یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا ایک ہی شخص تھا زمانے میں کیا ؟.
“السلام عليكم رباب آنٹی ..ریاض گھر پر ہے کیا ؟ کافی دیر سے کال ملا رہا ہوں میں اسے لیکن ریسیو ہی نہیں کر رہا ہے ..!!” فون کان سے لگاۓ وہ کھڑکی سے باہر اپنے ہرے بھرے لان کو دیکھ رہا تھا … “وعلیکم السلام احمد بیٹا ..میں تو خود اس کا نمبر ڈائل کر رہی تھی لیکن کوئی رسپونس نہیں ملا مجھے لگا وہ آپ لوگوں کے ساتھ ہوگا ..!!” رباب ہاشم نے حیرت سے جواب دیا تھا .. ” گھر پر بھی نہیں ہے ؟..!!” اب احمد کو تشویش ہونے لگی تھی رات کے دس بج رہے تھے ایسے میں وہ جا کہاں سکتا تھا اوپر سے اس کا فون بھی بند جا رہا تھا .. ” آپ فکر نہ کریں آنٹی جیسے ہی میرا رابطہ ہوتا ہے اس سے میں کہ دوں گا وہ کال کر لے گا آپ کو ..!!” ” احمد ..کیا تم لوگوں کے بیچ کوئی جھگڑا وغیرہ ہوا ہے ؟؟.!!” وہ ان کی بات پر ٹھٹھکا تھا .. ” نہیں تو آنٹی ..ہمارے بیچ تو سب نارمل ہے ..!!” اس نے جلدی سے سمبھل کر کہا تھا .. ” پتا نہیں لیکن ریاض کا بی ہیویر تھوڑا عجیب لگا مجھے نہ ٹھیک سے بات کر رہا ہے نہ کوئی جواب دے رہا ہے صبح سے اس نے کچھ کھایا بھی نہیں مجھے کافی ٹینشن ہو رہی ہے اس کی …!!” ان کے انداز میں ازلی ماؤں والی فکر تھی .. ” میں کوشش کرتا ہوں اس سے رابطہ کرنے کی آپ پلیز ٹینس نہ ہو ..!!” “ٹھیک ہے بیٹا اللہ حافظ ..!!” “اللہ حافظ آنٹی ..!!” فون بند کئے وہ صرف اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا کے آخر کو جا کہاں سکتا ہے .. زہن میں ایک دم ہی جھماکا ہوا تھا جلدی سے اپنی جیکٹ اور ٹیبل پر گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے وہ اپنے کمرے سے نکلا تھا ..
تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے وہ خانزادہ انڈسٹریز کی عمارت میں داخل ہوا .. رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے آفس تو پانچ بجے ہی بند ہو جاتا تھا اس وقت بھی پورا اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا .. اس نے سیکورٹی گاڑد سے کہ کر ساری لائٹس آن کروائیں اور بھاری قدموں سے چلتے اس کمرے کے بند دروازے کے سامنے رکا ۔. ناب گھما کر دروازہ دکھیلتے ہوئے وہ اندر آیا تھا جبھی بے ساختہ اسے کھانسی کا اٹیک ہوا تھا کیوں کے پورا کمرہ سگریٹ کے دھویں سے بھرا ہوا تھا .. ہاتھ سے دھواں پیچھے کرتے ہوئے اس نے با مشکل سوئچ بورڈ ٹٹول کر لائٹس آن کی تھی .. راکنگ چئیر پر سر کرسی کی پشت سے ٹکاۓ آنکھیں موندیں اس وجود نےتیز روشنی کے باعث بے ساختہ اپنی آنکھوں پر بازو رکھا تھا .. دوسرے ہاتھ میں دبی سگریٹ ہنوز جل رہی تھی .. اور جل تو اس کا دل بھی رہا تھا .. احمد کی نظر ٹیبل پر پڑی کانچ کی ایش ٹرے پر پڑی جو سگریٹ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے بھری پڑی تھی .. وہ تاسف سے اسے دیکھ کر رہ گیا.. پھر کرسی گھسیٹ کر اس کے برابر میں رکھ کر بیٹھتے ہوئے نرمی سے اسے مخاطب کیا تھا .. ” ریاض ..!!” احمد نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا تھا .. ” اوۓ ریاض ..کیا بات بھی نہیں کرے گا اب ؟…!” “میرا دماغ کام نہیں کر رہا ابھی ..!!” اس نے بغیر بازو ہٹاۓ جواب دیا تھا .. ” جو چیز تیرے پاس ہے ہی نہیں وہ کام کیسے کرے گی ؟؟..!!” احمد کے سکون سے کہنے پر اس نے تلملا کر اسے گھورا تھا .. “تم لوگ کیوں مجھے پاگل ثابت کرنے پر تل گئے ہو ؟؟…!!” وہ بازو ہٹا کر سیدھا ہو بیٹھا .. آنکھیں بے تحاشا سرخ ہو رہی تھیں اس کی .. “جو تیری حرکتیں ہے نہ اس پر تو تجھے یہی خطاب مل سکتا ہے ..!!” ” ایسا کیا کر دیا میں نے جو سب پیچھے پڑ گئے ہو ہاتھ دھو کر ..!!” تڑخ کر کہتے ہوئے اس نے سگریٹ کا ایک گہرا کش لیا تھا .. اور یہ تو احمد اچھے سے جانتا تھا کے وہ کتنا الرجک رہتا تھا سموکنگ سے .. اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا اس کا دھواں اور سمیل بار بار اسے اور حیدر کو سرزنش بھی کرتا رہتا تھا اس پر .. جو کبھی سگریٹ کو ہاتھ بھی نہیں لگاتا تھا آج اس حد تک اس نے سموکنگ کی کے پورا کمرہ دھویں سے بھر گیا .. اس کے ہونٹ سیاہ پڑ چکے تھے .. چہرے کی شادابی بھی ماند پڑ چکی تھی پتا نہیں کتنی دیر سے وہ کمرے میں ایک ہی پوزیشن میں بیٹھا تھا .. ” محبّت کرنا اگر جرم ہے تو کیا صرف مجھ پر ہی فرد جرم عائد ہوتی ہے ؟اور اشعر آفریدی کا کیا ؟ کیا اس نے اپنی پسند سے شادی نہیں کی تھی ؟ کیا اس کے سیل فون میں لائبہ کی تصویریں نہیں تھی ..خود جو کرے وہ ٹھیک وہیں کام ریاض چوہدری کرے تو گناہ ..واٹ دا ہیل یار ..!!” وہ سخت تپا بیٹھا تھا تیز لہجے میں کہتے ہوئے وہ ساتھ ہی سگریٹ کے گھرے کش لے رہا تھا .. احمد کو بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا اسے اس طرح سے سموکنگ کرتے دیکھ .. ایک ذرا سی غلط فہمی اس طرح بھی زندگی بھی اثر انداز ہو سکتی ہے کیا .. ” ریاض بات سن ..!!” وہ جو دوسری سگریٹ سلگانے لگا تھا احمد نے نرمی سے اسے کہتے ہوئے اس کے ہاتھ سے لائٹر اور سگریٹ کا پیکٹ لیا تھا .. “محبّت کرنا بری بات نہیں ہے ہاں لیکن کسی رشتے کے بغیر کسی کی تصویریں اپنے موبائل فون میں ڈال کر رکھنا یہ غلط ہے اور خاص کر کسی لڑکی کی .. لیکن تونے یہ غلط حرکت کی اوپر سے اپنے دوست کی بہن اور ایک پٹھان فیملی سے بلونگ کرنے والی لڑکی کی تصوریں سیو کر کے رکھنا تو بہت ہی غلط ہے اس پر تو کسی کا بھی دماغ گھوم سکتا ہے .. اشعر کا ری ایکشن فطری تھا ایک تو اس کا خون جلدی کھول جاتا ہے اس قسم کی باتوں پر ..اس نے تجھ پر ہاتھ اٹھایا تو صرف اس وجہ سے کے وہ تجھ سے ایسی حرکت کی توقع نہیں رکھتا تھا تم دونوں کافی قریب ہو ایک دوسرے سے اچھے سے ایک دوسرے کی پسند و نہ پسند کو جانتے ہو سمجھتے ہو ..اور اشعر کے نزدیک تو تیرا کریکٹر بہت ہی مہزب لڑکے کا تھا اس وجہ سے اسے زیادہ شاک لگا کے یہ انسان تو کسی لڑکی کو دیکھتا ہی نہیں اور کہاں میری بے خبری میں میری بہن کی تصویریں اپنے موبائل میں ڈال رکھی ہیں وہ بھی خفیہ فولڈر میں ..اگر تیری جگہ کوئی اور ہوتا نہ تو آئم شیور اتنا شدید ری ایکشن نہیں ہوتا اس کا …!!” “میں ایسا نہیں تھا احمد ..تو جانتا ہے مجھے لیکن ..کیا کروں میں مجبور ہوں اپنے دل کے ہاتھوں ..مجھے چین نہیں تھوڑا سا بھی جیسے ہی آنکھیں بند کرتا ہوں اسی کا چہرہ نظر آتا ہے بار بار اس کا خیال جھٹکنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن ..میں بے بس ہوں بہت نہیں بھلایا جاتا مجھ سے ..میں بھول ہی نہیں سکتا اسے ..میری غلطی نہیں ہے جو میں اس سے محبّت کر بیٹھا ہوں ..مجھے اختیار ہی کب تھا اپنے دل پر ..یہ جو بھی ہوا میری بے خبری میں ہوا .. لیکن اب میں محبّت کرتا ہوں اس سے شدید محبّت اس سے دست بردار ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا …صرف اس کی وجہ سے مجھے کسی چیز کا ہوش نہیں الجھ کر رہ گئی ہے میری شخصیت لیکن سکون سا ملتا ہے مجھے صرف اس کا نام ہی ایک دفعہ اپنے ہونٹوں سے لے لوں تو اور اشعر آفریدی …اسے لگتا ہے میں فلرٹی ہوں ..اس نے مجھے کہاں کس لڑکی کے پیچھے بھاگتا دیکھ لیا احمد ؟…!!” دونوں ہاتھوں میں سر گراۓ وہ دکھ سے زخمی لہجے میں کہے جا رہا تھا .. آج پہلی دفعہ اس نے کسی کے سامنے اپنا دل کھول رکھ دیا تھا .. اس کی بے قراری سے احمد انجان نہیں تھا کبھی وہ اس کی ذات کا حصہ بھی رہ چکی تھی .. “پریشان نہ ہو یار ..سب ٹھیک ہو جاۓ گا مان جاۓ گا اشعر بس وقتی غصہ ہے اس کے بعد ….!!” “مجھے فرق نہیں پڑتا اب اس کے ماننے یا نا ماننے سے ..اس کے نزدیک تو میں ایک فلرٹی ہوں نہ تو بس ٹھیک ہے ..جتنی حفاظت کر سکتا ہے کر لے اپنی بہن کی ..اس کےسامنے اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا ..!!” اس نے درشتی سے احمد کی بات کاٹ کر کہا تھا .. ” یہی چیز ریاض صاحب ..یہی چیز غلط ہے یہ کوئی طریقہ نہیں ہوتا کسے سے اس کی بہن کا ہاتھ مانگنے کا ..اس طرح سے تو ‘تو ان دونوں کو خود سے بدظن کر دیگا اور بلافرض اگر تو زبردستی ہی سہی اس سے شادی کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو کیا وہ دل سے قبول کرے گی تجھے ؟..کبھی نہیں ریاض ..محبّت کا مطلب حاصل کرنا نہیں ہوتا .. اگر محبّت کر ہی لی ہے تو اس کا مطلب بھی سمجھ اس کا احترام بھی کر ..اور یہاں مجھے تو ہی غلط لگ رہا ہے ..تجھے معافی مانگ لینی چاہیے اشعر سے معاملہ اس کی بہن کا ہے اور وہ خود کتنی ازیت میں ہوگی تیری حرکت سے تجھے اندازہ بھی نہیں اس کا ..اور اگر معافی نہیں مانگنا چاہتا تو ایٹ لسٹ اپنے برتاؤ میں تھوڑی نرمی تو لے کر آ اپنی غلطی کو تو مان ..جھک جانے سے کوئی بڑا چھوٹا نہیں ہوتا لیکن اپنی غلطی ایکسپٹ کرنے اور معافی مانگ لینے سے تیرا درجہ ضرور بلند ہو سکتا ہے اشعر کی نظروں میں بھی اور اس کی بہن کے لئے بھی …سمجھ رہا ہے نہ میری بات ؟…!!” “میں اپنے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھا ہوں ..مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا کچھ دکھائی نہیں دیتا سواۓ اس کے ..!!” کرسی کی پشت پر سر ٹکاۓ وہ تھکن سے کہ رہا تھا .. جو اس کے روم روم میں اتر آ ئی تھی .. “تجھے ایک بھرپور نیند کی ضرورت ہے ..آج آرام سے سو جا کل بات کریں گے اس پر میں تیرے ساتھ بس اتنا ہی دماغ کھپا سکتا تھا ..!!” ” تو تو اچھے سے سمجھ رہا ہوگا میری فیلنگز آخر کو تونے بھی تو محبّت کی ہے ..!!” “بلکل ..میں نے بھی محبّت کی ہے لیکن تیری طرح اسے سر پر سوار نہیں کیا ..!!” “ہنہ ..اگر ہوتا نہ زرنور کا بھی کوئی بڑا بھائی پھر پوچھتا میں ..!!” وہ سر جٹک کر بولا تھا ..
اگر اشعر نے زیادتی کی تھی تو ریاض کا ری ایکشن بھی ٹھیک نہیں تھا غلطی اگر تھی تو دونوں طرف سے تھی اور یہ ایسا مسئلہ بھی نہیں تھا کے جس کوئی حل نہ ہو … پورا ہفتہ ہو گیا تھا لیکن ان دونوں نے بات کرنا تو درکنار ایک دوسرے کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی . سب نے ہی اپنے اپنے طور پر سمجھا بجھا کر دیکھ لیا تھا لیکن کوئی بھی کچھ سمجھنے کو تیار ہی نہ تھا نہ جانے کتنی ہی پرانی دوستی تھی کتنا ہی گہرا رشتہ ان کے درمیان تھا ایسا نہیں تھا کے ان کی کسی بات پر کبھی ان بن نہ ہوئی ہوئی کبھی کوئی اختلاف نہ ہوا ہو بہت دفعہ ایسا ہو چکا تھا لیکن اتنی لمبی ناراضگی شاید ہی کبھی رہی ہو دونوں کے درمیان .. چاہتے تو ایک دوسرے سے معافی مانگ کر اس مسئلے کو ختم کر دیتے لیکن دونوں ہی اپنی آنا کے سامنے سر جھکانے پر راضی نہ تھے حالانکے دوستی جیسے رشتے میں تو انا کا تو کوئی عمل دخل ہی نہیں ہوتا یہ تو ایک انمول رشتہ ہوتا ہے جو کسی بھی غرض سے پاک ہوتا ہے .. دونوں ہی جانتے تھے کے اگر غلطی اس کی ہے تو میری بھی ہے ..لیکن اب جھکے کون ؟..!!
خوبصورت سے اسٹیج پر احمد کے ساتھ شہزادیوں کی طرح بیٹھی مہندی کے غرارہ سوٹ میں وہ بے حد حسین لگ رہی تھی .. یقین تھا کے آتا ہی نہیں تھا کے آنکھوں دیکھا وہ حال سب سچ تھا وہ کوئی خواب نہیں دیکھ رہی تھی .. احمد ہمیشہ کے لئے اس کا ہونے والا تھا .. وہ بار بار اپنے ہاتھوں میں لگی اس کے نام کی مہندی کو دیکھ تھی تھی .. جس کا رنگ بے حد گہرا آیا تھا … آج مہندی کی رسم تھی کل رخصتی ہو جانی تھی اس نے اپنا گھر چھوڑ کر احمد کے گھر کو مہکانے چلے جانا تھا ہمیشہ کے لئے .. یہی سوچ سوچ کر آنکھیں بھی بار بار بھر آ رہی تھی مناہل کے ٹہکا مارنے پر وہ اس کے خیال سے چونکی تھی .. مناہل اور حارث دو ہفتوں کے ٹور پر گئے تھے لیکن احمد کے ارجنٹ میں شادی کی ڈیٹ فکس کروانے پر انھیں ایک ہفتے میں ہی واپس آنا پڑا تھا .. کافی شارٹ نوٹس پر ساری ارینجمنس کی گئی تھی دونوں ہی زور و شور سے ان کی شادی کی تیاریوں میں بھرپور شرکت کر رہے تھے .. مناہل تو کافی نکھر گئی تھی حارث کی سنگت میں جتنی پیاری وہ جانے سے پہلے تھی واپس آنے کے بعد اور بھی خوبصورت ہو گئی تھی … “اہم اہم ..تم تو ابھی سے اس کے خیالوں میں کھو گئی ..صبر کر جاؤ کل فائنلی ہو رہی ہے تمہاری رخصتی ..!!” مناہل نے اسے مہںندی لگاتے ہوئے شرارت سے کہا تو وہ جھینپ گئی .. احمد ان لوگوں کے پاس جا چکا تھا اس وقت دونوں اکیلی بیٹھی تھیں .. ان ک بعد تیمور اور انوشے کی رسم بھی کی جانی تھی .. ناز ولید کے اصرار پر انوشے کی رخصتی بھی ساتھ ہی کی جا رہی تھی … زارا بخاری تو بار بار اپنی نم ہوتی آنکھوں کو پونچھ رہی تھیں کے ایک ساتھ دو بیٹیوں کو رخصت کر رہی تھیں .. اور اتنے تھوڑے سے عرصے میں ہی انوشے انھیں اپنی بیٹیوں کی طرح ہی عزیز ہو گئی تھی وہ تو برملا کہتی تھیں کے انوشے میری تیسری بیٹی ہے بس خدا نے کافی دیر سے ملایا مجھے اس سے ..لیکن چلو جو ہوتا ہے بہتر ہوتا ہے .. ان کے لئے تو وہ ایک گھر کے فرد کی ہی حثیت رکھتی تھی ..
وہ سلگتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جو حیدر کی کسی بات پر ہنس رہا تھا .. اشعر کو یاد نہیں تھا کے کتنے دنوں بعد اس نے ریاض کی شکل دیکھی تھی .. وہ دونوں جو دن میں کتنی ہی بار فون پر بات کرنے کے ساتھ تین چار ملاقات کر لیا کرتے تھے اتنے دنوں سے ایک دوسرے کو دیکھ بھی نہیں پا رہے تھے .. اشعر کا باریہا دل چاہا تھا کے ایک دفعہ اسے جا کر گلے لگا لے سارے گلے شکوے بھول جاۓ ..لیکن ہر بار وہ سختی سے اپنے دل کی آواز کو دبا رہا تھا اور اس نے کون سا آ کر سلام کر کے حال احوال پوچھ لیا تھا ..؟؟؟ ایسا بیگانہ بنا ہوا تھا کے جیسے جانتا ہی نہ ہو .. اس کی نظر فاریہ پر پڑی تھی جو اسٹیج پر انوشے اور تیمور کو مہندی لگا رہی تھی .. وہ اسے آج کے فنکشن میں لانا نہیں چاہتا تھا صرف اس وجہ سے لانے پر مجبور ہوا کر کہیں کوئی یہ نہ سمجھے کے اشعر آفریدی ڈرتا ہے کسی سے .. اور وہ خود کون سا آنا چاہتی تھی ؟.. کتنے ہی بہانے کتنے ہی عذر اس نے انوشے اور زرنور کے سامنے تراشے تھے لیکن دونوں نے اس کی ایک نہ چلنے دی تھی .. اس سے حامی بھروا کر ہی دم لیا تھا لیکن جب سے آئی تھی صرف یشفہ کے ساتھ ساتھ ہی تھی .. اور ساری بات تو یشفہ بھی جانتی تھی جبھی اسے اکیلا نہ چھوڑ رہی تھی .. نہ محسوس انداز میں سب کی توجہ اسی پر تھی خاص کر اشعر اور ریاض کی .. ایک کو اپنی بہن کی حفاظت درکار تھی تو دوسرے کو اپنے دل کی پیاس بھجانے سے مطلب تھا ..
سوفٹ ڈرنک کا نازک سا گلاس ہاتھ میں پکڑے وہ اس کی برابر والی کرسی پر بیٹھی تھی .. “یہ ریاض بھائی مجھے تھوڑے پاگل سے لگتے ہیں ..!!” اسنے سامنے ریاض کو پر سوچ نظروں سے دیکھتے ہوئے خود کلامی کے سےانداز میں کہا تھا .. “تمہیں آج پتا چلا ..!! موبائل کے ساتھ مصروف حیدر نے لاپرواہی سے جواب دیا .. “تم سمجھے نہیں حیدر ..وہ دونوں کس قدر کلوز فرینڈز ہیں اور ایک چھوٹی سی بات پر ایک ہفتے سے ایک دوسرے سے ناراض بیٹھے ہیں کچھ بھی ہو لیکن دوستی سے بڑھ کر تو کوئی رشتہ نہیں ہوتا نہ لیکن ریاض بھائی ..انھیں تو اپنی محبّت کے پیچھے اپنے دوست کا بھی خیال نہیں کیا ہو جاتا اگر وہ معافی مانگ لیتے تو ؟..!! یشفہ کی بات پر حیدر کے کان کھڑے ہو گئے تھے پہلے اس نے تھوڑی دور احمد کے ساتھ بیٹھے ریاض کو دیکھا جو سر جھکاۓ دونو بازوں سینے پر لپیٹے جانے اس کی کیا باتیں سن رہا تھا پھر دوبارہ اپنے برابر میں بیٹھی یشفہ کو دیکھا .. ” پہلے تو مجھے یہ بتاؤ کے تم اتنی سمجھداروں والی باتیں کیسے کر رہی ہو آج ؟..!!” حیدر نے مشکوک انداز میں اسے دیکھتے ہوئے پوچھا .. ” بی سیریس حیدر ..!!” یشفہ نے اسے ٹہکا مارتے ہوئے دانت پیس کر کہا .. “تمہارے لئے تو سیریس ہی ہوں بے بی ڈول …!!” حیدر نے گہری نظروں سے اسے تکتے ہوئے دلفریبی سے کہا تھا .. “پھر سے کہنا ..!!” یشفہ نے زور سے اپنی کہنی اس کے پیٹ میں ماری تھی .. “ہاۓ ظالم ..!!” وہ مصنوئی کراہایا .. “ویسے میں تمہیں ڈیٹ پر لے جا کر یہی سب کہنے والا ہوں اب تم کیا ہر بات کے جواب میں ایسے ہی اٹیک کرو گی مجھ پر .. ؟؟!!” ” ہر بار نہیں کروں گی ..میں گن لے کر جاؤں گی ایک ہی دفعہ میں کام تمام کر دوں گی تمہارا ..!!” اس کے اطمینان سے کہنے پر وہ بے ساختہ ہنسا تھا .. ” پھر تو میں مرنے کے بعد بھی فیمس ہو جاؤں گا ..!!” “کیسے ؟؟…!!” اس نے نہ سمجھی سے پوچھا .. “وہ ایسے کے ..نیوز پیپر میں خبر چھپے گی کے ایک عاشق کو اس کی محبوبہ نے صرف تھوڑا سا رومانس کرنے پر قتل کر دیا ..!!” “اسے رومانس نہیں فلرٹ کہتے ہیں مسٹر ڈرامے باز …!!” بالوں کو جھٹک کر پیچھے کرتے ہوۓ اس نے جس انداز میں کہا تھا وہ تو بس ضبط ہی کر کے رہ گیا تھا .. اس کی ادائیں چھریاں سی چلا دیتی تھیں دل پر .. “ویسے میں انتظار کر رہا تھا کب سے ..ابھی تک لڈو نہیں کھلاۓ تم نے ..!!” حیدر نے مناہل اور حارث کی مہندی کا حوالہ دے کر سرسری سا پوچھا تھا .. اس نے بے ساختہ در آنے والی مسکراہٹ کو چھپایا تھا .. ” کیا تمہیں اتنے پسند آۓ تھے کے دوبارہ سے کھانا چاہتے ہو ؟…!!” اس کا انداز معصوم سا تھا جب کے وہ خود کو سنجیدہ ظاہر کرنے کی پوری کوشش کر رہا تھا .. “اگر تم اپنے ہاتھوں سے کھلاؤ گی تو ضرور کھا لوں گا ..اور قسم سے پانی دو پانی دو کا شور بھی نہیں مچاؤں گا ..!!” “ٹھیک ہے حیدر ..تم مجھے ڈیٹ پر لے جا کر چاۓ بسکٹ کھلاؤ گے نہ تو میں تب ہی بنا کر لے آؤں گی ..!!ا” “میں نے اپنے دل پر لکھ لی ہے یہ ڈیٹ والی بات کے تم راضی ہو میرے ساتھ جانے پر اب مکر مت جانا ..!!” “کبھی نہیں .لیکن اگر تم نے وہاں جا کر مجھے پرپوز کیا تو پھر تمہارے زندہ رہنے کی کوئی گارنٹی نہیں..!!” “کیوں تم کیا میرے قتل کا پروگرام بنا کر بیٹھی ہو ؟ ..!!” ” ارادہ تو یہی ہے اب دیکھتے ہیں تمہاری قسمت کتنی اچھی ہے …!!” اس نے مسکراتے ہوئے بارہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا تھا لیکن اچانک ہی اس کی مسکراہٹ سمٹی تھی .. حیدر کی آنکھوں میں وہ اپنا عکس صاف دیکھ سکتی تھی .. وہ جانتی تھی حیدر کی نظریں اس کے لئے بدل چکی ہیں اب وہ کسی اور ہی نظر سے اسے دیکھتا ہے .. لیکن یہ تو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کے اس کی فیلنگز بھی کبھی بدل سکتی ہیں وہ بھی حیدر کے لئے….