“عباد بخاری اور زارا بخاری کے تین ہی بچے تھے سب سے بڑی ماہین جس کی عباد بخاری کے دوست کے بیٹے سے دو سال پہلے ہی شادی ہوئی تھی اس سے چھوٹی زرنور جو ماسٹرز کر رہی تھی اور سب سے چھوٹا بازل جو میٹرک کا سٹوڈنٹ ہے زارا اور عباد بخاری اپنے دوست کے بچوں کی شادی میں گاؤں گئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ماہین بازل اور زرنور کے اکیلے ہونے کے خیال سے رہنے ای ہوئی ہے ~ ~ ~ ~ مانو …مانو ..وہ آوازیں دیتی ہوئی لاونج میں آگہی تھی جہاں ماہین اپنے ایک سالہ بیٹے رضا کو گود میں بیٹھاے فیڈر پلا رہی تھی وہ ابھی ابھی نہا کر آی تھی جبھی اس کے کھلے بالوں میں سے پانی ٹپک رہا تھا گلابی سوٹ میں ہم رنگ دوپٹہ اوڑھے وہ خود بھی گلاب کا پھول ہی لگ رہی تھی “آپی اپ نے مانو کو دیکھا کہیں ؟میں ہر جگہ دیکھ آئ لیکن مجھے کہیں نہیں ملی “اس نے پریشانی سے ماہین سے پوچھا جبھی اس نے صوفے کی طرف اشارہ کیا زرنور نے دیکھا تو اس کے لبوں پر خوبصورت سی مسکراہٹ آگہی تھی “اچھا تو مانو میڈم آپ یہاں ہیں اور میں اپ کو پورے گھر میں ڈھونڈتی پھر تی رہی ہوں “اس نے کہتے ہوئے صوفے کے پاس سوئی ہی سفید رنگ کی پھولے پھولے بالوں والی بلّی کو اٹھا کر اپنی گود میں لیا اور پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگی جبھی بلّی نے آنکھے کھول کر اسے دیکھا اور اور احتجاجن “میاؤں ..میاؤں “کرنے لگی کے اسے تنگ نہ کرے اور سونے دے “افوہ مانو اب اٹھ بھی جاؤ اور کتنا سووگی “وہ اسے لئے فلور کشن پر بیٹھ گئی “بھئی تمہاری بلّی ہیں عادتیں بھی تو تمہاری جیسی ہی ہوں گی نہ اس کی ؟”ماہین نے شرارت سے اسے دیکھا اس نے کچھ بولنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا جبھی اس کی نظر اندر آتے بازل پر پڑی جس کے ہاتھ میں فرنچ فرآئیز سے بھری پلیٹ تھی جو اس نے زرنور کو دیکھتے ہی اپنے پیچھے کی تھی “یہ کیا آپی اپ نے پوری پلیٹ اس بھالو کو دے دی اور میرے لئے کچھ نہیں رکھا ؟” اس نے ناراضگی سے ماہین کو دیکھا “ارے بنائی ہیں تمہارے لئے بھی تم نہا رہی تھی اس لئے کچن میں ڈھک کر رکھی ہے ..لے لو جا کر “اس نے کہا تو وہ فوراً بلّی کو کشن پر لٹا کر ماہین کے پاس آئ اور چٹا چٹ اس کے دونوں گالوں کو چوما تھا “سچ اپی اپ بے حد اچھی ہیں ” اچھا بھئی اب ہٹو بھی اور کچن میں جاؤ ورنہ ٹھنڈی ہو جاےگی تمہاری فرائز “ماہین اس کی محبت پر مسکرا دی تھی” ~ ~ ~ ~ وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاے بیٹھی تھی گود میں لیپ ٹاپ رکھا تھا جس کی روشنی سیدھے اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی جس سے اس کی سبز آنکھے اور بھی چمک رہی تھی بیڈ پر جا بجا کتابیں بکھری ہی تھی سائیڈ ٹیبل پر تین چار خالی کپ پڑے تھے وہ کافی دیر سے اپنا آسائمنٹ مکمّل کر رہی تھی جو اس کو کل جمع کر وانا تھا جبھی اس کا موبائل بجا تھا اس نے جلدی جلدی ٹائپ کر کے لیپ توپ سائیڈ پر کیا اب وہ پھیلی ہی کتابیں ہٹا کر اپنا فون ڈھونڈ رہی تھی جو مل کر ہی نہیں دے رہا تھا پھر تھوڑی دیر بعد اسے ایک کتاب کے نیچے سے مل ہی گیا تھا اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا جہاں مناہل کا میںسیج آیا ہوا تھا جو اسے فیس بک پر لوگ ان ہونے کا کہ رہی تھی اس نے اپنی آئ ڈی کھولی جہاں حیدر نے اسے کچھ تصاویر پر ٹیگ کیا تھا ساری ہی تصویروں میں اشعر .ریاض .شاہ ویز .حارث.احمد اور حیدر تھے لیکن ان کے ساتھ عجیب سے حلیہ والا نہ جانے کون تھا اس نے غور سے دیکھا تو اس کا منہ حیرت سے کھلا کیوں کے وہ کوئی اور نہیں تیمور تھا اور حیدر نے تصویروں کے اوپر ہائی لائٹ کیا ہوا تھا “سیلفی ود خلائی مخلوق ” “آہ یہ کیا کر دیا ان لوگوں نے “ان تصاویر کے نیچے کومنٹس کی بھرمار تھی کیوں کے حیدر نے آدھی یونی کو نہ سہی آدھی سے آدھی کو تو ضرور ٹیگ کر دیا تھا اب وہ ایک ایک کرکے سارے کومنٹس پڑھنے لگی کسی نے لکھا تھا “بھائی کہاں سے پکڑی یہ عجیب سی چیز ؟”جس کو حیدر نے رپلائ کیا “بس یار پچھلے دنوں “مریخ “پر جانے کا اتفاق ہوا تو وہیں سے اٹھا کر لے آے اس کو ” ساتھ میں زبان نکالے اموجی بھی تھا “کسی نے لکھا “یہ واپس نہیں جائے گا کیا اپنے گھر ؟” جس کے جواب میں حیدر نے لکھا “ہم تو اسے دو چار دن کے لئے ہی لاے تھے .کچھ دنوں میں اس کے گھر والے آے گے اس کو لینے اصل میں جب ہم وہاں گئے تو اس کی سپیس شپ کھڑی تھی جس کو تیمور نے اڑانے کی کوشش کی لیکن وہ اڑی نہیں اور گر کر تباہ ہو گئی اب اس کے باپ بھائی بیٹھ کر نئی شپ بنا رہیں ہیں وہ بنے گی تو آے گے نہ ؟” ایک کا کومینٹ آیا “جب اس کی سپیس شپ ہی ٹوٹ گئی تو تم لوگ اس کو لے کر کیسے آے ؟” اس کو حیدر نے رپلائ کیا “ویری سمپل یار ہم نے اس کو اوپر سے ہی دکھا دے دیا یہ نیچے آ کر یونی کے درخت میں اٹک گیا تو ہم نے آ کر اس کو اتار لیا “ایک نے طنزیہ انداز میں لکھا “مجھے تو کوئی فرق نہیں لگ رہا تمم سب میں اور اس مخلوق میں ..سب ایک جیسے ہی بھائی بھائی لگ رہے ہو “ساتھ میں زبان نکالے اموجی بھی تھے اور وہ حیدر ہی کیا جس کے پاس کسی بات کا جواب نہ ہو ” سہی کہ رہا ہے یار .لیکن غور سے دیکھ ایک چیز کی شدّت سے کمی محسوس ہو رہی ہے اور وہ ہے “تیری” اگر تو بھی ہمارے ساتھ کھڑا ہو جاتا تو فیملی فوٹو کمپلیٹ ہو جاتی” ساتھ میں حیدر نے بہت سارے منہ پھاڑ کر ہنستے اموجی بھی ڈالے تھے “یہ حیدر کبھی نہیں سدھر سکتا “اس نے ہنستے ہوئے موبائل اوف کر کے سائیڈ پر رکھااور کتاب اٹھا لی کیوں کے کومنٹس بہت زیادہ تھے جن کو وہ رات میں پڑھنے کا سوچ رہی تھی جبھی دروازے پر دستک دیتے بازل اندر آیا تھا جس کے ہاتھ میں تازہ سرخ گلابوں کا بوکے تھا “یہ کس نے بھیجا ہے بازل ؟” اس نے بوکے کو دیکھتے ہوئے کہا “پتا نی بجو کورئیر والا دے کر گیا ہے کسی نے آپ کے لئے بھجوایں ہیں ” بازل نے کہ کر بوکے اس کو پکڑا یا اور خود پلٹ کر چلا گیا کیونکے ماہین اس کو بلا رہی تھی زرنور نے الٹ پلٹ کر دیکھا لیکن کوئی کارڈ نہیں تھا صرف پھول ہی تھے اس نے بوکے کو ناک کے قریب لے جا کر تازہ پھولوں کی خوشبو کو اپنی سانسوں میں اتارا تھا اور سائیڈ ٹیبل پر جگہ بنا کر رکھ دیا اسے حیرت تھی پھول بھیجنے والا آخر کون ہو سکتا ہے لیکن پھر وہ سر جھٹک کر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی کیوں کے زیادہ ضروری ابھی اس کے لئے آسایمنٹ کمپلٹ کرنا تھا ورنہ سر شاہد سے ڈانٹ پڑنی تھی “ ~ ~ ~ ~ ماہین لاؤنج میں بیٹھی ناول پڑھ رہی تھی جب فون کی گھنٹی بجی اس نے فون اٹھایا “ہیلو اسلام و علیکم ماہین آپی کیسی ہیں آپ ؟ اور رضا کیسا ہے ؟”دوسری جانب لائبہ تھی “وعلیکم سلام .میں ٹھیک ہوں ماشاء اللہ رضا بھی بلکل ٹھیک ہے تم سناؤ “ماہین نے خوشدلی سے جواب دیا “وہ بس میں زرنور کو کال کر رہی تھی لیکن وہ ریسو ہی نہیں کر رہی “لائبہ نے پوچھا تھا “ہاں وہ کام کر رہی ہے “لیکن وہ ایسا کون سا کام کر رہی ہے جو فون ہی نہیں اٹھا رہی “لائبہ نے حیرت سے پوچھا “زرنور وہ کام کر رہی ہے جو وہ چوبس میں سے پندرہ گھنٹے لازمی کرتی ہے “ماہین نے سادگی سے کہا “ہاہا اچھا تو محترمہ اپنی نیند پوری کر رہی ہے “اس نے ہنستے ہوئے کہا “میں تو عاجز آ گئی ہوں اس لڑکی سے خود تو سوتی ہے ساتھ میں میرے بیٹے کی بھی عادتیں بگاڑ دی ہیں اب خود تو سوتی ہے ساتھ میں رضا کو بھی سلا لیتی ہے دکھوں اب چار گھنٹے سے دونوں سو رہیں ہیں اٹھانے جاؤ گی تو شور مچائیگی اور رضا وہ تو حلق پھاڑ کر روۓ گا کے مجھے کیوں اٹھایا “ماہین نے ناراضگی سے کہا تھا “ہاہاہا اچھا ہے نہ آپی آپ سکون سے اپنے کام کر لیا کریں “کام کی بھی خوب کہی تم نے گھر میں کام ہی کتنا ہوتا ہے وہ تو میں نے کب کا ختم کر لیا اب ڈھونڈنے سے بھی کوئی کام نہیں ملے تو انسان کیا کرے ؟ اب دو گھنٹوں سےفارغ ہوں ایک دو دفع تو میں نے بھی سونے کی کوشش کی لیکن نیند ہی نہیں آی اب یہ ناول لے کر بیٹھی ہوں “ماہین نے خاصی بے چارگی سے کہا تھا “خیر ہے آپی اب آپ بھی سونے کی عادت ڈال لے کیوں کے زرنور نے تو بدلنا نہیں ہے چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے وہ ویسی ہی رہےگی “اس نے ہنستے ہوئے کہا “تم بتاؤ اگر ضروری کام ہے تو میں اس کو جگا دیتی ہوں “ارے نہیں آپی کوئی خاص کام نہیں ہے آپ اسے سونے دیں میں بعد میں بات کر لوں گی اپنا خیال رکھیے گا آپ میں رکھتی ہوں اللہ حافظ “چلو ٹھیک ہے پھر خدا حافظ “ماہین نے خوش دلی سے کہتے فون رکھ دیا ~ ~ ~ ~ “مما ..پاپا “وہ جو مانو کو گود میں لئے بیٹھی ماہین سے باتیں کر رہی تھی اندر داخل ہوتے عباد بخاری اور زارا بخاری پر نظر پڑتے ہی خوشی سے چیختی ان کی جانب بڑھی تھی “آپ دونوں تو کل آنے والے تھے پھر آج کیسے ؟”وہ زارا بخاری کے گلے لگی تھی “بس ہم نے سوچا ہماری بیٹی ہمارے بغیر اداس ہو گئی ہو گی تو آج آ کر اسے خوش کر دیتے ہیں “عباد بخاری نے اس کے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا “ہاں اپ جانتے ہیں ..پھر بھی اتنے دن لگا دیے “زرنور نے مصنوئ خفگی سے عباد بخاری کو دیکھا “اب تو ہم آ گئے ہیں نہ “انہوں نے پیار سے کہتے زرنور کو گلے لگایا تھا “ہٹ بھی جاؤ لڑکی تم نے تو میرے پاپا پر قبضہ ہی کر لیا ہے “جبھی ماہین زارا بخاری سے ملنے کے بعد عباد بخاری کے پاس آئ تھی “ارے بھئی میرے لئے تو تم سب برابر ہو “عباد بخاری نے ہنستے ہوئے پیار سے ماہین کو گلے لگایا “لیکن پاپا پورے کے پورے میرے ہیں “زرنور نے ماہین کو منہ چڑاتے ہوئے کہا “بجو آپ کتنی جھوٹی ہیں ..آپ نے تو کہا تھا کے پاپا آدھے آپ کے اور آدھے میرے ہیں ..اب کہ رہیں ہیں کے پورے آپ کے .یہ تو چیٹنگ ہے “جبھی بازل پسینے سے شرابور کیپ پہنے ہاتھ میں بیٹ پکڑے اندر داخل ہوا تھا “ہاہ یہ کیا ..تم دونوں نے میرے جاتے ہی بٹوارہ شرع کر دیا “ماہین نے ان دونوں کو گھورا “بٹوآرہ کیا کرنا آپی یہ بات تو ڈن ہے کے پاپا صرف میرے ہیں “زرنور نے ہنستے ہوئے کہا “اب ہٹ جائے تو مجھے بھی ملنے دیں پاپا سے “بازل نے ناراضگی سے ان دونوں کو دیکھا “لو آجاؤ تم بھی مل لو ..بھالو “زرنور ہنستے ہوئے کہ کر زارا بخاری کی جانب بڑھ گئی جو صوفے پر رضا کو گود میں لئے بیٹھی تھیں “پاپا دیکھیں بجو نے پھر مجھے بھالو کہا “بازل نے عباد بخاری کے گلے لگتے احتجاج سے کہا تھا “ٹھیک ہے بازل ہم تم کو بھالو نہیں آلو کہا کرینگے “ماہین نے شرارت سے کہا تھا “جائے میں اب آپ دونوں سے بات ہی نہیں کروں گا ..اور مجھے کوئی کام بھی نہیں بولئے گا اپنا “بازل نے ناراضگی سے کہتے منہ پھلا لیا تھا عباد بخاری مسکراتے ہوئے اپنی اس چھوٹی سی جنت کو دیکھ رہے تھے ~ ~ ~ ~ “تم کہاں جا رہے ہو حارث؟”وہ جو براؤن شرٹ پر بلو جینز پہنے سیٹی پر کوئی دھن بجاتا انگلی پر کے چین گھماتا جا رہا تھا مناہل کی آواز پر پلٹ کر اسے دیکھا “بھابی کو لینے جا رہا ہوں .تم چلو گی ؟”حارث نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا “سچ میں بھی چلوں تمہارے ساتھ؟” وہ خوشی سے کہتی دو قدم آگے آئ تھی “نہیں “اس نے ہنستے ہوئے کہا “کیا ؟ لیکن ابھی تم نے ہی تو کہا تھا چلنے کے لئے “اس نے حیرت سے اسے دیکھا “ہاں اب میں ہی منہع کر رہا ہوں “اس نے مناہل کے گلابی چہرے کو دیکھا تھا “لے چلو مجھے بھی کیا ہو جاےگا آخر ؟میں زرنور سے مل لو لوگی “مناہل نے ناراضگی سے کہتے اپنے چہرے پر آئ لٹ کو کان کے پیچھے کیا تھا “حد ہے یار ابھی صبح ہی تو تم لوگوں نے پانچ گھنٹے ساتھ گزارے ہیں اب دوبارہ ملنے جاؤگی ؟ حارث نے حیرت سے کہا “تم مجھے لے کر جا رہے ہو یا نہیں ؟ مناہل نے خفگی سے اسے دیکھا “نہیں ” اس نے ہنستے ہوئے کہا “ٹھیک ہے پھر بھاڑ میں جاؤ “وہ غصّے سے کہتی پلٹ کر جانے لگی تھی جب حارث نے اس کو روکا “اچھا سنو پہلے میں ماہین بھابی کو لے آؤں پھر ہم دونوں چلیں گے ” “کہاں آئس کریم کھانے ؟” وہ غصّہ بھلاے دوبارہ خوشی سے بولی تھی جبھی حارث نے تھوڑا سا جھک کر سنجیدگی سے کہا “بھاڑ میں” اور قهقہ لگا کر ہنس پڑا اور وہ جو اس کو ساتھ لے جانے کا سن کر خوش ہو گئی تھی اب غصّے سے اس کو گھورتی پیر پٹختی وہاں سے واک اوٹ کر گئی جبکے وہ ہنستا ہوا انکھوں پر ڈارک گلاسیس لگاتا اپنی کار کی جانب بڑھ گیا۔