“زرنور .کیا کر رہی ہو بیٹا ؟” وہ کافی دیر سے بیڈ پر بیٹھی اپنے نوٹس بنا رہی تھی جبھی زارا بخاری دروازے پر دستک دیے چلی آئیں “کچھ نہیں مما بس پڑھ رہی تھی ..آپ آۓ نہ اندر “اس نے لیپ ٹاپ بند کر کے سائیڈ پر کیا اور کتابیں ہٹا کر ان کے لئے بیٹھنے کی جگہ بنائی ” مجھے تم سے ضروری بات کرنی تھی بیٹا “زارا بخاری نے رسان سے اپنی بات کا آغاز کیا تھا “جی مما کہیں میں سن رہی ہوں ” “آج مسز افشاں آئیں تھی اویس یزدانی کی وائف ” “اویس انکل وہ ہی جو پاپا کے بزنس پارٹنر ہیں ؟”اس نے زارا بخاری سے کہتے ہوئے سائیڈ ٹیبل پر پڑے ہوئے مونگ پھلی کے پیکٹ کو اٹھا کر کھولا تھا “ہاں وہی ” “لیکن مما وہ کیوں آئیں تھیں ؟ ,میرے خیال میں تو شاید پہلی دفع ہی آئیں ہیں نہ وہ ؟” اس نےپیکٹ میں سے مونگ پھلی کے دانے نکال کر منہ میں ڈالے تھے “وہ اپنے بیٹے سمیر کے لئے تمہارا پرپوزل لائیں تھیں ..سمیر ان کا اکلوتا بیٹا ہے .آکسفرڈ سے ڈگری لے کر آیا ہے اب اپنے باپ کا بزنس سمبھال رہا ہے کافی خوش شکل اور پیارا لڑکا ہے ..تم تو ملی بھی ہو نہ اس سے ؟” زرنور کا مونگ پھلی نکلاتا ہاتھ ساکت رہ گیا تھا ان کی بات سن کر “یہ آپ کیا کہ رہیں ہیں مما ؟” وہ بے یقینی کی کیفیت میں اپنی ماں کا چہرہ دیکھ رہی تھی “میں تمہاری شادی کی بات کر رہی ہوں زرنور ..اب ظاہر ہیں ہم نے ساری زندگی کو تو بٹھا کر رکھنا نہیں ہے تمہیں آخر کو شادی بھی تو کرنی ہے نہ تمہاری ؟؟” “اتنی بھی کیا جلدی ہے مما ؟ابھی تو میری پڑھائی بھی کمپلیٹ نہیں ہوئی “اس نے ناراضگی سے زارا بخاری کو دیکھا تھا “ہاں تو ابھی شادی کرنے کا کون کہ رہا ہے ..ابھ صرف منگنی کریں گے اور شادی تمہاری پڑھائی ختم ہونے کے بعد ” ” جو بھی ہو مما نہ مجھے ابھی منگنی کرنی ہے اور نہ ہی شادی “اس نے شدید ناراضگی سے کہتے چہرے پر آتی لٹھوں کو کان کے پیچھے کیا تھا “نور تمہارے پاپا کافی خوش ہیں اس پرپوزل سے انفیکٹ وہ تو چاہ رہے تھے کے تم سے پوچھنے کے بعد ہاں کر دیتے ہیں مسز یزدانی کو ” زارا بخاری نے رسان سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تھا “پلیز مما آپ منع کریں پاپا کو کے ابھی سے ان چکروں میں نہ پڑے مجھے نہیں کرنی شادی کسی سمیر امیر سے ” “زرنور میرا کوئی ارادہ نہیں ہے تمہیں ساری زندگی گھر بیٹھانے کا “زارا بخاری نے خفگی سے کہا تھا “اتنا تنگ آگئے ہیں آپ دونوں مجھ سے ؟ اتنی بھی کیا جلدی ہے آپ کو مجھے گھر سے نکالنے کی ؟؟” اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوں گرنے لگے تھے” نور میں نے یہ کب کہا ہے تم سے ؟ میں نے صرف تمہاری شادی کی بات کی ہے ” زارا بخاری نے اسے نرمی سے کہتے پیار سے گلے لگایا تھا “تو شادی کا مطلب اور کیا ہوتا ہے مما ؟” وہ ان کے گلے لگی آنسوں سے بھیگی آواز میں بولی تھی اور زارا بخاری کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیسے اپنی اس نہ سمجھ بیٹی کو سمجھاۓ “ – – – – – – – – کل رات خوب کھل کر بادل برسے تھے جس سے سارا روم شہر ہی دھل دھلا کر نکھر گیا تھا ابھی صبح پوری طرح سے طلوع نہیں ہی تھی ہلکا ہلکا سا جامنی اندھیرا اب بھی باقی تھا لیکن موسم خاصا خوشگوار ہو رہا تھا چاروں طرف ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھی آسمان پر ابھی بھی کالے بادلوں کا ڈیرہ تھا جو برسنے کے لئے بس تیار ہی کھڑے تھے ایسے میں وہ ارد گرد کا جائزہ لیتا سفید بنیان پر بلیک جیکٹ اور ٹراوزر پر بلیک ہی شوز پہنے کانوں میں ہینڈز فری لگاۓ تیز تیز دوڑ رہا تھا جیکٹ کی آستینوں کو کہنی تک فولڈ کئے آگے سرخ و سفید ہاتھوں پر اس نے کالے رنگ کا ہی بینڈ چڑھایا ہوا تھا ماتھے پر بکھرے بال پسینے سے گیلے ہو چپک گئے تھے جن کو وہ ہاتھ سے بار بار اوپر کر رہا تھا خوبصورت مگر تنے ہوئے مغرور نقوش والا ارمان خانزادہ کسی بھی لڑکی کا آئڈیل ہو سکتا تھا اب وہ ایک گھر کے سامنے آ روکا تھا چوکیدار نے اس کو دیکھ کر سلام کرتے مستعدی سےبڑا سا براؤن گیٹ کھول دیا تھا جدید طرز پر بنا یہ دو منزلہ بنگلہ شان سے کھڑا تھا وہ سر کو ہلکے سے خم دیتے اس کے سلام کا جواب دیتے اندر آ گیا تھا اور بڑے سے پورچ کو عبور کرتا لان میں آیا تھا جہاں عدیل خانزادہ بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے اس کو آتا دیکھ کر انہوں نے اخبار فولڈ کرکے میز پر رکھ دیا تھا “گڈ مورننگ ڈیڈ ” وہ مسکرا کر کہتے چیئر پر بیٹھ گیا تھا “گڈ مورننگ بیٹا .تم کل ہی تو واپس آۓ تھے اور شام کو دوبارہ چلے جاؤگے اور بجاۓ اپنی نیند پوری کرنے کے تم جوگنگ پر نکل گئے “عدیل خانزادہ نے آنکھوں پر سے چشمہ اترتے ہوئے کہا تھا ” کیا کروں ڈیڈ بس یہ عادت پختہ ہو گئی ہے “اس نے کہا تھا جبھی ملازم اس کے لئے ٹاول اور اورینج جوس کا گلاس لئے چلا آیا “اور سناۓ ڈیڈ ..کام کیسا چل رہا ہے اپ کا ؟” اب وہ ٹاول سے اپنا پسینہ خشک کر رہا تھا “کام کا کیا ہے بیٹا وہ تو ہو ہی جا تا ہے …لیکن اب میں تمہاری ایک نہیں سنوں گا میں بزنس وائنڈ اپ کر کے جا رہا ہوں پاکستان جب دل کرے آ کر سمبھال لینا و”انہوں نے کہتے آخر میں ناراضگی سے اس کو دیکھا تھا جو سامنے بیٹھا مسکرا کر اپنے باپ کو دیکھتے ایسے جوس کے گھونٹ بھر رہا تھا جیسے وہ مذاق کر رہے ہوں اس سے “ارمان تم میری بات کو سیرئیس کیوں نہیں لیتے ہو آخر ؟ ..تمہاری اس فضول سی ضد کی وجہ سے اتنا شرمندہ ہونا پڑتا ہے مجھے عباد کے سامنے .وہ بھی کیا سوچتا ہوگا کے کیسی دوستی نبھائی ہے میں نے “انہوں نے شدید ناراضگی سے کہا تھا “یار ڈیڈ میں نے صرف کچھ ٹائم ہی تو مانگا ہے اپ سے .اب جس کے ساتھ ساری زندگی گزارنی ہے اس کو سمجھنے کے لئے تھوڑا ٹائم تو لگے گا نہ ؟”ارمان نے جوس کا گلاس ختم کرکے ٹیبل پر رکھتے رسان سےکہا تھا “میں کچھ نہیں جانتا ارمان بس تم ختم کرو اس سارے ڈرامے کو اور پاکستان میں شفٹ ہونے کی تیاری کرو ورنہ دیکھ لینا عباد انتظار نہیں کرے گا تمہارا وہ رخصت کر دیگا زرنور کو کسی ور کے ساتھ اور پھر تم آرام سے بیٹھ کر سکھ کی بانسری بجانا “عدیل خانزادہ کی ناراضگی اب غصّے میں بدل چکی تھی “کیا کہ رہیں ہیں ڈیڈ ؟ ایسے کیسے عباد انکل اس کو رخصت کر دیں گے کسی کے بھی ساتھ ؟ انھیں جب زرنور کی شادی کرنا ہوگی تو وہ اپ سے بات کر لیں گے “اس نے اطمینان سے کہا تھا اور یہی اطمینان ان کے غصّے کو ہوا دے رہا تھا “شاباش ہے بیٹا تمہیں بھی وہ روم نہیں ہے پاکستان ہے اور وہاں بیٹیوں کے باپ یہ کہتے نہیں پھرتے کے آؤ اور آ کر شادی کر کے ہماری بیٹی کو لے جاؤ ..حد ہے ارمان میں نے کیا تمہیں اسی لئے پاکستان بھیجا تھا کے تم مٹر گشت کر کے واپس آ جاؤ “ان کا غصّہ آسمان کو چھونے لگا تھا عدیل خانزادہ نے بار ہا ارمان سے اس موضوع پر بات کی تھی لیکن وہ ہر دفع کمال مہارت سے موضوع ہی چینج کر دیتا تھا لیکن آج ان کا اتنا شدید ردعمل وہ پہلی دفہ دیکھ رہا تھا اسے آج اپنا بچنا مشکل لگ رہا تھا اور جتنے غصّے میں وہ تھے ارمان نے تو ایک دو تھپڑ کی امید بھی لگا لی تھی ان سے وہ اپنی چیئر سے اٹھ کر ان کے پاس آ کر گھٹنے کے بل بیٹھ گیا تھا اور عدیل خانزادہ کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں تھام لیا تھا “ڈیڈ پلیز ..اتنا غصّہ نہ کریں .آپ کا بی پی شوٹ کر جاۓ گا “ارمان نے نرمی سے کہا تھا “مجھے پرواہ نہیں ہے اب کسی چیز کی میں کل جا رہا ہوں پاکستان اور ختم کرتا ہوں اس سارے ڈرامے کو جو تم لگا کر آۓ ہو وہاں “ان کا غصہ ختم نہیں ہوا تھا لیکن کم ضرور ہو گیا تھا “ڈیڈ پلیز تھوڑا سا ٹائم اور دیں دے میں سب ٹھیک کر لوں گا بس دو چار مہینے اور دیں دے .پھر جو آپ چاہیں گے میں وہ ہی کروں گا ” اس نے لجاجت سے کہا تھا ” ٹھیک ہے ارمان صرف یہ دو چار مہینے ہی ہیں تمہارے پاس اگر تم نے سب سیٹ نہیں کیا تو میں وہی کروں گا جو زرنور چاہیں گی ” انہوں نے ناراضگی سے اسی کے انداز میں کہا تھا ” تھینک یو سو مچ ڈیڈ ” وہ ان کے گال پر پیار کرتا شاور لینے چلا گیا تھا
“ہیلو ..زرنور کہاں ہو تم ؟ اتنی دیر لگا دی ” وہ گاڑی پارک کر رہی تھی جبھی مناہل کی کال آ گئی “بس میں پہنچ گئی ہوں ..آ رہی ہوں اندر ” اس نے فون بند کر کے گاڑی میں سے اتر کر دروازہ بند کیا ایک ہاتھ میں کلچ اور موبائل پکڑے دوسرے ہاتھ سے بال ٹھیک کرتی وہ ریسٹورانٹ کے اندر جا رہی تھی بلو جینز پر بلیک کلر کی لونگ شرٹ پہنے جس کے گلے اور آستین پر کچے دھاگے کا کام ہوا وا تھا بڑے سے دوپٹے کو ایک کندھے پر اور سارے بالوں کو کرل کر کے دوسرے کندھے پر ڈالا ہوا تھا کانوں میں ڈائیمنڈز کے ٹاپس اور ہاتھ میں ڈائیمنڈز کا ہی بریسلٹ پہنے لائٹ سے میک اپ میں بھی وہ بےحد پیاری لگ رہی تھی وہ تیز تیز قدم اٹھاتی اندر کی جانب بڑھ رہی تھی اس کا سارا دھیان کلچ میں سے ٹشو پیپر نکالنے پر تھا جبھی وہ سامنے سے آتی کسی لڑکی سے بری طرح ٹکرائی تھی شاید وہ بھی جلدی میں تھی جبھی دونوں ہاتھو کو اٹھا کر اس کو سوری بولتی جلدی سے وہاں سے چلی گئی تھی زرنور کو اپنا سر چکراتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ٹکراؤ اتنا شدید تھا کے اب وہ اندر جانے کے بجاۓ باہر جانے والے رخ پر کھڑی تھی وہ خود کو سمبھالتی نیچے جھک کر اپنا موبائل اور کلچ اٹھا رہی تھی جبھی سامنے ایک بلو سپورٹس کار آ کر رکی تھی وہ اپنا سامان اٹھا کر کھڑی ہو گئی تھی لیکن اندر نہیں گئی تھی وہ سامنے اس کار کو ہی دیکھ رہی تھی جس میں سے بلیک جینز پر وائٹ ٹی شرٹ پر بلیک ہی کوٹ پہنے آنکھوں پر ڈارک گلاسز لگاۓ ہاتھ میں فون پکڑے احمد نکلا تھا وہ جلدی جلدی فون پر کچھ ٹائپ کر رہا تھا اور تھوڑی دور کھڑے گارڈ کی طرف اس نے کار کی چابی اچھالی تھی کارکو پارک کرنے کا اشارہ کرتے وہ زرنور کے پاس آ روکا تا “کیا ہوا اندر جانے کا ارادہ نہیں ہے کیا ؟” احمد نے اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی تھی ” وہ ..وہ میں نے سوچا کے تم بھی آ گئے ہو تو پھر ساتھ ہی چلتے ہیں ” زرنور نے با مشکل خود کو اس کے سحر سے نکال کر کہا تھا “ہاں تو چلو پھر ” وہ موبائل کوٹ کی جیب میں رکھتے اندر کی جانب بڑھ گیا تھا وہ بھی جلدی جلدی اس کے پیچھے چلنے لگی
“اشعر تیرا کچھ کھلانے کا ارادہ نہیں ہے تو بتا دے .آدھے گھنٹے سے یہاں بلا کر بھوکا بھٹایا ہوا ہے ” حیدر نے منہ بسور کر کہا تھا “صبر کرلے تھوڑا سا احمد اور زرنور آجاۓ تو پھر ساتھ ہی آرڈر کردےگے “ریاض نے کہا تھا “وہ دونوں بھی بس پہنچ ہی گئے ہیں .تم لوگ تو آرڈر کرو جب تک وہ بھی آجائیں گے “اشعر نے کہتے ہوئے ویٹر کو اشارہ کیا تھا جو ان کی ٹیبل کے پاس آ کھڑا ہوا تھا “چلو تم دونوں آرڈر کرو پہلے “اشعر نے مناہل اور لائبہ سے کہا تھا “میرے لئے بریانی اور رشین سیلڈ. ” لائبہ نے کہا تھا اور میرے لئےویجیٹبل پلاؤ اور چکن شاشلک ” (خالص انسانوں والا کھانا )وہ دونوں اپنا آرڈر لکھوا کر پھر سے موبائل میں کوئی ویڈیو دیکھنے لگ گئی تھی “”تم لوگوں کی طرف سے میں آرڈر کرتا ہوں “”حیدر دونوں ہاتھوں کی آستین چڑھاۓ آگے ہو کر بیٹھا تھا “ہاں تو بھائی لکھو ..دو توا مچھلی ,تین فراۓ مغز ,دو بھنی ہی کلیجی اور گردے ,پھیپڑے ,تین جھینگھا بریانی ,دو پاۓ اور تین قیمہ فرائی ” ہاں تو اب بتاؤ تم نے کیا کیا لکھا ؟” ویٹر نے مستعدی سے حیدر کا لکھوایا ہوا آرڈر دہرا دیا تھا “واہ حیدر تونے تو دل خوش کر دیا میرا “تیمور نے اس کے کندھے پر تھپکی دی تھی وہ دونوں موبائل کو چھوڑے حیرت سے ان سب کو دیکھ رہی تھی “تم لوگ یہ سب کھاؤگے “لائبہ نے بے یقینی سے کہا تھا “ظاہر ہے اب ہم نے آرڈر کیا ہے تو ہم ہی کھائیں گے نہ بھابی ؟” حیدر نے کہتے آخر میں دانت نکالے تھے “فضول نہیں بولو حیدر ..اور تم لوگ یہ عجیب سی چیزیں کھاؤگے؟ .. دماغ خراب ہے تم لوگوں کا “لائبہ نے حیدر کو گھورتے ہوئے کہا تھا “میں تمہیں بتا رہی ہوں حارث اگر تم نے یہ گردے پھیپڑ ے کھاۓ نہ تو میں گھر نہیں جاؤنگی تمہارے ساتھ ” مناہل نے حارث کو دیکھتے ہوئے وارننگ دی تھی ورنہ تو اس کو ابکائی آ رہی تھی ان چیزوں کا نام لیتے ہوئے بھی “کیا ہو گیا ہے مناہل یہ سب بھی کھانے کی ہی چیزیں ہیں تم دونوں ایک دفہ ٹرائ تو کرو سچ بہت پسند آۓ گا تمہیں ” اس نے خوشدلی سے مشورہ دیا تھا ” حارث میں کہ رہیں ہو تم سے اچھا نہیں ہوگا اگر تم نے یہ سب کھایا تو ” مناہل نے اسے انگلی اٹھا کر کہا تھا “ابھی بھی وقت ہے حارث سوچ لے ..ورنہ یہ لڑکی ساری زندگی بھوکا مارے گی تجھے ” ریاض نے حارث کی جانب جھک کر کہا تھا “بکواس نہیں کرو ریاض ” مناہل نے اس کو گھور کر دیکھا تھا جبھی ویٹر نے کھانا لا کر ٹیبل پر رکھ دیا تھا “ایسا کریں ایک بریانی اور لے آۓ ” اشعر نے ویٹر سے کہا تھا جو سر ہلاتا چلا گیا تھا “اوے تو نہیں کھا ۓ گا یہ سب ؟ “تیمور نے حیرت سے پوچھا تھا “نہیں بھئی میری کل منگنی ہے اور میں نہیں چاہتا کے وہ ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاۓ ” اشعر نے مسکرا کر لائبہ کو دیکھا تھا جو ٹیبل پر پڑے کھانے کو دیکھ کر برے برے منہ بنا رہی تھی مناہل تو منہ پر ہاتھ رکھتی کھڑی ہی ہو گئی تھی “میں نہیں بیٹھ سکتی یہاں ” عجیب عجیب سی خوشبوؤ ں سے اس کا جی متلی ہونے لگا تھا – – – – ریسٹورانٹ کا محول خاصا خواب ناک ہو رہا تھا احمد اور زر نور ایک ساتھ ہی اندر داخل ہوئے تھے جن کو دیکھ کر بہت سی توصیفی نظریں ان کی جانب اٹھی تھی “مس زرنور ” وہ دونوں ہی چونک کر مڑے تھے پھر احمد تو ان لوگوں کی ٹیبل کی جانب بڑھ گیا تھا اور سامنے کھڑی شخصیت کو دیکھ کر زرنور کا منہ حلق تک کڑوا ہو گیا تھا “کیسی ہیں آپ زرنور ؟ اب وہ مسکرا کر پوچھ رہا تھا “میں ٹھیک ہوں .آپ کیسے ہیں سمیر ؟”اس نے جبری مسکراہٹ چہرے پر سجا کر کہا تھا “میں بھی ٹھیک ہوں ..آپ آۓ نہ ہمیں جوائن کریں ” اس نے مسکرا کر ٹیبل کے گرد بیٹھی براؤن بالوں والی لڑکی کو دیکھا تھا زر نور نے ایک سرسری نظر ہی اس پر ڈالی تھی سرخ و سفید رنگت والی یہ لڑکی کہیں سے بھی پاکستانی نہیں لگ رہی تھی “تھینک یو سمیر بٹ میں یہاں اپنے فرینڈز کے ساتھ آئی تھی آپ پلیز انجوۓ کرے ” اس نے خوشدلی سے معذرت کی تھی “اوکے .ایز یو وش ” اس نے مسکرا کر کہا تھا وہ ایکسکیوز کرتی وہاں سے پلٹ گئی تھی “اگر مما کو پتا چل جاۓ نہ کے یہ سمیر امیر آکسفورڈ سے ڈگری کے ساتھ اس لڑکی کو بھی لایا ہے تو..خود ہی منع کر دیں گی اس رشتے سے .بتانا ہی پڑے گا مما کو “وہ دل ہی دل میں خوش ہوتی ان لوگوں کے پاس آگئی تھی اشعر نے ان سب کے لئے اسپیشل ٹیبل بک کر وائی تھی “تمہیں کیا ہوا ؟” ان نےمنہ بناۓ کھڑی مناہل کو دیکھ کر پوچھا تھا جس نے ٹیبل کی طرف اشارہ کیا تھا زرنور نے اس کی نظروں کے تعا قب میں دیکھا تھا “کیا ہوا صرف کھانا ہی تو ہے ..ایسے کیوں منہ بنا رہی ہو ؟” اس نے حیرت سے پوچھا تھا “اگر تمہیں ان کھانوں کے نام پتا چل جائے نہ تو تم بھی ایسے ہی منہ بناؤ گی” جواب لائبہ کی طرف سے آیا تھا ” تیمور ہٹ ….کھڑا ہو یہاں سے …آؤ زرنور یہاں بیٹھو…دیکھوں کتنی مزے مزے کی چیزیں میں نے تمہارے لئے آرڈر کی ہیں ” حیدر نے مسکرا کر اپنے برابر میں بیٹھے تیمور کو اٹھا کر زرنور سے کہا تھا “نہیں ..پہلے مجھے ان کے نام بتاؤ ” اس نے وہی ںسے کھڑے کھڑے پوچھا تھا “یہ دیکھو …یہ بھنی ہوئی کلیجی اور گردے ..ساتھ میں پھیپھڑے بھی ہیں “اس نے جوش سے کہتے ایک ڈش کی طرف اشارہ کیا تھا “اور یہ دیکھو …بھیجا فرائی …یہ میں نے صرف تمہارے لئے ہی آرڈر کیا ہے کیوں کے مجھے پتا ہےاس کی سب سے زیادہ ضرورت تمہیں ہی ہے ” زرنور کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھی ان کھانوں کے نام سن کر ” یہ لو کھاؤ نہ ٹیسٹ کرو سچ میں بہت مزے کا ہے ” حیدر بد تمیز نے پوری ڈش ہی اٹھا کر اس کے سامنے کر دی تھی “ہٹاؤ اس کو میرے سامنے سے ہٹاؤ “وہ منہ پر ہاتھ رکھتی مناہل کے پاس جا کھڑی ہوئی تھی “کیا؟؟.. تمہیں یہ پسند نہیں ؟ چلو کوئی بات نہیں تم یہ جھینگا بریانی کھالو ویسے تو یہ میں نے اپنے لئے منگوائی تھی لیکن تم کھا سکتی ہو “حیدر نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا جیسے اس سے زیادہ معصوم اور شریف تو کوئی ہے ہی نہیں اس نے حیدر کو گھور نے کے بعد اشعر کو دیکھا تھا “اگر تمہیں صرف ان لوگوں کو ہی ٹریٹ دینی تھی تو ہمیں کیوں بلایا تھا پھر ؟” اس نے تیز لہجے میں پوچھا تھا اس سے پہلے کے اشعر کچھ کہتا احمد بول پڑا تھا “کیا مسلہ ہے تم لوگوں کے ساتھ کیوں تماشا لگایا ہوا ہے ؟ خاموشی سے یہاں بیٹھ جاؤ ایک لفظ نہ سنو میں اب ” احمد نے ان تینوں کو دیکھتے غصّے سے آہستہ آواز سے کہا تھا کیوں کے انکے کھڑے ہونے سے اس پاس بیٹھے سب ان کی جانب متوجہ ہو رہے تھے “احمد ریلکس یار ” حارث نے اس کے کندھے پپر ہاتھ رکھتے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تھی مجبورآ ان کو اسی ٹیبل پر بیٹھنا پڑا تھا کیوں کے ساری ٹیبلز ہی بھری ہی تھی کوئی ایک بھی خالی نہ تھی شاید ویک اینڈ ہونے کی وجہ سے ہر کوئی ہی آوٹنگ پر نکلا ہوا تھا زرنور کو بہت برا لگا تھا احمد کا اس طرح سے ڈانٹنا اسے بھی اب غصہ آنے لگا تھا کے اسنے کسی کا لہاظ نہیں کیا اور سب کے سامنے ہی ڈانٹ دیا بد تمیز نہ ہو تو اشعر نے ویٹر کو اشارہ کر کے بلایا تھا تاکے زرنور اور احمد آرڈر کر دیں “ٹھیک ہے میں بھی اب کبھی بات نہیں کرو گی اس ہٹلر سے “وہ دل ہی دل میں خود سے بول رہی تھی جبھی لائبہ نے اس کو ٹہکا دیا تھا ” زرنور آرڈر کرو ” وہ چونکی تھی “اہ ہاں چائینز فرائیڈ رائس اور جلفریزی “آرڈر لکھواتے اس کی نظر احمد پر پڑی تھی جو اپنی ڈیپ گرے آنکھیں اس پر ہی جماۓ بیٹھا تھا “زرنور نے ناراضگی سے زور سے پلکے جھپکتے منہ موڑ لیا تھا “احمد تو تو آرڈر کر ” تیمور نے اسے کہا تھا “ویل یہ ساری ڈشز ہی مجھے بہت پسند ہیں لیکن مجھے میری فیو ریٹ ڈش نظر نہیں آ رہی تو چلو وہ ہی منگوا لیتے ہیں ” اس نے مسکرا کر ٹیبل کو دیکھتے ہوئے کہا تھا کچھ دیر پہلے والا غصّہ تو کہیں نظر ہی نہیں آ رہا تھا “تیری فیو ریٹ ڈش کون سی ہے ؟ جہاں تک مجھے یاد تھا میں نے تو سب ہی آرڈر کر دیا ” حیدر نے حیرت سے کہا تھا ” میری فیو ریٹ ڈش ہے ….نلی نہاری ” اس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا تھا “اوہ ..مجھے کافی دیر سے لگ رہا تھا کے میں کچھ بھول رہا ہوں اب یاد آیا مجھے ..یار ایسا کرو 2 نلی نہاری لے آؤ “حیدر نے ویٹر سے کہا تھا جبھی تیمور اور ریاض چیخیں تھے “اوے ہمارے لئے بھی منگوا ” اوکے اوکے ایسا کرو 4 نلی نہاری لے آؤ “مناہل اور لائبہ تو منہ نیچے کئےبہ مشکل ہی کھا رہی تھی غلطی سے بھی ٹیبل پر پڑے کھانے کو نہیں دیکھ رہیں تھی “زرنور کا دل خراب ہونے لگا تھا “کاش میں سمیر کی آفر قبول ہی کر لیتی “اسے افسوس ہو رہا تھا اب “نوربانو تم نے کھانا ہے تو کھالو ایسے نظر تو نہ لگاؤ میرے کلیجی گردے پر ” حیدر نے اس طرح سے کہا تھا کے وہ سب ہی ہنس پڑے تھے ابھی ویٹر ان کھانا لے کر نہیں آیا تھا جبھی وہ اپنا دھیان ہٹانے کے لئے اردگرد کا جائزہ لے رہی تھی لیکن یہ حیدر بھی نہ “بکواس نہیں کرو حیدر ..ورنہ یہ گردے کھنیچ کر تمہارے منہ پر ماروں گی ” زرنور کو پہلے ہی غصّہ چڑھا ہوا تھا اس نے تپے ہوئے انداز میں حیدر کو گھور کر کہا تھا “ٹھیک ہے تمہیں نہیں کھانا تو مت کھاؤ لیکن مجھے پتا ہے تمہارا دل للچارہا ہے یہ کھانے کے لئے “حیدر نے بے نیازی سے کہا تھا وہ حیدر ہی کیا جس پر کسی چیز کا اثر ہوجاۓ ” میں کھاؤگی یہ کھانا ؟ میں ؟؟ “اس نے جھرجھری لی تھی “جبھی ویٹر ان کا آرڈر سرو کر کے چلا گیا تھا “زرنور بہ مشکل نیوا لے حلق سے اتار رہی تھی جبکہ وہ لوگ تو ایسے کھانے پر ٹوٹ پڑے تھے جیسے پتا نہیں کب سے فاقے کر رہے ہو “زرنور ..کھاؤ گی ؟؟” وہ پانی پی رہی تھی جبھی حیدر نلی نہاری کی ڈش ہاتھ میں اٹھاۓ مسکرا کر ابرو اچکا اچکا کر اس سے پوچ رہا اور ڈش میں پڑی چیزوں کو دیکھ رکھ اسے ابکائی آنے لگی تھی اس نے گلاس ٹیبل پر پٹختے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تھا جبھی مناہل رومال سے جلدی جلدی ہونٹ تھپ تھپاتی کھڑی ہو گئی تھی “میں باہر جا رہی ہوں اگر میں پانچ منٹ بھی اور یہاں رہی تو یقیناً بے ہوش ہو جاؤگی ” “رکو میں بھی چلوں گی تمہارے ساتھ ” لائبہ بھی اپنا دوپٹا سمبھالتی کھڑی ہو گئی تھی “ٹھینک یو اشعر ..اتنی اچھی ٹریٹ دینے کے لئے ” زرنور سنجیدگی سے کہتی اپنا موبائل اور کلچ ٹیبل پر سے اٹھا رہی تھی ” زرنور کھانا تو ختم کرو ..تم نے تو کچھ کھایا ہی نہیں ” اشعر شرمندہ ہونے لگا تھا “بس میرا پیٹ بھر گیا ہے …لیکن تم فکر مت کرو کیوں کے میں دوبارہ سے ٹریٹ لینے والی ہوں تم سے ” زرنور نے مسکرا کر صرف اس کی شرمندگی کم کرنے کے لئے کہا تھا “چلو ..یہ ٹھیک ہے ” وہ بھی ہسنے لگا تھا جبھی وہ تینوں ریسٹورانٹ سے باہر آگئی تھیں کھلی فضا میں آتے ہی ان کے موڈ خوش گوار ہو گیۓ تھے “میری توبہ جو میں اب ان کے ساتھ کہیں جاؤں ” لائبہ نے کانوں کو ہاتھ لگاۓ تھے ” ٹھیک کہ رہی ہو ببل انسانوں والی تو کوئی بات ہے ہی نہیں ان سب میں” مناہل نے کہا تھا”چھوڑو ان لوگوں کو ..لائبہ تم بتاؤ کس کلر کا ڈریس ہے تمہارا ؟” زرنور نے اشتیاق سے پوچھا تھا “کلر کیا مجھے تھے یہ ہی نہیں پتا کے میرا ڈریس کیسا ہے ؟ اب جب کل آۓ گا تو ہی دیکھو گی ” لائبہ نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ” “یہ کیا بات ہوئی ببل کیا تم نے اپنے پسند سے نہیں لیا ؟” مناہل نے حیرت سے پوچھا تھا ” اشعر نے اپنی پسند سے لیا ہے ” لائبہ کے گال سرخ ہو جاتے تھے اشعر کا نام لیتے ہوئے “کتنا تیز ہے یہ اشعر ہمارے سامنے تو ایسا معصوم بن کے رہتا ہے اور اب دیکھو ذرا اس کو ” زرنور نے ہنستے ہوئے لائبہ کو ٹہکا مارا تھا وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی “اس شیطان کی عمر تو دیکھو کتنی لمبی ہے ” مناہل نے ہنستے ہوئے کہا تھا لائبہ اور زرنور نے چونک کر پیچھے مڑ کر دیکھا تھا جہاں سے اشعر چلا آ رہا تھا اس کے پیچھے ایک ویٹر بھی تھا جس نے ہاتھ میں ایک ٹرے اٹھا رکھی تھی “سوری گرلز مجھے بکل بھی اندازہ نہ تھا کے یہ لوگ اپنا غیر انسانی روپ دکھا جائیں گے ” اشعر ہنستے ہوئے ان کے پاس آ رکا تھا ” تم تینوں نے کھانا ہی نہیں کھایا تھا ٹھیک سے ..اسی لئے میں یہ آئس کریم لے آیا تم لوگوں کے لئے ” اشعر نے کہتے ہوئے ویٹر کو اشارہ کیا تھا جس نے ٹرے ان کے سامنے کر دی تھی “یہ کام تو تم نے بہت اچھا کیا ” مناہل نے چاکلیٹ آئس کریم اٹھاتے ہوئے کہا تھا “مجھے پتا ہے تم لڑکیاں کس چیز سے مانتی ہو ..لیکن پرومیس ایک ٹریٹ ..صرف تم تینوں کے لئے” اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا “اس کی فکر تم مت کرو ..وہ تو ہم تم سے لے ہی لیں گے …لیکن ایک بات تو بتاؤ …سب کی منگنی صرف ایک ہی دفہ ہوتی ہے نہ ؟” زرنور نے آئس کریم کھاتے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا تھا ” ہاں ایک ہی دفہ ہوتی ہے ..کیوں ؟؟” وہ نہ سمجھی سے زرنور کو دیکھ رہا تھا ” تو پھر تم نے ببل کو اس کی پسند سے ڈریس کیوں نہیں لینے دیا ہاں ؟” زرنور نے اس کو مصنوئی گھورتے ہوئے کہا تھا ” اور ابھی تو تمہاری شادی کیا منگنی بھی نہیں ہوئی اور تم نے ابھی سے حکم چلانا شرع کر دیا ” وہ دونوں اس کو گھیر کر کھڑی تھی اشعر ان کے انداز پر ہنس پڑا تھا ” یار میں نے حکم تھوڑی دیا ہے ..میں تو بس یہ چاہ رہا تھا کے لائبہ میری پسند کا ڈریس پہنے ..بس اتنی سی خوائش تھی میری تو ” اس نے سر کھجاتے ہوئے کہا تھا “ہمیں کیا پتا تمہاری پسند کیسی ہے ؟ اور اگر لائبہ کو وہ ڈریس پسند نہیں آیا تو ؟” زرنور نے ایک ہاتھ کمر پر رکھتے ہوئے کہا تھا ” اس بات کی تو گارنٹی دیتا ہوں کے لائبہ کو وہ ڈریس پسند آ جاۓ گا اور رہی بات میری پسند کی تو ..میری پسند تم دونوں کے سامنے ہی ہے ذرا دیکھ کر تو بتاؤ کے کیسی ہے ” اشعر لائبہ پر نظریں جماۓ ہلکا سا مسکراتے ہوئے بولا تھا جو آنکھیں جھکاۓ سرخ چہرے کے ساتھ کھڑی نروس ہو رہی تھی جبھی زرنور اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی جس لائبہ پوری اس کے پیچھے چھپ گئی تھی ” ایک تو تم موقع ملتے ہی لائن مارنا شرع ہو جاتے ہو “زرنور نے اس کو ہنستے ہوئے گھورا تھا “میں لائن کہاں مارتا ہوں؟ ..میرے تو صرف دیکھنے پر ہی تم دونوں ظالم سماج بن کر بیچ میں آ جاتی ہو ” اشعر نے ہنستے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا جہاں سے وو سب ان کی جانب ہی آ رہے تھے “نوربانو .تم نے مس کر دیا ..قسم سے اتنے مزے کا کھانا تھا “حیدر نے اس کو افسوس سے دیکھتے ہوئے کہا تھا اور زر نور کا دل کر رہا تھا ہاتھ پکڑا آئس کریم کا کپ حیدر کے سر پر مار دے”مناہل چلیں ؟” حارث نے مناہل کو دیکھا تھا جو اس پر ایک غصیلی نظر ڈال کر زرنور کے پیچھے جا کھڑی ہوئی تھی “زری اس کو بول دو میں اس کے ساتھ نہیں جاؤنگی ” وہ اس کے پیچھے سے ہی منہ پھلا کر بولی تھی “حارث مناہل تمہارے ساتھ نہیں جاۓ گی ” زر نور نے اسی کے انداز میں کہا تھا ” لیکن میں نے کیا کیا ہے ؟ اس نے نہ سمجھی سے کہا تھا ” زیادہ معصوم بننے کی ضرورت نہیں ہے حارث تم اچھی طرح جانتے ہو کے تم نے کیا کیا ہے ” وہ تنک کر بولی تھی “یار تم ابھی تک کھانے والی بات پر ناراض ہو ؟ .اس پر بحث کافی لمبی جاۓ گی وہ ہم گاڑی میں کر لینگے ابھی تو چلو دیر ہو رہی ہے ” اس نے رسٹ واچ دیکھتے آرام سے کہا تھا “میں نے کہ دیا ہے حارث میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤگی ” ” تو پھر کس کے ساتھ جاؤ گی ؟ حارث کو بھی اب غصّہ آنے لگا تھا مناہل کبھی کبھی فضول سی ضد پر اڑ جاتی تھی ” میں زرنور کے ساتھ چلی جاؤں گی ” وہ ناراضگی سے کہتے پارکنگ کی جانب بڑھ گئی تھی جہاں زرنور کی گاڑی کھڑی تھی “تم فکر مت کرو حارث اسے میں ڈراپ کر دونگی ..ویسے بھی وہ ابھی غصّے میں ہے تم زبر دستی کروگے تو وہ اور ضد کریگی “زرنور نے رسان سے کہا تھا ” ٹھیک ہے سمبھال کر جانا ” حارث نے سر آثبات میں ہلایا تھا پھر زرنور لائبہ سے مل کر اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گئی تھی ” پریشان نہ ہو یار ..وہ بچیاں تھوڑی ہیں ” احمد نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا “نہیں یار وہ بات نہیں ہے لیکن یہ مناہل کبھی کبھی بچی ہی بن جاتی ہے ” اس نے ناراضگی سے کہا تھا وہ سب ان سے ملکر نکل چکے تھے اس لئے وو دونوں پارکنگ میں کھڑے آرام سے بات کر رہے تھے ” تو تو ایسی حرکتیں ہی کیوں کرتا ہے جو اس کو نہ پسند ہے ” احمد نے اس کو دیکھا تھا جو گاڑی سے ٹیک لگایے کھڑا تھا ” تیرا کیا مطلب ہے .کیا اب میں کھانا پینا ہی چھوڑ دوں ؟” ” بیٹا اب محبّت کی ہے تو دل تو بڑا کرنا پڑیگا نہ ” احمد نے ہنستے ہوئے اپنی گاڑی کا لاک کھولا تھا “یار یہ محبّت ہی تو سارے کام خراب کرواتی ہے ” وہ بھی ہنس پڑا تھا ” خیر اب زیادہ غصّہ دکھانے کی ضرورت نہیں ہے آرام سے بات کرنا ” احمد نے اسے تنبھ کرتے ہوئے کہا تھا حارث نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا تھا “چل میں نکلتا ہوں اب ..تو بھی ان کو فولو کر کہیں اور ہی نہ نکل جائیں ” احمد ہنستے ہوئے اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا تھا وہ بھی اپنی گاڑی کا لاک کھولنے لگا
“حارث گاڑی پورچ میں کھڑی کر کے سیدھا کچن میں آیا تھا جانتا تھا کے وہ وہیں ملے گی اور اس کا اندازہ سہی تھا وو وہیں تھی .کاؤنٹر کے سامنے کھڑی چاۓ بنا رہی تھی “یہ کیا حرکت تھی مناہل ؟” وہ کچن کے دروازے کے پاس کھڑا سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا لیکن اس نے جواب نہیں دیا تھا “مناہل میں تم سے بات کر رہا ہوں ” حارث نے اس دفعہ سختی سے کہا تھا “سن رہی ہوں ” اس نے پلٹ کر ایک ناراضگی بھری نظر اس پر ڈالی تھی اور دوبارہ چاۓ کی طرف متوجہ ہو گئی “تو پھر جواب کیوں نہیں دے رہیں میری بات کا ؟” ” کیا جواب دوں میں تمہاری بات کا ؟ ہاں ” اس نے برنر اوف کر کے حارث کی طرف رخ کر لیا تھا “تم نے وہاں اتنا روڈلی بی ہیو کیوں کیا تھا ؟” وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے سختی سے پوچھ رہا تھا “میں نے روڈلی بی ہیو کیا تھا …اور جو تم نے کیا تھا وہ بھول گئے ؟” اس نے تنک کر پوچھا تھا “اتنی سی بات کا تم نے اتنا بڑا ایشو بنا لیا ” ..”اگر یہ اتنی سی بات ہے تو پھر اس کو وجہ بنا کر کیوں لڑ رہے ہو مجھ سے ؟” مناہل نے ناراضگی سے اس کو دیکھا تھا اور حارث لاجواب ہو گیا تھا اس کی بات پر ” یار میں لڑ تو نہیں رہا تم سے میں تو بس یہ کہ رہا تھا کے تم نے بد تمیزی کی مجھ سے اور بات نہیں مانی میری ” ..”میں نے بدتمیزی کی تھی ؟” اس کی آنکھیں حیرت سے کھلی تھی “غلط بات مت کرو حارث شروعات تم نے کی تھی “وہ انگلی اس کی جانب اٹھاۓ ناراضگی سے بول رہی تھی ” اف ٹھیک ہے ..تم نے میری بات نہیں مانی .اور میں نے تمہاری بات نہیں مانی ..حساب برابر .چلو اب لڑائی ختم کرتے ہیں ” اس نے مصالحانہ انداز میں کہا تھا “نہیں …پہلے اپنی غلطی مانو ..”وہ دونوں ہاتھ سینے پر باندھے منہ پھلا کر کھڑی تھی “اب کون سی غلطی ؟؟ بات ختم تو ہو گئی “حارث نے حیرت سے کہا تھا “بات ابھی ختم نہیں ہی ہے حارث تمہاری غلطی ہے ..اور تمہیں مان لینا چاہیے ” وہ اسی انداز میں بولی تھی ” ٹھیک ہے .جو غلطی میں نے کی ہی نہیں .میں اس کو مانتا ہوں ….اب خوش ؟؟” “نہیں ….اب سوری بولو مجھے ” حارث نے ایک ابرو اٹھا کر اس کو دیکھا تھا “سوری کس خوشی میں بولوں میں اب ؟؟” ” تم نے مجھ پر غصّہ کیا تھا ” حارث نے سر نفی میں ہلاتے دو انگلیوں سے اپنی پیشانی مسلی تھی پھر وہ دو قدم آگے بڑھ کر اس کے سامنے آ رکا تھا ” محترمہ مناہل صاحبہ میں معذرت چاہتا ہوں کے میں نے آپ پر غصّہ کیا .مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا “وہ اس کی جانب جھک کر بولا تھا “ٹھیک ہے ..اور آئندہ مجھ سے سخت لہجے میں بات نہیں کرنا ” وہ انگلی اٹھا کر اس کو بولتی پلٹ کر چاۓ کپ میں نکالنے لگی حارث ہنس پڑا تھا ” اچھا بات تو سنو ..کیا اب بھی ناراض ہو مجھ سے ؟” نہیں ” وہ بغیر پلٹے بولی تھی ” پھر چاۓ کیوں نہیں بنائی میرے لئے ؟” مناہل رات کو دو کپ چاۓ لازمی بناتی تھی ایک خود کے لئے اور دوسرا حارث کے لئے لیکن آج اس نے صرف ایک کپ ہی بنایا تھا “تمہارے لئے ہی بنائی ہے ” مناہل نے کپ اس کے ہاتھ میں پکڑایا تھا اور جانے لگی تھی لیکن وہ اس کے راستے میں کھڑا تھا “اب ہٹ بھی جاؤ.. کیا ساری رات یہیں کھڑے رہو گے ؟؟” ” اوہ …سوری ” وہ کہتے ہوئے سائیڈ پر ہو گیا تھا مناہل اس کے ساتھ سے ہو کر جانے لگی تھی لیکن پھر رک گئی اور پلٹ کر حارث کو دیکھا جو چاۓ کے گھونٹ بھر رہا تھا ” بات سنو ..مجھے کل لائبہ کی طرف جانا ہے اگر تم نو بجے سے پہلے نہیں اٹھے تو دیکھ لینا پھر کے میں کیسے اٹھاؤ گی تم کو ” وہ اس کو وارن کرتے ہوئے بولی تھی ” یار فنکشن تو رات کو شرع ہو گا تم صبح ہی صبح جا کر کیا کرو گی ؟” وہ حیرت سے بولا تھا “تو تم کیا چاہ رہے ہو کے میں مہمانوں کی طرح رات کو جاؤں ؟..میں کہ رہی ہوں حارث نو بجے کا مطلب نو بجے ہے اگر تم نہیں اٹھے تو اچھا نہیں ہوگا پھر ” وہ ایک دفہ پھر کہتی کچن سے چلی گئی تھی حارث مسکرا دیا تھا کیوں کے اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا صبح نو بجے اٹھنے کا – – – – – وہ بکس ایشو کروا کر لائبر یری سے نکل رہی تھی جب اندر اتے کسی سے بری طرح ٹکرائی تھی اس کے چودہ طبق روشن ہو گئے تھے وہ تو مقابل نے اس کا ہاتھ پکڑ کر گرنے سے بچایا تھا ورنہ کتابوں کے ساتھ وہ بھی زمین بوس ہو جاتی ” آپ ٹھیک ہیں ؟” تیمور نے اس کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا “جی میں ٹھیک ہوں ” انوشے اپنی نیچے گری اپنی کتابیں اٹھانے لگی تھی لیکن تیمور اس سے پہلے ہی نیچے جھک کر اس کی کتابیں اٹھا چکا تھا “یہ لیں ” تیمور نے کتابیں اس کے سامنے کی تھی “تھینک یو ” اس نے کہ کر اپنی کتابیں پکڑی تھی لیکن…. تیمور نے کتابیں نہیں چھوڑی انوشے نے ایک ابرو اٹھا کر نہ سمجھی سے اس کو دیکھا تھا اس نے پھر سے اپنی کتابیں کھینچی تھی لیکن تیمور نے پھر بھی نہیں چھوڑی “مسٹر ..میری کتابیں چھوڑیں ” اس دفا انوشے نے ذرا سختی سے کہا تھا لیکن تیمور صاحب سن کہاں رہے تھے وہ تو انوشے کی چشمے کے پیچھے چھپی کالی آنکھوں میں ڈوب چکے تھے تب انوشے نے غصّے سے اپنا ہیل والا پیر زور سے تیمور کے پیر پر مارا تھا جس سے وہ چیخ پڑا تھا اور کتابوں کو چھوڑ کر اس نے اپنا پیر پکڑ لیا تھا شاید کچھ زیادہ ہی زور سے مار دیا تھا انوشے نے نتیجآ ساری کتابیں پھر سے گر گیں تھیں “اوہ ..سوری میں اٹھا دیتا ہوں “تیمور درد بھلاۓ اس کی کتابیں اٹھانے لگا تھا لیکن اس نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا تھا “کوئی ضرورت نہیں ہے ..میں اٹھا لونگی ” اس نے تیمور کو گھورتے ہوئےنیچے جھک کر اپنی کتابیں اٹھائی تھی اور پھر ایک غصیلی نظر اس پر ڈال کر چلی گئی تھی اور تیمور کو نہ جانے کیا ہوا مقناطیس کی طرح اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا انوشے نے دو تین دفع مڑ کر اپنے پیچھے آتے تیمور کو دیکھا تھا لیکن اس نے اپنا وہم سمجھ کر چھوڑ دیا تھا کے کیا پتا جہاں مجھے جانا ہے اسے بھی وہیں جانا ہو ..لیکن اب وو سیڑھیاں چڑھ کر کاریڈور میں مڑی تھی اور تیمور اب بھی اس کے پیچھے پیچھے تھا..اس نے ایک دم سے پلٹ کر تیمور کو دیکھا تھا “تم پیچھا کر رہے ہو میرا ؟” اس نے ناک پر پھسلتے چشمے کو دوبارہ سے آنکھوں پر جما کر گھور کر تیمور کو دیکھا تھا جو اس کے ایک دم سے رک جانے پر بوکھلا گیا تھا “نن ..نہیں ..میں اپ کا پیچھا نہیں کر رہا ” اس نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے کہا ” تو پھر میرے پیچھے کیوں چل رہے ہو تم ..ہاں ؟” وہ خطرناک تیور لئے اسے گھور رہی تھی “مجھے نہیں پتا ” تیمور نے سادگی سے کہا تھا جس پر انوشے کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی ” دیکھو ..ڈرامے بند کرو اپنے ..اور اب میرے پیچھے نہیں آنا ” وہ غصے سے اس کو وارن کرتے ہوئے بولی تھی ” میں آپ کے پیچھے نہیں آیا مس ” تیمور نے اب بھی سادگی سے کہا تھا “ابھی تو تمہیں جن بھوت اٹھا کر لاۓ ہیں نہ میرے پیچھے ؟” اس نے طنز سے تیمور کو دیکھا تھا جو اس کی آنکھوں میں پھر سے ڈوبنے کی تیاری کر رہا تھا “میرے چشمے کو گھورنا بند کرو ” وہ چیخی تھی “آ …آپ غلط سمجھ رہی ہیں میں آپ کے چشمے کو …” ” شٹ اپ اب اگر تم میرے پیچھے آۓ نہ تو میں کمپلین کر دوں گی تمہاری ….اور آئندہ اپنی شکل نہیں دکھانا مجھے ورنہ …سر پھاڑ دونگی تمہارا ” انوشے غصّے سے اس کو گھورتی وہاں سے چلی گئی تھی “یہ کیا ہو گیا تھا مجھے ؟” تیمور نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا تھا
“یار آج کتنا سکون ہے یونی میں ..ان تین چڑیلوں کے نہ آنے سے ” حیدر نے خوشی سے کہا تھا “تونے مناہل کو چڑیل بولا ؟” حارث نے اس کو گھورتے ہوئے کہا تھا ” اوے ..لائبہ کو چڑیل مت بول ” اشعر نے اس کے سر پر ہاتھ مارا تھا ” کوئی ہے ؟….کوئی ہے ؟؟ جو زرنور کے لئے آواز اٹھاۓ ..کوئی نہیں ہے ؟ چلو کوئی بات نہیں …ہاں تو میں کہ رہا تھا کے ….کتنا سکون ہے نہ یونی میں میری ہونے والی دونوں بھابیوں اور چڑیل کے نہ آنے سے ” حیدر اسی انداز میں بولا تھا وہ تینوں ہنس پڑے تھے ” کاش زرنور یہاں ہوتی اور تیری بات سن کر تجھے اس دنیا سے روانہ کر دیتی “حارث نے ہنستے ہوئے کہا تھا “ویسے ریاض تجھے اس کے لئے آواز اٹھانی چاہیے تھی ” اشعر نے ہنستے ہوئے ریاض کو دیکھا تھا جو برگر کھا رہا تھا اس کی بات سن کر اس نے برگر چھوڑ کر دونوں ہاتھ اس اس کے سامنے جوڑ دیے تھے “نہیں بھائی مجھے تو معاف ہی رکھ …اگر میں نے اس کی سائیڈ لی نہ تو وہ اس حیدر سے پہلے میری جان لیتی ….اور پتا ہے کیسے بولتی ؟ ” ریاض نے ان تینوں کو دیکھا تھا جو ہنستے ہوئے اس کو ہی دیکھ رہے تھے “چل ….چل کر کے دکھا ” وہ تینوں جوش سے بولے تھے حیدر نے تو اپنا موبائل ہی نکال لیا تھا اس کی ویڈیو بنانے کے لئے ریاض کرسی پر تھوڑا آگے ہو کر بیٹھا تھا گردن کو اکڑا کر اس نے اپنی آنکھیں پوری کھول لی تھی اب وہ حیدر کو گھورتے ہوئے چیخ کر بول رہا تھا ” ریاض.. تمہاری ہمّت کیسے ہوئی میری سائیڈ لینے کی ؟ ہاں ..کس نے بولا تھا تم کو میری سائیڈ لینے کو ؟؟ بولو …دو جواب …نہیں ہے جواب ؟ کوئی بات نہیں ….dhhzz dhzz دو گولی میرے سینے میں اور میں جہنم میں ” وہ چاروں ہنستے ہنسے بے حال ہو گئے تھے جبھی تیمور ان کے پاس آیا تھا “کیا ہوا تم لوگوں کو ایسے پاگلوں کی طرح کیوں ہنس رہے ہو ؟” تیمور ان کو نہ سمجھی سے دیکھتا نڈھال سا کرسی پر گر گیا تھا “اگر تو بھی تھوڑی دیر پہلے یہاں ہوتا نہ تو ایسے ہی ہنس رہا ہوتا “اشعر نے اپنی ہنسی روکتے پانی پیتے ہوئے کہا تھا “کاش میں تھوڑی دیر پہلے یہیں ہوتا ” تیمور نے افسوس سے کہتے سر کرسی کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں موند لی تھی حیدر نے ایک ابرو اٹھا کر اس کو دیکھا تھا “کیا ہوا شہزادے ..کسی کو دل دے آیا ہے کیا ؟” حیدر نے مسکراہٹ دباتے ہوا میں تیر چھوڑا تھا اور تیر ٹھیک نشانے پر لگا تھا جبھی تو تیمور نے جھٹ سے آنکھیں کھولی تھی “تجھے کیسے پتا ؟” اس نے حیرت سے حیدر کو دیکھا تھا “