ریاض کی بے چینی بھی حد سے سوا تھی احمد اور نور کو ایک ساتھ دیکھا تو وہاں سے اٹھ کر ہال سے باہر ہی آ گیا کے کہیں ان کی خوشیوں کو میری نظر ہی نہ لگ جاۓ .. کھلی ہوا میں وہ گہری گہری سانس لے کر خود کو پر سکون کر رہا تھا لیکن بس تھوڑی سی دور کچے سیب کے رنگ کے سٹائلش سے سوٹ میں ملبوس سر پر دوپٹہ لئے کھڑی اس لڑکی پر ریاض کو گمان سا گزرا تھا .. جبکے “اللہ حافظ” کہ کر فون کان سے ہٹا کر آف کرتے فاریہ نے ٹشو سے اپنی نم آنکھوں کو رگڑا تھا جس کے باعث اس کا کاجل ہلکا سا پھیل گیا تھا اندر جانے کے لئے جیسے ہی مڑی سامنے کھڑے ریاض کو دیکھ کر بری طرح چونکی تھی .. جو سپاٹ چہرے کے ساتھ قدم بڑھاتے اس کی سمت آرہا تھا .. فاریہ کے چہرے پر ڈر و خوف صاف چھلکنے لگا تھا … “کیا ہوا ؟ اتنا ڈر کیوں رہی ہو مجھ سے ؟؟..!!” “پپ پیچھے ..پیچھے رہو مجھ سے ..!!” وہ با مشکل ہی بول پائی تھی ورنہ تو آواز جیسے حلق میں اٹک سی گئی تھی ریاض کو احساس ہو گیا تھا اس کے ڈر کا جبھی اپنے قدم وہیں روک لئے .. “میں تو بس تم سے” اس دن ” کے لئے اپولوجائیز کرنا چاہ رہا تھا شاید کچھ زیادہ ہی روڈ ہو گیا تھا میں ..!!” اسے آج موقع مل ہی گیا تھا فاریہ سے ایکسکیوز کرنے کا جب اس بے حارث کی شادی کے دوسرے دن کافی مس بی ہیو کیا تھا اس کے ساتھ.. اور اس دن کے بعد سے تو فاریہ نے بھی سوچ لیا تھا کے آئندہ اگر اس نے تنہائی کا فائدہ اٹھا کر کچھ کہنا چاہا تو وہ وہیں اس کی طبیعت صاف کر دے گی لیکن ریاض کے سامنے آتے ہی اس کی آواز تک ہی بند ہو گئی تھی خوبصورت سی گہری آنکھوں میں دہشت سی نظر آ رہی تھی “دیکھو فاریہ میرا مقصد ہر گز تمہیں ڈرانا دھمکانا نہیں تھا وہ تو تم مجھے اگنور کرتی ہو تو غصہ آجاتا ہے ..وہ کیا ہے نہ کے مجھے عادت نہیں اگنور ہونے کی آج تک میں ہر لڑکی کو کرتا آیا ہوں اب جب مجھے کسی نے پہلی دفعہ کیا وہ بھی ایک لڑکی نے تو بس دماغ ہی گھوم گیا ورنہ میں اتنا تیز نہیں ہوں غصّے کا ..!!” وہ نرمی سے اس کے چہرے کو فوکس میں رکھتے ہوئے کہ رہا تھا اب اشعر کی بہن سے شادی کرنی تھی تو اس سے پہلے بہن کا دل ہی اپنی طرف سے صاف کرنا تھا ورنہ اگر اشعر مان جاتا اور وہ انکار کر دیتی تو پھر کیا فائدہ ؟ وہ ہر ممکن کوشش کرنا چاہتا تھا اس کو منانے کی بس ایک دفعہ وہ اسے معاف کر دے شادی کے لئے راضی ہو جاۓ پھر بعد کی بعد میں دیکھی جاۓ گی اور کیا ریاض جانتا نہیں تھا کے ہر دفعہ سامنا ہونے پر کس قدر ناگواری اور بیزاری سی فاریہ کے چہرے اور آنکھوں میں نظر آتی تھی آج تک جس کی بھی نگاہ اس کی طرف اٹھی تھی سب میں ستائش ہی ہوتی تھی اس کی پرسنیلیٹی کے لئے لیکن وہ لڑکی ..اسے اتنا برا کیوں لگتا تھا ریاض چوہدری ؟؟ اور اس کا جواب تو وہ ہر حال میں اس سے لینا چاہتا تھا لیکن شادی کے بعد …!!” اس دن کے بعد سے آج اس کے چہرے پر ناگواری کے ساتھ ڈر و خوف بھی تھا ریاض کو افسوس سا ہوا تھا کے اس کی ایک حرکت سے وہ مزید بد گمان ہو گئی تھی ” میں سوری کر رہا ہوں تم سے فاریہ ..!!” ریاض نے ذرا زور دے کر کہا تھا کے وہ اس کی بات سن بھی رہی ہے یا نہیں .. لیکن اس کے ذہن میں تو کچھ اور ہی چل رہا تھا یہ سامنے کھڑا شخص وہی تو تھا جس کی وجہ سے اس کے جان سے پیارے بھائی نے کتنے غصے سے پہلی دفعہ اتنی تیز آواز میں اس سے باز پرس کی تھی وہ بھی اس بات کے لئے جس سے اس کا کوئی لینا دینا ہی نہیں تھا کوئی تعلق ہی نہیں تھا “آپ اس قابل ہی نہیں کے آپ کو معاف کیا جا سکے ..!!” زہر خند لہجے میں کہتے ہوئے وہ اس کے ساتھ سے ہو کر آگے بڑھ گئی تھی ریاض اسے روکنے کے لئے مڑا تھا لیکن اسی طرف آتی یشفہ کو دیکھ کر اسے ناچار رکنا پڑا تھا “کیا ہوا فاریہ ٹھیک تو ہو ؟..!!” یشفہ نے تشویش سے اس کی پیلی پڑتی رنگت کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ” ہاں بس وہ ..سر سر میں درد ہونے لگا ہے میرے .!!” زبردستی مسکراتے ہوئے اس نے دقت سے جواب دیا تھا ” اندر چلو پھر ..!!” یشفہ نے بس ایک ہی نظر ریاض کو دیکھا تھا جو لا تعلق سا بنا رخ موڑ چکا تھا ” ریاض بھائی نے کچھ کہا ہے تم سے ؟..!!” اندر کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے یشفہ نے آہستہ سے اس سے پوچھا تھا “نن نہیں تو ..!!” اس نے گھبرا کر جلدی سے کہا تھا جتنا تماشا ریاض کی وجہ سے لگ چکا تھا وہ بہت تھا مزید وہ کسی کی گفتگو کا موضوع نہیں بننا چاہتی تھی نہ ہوتے ہوئے بھی وہ خود کو قصوروار سمجھتی تھی .. ” ٹھیک ہے تم پریشان نہ ہو ..!!” نرمی سے کہتے ہوئے وہ اسے اپنے ساتھ لگاۓ اندر کی جانب بڑھی تھی
“کیا یہ معاملہ اتنا سیریس ہے اشعر جو سلجھ نہیں سکتا ..!!” وہ جو آئنے میں دیکھتے ہوئے بال بنا رہا تھا لائبہ کی بات پر اس کے ہاتھ تھمے تھے گہری سانس لیتے ہوئے اس نے اس نے برش واپس ڈریسنگ پر ڈالا تھا “یہ مت سمجھنا لائبہ کے میں نے اسے اپنی آنا کا مسلہ بنا لیا ہے مجھے خود بھی افسوس ہے دکھ ہے اس کا جو بھی ہوا لیکن میں یہ کسی طور برداشت نہیں کروں گا کے کوئی بھی شخص میری بہن کی تصویروں کو ایسے اپنی جیب میں لئے گھومتا پھرے ..اب چاہے وہ میرا دوست ہی کیوں نہ ہو ..!!” “لیکن اس کی نیت تو غلط نہیں تھی نہ ؟؟اب جو اس نے اتنی بڑی بات کہی ہے تو اس کا مطلب تو یہی ہوا نہ کے وہ ہماری فاری کو اپنانا چاہتا ہے اس سے شادی کرنا چاہتا ہے ..اور ویسے بھی ایک نہ ایک دن تو ہمیں اس کی شادی کرنی ہی ہے تو پھر ریاض ہی کیوں نہیں ؟؟..!!” لائبہ نے اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا ” اگر اسے شادی ہی کرنی ہی تھی تو سیدھے سیدھے مجھ سے بات کر لیتا اگر شرم آ رہی تھی تو اپنے ماں باپ کو ہی بھیج دیتا لیکن نہیں ..ریاض چوہدری نے آج تک کوئی کام سیدھے طریقے سے کیا ہو تو وہ کرے نہ ..اتنے دن گزر گئے لیکن ابھی تک اس نے مجھ سے ایکسکیوز نہیں کیا ہاں مانا کے غلطی میری زیادہ تھی لیکن مطلب تو اس کا تھا نہ ؟؟..شادی تو اس کو کرنی ہے نہ کیا وہ آ کر جھوٹے منہ ہی سوری نہیں کہ سکتا تھا ؟؟…!!” پرفیوم کا سپرے کرتے ہوئے وہ برہمی سے اسے دیکھتے ہوئے کہ رہا تھا ” کیا پتا اشعر وہ شرمندہ ہو تم سے ..ہچکچا رہا ہو تمہارا سامنا کرنے سے …!!” “رہنے دو لائبہ ..شرمندہ ہونا تو اس نے کبھی سیکھا ہی نہیں …غلطی اگر اس کی ہو بھی تو جھکنا سامنے والے کو ہی پڑتا ہے ..!!” “تو پھر ایسا کب تک چلے گا اشعر ؟ کب تک تم دونوں ایسے ہی ایک دوسرے سے خفا رہو گے ؟؟..!!” “تم ٹینشن مت لو میری جان جلد ہی نمٹ جاۓ گا یہ مسلہ بھی …!!” اشعر نے اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے ملائمت سے کہا تھا ” وہ تو بے وقوف ہے لیکن تم تو سمجھدار ہو نہ اشعر کیا معاف نہیں کر سکتے اسے ؟؟..!!” “میں اسے معاف کر دیتا اگر وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہوتا تو ..!!” اچھا اگر اب وہ تم سے معافی مانگے تو کر دو گے نہ اسے معاف ؟؟…!” وہ بے چینی سے سوال پر سوال کئے جا رہی تھی ” اشعر پلیز ..میری خاطر اسے معاف کردو وہ فاریہ میں انٹرسٹڈ ہے اسے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہے اور پھر کہیں ملے گا بھی نہیں تمہیں اس سے اچھا داماد ..!!” ” سوچوں گا ..فلحال تو تم ریڈی ہو جاؤ اور فاری سے بھی کہ دو تم دونوں کو عباد انکل کی طرف چھوڑنے کے بعد مجھے شوروم بھی جانا ہے ..!!!” اس نے ریسٹ واچ باندھتے ہوئے کہا تھا لائبہ کے لئے تو یہی بہت تھا کے وہ معاف کرنے کے لئے مان گیا تھا اب انتظار تھا تو بس اس کے معافی مانگنے کا …
وہ سب کمرے میں جمع کل کے فنکشن کو ہی ڈسکس کر رہی تھی جبھی باہر لاؤنج سے آتے غیر معمولی شور کی آواز پر چونکیں تھیں .. “میں دیکھتی ہوں ..!!” کھلے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے شال اپنے گرد لپیٹتی یشفہ جلدی سے اٹھ کر باہر آئی تھی لیکن وہاں کا منظر دیکھ کر تحیر سے دونوں ابرو اٹھے تھے “آپ لوگ کیا کر رہے ہیں یہاں ؟ برات تو دو دن بعد ہے نہ ..!!” اس نے صوفوں اور کارپیٹ پر نیم دراز ان لوگوں کو مخاطب کر کے کہا تھا ” آپ کہیں تو آج ہی پڑھوا لیں نکاح ..!!” انگلی پر کی چین گھماتے ہوئے اندر آتے حیدر نے دانت نکالتے ہوئے کہا تھا ” ہم تو دلہن کا جوڑا لے کر آۓ تھے کیوں بھائیوں ؟؟..!!” حارث نے سر کے نیچے کشن ٹھیک کرتے ہوئے ان دونوں سے تائید چاہی تھی “میری دلہن کو بلائیے پلیز ..!!” تیمور نے شائستگی سے یشفہ کو مخاطب کیا تھا ” لیکن آپ کی دلہن کا جوڑا تو آپ کی والدہ ماجدہ دے گئی ہیں دو دن پہلے ہی تیمور بھائی ..!!” اس نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا تھا “ویسے تو زرنور بھابھی کا ڈریس لے کر آۓ تھے لیکن وہ تو ہم سے پردہ کر رہی ہیں سو آپ میری بیوی کو بلا دیجئے میں اسے دے دوں گا ..!!” “کدھر ہے ڈریس ؟؟..!!” یشفہ نے اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے تیکھے لہجے میں پوچھا “گاڑی میں رکھا ہے ..پہلے کچھ چاۓ ناشتہ کھلاؤ پلاؤ پھر ملے گا ..!!” ریاض نے لاپرواہی سے کہا تھا “کیا مطلب ؟تم لوگ ہمیشہ کی طرح بھوکے پیاسے ہی آۓ ہو ؟؟..!!” یشفہ کے پیچھے ہی آتی مناہل نے مصنوئی حیرت سے پوچھا تھا ” دیکھیں مناہل بھابھی ..اب آپ مانے یا نہ مانے.. ہیں تو ہم کی دوست پیاری کے سسرالی دیور ..اب ایسے ہماری انسلٹ کی جاۓ گی تو ہم بھی ناراض ہو کر پھڈا ڈال دیں گے اور جو اتنی مشکل سے ان دونوں کی شادی ہو رہی ہے وہ پھر سے رک جانی ہے .!!” ریاض نے دبے انداز میں جیسے دھمکایا تھا ” دیکھو کھانے پانی کو تو تم لوگ بھول جاؤ ڈریس لا کر رکھو یہاں اور فورآ نکلو ..اور تیمور ..تمہیں شرم نہیں آتی دو دن بعد شادی ہے اور کیسے بے شرموں کی طرح اپنے ہی سسرال میں لیٹے ہوئے ہو ..!!” مناہل نے اس کے نیم دراز ہونے پر ڈپٹا تھا ” ہاں تو صرف لیٹا ہوا ہی ہوں نہ اور تو کچھ نہیں کر رہا ..!!” اس نے بھی دوبدو جواب دیا تھا ایک ہفتے سے اشعر کے علاوہ وہ سب احمد کے گھر رہ رہے تھے دن میں ایک دو دفعہ ہی تھوڑی دیر کے لئے وہ چکر لگا پاتا تھا جب کے ساری لڑکیاں زرنور کر گھر پر تھیں سواۓ فاریہ اور لائبہ کے .. اشعر نے انہیں رات رکنے کی اجازت نہیں دی ہوئی تھی وہ صبح ہی آتی تھیں پھر رات کو وہ ہی ان کو لے جاتا تھا “ناشتہ تیار کرواؤ بھابھیوں ..تب تک میں لے کر آتا ہوں دلہن کا خون آلود لباس .!!” ریاض کا اشارہ بلڈ رنگ کے لہنگے کی جانب تھا .. موبائل جیب میں رکھتے ہوئے وہ جونہی دروازے سے نکلنے لگا کوئی اسی وقت اندر آ رہا تھا وہ تو ریاض بر وقت پیچھے ہو گیا ورنہ دونوں کا تصادم یقینی تھا اور جب نظر مقابل پر پڑی تو وہ مزید سنبھلتے ہوئے سائیڈ پر ہو گیا تھا سر کو ہلکا سا خم دیتے ہوئے اس نے مؤدب سے راستہ چھوڑا تھا کیوں کے اس کے پیچھے اشعر اور لائبہ بھی تو تھے فاریہ لب بھنچے جلدی سے آگے بڑھ گئی تھی لائبہ نے آنکھوں میں ہی اشعر کو اس سے نہ الجھنے کا اشارہ دیا تھا جس پر اس نے سر آثبات میں ہلایا تو وہ اندر چلی گئی اور ایسا شاید پہلی دفعہ ہی ہوا تھا کے اشعر اسے نظر انداز کرتے ہوئے اندر کی جانب قدم بڑھا چکا تھا جیسے کے وہ وہاں موجود ہی نہ ہو لمحے کے لئے تو ریاض کو بھی شدّت سے احساس ہوا تھا کے کتنی زیادہ دوری ان کے بیچ حائل ہو چکی تھی کے وہ بات کرنا تو درکنار حال احوال پوچھنے کا بھی روادار نہ رہا تھا .. لیکن یہ صرف لمحے کے لئے ہی ہوا تھا پھر سے اس کے دل میں بدگمانی نے جگہ لے لی تھی .. ہاں یہ وہی اشعر آفریدی تھا جس نے اس پے گھٹیا الزام لگاتے ہوئے ہاتھ اٹھایا تھا .. سر جھٹکتے ہوئے وہ بھی باہر چلا گیا تھا ..
“کپڑے تو بدل لے چوہدری ایسے ہاتھ مانگنے جاۓ گا کیا ؟..!!” حیدر نے اس کے رف سے حلیے کی وجہ سے کہا تھا “تو کہے تو شیروانی پہن جاتا ہوں لگے ہاتھ نکاح بھی کروا آؤں گا .!!” خود پر پرفیوم کا سپرے کرتے ہوئے اس نے چڑ کر کہا تھا “اور میں بتا رہا ہوں تم لوگوں کو اب اگر اس نے کچھ ایسا ویسا کہا یا میری انسلٹ کی تو میں لحاظ نہیں کروں گا اس کا ..!!” وہ بگڑے موڈ کے ساتھ کہ رہا تھا ایک تو پہلے ہی وہ لوگ اس کو زبردستی بھیجنے پر تلے ہوئے تھے “وہ کچھ بھی کہے بھلے سے گالیاں بھی دے لیکن تجھے خاموش رہنا ہے کیوں کے مطلب تیرا ہے تجھے اس کی بہن چاہیے ..اور یہ تو تو جانتا ہی ہوگا کے مطلب کے وقت تو گدھے کو بھی باپ بنا لیا جاتا ہے ..!!” میگزن کی ورق گردنی کرتا تیمور اطمینان سے بولا تھا ” گدھے کو باپ بنانا آسان ہے لیکن اشعر آفریدی …!!” سر جھٹکتے ہوئے اس نے دانستہ بات ادھوری چھوڑ دی تھی زندگی میں پہلی دفعہ کسی کے لئے جھکنا پڑ رہا تھا اور یہ تو اس نے سوچ لیا تھا کے” جس ” کی وجہ سے اسے اتنے پاپڑ بیلنے پڑ رہے تھے سارے بدلے سارے حساب بھی اسی کے ساتھ بے باک کرنے تھے بعد میں .. چھوڑنے والوں میں سے تو بحرحال وہ تھا نہیں .. “دیکھ ریاض ..اگر تو سچ میں اپنے کئے پر گلٹی ہے تو مانگ لے معافی ورنہ رہنے دے اگر ہمارے فورس کرنے پر ایسا کر رہا ہے تو پھر رہنے دے کوئی فائدہ نہیں اس کا ..!!” “صحیح کہ رہا ہے تیمور ..!!” احمد جو ابھی وہاں آیا تھا تیمور کی بات سن کر اس کی تائید کی تھی ” اب میرا ارادہ بن گیا ہے تو تم لوگوں نے نئی بات نکال لی ..اور تو تھا کدھر اتنی دیر سے ہاں ؟؟!!” ریاض نے برہمی سے پوچھا تھا ” آفس میں تھا ..اب کل شادی ہے لیکن پھر بھی سارا کام مجھے ہی دیکھنا پڑ رہا ہے تم لوگ تو شئیرز لگا کر گھر بیٹھ گئے ہو ..!!” اس نے ساتھ ہی حیدر کو بھی گھورا تھا جو فور آ سے لاتعلق بن کر موبائل پر سر جھکا چکا تھا ” جا رہا ہوں میں …!!” وہ جتاتے ہوئے اپنا والٹ اٹھانے لگا تھا ” کوشش کرنا کے کام بن جاۓ منہ لٹکا کر آنے کی ضرورت نہیں …!!” ” اگر وہ نہ مانا تو مجھے کچھ مت کہنا پھر ..!!” ناراضگی سے کہتے ہوئے وہ چلتے ہوئے دروازے کے پاس آیا تھا اور جیسے ہی ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر وہ بھونچکا رہ گیا تھا .. اشعر آفریدی اس کے گھر میں کیا لینے آیا تھا اب ؟؟..!!” اشعر نے ہاتھ سے اسے سائیڈ پر ہونے کے لئے کہا تھا لیکن وہ تو اتنا حیرت زدہ تھا کے اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں .. کندھے اچکاتے ہوئے وہ خود ہی اس کو سائیڈ پر کرتے ہوئے اندر آ گیا تھا وہ تو جیسے نیند سے جاگا تھا بوکھلا کر دروازہ بند کرتے ہوئے اس کے پیچھے آیا ” تیری طبیعت ٹھیک ہے اشعر ؟؟…!!” اتنے دنوں بعد آج ریاض نے اسے مخاطب کیا تھا .. “میری تو ٹھیک ہے ..لیکن تیری ضرور صاف کرنے آیا ہوں ..!!” اس کے انداز میں سکون ہی سکون تھا اور اسے وہاں دیکھ کر تو ان میں سے کوئی چونکا بھی نہیں تھا جیسے پہلے سے اس کی آمد کے بارے میں جانتے ہوں .. ” ٹائم نہیں ہے بوآئز ..جو بھی کہنا ہے جلدی کرو ..!!” احمد نے ریسٹ واچ دیکھتے ہوئے ان دونوں کو ہی مخاطب کیا تھا وہ لوگ مسلسل ریاض کو اشارے کر رہے تھے کے کچھ تو بول دے کمینے .. ” اوکے …آئم سوری اشعر غلطی میری ہے مجھے اتنا روڈلی بات نہیں کرنی چاہیے تھی ایکچلی میری کوئی بہن نہیں نہ اس لئے مجھے اندازہ نہیں کے بھائی اپنی بہنوں کے حوالے سے کتنا غیرت مند ہوتے ہیں ..لیکن جو میں نے کیا میں شرمندہ ہوں اس پر تھوڑا سا ..کیوں کے ساری غلطی میری نہیں تھی ..تجے مارنے سے پہلے ایک دفعہ بات کر لینی چاہیے تھی کم از کم پوچھ ہی لینا چاہئے تھا لیکن تونے تو آتے ہی اندھا دھند مجھے مارنا شروع کر دیا اس لئے میں نے جو کیا پھر وہ تیرے ایکشن کا ری ایکشن تھا ..لیکن میں پھر بھی گلٹی ہوں اس پر …ڈیٹس اٹ ..!!” ایک ہی سانس میں کہتے ہوئے اس نے جلدی سے اپنی بات ختم کی تھی ” ٹھیک ہے اگر تو گلٹی ہے تو میں معاف کر دیتا ہوں ..حلانکے میرا بلکل بھی دل نہیں تجھے معاف کرنے کو ..اور میری طرف سے بھی سوری اگر تجھے برا لگا ہو تو ..لیکن جو میں نے کیا تھا وہ تو تب ہی سمجھ سکتا تھا کے جب تیری کوئی بہن ہوتی اور تیرے ساتھ بھی یہی سچویشن ہوتی ..!!” سر آثبات میں ہلاتے ہوئے ریاض نے پہل کرتے ہوئے خود ہی آگے بڑھتے ہوۓ اس کو گلے لگایا تھا “آئم ایکسٹرملی سوری ..اور یہ میں اب دل سے کہ رہا ہوں ..!!” “ایکسپٹڈ ..!!” اس نے بھی مسکراتے ہوئے اسے خود میں بھینچ لیا تھا کتنے دنوں بعد ان کے بیچ کی دوریاں اور فاصلے ختم ہوئے تھے ” ویسے معافی تلافی تو ہو گئی ..لیکن ایک بات بتا اشعر ..کیا تو اس کا سالا بننے پر راضی ہے ؟؟..!!” حیدر نے معنی خیزی سے کہتے ہوئے اسے کہا تھا ” ویسے ..اگر تو مائنڈ نہ کرے تو میں بھی یہی پوچھنا چاہ رہا تھا ..!!” ریاض نے سر کهجاتے ہوئے مسکراہٹ دبا کر کہا تھا ” مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہوتا اگر میری بہن کی بات بچپن سے طے نہ ہو گئی ہوتی ..!!” “کیا مطلب ؟؟..!!” تیمور نے اچھنبے سے پوچھا تھا ” اس کی منگنی ہو چکی ہے بچپن سے ہی ..اور مجھے افسوس ہے کے اگر میں پہلے ہی بتا دیتا تو یہ سب ہونے کی نوبت ہی نہ آتی ..!!” وہ اطمینان اور افسوس کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کہ رہا تھا ریاض کا چہرہ دھواں دھواں ہو گیا تھا “کوئی بات نہیں ہو جاتا ہے …!!” حیدر نے اس کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے جیسے افسوس کرنا چاہا تھا ” تجھے پہلے بتا دینا چاہیے تھا اشعر ..تاکے بات اتنی آگے بڑھتی ہی نہ ..!!” تیمور کا انداز بھی اس سے جدا نہ تھا ” آئی ہیڈ نو آئیڈیا یار ..اگر مجھے پتا ہوتا کے ریاض چوہدری کو میری بہن سے محبّت ہو جاۓ گی تو میں نہ ہونے دیتا اس کی منگنی…!!” ریاض نے زخمی سی نظر ان سب پر ڈالی تھی اور بغیر کچھ کہے بغیر کچھ بولے وہ جھٹکے سے دروازہ کھول کر باہر چلا گیا تھا “اتنا صبر مت آزماؤ اس کا ..اب وہ سچ میں لحاظ نہیں کرے گا ..!!” احمد نے ان سب کو تنبہہ کی تھی ” ایسے ہی نہیں مل جاتی محبّت ..تھوڑا تو تڑپنا پڑتا ہی ہے ..خیر ہے تڑپنے دو چوہدری کو ..اسے بھی معلوم ہونا چاہیے آسانی سے تو کچھ نہیں ملتا ..!!” اشعر نے ہاتھ جھلاتے ہوئے کہا تھا
بھاری کامدار لہنگے میں ملبوس میچنگ جیولری پہنے نفاست سے کئے گئے میک اپ کے ساتھ وہ بے حد حسین لگ رہی تھی نظر تھی کے ٹھہرتی نہ تھی اس کے حسن پر .. “زری ..کیا کبھی تمہاری ایسی خواہش رہی ہے کے ایک شہزادہ سفید گھوڑے پر سوار تمہاری برات لے کر آۓ ..اگر ہاں تو تم واقعی میں خوش قسمت ہو کیوں کے تمہاری خواہش پوری ہو گئی ہے تمہارا شہزادہ آ گیا ہے تمہیں لینے …