پھنساۓ وہ تھوڑا آگے کو جھکا .. ” بہت غلط وقت پر تم نے یہ سوال پوچھا ہے ..ایسا کرتے ہیں کل کافی پینے چلو میرے ساتھ .وہیں بتاؤں گا تمہیں تفصیل سے کے ..اصل میں’ میں چاہتا کیا ہوں تم سے ..!! ” تو تم مجھے” ڈیٹ” پر چلنے کی آفر کر رہے ہو ؟..بہت خوب صرف اسی چیز کی تو کمی رہ گئی تھی ..!!” اس کے طنزیہ انداز پر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہنس دیا تھا .. ” میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا ..ہاں اگر تم چلنا چاہو تو ..میں لے جا سکتا ہوں ..!!” اس نے شرارت سے کہا تھا .. لیکن وہ تپ اٹھی تھی .. “مرو گے تم میرے ہاتھوں ..!!” وہ گھورتے ہوئے کہ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی لیکن حیدر نے سرعت سے اس کلائی سے پکڑ کر دوبارہ بٹھایا تھا .. وہ تو اس کی جراعت پر ہی حیران رہ گئی تھی .. ” اوکے ..اب میں سیرئیسلی پوچھ رہا ہوں ..میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ..تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی کیا میرے ساتھ کہیں چل سکتی ہو ؟..!!” یشفہ نے ضبط سے ایک نظر اس کے ہاتھ میں قید اپن کلائی کو دیکھا تھا .. پھر دوسرے ہی لمحے جھٹکے سے اپنا ہاتھ کھنچا تھا .. ” میں اچھے سے جانتی ہوں جو بھی تم کہنا چاہتے ہو ..اور میرا جواب “نہ” میں ہے ..!!” اس نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا تھا .. “وہ سر جھٹک کر مسکرایا تھا .. “تمہارا انکار میرے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا یشفہ ..میرا تو جو دل کرے گا میں وہی کروں گا ..آخر کو ایم این اے کا بیٹا ہوں ..کسی کو اٹھوا بھی سکتا ہوں اور..!!” حیدر کی نظریں پھر سے اس کے گال کے سیاہ تل پر جمی تھیں .. ” بہت کچھ کر بھی سکتا ہوں ..!!” “کیا ..کہنا کیا چاہتے ہو تم ؟..!!” اس کے زومعنی بات پر اسے کچھ انہونی کا احساس ہوا تھا .. دل میں خوف سا جاگا تھا “جیسے میری پہلی والی ان کہی بات کا مطلب سمجھ گئی تھی ایسے ہی اس کا بھی سمجھ جاؤ ..ویل مطلب تو بہت سیدھا اور سادہ سا ہے ..لیکن اگر تم چاہتی ہو کے میں ڈیٹیل میں بتاؤں تو ..نو پروبلم بتا دیتا ہوں ..!!” وہ ہلکا سا اس کی جانب جھکا تھا لیکن وہ تو جیسے بوکھلا کر کھڑی ہو گئی تھی .. ” ارے ..!!” وہ بے ساختہ ہنسا تھا .. “تمہیں ڈر بھی لگتا ہے ..!!” وہ صاف اسے چھیڑ رہا تھا .. “تم اس قابل ہی نہیں کے تم سے بات کی جاۓ …!!” وہ اسے گھورتے ہوئے تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے گئی تھی .. وہ آنکھوں میں نرمی اور محبّت لئے اسے جاتا دیکھ رہا تھا ..
بلڈ ریڈ خوبصورت سے لہنگے اور نفاست سے کئے گئے میک اپ اور جیولری میں وہ انتہا کی حسین لگ رہی تھی .. روپ تو جیسے ٹوٹ کر آیا تھا .. اور حارث بھی کہاں پیچھے تھا .. بلیک کلر کی شیروانی اور سرخ کلہ پہنے وہ بھی کسی سلطنت کا شہزادہ ہی لگ رہا تھا ہر دیکھنے والے نے ان کی جوڑی کو سراہا تھا جو ساتھ بیٹھے اتنے پیارے لگ رہے تھے کے بے ساختہ ان کے لیے دل سے دعائیں نکلے کے اللہ ان کی جوڑی ہمیشہ بنا ۓ رکھے .. مسکراہٹ تو اس کے لبوں سے جدا ہی نہیں ہو رہی تھی .. اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی جو اسے مل چکی تھی .. اس کی مناہل .. اس کی محبّت آج اس کے نکاح میں تھی .. ہمیشہ کے لئے وہ اس کی ہو گئی تھی .. سوچ ہی کتنی دلنشیں تھی .. ہمیشہ کے لئے اس کو پا لیا تھا .. اور خوش تو مناہل بھی تھی .. اس نے بھی تو ہمیشہ حارث کو ہی چاہا تھا .. اسی سے محبّت کی تھی . خوش قسمتی شاید اسی کو کہتے ہیں .. بغیر کسی رکاوٹ کے وہ دونوں ایک دوسرے کے بن گئے تھے ..
“کیا کہ رہا تھا حیدر ؟؟..!!” زرنور کے معنی خیزی سے پوچھنے پر وہ سٹپٹا گئی تھی .. ” کچھ نہیں .کچھ بھی تو نہیں .!!” زبردستی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائی .. ” کچھ تو کہا ہوگا ..جبھی تو تمہارا چہرہ ایسے لال ہو رہا ہے ..!!” انوشے کے ابرو اچکا کرکہنے پر یشفہ نے بے ساختہ اپنا چہرہ چھوا تھا .. ” پھر ان کی شرارتی مسکراہٹ دیکھ کر جھینپ گئی تھی .. “دیکھو ..اگر کچھ کہا ہے تو بتاؤ ..ابھی ہم جا کر اس کی خبر لیتے ہیں ..!!” “ایسی کوئی بات نہیں ہے ..آپ تو جانتی ہے نہ اس کی میری نہیں بنتی بلکل بھی ..ایسے ہی مجھے غصہ آ گیا تھا بس ..لیکن میں بھی سنا کر ہی آئی ہوں اس کو ..!!” لائبہ کے کہنے پر وہ جلدی سے بولی تھی مبادہ وہ سب اس کے سر پر پہنچ کر واقعی میں ساری بات نکلوالیں ..!!” اور یہ تو وہ سب اچھے سے جانتے تھے کے ہمیشہ سے چھتیس کا آکڑا رہتا تھا ان دونوں کے بیچ .. کبھی کسی نے خوشگوار انداز میں انھیں بات کرتے نہ دیکھا تھا .. یشفہ کو تھوڑی دیر لگی تھی انھیں مطمئن کرنے میں ..!!
اس کی نظر احمد پر پڑی تھی جو اس وقت تنہا صوفے پر ہاتھ میں پکڑے موبائل پر سر جھکاۓ بیٹھا تھا .. ریاض کو یہی سہی وقت لگا تھا اس سے بات کرنے کا ورنہ گھر پر تو بلکل بھی وہ اسے اکیلے میں میسر نہ ہوتا .. وہ جلدی سے اس کے پاس پہنچا تھا اس سے پہلے کے کوئی اور آ جاتا .. ” مجھے بات کرنی ہے تجھ سے ..!!” اس کے سامنے بیٹھتے ہے وہ سیدھا مدعے پر آیا تھا .. دل الگ دھڑک رہا تھا کے کاش وہ کچھ جانتا نہ ہو .. احمد نے موبائل سے توجہ ہٹا کر سوالیہ انداز میں اسے دیکھا .. ” کل ..کل جو تونے کہا تھا کے ..!!” وہ ریاض کی آدھی بات کا مفہوم اچھے سے سمجھ چکا تھا .. ایک محفوظ مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو چھوا تھا .. ” وہ ..میں نے مذاق کیا تھا ..!!” ” مطلب ..؟؟!!” اس کے جواب پر اس نے نہ سمجھی سے پوچھا .. “مطلب یہ کے میں نے مذاق کیا تھا ریاض ..!!” ” لیکن تونے کہا تھا کے تجھے مجھ پر شک ہے ..!!” “میں نے کہا نہ کے صرف مذاق کیا تھا ..لیکن ہاں ..تیرے اس طرح سے پوچھنے پر مجھے واقعی میں اب شک ہونے لگا ہے ..!!” وہ جو تھوڑا ریلکس ہوا تھا پھر سے بے چین ہو اٹھا .. ” احمد ..میرے بھائی یہ صرف تیرا وہم ہے ..ایسا کچھ نہیں ہے ..!!” ” نہیں بیٹا ..اب تو واقعی میں ایسا ویسا کچھ ضرور ہے ..جبھی تو ‘ تو بھاگا بھاگا آیا ہے میرے پاس ..!!” “دیکھ اگر کچھ شئیر کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے ..!!” احمد نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے کہا تھا .. ” کہنا تو مجھے بہت کچھ ہے لیکن ..اس کے بھائی نے میرا حال دل سن لیا تو ان سب کے سامنے میرا گریبان پکڑ لے گا ..!!” ریاض کا اشارہ ہال میں موجود مہمانوں کی طرف تھا .. ” بھائی ؟..!” اس نے نہ سمجھی سے پوچھا .. ” ہاں بھائی ..!!” اس نے پر سوچ انداز میں اس کا اترا ہوا منہ دیکھا تھا .. ” اشعر آفریدی ؟؟…!!” احمد نے صرف نام لینے پر ہی اکتفا کیا تھا .. ” ہاں وہی ..!!” اس نے جوابآ آثبات میں سر ہلایا تھا ..
“یار نوربانو ..اس ایک گلاس دودھ کے تم پندرہ ہزار مانگ رہی ہو اتنے میں تو میں تمہیں دو تین شاپس کھلوا کر دے سکتا ہوں “ناگوری ملک شاپ ” کی ۔۔!!” “دکان نہیں چاہیے .صرف پیسے چاہیے ..نکالو اب ..!!” زرنور نے اسے گھورتے ہوئے کہا تھا .. ” مجھ سے کیوں مانگ رہی ہو ؟ میں تھوڑی ہوں دولہا ..!!” اس نے صاف دامن بچایا .. ” تو پھر خاموش رہو ..اور تم ..دے رہے ہو پیسے ؟..!!” اس کا رخ اب حارث کی جانب مڑ چکا تھا .. ” واللہ ..یہ نیگ مانگ رہی ہے یا بھتہ وصول کر رہی ہے ؟ انداز دیکھو ذرا ..!!” “مجھے دودھ نہیں پینا شکریہ ..!!” حارث نے شائستگی سے معذرت کی تھی .. ” یہ تو رسم ہے .دودھ تو پینا ہی پڑے گا ..!!” “تو پھر دے دو گلاس ..!!” ” پہلے پیسے ..!!” لائبہ نے بھی سختی سے کہا .. ” کہاں سے لاؤں اتنے پیسے ؟؟..پچاس ہزار دے چکا ہوں اب تک تم لوگوں کو ان اسٹوپڈ سی رسموں کے لئے ..!!” حارث کے بھناۓ ہوئے انداز پر دونوں پارٹیوں کا منہ حیرت سے کھلا تھا .. “بڑی جلدی احساس ہو گیا تجھے ..!!” اشعر نے توصیفی انداز میں اس کا کندھا تھپکا تھا .. ” دلہے میاں ..رخصتی نہیں کروانی کیا آپ کو اپنی دلہن کی ؟..!!” زرنور نے آنکھیں پٹپٹا کر پوچھا تھا .. ” یارر ..یہ لوگ ایسے بلیک میلنگ پر اتر آتی ہیں ..!!” حارث نے زچ ہو کر کہا تھا .. پھر لڑکوں کے لاکھ شور مچانے اور منع کرنے کے باوجود بھی ان کی مطلوبہ رقم سے آدھی ان کے حوالے کی تھی .. جنہوں نے اسی پر صبر کرتے ہوئے جلدی سے دودھ کا گلاس اسے تھمادیا تھا جو اس کے پینے سے پہلے ہی حیدر نے جھپٹ لیا تھا یہ کہتے ہوئے کے .. ” تو کیا کرے گا پی کر ؟..ویسے بھی سنا ہے کے دولھے کا آدھا بچا ہوا دودھ جو پیتا ہے اس کی شادی بھی جلد ہی ہو جاتی ہے ..!!” ” ہاں تو بچا ہوا پیتے ہیں نہ ..تیری طرح چھین کر نہیں پیتے ..!!” تیمور نے اس کے جواب میں گھور کر کہا تھا “تم دونوں لڑ لو پہلے …!!” ریاض نے کہتے ہوئے اچانک ہی حیدر کے ہاتھ سے گلاس اچک لیا تھا .. “پیسے میرے لگے ہیں اور مرے تم لوگ جا رہے ہو پینے کے لئے ..!!” حارث نے دانت پیستے ہوئے ان کو کہا تھا .. “جو بھی ہو ..اب یہ دودھ تو ریاض چوہدری ہی پیئیے گا ..!!” وہ مسکرا کر کہتے ہوئے گلاس لبوں سے لگانے ہی لگا تھا کے جبھی پیچھے سے کسی نے اس کے ہاتھ سے لے لیا تھا .. ” اگر یہ پینے سے شادی جلدی ہوجاتی ہے تو ..آئی تھنک مجھے اس کی زیادہ ضرورت ہے ..!!” وہ سب حیرت سے احمد کو دیکھ رہے تھے جو گلاس ہونٹوں سے لگا چکا تھا .. “بہت غلط حرکت ہے یہ ..اس پر میرا اور حیدر کا زیادہ حق تھا ..!!ا” ریاض کے ناراضگی سے کہنے پر اس نے مسکراتے ہوئے گلاس اس کی طرف بڑھا دیا تھا جس سے اس نے صرف دو ہی گھونٹ لئے تھے .. ” اسے کہتے ہیں دوستی …!!” حیدر نے خوشی سے کہا تھا .. ورنہ تو لگا تھا کے پورا گلاس ہی چڑھا جاۓ گا وہ .. اور ان کی بے خبری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لائبہ حارث کے پیر سے وہ سیاہ رنگ کا کھسہ نکال چکی تھی .. جب تک انھیں خبر ہوئی تب تک وہ کھسہ اس کے ہاتھ میں لہرا رہا تھا .. ” ہاں جی تو اب نکالئے ..بیس ہزار روپے کیش ..!!” وہ سب اپنی کارکردگی پر ہنس رہی تھی .. “میری جیبیں چیک کر لو بھلے سے ..ایک روپیہ بھی نہیں بچا ..!!” ” وہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے ..جوتا چھپائی کا نیگ تو دینا ہی پڑے گا ..!!” “میرے پاس اور پیسے نہیں ہیں ..!!” وہ زچ ہو گیا تھا .. ” ٹھیک ہے پھر ..یہ جوتا بھی ہمارے پاس ہی رہے گا ..!!” ” ہاں ہاں ..ٹھیک ہے رکھ لو فقیرنیوں ..!!” “فقیرنیوں کسے کہا ؟..!!” زرنور نے تیوری چڑھا کر پوچھا .. “یار تمہیں نہیں کہا نور بانو …میں تمہیں کہ سکتا ہوں کیا ایسے ؟..!!” تیمور انھیں بحث کرتا چھوڑ کر اسٹیج سے نیچے اتر آیا تھا جہاں سائیڈ پر رکھے صوفوں پر اسے انوشے یشفہ اور فاریہ کے ساتھ بیٹھی نظر آئی تھی.. ان لوگوں کی ان تینوں کے ساتھ ہی اتنی فرینکس نہ تھی جبھی وہ رسموں میں لائبہ اور زرنور جتنے جوش و خروش سے حصہ نہ لے رہی تھیں…
قریباً دو بجے تک رخصتی ہوئی تھی وہ بھی سب بڑوں اور حارث کے بار بار کہنے کے باوجود ورنہ تو ان کی رسمیں ہی ختم نہیں ہو رہی تھی .. گھر پہنچ کر بھی حارث نے صاف صاف منع کر دیا تھا کوئی بھی رسم کرنے سے .. کچھ موقعوں کے علاوہ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا جو وہ رات اتنی دیر تک جاگا ہو .. نیند سے آنکھوں میں پڑتے گلابی ڈورے صاف نظر آ رہے تھے .. اس کے بار بار واویلا کرنے کے بعد بھی وہ لوگ اسے چھوڑنے پر آمادہ نہ تھے .. لیکن ایک تو رات بہت ہو گئی تھی دوسرا پھر کل ولیمے کے بھی انتظامات دیکھنے تھے عمیر نے ہی اس کی جان چھڑوا کر اسے کمرے میں بھیجا تھا .. ” یہ کیا عمیر بھائی ..آپ نے ایسے ہی جانے دیا اسے ..ہم نے نیگ تو لیا ہی نہیں ..!!” وہ دونوں شکایاتی انداز میں اسے کہ رہی تھی .. ” اب کون سا نیگ رہ گیا ؟..!!” اس نے حیرت سے کہا .. ” کمرے میں جانے کا بھی نیگ ہوتا ہے ..!!” ” وہ تو دولهے کی بہنیں کرتی ہیں ..اور تم لوگ تو لڑکی والوں کی طرف سے ہو نہ ..؟!!”عمیر نے زرنور اور لائبہ کو مشکوک انداز میں دیکھتے ہوئے پوچھا تھا .. ” ہاں تو جیسے مناہل ہماری بہنوں کی طرح ہے ایسے ہی حارث بھی تو بھائیوں جیسا ہے ..!!” کوئی اس وقت ان کی معصومیت چیک کرتا .. ” استغفر الله …الگ سے حساب ہوگا اس کا ..!!” صوفے پر پھیل کر بیٹھے حیدر نے تیز نظروں سے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا تھا .. “تم سے کون بات کر رہا ہے ؟..!!” لائبہ نے اپنی چادر گول مول کر اسے کھینچ ماری تھی .. ” ایک تو رسمیں بھی نہیں کرنے دی اوپر سے نیگ بھی نہیں لینے دیا ہمیں ..!!” وہ منہ پھلاکر نیچے کارپیٹ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی تھی .. “نور بانو ..آئس کریم کھاؤ گی ؟..!” حیدر اسے چھیڑنے کو بولا تھا .. اور مایوں والی رات یاد کر کے اسے بھی تپ چڑھی تھی جب ان دونوں نے اسے کیسے بےوقوف بنایا تھا .. “خود کھالو ..!!”. وہ جل کر بولی .. ” قسم سے یار سیریس پوچھ رہا ہوں ..کھاؤ گی تو بتاؤ ..!!” وہ نچلا لب دانتوں تلے دبا کر بولا .. ” معاف کرو بھئی ..!!” دونوں ہاتھوں میں لہنگا سنبھالتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی .. ” ارے تم مذاق سمجھ رہی ہو ..اچھا ایسا کرتیں ہم دونوں چلتے ہیں کھانے اتنی بھی رات نہیں ہوئی ایک آدھ پارلر تو کھلا ہوا ہی ہوگا ..!!” ” میں اور تم اکیلے جائیں گے ؟..!!” اس نے مشکوک انداز میں پوچھا .. ” تم کہو تو پوری برات کو ساتھ لے چلتے ہیں ..!!” وہ دلنشیں انداز میں گویا ہوا.. ” اس سے پہلے کے وہ کچھ سخت کہتی احمد بول اٹھا .. ” مجھے لے چل ..!!” اس نے فورآ سے ہاتھ جوڑے تھے .. ” اوۓ چاۓ نہیں بنی ابھی تک ؟؟؟…!!” تیمور نے کچن کی طرف منہ کر کے زور سے آواز لگا کر کہا تھا .. جہاں ریاض اور اشعر چاۓ بنارہے تھے .. لڑکیوں نے اس دفعہ صاف منع کر دیا تھا بنانے سے ماہین سمیت .. ہر فنکشن میں وہ ہی لوگ بنا رہی تھیں حلانکے خود نہیں پیتی تھی کیوں کے پھر نیند نہیں آتی تھی لیکن سلام تھا ان لوگوں کو .. جو دو تین کپ چڑھانے کے بعد بھی آرام سے سو جاتے تھے ..
پورا کمرہ بہت خوبصورتی سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا دروازے سے لے کر بیڈ تک پھولوں کی پتیاں بچھی ہوئی تھی حارث نے نئے سرے سے اپنے روم کی سیٹنگ چینج کروائی تھی .. جو نئے لک کے ساتھ اب زیادہ اچھا اور کھلا کھلا لگ رہا تھا .. “خوش ہو نا تم مناہل ؟..!!” حارث نے اس کا ہاتھ اپنے مظبوط ہاتھ کی گرفت میں لے کر پوچھا تھا .لو دیتی نرم گرم جذبات سے بھرپور نظریں بھی اس کے حسین چہرے پر جما رکھی تھی .. جو آج نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی .. ” ..بہت خوش ہوں ..!!” اس نے بھی شرمگیں مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا تھا .. ” ہونا بھی چاہیے آخر کو حارث ملک کی بیوی جو بن گئی ہو ..!!” اس نے شرارت سے اس کی جانب جھک کر کہا تھا .. ” ہاں وہی حارث ملک نہ جو میرے آگے پیچھے گھومتا تھا ..!!” آنچل کو پیچھے کرتے اس نے ادا سے کہا تھا .. ” خیر آگے پیچھے تو میں کبھی نہیں گھوما ..ہاں یہ کہ سکتے ہیں کے میں نے ناز نخرے بہت اٹھاۓ ہیں تمہارے ..!!” حارث نے اس کے رخسار پر جھولتی آوارہ لٹھ کو اپنے ہاتھ سے سنوارتے ہوئے محبّت سے کہا تھا .. ” ایک ہی بات ہے مسٹر ..!!” اس نے جلدی سے اپنی مہندی سے سجی ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائی تھی .. جسے حارث نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا .. ” میرا گفٹ ..!!” مناہل نے مسکرا کر کہا تھا .. “ایک منٹ ..!!” اس نے کہتے ہوئے سائیڈ ٹیبل کی ڈرا سے ایک مخملی کیس نکالا تھا جسے کھول کر جگمگ کرتا ڈائمنڈ کا نازک سا بریسلیٹ نکال کر اس کے ہاتھ میں پہنادیا تھا .. مناہل کے ہاتھ میں سج کر اس کی قدرو قیمت کئی گناہ بڑھ گئی تھی .. ” تمہیں پتا تھا کے مجھے بریسلیٹ بہت پسند ہیں جبھی یہ لیا تم نے میرے لئے ہے نہ ؟…!!” جگر جگر کرتے بریسلیٹ پر نگاہیں جماۓ وہ مسکراتے ہوئے پوچھ رہی تھی .. ” اس لئے نہیں کے تمہیں پسند ہیں ..بلکے میں نے اس لئے لیا کے یہ مجھے “تمہارے ” لئے پسند آیا ..!!” اس کے سکون سے کہنے پر مناہل نے نہ سمجھی سے اسے دیکھا تھا .. ” مطلب ؟؟..!!” ” مطلب کو کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھو یار ..!!” گھمبیر لہجے میں کہتے ہوئے حارث نے پیار سے اس کی پیشانی چومی تھی .. اس نے گھبرا کر پلکیں جھکا لی تھیں ..
“کس قدر مزے کی چاۓ بنائی ہے میں نے ..واہ واہ !!” اشعر نے چاۓ کی چسکیاں لیتے ہوئے ساتھ ہی خود کا کندھا تھپکتے ہوئے شاباش بھی دی تھی .. ” ساری محنت تو میں نے کی تھی ..تونے کیا کیا تھا سواۓ کپوں میں ڈالنے کے ؟..!!” ریاض نے اسے گھورتےہوئے پوچھا .. ” میں نے پتی ڈالی تھی ..!!” اس نے فورآ سے دانت نکوس کر کہا .. ” صرف پتی ڈالنے سے ذائقہ نہیں آتا ..!!” اس نے سر جھٹک کر کہتے ہوۓ کپ لبوں سے لگایا تھا … ” ویسے اگر سچ کہوں تو واقعی میں ذائقہ ہے تیرے ہاتھ میں ..تجھے تو کوئی بھی اپنی لڑکی دے دیگا ..آخر کو اتنا سگھڑ داماد قسمت والوں کو ہی ملتا ہے ..!!” توصیفی انداز میں کہتے ہوئے اس کا لہجا آخر میں شرارتی ہو گیا تھا .. ” سچ بتا ..کوئی بھی دے دیگا مجھے اپنی لڑکی ؟..!!” ریاض نے اس کی جانب رخ کر کے مسکراہٹ دباتے ہوئے پوچھا تھا .. ” نہ دے تو بولنا ..!!” اشعر کے چیلنجنگ انداز پر اسے ہنسی آئی تھی .. جانتا تھا وقت پڑنے پر بدل جاۓ گا وہ ..
نوخیز سی صبح ملک ہاؤس پر اتری تھی .. اسکی آنکھ کھلی تو اپنے ساتھ حارث کو سوتا دیکھ ایک دلفریب مسکراہٹ نے اس کے لبوں کا احاطہ کیا تھا .. آج اسے اٹھانے کا موڈ نہیں تھا اس کا .. وہ سوتے ہوئے لگ ہی اتنا معصوم رہا تھا مناہل نے اس کے پیشانی پر بکھرے بالوں کو اپنی انگلیوں سے سنوارا تھا ..اگر وہ جاگ رہا ہوا تو وہ کبھی یہ حرکت نہ کرتی لیکن جانتی تھی کے وہ نیند میں مدہوش ہوگا جبھی مطمئن تھی .. وارڈروب میں سے ہینگ کی ہوئی اسٹائلش سی گہرے سبز رنگ کی انگرکھا فراک نکال کر واشروم میں چلی گئی تھی جب تک فریش ہو کر واپس آئی زرنور اور انو شے کے ساتھ فاریہ اور یشفہ بھی تھیں .. البتہ حارث وہاں موجود نہ تھا .. ان کی معنی خیز سی مسکراہٹ پر وہ جھینپ گئی تھی .. ” نئی زندگی کی پہلی صبح بہت مبارک ہو ..اللہ تمہارے لئے ہر دن ایسا ہی بناۓ ..!! زرنور نے اسے گلے ملتے ہوئے محبّت سے کہا تھا .. ” بہت شکریہ زر ..اور یقیناً وہ دن دور نہیں جب میں بھی تمہاری جگہ کھڑی ہو کر ایسے ہی کہ رہی ہوں گی ..!!” مناہل کا اشارہ اس کی شادی کی طرف تھا جسے سمجھتے ہوۓ وہ کھلکھلائی تھی .. “انشاء اللہ ..!!” ” ان باتوں کو چھوڑیں ..پہلے بتائیے کیا گفٹ ملا ؟..!!” یشفہ اور فاریہ نے بے صبری سے پوچھا تھا .. مناہل نے کچھ کہنے کے بجاۓ مسکراتے ہوئے اپنی کلائی سامنے کردی تھی جس میں چمکتا وہ بریسلیٹ اپنی الگ ہی چھب دکھا رہا تھا .. ” بہت خوبصورت ہے ..!!” انہوں نے بے ساختہ تعریف کی تھی .. ” حارث تو یہاں سو رہا تھا نہ ابھی ..کہاں گیا پھر ؟..!!” اتنی دیر سے جو وہ پوچھنا چاہ رہی تھی بلآخر ہمّت کر ہی لی تھی .. لیکن ان کی معنی خیز اور شرارتی نگاہوں سے دیکھنے پر شرما گئی تھی .. ” اس کی نیند پوری نہیں ہوئی تھی اس لئے دوبارہ سو گیا !!” ” لیکن کہاں سو گیا ؟..!!” اس نے حیرت سے پوچھا .. اور پوچھنا بنتا بھی تھا .. کیوں کے اتنے دنوں سے ان سب کا ڈیرہ حارث کے کمرے میں ہی تھا لیکن کل رات انھیں مناہل کی وجہ سے وہاں سے بے دخل ہونا پڑا .. اب جاتے بھی جاتے کہاں ؟ کیوں کے اس پورشن میں صرف چار ہی کمرے تھے ایک اظہر صاحب اور ان کی بیگم کے استعمال میں تھا ایک میں عمیر اور ماہین تھے تیسرا حارث کا خود کا تھا اور چوتھا ڈرائنگ روم کے طور پر استعمال ہوتا تھا گیسٹ روم میں مہمان رہ رہے تھے اس کے علاوہ لے دے کے ایک لاؤنج ہی بچتا تھا سو اسی پر صبر شکر کرتے ہوئے سٹور روم سے بستر لا کر فرنیچر کو تھوڑا آگے پیچھے کر کے جگہ بنا کر وہیں دراز ہو گئے دن بھر کے تھکے ہہوئے تھے لیٹتے ہی نیند کی وادیوں میں اتر گئے ..اور ایسے اترے کے صبح کے دس بج گئے لیکن وہ لوگ وہیں گھومتے رہے .جنہوں نے اظہر اور محمود صاحب کی ڈانٹ سننے کے بعد ہی اٹھنا تھا .. تکیہ بگل میں دباۓ مندی مندی آنکھوں کو با مشکل کھولتے ہوئے جب وہ کمرے سے باہر آیا تو ریلوے سٹیشن کا منظر پیش کرتے اس لاؤنج کو دیکھ کر خوشگواری سی محسوس ہوئی تھی .. بے شک نیندوں میں تھا لیکن یہ ٹینشن بھی تھی کے سوؤں گا کہاں ؟ وہ لوگ تو جانے کدھر مرے پڑے ہوئے ہوں گے ..!!” لیکن جب ان ایک لائن میں سوتے دیکھا تو جھپاک سے ریاض اور اشعر کے بیچ جگہ بنا کر ریاض کی بلینکٹ میں گھس گیا .. ” اب تو تمہیں ایک نہیں پورے چھ جگوں کی ضرورت ہے ..حارث کے ساتھ ساتھ ان سب کو اٹھانے کے لئے ..!!” زرنور نے اس کے سونے کا بتانے کے بعد کہا تھا ..
” عمیر بھائی ..اٹھائیے نہ انہیں ..ہم نے رسمیں بھی کرنی ہے ..!!” زرنور نے عمیر سے کہا تھا جو سنگل صوفے پر بیٹھا اخبار پڑھنے کے ساتھ ساتھ چاۓ بھی پی رہا تھا .. “اور ان رسموں پر تمہیں پھر نیگ بھی چاہیے ہوگا ہے نہ ؟..!!” اس نے شرارت سے پوچھا تھا .. ” جی نہیں ..یہ وہ والی رسمیں نہیں ہیں ..ہم نے صرف کنگنا کھلائی کرنی ہے اور دودھ اور انگوٹھی والی رسم بس ..!!” “بس ؟؟..چلو وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ لوگ مجھ سے اٹھے گیں نہیں ..!!” ” ان کو دفع کریں آپ بس حارث کو اٹھا دیں ..!!” ” ان بے چاروں کا کیا قصور ہے ؟ انہیں بھی بلا لو رسم میں ..!!” ” یہ نیند سے جاگے گیں تو بلائیں گے نہ ؟..دیکھیں ذرا لاونج میں ایسے مردوں کی طرح پڑے ہوئے ہیں سب آتے جاتے مہمان دیکھ رہے ہیں کتنا برا لگ رہا ہے ..!!” وہ ناگواری سے انھیں دیکھتے ہوئے عمیر کو کہ رہی تھی .. ” تمہارے ابّا نے کیا فائیو سٹار ہوٹل کھول کر میرے نام کیا ہوا ہے جو وہاں جا کر سو جائیں ..ہیں ؟؟.. جبھی حیدر نے بلینکٹ سے منہ نکالتے ہوئے گھور کر کہا .. ” اپنی پوری زندگی میں’میں فرش پر نہیں سویا کبھی ..لیکن ایک تو میں سو رہا ہوں ..اوپر سے مجھے ہی باتیں سنائی جا رہی ہیں ..نہیں برداشت کروں گا میں بلکل بھی نہیں کروں گا ..!!” ” ہاں تو کس نے کہا ہے برداشت کرنے کو ؟؟..مر جاؤ نہ ..!!” زرنور نے بھی چمک کر کہا تھا .. ” کیسے مر جاؤں ؟ صبح صبح میرے سر پر کھڑی ہو کر پٹر پٹر کرنا شروع کر دیا نیند آۓ گی مجھے ؟..!!” اسے بھی نیند میں خلل پڑنے پر غصہ چڑھا تھا .. ” یہ لوگ انسان نہیں ہے ؟ دیکھو کتنے آرام سے سو رہے ہیں ..بس ایک تمہارے ہی نخرے ختم نہیں ہوتے …!!” حیدر اس کے ناک چڑھا کر کہنے پر کچھ سخت بولنے ہی لگا تھا ک جبھی تیمور کی جانب سے ایک فلائنگ کشن اڑتے ہوئے آکر اس کے منہ پر لگا تھا جو اس کی طرف سے وارننگ تھی کے اپنا منہ بند کر لے ورنہ اگلی دفعہ کشن کے بجاۓ ہاتھ سے کام لیا جاۓ گا .. اس شور شرابے سے اس کی نیند ٹوٹی تھی ہلکی سی آنکھیں کھول کر اس نے اطراف کا جائزہ لینا چاہا تھا لیکن اپنے بازو پر سر رکھے مزے سے سوتے حارث کو دیکھ کر اس کی پوری آنکھیں کھلی تھیں .. “میرے ساتھ تو اشعر سو رہا تھا یہ کہاں سے آ گیا بیچ میں ؟؟..!!” “حارث ..او حارث …ابے کمینے کیا کر رہا ہے تو یہاں ؟ سویا کہاں تھا نکلا کہاں سے ہے ؟؟..!!” اپنی سوچ کا جواب اس سے لینے کے لئے ریاض نے پے در پے تھپڑ اس کے گال پر رسید کیے تھے جو نیند خراب ہونے پر بد مزہ ہوتے ہوئے اس کی بلنکٹ سے نکل کر اشعر کے ساتھ گھس گیا .. “بے غیرت ..!!” اسے گھورتے ہوئے وہ اٹھ ہی گیا تھا لیکن بلینکٹ کو دوپٹے کی طرح سر پر اوڑھے اور تکیہ ہاتھوں میں دباۓ بیٹھے حیدر کو زرنور سےلڑتے دیکھ بچی کچھی نیند بھی اڑ گئی تھی ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھیں ان کی آوازیں سر میں … تم دونوں کسی ٹاک شاک میں کیوں نہیں چلے جاتے ؟..!!” ریاض نے ناگواری سے انھیں کہا تھا .. نیند ہی خراب کے کے رکھ دی تھی .. “ہم تو چلیں جائیں گے لیکن وعدہ کرو میزبانی تم ہی کرو گے ..!!” ان دونوں نے ہی غصّے سے کہا تھا .. “کیا ہو گیا ہے بچوں ؟؟..!!” سحرش بیگم جو کچن میں کام کر رہیں تھیں ان کی تیز آوازیں سن کر جلدی سے وہاں آئیں تھیں .. ” آئیے آنٹی ..آپ کہ رہیں تھیں نہ کے آپ کے بچوں نے رونق لگا دی گھر میں ..اب انہیں نحوست پھیلاتے ہوئے بھی دیکھئے …!!ا” زرنور نے کھا جانے والے انداز میں حیدر کو دیکھتے ہوئے کہا تھا .. “کوئی صدقہ دے دو میرا ..صبح ہی صبح کالی بلی پیچھے پڑ گئی میرے پنجے جھاڑ کر ..!!” حیدر نے بگڑے تیور کے ساتھ بلند آواز سے سے کہا تھا … “فکر مت کرو ..اتنی آسانی سے نہیں مرو گے ..!!” چڑ کر کہتے ہوۓ اس نے وہاں سے ہٹ جانا ہی مناسب سمجھا تھا .. ورنہ تو وہ ایسے ہی لڑتا رہتا اس سے .. ایک نیند اور ایک چاۓ .. ان دونوں چیزوں میں سے کسی پر کمپرومائیز نہیں کرتے تھے وہ لوگ ..
صرف ایک احمد تھا جو ان سب سے پہلے اٹھ کر فریش ہونے کے بعد ناشتے سے بھی فارغ ہو چکا تھا .. اور ابھی لان کی سیڑھیوں پر بیٹھے موبائل پر واٹس ایپ کھولے اپنی سیکریٹری کو ہدایتیں دے رہا تھا .. آفس جانے کا ٹائم ہی نہیں مل رہا تھا اتنے دنوں میں صرف دو تین دفعہ ہی جا پایا تھا وہ بھی صرف کچھ گھنٹوں کے لئے ..حیدر اور ریاض ویسے نہیں جا رہے تھے ایسے میں سب عدیل خانزادہ کو ہی دیکھنا پڑ رہا تھا .. فیروزی رنگ کے لان کے سوٹ میں ہم رنگ دوپٹہ سلیقے سے شانو پر پھیلاۓ وہ آہستہ سے اس کے پہلو میں بیٹھی تھی .. جسے دیکھ کر احمد کو خوشگوار سی حیرت ہوئی تھی کتنے ہی دن ہو گئے تھے تنہائی کے کچھ لمحے میسر آۓ ہوئے .. “ناشتہ کیا ؟..!!” احمد نے اپنا موبائل سوئچ آف کرتے ہوئے نرمی سے پوچھا تھا .. اس کی موجودگی میں موبائل بند کر دینا جیسے اس پر فرض ہو گیا تھا .. زرنور کو اس کے فون سے چڑ تھی تو اس نے اس کے سامنے یوز کرنا ہی ترک کر دیا تھا .. ” ہاں کر لیا ..!!” اس نے بے دلی سے کہتے ہوئے احمد کے کندھے پر سر ٹکایا تھا .. ” کیا ہوا خیریت ؟؟..!!” اس نے چونکتے ہوئے زرنور سے پوچھا تھا .. پھر اس کے گرد بازو پھیلا کر اپنے حصار میں لیا تھا .. آج خلاف مامول وہ چہک نہیں رہی تھی .. ” ہاں خیریت ہے ..!!” اس دفعہ بھی بے دلی سے جواب دیا تھا .. ” پھر موڈ کیوں آف ہے ؟..!!” ” پتا نہیں ..!!” “باہر چلیں کہیں ؟..!!” ” گھر پر کیا کہیں گے ؟..!!” “بہانہ بنا دینا کوئی بھی ..!!” ” جھوٹ بولیں گے ؟..!!” ” تو پھر سچ بتا دینا ..!!” “مجھے نہیں جانا کہیں ..!!” “مجھے پتا ہے کیسے ٹھیک ہوگا تمہارا موڈ ..!!” “کیسے ؟..!!” اس نے سوالیہ انداز میں احمد کو دیکھا تھا جس نے اچانک ہی اپنے لب اس کے بالوں پر رکھے تھے .. ” کوئی بھی بات ہو مجھے کہ دیا کرو یار تم خوش رہا کرو بس ..پریشان ہونے کے لیے میں بہت ہوں ..!!” اپنے سینے پر دھرے اس کے مومی ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے نرمی سے کہا تھا .. وہ تو اندر تک پر سکون ہو گئی تھی .. ” سچ میں احمد ..ایسی کوئی بات نہیں میں بس ..تمہارے ساتھ بیٹھنا چاہ رہی تھی کچھ دیر ..!!” زرنور نے کھنکھتے لہجے میں کہتے ہوئے اس کی تسلی کروانا چاہی تھی .. ” سچ بتاؤ ..!!” “پکّا سچ ..یہی بات ہے ..!!” “پھر ٹھیک ہے ..!!” اس نے مسکراتے ہوئے زرنور کو اپنے قریب کیاتھا
حسب مامول اظہر صاحب کی ڈانٹ سن کر ہی اٹھے تھے وہ لوگ اور اب ناشتہ کرنے اور فریش ہونے کے بعد حارث کے کمرے میں ہی جمع تھے جہاں مختلف رسمیں کی جا رہی تھیں .. جس میں وہی شور شرابہ مچا ہوا تھا .. حارث اور مناہل ایک دوسرے کو پا کر کتنے خوش تھے یہ ان دونوں کے چہروں سے با خوبی ظاہر ہو رہا تھا .. ریاض کو رشک سا آیا تھا ان پر .. اس کے سیل پر اس کی ماں رباب ہاشم کی کال آنے لگی تو وہ وہاں سے اٹھ کر کچن میں چلا آیا پیاس لگی تھی اس لئے وہیں آ گیا .. لیکن فاریہ کو پہلے سے وہاں کھڑے چاۓ بناتے دیکھ چونکا تھا .. اب یہ تو وہ جانتا تھا کے جہاں وہ ہوتا تھا وہاں وہ نظر ہی نہیں آتی تھی .. ابھی بھی وہ روم میں نہیں تھی نہ ہی رسمیں انجوۓ کر رہی تھی صرف اس وجہ سے کے ریاض وہاں موجود تھا .. اب اتنا بھی کیا دامن بچانا ..؟ وہ تلخی سے سوچ کر رہ گیا .. ” سنو ..میرے لئے بھی ایک کپ بنا دینا ..!!” فون پر بات کرتے ہوئے اس نے اچانک ہی کہا تھا .. اس کا کوئی موڈ نہیں تھا چاۓ پینے کا لیکن اسے مخاطب کرنے کا کوئی بہانہ بھی تو چاہیے تھا نہ ..؟؟ وہ جو پہلے ہی اس کی آمد پر پیچ و تاب کھا رہی تھی آرڈر دینے پر مزید کھول گئی … حلانکے ریاض نے خاصی نرمی سے کہا تھا .. لیکن اسے تو حکم ہی لگا تھا .. دل تو کیا کے کہ دے .. “اپنے ملازم سے بنوا لو ..!!” لیکن پھر وہ اس سے مخاطب ہو کر کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی تھی اسے .. سو چپ چاپ مزید دودھ کا اضافہ کرکے چاۓ بنا کر اس کا کپ کاؤنٹر پر رکھا اور اپنا اٹھا کر جانے ہی لگی تھی کے اس نے سرعت سے فاریہ کی مرمری کلائی اپنے قبضے میں لے لی تھی .. زیادہ فاصلہ تو نہیں تھا دونوں کے درمیان جھٹکا سا لگنے پر وہ اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی .. حیرت کا جھٹکا ہی تو لگا تھا .. فاریہ کو قطی امید نہ تھی کے وہ سب لوگوں کی گھر میں موجودگی کے باوجود ایسے دیدہ دلیری سے اس کا راستہ روکے گا .. عقل نام کی تو کوئی شے موجود ہی نہ تھی اس کے دماغ میں .. ” کیا بدتمیزی ہے یہ ؟..!!” وہ دبے لہجے میں غرائی تھی .. “گہری جھیل سی آنکھوں میں انگارے سے جل اٹھے تھے .. آج اس نے دوسری دفعہ اس کا ہاتھ پکڑنے کی جسارت کی تھی .. فاریہ اپنے آپ کو کوس رہی تھی کے پہلی ہی دفعہ میں اسے ایک تھپڑ لگا دیا ہوتا تو آج یہ نوبت دوبارہ نہ آتی .. گھر میں اتنے لوگ موجود تھے اس کے بھائی بھابھی سمیت اگر کسی نے بھی انھیں ایسے دیکھ لیا تو کیا وہ نظریں اٹھانے کے قابل رہ پاۓ گی ؟.. الودعائی کلمات کہتے ہوئے وہ فون بند کر کے اس کی جانب متوجہ ہوا تھا .. ” بد تمیزی ابھی کی ہی کہاں ہے میں نے ؟..جب کروں گا تو اچھے سے اس کے معنی پتا چل جائیں گے ..!!” اس کی ہاتھ کی نرماہٹ ایک سرور سا اس پر طاری کر رہی تھی .. “ہاتھ چھوڑیں میرا ورنہ اچھا نہیں ہوگا ..!!” فاریہ کا بس نہیں چل رہا تھا کے اسے گولیوں سے بھون ڈالے .. ” پہلے کون سا اچھا کر رہی ہو تم میرے ساتھ جو اب برا کرو گی ..!!” اس نے گھمبیر لہجے میں کہتے ہوئے جھٹکے سے اسے اپنی جانب کھنچا تھا .. جو توازن برقرار نہ رکھ پائی تھی سر بری طرح سے اس کے چوڑے شانے سے ٹکرایا تھا .. ” جانتی ہو ..جب جب تم ایسے غصہ دکھاتی ہو نہ یقین مانو تمہیں حاصل کرنے کی تڑپ اتنی ہی شدّت سے جاگتی ہے میرے اندر ..!!” فاریہ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کے اسے ہو کیا گیا ہے آج وہ پاگل تو نہیں ہو گیا تھا ؟.. نہ خود کا خیال تھا اس کی عزت کا .. اگر تو سچ میں کوئی دیکھ لے تو کیا عزت رہ جاۓ گی دونوں کی ؟..!!” ” میرا ہاتھ چھوڑیں ..!!” وہ اس کے سامنے ہر گز رونا نہیں چاہتی تھی لیکن بے بسی کے مارے آنکھوں میں آنسوآگئے تھے .. اور سمجھ تو ریاض کو بھی نہیں آ رہا تھا کے وہ کیوں اتنا بے خود ہوا جا رہا تھا ..؟ آج پہلی دفعہ اس نے ایسے بات کی تھی .. آج سے پہلے کبھی اپنی فیلنگز کے بارے میں اس سے کچھ کہا ہی کہاں تھا .. وہ گہری نظروں سے اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو اپنے دل میں اتار رہا تھا .. آج پہلی دفعہ وہ اس کے اتنے قریب تھی .. اس نے خود کو نیلے رنگ کی بڑی سی بلوچی کڑھائی والی چادر میں چھپایا ہوا تھا لیکن بالوں کی آوارہ لٹھیں اس کے گال پر جھول رہی تھی جنہیں بے ساختہ ہی ریاض نے اپنے ہاتھ سے سنوارا تھا .. اپنے رخسار پر اس کی انگلیوں کا لمس محسوس کر کے وہ گھبرا ہی تو گئی تھی .. چہرہ الگ دہکنے لگا تھا .. ” ہاتھ چھوڑیں میرا ..!!” وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سسک اٹھی تھی .. ریاض نے مزید اسے تنگ کرنا مناسب نہ سمجھا اور آہستہ سے اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے اس کا ہاتھ چھوڑد دیا تھا .. ” آئم سوری فاریہ ..لیکن مجھ سے بھاگنے کی کوشش نہ کرو ..تم جتنا مجھ سے پیچھے چھڑاؤگی میں اتنا ہی تمہاری راہ میں آؤں گا …!!” ” میری بلا سے تو جہنم میں جائیں آپ …!!” ہاتھ کی پشت سے آنکھیں رگڑتے ہوئے وہ نفرت سے پھنکاری تھی .. زندگی عذاب کر کے رکھ دی تھی .. “میں اشعر بھائی سے کہ دوں گی آئندہ میرے ساتھ کچھ کرنے کی کوشش کی تو ..!!” انگلی اٹھاۓ وہ وارننگ دینے والے انداز میں کہ رہی تھی .. ریاض چوہدری کے لئے وہ اپنے دل میں صرف ایک ہی جذبہ محسوس کرتی تھی اور وہ تھا .. نفرت ..شدید نفرت ..!!” ” اس کے لبوں کو ہلکی سی مسکراہٹ نے چھوا تھا .. “اچھا تو اپنے بھائی کا ڈراوا دے رہی ہو مجھے ؟.!!” اسی کی بنائی چاۓ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے وہ سکوں سے کہ رہا تھا .. ” اگر آپ کی بہن کے ساتھ کوئی ایسے کرتا تو پوچھتی میں ..!!” نفرت سے اسے دیکھ کر کہتے ہوئے وہ وہاں رکی نہیں تھی ریاض گہری لیکن پر سوچ نظروں سے اسے جاتے دیکھ رہا تھا پھر کچھ سوچتے ہوئے دوبارہ سے کوئی نمبر ڈائل کرنے لگا تھا…