لائبہ نے غصّے سے حیدر کو دیکھا تھا پھر سر جھٹک کر دوسری کتاب اٹھا لی “اوکے …اوکے سوری ..شریفوں والا گانا ؟…ٹھیک ہے ” حیدر نے زور سے سر اثبات میں ہلایا اور گلہ کنکھارنے لگا “تجھ کووو میں ..رکھ لوں وہاں جہاں پے کہیں ہے میرا یقین میں جووو….تیرا نہ ہوا کسی کا نہیں ….کسی کا نہیں لے جائے جانے کہاں …ہوائیں ہوائیں لے جائے تجھے کہاں ……ہوائیں ہوائیں لے جائے..جانے کہاں نہ مجھ کو خبر نہ تجھ کو پتہ ….. “مجھے لگتا ہے کے کچھ زیادہ ہی شریفوں والا ہو گیا ” تیمور نے ہنستے ہوئے کہا تھا “بات سنو کرن!!” اس نے پاس سے گزرتی ہرے لباس میں ملبوس ایک لڑکی کو روکا تھا جس کے ہاتھ میں پیپسی کی بوتل تھی وہ کرن ناز تھی انہی کی کلاس کی لڑکی تھی “کیا ہوا ” اس نے روک کر سوالیہ نظروں سے تیمور کو دیکھا تھا جو اپنے بیگ میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا پھر اس نے بیگ میں سے ایک نیلے رنگ کی فائل نکال کر اس کو پکڑائی تھی “کل تم آئی نہیں تو مس صنوبر نے تمہاری فائل مجھے دے دی کے میں تم کو دے دوں ” “اوہ …تھینکس تیمور ” کرن نے خوشدلی سے کہتے اس کے ہاتھ سے فائل پکڑی اور جانے کے لئے پلٹ گئی حیدر نے ایک ابرو اٹھا کر تیمور اور کرن کو دیکھا تھا اس کی شرارتی رگ پھڑ کی تھی
جادووو ….تیری نظر ..خوشبو تیرا ..بدن تو ہاں کر ..یا نہ کر ..تو ہے میری کرن
اس نے پلٹ کر ایک غصیلی نظر جھوم جھوم کر گاتے حیدر پر ڈالی اور چلی گئی کیوں کے اس پاگل کے منہ وہ لگنا نہیں چاہتی تھی “حیدر شرم نہیں آتی ؟ آتے جاتے لوگوں کو چھیڑتے ہو ؟ “مناہل نے اس کو گھور کر دیکھا تھا “مناہل ….یہ شرم کیا ہوتی ہے ؟” حیدر نے سنجیدگی سے مگر آنکھوں میں شرارت لئے پوچھا تھا اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اور حیدر پھر سے ٹیبل کو بجاتا شرع ہو چکا تھا ایک بار سے دل نہیں بھرتا مڑ… کے مجھے دوبارہ .. ٹن ..ٹنا ..ٹن .ٹن .ٹن ..تارا چلتی ہے کیا نو ..سے بارہ “میرا دل پتا ہے کیا چاہ رہا ہے ..حیدر ؟” زرنور نے کتاب زور سے بند کرکےکرسی کے پیچھے ٹیک لگاتے اطمینان نے پوچھا تھا لیکن آنکھوں میں ابھی بھی شدید غصّہ تھا “جا …تیمور کچھ کھانے کے لئے لے کر آ ..”حیدر نے پہلے تیمور سے کہا تھا “شرم کر حیدر ..شرم کر ..بیٹھے بیٹھے 3 برگر اور 2 کوک تو پی چکا ہے اب بھی کھانے کے لئے مانگ رہا ہے ؟” “تیمور نے حیرت سے کہا تھا “یہ تو کچھ بھی نہیں میں تو تجھے ابھی کے ابھی اس کینٹین کا پورا سٹوک کھا کر دکھا سکتا ہوں “حیدر نے انگلی کو گھما کر پوری کینٹین کی طرف اشارہ کیا تھا جس میں ٹیبلز اور کرسیاں بھی شامل تھی “رہنے دے بھائی ..مجھے کچھ نہیں دیکھنا ..جانتا ہوں تیرا تعلق افریقہ کے کسی آدم خوروں کے قبیلے سے ہے ..اور اگر تجھے کچھ کھانے کو نہ ملا تو ..تو تو ہمیں ہی کھا جائے گا “تیمور نے ہنستے ہوئے کہا اور اٹھ کر کاؤنٹر کی جانب بڑھ گیا …”ہاں ..تو. نوربانو ..کچھ کہ رہی تھی تم ؟ ” حیدر نے بے نیازی سے زر نور کو دیکھتے پوچھا تھا “اف ” اس نے زور سے اپنی آنکھیں میچی تھی “تم سے کتنی بار کہا ہے میں نے کے مجھے نور بانو مت کہا کرو ..زرنور ہے میرا نام زر …..نور ” اس نے غصّے سے ٹیبل پر ہاتھ مار کر چباتے ہوئے کہا تھا ” میں جانتا ہوں …لیکن یقین کرو تم پر زر نور سے زیادہ نور بانو ہی سوٹ کرتا ہے “حیدر نے کمال بے نیازی سے کہا تھا “اور ہاں ..تمہاری بلّی کا نام بھی تو کچھ ایسا ہی ہے نہ ؟..کیا نام تھا ..کیا تھا ؟” وہ ایک انگلی سے ماتھے پر دستک دیتے جیسے کچھ سوچنے کی ایکٹنگ کر رہا تھا “ارے ..ہاں …مانو “وہ ایک دم جوش سے بولا ” مانو نام ہے نہ اس کا .اور تمہارا نور بانو ..واہ واہ ..مانو اور بانو ..دیکھو کیسا ہم قافیہ ملایا میں نے “حیدر نے ہنستے ہوئے خود کو شابا ش دی تھی جبکے زرنور کا بس نہیں چل رہا تھا کے وہ اس کو کچا چبا جائے یا زیادہ نہیں تو اپنے سامنے پڑی کتابوں کو ایک ایک کر کے حیدر کے سر پر مارتی جائے …مارتی جائے ….اور بس مارتی جائے .”حیدر تم چلے کیوں نہیں جاتے ؟؟؟” اس نے اپنے شدید غصّے کو کنٹرول کرتے تحمل سے پوچھا تھا “کہاں پر ڈیر ؟” اس نے نہ سمجھی سے پوچھا تھا ” جہنم میں ” اس نے تپے ہوئے انداز میں کہا تھا “ہاہاہا ..وہاں تو میں تمہارے ساتھ ہی جاؤں گا ” اس نے ہنستےہوۓ کہا تھا “حیدر تمہارا گلا تو میں اپنے ہاتھوں سے ہی دباؤں گی “زرنور نے دونوں ہاتھوں کو مٹھیاں بھنچے غصّے سے اس کو دیکھا تھا جبھی مناہل نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا “چھوڑو نہ زری .تم بھی کس پاگل سے الجھ رہی ہو ” ..”کیا ؟؟؟؟ پاگل ؟؟ مناہل ..تم نے مجھے پاگل کہا ؟….مجھے ؟؟ “حیدر نے گہرے صدمے سے مناہل کو دیکھا تھا “دیکھو حیدر ..میرے منہ لگنے کی تو تم کوشش بھی مت کرنا ” مناہل نے انگلی اٹھا کر پہلے ہی اس کو وارننگ دی تھی “جانتا ہوں ..اگر میں نے تمہیں چھیڑا تو حارث مجھے اگلے جہاں روانہ کر دےگا “حیدر نے ہنستے ہوئے کہا تھا جبھی تیمور ٹرے میں چکن رول اور برگر لئے چلا آیا “لے بھوکے ..کھالے جانتا ہوں یہ سب بھی تیرے پیٹ میں جاتے ہی گم ہو جائے گا لیکن فلحال تو تو اسی سے کام چلا ” تیمور نے کہتے ہوئے ٹرے اس کے سامنے رکھی پھر خود بھی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا “خوش رہ تیمور خوش رہ …اللہ تجھے چار بیویاں دیں ” حیدر نے بے صبری سے ٹرے اپنی جانب کھسکا تے خوش دلی سے تیمور کو دعا دی تھی جس پر پانی پیتے تیمور کو اچھو لگ گیا “یہ کیا دعا دے رہا ہے حیدر ؟ وہ چاروں تو مل کر مجھے گنجا کر دیں گی ..اور میں بغیر بالوں کے کتنا برا لگوں گا “تیمور نے کہتے ہوئے اپنے گھنے بالوں پر سر پھیرا تھا “مطلب تمہیں چار شادیاں کرنے پر کوئی اعتراض نہیں سواۓ اپنے بالوں کے ؟” لائبہ نے حیرت سے تیمور کو دیکھا تھا “ہاہا نہیں میں تو تیار ہوں ..خوشی خوشی کر لوں گا “تیمور نے ہنستے ہوئے کہا تھا جبھی ریاض اور اشعر چلے آۓ “یہ تم لوگ کس کی مہندی میں گانے کے لئے پریکٹیس کر رہے تھے ؟” ریاض نے کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے حیدر اور تیمور کو دیکھا “میری ” حیدر نے برگر کھاتے اطمینان نے کہا تھا “تیری ؟؟؟؟”ان دونوں نے حیرت سے پہلے حیدر کو دیکھا پھر ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس پڑے “اوہ بھائی ….تیری شادی یہاں نہیں ہو سکتی ..تو مریخ پر جا ..تجھے تیرے جوڑ کی وہیں ملے گی “اشعر نے ہنستے ہوئے حیدر کے سامنے رکھی ٹرے میں سے برگر اٹھاتے ہوئے کہا تھا .حیدر نے اس کے ہاتھ سے برگر جھپٹنے کا سوچا لیکن پھر اس نے اپنا ارادہ بدل دیا “تمہارا کیا مطلب ہے کیا میری انسانوں کی دنیا میں شادی نہیں ہو سکتی ؟؟” حیدر نے سنجیدگی سے اپنی آنکھیں چھوٹی کرکے اشعر اور ریاض کو دیکھا تھا “نہیں .نہیں ..کیوں نہیں ہو سکتی ..بلکل ہو سکتی ہے لیکن …اس کے لئے تجھے چائنا جانا پڑےگا “ریاض نے گہری سنجیدگی سے کہا تھا “چائنا کیوں ؟” ان سب نے ہی حیرت سے ریاض کو دیکھا تھا وہ تینوں بھی اپنا کام چھوڑے ان لوگوں کو دیکھ رہی تھیں لیکن ریاض نے صرف حیدر کو مخاطب کر کے کہا تھا “یہ جو تو بات بات پر اپنی آنکھے چھوٹی کرتا ہے نہ تو تجھے اپنی جیسی ہی “چنگ چونگ چنگ “چائنا میں ہی ملے گی نہ ؟” ریاض نے قہقہ لگاتے ہوئے تیمور کے ہاتھ پر ہاتھ مارا تھا “یار کتنا عجیب لگے گا کے ہم اسے “چنگ چونگ “بھابی کہا کریں گے “اشعر نے ہنستے ہوئے کہا تھا ” مجھے تو یہ سن کے ہی اتنا عجیب لگ رہا ہے کے ..شادی ؟؟..وہ بھی حیدر کی ؟؟ توبہ ..توبہ .” تیمور نے ہنستے ہوئے اپنے دونوں گالوں کو دبایا تھا جن میں بے تحاشا ہنسنے کی وجہ سے درد ہو رہا تھا “گھستاخ لڑکوں ..جاؤ معاف کیا تم لوگوں کو تمہاری بے ادبی پر “حیدر نے کمال بے نیازی سے کہا تھا “مہربانی آپ کی عالی جاہ ..بڑا احسان کیا اپ نے مجھ نہ چیز پر “ریاض نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے سامنے جوڑ کر خاصی عاجزی سے کہا تھا “لیکن بھائی تو مجھے معاف نہ کر …زندان میں ڈال دے مجھے تو ” اشعر نے ہنستے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا تھا “لو ..ہمارا بدلہ تو پورا ہو گیا ” مناہل نے ہنستے ہوئے زرنور اور لائبہ سے کہا تھا “اور ہاں ..حیدر تو میرے ساتھ کل سمندر پر چل یو ..تجھے بہت سارے کیکڑے پکڑ کر دوں گا ” “وہ کیوں ؟؟؟” سب نے ہی حیرت سے ریاض کو دیکھا تھا اور ریاض صرف حیدر کو دیکھ رہا تھا “اچھا ہے نہ کے تو ابھی سے یہ سب کھانے کی عادت ڈال لے ..کیوں کے بعد میں تو ساری زندگی “چنگ چونگ بھابی ” تجھے ابلے ہوئے کیڑے مکوڑے اور لمبے والے سانپ ہی کھلاۓ گی “ریاض نے ہنستے ہوئے کہا تھا “اوۓ یہ لمبے والے سانپ کیا چیز ہے ؟؟” اشعر نے برگر کا بڑا سا بائٹ لیتے حیرت سے ریاض کو دیکھا تھا ” یہ پاگل نوڈلز کو لمبے والے سانپ بول رہا ہے “تیمور نے ہنستے ہوئے ریاض کے سر پر چپت لگائی تھی اور نوڈلز کی دیوانی زرنور نے تڑپ کر ریاض کو دیکھا تھا “شرم کرو ریاض .کھانے کی چیز کو تم کیا بول رہے ہو ؟”اس نے خاصا برا مان کر کہا تھا “یقین کرو زرنور نوڈلز کو دیکھ کر تو مجھے اتنا عجیب لگتا ہے تم لوگ نہ جانے کیسے کھا لیتے ہو “ریاض نے برا سا منہ بنا کر کہا تھا “تیمور بھائی .تین سو روپے نکالو “جبھی کینٹین والے چاچا کا بیٹا سمندر خان تیمور کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا تھا .سمندر خان گیارہ سال کا لال گالوں والا پٹھانی بچہ تھا جو شلوار قمیض پر پٹھانوں والی ٹوپی پہنے رکھتا تھا چاچا نے اس کو اپنی مدد کے لئے رکھا ہوا تھا “کون سے پیسے یار ؟” تیمور نے نہ سمجھی سے اس کو دیکھا تھا “انہی برگر اور رول کے پیسے جو تم تھوڑی دیر پہلے لے کر گیا تھا ” سمندر خان اپنے پٹھانی لہجے میں ٹوٹی پھوٹی اردو بولتا تھا “وہ تو میں حیدر کے لئے لایا تھا اب پیسے بھی حیدر ہی دے گا “تیمور نے صاف اپنا دامن بچایا تھا “لیکن میں نے تو اس میں سے صرف ایک ہی رول کھایا تھا باقی سب تو اس موٹے نے کھایا تھا ..بلکے ابھی تک کھا رہا ہے “حیدر بھی مزے سے کہتے پیچھے ہو گیا تھا اور اشعر کا برگر کو منہ میں لے جاتا ہاتھ ہوا میں ہی ٹہر گیا تھا “ام کو کچھ نئی پتا .ام کو بس امارا پیسا چاہئے “سمندر خان نے ناراضگی سے ان تینوں کو دیکھا تھا جو ایک دوسرے پر بات ڈالے جا رہے تھے “جبھی تو میں سوچوں کے یہ شیطان اتنا شریف کیسے ہو گیا جو مجھے اپنی چیزیں کھانے سے منع نہیں کر رہا ” اشعر نے حیدر کو گھورتے ہوئے اپنے والٹ میں سے پیسے نکال کر سمندر خان کو پکڑاۓ تھے “یہ صرف ڈھائی سو ہے باقی کا پچاس ؟” اس نے گننے کے بعد اشعر کو دیکھا تھا “ابھی سب کے سامنے حیدر نے اعتراف کیا ہے کے ایک رول اس نے بھی کھایا تھا اس لئے پچاس روپے حیدر ہی دے گا ” اشعر اطمینان سے کہتے ہوئے پھر سے برگر کھانے لگا “لے یار تو مجھ سے لے لے پچاس روپے ” ریاض نے کہتے ہوئے اپنے والٹ میں سے پچاس کا نوٹ نکال کر اس کو پکڑایا تھا کیوں کے حیدر پہلے ایک گھنٹے تک اس کے ساتھ بحث کرتا اور تب کہیں جا کر اس کو پیسے دیتا “یار یہ شاہ ویز کہاں ہے؟” تیمور نے پوچھا تھا “بیٹھا ہو گا کسی درخت کے نیچے ڈیانا کے ساتھ ” اشعر نے ہنستے ہوئے کہا تھا ایمن شاہ ویز کی گولڈن بالوں والی دوست تھی جس کو یہ سب ڈیانا کہتے تھے “اوہ حیدر گا نا یار تو چپ کیوں ہو گیا ؟ ابھی تو بہت گا رہا تھا “ریاض کے کہنے پرحیدر کوئی جواب دینے ہی والا تھا جبھی مناہل سے بات کرتی زرنور نے گھور کر ان سب کو دیکھا تھا “خبردار جو اب تم لوگوں نے کچھ گایا یا بجایا تو ” اس نے انگلی اٹھا کر ان سب کو وارن کیا تھا جو زرنور کو ایسے دیکھ رہے تھے جب کوئی بچہ شرارت کرنے سے پہلے کسی کو دیکھتا ہے جبھی اشعر نے حیدر کی جانب جھک کر اس کے کان میں کچھ کہا تھا “ٹھیک ہے …ٹھیک ہے ” حیدر نے مسکرا کر اشعر کو دیکھتے ویکٹری کا نشان بنایا تھا اور ایک ہاتھ سے ہلکا سا ٹیبل بجاتے ان سب کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا “ہاں تو بھائیوں اور …اور تم تینوں “حیدر نے انگلی سے لائبہ .مناہل اور زرنور کی جانب اشارہ کیا تھا “آج ہم سب ایک اسپیشل سونگ اشعر کی جانب سے کسی کو ڈیڈیکیٹ کر رہے ہیں اور یہ ہم کسے ڈیڈیکیٹ کر رہے ہیں ؟ گانا سن کر آپ بخوبی سمجھ جائے گے “حیدر نے مسکرا کر کہا تھا زرنور اور مناہل حیرت سے ان چارو کو ہی دیکھ رہی تھی جو گلہ کھنکارتے خود کو گانے کے لئے تیار کر رہے تھے جبکے لائبہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگاۓ واٹس اپ پر کسی کو مسیج کر رہی تھی لیکن دھیان ان ہی کی طرف تھا “ریڈی ؟؟” حیدر نے ان سب سے پوچھا تھا “ہاں ..ہاں ریڈی “ان سب نے ایک ساتھ کہا تھا “اوکے “حیدر نے کہتے ہوئے گانا شرع کیا
“وہ میرے سامنے بیٹھی ہے مگر اس سے کچھ بات نہ ہو پائی ہے میں ارادہ بھی اگر کرتا ہوں اس میں ہم دونوں کی رسوائی ہے دل کا …عالم میں کیا بتاؤں تمہیں اک چہرے نے بہت پیار سے دیکھا مجھے “
حیدر .تیمور اور ریاض براہراست نظریں لائبہ پر جماۓ جھوم جھوم کر گا رہے تھے اور اشعر کرسی کی پشت سے ٹیک لگاۓ دونوں بازو سینے پر باندھے مسکراتے ہوئے ٹھیک اپنے سامنے بیٹھی لائبہ کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا جو حیرت سے منہ کھولے اسے ہی دیکھ رہی تھی زرنور اور مناہل منہ پر ہاتھ رکھے کبھی مسکرا کر لائبہ کو دیکھتے اشعر کو دیکھتی اور کبھی حیرت سے آنکھے پھاڑے لائبہ کو “تم پٹو گے اشعر ..ہمارے سامنے ہی ہماری لڑکی کو چھیڑ رہے ہو ” زرنور نے ہنستے ہوئے اشعر کو گھورا تھا “چھیڑ کون رہا ہے ؟ میں تو اظہار کر رہا ہوں ” اشعر نے مسکراہ کر سر کھوجاتے ہوئے کہا تھا “تو یہ کون سا طریقہ ہے ؟ خود اظہار کرنے کے بجاۓ ان بندروں سے کروا رہے ہو ” مناہل کے کہنے پر ان تینوں نے ہی ناراضگی سے اس کو دیکھا تھا “خیر …اتنے ہینڈسم بندر بھی کہیں نہیں دیکھیں ہوں گے تم نے ” حیدر نے اپنے شرٹ کے کالر کو کھڑا کرتے ہوئے فخر سے کہا تھا “ہاں تو کب کھلا رہے ہو تم مٹھائی؟؟”زرنور نے شرارت سے اشعر کو دیکھا تھا جو لائبہ کو ہی دیکھے جا رہا تھا “بس کردو تم ..نظر لگاؤ گے کیا ہماری ببل کو ؟” مناہل نے مسکرا کر اشعر کو گھورتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی اپنا دوپٹہ پھیلا کر اس طرح سے لائبہ کے سامنے کیا کے وہ پوری اس میں چھپ گئی “ہاں تو میں مٹھائی کھلاؤں گا …ٹھیک چار دن بعد ” اشعر نے ہنستے ہوئے اپنے ہاتھ کی چار انگلیاں ان سب کے سامنے کی تھی “لیکن چار دن بعد تو اتوار ہے ..اتوار کو کیوں ؟؟” ریاض نے حیرت سے پوچھا تھا “وہ اس لئے کے …اتوار ….کو …میری اور لائبہ کی ….انگیجمنٹ ہے ” اشعر نے مسکراہٹ دباتے آہستہ سے دھماکا کیا تھا اور اس دفع تو مناہل اور لائبہ کے ساتھ حیدر .تیمور اور ریاض بھی حیرت سے منہ پھاڑے اشعر کو دیکھ رہے تھے اور اگلے ہی لمحے حیدر اور ریاض نے غصّے سے تابڑ توڑ مکے اس کے کندھے پر برسانے شرع کر دئیے تھے کیوں کے اشعر ان ہی دونوں کے بیچ میں بیٹھا تھا جبکے تیمور کی پہنچ سے وہ دور تھا اس لئے تیمور وہیں سے ہاتھ ہلا ہلا کر ان کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا “ہاں …مارو اور مارو اس کو ..اور مارو ” “سالے ..کمینے ..بے غیرت آدمی تونے اتنی بڑی بات ہم سے چھپائی ..ہم سے ؟؟” “حیدر تمیز کے دائرے میں رہو ” زرنور نے غصّے سے حیدر کو گھورا تھا جو بولتا جا رہا تھا اور اشعر کو مارتا جا رہا تھا “اوہ ..سوری نوربانو ” اس نے رک کر زرنور کو دیکھا اور پھر شرع ہو گیا زرنور اس کو گھورتے ہوئے مناہل اور لائبہ کی جانب متوجہ ہو گئی جہاں مناہل غصّے سے لائبہ کو نہ جانے کیا کیا بولے جا رہی تھی اور وہ اپنی مسکراہٹ دباۓ اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کر رہی تھی “میں بائیکاٹ کرتا ہوں اشعر …میں نہیں آنے والا تیری منگنی میں ” تیمور نے اشعر کو ناراضگی سے دیکھتے ہوئے کہا تھا جو خود کو حیدر اور ریاض سے بچانے کی کوشیش کر رہا تھا “منگنی کیا ؟؟ ..میں تو تیری شادی میں ہی نہیں آؤں گا ..جا بیٹا ..تو اکیلے ہی برات لے کر جایو ” ریاض نے بھی منہ پھلا کر کہا تھا “یار میری بات تو سنو تم لوگ ” اشعر نے ہنستے ہوئے اپنے دونوں کندھے سہلاتے ہوئے ان تینوں کو دیکھا تھا جو غصّے سے اس کو ہی دیکھ رہے تھے “اب تو کچھ بھی کر لے اشعر ہم نہیں آنے والے تیری منگنی میں ” تیمور نے ہاتھ جھلا کر کہا تھا “اچھا میری طرف سے تم سب کو ٹریٹ …وہ بھی لال قلع میں ..اب تو مان جاؤ یار ” “اگر تو یہ سمجھ رہا ہے کے ہم تیرے لالچ میں آجاۓ گے ..تو تو ٹھیک سمجھ رہا ہے ..بتا کب چلنا ہے ؟” حیدر نے سنجیدگی سے کہتے گویا اس پر احسان کیا تھا “چلو ایک تو مان گیا …اور تم دونوں ؟” اشعر نے ریاض اور تیمور کو دیکھا تھا “مجھے ٹائم چاہئے سوچنے کے لئے ” ریاض نے بے نیازی سے کہا تھا “میں تیار ہوں “تیمور کے کہے پر ریاض نے بھی ہامی بھر لی تھی کے سب جا رہے ہیں تو وہ اکیلا کیا کرے گا “لیکن ہمیں یہ ٹریٹ کل ہی چاہئے ” “نہیں یار کل تو پوسیبل نہیں ہوگا مجھے کل اسلام آباد جانا ہے ہفتے کو رکھ لیتے ہیں ..کیا کہتے ہو تم لوگ ؟” اس نے سوالیہ نظروں سے سب کو دیکھا تھا “جا اشعر معاف کیا تجھے تو بھی کیا یاد کرے گا ” “ان دونوں کا تو مجھے کوئی آئیڈیا نہیں تھا لیکن حارث کا پکّا پتا ہے دیکھ لینا وہ تو شادی سے ایک دن پہلے کارڈ لے کر آۓ گا اور کہے گا ..میں کل برات لے کر جا رہا ہوں ..مناہل کو لینے .تم لوگ بھی آ جانا ” حیدر کے کہنے پر وہ سب ہی ہنس پڑے تھے جبکے مناہل نے چونک کر حیدر کو دیکھا تھا اور پھر ٹیبل پر پڑے دو تین ایک ساتھ جڑے ڈسپوز یبل گلاس غصّے سے کھینچ کر حیدر کو مارے تھے “بہت زیادہ ہی فضول بکواس نہیں کرنے لگ گئے تم ہاں؟ ..” ” یقین کرو مناہل بکواس نہیں کر رہا بلکل سچ کہ رہا ہوں “حیدر نے ہنستے ہوئے کمال مہارت سے گلاس کینچ کئے تھے جبھی اس کی نظر اندر آتے احمد اور حارث پر پڑی تھی جو کسی بات پر ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس رہے تھے ان کو دیکھ کر حیدر نے تان اڑائی تھی
“یہ بندھن تو …پیار کا بندھن ہے جنموں کا ……سنگم ہے …
“دیکھ تیمور دیکھ …وہ آ گئے ..میں نے کہا تھا نہ کے وہ آۓ گے ..دیکھ وہ آ گئے تیمور …وہ آ گئے “حیدر نے تیمور کے کالر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ دیا تھا ” کیا کر رہا ہے حیدر ؟ …چھوڑ دے …چھوڑ دے پاگل میری شرٹ پھٹ جائے گی ” وہ بیچارہ ہڑ بڑا کر خود کو چھوڑ وانے لگا اور حیدر ٹھیک کہ رہا تھا وہ دونوں واقعی میں ایک دوسرے کے لازم و ملزوم تھے ہمیشہ ہر کہیں دونو ساتھ ساتھ ہی پاۓ جاتے تھے حارث تو ان لوگوں کے ساتھ 4,5 سال سے تھا لیکن احمد نے کچھ عرصہ پہلے سے ہی اپنا مائیگریٹ اس یونی میں کر وایا تھا ان سب سے بھی احمد کو حارث نے ہی ملوایا تھا نہ جانے کتنی پرانی دوستی تھی دونوں کی “کیا ہے بے حیدر ؟ تیرے ڈرامے ختم نہیں ہوں گے ہاں ؟ حارث نے ہنستے ہوئے حیدر کے کندھے پر پنچ مارا تھا جبکے احمد کرسی گھسیٹ کر بیٹھ چکا تھا “حارث سمجھا لو اس حیدر کے بچے کو بہت فضول بولنے لگ گیا ہے یہ ” مناہل نے اس کو دیکھتے ہی حیدر کی شکایات لگائی تھی “لو تم تو ابھی سے اس کے آتے ہی بیویوں کی طرح شکایتیں کرنا شرع ہو گئی “حیدر نے بے نیازی سے کہا تھا “بولنے سے پہلے سوچ تو لیا کرو ” مناہل نے جھینپتے ہوئے حیدر کو گھورا تھا جبکے حارث نے بہ مشکل اپنے قہقه کا گلہ گھونٹا تھا ورنہ دل تو کر رہا تھا کے اٹھ کر حیدر کو گلے لگا لے اور زرنور .اس کا تو دل ہی دھڑکنا بھول جاتا تھا احمد کو دیکھ کر وہ اس کے سامنے ہی تو بلو جینز پر بلیک شرٹ اور اس کے اوپر براؤن لیدر کی جیکٹ پہنے بے نیاز سا ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا تھا چھ فٹ سے نکلتا قد مظبوط کسرتی جسم کھڑی مغرور ناک ہلکی سی بیرڈ اور گہری گرے آنکھوں والا احمد کسی سلطنت کا مغرور شہزادہ ہی لگتا تھا جو اپنی رعایہ پر ایک نظر ڈالنا گوارا نہ کرتا ہو زرنور آج تک اندازہ نہ کر سکی تھی کے اس کی آنکھیں زیادہ گہری ہیں یا اس کے گال پر پڑنے والا ڈمپل ؟ لڑکیاں تو لڑکیاں لڑکے بھی راہ گزرتے ایک بار تو پلٹ کے احمد کو ضرور ہی دیکھتے تھے وہ تھا ہی اتنا پیارا اور زرنور کا تو دل ہی اس کے اختیار میں نہیں رہا تھا اور آنکھوں کو تو اس کو دیکھنے کے بعد کچھ بھاتا ہی نہیں تھا اگر وہ صبح شام بھی اس کو اپنے سامنے بٹھا کر دیکھتی رہے تو بھی اس کا دل نہ بھرے لیکن ایک وہ تھا کے ایک نگاہ غلط بھی اس پر نہیں ڈالتا تھا ہمیشہ اس کے ساتھ فارمل ہی رہتا تھا جس انداز میں وہ مناہل اور لائبہ سے بات کرتا تھا اسی انداز میں اس سے کرتا تھا اس نے لاکھ سمجھایا ہزار بار روکا اپنے دل کو لیکن یہ دل بھی نہ پتا نہیں اتنا ضدی کیوں ہوتا ہے محبت بھی اسی سے کرتا ہے جو اپ کو کچھ سمجھتا ہی نہیں ..دیکھتا ہی نہیں یہ تک نہیں سمجھتا کے کوئی اتنا پاگل ہو چکا ہے اس کے پیچھے اور اگر سمجھ بھی جائے تو ایسے نظرانداز کرتا ہے جیسے کچھ دیکھا ہی نہیں وہ بھی مجبور ہو چکی تھی اپنے دل کے ہاتھوں تھک چکی تھی اسے سمجھاتے سمجھاتے لیکن یہ دل تھا کے پھر بھی اس کے قدموں سے لپٹ لپٹ جاتا تھا ..وہ جو یک ٹک موبائل کے ساتھ مصروف احمد کو دیکھے جا رہی تھی ٹھیک اسی وقت احمد نے اپنی گرے آنکھے اٹھا کر اس کی چمکتی سبز آنکھوں میں دیکھا تھا اور ایسی چمک جو صرف احمد کو دیکھ کر ہی اس کی آنکھوں میں آتی تھی اور ….احمد یہ جانتا تھا ..اس نے اپنے سر کو ہلکی سی جنبش دیتے مسکرا کر زرنور کو دیکھا تھا جس نے سٹپٹا کر اپنی نظروں کو بہ مشکل اس پر سے ہٹایا تھا جبھی حیدر چہکا تھا ” ہاں تو بھایوں .اور ..اور خواتینوں ..جیسے کے آپ جانتے ہیں کے ہمارے ساتھ جناب احمد تشریف فرما ہیں اور ہماری پرزور فرمائش پر ایک خوب صورت سا گانا ہماری سماعتوں کی نظر فرمایں گے “حیدر نے بوتل کو مائک بناتے کھڑے ہو کر پوری کینٹین میں اعلان کیا تھا جبکے وہ تینوں حیرت سے حیدر کو دیکھ رہی تھی “حیدر اور وہ بھی اتنی گاڑھی اردو ؟؟” “نہیں یار میرا تو کوئی موڈ نہیں .تم ہی کچھ سنا دو ” احمد نے دونوں ہاتھ اٹھا کر نفی میں سر ہلاتے مسکرا کر کہا تھا “اتنی دیر سے میں ہی گا رہا تھا لیکن ان تینوں کو پسند ہی نہیں آیا اور مجھے ڈانٹ کے چپ کر وادیا ” حیدر نے منہ بسور کر کہا تھا اور زرنور کھا جانے والی نظروں سے اس کو دیکھ رہی تھی ” ہاں ..ہاں .بہت فرمابردار بچے ہو نہ تم تو ..ہم نے چپ کروایا اور تم ہو بھی گئے “حیدر نے پورے دانتوں کی نمائش کرتے زرنور کو دیکھا تھا “یار احمد سنا دو نہ اب تو اتنے دن ہو گئے ” اشعر کے کہنے پر ریاض نے بھی اس سے کہا تھا “سنا دے احمد ان دونوں کی منگنی کی خوشی میں ہی سنا دے ” اپنی طرف سے تو ریاض نے دھماکہ ہی کیا تھا اسے لگا تھا کے اشعر کی منگنی کا سن کر وہ دونوں بھی حیرت سے اچھل پڑے گے لکین وہ دونوں تو ایسے مسکرا رہے تھے کے جیسے پہلے سے ہی یہ بات جانتے ہوں “تم لوگوں کو پتا ہے اس کی منگنی کے بارے میں ؟” ریاض نے اشعر کی جانب اشارہ کر کے مشکوک انداز میں احمد اور حارث کو دیکھا تھا “ہاں ہمیں معلوم ہے ” حارث نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا تھا “لیکن تم دونوں کو کیسے پتا ؟ک کیوں کے اس گھامڑ نے ابھی دس منٹ پہلے ہی تو ہمیں بتایا ہے “اس دفع تیمور نے بھی حیرت سے پوچھا تھا “وہ اس لئے کے میرے مؤ کل نے مجھے پہلے ہی خبر دے دی تھی “حارث نے ہنستے ہوئے کہا تھا “حارث دیکھ لینا تیرا یہ مؤکل میرے ہاتھوں ہی قتل ہو گا تیمور نے غصّے سے کہتے ہوئے ہنستے ہوئے اشعر کو گھورا تھا “بیٹا اشعر تو باہر مل مجھے ….دیکھیو تیرا کیا حال کروں گا میں ” ریاض نے بھی اشعر کو گھورتے ہوۓ اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کر اسے دھمکی دی تھی جبھی احمد نے ان کو ٹوکا تھا “اچھا چلو ..پہلے ایک گیٹار کا انتظام کرو ..اس کے بغیر تو میں کچھ بھی نہیں سناؤ گا ” اس نے دو ٹوک انداز میں کہا اور حیدر اس کو ایسے مسکرا کر دیکھ رہا تھا جیسے کہ رہا ہو بس ….اتنی سی خوائش ..یہ لو ابھی پوری کردیتا ہوں .اس نے شاہ ویز کو ایمن کے ساتھ بیٹھے دیکھ لیا تھا جو پانچ منٹ پہلے ہی کینٹین میں آیا تھا “بھائیوں …کسی کے پاس گیٹار ہے تو تھوڑی دیر کے لئے ادھار پر دے دو ” اس نے پھر سے کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا اور اتنی آواز سے تو ضرور کیا تھا کے وہ شاہ ویز کے کانوں تک ضرور پہنچ جائے “یہ لو بھائی میرا گیٹار لے لو ..احمد کا گانا سننے کے لئے تو میں اپنی پوری سلطنت بھی اس کے نام کر سکتا ہوں لیکن میرے پاس سواۓ اس پیارے گیٹار کے اور کچھ نہیں “اور آواز اس کے کانوں تک پہنچ گئی تھی جبھی تو وہ ایک ہاتھ میں گیٹار پکڑے دوسرے میں کرسی اٹھاۓ دانت نکوستے چلا آیا حیدر ہنس رہا تھا اپنی پلاننگ پر “تمہارے پاس گیٹار کہاں سے آیا ؟” احمد نے اس کے ہاتھ سے گیٹار پکڑتے حیرت سے پوچھا کیوں کے یونی میں کوئی گیٹار نہیں لاتا تھا اسے امید تھی کے کم از کم اس وقت تو کسی کے پاس گیٹار نہیں ہو گا لیکن وہ غلط تھا کیوں کے شاہ ویز کو راکسٹار بننے کے خبط تھا کبھی کسی درخت کے نیچے کبھی سیڑیو ں پر بیٹھے اور کبھی گراؤنڈ میں ہی بجا کر وہ اپنا شوق پورا کر لیتا تھا ” کیا بتاؤں یار .میں تو “منا مائیکل “بننا چاہتا تھا لیکن ابّا کو نجانے کیا دوشمنی ہے مجھ سے اٹھا کر اس بزنس ڈیپارٹمنٹ میں پٹخ دیا کے جب تک ایم بی اے کی ڈگری نہ لے لو یہاں سے نکلنا نہیں اور تو اور گھر پر بجانے پر بھی پابندی لگا دی اب تو بس یہیں بجا کر اپنے دل کو بہلا لیتا ہوں “شاہ ویز خاصے افسردہ لہجے میں کہتے ہوئے کرسی تیمور کے برابر رکھ کر بیٹھ گیا اب ٹیبل کے گرد کرسیاں رکھے مناہل .لائبہ .زرنور .اشعر .حارث .تیمور .ریاض .حیدر .شاہ ویز اور احمد بیٹھے تھے “ہاں تو بتاؤ کون سا گانا سننا ہے “احمد نے گیٹار پر دھن چھیڑتے مسکرا کر ان سب کو دیکھا تھا جو اس کو ہی دیکھ رہے تھے “یار تم اپنی پسند کا کچھ سنا دو “..”ہاں یار آج اپنا کوئی فیوریٹ گانا ہی سنا دو “حارث اور حیدر اس سے فرمائش کرنے لگے تھے “اچھا ٹھیک ہے ..یہ میرا فیوریٹ تو نہیں پر یہ بھی مجھے پسند ہے ..اور یہ تم دونوں کے لئے ” اس نے مسکرا کر اشعر اور لائبہ کی جانب اشارہ کیا تھا اور گلہ کھنکھار کر گیٹار بجانے لگا ” اتنی محبّت کرو نہ ..میں ڈوب نہ جاؤں کہیں واپس کنارے پے آنا …میں بھول نہ جاؤں کہیں دیکھا جب سے ہے چہرہ تیرا … میں تو ہفتوں سے سویا نہیں … بول دو نہ ذرا ..دل میں جو ہے چھپا میں کسی سے کہوں گا نہیں ..”
اس نے گہری نظروں سے زرنور کو دیکھا تھا جو کہنی ٹیبل پر رکھے چہرہ ہتھیلی پر گرا ۓ یک ٹک اسے ہی دیکھ جا رہی تھی اور احمد کو یہ اطراف کرنا پڑا تھا کے اس سے زیادہ معصومیت اور پاکیزگی اس نے کہیں نہیں دیکھی تھی
“مجھے نیند آتی نہیں ہے اکیلے خوابوں میں آیا کرو .. نہیں چل سکوں گا ..تمہارے بنا میں میرا تم سہارا بنو .. ایک تمہں چاہنے کے علاوہ .. اور کچھ ہم سے ہو گا نہیں .. بول دو نہ ذرا ..دل میں جو ہے چھپا . میں کسی سے کہوں گا نہیں …
احمد کی آواز نے جو ایک سرور سا پوری کینٹین پر طاری کر دیا تھا اسے تالییوں اور سیٹییوں کی آواز نے توڑا تھا پوری کینٹین تالییوں سے گونج رہی تھی جتنے بھی سٹوڈنٹس اس وقت کینٹین میں موجود تھے ان سب کا رخ ان لوگوں کی ٹیبل کی جانب تھا جو دل سے اور خوشی سے اس کی تعریف کر رہے تھے احمد نے گانا ختم کر کے ایک ہاتھ سینے پر رکھے سر کو ہلکا سا خم دیتے مسکرا کر ان سب کی تالییوں کا جواب دیا تھا “احمد ..گانا تو پورا کر یار “حیدر نے منہ بسور کر اسے دیکھا تھا ” مجھے آگے نہیں آتا حیدر ” احمد نے اس کو مسکرا کر دیکھتے ہوئے شاہ ویز کو گیٹار پکڑایا تھا “مجھے تو یہ سمجھ نہیں آ رہا احمد کے تو سنگر بننے کے بجاۓ بزنس لائن میں کیوں آ گیا؟” اس نے مسکرا کر حیدر کو دیکھا تھا ” وہ اس لئے کےبزنس پڑھنا میری مجبوری ہے کیوں کے میں فیوچر میں خود کو ایک کامیاب بزنس مین دیکھ رہا ہوں لیکن سنگنگ میرا پیشن ہے اور اپنے اس پیشن کو پورا کے بغیر میں زندہ ہی نہیں رہ سکتا .اور جب میں زندہ ہی نہیں رہوں گا تو بزنس کہاں سے کروں گا ؟ پیشن اور پروفیش دو الگ چیزیں ہیں اور میں کبھی بھی اپنے پیشن کو اپنا پروفیشن نہیں بنانا چاہتا کیوں کے مجھے لگتا ہے کے اگر پیشن کو پروفیشن بنا لیا تو مجھے پھر اس میں اتنی دلچسپی نہیں رہے گی اس لئے میں دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہوں ..” وہ مسکرا کر بولتا ان سب کو دیکھ رہا تھا جو ایک سحر کی کیفیت میں بیٹھے تھے اور زرنور خود سے اطراف کر رہی تھی کے اس نے آج سے پہلے اتنا خوبصورت لہجہ اور آواز نہیں سنی تھی اس نے پہلی دفع احمد کو اتنی لمبی بات کرتے دیکھا تھا ورنہ تو وہ ہمیشہ خاموش اور سنجیدہ ہی رہتا تھا “حیدر کچھ سمجھ آیا ؟؟” اس نے ہنستے ہوئے حیدر سے پوچھا تھا “وہ نہ …مجھے انسانوں والی باتیں کچھ کم کم ہی سمجھ آتی ہیں “اس نے اپنا کان کھجاتے ہوئے کہا تھا “لیکن احمد میرا تو خیال ہے کے اگر پیشن کو پروفیشن بنا لیا جائے تو اس میں دلچسپی بڑھ جاتی ہے کیوں کے ہم اسے اور زیادہ ٹائم دینے لگ جاتے ہیں ” ریاض کی بات پر اس کے چہرے پر ایک آسودہ سی مسکراہٹ آ گئی تھی “چلو میں تمہیں ڈیٹیل میں سمجھاتا ہوں” وہ تھوڑا آگے ہو کر بیٹھا تھا ..جب ایک انسان اپنی لگی بندھی روٹین سے اکتا جاتا ہے ..تھک جاتا ہے تو تمہیں پتا ہے کے وہ خود کو فریش کرنے کے لئے کیا کرتا ہے ؟ وہ ..وہ کام کرتا ہے جس میں اسے خوشی ملتی ہے سکون ملتا ہے ..کسی کو پینٹنگ کا شوق ہوتا ہے تو کسی کو گارڈننگ کا ..جیسے مجھے سنگنگ کا ہے ہے لیکن تمہیں پتا ہے کے ریاض ..اگر میں ایک پرو فیشنل سنگر بن گیا تو میرے دن اور رات کیسے گزرے گے ؟ اس نے رک کر ریاض کو دیکھا تھا جس نے نفی میں سر ہلایا تھا میرے دن اور رات صرف گانےگاتے اور گیٹار بجاتے ہی گزرے گے اور صبح شام میں صرف یہ ہی سوچ رہا ہوں گا کے اس لائن کے ساتھ مجھے کون سی دھن بنانی چاہیے یا اس گانے پر یہ میوزک ٹھیک بھی لگ رہا ہے یا نہیں ؟ لیکن پھر میں سوچتا ہوں کے جب گانے گا گا کر اور گیٹار بجا بجا کر میں تھک جاؤگا تو خود کو فریش کرنے کے لئے میں کیا کروں گا ؟ کیوں کے میرے پاس تو میرا واحد شوق یہ سنگنگ ہی ہے اور مجھے اس سے کافی محبّت بھی ہے ..اور میں نہیں چاہتا کے کبھی بھی مجھے میری محبّت سے نفرت محسوس ہو ..اس لئے میں اپنے شوق کو اور اپنی ضرورت کو ہمیشہ الگ الگ رکھتا ہوں ..میں کبھی بھی اپنے شوق کو اپنی ضرورت نہیں بنانا چاہتا ” احمد نے اپنی بات مکمّل کر کے ایک نظر ٹیبل کے گرد بیٹھے ان سب پر ڈالی تھی جو خاصے متاثر نظر آ رہے تھے “یار تیری یہ ہی باتیں تو میرے دل پر اثر کرتی ہیں ..جبھی تو میں تجھ سے اتنی محبّت کرتا ہوں ” حیدر نے کہتے ہوئے ایک فلائنگ کس اسے دیا تھا “واقعی میں یار آج تو .تو بتا ہی دے کے تونے کس جادوگر کو اپنے اندر چھپایا ہوا ہے کیوں کے تجھے سننے کے بعد تو مجھے کسی پروفیسر کا لیکچر سمجھ ہی نہیں آتا “تیمور نے ہنستے ہوئے کہا تھا “میرا تو خیال ہے کے احمد تو سارے سیاستد دانوں کو ایک لائن میں بیٹھا کر ان کو بھی ایک لیکچر دے ہی دے ..کیا پتا وہ سدھر جائے ” شاہ ویز کی بات پر وہ ہنس پڑا تھا “بہتر یہی ہے کے شاہ ویز تو مجھے اس موضوع پر مت چھیڑ ..ورنہ اگر میں ایک دفع شروع ہو جاؤں تو بہت مشکل ہو جاتا ہے مجھے خود کو خاموش کر وانا .اور اٹھ جاؤ اب تم لوگ دو گھنٹوں سے یہاں بیٹھے ہو ..کیا ساری کلاسیس ہی بنک کرو گے آج ؟” وہ رسٹ واچ دیکھتا بیگ کندھے پر ڈالے کھڑا ہو گیا تھا وہ لوگ بھی اپنا سامان سمیٹنے لگے ..