“ہئے ایک منٹ ..!!” وہ جلدی میں تیزی سے سیڑھیاں اتر رہی تھی جب اوپر آتے حیدر نے دونوں ہاتھ پھیلا کر اس کا راستہ روکا تھا .. وہ رک گئی تھی لیکن کچھ کہا نہیں بس ابرو اٹھا کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی .. ” ابھی تک جواب نہیں دیا تم نے میری آفر کا …!! اس نے ریلینگ سے ہلکا سا ٹیک لگاتے ہوئے نظروں میں اس کا حسین مکھڑا بھرتے ہوئے پوچھا تھا .. ” کون سی آفر ؟..!!” اس نے نہ سمجھی سے پوچھا .. ” اوہ اچھا ..وہ کافی والی ..!!” یاد آنے پر جیسے اس نے آثبات میں سر ہلایا تھا .. ” اچھا تو سنو جواب ..!!” وہ دو سٹئیرس نیچے اتری تھی . حیدر اور اس کے درمیان صرف ایک سیڑھی کا فاصلہ ہی رہ گیا تھا .. ” میں انکار کرتی ہوں ..!!” حیدر کو جیسے اس سے اسی بات کی توقع تھی .. وہ سر جھٹک کر ہنسا تھا .. پھر ہلکا سا ان کی جانب جھکا .. ” میں پھر سے پوچھ رہا ہوں تم سے .. کافی پینے چلو گی میرے ساتھ ؟؟..!!” “نہیں ..!!” حیدر کے کندھے پر اپنا نازک سا بریسلیٹ اور انگوٹھیوں سا سجا ہاتھ رکھ کر اس کو پیچھے دھکیلتے ہوئے اس نے ایک ادا سے کہا تھا .. ” تیسری دفعہ پوچھ رہا ہوں چلو گی کافی پینے ؟..!!” حیدر نے اس کا ہاتھ ہی پکڑ لیا تھا .. یشفہ نے اپنا ہاتھ نہیں چھڑوایا تھا بس ہلکا سا مسکرائی تھی .. ” ہزار دفعہ پوچھو گے تب بھی یہی کہوں گی ..!!” “لیکن تمہیں مسئلہ کیا ہے میرے ساتھ کافی پینے میں ..؟؟!!” حیدر کو اس کا انکار برا نہیں لگا تھا لیکن بار بار اس سے پوچھنا جانے کیوں بہت اچھا لگ رہا تھا .. ” حیدر ..مجھے مسئلہ تمہارے ساتھ کافی پینے پر نہیں ہے ..!!” “توپھر ؟..!!” وہ نہ سمجھی سے اسے دیکھنے لگا .. جس کے تراشیدہ لبوں کو ایک انوکھی سی مسکراہٹ نے چھوا تھا “مجھے مسئلہ تم سے نہیں ..تمہاری آفر کردہ کافی سے ہے .. اگر سیدھی طرح کہوں تو میں کافی پینا چھوڑ چکی ہوں .. اور اب جب میں کافی پیتی ہی نہیں تو کیسے چلوں تمہارے ساتھ ؟..!!” اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر سینے پر بازو لپیٹے اس نے جس معصومیت اور نازو ادا سے کہا تھا حیدر تو فدا ہی ہو گیا تھا .. ایک سیڑھی اوپر آتے ہوئے اس نے درمیان کا فاصلہ ختم کر دیا تھا .. یشفہ سٹپٹا کر پیچھے ہٹنے لگی تھی لیکن حیدر نے اسے بازو سے پکڑ اپنی طرف کھنچا تھا .. ” پہلے بتا دیتیں میں چاۓ بسکٹ کے لئے پوچھ لیتا ..!!” یشفہ کو ہنسی آ گئی تھی .. لیکن تیکھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوۓ ناک چڑھائی تھی .. ” ڈیٹ پر لے جا کر کون چاۓ بسکٹ کھلاتا ہے ؟؟..!!” اس نے خفگی سے پوچھا .. “چلو میں کیک رسک کھلا دوں گا ..!!” حیدر نے شرارت سے اس کے سندر مکھڑے کو تکتے ہوئے کہا تھا .. ” تم جیسے کنجوس سے مجھے یہی امید رکھنی چاہیے تھی..لیکن مجھے لگا تھا کے شاید اب تم ..خیر جانے دو ..!!” وہ سائیڈ سے ہو کر جانے لگی تھی لیکن تبھی وہ سرعت سے اس کی راہ میں حائل ہوا تھا .. ” کہو تو نمکو بھی کھلا سکتا ہوں ..!!” یشفہ نے منہ پر ہاتھ رکھے بے ساختہ امڈ آنے والی ہنسی کو روکا تھا .. ” مجھے کچھ نہیں کھانا حیدر .. نہ بسکٹ نہ کیک رسک نہ نمکو ..!!” دونوں ہاتھ جوڑ کر اس کے سامنے کئے وہ کھلکھلاۓ جا رہی تھی .. حیدر پر تو اس کی کھنکتی ہنسی کا نشہ سا ہی چڑھتا جا رہا تھا .. کیسا سحر سا کیا تھا اس لڑکی نے کے اب وہ کسی اور کو دیکھنے کے قابل ہی نہ رہا تھا .. جب پہلی دفعہ اس سے ملا تھا کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کے کسی دن ایسے اس کے سامنے چاروں شانے چت ہو جاۓ گا .. ایسے اس کے قدموں میں اپنا دل ہار بیٹھے گا .. محبّت بھی تو وحی کی طرح دل پر نازل ہوتی ہے اور دو دلوں کو ایسے جوڑتی ہے کے کوئی چاہ کر بھی خود کو محبّت کے سے اس دھاگے سے چھڑوا نہیں پاتا .. زرنور اور انو شے کے لئے وہ منظر حیرت زدہ کر دینے والا تھا .. حیدر اور یشفہ اتنے قریب کھڑے ایسے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے ہیں ..؟؟ کیا یہ نظر کا دھوکا ہے..؟؟ یا ان دونوں کے دماغ پر اثر ہو گیا ..؟؟ یشفہ کی غیر ارادہ سی نظر نیچے کھڑی ان دونوں پر پڑی تو فورآ ہی مسکراہٹ سمٹی .. بوکھلا کر ریلینگ پر رکھا حیدر کا ہاتھ ہٹا کر وہ جلدی جلدی نیچے اترنے لگی تھی .. حیدر نے ایسے حواس باختہ ہو کر جاتے دیکھا تو فورآ سے اسے روکنے کو پلٹا تھا لیکن ان دونوں کو خود کو گھورتے پایا تو مسکراہٹ دبا کر سر کھجاتا نیچے اترنے لگا .. ” کیا باتیں ہو رہی تھیں ؟؟..!!” زرنور نے طنز سے مسکراتے ہوئے حیدر کو مخاطب کیا تھا .. “ڈیٹ پر چلنے کی آفر کر رہا تھا میں اسے ..!!” یشفہ کو گہری نظروں سے تکتے ہوئے اس نے خاصی شرافت سے زرنور کو کہا تھا .. انوشے اور اس کے ابرو تحیر سے پھیلے تھے .. ” ہیں ؟؟.ڈیٹ کی آفر ؟؟وہ بھی یشفہ کو ؟؟..دکھاؤ ذرا تم ٹھیک تو ہو نہ ..!!” زرنور فکر مندی سے اس کے چہرے کو ٹٹولنے لگی تھی .. “کیا کر رہی ہو نور بانو ..!!” حیدر نے اس کے ہاتھ ہٹا کر اپنے بال ٹھیک کرتے ہوئے کہا تھا .. ” دیکھ رہی ہوں اس نے تمہارا سر نہیں پھاڑا ؟؟..!!” یشفہ کو مصنوئی آنکھیں دکھاتے ہوئے اس نے کہا تھا “سر کیوں پھاڑے گی ؟…!!” حیدر کے انجان بن کر حیرت سے پوچھنے پر ان دونوں کو مزید حیرت ہوئی تھی .. یعنی کے حیدر صاحب کو یاد ہی نہیں کے کبھی ان دونوں کا چھتیس کا آکڑا رہا کرتا تھا .. ایک دوسرے کی جان کے درپے رہتے تھے دونوں .. ” دیکھو اگر تم پرانی باتوں کی وجہ سے کہ رہی ہو تو سنو ..وہ پرانی باتیں ہیں انھیں بھول جانا ہی بہتر ہے ..اوکے !!” مسکرا کر کہتے ہوئے زرنور کا سر تھپکتے ہوئے وہ سیٹی بجاتے ہوئے آگے بڑھ گیا تھا … وہ دونوں کڑے تیوروں سے اسے دیکھنے لگی تھی .. ” میں نے کچھ نہیں کیا ..قسم سے ..!!” دونوں ہاتھ آگے کئے ہنستے ہوئے وہ اپنی صفائی دے رہی تھی ..
واش بیسن پر دونوں ہاتھ سختی سے جماۓ لہو رنگ ہوتی آنکھوں سے وہ خود کو آئنے میں دیکھ رہی تھی .. ایک تواتر سے آنسو اس کے گلابی رخساروں پر پھیلتے جا رہے تھے .. ہزار دفعہ وہ اپنا ہاتھ رگڑ رگڑ کر دھو چکی تھی لیکن جلن تھی کے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی .. جب جب ریاض کا انداز یاد آ رہا تھا ایک جوار بھاٹا سا اس کے اندر پکنے لگتا تھا … “ابھی بد تمیزی کی ہی کہاں ہے میں نے ؟؟ جب کروں گا تو اچھے سے اس کے معنی پتا چل جائیں گے …!!” تفاخر سے کہا گیا اس کا جملہ فاریہ کو اپنے کانوں میں گونجتا محسوس ہوا تھا .. اتنی نہ سمجھ تو نہیں تھی وہ جو اس کی بات کا مفہوم نہ سمجھ پاتی .. “جانتی ہو ..جب جب تم ایسے غصہ دکھاتی ہو نہ یقین مانو تمہیں پانے کی تڑپ اتنی ہی شدّت سے جاگتی ہے میرے اندر …!!” اس نے اپنی جلتی پیشانی کو چھوا تھا جو اس کے شانے سے ٹکرائی تھی .. “میں نے اپنی زندگی میں کسی کو خود سے نظریں ملا کر بات کرنے کی اجازت نہیں دی ..اور کہاں تمہاری اتنی جرات ..!!” اپنے گال پر محسوس ہوتی اس کی انگلیوں کا لمس شعلے سے اس کے اندر بھڑکا رہا تھا “مجھے حاصل کرنا چاہتے ہو نہ تم ..قسم کھاتی ہوں ریاض چوہدری ..اپنی پرچھائی بھی تمہارے ہاتھ نہیں لگنے دوں گی ..!!” کرب سے آنکھیں میچے بیسن پر اس کی گرفت سخت ہوتی جا رہی تھی ..
صوفے پر کشن سر کے نیچے رکھے آنکھوں پر بازو رکھے لیٹے اسے جانے کتنی ہی دیر گزر گئی تھی لیکن اس کی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا .. رہ رہ کر اپنی صبح والی حرکت پر خود پر طیش آ رہاتھا .. “کیا ضرورت تھی فاریہ کے ساتھ ایسا کرنے کی ؟؟.. جانے کیا سوچتی ہوگی وہ میرے بارے میں .. کے میں بھی عام مردوں کی طرح صرف اس سے فلرٹ کر رہا ہوں .. اف ..تف ہے تم پر ریاض چوہدری ..!!” اس کی خوبصورت سی آنسوؤں سے بھری آنکھیں یاد کر کر کے اس کے اندر بے چینی سی بھرتی جا رہی تھی .. وہ اٹھ بیٹھا تھا ..کسی طور چین نہ مل رہا تھا .. دونوں ہاتھوں میں اس نے اپنے سر کے بال جکڑ لئے تھے .. “میں کیسے کسی کمزور لمحوں کی گرفت میں آ سکتا ہوں ؟؟.. میں ریاض ہوں عام لوگوں سے مختلف ہوں .. لیکن یہ کیا کیا میں نے ؟؟ یہ کیسا امپریشن ڈال دیا اس پر اپنا ..؟؟ کیا وہ معاف کرے گی مجھے ؟؟… نہیں کبھی نہیں ..!! میری حرکت اس قابل ہی نہیں کے اسے نظر انداز کیا جا سکے .. ” لیکن میں کیا کروں ؟؟…!!” اشعر کو اگر پتا چل گیا تو کیا سوچے گا وہ میرے بارے میں کے میں اس کی بہن کے ساتھ اس طرح بھی کر سکتا ہوں ؟؟.. ایسے اسے ڈرا دھمکا سکتا ہوں ؟؟.. میں ایسا تو نہیں تھا .. یہ کیا ہو گیا ہے مجھے .. سوچ سوچ کر اس کا دماغ پھٹنے لگا تھا .. اب تو وہ اس کے سامنے آنے کی بھی غلطی نہیں کرے گی … “لیکن مجھے ایک دفعہ تو اس سے بات کرنی چاہے ..سوری کہنا چاہیے مجھے …لیکن کیا اس حرکت کے لئے وہ کافی ہوگا ؟؟… ہر گز نہیں …!! دل نے فورآ ہی تردید کی تھی .. “لیکن میں کیا کروں ؟؟ یہ سب میں نے جان بوجھ کر تو نہیں کیا تھا ..!!!” میں تو دل کے ہاتھوں مجبور ہو گیا تھا .. اب میں کیا کروں ؟اسے دیکھ کر مجھے خود پر اختیار جو نہیں رہتا .. “ریاض ..!!” رباب ہاشم کی حیران سی آواز پر اس نے جھٹکے سے اپنا سر اٹھایا تھا .. چہرے پر پھیلا کرب آنکھوں کے سرخ دوڑے بکھرے بال .. یہ ان کا ریاض تو نہیں تھا جو ہر وقت فریش رہتا تھا .. ” کیا ہوا بیٹا ؟؟..!!” وہ تشوش سے کہتے ہوئے اس کے پاس آئی تھی .. ایک تو پہلے ہی اس کی گھر پر موجودگی ان کے لئے حیرت کا باعث تھی .. کیوں کے پچھلے ایک ہفتے سے تو وہ حارث کے گھر رہائش پذیر تھا صبح شام وہیں رہ رہا تھا بس دن میں دو چار گھنٹوں کے لیے چکر لگا لیتا اور صبح بھی جب بات ہوئی تھی اس نے دو دن بعد آنے کا کہا تھا ..لیکن اب نہ صرف وہ گھر پر تھا وہ بھی اس حالت میں …؟ ان کا پریشان ہونا تو فطری تھا کچھ بھی کہے بغیر اس نے رباب کی گود میں اپنا سر رکھ دیا تھا .. صرف یہی تو ایک جگہ تھی جہاں اسے سکون میسر تھا .. بند آنکھوں سے ایک آنسو نکل کر اس کے گال پر پھسلا تھا .. “ریاض کیا ہوا ہے ؟؟..کچھ بتاؤ مجھے بیٹا …!!” اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے وہ نرمی سے پوچھ رہی تھیں .. ” کچھ نہیں ہوا امی ..آج آپ کے بیٹے نے گرا دیا ہے خود کو اپنی ہی نظروں میں ..!!” “کیوں ایسے کہ رہے ہو ریاض ؟؟ سہی سے بتاؤ مجھے کیا بات ہے ..!!” اس کا سر اٹھا کر چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرتے ہوئے وہ تشوش سے پوچھ رہی تھیں .. ریاض کی حالت نے تو پرشانی میں مبتلا کر دیا رہا .. اس نے ساری بات رباب کے سامنے رکھ دی تھی ..شروع سے لے کر سب کہ سنایا تھا کچھ نہیں چھپایا تھا .. “آپ پلیز مجھے غلط نہ سمجھیے گا امی ..آپ تو جانتی ہے نہ آپ کا بیٹا ایسا نہیں ہے ..!!” ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑے وہ کسی معصوم بچے کی طرح کہ رہا تھا .. جیسے اس پر کسی چیز کی چوری کا الزام لگ جاۓ اور وہ رو رو کر اپنی صفائی پیش کر رہا ہو .. رباب ہاشم تو دنگ ہی رہ گئیں تھیں .. ان کا گرلز الرجک بیٹا کسی لڑکی کے لئے اتنا سیریس بھی ہو سکتا ہے کیا ؟؟.. بے شک جو اس نے کیا تھا غلط کیا تھا لیکن یہ تو آج کل کے لڑکوں کے لئے بہت عام سی بات تھی .. لیکن وہ ریاض تھا ان کا لاڈلا و فرمابردار بیٹا .. اگر اس نے وہ حرکت کی تھی تو وہ اس کے لئے شرمندہ تھا .. فاریہ سے معافی مانگنا چاہتا تھا .. اور یہ بہت تھا کے وہ اپنی حرکت پر گلٹی ہے .. یہی بات وہ اسے سمجھا رہی تھیں .. ” کوئی بات نہیں بیٹا مانا کے بہت غلط کیا تم نے لیکن تم اس بچی سے معافی مانگ لو …اگر تم واقعی میں اس کے لئے سیریس ہو تو میں خود جاؤں گی اس کے گھر ..اسے اپنے بیٹے کی دلہن بنانے کے لئے ..بتاؤ مجھے کون ہے وہ لڑکی ؟؟..!!” رباب ہاشم نرمی سے اسے سمجھاتے ہوئے کہ رہی تھیں .. ” اشعر کی بہن ..!!” دونوں ہاتھوں سے چہرے رگڑتے اس نے سنجیدگی سے کہا تھا .. ” اشعر کی بہن ؟؟ فاریہ کی بات کر رہے ہو ؟؟…!!” انہوں نے حیرت سے پوچھا .. اس نے محض آثبات میں سر ہلایا تھا .. ” وہ تو بہت معصوم سی ہے ..!!” “وہ معصوم ہے ؟؟ اور میں جلاد وحشی ہوں ..!!” وہ تو برا ہی مان گیا تھا .. بگڑے تیور سے بولا .. ” ارے نہیں ..میرا بیٹا تو بہت پیارا ہے ..اور اس پیارے لڑکے کے ساتھ وہ معصوم سی گڑیا ہی اچھی لگے گی ..!!” اس کے گال پر ہاتھ رکھے وہ محبّت سے کہنے لگیں … ” دعا کریں کے بس وہ معصوم سی گڑیا مان جاۓ ..!!” ” کیوں نہیں مانے گی ؟ میں بات کروں گی اشعر کے ماں باپ سے ..اور میرے بیٹے میں کوئی کمی تھوڑی ہے جو وہ منع کریں گے ..اور ایک بات بتاؤ ..جب میں اتنے دنوں سے پیچھے پڑی تھی تمہارے ..تب کیوں نہ بتایا مجھے ؟؟!!” اچانک سے یاد آنے پر رباب ہاشم نے اس کا کان مروڑتے ہوئے مصنوئی خفگی سے پوچھا .. ” میں نے تو خود کو بھی نہیں بتایا تھا ..خود سے بھی یہ چھپاتا پھر رہا تھا ..لیکن یہ محبّت کا بوجھ بہت بڑھ گیا ہے میرے دل پر ..!!” اس نے تھکن سے کہتے ہوئے اپنا سر صوفے کی پشت پر گرایا تھا .. “اوہ تو محبّت ہو گئی ہے میرے بیٹے کو ..!!” “کاش کے نہ ہوتی ..!” اس کی آواز میں تاسف سا تھا … ” محبت کرنا کوئی جرم نہیں ہے ..ہاں لیکن اسے غلط طریقے سے حاصل کرنا اچھی بات نہیں ہے ..!!” “میں کچھ نہیں جانتا امی ..آپ بس اس کے گھر والوں سے بات کر لیں اگر مان گئے تو ٹھیک ورنہ ..!!” ” ورنہ کیا ریاض ؟؟..!!”. انہوں نے اس کی بات کاٹ کر کہا تھا .. اس کا اتنا سنجیدہ انداز کسی اور ہی طرف اشارہ کر رہا تھا . جانے کیا سوچے بیٹھا تھا وہ .. ” ورنہ کچھ نہیں امی ..شادی مجھے صرف اسی سے کرنی ہے ..اب وہ شرافت سے اس کی رخصتی کرتے ہیں تو ٹھیک ورنہ پھر میں اٹھا کر لے آؤں …!!” اس کا لہجہ سنگین لگ رہا تھا .. ” ایک جوان جہاں لڑکی کو اس کے گھر سے اٹھانے کی بات کر رہے ہو ؟ وہ بھی اپنی ماں کے سامنے ؟؟ ..یہ تربیت تو نہیں کی تھی میں نے تمہاری ..!!” وہ ناراضگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہ رہی تھیں .. وہ بے ساختہ ہنسا تھا … ” سوری امی مجھے آپ کے سامنے یہ نہیں کہنا چاہیے تھا ..!!” نچلا لب دباۓ اس نے شرارت سے رباب ہاشم کو چھیڑنے کو کہا تھا .. ” یعنی کے تم نے ضرور کرنا ہے یہ کام ؟؟..تمہارے باپ نے تمہیں گھر سے نکال دینا ہے ریاض ..اور پھر میں بھی تمہیں معاف نہیں کروں گی اگر تم نے اس بچی کے ساتھ کچھ غلط کرنے کا سوچا بھی تو ..!!” وہ سنجیدگی سے اسے تنبہہ کر رہیں تھیں جس پر ان کی باتوں کا کچھ اثر ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا .. ” سوچے تو میں بہت کچھ بیٹھا ہوں ..لیکن ہاۓ رے افسوس ..وہ سالا مجھے کچھ کرنے نہیں دے گا ..!!” “ریاض …!!” وہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھیں ..واقعی میں اس محبّت نے تو اس کو بدل کے رکھ دیا تھا ” امی اشعر کو کہ رہا ہوں ..اب رشتے میں تو میرا سالا ہی ہوا نہ ..!!” ” بے وقوف ..!!” اس کے مسکرا کر کہنے پر آنکھیں دکھاتے ہوئے اس کے سر پر چپت لگاتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئیں تھیں .. ” کچھ بناؤں تمہارے لئے یا چاۓ پیو گے ؟..!!” “چاۓ تو آپ کی بہو کے ہاتھوں سے بنی پی کر آیا ہوں آپ کھانا ہی بنا دیں ..!!” وہ پھر شرارت سے چہکا تھا .. اسے مصنوئی گھورتے ہوئے وہ کچن کی جانب چلی گئیں تھیں .. ہونٹوں پر مسکراہٹ کے ساتھ ریاض کے لئے صرف دعائیں تھیں .. وہ تو شکر ادا کرنے لگیں تھیں کے چلو وہ بھی شادی کے لئے کچھ سیریس ہوا .. لیکن یہ بات بھی ان کے لئے تشیش کاباعث تھی کے وہ کچھ زیادہ ہی سیریس ہو گیا تھا … خیر جو ہوگا دیکھا جاۓ گا .. گہری سانس بھرتے ہوئے وہ فریج سے چکن کا پیکٹ نکالنے لگیں تھی ..
دیگر فنکشنز کی طرح ولیمہ بھی بخیر و آفیت اچھے سے گزر گیا لیکن اتنا مزہ نہیں آیا کیوں کے وقت سے پہلے ہی تقریب کو ختم کرنا پڑ گیا تھا ایک تو وہ ہال گھر سے آدھے ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا دوسرا شہر کے حالات بھی کافی خراب ہو گئے تھے جگہ جگہ دھرنے جلوس جلاؤ گھیراؤ … پورا شہر ہی جام ہو کر رہ گیا تھا ..ایسے میں عقلمندی تو یہی تھی کے جتنی جلدی ہو سکے سب وائنڈ اپ کر دیا جاۓ .. پھر ڈنر کے بعد ایک بجے ہی سب مہمانوں کو رخصت کرنے کے بعد ان کی واپسی ہو گئی تھی .. شادی کے ہنگامے سرد پڑتے ہی ایک ہفتے سے ملک ہاؤس میں ڈیرہ ڈال کر بیٹھے ان سب نے بھی اپنے اپنے گھروں کی راہ لی تھی .. صبح ہی تو مناہل اور حارث ناردرن ایریاز کے لئے نکلے تھے ..
ابھی سب خانزادہ ہاؤس میں جمع تھے آج سنڈے کا دن تھا ان سب کا ہی اپنے اپنے اپنے آفسز سے آف تھا .. ویسے بھی پچھلے ایک ہفتے سے وہ شادی کی وجہ سے مارے باندھے ہی جا رہے تھے اور سہی معنوں میں تو آج کا دن آزادی کا ہی لگ رہا تھا کیوں کے کل پھر سے بزنس کے جھمیلوں میں پڑ جانا تھا .. ابھی بھی ریلکس انداز میں بیٹھے گپے لگا رہے تھے .. موبائل جیب میں اڑستے ہوئے وہ ابھی وہاں پہنچا تھا .. وہ سب شاید اوپر احمد کے کمرے میں جمع تھے کیوں کے وہیں سے ان شیطانوں کے زور زور سے ہنسنے کی آوازیں آ رہی تھیں .. وہ سب ریاض کے پیچھے پڑے تھے کے آج تو اس لڑکی کا نام بتا ہی دے جسے وہ دل ہی دل میں پسند کرتا ہے .. جس پروہ ہنستے ہوئے مسلسل انکار کئے جا رہا تھا اشعر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی تھی .. یہ تو وہ بھی اچھے سے جانتا تھا کے ہو نہ ہو ریاض کا کہیں نہ کہیں چکر ضرور ہے .. شاید سچ میں ہی کسی کو دل دیے بیٹھا تھا .. اس کا ارادہ اوپر جا کر ان کو جوائن کرنے کا تھا .. اور سب سے تجسس بھی تو اشعر کو ہی تھا اس لڑکی کا نام جاننے کا .. اس نے سوچ لیا تھا کے آج تو اس کے منہ سے نکلوا کر ہی رہے گا .. اوپر جانے کے لئے اس نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا ہی تھا کے سیٹنگ ایریا کے سینٹرل ٹیبل پر پڑے اس فون پر اس کی غیر ارادہ سی نظر اٹھی تھی .. ریڈ کوور والا وہ فون بلا شبہ ریاض کا ہی تھا .. پچھلے کچھ دنوں سے وہ نوٹ کر رہا تھا کے ریاض کچھ زیادہ ہی فون کے ساتھ مصروف رہنے لگ گیا تھا .. جب دیکھو فون پر جھکا مسکرا رہا ہوتا تھا .. اور یہ بات تو اور بھی زیادہ حیرانی کا باعث تھی کے اس نے فون پر پاسورڈ لگا دیا تھا .. ویسے تو یہ کوئی اتنی سیریس بات نہیں تھی لیکن ریاض کے فون پر لگے ہونا کچھ زیادہ ہی حیرت ناک تھا کیوں کے ان سب میں صرف وہی تھا جس کا فون کسی بھی سیکورٹی لاک وغیرہ سے پاک رہتا تھا ..کیوں کے اس کا کہنا تھا کے میں جب کوئی غلط کام کرتا ہی نہیں تو پرائویسی کیوں لگاؤں ؟.. لیکن اب کیا وہ کچھ غلط کام کرنے لگ گیا تھا جو اسے بھی پاسورڈ لگانے کی ضرورت پیش آ گئی تھی ..؟؟ تھی تو یہ ایک غیر اخلاقی حرکت لیکن اشعر آفریدی اس وقت اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو گیا تھا .. کیا پتا اس کے فون سے کسی لڑکی کا کوئی نام پتا نمبر ہی پتا چل جاۓ .. پھر وہ بھی خوب اس کا ریکارڈ لگاۓ گا جیسے وہ اس کا لگایا کرتا تھا .. اشعر نے اس کا فون اٹھا لیا تھا .. پاسورڈ وہ جانتا تھا … ایک دفعہ اس نے پیچھے سے ریاض کو ڈالتے دیکھ لیا تھا .. لیکن اس کے بعد سے کبھی اس کا فون ہاتھ ہی نہیں لگا .. جبھی تو وہ اب تک بچا ہوا تھا اس کی پہنچ سے .. اگر ریاض کو پتا ہوتا تھا کے اشعر اس کا پاسورڈ جانتا ہے تو وہ لمحہ نہ لگاتا چینج کرنے میں .. دو سیکنڈ میں لاک کھول کر وہ اس کا فون کھنگالنے میں مصروف ہو چکا تھا .. کونٹکٹس میں ایک نمبر بھی ایسا نہیں تھا جس پر اسے شک ہو .. نہ ہی واٹس ایپ پر کوئی کنورزیشن تھی .. “شاید کوئی تصویر وغیرہ …!!” ایک خیال سا ذہن میں لپکا تھا .. دوسرے ہی لمحے وہ مسکراتے ہوئے اس کے خفیہ فولڈرز چیک کر رہا تھا ..