

یار یاروں سے ہوں نہ جدا
از قلم زینب خان
“آپی دیکھیں یہ رضا پورا مجھ پر گیا ہے نہ ؟ اور دیکھیں اس کی آنکھیں میرے جیسی ہی گرین ہیں “اپنا سامان پیک کرتی ماہین نے مسکرا کر زرنور کو دیکھا تھا جو رضا کو گود میں لئے بیٹھی موبالغا آرائی سے کام لے رہی تھی کیوں کے رضا اپنے باپ عمیر پر گیا تھا ہاں لیکن اس کی آنکھیں زرنور کی طرح ہی سبز تھی لیکن وہ ہمیشہ یہ ہی کہتی تھی کے رضا اس پر گیا ہے عمیر اور زر نور کی اسی بات پر کافی بحث ہوتی تھی عمیر کہتا وہ اس پر ہے جبکے زرنور کہتی کے رضا پورا اس پر گیا ہے ان دونوں کی بحث ہمیشہ بازل ختم کراتا تھا کیوں کے جب وہ دونوں لڑ رہے ہوتے تو بازل بیچ میں آ کر کہتا “رضا نہ عمیر بھائی پر گیا ہے اور نہ ہی زرنور بجو پر بلکے …وہ اپنے ماموں پر گیا ہے یعنی مجھ پر “وہ ہنستے ہوئے اپنی طرف اشارہ کرکے ان دونوں کو دیکھتا اور عمیر اور زرنور پہلے رضا کو دیکھتے پھر بازل کو اور قهقہ لگا کر ہنس پڑتے ماہین شکر کر رہی تھی کے عمیر موجود نہیں ہیں ورنہ زرنور کی بات سن کر پھر سے لڑائی شر ع ہو جانی تھی جبھی دروازے پر دستک دیتے بازل اندر آیا تھا “ماہین آپی حارث بھائی آگے ہیں ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں آ جائے “وہ اطلاع دیتا دوبارہ چلا گیا تھا “آپی پیکنگ ہو گئی ساری ؟”زرنور نے پوچھا تھا “ہاں ہو گئی ہے “ماہین نے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے کہا “ٹھیک ہے آپی اپ رضا کو لے جائے میں آتی ہوں “ٹھیک ہے تم آ جانا میں جا رہی ہوں “ماہین نے اس سے رضا کو لیا اور کمرے سے چلی گئی زرنور صوفے پر سے اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آ کھڑی ہوئی ایک نظر اپنے حلیہ کو دیکھا نیلے رنگ کی قمیض پر گلابی رنگ کا دوپٹا اور فلیپر پہنا ہوا تھا اس نے ہاتھ سے قمیض کی سلوٹیں درست کی اور بالوں میں برش کر کے ڈرئنگ روم میں چلی ای “السلام و علیکم ..کیسے ہو حارث؟” اس نے اندر داخل ہوتے حارث کو دیکھا تھا جو سنگل صوفے پر رضا کو گود میں لئے بیٹھا تھا جو اس کی شرٹ کے بٹن سے کھیل رہا تھا “وعلیکم سلام میں بلکل ٹھیک تم سناؤ “حارث نے خوش دلی سے جواب دیا تھا “میں ٹھیک ہوں تم مناہل کو لے آتے اپنے ساتھ “حارث کی نظروں کے سامنے چھم سے مناہل کا ناراض سا چہرہ آیا تھا واپس جا کر اس کو منانا بھی تو تھا وہ سر جھٹک کر مسکرا دیا تھا “وہ تو تیار تھی آنے کے لئے میں ہی نہیں لایا اب باتیں ہی سناتی رہیگی مجھے “اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا “روکو زری حارث کو چاے مت دینا “زرنور جو حارث کو چاے سرو کر رہی تھی ماہین کی بات سن کر وہ دونوں ہی چونکے تھے جبکے زرنور سمجھ گئی تھی اس نے ہنستے ہوئے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا تھا “قسم سے بھابی عمیر بھائی مصروف تھے وہ آ نہیں سکے اس لئے انہونے مجھے بھیج دیا اپ کو لینے “حارث نے اپنی صفائی پیش کی تھی جبکے وو دونو ں ہنس پڑی تھی “اف حارث تم تو ڈر گئے میں تو اس لئے کہ رہی تھی کے چاے پیتے ہی تمہیں جانے کی لگ جاتی ہے پھر تم ان چیزوں میں سے کچھ نہیں کھاؤگے اب اطمینان سے یہاں بیٹھو اور یہ سب ختم کرو جب ہی تم جا سکوگے ورنہ نہیں “ماہین نے ہنستے ہوئے ٹیبل کی طرف اشارہ کیا تھا جہاں چاٹ .سموسے .کباب پیٹیز .چکن رول وغیرہ رکھے تھے “اف بھابی اپ نے تو ڈرا دیا تھا مجھے لگا اپ عمیر بھائی کے نہ آنےکی وجہ سے ناراض ہو گئی ہیں لیکن یقین کرے ابھی ابھی اپ کی ساس صاحبہ نے مجھے زبردستی دو آلو کے پراٹھے کھلا کر بھیجا ہے اب تو بلکل بھی گنجائش نہیں “حارث نے ہنستے ہوئے دونو ہاتھ اٹھاے تھے “رہنے دو حارث آج کوئی بہانہ نہیں چلنا تمہارا یہ سب ختم کیے بغیر تو تم کہیں نہیں جا سکتے “زرنور نے ہنستے ہوئے اس کو پلیٹ پکڑای تھی جس میں نجانے اسنے کیا کچھ بھر دیا تھا “رحم کرو زرنور میں حیدر نہیں ہوں جو یہ سب منٹوں میں ختم کردوں ” حارث نے کافی بیچارگی سے بھری ہوئی پلیٹ کو دیکھتے ہوئے کہا تھا “حیدر ہوتا تو وہ تو ان سب چیزوں کے ساتھ پلیٹ بھی کھا جاتا لیکن تم نے یہ سب ختم کرنا ہے ورنہ میں آپی کو نہیں جانے دونگی “زرنور ہنستے ہوئے ماہین کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی تھی ” یہ ظلم نہ کرنا یار بھابی کے بغیر گیا تو بھائی تو مجھے گھر سے ہی نکال دینگے ” حارث نے ہنستے ہوئے کباب کا پیس توڑا تھا “خیر اب اسے تم شرط ہی سمجھ لو یہ سب کھاؤ اور آپی کو لے جاؤ “اس نے شرارت سے کہا تھا “چلو اک کام کرتے ہیں تم یہ سب مجھے پیک کر کے دے دو میں گھر جا کر کھا لونگا ..ٹھیک ہے نہ بھابی ؟” اس نے زرنور سے کہنے کے بعد ماہین کو دیکھا ” ہاں یہ ٹھیک ہے “ماہین نے بھی حامی بھر لی تھی “.اب تو چاے پلا دیں مجھے ” اس نے شرارت سے کہا جبکے زرنور ہنستے ہوئے اس کے لئے گرم چاے لینے کچن میں چلی گئی
~ ~ ~
ملک ہاؤس میں دو پورشنز تھے جس میں دو بھائیوں کی فمیلی آباد تھی اک میں اظہر ملک اپنی بیگم زہرہ اور دو بیٹوں حارث اور عمیر کے ساتھ رہتے تھے عمیر ڈاکٹر تھا جبکے حارث ایم بی اے کر رہا تھا اور دوسرے پورشن میں محمود ملک اپنی بیگم سحرش اور ایک بیٹی مناہل کے ساتھ رہائش پذیر تھے محمود ملک اظہر ملک سے بڑے تھے اور ان کی ایک اور بیٹی بھی تھی فرزین وہ شادی شدہ تھی اور اس کے دو پیارے پیارے سے بچے بھی تھے پانچ سالہ زین اور سات سالہ اشنہ “
~ ~ ~
“السلام علیکم ” ماہین نے لاؤنج میں داخل ہوتے سلام کیا تھا جہاں سحرش اور زہرہ بیگم بیٹھی تھی “وعلیکم سلام آگہی ہماری بیٹی “ان دونوں نے خوش دلی سے جواب دیا تھا ماہین آگے بڑھ کر ان سے ملنے لگی جبکے حارث پیچھے اس کا بیگ اٹھا ے آ رہا تھا اندر آتے ہی اس نے بیگ سائیڈ پر رکھا اور صوفے پر سے کوشن اٹھا کر نیچے کار پیٹ پر رکھ کر لیٹ گیا “حارث کیا ہوا بیٹا طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری “سحرش بیگم نے تشویش سے پوچھا تھا “ارے نہیں تائی امی بس ایسے ہی لیٹ گیا تھا ا”اس نے بشاشت سے کہا تھا جبھی اشنہ اور زین “حارث ماموں “کا نعرہ لگاتے اندر اے اور اور آتے ہی دونوں اس کے ایک ایک بازو پر سر رکھ کر اس کے ساتھ ہی لیٹ گئے “ماموں اپنا فون دیں ہم نے لوڈو سٹار کھیلنا ہے “اشنہ نے لاڈ سے کہا تھا “ہیں ..تم دونوں کو کس نے سکھایا یہ کھیلنا ہاں ؟”اس نے حیرت سے پوچھا “بابا نے ” دونوں نے مزے سے کہا تھا “ایک تو تمہارے بابا بھی ہمیشہ نرالے کام کرتے ہیں خیر یہ بتاؤ تمہاری خالہ کہاں ہیں ؟ ” حارث نے اشنہ کو اپنا فون دیتے آہستہ سے پوچھا تھا”خالہ ..وہ کچن میں ہیں ” جتنی آہستہ سے اس نے پوچھا تھا زین نے اتنے ہی زور سے جواب دیا تھا اس نے فوراً زین کے منہ پر ہاتھ رکھا “کیا کر رہا ہے زین مرواے گا کیا؟” اس نے چور نظروں سے صوفے پر بیٹھی باتیں کرتیں ان تینوں کودیکھا جو اس کی جانب متوجہ نہیں تھی وہ شکر کرتا اٹھ کھڑا ہوا تھا اور سیدھا کچن میں آیا تھا جہاں مناہل چاے بنا رہی تھی “کیا کر رہی ہو مناہل ؟ ” وہ دروازے سے ٹیک لگاے دونوں بازو سینے پر باندھے آنکھوں میں چمک لئے اس کو دیکھ رہا تھا “نظر نہیں آتا ؟میں کرکٹ کھیل رہی ہوں “اس نے جلے ہوئے لہجے میں کہتے حارث کو دیکھا “اچھا مجھے لگا تم چاے بنا رہی ہو “وہ اس کے انداز پر ہنس پڑا تھا مناہل نے اس کو گھورا اور دوبارہ پلٹ گئی “خیر ایک کپ مجھے بھی روم میں دے جانا “وہ مسکرا کر اسے دیکھتا وہاں سے چلا گیا تھا وہ سر جھٹک کر چاے کپوں میں نکالنے لگی پھر لاؤنج میں بیٹھی ان تینوں کو چاے دے کر اور ماہین سے مل کر جب وہ چاے اس کے کمرے میں لے کر ای تو وہ الماری کے سامنے کھڑا نہ جانے کیا تلاش کر رہا تھا “تمہاری چاے ” اس نے سپاٹ چہرے کے ساتھ اسے کپ پکڑایا “تھنکس مناہل ..اب ایسے کرو کے میری بلو شرٹ ڈھونڈ کر دے دو مجھے مل نہیں رہی اور اس کے بعد میری وارڈ روب سیٹ کر دینا “حارث نے کپ پکڑتے بے نیازی سے کہا تھا اور مناہل کا تو سر چکرا گیا تھا ..الماری کے دونوں پٹ کھلے ہوئے تھے آدھے کپڑے نیچے کار پیٹ پر پڑے تھے آدھے بیڈ پر تھے کچھ ہینگرز میں لٹک رہے تھے “یہ کیا ہے حارث؟ دو دن پہلے ہی میں نے تمہاری وارڈ روب سیٹ کی تھی ..تم نے پھر یہ حشر کر دیا ..انسانوں کی طرح نہیں رہا جاتا کیا تم سے ؟؟” اس نے شدید ناراضگی سے حارث کو دیکھا “یار مجھے کیوں ڈانٹ رہی ہو میں نے تھوڑی کیا ہے یہ سب ” “ہاں ..ہاں تم کیوں کروگے یہ …تمہارے جانے کے بعد تو بھوت آ کر ناچتے ہیں نہ اس کمرے میں ” اس نے طنز سے کہتے پورے کمرے کو دیکھا تھا جس کا حال بھی تقریباً الماری جیسا ہی ہو رہا تھا “اچھا نہ سوری آئندہ خیال رکھوں گا لیکن ابھی تو میری شرٹ ڈھونڈ دو مجھے جانا ہے ضروری ” اس نے منت بھرے لہجے میں کہا تھا وہ ایک غصیلي نظر اس پر ڈالتی کپڑوں کی جانب بڑھ گئی اور تھوڑی ہی دیر میں شرٹ ڈھونڈ کر اس کو پکڑای “یہ لو پکڑو !” ارے واہ تھینک یو مناہل اب ایسا کرو کے جاؤ اور اس کو پریس کر کے لاؤ “حارث نے مزے سے کہتے ہاتھ میں پکڑی شرٹ اس کے سر پر ڈال دی تھی “اللہ حارث تمہارے کام ختم کیوں نہیں ہوتے ؟ مجھے تو لگتا ہے کے میں تمہارے کام ہی کرتے کرتے بوڑھی ہو جاؤنگی..تم اپنے لئے کوئی ملاذمہ کیوں نہیں رکھ لیتے ؟” اس نے ناراضگی سے کہتے اپنے چہرے پر سے شرٹ ہٹائی تھی “ہاہاہا مجھے ملاذمہ کی کیا ضرورت ؟ اس کی کمی پوری کرنے کے لئے تم ہو نہ ” اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا “خیر اب میں ساری زندگی تو تمہارے کام نہیں کرنے والی.آخر کو مجھے بھی تو جانا ہے نہ ؟”اس نے مسکرا کر حارث کو دیکھا “کیا مطلب تم کہاں جا رہی ہو ؟ “اس نے نہ سمجھی سے کہا تھا “پیا کے گھر “مناہل ہنستے ہوئے کہ کر استری اسٹینڈ کی جانب بڑھ گئی “اچھا تو محترمہ کافی شوق ہے اپ کو شادی کا “حارث اس کے پیچھے آیا تھا “ہاں ہے تو پھر ؟؟؟” اس نے پیچھے مڑ کر اس کو دیکھا جو مناہل کو ہی دیکھ رہا تھا “چلو تمہاری شادی کا بیڑا تو میں نے اٹھا لیا اب دیکھو بس کے کتنی جلدی تمہاری شادی کرواتا ہوں “حارث نے اسےپر سوچ نظروں سے مسکرا کر دیکھا تھا “ہاہ …بہت جلدی ہے تمیں بھی مجھے گھر سے نکالنے کی؟” اس نے گھور کر اسے دیکھا تھا “ہاں بہت جلدی ہے مجھے ” حارث کہتے ہوئے پلٹ کر کمرے سے چلا گیا تھا مناہل کو اس کا لہجہ بدلہ ہوا محسوس ہوا تھا لیکن وہ سر جھٹک کر شرٹ پریس کرنے لگی
Novelszone