بھاری کامدار لہنگے میں ملبوس میچنگ جیولری پہنے نفاست سے کئے گئے میک اپ کے ساتھ وہ بے حد حسین لگ رہی تھی نظر تھی کے ٹھہرتی نہ تھی اس کے حسن پر .. “زری ..کیا کبھی تمہاری ایسی خواہش رہی ہے کے ایک شہزادہ سفید گھوڑے پر سوار تمہاری برات لے کر آۓ ..اگر ہاں تو تم واقعی میں خوش قسمت ہو کیوں کے تمہاری خواہش پوری ہو گئی ہے تمہارا شہزادہ آ گیا ہے تمہیں لینے …!!” مناہل نے مسکراکر کہتے ہوئے اس کا آنچل ٹھیک کیا تھا اس کی دھڑکنوں میں طلاطم سا برپا ہوا تھا کیا واقعی میں ان کے ملن کا لمحہ ان پہنچا تھا ؟؟ اس نے اپنا وعدہ پورا کر دیا تھا وہ آ گیا تھا اسے لینے کے لئے ہمیشہ کے لیے اپنا بنانے کے لئے .. ” احمد بھائی گھوڑے پر آۓ ہیں ؟؟..!!” یشفہ اور فاریہ نے بے ساختہ خوشگوار حیرت سے پوچھا تھا مناہل نے جیسے ہی سر آثبات میں ہلایا وہ دونوں چٹکیوں میں اپنے لہنگے ذرا سا اٹھاتی جلدی سے میرج ہال کے دروازے پر آئیں تھیں جہاں ڈھول پٹاخوں کا اس قدر شور تھا کے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی تھوڑی دور ہی انہیں سفید گھوڑے پر سوار سیاہ شیروانی پر مہرون کلہ پہنے سوار احمد سچ میں کسی سلطنت کا شہزادہ ہی معلوم ہوتا تھا جو آج پوری شان و شوکت سے اپنی ملکہ کو لینے آیا تھا گھوڑے کی باگ حارث نے تھام رکھی تھی جب کے وہ سب اس کے آگے آگے بھنگڑے ڈال رہے تھے .. اے خدا شکر تیرا … اے خدا شکر تیرا ,شکر تیرا ,شکر تیرا میرا یار چلا باندھ کے سر پر سہرا ان سب نے ایک ہی رنگ کی شلوار قمیض پر مختلف رنگوں کی واسکٹ پہنی ہوئی تھی اور سب ہی بے حد ہینڈسم لگ رہے تھے تیمور کی برات دوسرے دن تھی لیکن وہ بھی آج سارا لحاظ بالاۓ تاک رکھتے ہوئے بھرپور ساتھ دے رہا تھا ان کا ..
اچھی ی ی …!!” زور دار چھینک مارتے ہوئے اس نے رومال سے اپنی ناک رگڑی تھی اوۓ گندے آدمی نیچے اتر اسٹیج سے ..ساری شو خراب کروا رہا ہے تو ہماری ..!!” حیدر نے دبے لہجے میں اسے ڈپٹا تھا .. “دیکھ حیدر ..اچھی ی ی ..!!” اس کی بات بھی مکمل نہ ہوئی تھی کے پھر سے چھینک پڑا .. ” مجھ پر ہی گرا دے سارے جراثم ..!!” حیدر اسے گھورتے ہوئے اسکے پاس سے ہی اٹھ گیا تھا ” مجھ پر غصہ کیوں ہو رہا ہے ؟؟ میں نے تھوڑی کہا تھا فلو کو ..ا ا اچھی ی .. کے میرے..ا اچھی ی …ہوجا ..اف کیا مصیبت ہے یہ ..!!؟” تھوڑی ہی دیر میں وہ بیزار ہو گیا تھا بدلتے موسم کا اثر سب سے پہلے شاید اسی پر چڑھا تھا ” ایک بات بتا ریاض ..اشعر کے انکار کرنے کی وجہ سے تو کیا ساری رات روتا رہا ہے جو تیرے نزلہ ہو گیا ؟؟..!!” حارث نے دھیمی آواز میں رازداری سے پوچھا تھا فورآ ہی اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے ” رونے کی وجہ سے نزلہ کسے ہوتا ہے بیوقوف ؟؟..اور میں کیا تجھے ..آا چھی …اتنا کمزور لگتا ہوں جو اتنی سی بات پر …آاچھی ..رو پڑوں گا ..!!” اس نے چبا کر کہتے ہوئے زور سے ناک رگڑی تھی .. حارث نے برا سا منہ بنا کر اسے دیکھا تھا جو آج کچھ زیادہ ہی پیارا لگ رہا تھا اکھڑے اکھڑے سے مغرور انداز ماتھے پر بکھرے بال کھڑے نقوش ..وہ نظر انداز کئے جانے کے قابل تو ہر گز نہیں تھا .. “اللہ پوچھے گا تم لوگوں کو ..!!” ریاض نے تیز نظروں سے ان کو گھورا تھا ” ارے واہ ..بغیر اچھی ی اچھی ی کا تڑکا لگاۓ اس نے اپنی بات پوری کی ہے ..!!” حیدر نے اس پر طنز کیا تھا ” بھائی تیرا تیسرا نکاح کرنے کا ارادہ تو نہیں ہے نہ ؟؟..!!” تیمور کے سرگوشی کرنے پر وہ مسکرایا تھا “فلحال تو نہیں ہے ..!!” “مطلب کے آئندہ کرنے کے چانسز ہیں ؟؟..!!” “شاید …!!” اس نے ذرا سے شانے اچکاۓ تھے ” ہمارا تو ایک نہیں رہا اور لوگوں..ا ا اچھی کو دو دفعہ کرنے کے بعد بھی..ا اچھی دل نہیں بھر رہا ..!!” ریاض کا انداز خفگی لئے ہوئے تھا .. ” بھائی تو آرام دے لے اپنی زبان کو تیرے اچھی اچھی نے دماغ کی دہی کر دی ..اور لے پکڑ منہ پر رکھ اس کو اپنے !!” حیدر نے شیشے کی ٹیبل پر پڑا ٹشوز کا پورا بوکس اٹھا کر اس کے ہاتھ میں دیا تھا وہ محظ اسے گھور کر رہ گیا تھا
“رخصتی ہی تو ہے پھر کل ہو یا آج اس سے کیا فرق پڑتا ہے تم کہو تو کروا لوں آج ہی ؟؟…!!” تیمور نے گہری نظروں سے اس کے سراپے کا جائزہ لیتے ہوئے محفوظ انداز میں پوچھا تھا ” رخصتی ہی تو ہے پھر کل ہو یا چند سال بعد کیا فرق پڑتا ہے آپ کہیں تو کچھ عرصے بعد کروا لیں ؟؟..!!” وائٹ اور سی گرین کلر کے بھاری سے شرارے میں اپنے لمبے سیاہ بالوں میں کرلز ڈالے انوشے نے پلکیں جھپکاتے ہوئے معصومیت سے کہا تھا ” بلکل بھی نہیں ..مجھ سے ایک دن کا صبر کرنا دوبھر ہو رہا ہے اور تم سالوں کی بات کر رہی ہو ..!!” اس کے بے صبرے انداز پر انوشے کو ہنسی آ گئی تھی ” ہنسو مت ایسے یار ..میرا دل پہلے ہی جل رہا ہے ..!!” ” ہاں تو دل کو بہلا لیجئے تیمور صاحب ..صبر کا پھل تو ویسے ہی میٹھا ہوتا ہے ..!!” ” وہ تو کل پتا چلے گا کے کتنا میٹھا ہوتا ہے ..!!” تیمور کے معنی خیزی سے کہنے پر وہ بلش کر گئی تھی ” میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کے میری چشمش ایسے بھی کبھی شرماۓ گی مجھ سے ..!!” ” چشمش تو مت کہیں ..اب چشمہ تو نہیں لگاتی میں ..!!” اس کےنروٹھے انداز پر وہ ہنسا تھا ” جب میں نے دیکھا تھا تمہیں تب تو لگاتی تھی نہ ..!!” تیمور نے اس کی ننھی سی ناک دبائی تھی ” ہاں تو یہ جب کی بات ہے نہ ..آپ ابھی کی بات کریں ..!!” ” ابھی کیا بات کروں میرا تو بس دل بے ایمان ہوا جا رہا ہے ..!!” اس نے شوخ سے انداز میں کہا تھا ” آپ …فضول ہیں بہت ..!!” انوشے سے کچھ نہ بن پڑا تو یہی کہ دیا ” اس فضول انسان کی فضول حرکتیں ابھی دیکھی ہی کہاں ہیں آپ نے ؟..!!” تیمور نے اس کی جانب جھکتے ہوئے معنی خیزی سے کہا تو وہ گڑبڑا کر اس کے پاس سے ہی چلی گئی تھی .. ” کوئی بات نہیں تیمور ..بس ایک دن ہی تو رہ گیا ہے ..!!” وہ خود کو دلاسے دینے لگا تھا
“یہ لو ..!!” لائبہ نے مٹھائی کی پلیٹ اس کے سامنے کی تھی .. ” یہ کس خوشی میں ؟؟..!” اشعر نے نہ سمجھی سے پوچھتے ہوئے ایک چھوٹا سا پیس اٹھایا تھا .. ” تمہاری اور ریاض کی صلح جو ہو گئی ..!!” اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا “میری تو ہو گئی لیکن اس کی شاید ابھی تک نہیں ہوئی ..!!” اشعر نے مسکراتے ہوئے اسٹیج کے پاس کھڑے ریاض کو دیکھ کر کہا تھا جو کسی بات پر حارث سے بحث کرنے کے ساتھ ساتھ ہر تھوڑی دیر بعد چھینک بھی رہا تھا .. اس کی ناک اور آنکھیں بے سرخ سی ہو رہیں تھیں اوپر سے اشعر کے جھوٹ کی وجہ سے موڈ بھی خراب ہوا وا تھا اسے ہنسی آ رہی تھی ریاض کی حالت پر .. لیکن اچھا بھی نہیں لگ رہا تھا اسے اس طرح سے دیکھتے ہوئے وہ اس کی وجہ سے ٹھیک سے انجوۓ بھی نہیں کر پا رہا تھا ..
مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کے تمہیں مجھ سے محبّت ہو گئی ہے ..!!” حیدر نے پر سوچ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا “ایں ..؟؟!!” اس کی آنکھیں بے ساختہ پھیلی تھیں .. لیکن دوسرے ہی لمحے چہرے کے تاثرات نارمل کرتے ہوئے اس نے اپنی پلیٹ میں ڈلے رشین سیلیڈ سے فوک کی مدد سے سیب کا ٹکرا منہ میں رکھنے کے بعد سکون سے اسے چبایا تھا پھر ٹشو سے لب تھپتھپا کر اسے دیکھا ” اگر تمہیں ایسا لگتا ہے تو کسی سائکاٹرسٹ کے پاس چکر کیوں نہیں لگا آتے حیدر ؟..!!” وہ بے ساختہ مسکراتے ہوئے اس کے مقابل صوفے پر بیٹھا تھا لیکن غیر ارادہ سی نظر اس کے گولڈن کرلز بالوں میں لگے ہیئر کلپ پر پڑی تھی جو تین چار رنگوں کے شیڈز والا مور کی شکل کا تھا .. لیکن خوب جچ رہا تھا اس پر .. ” ہیئر کلپ کے بعد حیدر نے سر سے پیر تک ایک طائرانہ سی لیکن گہری نگاہ اس کے وجود پر ڈالی تھی .. “تم ..ایسے کیوں دیکھتے ہو مجھے ؟؟..!!” پہلے کے مقابلے میں اس کے انداز میں الجھن نہیں تھی انداز بہت ٹھہرا ہوا تھا ” اپنی ملکیت کو ایسے ہی دیکھا جاتا ہے مس ..!!” ” لیکن میں تمہاری پراپرٹی نہیں ہوں …!!” ” تم میری ہی ہو یشفہ ..!!” اس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے جتا کر کہا تھا “اہاں ..یہ کس نے کہا ؟؟!!” اس نے ابرو اچکا کر پوچھا .. ” یہ کسی کے کہنے کی نہیں فرض کرنے کی بات ہے ..اور میں فرض کر چکا ہوں کے صرف میں ہی ہوں جو تمہیں اپنا بنا سکتا ہوں ..!!” ” حیدر …تم مجھے ایسے رومیو اور رانجھا ٹائپ بلکل بھی اچھے نہیں لگتے ..!!” ” ایسے تو میں کسی کو بھی نہیں اچھا لگتا ..لیکن اب میں ہر ایک کو تو اپنی بیماری کے بارے میں نہیں بتا سکتا نہ ..!!” ” بیماری ؟؟…تمہیں کیا بیماری ہے ؟؟..!!” اس کے انداز میں اچانک ہی تشویش در آئ تھی ” بس ہے ایک بیماری ..وقت آنے پر بتاؤں گا ..!!” حیدر کو اچھا لگ رہا تھا اس کا خود کے لئے فکر مند ہونا .. ” ویسے ایک بات مجھے ابھی تک ہضم نہیں ہوتی کے تم اتنی لڑاکا بلی سی ایک دم نارمل کیسے ہو گئیں میرے ساتھ ؟؟..!!” حیدر نے اس کے ہاتھ سے پلیٹ اچک لی تھی پھر اسی کے جھوٹے فوک سے سلاد کا ٹکڑا منہ میں ڈالا تھا ” فوک تو دوسرا لے لو ..!!” یشفہ کو پسند نہیں آئی تھی اس کی حرکت .. ” سو یشفہ حمین صاحبہ …ایسا کیا ہوا ایک دم سے جو تم نے مجھ سے لڑنا بھڑنا چھوڑ دیا ؟؟..!!” حیدر نے اس کی بات جیسے سنی ہی نہیں تھی ” نہیں تمہیں برا لگ جاۓ گا ..!!” ” کیوں برا لگ جاۓ گا ؟؟…ایک منٹ ایک منٹ ..کہیں تم میرے ساتھ محبّت کا ڈرامہ رچا کر آخر میں مجھے دھوکہ دینے کا پلان تو نہیں بناۓ بیٹھی تھیں نہ ..؟؟.!!” حیدر نے مشکوک انداز میں آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا وہ کوئی جواب نہ دے پائی تھی لب بھنچے اپنی نظریں جھکا گئی تھی اس کے کچھ نہ کہنے کے باوجود بھی حیدر کو اس کا جواب مل چکا تھا ” امیزنگ یار …ویسے میں تم جیسی لڑکی سے یہ سب ایکسپکٹ نہیں کر رہا تھا …کیا سچ میں تمہارا یہی ارادہ تھا ؟؟…!!” وہ شاید اس کے منہ سے سننا چاہتا تھا یشفہ کو اندازہ نہیں تھا کے وہ بے وقوف سا حیدر اتنی جلدی اور آسانی سے اس کی نیت جان جاۓ گا .. اس کا ارادہ یہی تھا اور سو فیصد یہی تھا جس دن حیدر نے اسے زبردستی مال سے لے جا کر گھر پر چھوڑا تھا یشفہ نے اسی دن فیصلہ کر لیا تھا اسے برباد کرنے کا وہ ایک خود پسند لڑکی تھی صرف اپنے آپ سے محبّت کرنے والی .. اسے آگ سی لگ جاتی تھی جب کوئی اس کی کسی چیز کو ہاتھ بھی لگا دیتا تھا تو اور پھر یہ تو اس کی ذات کی بات تھی کوئی کیسے اس کے وجود پر اپنا حق جتا سکتا تھا ؟؟.. حیدر کی زو معنی سی باتیں اسے طیش میں مبتلا کر دیتی تھیں اور پھر رہی سہی کثر اس کی اس دن والی حرکت نے پوری کر دی تھی .. اس کا بس نہ چلتا تھا کے حیدر کے ساتھ کیا کر گزرے لیکن اتفاق سے اسے قریبی رشتےدار کی شادی میں ملک سے باہر جانا پڑا گیا اس بارے میں اس نے کافی سوچا تھا لیکن حیدر کے ساتھ شادی کر کے اسے خود کا اختیار دینے کا تو وہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھی لیکن دوسری طرف اس کے دل میں جو سوفٹ سا کارنر اس کے لئے پیدا ہو گیا تھا وہ بار بار اس کا دھیان حیدر کی جانب متوجہ کرتا تھا وہ جتنا اس کے خیال سے بچنا چاہتی وہ اتنا ہی اس پر حاوی ہوتا تھا لیکن یہ تو اس نے مصم ارادہ کر لیا تھا کے حیدر کو برباد ہی کرنا ہے لیکن یہ محبّت بھی نہ .. سارا پلان ہی خراب کر دیتی ہے .. پہلے جو وہ اس سے نرمی سے بات کر لیا کرتی تھی وہ اس کی پلاننگ کا حصّہ تھا لیکن اب وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھی .. اور یہ دل بھی نہ بہت ہی شرمندہ کرواتا ہے .. جیسے کے اب یشفہ ہو رہی تھی اس کے سامنے .. اپنا بھید کھل جانے پر .. ” پھر کہاں تک پہنچی تمہاری پلاننگ ؟؟..!!” اس کا انداز طنزیہ نہیں تھا وہ براہ راست اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
پہلے جو وہ اس سے نرمی سے بات کر لیا کرتی تھی وہ اس کی پلاننگ کا حصّہ تھا لیکن اب وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھی .. اور یہ دل بھی نہ بہت ہی شرمندہ کرواتا ہے .. جیسے کے اب یشفہ ہو رہی تھی اس کے سامنے .. اپنا بھید کھل جانے پر .. ” پھر کہاں تک پہنچی تمہاری پلاننگ ؟؟..!!” اس کا انداز طنزیہ نہیں تھا وہ براہ راست اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا .. کچھ دیر تک وہ خاموش نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی پھر یہ کہتے ہوئے کھڑی ہو گئی “کوئی پلاننگ نہیں کی میں نے ..!!” “تو پھر تمہارے نارمل ہونے کی وجہ پوچھ سکتا ہوں میں ؟؟…!!” “نہیں ..!!” “ٹھیک ہے شادی کے بعد ڈیٹیل میں بتا دینا ..اور اگر نہ بتانا چاہو تو …کوئی مسئلہ نہیں مجھے نکلوانا آتا ہے اچھے سے ..!!” اس نے بظاہر نرم مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا لیکن ایسا کچھ تھا اس کے لہجے میں وہ بے ساختہ اسے دیکھنے پر مجبور ہو گئی تھی .. ” بس تھوڑا سا انتظار ..!!” دو انگلیوں سے اس کے گال پر موجود سیاہ تل کو چوتھے ہوئے وہ آگے بڑھ گیا تھا جبکے یشفہ ہل بھی نہیں سکی تھی اپنی جگہ سے …
احمد نے صاف منع کر دیا تھا ان فضول قسم کی رسموں سے لیکن ان لوگوں کے سامنے اس کی ایک نہ چلی تھی دل کھول کر انہوں نے رسمیں کرنے کے ساتھ اس کی جیبیں بھی خالی کروائی تھیں زرنور کے دل میں تو جیسے اداسیوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے ایک طرف شادی کرنے کی بلکے احمد سے شادی کرنے کی بے حد خوشی تھی تو دوسری طرف گھر سے دوری کا احساس بھی شدت سے محسوس ہو رہا تھا آنکھیں تھیں کے بار بار بھر آ رہی تھی لیکن سختی سے خود پر کنٹرول کئے بیٹھی تھی بارہا احمد بھی اس سے پوچھ چکا تھا جو خلاف مامول خاموش سی تھی جس پر اس کا جواب تھا “میں دلہن ہوں احمد اب پٹر پٹر بولتی اچھی تو نہیں لگوں گی نہ ..!!” لیکن رخصتی کے وقت عباد اور زارا بخاری کے گلے لگی وہ ضبط کے سارے بندھن توڑ بیٹھی تھی ایک تو رخصتی کا لمحہ ہی ایسا ہوتا ہے جسے سوچ کر اداسی سی چھا جاتی ہے اوپر سے بد تمیز حیدر نے چن چن کر بدائی والے گانے لگا دئے تھے میں تیری بانہوں کے جھولے میں پلی بابل جا رہی ہوں چھوڑ کر تیری گلی بابل خوبصورت یہ زمانے یاد آئیں گے چاہ کے بھی ہم انہیں نہ بھول پائیں گے مشکل اشکوں کو چھپانا لگتا ہے دلہن کا تو دل دیوانہ لگتا ہے “یار کس قدر ڈرامے باز ہے یہ نور بانو پہلے تو پیچھے پڑی رہتی تھی شادی کے لئے اور اب جب ہو گئی ہے تو کیسے رو رہی ہے ..!!” حیدر نے ماحول پر چھائی کثافت کو کم کرنے کے لئے کہا تھا ” تم لڑکے نہیں سمجھ سکتے ..!!” مناہل نے نم آنکھوں کو ٹشو سے صاف کیا تھا ” لو اب تم کیوں رو رہی ہو تمہاری رخصتی تو ہو گئی نہ ..!!” ” اور انوشے بھابھی آپ بھی ..؟؟!!” حیدر نے اب انوشے کو دیکھ کر کہا تھا جس کے گالوں پر آنسو لڑیوں کی طرح بہ رہے تھے اور صرف وہی نہیں وہاں موجود سب کی آنکھیں ہی پر نم تھیں .. عباد بخاری زرنور کو گلے لگاۓ احمد کو اسے زندگی بھر خوش رکھنے کی ہدایتیں کر رہے تھے جنہیں وہ سینے پر ہاتھ رکھے سعادت مندی سے یقین دلا رہا تھا پھر رخصتی کا شور اٹھا تو ماہین نے مہرون رنگ کی بڑی سی چادر اس کے گرد اوڑھا دی تھی احمد کی ریڈ سپورٹس کار حارث بہت خوبصورتی سے ڈیکوریٹ کروا کر لایا تھا جسے حیدر کے لاکھ کہنے پر بھی احمد نے اسے ڈرائیونگ کی اجازت نہیں دی تھی بلکے خود ہی ڈرائیو کر رہا تھا زرنور اس کے ساتھ والی سیٹ پر تھی اور پیچھے ماہین اور انوشے کے ساتھ یشفہ تھی فاریہ اور لائبہ اشعر کے ساتھ تھیں پہلے ان سب کا ارادہ خانزادہ ولا ہی جانے کا تھا اور پھر وہاں سے اپنے گھر .. اب وہاں عدیل خانزادہ اور احمد کے علاوہ اور تھا ہی کون ؟اس لئے زرنور کے استقبال کی تیاری بھی انہی لڑکیوں نے کرنی تھی .. آدھے گھنٹے میں ان چار گاڑیوں کا قافلہ خانزادہ ولا پہنچا تھا بہت سی پھولوں کی پتیاں ان پر نچھاور کر کے ان کا استقبال کیا گیا تھا زرنور کی تھکن کے خیال سے بغیر کوئی رسم کئے اسے احمد کے روم میں پہنچا دیا گیا تھا جو اس نے اپنی نگرانی میں ڈیکوریشن کروایا تھا پورا کمرہ اس وقت تازہ پھولوں کی خوشبوؤں سے مہک رہا تھا ..
“اشعر ,تیمور ..اپنا فون دینا ذرا ..!!” حیدر نے لاؤنج میں آتے ہی ان سے مطالبہ کیا تھا “اور ریاض تو بھی دے ..بلکے رہنے دے اور کچھ ایسا ویسا ہاتھ لگ جاۓ گا میرے ..!!” “لیکن تجھے چاہے کیوں ؟..!!” تیمور نے نہ سمجھی سے پوچھا تھا ” بس ایک چھوٹا سا کام ہے ..!!” اور یہ تو حیدر کے علاوہ صرف اس کے فرشتوں کو ہی خبر تھی کے اس کے نیک ارادے کیا ہیں .. “خیریت ہے نہ بھائی ؟؟..!!” حیدر نے صوفے پر لیٹے ریاض کے چہرے پر سے کشن ہٹا کر فکر مندی سے پوچھا تھا جس نے جواب میں سرخ آنکھوں کی ایک گھوری سے اسے نوازا تھا “وہ تیری “آا اچھی ..آا اچھی ” کی آوازیں نہیں آ رہی نہ تو میں نے سوچا کے پوچھ لو کہیں بے ہوش وے ہوش تو نہیں ہو گیا ..!!” ریاض نے اسے جواب دینا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا پھر سے منہ پر کشن رکھ لیا “کیا ہوا اسے ؟؟…!!” اس نے ڈائریکٹ ان دونوں سے ہی پوچھا تھا احمد کو تو حارث ٹیریس پر لئے کھڑا تھا وہ بھی حیدر کے ہی کہنے پر .. “ناکام عاشق …!!” تیمور نے ہنستے ہوئے کومنٹ دیا تھا جس کے منہ پر ریاض کی طرف سے پھینکا گیا کشن لگا تھا اور پھر بغیر ان کو دیکھے وہ اکھڑا اکھڑا سا اٹھ کے کچن میں چلا آیا تھا پانی پینے کے لئے لیکن اسے اگر فاریہ کی وہاں پہلے سے موجودگی کا پتا ہوتا تو وہ کبھی ادھر کا رخ نہ کرتا لیکن اب تو آ گیا تھا اس کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ فریج کھول کر اس میں سے ٹھنڈے پانی کی بوتل نکال چکا تھا ایک تو پہلے ہی فلو ہو رہا تھا اوپر سے اتنا ٹھنڈا پانی .. فاریہ کو تشویش سی ہوئی تھی اس کے لئے لیکن دوسرے ہی لمحے اپنی سوچوں کو سختی سے جھٹکا تھا .. مجھے کیا یہ جئے یا مرے ..!!” چاۓ کی ٹرے اٹھا کر وہ بھی اسے مکمل نظر انداز کرتی اس کے ساتھ سے ہو کر باہر چلی گئی تھی ریاض نے اسے روکنے کا اسے مخاطب کرنے کا سوچا بھی نہیں تھا .. وہ جو انجانے میں اسے اپنی ملکیت سمجھنے لگا تھا اس پر تو کسی اور کے حقوق تھے .. اگر پتا ہوتا کے وہ کسی اور سے منسوب ہے تو وہ شروع میں ہی اپنے دل کو بہلا لیتا اپنے قدموں کو روک لیتا تاکے بات اتنی آگے بڑھتی ہی نہ .. لیکن اب ایسا کچھ اس کے اختیار میں نہیں تھا فاریہ کو کسی اور کا ہوتا تو وہ دیکھ ہی نہیں سکتا تھا اس کی منگنی کا سوچ سوچ کر ہی وہ پاگل ہوا جا رہا تھا اور اب تو صرف ایک ہی راستہ بچا تھا اس کے لئے کے اشعر آفریدی کے سامنے جھک جاۓ اس سے اپنی محبّت کو مانگ لے .. جو انسان اپنی آنا کے ہاتھوں جھکنے پر مجبور نہیں ہوا جس نے اتنے سالوں کی دوستی سے زیادہ اپنی آنا کو فوقیت دی اسے ہمیشہ اونچا رکھا آج وہی شخص محبّت کے لیے خود کو جھکانے پر راضی ہو گیا تھا ..
بڑی مشکلوں سے اسے روم میں آنے کی آنے اجازت ملی تھی وہ بھی شیرٹن میں سب کو ڈنر دینے کی شرط کے ساتھ کیوں کے کیش تو سارا وہ لوگ دیگر رسموں میں ہی بٹور چکی تھیں .. شیروانی اور کلہ اس نے اتار دیا تھا ابھی صرف کاٹن کی سفید شلوار قمیض پہن رکھی تھی جس کے کف بھی ہمیشہ کی طرح کہنیوں تک فولڈ تھے وہ قدم قدم چلتے ہوئے پھولوں کی لڑیاں ہٹا کر بیڈ پر اس کے مقابل بیٹھا تھا پھر ایک ابرو اٹھا کر نہ سمجھی سے اسے دیکھا “یہ گھونگھٹ کیوں نکال لیا اب ؟..!!” احمد نے ہاتھ سے اس کا دوپٹہ ہٹانا چاہا تھا جبھی وہ جلدی سے پیچھے ہو گئی تھی ” پہلے میرا گفٹ ..!!” “اوکے دے دوں گا پہلے چہرہ تو دکھادو ..!!” ” احمد پہلے منہ دکھائی ..!!” زرنور نے سختی سے ایک ہاتھ سے گھونگھٹ کو پکڑے دوسرے ہاتھ کی مہندی سے سجی ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائی تھی “ٹھیک ہے …!!” اس نے سائیڈ ٹیبل کی ڈرا سے ایک چھوٹا مخملی جیولری کیس نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھا تھا زرنور نے فورآ سے گھونگھٹ الٹا کر اس باکس کو کھولنے کے بعد ناراضگی سے احمد کو دیکھا جو مبہوت ہو کر اسے ہی دیکھ رہا تھا اتنا مکمل حسن شاید ہی اس کی نگاہوں نے کہیں دیکھا ہوں “اس خالی باکس کا میں کیا کروں ؟؟ ..!!” اس کا خفا انداز بھی احمد کے دل میں اتر رہا تھا ” لو میرے سر میں مار دو ..!!” اس نے مسکراتے ہوئے ہلکا سا اپنا سر اس کی جانب جھکایا تھا .. “جب تحفہ میں دے رہا ہوں تو میں ہی پہناؤں گا نہ مسز نور احمد ..!!” اس سے پہلے کے وہ کچھ کہتی احمد کا فون بج اٹھا تھا وہ دونوں ہی چونکے تھے “یہ کون سا وقت ہے کسی کو ڈسٹرب کرنے کا ؟؟..!!” سکرین پر نظر آتے “حیدر کالنگ ” کے الفاظ دیکھ کر تو وہ جی بھر کر بد مزہ ہوا تھا پھر یہ سوچ کر اٹھا لیا کے کہیں کوئی ایمرجنسی نہ ہو .. “السلام عليكم …ہاں بول کیا ہوا .؟؟” احمد نے عادت کے مطابق پہلے سلام ہی کیا تھا “وعلیکم سلام ..کچھ خاص نہیں میں تو بس یہ پوچھ رہا تھا کے …کیا ہو رہا ہے ..؟؟ ہیں ؟؟ …!!” حیدر کا شوخ انداز اسے ایک آنکھ نہ بھایا تھا .. “گو ٹو ہیل ..!!” چبا کر کہتے کر اس نے فون بند کر دیا تھا لیکن وہ پھر سے بجنے لگا تو احمد نے سوئچ آف ہی کر دیا “نان سینس ..!!” وہ گہری سانس لے کر خود کو پر سکون کرتے ہوئے پھر سے زرنور کی جانب متوجہ ہوا تھا جس کے لبوں پر دبی دبی سی مسکراہٹ تھی “ہنسو مت یار ..!!” وہ اور خفا ہوا .. ” اوہ ..کتنے کیوٹ لگتے ہو تم غصے میں ..!!” وہ بے ساختہ ہنستے ہوئے کہ رہی تھی “صرف غصے میں کیو ٹ لگتا ہوں ؟؟…!!” احمد نے گہری نظروں سے اسے تکتے ہوئے معنی خیزی سے کہا تھا پھر اپنی جیب میں سے دو گولڈ کے بھاری سے نگینے جڑے خوبصورت سے کنگن نکال کر اس کے ہاتھوں میں سجا دئے تھے .. ” بتاؤ کیسے لگے ؟..!!” احمد اسے دیکھ رہا تھا اور وہ اپنی کلائی میں کھنکتے ان کنگنوں کو …!!” “بہت پیارے ہیں ..!!” وہ مسکراتے ہوئے ان پر اپنی مخروطی انگلیاں پھیر رہی تھی احمد نے اس کا ہاتھ اپنی گرفت میں لے کر ہونٹوں سے لگایا تھا .. “مجھ سے زیادہ ؟؟…!!” “تم سے زیادہ تو کوئی پیارا نہیں مجھے ..!!” ” سچ کہ رہی ہو نہ ؟..!!” ” ابھی بھی شک ہے ؟..!!” “ہاں تھوڑا سا ..!!ا” “تو پھر بتاؤ ایسا کیا کروں میں کے تمہارا شک دور ہو جاۓ ؟؟..!!” “یہ بھی میں بتاؤں ؟؟..!!” وہ اس کی سبز کانچ سی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھ رہا تھا لیکن پھر کسی رنگ ٹون کی آواز پر ان کا سحر سا ٹوٹا تھا “میں تیرا بواۓ فرینڈ, تو میری گرل فرینڈ او میں نو کہندی نہ نہ نہ .. “کیا تمہارا فون بج رہا ہے ؟…!!” احمد نے اس سے پوچھا تھا کیوں کے اس کا فون تو سوئچڈ آف تھا “میرے فون کی تو یہ رنگ ٹون ہے ہی نہیں ..پھر بھی دیکھ لیتی ہوں ..!!” اس نے کہنے کے ساتھ ہی سائیڈ ٹیبل پر دھرا اپنا کلچ اٹھا کر اس میں سے سیل فون نکالا تھا پھر اس کی تاریک سکرین کو احمد کے سامنے کیا جس کا مطلب تھا کے وہ کسی اور کا ہی فون تھا جو اس کمرے میں بج رہا تھا .. رک تو جا میری گل تو سن لے .. او میں نو کہندی نہ نہ نہ وہ فون جس کا بھی تھا متواتر بج رہا تھا کچھ دیر احمد نے آواز کا تعاقب کیا پھر اپنی جگہ سے اٹھ کر وہاں جاکے الماری پر سے اٹھا ہی لیا .. سکرین سامنے کی تو وال پیپر پر اشعر اور لائبہ کی سیلفی لگی ہوئی تھی یعنی کے فون اشعر کا ہی تھا شاید کمرہ سجاتے ہوۓ وہیں بھول گیا ہوگا لیکن فون بھی کوئی بھولنے کی چیز ہے کیا ..؟؟ اگر یہی وجہ ہوتی تو ٹھیک تھا لیکن اس پر چمکتے “حیدر کالنگ ” کے لفظ دیکھ کر تو اسے پھر سے تپ چڑھی تھی .. اشعر اور اپنا فون بھول جاۓ ؟؟ ایسا ہو ہی نہیں سکتا .. یہ ضرور ان لوگوں کی ہی کارستانی تھی جس میں زیادہ ہاتھ حیدر کا ہی تھا .. ابھی وہ اس کا فون پاور آف کر کے مڑا ہی تھا کے پھر سے ایک رنگ ٹون بجی .. “سپائیڈر مین ..سپائیڈر مین.. تونے چرایا میرے دل کا چین ..!!” وہ صبر کے گھونٹ بھر کر رہ گیا تھا .. جتنا اسے غصہ چڑھا تھا زرنور اتنا ہی کھلکھلا رہی تھی .. ” پھر تھوڑی تگ و دود کے بعد بیڈ کے نیچے سے اس نے ایک اور فون بر آمد کر ہی لیا تھا جو حارث کا تھا .. “او ڈی جے والے میرا گانا تو بجا گانا بجاۓ گا تو آۓ گا مزہ .. ایک اور رنگ ٹون بجی تھی .. منہ پر ہاتھ کی پشت رکھے وہ ہنسے جا رہی تھی احمد کی حالت سے خوب محفوظ ہو رہی تھی جس کا بس نہ چلتا تھا کے حیدر کی گردن مڑوڑ دے .. لیکن اس دفعہ اسے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی تھی تیمور کا فون اسے ڈریسنگ پر پڑے گلدان میں سے ہی مل گیا تھا .. تپے ہوۓ انداز میں وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے ان چاروں سیل فونز کو دیکھ رہا تھا پھر اپنا فون آن کر کے نمبر ڈائل کر کے کان سے لگایا .. ایک ہی بیل پر کال ریسیو کر لی گئی تھی جیسے مقابل انتظار میں ہی بیٹھا ہو ” السلام عليكم ورحمة الله ..!!” حیدر نے بہت شائستگی سے سلام کیا تھا ” میں انتظار کر رہا تھا کب سے ریاض کا فون نہیں بجا ابھی تک …!!” اس نے طنز سے چبا کر کہا تھا کیوں کے صرف ریاض کا ہی فون تھا جو اس وقت احمد کے ہاتھ میں نہیں تھا “وہ بجے گا بھی نہیں .. بچے نے کافی پرائوسی لگائی ہوئی ہے اس میں ..میں نے سوچا کہیں دو چار تصویریں میرے بھی ہاتھ نہ لگ جاۓ اس لئے احتیاط لیا بھی نہیں اس کا فون .. !!” “یعنی کے تو ایڈمٹ کر رہا ہے کے یہ سب فونز تونے یہاں رکھے تھے ؟ “میرے علاوہ کوئی اور کر سکتا ہے کیا یہ کام ؟؟…!!” حیدر نے فخر سے کہا تھا جیسے اسے اپنی حرکت پر گولڈ میڈل ملنے کا امکان ہو “تیری اس کام کا انعام میں تجھے صبح دوں گا ..!!” ” صبح کیوں ؟؟ابھی دے نہ.پلیز ..اچھا سوری میں بھول گیا تھا ..تیری تو ویڈنگ نائٹ ہے چل تو سو جا گڈ نائٹ ..!!” اس نے ٹھک سے فون بند کر دیا تھا .. وہ گہری سانسیں لے کر خود کو پر سکون کر رہا تھا اس سے اچھے سے نمٹنے کا تو اس نے فیصلہ کر ہی لیا تھا .. پھر زرنور کی طرف متوجہ ہوا جو ابھی بھی ہنس رہی تھی ..
ایک روشن خوشنما سی صبح اس کمرے میں اتری تھی جہاں جا بجا بکھرے لاتعداد پھولوں کی مہک ابھی بھی ماند نہیں پڑی تھی رات کی طرح کمرہ ابھی ابھی مہک رہا تھا .. احمد نے آہستہ سے اس کا سر اپنے سینے پر سے ہٹا کر تکیے پر رکھا تھا پھر اس کے چہرے پر آئی لٹھوں کو پیچھے کرتے ہوئے جھک کر اس کی پیشانی کو چوما تھا جو گہری پر سکون نیند سو رہی تھی .. وہ جتنا خدا کا شکر ادا کرتا کم تھا آخر کار اس کی محبّت اس کے قریب تھی اس کے پاس تھی بچپن سے اس نے اسی ایک چہرے کو سوچا تھا صرف اسے چاہا تھا .. اور آج وہ ہمیشہ کے لئےصرف اسکی تھی .. وارڈ روب میں سے اپنا ہینگ کیا ہوا بلیک کلر کا شلوار قمیض نکال کر وہ واشروم میں چلا گیا تھا پھر دس منٹ بعد شاور لے کر تولیے سے بال رگڑتا باہر آیا تو زرنور ہنوز محو خواب تھی احمد نے اس کی نیند خراب کرنا مناسب نہیں سمجھا بال بنانے اور پرفیوم کا سپرے کرنے کے بعد وہ روم سے باہر آ گیا تھا جہاں مناہل ٹھنڈے پانی سے بھرا شیشے کا جگ لئے گیسٹ روم کی جانب جا رہی تھی .. ” اوہو .. بڑی جلدی اٹھ گئے ..!!” مناہل نے معنی خیزی سے اسے دیکھ کر کہا تھا ” ایک ضروری کام کرنا تھا ..حارث کو اٹھانے جا رہی ہو ؟..!!” احمد کے پوچھنے پر اس نے آثبات میں سر ہلایا تھا ” لاؤ مجھے دو جگ ..میں اٹھا دوں گا اسے ..اور حیدر کہاں سو رہا ہے ؟؟..!!” اس نے احتیاطآ پوچھ لیا تھا ” وہ بھی وہیں سو رہا ہے ..رات کو تو کوئی گیا ہی نہیں ان میں سے اشعر کے علاوہ سب یہی سو گئے تھے ..اور زری اٹھ گئی ہے ؟؟ !!” “نہیں وہ سو رہی ہے ابھی ..!!” “ٹھیک ہے میں دیکھتی ہوں اسے ..!!” وہ کہتے ہوئے اس کے کمرے کی جانب بڑھی تو وہ بھی جگ سنبھالتے ہوئے گیسٹ روم کی طرف آیا تھا حیدر سے رات والا حساب بھی تو بے باک کرنا تھا ..