“تمہاری چاۓ ..!!” وہ جو بیڈ کی بیک سے سر ٹکاۓ آنکھیں موندیں نیم دراز تھا لائبہ کی آواز پر آنکھیں کھولنے پر مجبور ہوا .. ہلکے نیلے رنگ کے کپڑے پہنے بالوں کو ہاف کیچر میں مقید کئے وہ چاۓ کا کپ ہاتھ میں پکڑے کھڑی تھی .. بہت زیادہ رونے کے باعث اس کی آنکھیں سوجی ہوئی معلوم ہوتی تھی چہرہ بھی کچھ ستا ہوا لگتا .. اشعر کو افسوس نے آ گھیرا تھا .. جو بھی تھا اسے لائبہ کو ایسے ڈانٹنا نہیں چاہیے تھا .. “لاؤ ..!!” اس نے کپ پکڑنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تھا لیکن کپ کے ساتھ اس کا چوڑیوں سے سجا ہاتھ بھی اپنی گرفت میں لے کر بیڈ پر اپنے سامنے بٹھایا تھا .. کپ کو سائیڈ ٹیبل پر رکھنے کے بعد اس نے لائبہ کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں دبایا تھا .. ” ناراض ہو ؟..!!” براہ راست اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے اس نے نرمی سے پوچھا تھا .. “نہیں ..!!” اس نے بھیگی آواز میں نظریں جھکاۓ کہا تھا .. “آئم سوری لائبہ ..مجھے ایسے نہیں کہنا چاہیے تھا تمہیں لیکن ..اس وقت میں غصے میں تھا ..!!” وہ خود سے اپنی صفائی پیش کر رہا تھا .. ” کوئی بات نہیں اشعر ..!!” زبردستی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے وہ اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے چھڑا کے جانے لگی تھی لیکن تبھی اس نے پھر سے اس کی کلائی پکڑ کر اپنے پہلو میں بٹھایا تھا .. ” لائبہ ..ایسے نہ کرو یار میں پہلے ہی بہت پچھتا رہا ہوں بہت شرمندہ ہوں تم سے ..مجھے تو خود یقین نہیں آ رہا کے میں نے رلایا ہے تمہیں ..!!” وہ ندامت سے کہے جا رہا تھا .. جبکے وہ لب بھنچے اپنے آنسوں روکنے کی کوشش کر رہی تھی .. ” نہیں اشعر .تمہاری غلطی نہیں ہے ..تم بہن بھائی کی بات میں مجھے پڑنا ہی نہیں چاہیے تھا ..تمہارا معاملہ تھا تم خود ہی حل کر لیتے میں کون ہوتی ہوں بیچ میں بولنے والی ..!!” نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے انداز میں ناراضگی در آئی تھی .. ” ایسی بات نہیں ہے لائبہ ..اگر ریاض کی باتیں تم سن لیتی تو مجھ سے بھی زیادہ آوٹ آف کنٹرول ہو جاتی ..!!” ” میں نہیں جانتی ریاض اور تمہارا جو بھی مسئلہ ہے ..مجھے صرف اتنا پتا ہے کے تم نے مجھے ڈانٹا تھا اتنا لاؤڈلی مجھ سے بات کی ..!!!” “لیکن میں سوری کر تو رہا ہو ..!!” ” اپنے پاس رکھو ..نہیں چاہیے مجھے ..!!” وہ خفگی سے بولی پھر جیسے یاد آنے پر چونکی تو جلدی سے اپنا رخ اس کی جانب موڑا .. “ہاتھ دکھاؤ ..!!” “کیوں ؟؟..!!” اس نے نہ سمجھی سے پوچھا .. ” دکھاؤ تو ..!!” لائبہ نے کہتے ہوئے خود ہی اس کا سیدھا ہاتھ پکڑ کر دیکھا جس کی انگلیوں کی پشت پر چھوٹے سے خون کے دھبے لگے تھے .. اشعر نے اپنے لب بھینچ لئے تھے .. بے ساختہ یاد آیا تھاکے جب اس کے ایک پنچ سے ریاض کا نچلا ہونٹ پھٹ گیا تھا اور جب دوبارہ سے اس کے چہرے پر مارا تو شاید تبھی وہ خون اس کے ہاتھ پر لگا تھا .. “تم نے مارا تھا ریاض کو ؟؟..!!” ساری ناراضگی پوچھے وہ مشکوک انداز میں پوچھنے لگی .. اشعر نے کوئی جواب نہ دیا ٹیبل سے ٹشو نکال کر ان دھبوں کو صاف کرنے لگا لیکن اب تو وہ جم چکے تھے آسانی سے صاف نہ ہو رہے تھے .. “نظریں بہت تیز ہیں تمہاری …!!” وہ صاف اسے ٹالنا چاہ رہا تھا ” اشعر ..تم نے مارا تھا ریاض کو ؟؟..!!ا” لائبہ نے اس دفعہ اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے پوچھا .. ” ہاں مارا تھا میں نے اسے ..اگر تھوڑی دیر اور میرے سامنے کھڑا رہتا تو قتل بھی کر دیتا ..!!” پھر سے در آنے والے غصّے کو دبانے کی وہ ہر ممکن کوشش کر رہا تھا .. جس حالت میں وہ آیا تھا لائبہ جانتی تھی ضرور ہی ان کا کسی بات پر کوئی بڑا جھگڑا ہوا ہوگا ..لیکن اتنی سنجیدہ نوعیت کا ہوا تھا کے بات ہاتھا پائی اور قتل تک جا پہنچی تھی .. ” تم نے مارا کیوں اسے ؟؟…!!” لائبہ کو تشویش نے آ گھیرا .. ” مجھے کہ رہا ہے کے میں شرافت سے اپنی بہن کا ہاتھ اسے تھما دوں ..کیوں کے اسے مانگنے کی عادت نہیں اگر میں نے انکار نہ کیا تو وہ کچھ غلط کر بیٹھے گا جس پر مجھے بعد میں پچھتانا پڑے گا ..نان سینس ..!!” فاریہ جو لائبہ کے پاس کسی کام سے آ رہی تھی کمرے کے تھوڑے سے کھلے دروازے سے آتی آواز پر اس کے قدم وہیں تھم گئے تھے .. ” میں سوچ بھی نہیں سکتا کے وہ ریاض جسے میں ہمیشہ اپنے بھائیوں کی طرح عزیز رکھتا تھا اس نے مجھے دھمکیاں دی ہیں ..ایک تو فاریہ کی پکس اس نے اپنے موبائل میں ڈال رکھی تھی اور دوسرا مجھے ہی بلیم کر رہا ہے کے میں نے کیوں مارا اسے ؟؟..!!” اس نے ساختہ دیوار کا سہارا لیا تھا .. آنکھوں کے سامنے سے اندھیرا سا چھانے لگا تھا .. ” لائبہ حیرت سے اشعر کو دیکھ رہی تھی .. جس کی آنکھوں میں چنگاریاں سی جل اٹھی تھی .. “رر ریاض .فاری کو پسند کرتا ہے ؟..!!” وہ بے یقینی سے پوچھ بیٹھی ..!!” اشعر نے اسے سرد نگاہوں سے دیکھا .. “اگر پسند کرتا ہوتا تو آ کر فاریہ کے ماں باپ سے یا اس کے بھائی سے رشتہ مانگتا ..نہ کے ایسے اکڑ دکھاتا ..اور اس کو حق کس نے دیا میری بہن کی تصویریں اپنے موبائل میں رکھنے کا ؟؟…!!” ایک گرم سیال سااس کے گالوں پر بہتا جا رہا تھا .. وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کے ریاض چوہدری ایسے اس کی ذات کو موضوع گفتگو بناۓ گا ..کتنی سبکی محسوس ہوئی ہو گو اشعر کو اس کی وجہ سے .. وہ سوچ سوچ کے ہی زمین میں گڑتی جا رہی تھی .. “اور میرا کیااشعر ؟؟..شادی سے پہلے کیا میری تصویریں تمہارے سیل میں نہیں تھیں ؟؟..اگر میرا کوئی بھائی نہیں تھا تم سے باز پرس کرنے والا ..تمہارے حرکت پر تمہیں ڈانٹنے والا تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کے تم اپنی جگہ پر ٹھیک تھے ..کیا تم یونی میں میرے آگے پیچھے نہیں گھومتے تھے ؟؟ تم نے جو کیا وہ سہی تھا اور جو ریاض نے کیا وہ غلط ؟؟ حالانکے اس نے صرف تصویریں ہی رکھی تھی موبائل میں اور کچھ تو نہیں کیا تھا نہ فاریہ کے ساتھ ؟؟..!!” لائبہ کا لہجہ بھی تھوڑا سخت ہو گیا تھا .. “میری نیت خراب نہیں تھی لائبہ …میں نے دوسرے دن ہی اپنے گھر والوں کو رشتے کے لئے بھیج دیا تھا ..!!!” اشعر نے خاصے تحمل سے کہا تھا ورنہ تو اسے بلکل اچھا نہ لگ رہا تھا اس کا ریاض کے لئے حمایت کرنا .. ” ریاض کی نیت بھی خراب نہیں ہے اشعر ..ضرور کوئی مس انڈرسٹینڈنگ ہوئی ہو گی ..لیکن اسے بیٹھ کر آرام سے بات چیت سے بھی تو حل کیا جا سکتا ہے نہ ؟؟..ایسے لڑنے مرنے سے تو کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا ..!!” لائبہ نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے نرمی سے اسے سمجھایا تھا .. ” میں اب ریاض کا نام بھی سننا نہیں چاہتا ..!!” وہ سختی سے اسے باور کروارہا تھا .. ” لیکن اشعر ..!!” بس کرو لائبہ میں مزید کچھ نہیں سننا چاہتا اس بارے میں ..!!” لائبہ بے بسی سے اسے دیکھ کر رہ گئی تھی .. اور یہ فاریہ ہی جانتی تھی کے کتنی مشکل سے وہ خود کو گھسیٹ کر اپنے کمرے میں آئی تھی .. آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک لڑی سی بہتی جاری رہی تھی .. ریاض چوہدری سے سامنا ہونے کے بعد سکون نام کی کوئی چیز تو اس کی زندگی میں رہی ہی نہ تھی .. کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کے اشعر کو ایسے معلوم ہوگا ان کے بارے میں .. اس نے سختی سے اپنی آنکھیں رگڑی تھیں .. جو بھی تھا اپنی اس حرکت پر اس کی طرف سے بھی دو تھپڑ کا حقدار تو وہ ضرور تھا .. واقعی میں اس کی ہمّت بھی کیسے ہوئی فاریہ آفریدی کی تصویریں اپنے موبائل میں محفوظ کرنے کی ..؟؟!!”
“اوہ تو آپ کے فادر کشمیر سے تھے جبھی آپ اتنی پیاری ہیں …!!” جیسے ہی اس کے کانوں میں یہ آواز پڑی کچن میں آتا تیمور ٹھٹکا تھا .. جہاں ڈائننگ ٹیبل کے گرد کرسی پر بیٹھی انوشے باسکٹ میں سبزیاں رکھے سلاد بنا رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ بازل کی باتوں پر بھی ہنس رہی تھی .. ” انوشے کیا ہوتا ہے یہ ؟باجی بول ..!!” تیمور نے ہاتھ میں پکڑے شاپر ٹیبل پر پٹخنے کے سے انداز میں رکھتے ہوئے بازل کو گھور کر کہا تھا جو کہنی ٹیبل پر ٹکاۓ ہتھیلی میں چہرہ گراۓ مسکراتے ہوئے اسے کام کرتے دیکھ رہا تھا … “آپ بول لیں باجی ..میں تو انوشے ہی کہوں گا ..!!” کمال اطمینان سے جواب دے کر وہ پھر سے محبت پاش نظروں سے اسے دیکھنے لگا تھا .. “لا حول ولا ..!!” جہاں تیمور نے گھورتے ہوئے اسے چپیڑ رسید کی تھی وہیں انوشے مسکراہٹ چھپانے کو چہرہ جھکا گئی تھی .. ” کیا ہوا ؟؟…!!”زرنور نے فریج میں سے پانی کی بوتل نکالتے ہوئے حیرت سے پوچھا .. وہ ابھی وہاں آئی تھی .. ” چھچھور پن دیکھو اپنے بھائی کا میری بیوی پر لائن مار رہا ہے ..!!” “کیا بکواس کر رہے ہو ؟..!!” زرنور نے فورآ ہی تیوری چڑھا کر پوچھا .. ” میں کیا بکواس کر رہا ہوں اپنے بھائی کی بکواس ملاحظہ کرو ..!!” اس نے طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے بازل کی طرف اشارہ کیا تھا جس کی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا .. ” کیا ہوا بازل ؟؟کیا کہ رہا ہے یہ ؟؟..!! ” زرنور بجو ..میں تو صرف انوشے سے بات کر رہا ہوں لیکن ان کو تکلیف ہو رہی ہے کے میری وائف سے بات نہ کرو ..!!” تیمور نے آنکھیں پھیلا کر اسے غلط بیانی سے کام لیتے دیکھا تھا .. ” کیا ہو گیا ہے تیمور ؟صرف بات ہی تو کر رہا ہے ..!!” اس سے پہلے کے وہ کچھ سخت سست سناتا انوشے نے سہولت سے اسے ٹوکا تھا .. “اگر مجبوری نہ ہوتی تو میں جانتا ہوں آپ کبھی بھی تیمور بھائی سے نکاح نہ کرتی ..کہاں آپ اتنی پیاری سی اور کہاں یہ ..!!” تیمور کو دیکھتے ہوئے بازل نے برا سا منہ بنایا تھا .. تیمور نے تیز نظروں سے اسے دیکھنے کے بعد جتاتے ہوئے انداز میں زرنور کو دیکھا تھا جیسے کہ رہا ہو .. ” دیکھ لی اپنی بھائی کی حرکتیں ؟..!!” “میرے بھائی کا تو دل ہی آ گیا ہے تمہاری بیوی پر ..!!” زرنور نے مسکراہٹ دباتے ہوئے تیمور کو کہا تھا .. ” سہی کہا آپ نے بجو ..لیکن افسوس کے میں ابھی صرف فرسٹ ائیر میں ہوں ..!!” اس نے افسوس سے سر جھٹکا تھا .. ” کاش کے آپ میری ایج کی ہوتی انوشے ..یا پھر میں تیمور بھائی کی جگہ ہوتا ..!!” اس نے پھر ندامت سے کہا .. “پھر انوشے ؟؟..!!” تیمور نے دانت پیس کر اس کے سر پر ایک چپت اور لگائی .. ” مت مارو میرے بھائی کو بار بار ..اور یہ کیا تم ہر دوسرے دن منہ اٹھا کر آجاتے ہو ..اگلے ہفتے ہے نہ رخصتی کیا تم سے ااتنا بھی انتظار نہیں ہوتا ..!!” زرنور نے کڑے انداز میں پوچھا تھا .. “بس بی بی ..!!” وہ بے زاری سے ٹوک گیا .. ” رخصتی تو تمہاری بھی ہے اگلے ہفتے ..اور اگر میں بے صبرا ہوں مجھے یہاں آنے پر بار بار باتیں سنائی جاتی ہیں تو اس ارمان صاحب کا کیا ؟؟..انھیں کیوں کچھ نہیں کہا جاتا ؟؟..!!” طنز سے کہتے ہوئے اس نے انوشے کے ہاتھ سے کھیرا اچک لیا تھا .. پھر منہ میں رکھ کر زور سے بائٹ لی تھی .. وہ اسے آنکھوں میں ہی تنبہہ کر کے رہ گئی .. ” اس کے تمہاری طرح چکر نہیں لگتے میرے گھر کے اتنے ..!!” بالوں کی لٹھ کو انگلی پر لپیٹتے ہوئے وہ ناز سے کہ رہی تھی . ” ہاہا ..اور ابھی کیا میں لاؤنج میں اس کا بھوت دیکھ کر آیا ہوں ؟؟..!!” تیزی سے کھیرا کترتے ہوئے وہ طنزیہ انداز میں کہ رہا تھا .. ” احمد آیا ہے ؟؟..!!” وہ چونک کر بولی …!!” “ہاں جی آپ کے شوہر نامدار آۓ ہیں ..اب جا کر کرئے ان کی خدمتیں ..!!” “شٹ اپ تیمور ..!!” اس کے باز پر تھپڑ رسید کرتی وہ جلدی سے باہر گئی تھی ..
“اب کیا ہوگا احمد ؟؟..!!” ساری بات سن کر زرنور نے فکر مندی سے پوچھا .. ” کچھ نہیں ہوگا ..دونوں تھپڑ کھائیں گے مجھ سے ایک ایک ..!!” اس کے اطمینان سے کہنے پر زرنور نے گھور کر اسے دیکھا تھا .. ” خبردار جو تم نے کسی کو مارا تو ..اور جب وہ دونوں لڑ رہے تھے تو تم نے کچھ کہا کیوں نہیں ؟؟..!!” “وہ اس لئے میری جان کے ..اس وقت دونوں پر غصے کا غلبہ تھا ایسے میں ‘ میں جو بھی بات کہتا یا دوسرے کی جائز حمایت بھی کرتا تو وہ مجھ سے بھی بد گماں ہو جاتے ..اسی لیے میں نے سوچا کے تھوڑا پھر سے اپنے انسانی روپ میں آجائیں تو بات کرتا ہوں ..!!” ” لیکن بہت غلط کیا اشعر نے ..اسے مارنا نہیں چاہیے تھا ریاض کو ..!!” زرنور کو انہی کی ٹینشن لگی ہوئی تھی .. “کس نے غلط کیا کس نے صحیح کیا یہ سوچنے سمجھنے کے لئے اور بہت سے لوگ ہیں ..تم چلو میرے ساتھ آج سے تمہاری ٹریننگ سٹارٹ ہے ..!!” احمد نے شرٹ کے کف موڑتے ہوئے کھڑے ہوکر اسے اٹھنے کا اشارہ دیا تھا .. ” مجھے برا لگ رہا ہو ان کے لئے احمد ..!!” “مجھے بھی لگ رہا ہے ..!!” “تو تم کچھ کرتے کیوں نہیں ؟؟..!!” اس نے خفگی سے پوچھا .. ” تم کچھ کرنے ہی نہیں دیتی ..!!” احمد نے اس کی جانب ہلکا سا جھکتے ہوئے شرارت سے کہا تھا .. ” میں اشعر اور ریاض کی بات کر رہی ہوں ..!!” زرنور نے بوکھلا کر اس کو پیچھے کرتے ہوئے کہا ڈر تھا کے کوئی دیکھ نہ لے .. ” گولی مارو انھیں تم چلو میرے ساتھ کچن میں …کہاں ملے گا ایسا شوہر جو خود اپنی بیوی کو کافی بنانا سیکھا رہا ہے ..!!” ” تم کتنے سیلفش ہو احمد ..وہاں تمہیں اپنے دوستوں کا ذرا خیال نہیں ..!!” “میڈم ..اگر میں سیلفش ہوتا نہ تو آج آپ اپنے سسرال میں ہوتی نہ کے میں اپنے سسرال میں ہوتا ..!!” اس کے غیر سنجیدہ انداز پر زرنور ناراضگی سے اسے دیکھ کر رہ گئی تھی .. “میں نہیں جا رہی کچن میں ..ماما اور انوشے وہیں ہیں تم کیا ان کے سامنے کافی بنانا سکھاؤ گے مجھے ؟؟…!!” وہ منہ پھلا کر بولی تھی .. ” ہاں تو میں کون سا تمہیں کچھ ایسا ویسا کرنا سکھا رہا ہوں جو تمہیں سب کے سامنے سیکھتے ہوئے شرم آۓ گی ..!!” احمد نے نچلا لب دانتوں تلے دبا کر گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا .. ” اف احمد تم بھی نہ ….!!” اس کا گلابی چہرہ یخلت ہی سرخ ہوا تھا … “کیا میں بھی نہ ؟؟ ہاں؟ ..!!” وہ دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا .. ” پاگل ہو پورے ..!!” ” میں پاگل ہوں ؟؟..!!” اس نے حیرت سے سینے پر انگلی رکھتے ہوئے پوچھا .. ” اس میں تو کوئی شک نہیں ..!!” اس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے جواب دیا .. ” ہاتھ لگو ایک دفعہ پھر بتاؤں گا تمہیں کے کون پاگل ہے ..!!”
ریلینگ پر دونوں ہاتھ جماۓ کھڑی وہ دور سامنے نظر آتے قدرت کے شاہکار کو مبہوت ہو کر دیکھ رہی تھی .. بلند و بالا پہاڑ جن پر برف کی تہ سی جمی تھی اونچی اونچی بادلوں کو چھوتی چٹانیں .. اتنا دلفریب منظر تھا کے وہ اس میں کھو سی گئی تھی .. چونکی تو جب کسی نے گرم شال اس کے شانوں پر پھیلائی تھی .. حارث کو دیکھتے ہی ایک نرم سی مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو چھوا تھا .. “کتنا خوبصورت لگ رہا ہے نہ ؟..!!” اس کے شانے پر سر ٹکاتے ہوئے اس نے جیسے راۓ مانگی تھی .. ” ہاں ..لیکن تم سے زیادہ نہیں ..!!” حارث نے اس کے گرد اپنا بازو پھیلا کر اپنے قریب کیا تھا .. ” اب یہ تو تم مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہو ..!!” مناہل نے ہوا سے اڑتے ہوئے بالوں کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے نروٹھے انداز میں کہا .. وہ ہلکا سا ہنسا تھا .. ” میری کی گئی ہر تعریف تمہیں جھوٹ ہی لگتی ہے …!!” اس نے مناہل کی سردی سے سرخ ہوتی ناک دبا کر کہا تھا .. ” اگر ایسی تعریفیں کرو گے تو جھوٹ ہی لگے گی نہ ؟..!!” “اچھا تو پھر تم بتاؤ کے کیسی تعریفیں کروں ؟..!!” ” رہنے دو ..!!” اس نے خفگی سے کہا تھا .. سنو جاناں .. یہ میں ہوں .. جسے محبّت ہے تم سے .. جو تم چاہو تو اس چاہت میں .. مٹادوں ,خاک کر دن خود کو .. جلا کر آتش شوق میں راکھ کر دوں خود کو .. میں خود اپنی نفی ہو کر تم ہو جاؤں .. بھلادوں اپنی ہستی .. فنا کی دھول میں گم ہو جاؤں .. یہ سب ممکن ہے میری جاناں .. مگر یہ بھی تو سوچو میں اپنے آپ کو مٹا دوں تو .. محبّت پھر کرے گا کون تم سے .. کے “اے جان تمنا “ یہ “میں” ہوں کے جسے محبّت ہے تم سے ..!!” آنکھیں موندیں وہ سکون سے مسکراتے ہوئے اسے اپنے کانوں میں امرت انڈیلتے سن رہی تھی ..!!”