.زرنور تو اس کی جرات پر ہی حیران رہ گئی تھی “چھوڑو مجھے ..” وہ غصے سے بولی “نہ چھوڑوں تو ؟؟…” ” اچھا نہیں ہو گا پھر ..میں ..میں جان سے مار دوں گی تمہیں ..” وہ دھمکی دیتے ہوئے بولی ” میری جان تو اب صرف تم ہو یار ..” احمد نے دلفریبی سے کہا “مجھے تمہاری کسی بھی بات پر کوئی بھی اعتبار نہیں ہے ..بہتر ہوگا کے تم اپنے یہ فضول ڈرامے بند کر دو ..” وہ چبا کر بولی ” میری محبّت تمہیں فضول ڈرامہ لگتا ہے ؟” احمد نے اس سے پوچھا “صرف تمہاری محبّت ہی نہیں تم خود بھی ایک فضول انسان ہو ..”وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بے خوفی سے بولی “میں فضول انسان ہوں نا ؟ ابھی بتاتا ہوں ..” احمد نے کہتے ہوئے اس کلائی مروڑی تھی “آہ ہ …یہ کیا حرکت ہے ..؟ چھوڑو مجھے ..” وہ اس کی حصار میں کسمساتے ہوئے چیخ کر بولی “اب بولو گی مجھے فضول ؟” “بولوں گی ..ہزار دفعہ بولوں گی .بد تمیز انسان .” زرنور نے غصے سے کہا “چہ ..چہ ..” اس نے افسوس سے نفی میں سر ہلایا ..” “بہت محنت کرنا پڑے گی مجھے تم پر ..” “کیسی محنت ؟” وہ چونکی “سب کچھ ابھی بتا دوں ؟؟” وہ تھوڑا سا اس پر جھکتے ہوئے بولا “تم …تم انتہائی گھٹیا انسان ہو ..” وہ غصے سے چیخ کر بولی .”.یہ تو میں جانتا ہوں …نئی بات بتاؤ .. “احمد نے کہتے ہوئے اس کے گرد سے اپنا حصار ہٹا لیا تھا اس کی کلائی بھی چھوڑ دی تھی وہ خونخوار انداز میں اس کو دیکھتی جھٹکے سے وہاں سے اٹھ کر سامنے سنگل صوفے پر جا بیٹھی تھی اپنی کلائی مسلتے ہوئے زرنور مسلسل اسے گھور رہی تھی “اتنے پیار سے مت دیکھوں یار ..کچھ کر بیٹھوں گا تو پھر تمہیں ہی اعتراض ہو گا ..” معنی خیزی سے کہتے ہوئے احمد نے ٹیبل پر پڑا کافی کا کپ اٹھایا اس نے غصے سے گھورتے ہوئے اپنا رخ موڑ لیا ..”ویسے ایک بات بتاؤ ..ہمارے نکاح کا جان کر تمہیں خوشی نہیں ہوئی ؟” اس نے کپ کی سطح پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا ” “پوچھو ہی مت کے کتنی خوشی ہوئی تھی …اتنی خوشی ہوئی تھی کے میرا دل چاہ رہا تھا کے برج خلیفہ پر چڑھ کر بھنگڑے ڈالوں ..دماغ پر اثر ہو گیا تھا میرے ..” اس نے طنز سے کہا “احمد بے ساختہ ہنستا چلا گیا اس نے غصے سے اس کو دیکھا ..مانا کے ہنسی بے حد پیاری ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کے مسلسل سامنے والے کا امتحان لیا جائے احمد اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے سامنے رکھی شیشے کی ٹیبل پر بیٹھ گیا تھا کپ بدستور ہاتھ میں تھا “تمہیں پتا ہے …مجھے کب محبت ہوئی تھی تم سے ؟” وہ اسکی ہرے کانچ سی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا ..زرنور نے کوئی جواب نہ دیا “جب مجھے محبت کا مطلب بھی نہیں معلوم تھا ..اٹھارہ سال کا تھا میں جب ماہین آپی کی ای میل کی گئی فوٹو گرافس دیکھ رہا تھا تبھی میں نے تمہیں دیکھا شاید میٹرک میں تھی تم اس وقت ریڈ فراک میں پھولوں کا تاج سر پر رکھیں ..نہ جانے تم میں ایسی کیا کشش تھی جو میری نظروں نے پلٹنے سے انکار کر دیا تمہاری مسکراہٹ ..ہری آنکھیں ..تمہارے چہرے کے ایک ایک نقش سے مجھے محبّت ہو گئی تھی اس وقت شدّت سے میرے دل نے دعا کی تھی کے کاش تم ہمیشہ کے لئے میری ہو جاؤ ..میں خود اپنی حالت پر حیران تھا کیوں کے ایسا تو میرے ساتھ پہلی دفعہ ہی ہوا تھا اٹلی میں ..میں نےایک سے ایک حسین لڑکی دیکھی تھی لیکن تمہاری جیسی ..کہیں بھی نہیں دیکھی تمہاری ساری تصویریں میں نے اپنے لیپ ٹاپ میں سیو کر لی تھی صبح اٹھنے کے بعد اور رات کو سونے سے پہلے تمہیں دیکھنا میرا معمول بن گیا تھا لیکن ڈیڈ نے جلد ہی میری اس تبدیلی کو نوٹ کر لیا ..ایک دن تمہاری تصویریں دیکھتے ہوئے میں اتنا مہبوت ہو گیا تھا کے پتا ہی نہیں چلا کے کب انہوں نے میری چوری پکڑ لی “میں تو گڑبڑا گیا تھا شرمندگی ہوئی وہ الگ ….وہ بھی کیا سوچتے ہوں گے کے ان کا بیٹا چھپ چھپ کر ایک لڑکی کی تصویریں دیکھ رہا ہے “وہ مبہم سا مسکرآیا لمحے کو رک کر اس نے کپ لبوں تک لے جا کر گھونٹ بھرا تھا زر نور ٹرانس کی سی کفیت میں بیٹھی ساکت نظروں سے اس کو دیکھ رہی تھی “اتنا شرمندہ کیوں ہو رہے ہو یار ؟ اپنی بیوی کو دیکھنا کوئی بری بات تو نہیں ..” ڈیڈ کی بات میں سمجھا نہیں تھا تب انہوں نے مجھے بتایا کے تمہیں تو اس دنیا میں آتے ہی اللہ نے میری قسمت میں لکھ دیا تھا ..مما کو وہ ہری آنکھوں والی گڑیا اتنی پیاری لگی کے انہوں نے اسی وقت عباد انکل سے تمہیں میرے لیے مانگ لیا ..جبھی ہمارا نکاح ہوا ..مجھے نہیں پتا تھا کے مما کی پسند مجھے اتنی پسند آۓ گی میں تو شکر ادا کرتے نہ تھکتا تھا کے اتنی آسانی سے مجھے میری محبّت مل گئی ..میں جلد سے جلد تم سے ملنا چاہتا تھا ..لیکن ڈیڈ چاہتے تھے کے پہلے میں اپنی ڈگری لے لوں ..گریجویشن کرنے کے بعد میں مانچسٹر چلا گیا ..ان دنوں میں نے ایڈمشن لیا تھا جبھی ماہین آپی کی شادی کی خبر ملی ..میں پاکستان آنا چاہتا تھا ..لیکن پھر ..آ نہیں سکا ..حارث سے میری دوستی چار سال پہلے ماہین آپی کے توسط سے ہی ہوئی تھی پہلے تو ہماری بات صرف مسیجز پر ہی ہوئی ..پھر نہ جانے کب ہمارے درمیان اتنا گہرا رشتہ بن گیا ..کوئی بھی بات ہم ایک دوسرے سے شئیر کئے بنا نہیں رہ پاتے تھے حارث مجھ سے کافی دفعہ ملنے آیا ..لیکن میں صرف ایک دو دفعہ ہی پاکستان آ سکا تھا عباد انکل زارا آنٹی ماہین آپی بازل ..میں سب سے ملتا تھا ..لیکن تمہاری غیر موجودگی میں ..تم ہمارے رشتے سے لا علم تھی ..ڈیڈ تمہیں بتا دینا چاہتے تھے ..لیکن میں نے انھیں منع کر دیا تھا ..میں خود تمہیں بتانا چاہتا تھا لیکن اس سے پہلے میں تمہاری آنکھوں میں اپنا چہرہ دیکھنا چاہتا تھا ..پھر نہ جانےکیسے میرے مائنڈ میں یہ ڈرامہ کرنے کا آئیڈیا آیا ..ماسٹرز کرنے کے بعد میں پاکستان آگیا ..ڈیڈ نے یہ بنگلو بہت پہلے سے لیا ہوا تھا جب بھی وہ یا میں پاکستان آتے ..یہیں پر اسٹے کرتے تھے انکل اور آنٹی کی اجازت سے ہی میں نے اپنی شناخت تم سے چھپائی ..میں پہلے اپنا مقصد پورا کرنا چاہتا تھا اور الحمد لله مجھے میرا مقصد حاصل ہو گیا اور تمہیں بھی مجھ سے محبّت ہو ہی گئی “وہ شرارت سے ہنسا ..”یقین کرو ..یہ سب کرنے میں میری کوئی غلط نیت نہیں تھی ..بس ایک چھوٹا سا مذاق ہی تھا …مجھے نہیں پتا تھا کے تم اتنا شدید ری ایکشن دو گی اگر پتا ہوتا تو کبھی ایسا نہ کرتا …تمہیں تکلیف دینے کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتا ..پہلے تو مجھے صرف تم سے محبّت ہوئی تھی لیکن یہاں آنے کے بعد جب پہلی دفعہ میں نے یونی کی پارکنگ میں وائٹ ڈریس میں حیدر سے لڑتے ہوئے دیکھا تو بس ..پوچھو ہی مت کیا حال ہوا تھا میرے دل کا اتنے عرصے تک صرف تمہیں تصویروں میں ہی دیکھا تھا لیکن جب تمہیں حقیقت میں دیکھا تومیں پلکیں تک نہیں جھپک سکا اپنی.. جب جب تمہیں یونی میں دیکھتا تھا تمہارے لئے میری شدّتوں میں اضافہ ہی ہوتا رہا ..میں خود کو تمہیں دیکھنے سے روک نہیں پاتا تھا ..تم خود سوچو جو انسان صرف تصیوریں دیکھ کر ہی پاگل ہونے لگتا ہو اس کا حقیقت میں تمہیں دیکھنے سے کیا حال ہوتا ہوگا ؟ ..اب تمہیں حیرانی ہو رہی ہو گی کے ڈگری لینے کے بعد بھی میں تمہاری یونیورسٹی میں ایک سٹوڈنٹ کی طرح ہی کیوں رہتا تھا ؟ تو اس کا سمپل سا جواب ہے ..تمہاری وجہ سے..صرف تمہیں دیکھیں کے لئے تمہارے قریب رہنے کے لئے ..تمہیں جاننے کے لئے سمجھنے کے لئے .. یونی کے اونر ڈیڈ کے گہرے دوست ہیں ..اور یہی دوستی میرے کام آگئی…” کپ کو ٹیبل پر رکھ کر وہ اٹھ کر زرنور کے پاس گھنٹوں کے بل بیٹھ گیا “اس کے سرد پڑتے ہاتھوں کو اس نے اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھام لیا “تمہیں مجھ سے شکایت تھی نہ کے میں تمہیں دیکھتا کیوں نہیں ؟ تم سے بات کیوں نہیں کرتا ؟ ..تو آج میں اطراف کرتا ہوں ..مجھے تم سے عشق ہے.. ہمیشہ سے ..اپنی آخری سانس تک میں تمہیں چاہتا رہوں گا ..تم میری پہلی محبّت ہو اور آخری بھی ..تمہارے بغیر جینے کا اب میں تصور بھی نہیں کر سکتا ..آئم ایکسٹریملی سوری فور ایوری تھنگ ….جانے انجانے میں .میں نے تمہیں اتنے دکھ دے دئے …شرمندہ ہوں میں اس کے لئے …آئندہ میری یا کسی بھی وجہ سے میں تمہاری آنکھوں میں ایک آنسوں بھی نہیں آنے دوں گا ..آئی پرامس ..”احمد نے اپنے ہاتھوں میں قید اس کے نازک سے ہاتھوں کو استہقاق سے چوماتھا زرنور دمبخود سی سانس روکے اس کو دیکھ رہی تھی جو اس کے پیروں کے پاس بیٹھا اسی کو دیکھ رہا تھا “ا ..احمد …” اس کی آواز رندھ گئی تھی وہ سب ایک خواب کی مانند لگ رہا تھا جیسے ابھی آنکھیں کھلیں گی اور سب غائب ہو جائے گا اسے اپنی آنکھوں پر اختیار نہیں رہا .سمجھ نہیں آرہا تھا کے کیا کہے اسے نہیں پتا تھا کے دعائیں یوں بھی قبول ہوتی ہیں اس کے ہاتھوں پر سر رکھے وہ پھوٹ پھوٹ کے رودی احمد نے آہستہ سے اس کا سر اٹھا کر نرمی اور پیار سے اس کے آنسوں صاف کئے “میں تمہاری آنکھوں اب ایک آنسوں بھی برداشت نہیں کر سکتا نور ..پلیز ایسے مت روؤ ..مجھے تکلیف ہو رہی ہے ….” “آئم سوری احمد …رئیلی سوری …”سر سر کرتے ہوئے وہ بھیگی آواز میں بولی “تمہاری غلطی نہیں ہے اس میں ..جو کچھ بھی میں نے کیا اس پر تمہارا ری ایکشن آنا نارمل بات ہے …ویسے ایک بات کہوں ؟ ..تم کافی بلکل بھی اچھی نہیں بناتی ..”زرنور کا دھیان ہٹانے کے لئے اس نے برا منہ بناتے ہوئے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا وہ رونا دھونا بھول کر حیرت سے اس کو دیکھ رہی تھی “کیا …؟ ایسے کیا دیکھ رہی ہو ؟ سچ کہ رہا ہوں اتنی بری کافی تھی ..تمہیں پتا ہے کے کتنی مشکل سے میں نے ختم کی ہے .؟ “”ہاں تو پہلی دفعہ بنائی تھی میں نے ..وہ بھی گوگل سے ریسیپی دیکھ کر .ایک تو مجھے بنانی نہیں آتی پھر بھی میں نے تمہارے لئے بنائی ..اور تم مجھے ہی باتیں سنا رہے ہو ؟” ناک رگڑتے ہوئے اس نے ناراضگی سے کہا احمد کو حیرت کا جھٹکا لگا “تمہیں …کافی بنانی نہیں آتی نور ؟” وہ حیرت زدہ سا بولا “نہیں …” اس نے بھی شرمندہ ہوئے بغیر کہا “لیکن میں تو کافی کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا ..” اس کی حیرت کم نہیں ہو رہی تھی اسے یہ تو پتا تھا کے زرنور کو کچن کا کام اور کھانا وغیرہ پکانا نہیں آتا ہوگا .لیکن کافی تک نہ آتی ہو گی ؟؟” “ایسے کیوں دیکھ رہے ہو اب ؟ اگر مجھے کافی بنانی نہیں آتی تو کیا ہوا .؟تمہیں تو آتی ہے نہ ؟” “یوں تو نہیں کے ..احمد ..اگر مجھے کافی بنانی نہیں آتی تو میں سیکھ لوں گی تمہارے لئے ..لیکن تم تو الٹا مجھ سے ہی ساری زندگی کافی بنواؤ گی ..یہ اچھا ہے ..” سر جھٹکتا ہوا وہ اٹھ کھڑا ہوا یہ انکشاف اسے ہضم نہیں ہو رہا تھا “ابھی تو بہت عاشقی کے دعوے کر رہے تھے تم ..کافی کے بغیر رہ نہیں سکتے تو ایسا کرو کسی سپر شیف سے بھی شادی کر لو..پھر بنوا کر پیتے رہنا اس سے ساری زندگی ..کافی ..” شدید ناراضگی سے کہتی وہ جانے لگی تھی جبھی احمد نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جانب کھینچا تھا “شادی اسی سے ہوتی ہے جس سے آپ عشق کرتے ہیں .الحمد لله مجھے عشق بھی ہو چکا ہے اور شادی بھی …لیکن عشق اپنی جگہ …..کافی بنانا تو سیکھ لو یار ..” اس نے بےبسی سے کہا زرنور کو ہنسی آ رہی تھی اس کی شکل دیکھ کر لیکن ضبط کر گئی ..”تمہیں تو مجھ سے زیادہ کافی سے محبّت ہے ..” روٹھے ہوئے انداز میں کہتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ چھڑوایا “لیکن تم فکر مت کرو میری مما مجھے پروفیشنل شیف بنا کر ہی رخصت کریں گی ” اس کا انداز ہنوز روٹھا ہوا ہی تھا “واقعی میں ؟؟” وہ خوشی سے بولا “ہاں میں سیکھ لوں گی کافی بنانا ..لیکن جب بھی تمہارے لئے بناؤں گی نہ تو آج سے بھی زیادہ بری بناؤں گی ..”وہ ناک سکوڑ کر بولی “جب تو میں خود تمہارے سر پر کھڑے ہو کر بنواؤ گا “احمد نے اس کی لٹھ کھینچتے ہوئے کہا “بھوک لگ رہی ہے مجھے ..” زرنور نے خود پر سے اس کا فوکس ہٹاتے ہوئے کہا “چلو پھر لنچ کرنے چلتے ہیں ..” “اس حلیے میں ؟؟ رو رو کر میری آنکھوں کا حشر ہو گیا چہرہ دیکھوں کیسا ہو رہا ہے میرا ..” وہ منہ بسور کر بولی “”اچھا بتاؤ کیا کھانا ہے پھر ..یہیں منگوالیتے ہیں ..” وہ جلدی سے بتا کر دوبارہ اس کے روم میں فریش ہونے چلی گئی تھی احمد نے صوفے پر کشن کے ساتھ رکھا اپنا فون اٹھایا جہاں پہلے سے گوگل ٹیب کھلا ہوا تھا اس نے ہسٹری چیک کی جہاں .”ہاؤ ٹو میک بلیک کافی ؟ “پانچ دفعہ سرچ کیا گیا تھا ” اس نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا۔ “”کیا ہوا مناہل ؟؟ تیار نہیں ہوئی تم ابھی تک ..آج یونی جانے کا ارادہ نہیں ہے کیا ؟” حارث نے اسے سوفے پر گھر کے حلیے میں ہی بیٹھے دیکھ کر پوچھا “نک سک سے تیار حارث کو دیکھ کر اس کا دل دھڑک اٹھا تھا دوسرے ہی لمحے اس نے نظریں چرائی تھی ” وہ میرا دل نہیں کر رہا آج جانے کا ..تم چلے جاؤ ..” اس نے نظریں جھکاۓ جواب دیا ” کیوں ..طبیت تو ٹھیک ہے تمہاری ؟” اس نے فکر مندی سے پوچھا ” اس نے آثبات میں سر ہلایا “چلو ٹھیک ہے پھر ..دوپہر کو تم سونا نہیں ..شاپنگ پر چلیں گے ..” کیوں ؟” حارث کے کہنے پر اس نے حیرانی سے پوچھا “بس کچھ ضروری سامان لینا ہے ..اور تم تیار رہنا ..ویٹ مت کروانا ” اس نے مناہل کو تنبہ کی تھی “ٹھیک ہے” “حیدر میرے بھائی .یہ تیرے چہرے پر ہوائیاں کیوں اڑ رہی ہیں ؟کیا پھر اس بھوتنی نے تیرے ساتھ کچھ کیا ہے ؟” ریاض نے فکر مندی سے حیدر کو کہا جو دونوں ہاتھوں میں سر تھامے بیٹھا تھا “ابے یار دو دن ..پورے دو دن کی محنت سے میں نے سر قریشی کی دی گئی اسائمنٹ بنائی تھی لیکن …پتا نہ نہیں کہاں چلی گئی .مل ہی نہیں رہی “وہ پریشانی سے بولا “ابے تیری اسائمنٹ کوئی دو سال کی بچی ہے کیا جو کھو گئی اور مل نہیں رہی ..” تیمور نے اس کی بات ہوا میں اڑائی “آخری دفعہ کہاں رکھی تھی تونے ؟” اشعر نے پوچھا “کینٹین میں ٹیبل پر ہی بھول گیا تھا اور جب دوبارہ لینے گیا تو وہاں نہیں تھی ” کسی اور پروفیسر کے پیریڈ وہ اٹینڈ کرے یا نہ کرے لیکن سر قریشی کے ضرور کرتا تھا اور توجہ سے بھی سنتا تھا وہ تھے بھی تھوڑے سخت مزاج کے “ابے تو کینٹین میں ہی دیکھتا نہ اچھی طرح سے وہیں ہو گی ایسے کون لے کر جائے گا اور کسی میں ہمّت تھوڑی ہے جو حمزہ حیدر علی کی چیزیں چوری کرے ” “یار دس دفعہ دیکھ لیا وہاں بلکے ہر جگہ ہی دیکھ لیا ..اگر آج جمع نہ کروائی تو پتا نہیں کیا حال کریں قریشی سر ..”وہ اپنی پیشانی مسلتے ہوئے بولا “فکر مت کر ..کسی سٹوڈنٹ کو ملی ہو گی تو وہ خود ہی دے جائے گا ..”تیمور نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے تسلی دیتے ہوئے کہا “اس نے محض سر آثبات میں ہلایا اس کا موبائل بجنے لگا تھا کسی نے انجان نمبر سے کوئی ویڈیو بھیجی تھی حیدر نے حیران ہوتے ہوئے ویڈیو پلے کی جیسے جیسے وہ ویڈیو دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں خون اترنے لگا غصّے سے اس کی رگے تن گئی آنکھیں بے تحاشا سرخ ہو چکی تھی جیسے ابھی خون چھلک پڑے گا اس نے پورے دو دن اور دو راتیں جاگ کر وہ اسائمنٹ بنائی تھی جسے یشفہ نے پرزے پرزے کر کے آگ کی نظر کر دیا تھا اس کی محنت منٹوں میں ہی جل کر راکھ بن گئی وہ شید غصّے کی لہروں کو دباتا تیزی سے وہاں سے اٹھ کر آرٹس ڈیپارٹمنٹ کی جانب بڑھا…. وہ کانوں میں ہینڈز فری لگاۓ کوریڈور کے آخر میں ببل گم چباتے ہوئے دیوار سے ٹیک لگاۓ کھڑی تھی حیدر نے اسے دور سے ہی دیکھ لیا تھا آندھی طوفان بنا وہ اس کے سر پر پہنچا یشفہ نے چونک کر اس کو دیکھا پھر ایک استہزایا مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی “دیکھ لی تم نے ویڈیو ؟؟” اس نے طنزیہ انداز میں پوچھا حیدر نے شدید غصّے سے اپنے لب بھینچ لیے تھے کچھ بھی کہے بغیر اس نے یشفہ کا بازو دبوچا اور بغیر ادھر ادھر دیکھیں پیچھے کے راستے سے اسے اپنے ساتھ کھینچتا ہوا یونی کے پیچھے بنی ہوئی پرانی لیب میں لا کر جھٹکے سے اس کا بازو چھوڑا وہ گرتے گرتے بچی ..”یہ کیا حرکت ہے پاگل تو نہیں ہو تم ؟” اپنا بازو سہلاتے ہوئے اس نے غصّے سے کہا “بکواس بند کرو اپنی ..” وہ دھاڑا تھا “تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی میری اسائمنٹ جلانے کی ؟؟” “ہمت کی بات تو تم کرو نہیں ..الحمد لله اتنی ہمّت ہے کے دس بار تمہیں قتل کر دوں ..پھر اسائمنٹ تو بہت …بہت چھوٹی سی چیز ہے ..اور رہی بات کے میں نے کیوں جلائی ؟؟ تو …ہر ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے حیدر علی ..اگر تم مجھے ایک تھپڑ مارو گے تو بدلے میں تمہیں تین کھانے پڑیں گے “اس کا پر سکون لہجہ حیدر کو آگ لگا گیا “پہلی بات تو یہ کے میرا نام حمزہ حیدر علی ہے ..اور آخری بار میں تم سے کہ رہا ہوں کے مجھ سے اور میری چیزوں سے تم دور ہی رہو تو بہتر ہو گا تمہارے لئے ..ورنہ وہ حشر کروں گا نہ ساری دنیا سے منہ چھپاتی پھرو گی ..”اس نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا “اوہ واؤ …دھمکی دے رہے ہو تم مجھے …امیزنگ ..” اس نے خوشی سے پلکیں جھپکتے ہوئے کہا حیدر نے غصے سے اس کا بازو پھر سے دبوچا “تمہیں سمجھ نہیں آ رہی میری بات ؟” یشفہ نے ناگواری سے اس کا یہ انداز دیکھا پھر جھٹکے سے اس کے ہاتھ سے اپنا بازو چھڑوایا “دور رہ کر بات کرو مجھ سے ..اور یہ جو تمہارا فضول سا ایٹیٹیوڈ ہے نہ ..اسے اپنے تک ہی رکھو تو بہتر ہوگا تمہارے لئے ….ورنہ تمہیں اٹھا کر ایسی جگہ پٹخوں گی نہ ..ساری زندگی وہاں سے نکلنے کی ناکام کو شش ہی کرتے رہو گے “اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ بے خوفی سے بولی حیدر دل ہی دل میں اس کی ہمت کا قائل ہو گیا “کتنی ہی …ہمّت ..بہادری …اور بے خوفی تم اپنے اندر لے آؤ یشفہ لیکن …ہو تو تم ایک لڑکی ہی نہ “حیدر کے چہرے پر تپانے والی جلانے والی مسکراہٹ تھی “کیا مطلب ہے اس بات کا ؟” وہ نہ سمجھی سے بولی “ویل ..مطلب تو تمہیں اچھی طرح پتا ہوگا کے ایک لڑکی کی عزت اس کے لئے کیا ہوتی ہے ؟..اسی لئے مجھ سے ٹکر لینے سے پہلے یا میرا کوئی کام خراب کرنے سے پہلے ..اپنا نہ سہی اپنی عزت کا ہی خیال کر لینا ..ورنہ ..آگے تم خود سمجھدار ہو ..”لفظوں کے مطلب میں چھپا اس کا مقصد وہ بخوبی سمجھ گئی تھی یشفہ کے دماغ پر غصّہ چڑھ چکا تھا دونوں ہاتھ سینے پر باندھے آگ برساتی نظروں سے وہ اس کو دیکھنےلگی “تم جیسے گھٹیا انسان سے اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے ؟ ..جس میں لڑنے کی ہمّت نہیں ہوتی ..وہ ایسے ہی چیپ طریقوں سے دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہے ..لیکن ٹرسٹ می حیدر ..تمہاری یہ جو سو کالڈ عزت ہے نہ اگر میں نےبھی اس کا جنازہ نہ نکالا نہ تو ..نام بدل لینا تم اپنا …بلکے ایسا کرنا کے تین نام تو تمہارے پہلے سے ہی ہیں ..چار پانچ کا اور اضافہ کر لینا ” حیدر کو تیر کی طرح لگی تھی اس کی بات ..پہلی دفعہ کسی نے اس کے نام کو طنز کا نشانہ بنایا تھا “کہیں سے نہیں لگتا کے تم اسٹینفورڈ سے گریجویٹ ہو …” حیدر نے بھی اپنی جان میں اس پر طنز کیا “تم جیسے تھرڈ کلاس پرسن سے بات کر کے میری لینگویج بھی تمہارے جیسی ہی ہو گئی “حیدر کا دل کر رہا تھا کے دیوار میں سر دے کے مارے ..یہ لڑکی اس کی جان کا وبال بنتی جا رہی تھی “ٹھیک ہے یشفہ حمین ..پھر آج سے ہی جنگ کا آغاز کرتے ہیں ..” “آج سے کیوں ؟ ابھی سے کرتے ہیں یشفہ نے کہتے ہوئے پھرتی سے اس کی جیکٹ کی جیب میں سے جھانکتا آئی فون نکال کران کی ان میں دیوار پر دے کر مارا تھا اس کا مہنگا ترین نیو ماڈل کا آئی فون فرش پر ٹکرے ٹکرے ہوئے پڑا تھا ..حیدر کو جتنا وقت سوچنے میں لگتا تھا یشفہ اس سے پہلے کر بھی لیتی تھی “آئندہ ..مجھے دھمکی دینے سے پہلے ہزار دفعہ سوچ لینا …اور یہ بھی کے …اگر تمہاری انگلی میری عزت کی طرف اٹھے گی حیدر علی تو ..تمہاری عزت بھی دو کوڑی کی کرنے میں وقت نہیں لگاؤں گی میں ….سو اب تم آرام سے یہاں بیٹھ کر سوگ مناؤ …اور ایک بات ..تمہاری اور میری لڑائی اب تم ختم ہی سمجھو ..تم اپنے راستے اور میں اپنے راستے ..کیوں کے تم سے لڑنے میں مجھے بلکل بھی مزہ نہیں آتا ..دشمن بھی میں اپنے جیسے ..اپنے لیول کے بناتی ہوں ..تمہارے جیسے نہیں ..جو صرف سوچنے میں ہی آدھی زندگی گزار دیتے ہیں “سرد الفاظ میں کہتی اس کو تیز نظروں سے گھورتی وہ وہاں سے چلی گئی تھی جبکے حیدر پتھر کا بت بنا حیران اور ساکت سا وہاں کھڑا رہ گیا …. حارث .تم نے لینا کیا ہے آخر ؟ اتنی دیر سے ایسے ہی گھوم رہے ہو ..اگر کچھ نہیں لینا تو گھر چلو پھر ..”مناہل نے تھکے ہوئے انداز میں کہا “یار مناہل ..اپنی شاپنگ کے لئے تو تم لوگ چار چار گھنٹے بھی گھوم لیتے ہو اور میری شاپنگ میں تم ابھی سے تھک گئیں ؟” “ہاں تو مجھے لگا تھا کے تم مجھے بھی شاپنگ کرواؤ گے ..لیکن تمہارا تو خود کا کچھ لینے کا ارادہ نہیں ہے ..مجھے کیا دلاؤ گے ..” وہ برا مان کر بولی “پہلے میری شاپنگ ہو جائے اس کے بعد جو تم نے لینا ہو لے لینا ..” “تمہیں لینا کیا ہے آخر ..یہ تو بتا دو ؟” “مجھے ایک خوبصورت سی رنگ اور گفٹ لینا ہے ..تمہیں اس لئے ساتھ لآیا تھا کے لڑکیوں کی شاپنگ کا مجھے کوئی اندازہ نہیں ..اب تم ہی میری مدد کرو ” “کس کے لئے لے رہے ہو تم یہ سب ؟” مناہل کو لگا تھا کے وہ اس کا نام لے گا کیوں کے کچھ دن بعد اس کی برتھ ڈے بھی تو تھی اس کا دل یک بارگی خوشی سے دھڑکا “ایش کے لئے ..” اس نے مسکراتے ہوئے کہا مناہل کا دل چھناکے سے ٹوٹا تھا “عائشہ کی برتھ ڈے ہے نہ اسی لئے …مجھے اسپیشل سا گفٹ دینا ہے اسے ..اس دن میں بتا رہا تھا نہ تمہیں عائشہ کے بارے میں “اس کا نام لیتے ہوئے حارث کے لہجے میں پیار ہی پیار تھا مناہل کے قدم اٹھنے سے انکاری ہو گئے تھے اس نے عائشہ کے لیے اپنے دل میں شدید نفرت محسوس کی تھی “تمہیں کیا ہوا ؟ چلو نہ ..” حارث نے اسے وہیں کھڑے دیکھ کر کہا “وہ ..مم ..میری طبعیت خراب ہو رہی ہے حارث ..پلیز گھر چلو ..” “کیا ہوا یار ؟ ابھی تو تم ٹھیک تھی ..” حارث نے فکر مندی سے اس کی پیشانی چھو کر دیکھی اس کی سانسیں تھم گئیں تھی “تم نے لنچ بھی نہیں کیا تھا جبھی بلڈ پریشر لو ہو رہا ہوگا ..چلو پہلے تم کچھ کھا لو ..اس کے بعد شاپنگ کریں گے ..” وہ اسے اپنے حصار میں لئے فوڈ کورٹ کی جانب بڑھا تھا مناہل کا دل چاہ رہا تھا کے وہ چیخ چیخ کر روۓ حارث کو وہ کسی اور کا ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھی … “اوے اکیلا کیوں بیٹھا ہے یہاں ؟ اسائمنٹ مل گئی تیری ؟؟” ریاض نے اسے سیڑ ہیوں پر سر جھکاۓ بیٹھے دیکھ کر پوچھا “مل گئی ..” اس نے کہتے ہوئے یشفہ کی سینڈ کی گئی ویڈیو پلے کر کے اس کے ہاتھ میں اپنا فون دیا ریاض فون پکڑے اس کے ساتھ ہی وہاں بیٹھ گیا ویڈیو میں جلتی ہوئی اسائمنٹ میں سے اٹھتے آگ کے شعلے دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی “ابے یہ …” حیرت کی زیادتی سے اس سے بولا نہیں گیا “کہتی ہے کے ہر ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے ..بہت گھمنڈ ہے اسے خود پر ریاض …جب تک اس کا گھمنڈ نہیں توڑ دیتا سکون سے نہیں بیٹھوں گا میں ..”اس کے لہجے کی سنگینی پر ریاض نے حیرت سے اس کو دیکھا ” حیدر ..اس معاملے کو اتنا سیرئیس مت لے ..لڑکی ہے وہ ..کتنا لڑے گی ..تھک کر خود ہی سائیڈ پر ہو جائے گی ..” “اگر اس نے سائیڈ پر ہی ہونا ہوتا نہ تو مجھ سے پنگا ہی نہیں کرتی ..ہر دفعہ وہ میری چیزوں کا ستیا ناس مار جاتی ہے ..اگر کچھ توڑنا ہی ہے تو بھلے سے میرا منہ توڑ دے .میرا سر پھاڑ دے …میری چیزوں کا نقصان کیوں کرتی ہے ؟ میری گاڑی خراب کی ..سب کے سامنے مجھ پر ہاتھ اٹھایا ..میری عزت کی دھجیاں اڑادی ..اور اب …میرا آئی فون توڑ گئی پتا نہیں کیا مسلئہ ہے اسے مجھ سے نہ جانے کون سی ایسی منحوس گھڑی تھی جب اس کا چہرہ دیکھا تھا ..دل کر رہا ہے کے وہ مزہ چکھاؤں نہ کے ساری زندگی یاد رکھے ..کے حمزہ حیدر علی بھی کس بلا کا نام ہے ..” وہ زہر خند لہجے میں بولا” ابے حیدر ..تو اگنور کر نہ ..کچھ کہنا ہی چھوڑ دے ..جواب ہی مت دے اس کی بات کا خود ہی پیچھے ہو جائے گی …”ریاض نے اس کا غصّہ کم کرنا چاہا “جواب تو میں اسے اچھی طرح سے دوں گا ..” “بات کو سمجھنے کی کوشش کر بھائی ..تیرا دیا گیاتھوڑا سا بھی نقصان اس کے لئے بہت بڑا ہو سکتا ہے ..اسی لئے جو بھی کچھ ہوا ہے اسے بھول جا ..سمجھ کے وہ اس یونی میں ہے ہی نہیں …” “مجھے اپنی لمٹس پتا ہے ریاض لیکن ایسا نہ ممکن ہے میں خود اس کو کوئی نقصان نہیں دینا چاہتا ..لیکن اب اگر ایک دفعہ بھی اور اس نے مجھ سے پنگا کیا نہ تو اچھا نہیں ہو گا پھر ..وہ دور ہی رہے تومجھ سے تو بہتر ہے ..”حیدر نے کہتے ہوئے دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرے اور سر جھٹکا “چل چلیں ..” وہ بیگ کندھے پر ڈالے اٹھ کھڑا ہوا لیکن ریاض نہیں اٹھا وہ چونکا ہوا لگتا تھا “کیا ہوا چل نہ ..” حیدر نے اسے وہیں بیٹھے دیکھ کر کہا “تو کہ رہا تھا کے اس نے تیرا آئی فون توڑا ہے ؟” ریاض نے اس کو دیکھ کر کہا “ہاں تو ؟” حیدر نے سوالیہ انداز میں پوچھا “دکھا ذرا ..کہاں ہے وہ آئی فون ؟” ریاض کے کہنے پر اس نے ٹوٹا ہوا فون نکال کر اس کے ہاتھ میں دیا ..جس کی سکرین کرچی کرچی ہو چکی تھی اسنے فون کو الٹ پلٹ کے دیکھا ” ابے کتنا کا لیا تونے یہ نقلی آئی فون ؟” ریاض نے اسکو گھورتے ہوئے کہا “ہنہ ..دو ہزار کا لیا تھا پورے ..”اس نے نخوت سے کہا “تو ..تو سب کو کہتا پھر رہا تھا کے تونے نیوماڈل کا ساٹھ ستر ہزار والا فون لیا ہے ؟” “ہاں تو اس کی شکل دیکھ ..بلکل ویسا ہی ہے ..بس چلتا نہیں ہے ..یہ تو بس شو آف کے لئے لیا تھا ورنہ تجھے تو پتا ہے کے مجھے پندرہ ہزار والا سیم سنگ ہی پسند ہے …آج کل یہ فون ٹرینڈ میں ہے ..اسی لئے لوگوں کو دکھانے کے لئے لیا ورنہ سب کہتے کے حمزہ حیدر علی کے پاس نیو ماڈل کا فون نہیں ہے “حد ہے کنجوس آدمی …اس ڈبے کے لیے تونے اتنا شور مچایا ..؟ میں تو سمجھا تھا کے شاید کوئی اصلی آئی فون ہوگا جو اس نے توڑ دیا..لیکن میں بھی نہ کتنا پاگل ہوں ..حمزہ حیدر علی ..اور آئی فون خرید لے ؟؟ ہنہ .. “ریاض نے غصے سے کہا ” اصلی والا ہوتا تو ..کیا وہ اب تک زندہ گھوم رہی ہوتی ؟..اور تجھے کیا پتا دو ہزار کی اہمیت .تجھے تو بیٹھے بٹھاۓ مل جاتے ہیں ..کمانے جائے تو پتا چلے ….” حیدر منہ بنا کر کہتا آگے چلا گیا “دو ہزار کی اہمیت …پاگل آدمی ..خود کا دماغ تو پہلے ہی گھوما ہوا ہے ساتھ میں ہمارا بھی گھوما دیتا ہے ..” ریاض بھی اس کے پیچھے گیا … شام کے اس وقت پانچ بج رہے تھے یونیورسٹی کے وسیع گراؤنڈ میں ٹینٹ لگا کر کور کر کے اندر بڑی تعداد میں کرسیاں اور میزیں لگائی گئی تھی آج یونین کونسل کے صدر زین جعفری کی جانب سے سٹوڈنٹس کے لئے شاندار ٹی پارٹی کا احتمام کیا گیا تھا سجاوٹ نہایت ہی اعلی پاۓ کی ..کی گئی تھی لائٹنگ اتنی زیادہ تھی کے دن میں بھی رات کا گمان ہو رہا تھا ہر ٹیبل پر تازہ پھولوں کی پتیاں بچھی ہوئی تھی وائٹ کاٹن کے سوٹ اور بلیک شوز میں اشعر اور تیمور استقبالیہ پر کھڑے گلاب کے پھولوں کی ٹوکری ہاتھ میں لئے ہر آنے والے کو ایک پھول اسے دے کر مسکراتے ہوئے ویلکم کر رہے تھے ان سب نے ہی یہ ایونٹ ارگنائیز کرنے میں پوری پوری مدد کی تھی ڈیکوریشن اور تازہ پھولوں کی ارینجمنٹ کا سارا کام ان لوگوں نے سمبھالا تھا جب کے مینو کا کام زین نے اپنے زمہ لیا ہوا تھا صبح دس بجے ہی ورکرز کے ساتھ مل کر ان لوگوں نے کام شروع کر دیا تھا اور تین بجے سارے کام ختم کر کے تیمور اشعر اور حیدر تو آ گئے تھے باقی سب نے ابھی آنا تھا زین جعفری کانوں میں بلوتھوتھ ڈیوائس لگاۓ ..سارے انتظامات چیک کر رہا تھا کہیں کوئی کمی وغیرہ نہ رہ جائے ..سٹوڈنٹس کی آمدورفت کا سلسلہ بھی جاری تھا ..حیدر کی فرمائش پر ایک طرف ساؤنڈ سیسٹم کا بھی انتظام کیا گیا تھا …