وہ جانتی تھی حیدر کی نظریں اس کے لئے بدل چکی ہیں اب وہ کسی اور ہی نظر سے اسے دیکھتا ہے .. لیکن یہ تو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کے اس کی فیلنگز بھی کبھی بدل سکتی ہیں وہ بھی حیدر کے لئے….؟؟ “کیا ہوا کدھر کھو گئیں ؟..!!” حیدر نے اس کے سامنے چٹکی بجائی تو وہ فورآ ہی چونک کر حال میں لوٹی جہاں وہ ابھی بھی اسی کی جانب متوجہ تھا .. وہ گم سم انداز میں اسے دیکھے گئی .. “کیا بہت زیادہ نشیلی ہیں میری آنکھیں ؟؟.جو ایسے ڈوب گئی ہو ..!!” حیدر نے شرارت سے اس سے پوچھا تھا یشفہ نے فورآ ہی خود کو سنبھالا تھا “نشیلی تو نہیں لیکن خاصی بے لگام ہیں انہیں قابو میں رکھو تو بہتر ہے ..!!” وہ پھر سے پہلی والی یشفہ بن گئی تھی ” نظریں بھی کوئی قابو میں رکھنے والی چیز ہیں کیا ؟؟..!!” اس کا جواب بھی برجستہ تھا “رکھنی چاہیے ..فائدے میں رہو گے ..!!” وہ ہلکا سا مسکرائی تھی ” فائدے اور نقصان کی فکر کسے ہے اب ؟؟ اور جب دل ہی قابو میں نہ ہو تو نظروں پر پہرے بٹھا کر کیا کرے انسان ؟؟..!!” حیدر نے خاصے گہرے انداز میں کہا تھا یشفہ نے ایک ابرو اٹھا کر اسے تنقیدی نظروں سے دیکھا تھا ” ایک بات کہوں میں بلکل سچ ؟؟..!!” اس نے توقف سے حیدر سے پوچھا تھا ” جھوٹ بھی بولو گی تو مجھے سچ ہی لگے گا ..!!” “یہی چیز ..اسی کے بارے میں کہنے والی تھی میں ..بہت برے لگتے ہو اس قسم کی باتیں کرتے ہوئے ..!!” “اہاں ..کس قسم کی ؟؟..!!” حیدر نے دلچسپی سے پوچھا ” یہی پیار محبت دل وغیرہ کی ..!!” وہ اپنے انداز کو سرسری سا بنانے کی کوشش کر رہی تھی “اسے عشقیہ گفتگو کہتے ہیں میڈم ..جو دو محبّت کرنے والوں کے درمیان کی جاتی ہے ..!!” اس نے جیسے یشفہ کی معلومات میں اضافہ کیا تھا جبکے وہ استہزایہ سا ہنسی تھی ” اگر ایسا ہے تو پھر یہ باتیں ہمارے بیچ کیوں ہو رہی ہیں؟؟..میں تو نہ تم سے محبّت کرتی ہوں اور نہ ہی عشق …!!” اپنے دل کی آواز کو دباتے ہوئے اس نے بناوٹی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا تھا لیکن حیدر کی محفوظ سی انوکھی سی مسکراہٹ سے لگ رہا تھا جیسے وہ سب سمجھ رہا تھا کے یشفہ کے اندر کیا چل رہا ہے .. ” اس پر ڈیٹیل میں بات ہو سکتی ہیں کسی دن فرصت میں کریں گے ..!!” “مرضی تمہاری ..!!” اس نے اپنے شانے اچکا دئے تھے
“اس قدر بورنگ مہندی آج سے پہلے کبھی اٹینڈ نہیں کی میں نے ..!!” ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھے ریاض نے بیزاری سے ان کو مخاطب کر کے کہا تھا .. ” نہیں تو کیا تجھے اپنے “سالے” کے ساتھ ڈسکو ڈانس کر کے چار چاند لگانے ہیں ؟..!!” تیمور نے طنز سے اس سے پوچھا تھا ” سالے کے ساتھ کیوں ؟..اس کی بہن کے ساتھ کیوں نہیں ؟..!!” ریاض نے سنجیدگی سے پوچھا تھا “اتنا سب ہونے کے بعد بھی تجھے اس کی بہن کے ساتھ ڈانس کرنا ہے ؟..!!” حارث نے حیرت سے اسے دیکھا جس کے چہرے پر کسی فکر کسی پریشانی کے کوئی آثار ہی نہیں تھے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو .. ” ہاں ..وہ بھی اکیلے میں ..!!ا” اس کے آنکھ میچ کر کہنے پر حارث اور تیمور کے درمیان خاموش نظروں کا تبادلہ ہوا تھا .. پھر حارث نے گہری سانس لیتے ہوئے ٹیبل پر ڈنر کے لئے رکھی گئی کانچ کی بھاری سی پلیٹ اٹھا کر اس کے سر میں ماری تھی .. ” اترا عشق کا بھوت ؟؟..!!” ” آہہ ہ ..!!’ وہ کراہ اٹھا .. ” کیا کر رہا ہے پاگل آدمی ؟ سر پھاڑے گا کیا میرا ؟؟..!!” وہ سر پکڑے اسے گھور کر بولا .. ” جس قسم کی تیری حرکتیں ہیں تیرا سر پھاڑ ہی دینا چاہے ..!!” تیمور نے بھی ٹھنڈے انداز میں کہا تھا لیکن ریاض کو جانے کس بات پر تپ چڑھ چکی تھی وہ فورآ سیدھا ہو کر بیٹھا .. ” بات سنو میری ..یہ حارث اور وہ کمینہ سوری میرا ہونے والا سالا (اشعر ) اپنی مرض و منشا سے پسند کی شادی کر چکے ہیں..اور تو یعنی کے تیمور اور وہ احمد جو میرے سالے کے پاس کھڑا جانے کونسے جنتر منتر پڑھ کر اس کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا ہے (اس کا اشارہ احمد اور اشعر کی طرف تھا جو ڈانس فلور کے تھوڑا آگے کھڑے کچھ ڈسکس کر رہے تھے لیکن زیادہ احمد ہی بول رہا تھا ) تم دونوں کی بھی دو دن بعد شادی ہو جانی ہے اور جہاں تک میں جانتا ہوں تمہاری بھی لّو میرج ہی ہے اور رہی بات حیدر صاحب کی تو وہ ابھی اپنی محبوبہ کو شیشے میں اتارنے کی پوری کوشش کرتے نظر آرہے ہیں ..اب میرا سوال یہ ہے کے مجھ سے کس قسم کی دشمنی نکال رہے ہو ؟؟اتنے پابندیاں کس خوشی میں لگائی جا رہی ہیں ..؟ جب تم سب پسند کی شادی کر رہے ہو تو مجھ پر کیوں جرم کی دفعہ نافذ کر رہے ہو ؟…!!” وہ تلخ انداز میں کہ رہا تھا ” کوئی پابندی نہیں لگائی جا رہی چوہدری صاحب اگر ہماری شادیاں اتنے سکون سے ہو رہیں ہیں تو تیری بھی ہو جاتی اگر تو شرافت سے لڑکی کا ہاتھ مانگ لیتا ..!!” اپنے عقب سے آنے والی آواز پر وہ فورآ پلٹا تھا جہاں احمد کائی کلر کے کڑھائی والی کرتے میں بہت ہینڈسم لگ رہا تھا آستینیں فولڈ تھی جبھی چوڑی کلائی پر بندھا مہندی کی رسم والا کنگنا صاف نظر آ رہا تھا .. “مانگا تھا میں نے ہاتھ ..لیکن بدلے میں اس نے اپنا ہاتھ دے دیا وہ بھی میرے چہرے پر ..!!” سر جھٹک کر اس نے ناراضگی سے کہا تھا ” جس طرح سے تونے مانگا تھا اس میں تو تجھے دس بارہ مکے تھپڑ مزید ملنے چاہیے تھے ..!!” تیمور نے پھر طنز سے کہا ” ہاں ہاں میرے ہی پیچھے پڑ جاؤ سب ..میری ہی غلطی ہے میں ہی برا ہوں بس.. تم سب تو نیک روحیں ہو نہ جنت کے باغوں میں گھوموں گے ..!!’ اس کا موڈ خراب ہو چکا تھا ” دیکھ ریاض تجھے بھائی کہتے ہیں اس لئے مخلصانہ مشورہ دے رہے ہیں معافی مانگنے میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکے تیرا وقار بلند ہی ہوگا اشعر کی نظر میں ..!!” حارث نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے سمجھایا تھا “اب یہ وقار کون ہے ؟اور میں کیوں بلند کرواؤں اسے ؟..!!” اس کے جھنجھلا کر پوچھنے پر حارث نے صبر کے گھونٹ بھرے تھے .. ” یو نو واٹ ریاض ..تو اب تک سنگل کیوں ہے ؟؟..!!” ” اپنی شرافت کی وجہ سے ..!!” اس نے دوبدو کہا تھا ” بس اسی شرافت کو گلے سے لگا کر اس کے پاس دفع ہو جا معافی مانگ لے اس سے ورنہ ہمارے بچے تجھ سے کہیں گے کے “ریاض چاچو حد ہے محبوبہ کے بھائی کو نہیں پٹایا گیا آپ سے ؟؟..!!” “حارث نے طنز سے کہتے ہوئے شرم دلانی چاہی تھی .. ” ابے تو باپ بننے والا ہے ؟؟ بتایا بھی نہیں ..!!” ریاض حیرت سے اس سے پوچھنے لگا تھا جہاں احمد اور تیمور نے مسکراہٹ دبائی تھی وہیں وہ بھی جھینپ گیا تھا کچھ نہیں ہے ایسا کمینے ..!!” “تو پھر وہ بچوں والا لیسن دینے کی کیا ضرورت تھی ..!!” اس کے چہرے پر پھر بے زاری چھا گئی .. “کچھ نہیں ہو سکتا اس بیوقوف کا …!!” اس کے سر پر چپت لگاتے ہوئے حارث اپنی جگہ سے اٹھ کر اسٹیج کی جانب بڑھ گیا تھا “تیری کیا راۓ ہے میرے بارے میں تو بھی بتا دے …!!ا” ریاض نے ناراضگی سے تیمور کو مخاطب کیا تھا ” تجھ پر غور و فکر کرنے اور راۓ دینے سے بہتر ہے کے میں اپنی مہندی کے فنکشن کو انجوۓ کر لوں ..بھائی احمد یہ تیرے حوالے ..!!” خشک انداز میں کہتے ہوئے وہ بھی حارث کے پیچھے جا چکا تھا .. “میں معافی نہیں مانگو گا پہلے ہی بتا رہا ہوں ..!!” احمد کو اپنی جانب متوجہ ہوتے دیکھ اس نے پہلے ہی وارن کر دیا تھا .. “مطلب کے تجھے شادی نہیں کرنی اس کی بہن سے …!!” “یہ کہاں لکھا ہے احمد کے معافی مانگنا صرف مجھ پر ہی فرض ہے ؟؟…!!” ” فرض کی بات نہیں ہے غلطی جس کی ہوتی ہے معذرت بھی اسے ہی کرنی پڑتی ہے ..!!” “سارا قصور میرا تھا ؟ اور وہ معصوم ہے؟ ہے نہ ؟؟…!!” اس کے لہجے میں طنز سا گھلا تھا ” قصور تیرا ہے کیوں کے تونے غیر مہزب بات کی اس کی بہن کے حوالے سے …تو ایکسکیوز کر لے اگر وہ تجھے معاف کر کے اپنی بہن کا ہاتھ نہ دے تو کہنا ویسے دینا تو نہیں چاہیے کیوں کے جب بات غیرت پر آجاۓ تو سالوں پرانی دوستی پر بھی گرد کی چھاپ پڑ جاتی ہے جو مشکل سے ہی صاف ہوتی ہے …!!’ احمد اسے ہر طرح سے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا “تو میں نے کون سا اس کی غیرت پر ہاتھ ڈالا ہے ؟؟..!!” وہ سلگ ہی تو اٹھا تھا “ایک ہی بات ہے اور دیکھ ریاض جو میں تجھے کہ رہا ہوں وہ کرنا پڑے گا ..مجھے شادی کی کوئی جلدی نہیں تھی جہاں اتنا انتظار کیا تھا وہاں ایک ہفتہ اور کر لیتا لیکن تیری وجہ سے مجھے ارجنٹ میں یہ سب کرنا پڑا دو دن بعد برات ہے اگر تم دونوں کے بیچ سب سیٹ نہیں ہوا تو میں تم دونوں کو ہی نہیں لے کر جاؤں گا اپنے ساتھ برات میں ..!!” احمد کے حتمی انداز پر وہ تلملا اٹھا تھا .. ” میری کیا غلطی ہے بھائی ؟ سب میرے پیچھے ہی پڑے ہو اور جو اس نے کیا وہ کسی کو نظر نہیں آتا ؟ میں نے تو صرف اپنی محبّت کی پکس رکھی تھی سیل میں اگر بد قسمتی سے وہ اس کی بہن ہے تو میں کیا کروں ؟؟.. ایک تو بلااجازت وہ میرے فون میں گھس گیا مجھ پر ہاتھ اٹھایا اتنی باتیں سنائی مجھے فلرٹی کہا اور تو اور میرا فون بھی توڑ دیا اتنی مشکل سے میں نے اس کی تصویریں محفوظ کی تھیں اب کہاں سے لاؤں گا دوبارہ؟؟..!!” وہ بگڑے موڈ کے ساتھ کہے جا رہا تھا .. “ایک تھپڑ تو میں بھی لگا دوں گا تیرے ..بجا ۓ اس سے معافی مانگنے کے تو تصویروں کا رونا رو رہا ہے ؟؟ ابے بےوقوف آدمی معافی مانگ لے اس کے بھائی سے وہ شادی کروا دیگا تیری پھر ساری زندگی اپنے سامنے بٹھا کر دیکھتے رہنا اسے …!!!” احمد کا بس نہ چلتا تھا کے وہ کیسے بھی کر کے اپنی بات اس کے دماغ میں بٹھا دے .. “اور تجے ایسا کیوں لگتا ہے کے وہ میرے معافی مانگتے ہی آسانی سے ہاتھ کی ہاتھ میرا نکاح پڑھوادے گا ؟؟..!! “کیوں کے وہ تیری طرح بے وقوف اور حد سے زیادہ ضدی نہیں ہے اسے خیال ہے اپنی برسوں پرانی دوستی کا اگر تو اسی دن کچھ گھنٹے بعد جا کر ہی معذرت کر لیتا تو بات اتنی بڑھتی ہی نہیں ..!!” اور وہ ٹھیک کہ رہا تھا اشعر تو اسے دل سے معاف کرنے کو راضی تھا لیکن ایک دفعہ وہ معذرت تو کرے اپنی شرمندگی کا احساس تو دلاۓ اپنی غلطی تو مانے …!!” “سوچوں گا …!!” ریاض نے فخط اتنا ہی کہا تھا ” ابھی بھی سوچوں گا …!!” احمد کا دل کیا تھا اپنا سر پیٹ لے ایک چھوٹی سی بات اسے سمجھ میں آ ہی نہیں رہی تھی
“کیا ہوا فاری ؟؟..!!” اشعر نے اس کے سامنے چئیر پر بیٹھتے ہوۓ نرمی سے پوچھا تھا ” ک کچھ نہیں بھائی ..!!” اس نے زبردستی مسکراہٹ چہرے پر سجائی تھی ورنہ تو اس کے ہونٹ جیسے ہنسنا ہی بھول گئے تھے اشعر اسے نوٹ کر رہا تھا جب سے آئی تھی یشفہ کہ ہی ساتھ ساتھ تھی اسٹیج پر بھی صرف ایک دفعہ ہی گئی ہوگی رسم کرنے ورنہ تو وہ دونوں الگ تھلگ ہی تھیں .. اور پھر ریاض بھی تو سفید کرتا شلوار میں شہزادوں کی طرح سے مغرور بنے اسٹیج کے آس پاس ہی منڈلا رہا تھا مجال ہے جو وہ ایک سیکنڈ کے لئے بھی منظر سے اوجھل ہو جاۓ .. ” یہاں کیوں ایسے بیٹھی ہو تمہاری فرینڈز کی مہندی ہے انجوۓ کرو بیٹا ..!!” بہن سے بات کرتے ہوئے تو اس کے لہجے میں مٹھاس ہی ہوتی تھی ” مجھے بابا اور بی جان کی یاد آ رہی ہے گھر جا کر انھیں فون کروں گی ..!!” آنکھ کے کنارے پر اٹکا موتی اس نے انگلی کی پور سے صاف کرتے ہوئے بھیگے لہجے میں کہا تھا ” ابھی بات کر لو اگر کرنا چاہو تو واپسی تو پتا نہیں کب تک ہو ..!!” اشعر نے کہتے ہوئے خود ہی اپنا فون نکال کر نمبر ڈائل کر کے اس کی سمت بڑھایا تھا ..!!”
“احمد ..!!” زرنور نے ہلکا سا ٹہکا دیتے ہوئے اسے متوجہ کیا تھا “جی جان احمد ..!!” اس نے بھی جوابا سرگوشی کی تھی .. وہ دونوں ہی اسٹیج پر قریب قریب بیٹھے تھے حیدر مووی مینز والوں کے ساتھ ان کا فوٹو شاٹ کروارہا تھا “ڈانس کروگے میرے ساتھ ؟..!!” ” ہیں ..؟؟!!” زرنور کی عجیب ہی فرمائش پراحمد نے حیرت سے اسے دیکھا تھا یہ فرمائش کم از کم احمد کے لئے تو عجیب ہی تھی ” اس میں اتنا چونکنے والی کیا بات ہے ؟ سب کرتے ہیں اشعر اور حارث نے بھی تو کیا تھا ..!!” وہ اتنی آہستہ آواز میں کہ رہی تھی کے با مشکل ہی اس کی آواز احمد تک پہنچ رہی تھی “لیکن مجھے ڈانس کہاں آتا ہے نور ؟..!!” اس نے ایک اور وجہ بتائی .. “اتنے معصوم بھی نہیں ہو تم اٹلی میں رہے ہو ساری زندگی کپل ڈانس کا تو پتا ہی ہوگا ..!!” “اب ڈانس کرنے اور اٹلی میں رہنے میں کیا چیز مشترک ہے ؟؟.. “اور یہ بار بار اٹلی کو بیچ میں کیوں لے آتے ہیں ..؟؟!!” “اب ضروری تو نہیں کے کوئی انسان ساری زندگی اگر غیر ملک میں رہا ہو تو اسی کے رنگ ڈھنگ میں ڈھلا ہو …!!” اس بات کو دوستوں کو سمجھانے میں جتنی مشکل در پیش آتی ہے اتنی بیوی کو سمجھانے میں نہیں آتی کیوں کے آپ اسے سمجھانے کی کوشش ہی نہیں کرتے .. کے اس نے ماننا تو ہے نہیں پھر کیوں کوشش کر کے انرجی ویسٹ کریں .. اور کچھ دیر میں وہ دونوں ڈانس فلور پر موجود تھے اور واقعی میں زرنور کے مطابق وہ اتنا معصوم بھی نہیں تھا جو کپل ڈانس نہ جانتا ہو .. پورے ہال کی لائٹس آف تھی صرف سپاٹ لائٹس ان دونوں پر فوکس تھی .. جتنے پاس ہیں خوشبو کے سانس کے جتنے پاس ہونٹوں کے سرگم جیسے ساتھ ہیں کروٹ یاد کے جیسے ساتھ بانہوں کے سنگم جتنے پاس پاس خوابوں کی نظر اتنے پاس تو رہنا ہم سفر … تیرے ہاتھ میں , میرا ہاتھ ہو ساری جنتیں میرے ساتھ ہوں .. تو جو پاس ہو پھر کیا یہ جہاں .. تیرے پیار میں ہو جاؤں فنا ..!!” “کبھی دلہن بھی خود سے ڈانس کرنے کی فرمائش کرتی ہے ؟؟..!!” احمد نے آہستہ سے اس کے کان میں سرگوشی کے سے اندز میں پوچھا ” جب دولہا خود سے آفر نہیں کرے گا تو ناچار دلہن کو ہی پوچھنا پڑے گا نہ ..؟؟!!” اس نے خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ سپاٹ لائٹ میں چمکتے احمد کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا .. ” مطلب کے مجھے پوچھنا چاہیے تھا ؟؟…!!” اس کا انداز بھی محفوظ سا تھا “بلکل ..!!” ” چلو نیکسٹ ٹائم پوچھ لوں گا ..!!” “تم نے مزید کتنی شادیاں کرنی ہے احمد ؟؟..!!” وہ بے ساختہ ہنستے ہوئے پوچھ رہی تھی ” تعداد کا تو پتا نہیں لیکن جتنی دفعہ بھی کروں گا تم سے ہی کروں گا ..یہ خانزادہ کا وعدہ ہے ..!!” احمد نے محبّت سے کہتے ہوئے زرنور گلے لگایا تھا .. پورا ہال سیٹیوں اور تالیوں کی آواز سے گونج رہا تھا ..
ریاض کی بے چینی بھی حد سے سوا تھی احمد اور نور کو ڈانس کرتے دیکھا تھا وہاں سے اٹھ کر ہال سے باہر ہی آ گیا کے کہیں ان کی خوشیوں کو میری نظر ہی نہ لگ جاۓ .. کھلی ہوا میں وہ گہری گہری سانس لے کر خود کو پر سکون کر رہا تھا لیکن بس تھوڑی سی دور کچے سیب کے رنگ کے سٹائلش سے سوٹ میں ملبوس سر پر دوپٹہ لئے کھڑی اس لڑکی پر ریاض کو گمان سا گزرا تھا .. جبکے “اللہ حافظ” کہ کر فون کان سے ہٹا کر آف کرتے فاریہ نے ٹشو سے اپنی نم آنکھوں کو رگڑا تھا جس کے باعث اس کا کاجل ہلکا سا پھیل گیا تھا اندر جانے کے لئے جیسے ہی مڑی سامنے کھڑے ریاض کو دیکھ کر بری طرح چونکی تھی .. جو سپاٹ چہرے کے ساتھ قدم بڑھاتے اس کی سمت آرہا تھا ..