” ارے ہم تو اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں . پھر تو کیا چیز ہے ؟…چل شاباش جلدی سے شرع ہو جا کون ہے ؟کہاں رہتی ہے ؟ کیا کرتی ہے ؟جلدی بتا ” وہ چارو اس کو گھیر کر بیٹھے تھے ” کمینو..پیچھے ہٹو …مجھے سانس نہیں آ رہا “…وہ سب جوش میں کچھ زیادہ ہی تیمور کے قریب ہو کر بیٹھ گئے تھے جبھی وہ چیخا تھا “اچھا ..اچھا …پیچھے ہو جاؤ ” ریاض حارث اور اشعر تو پیچھے ہو گئے تھے لیکن حیدر نہیں ہوا “جلدی بتا کیا نام ہے اس کا ؟” ریاض نے بے صبری سے پوچھا تھا ” مجھے نہیں پتا ” تیمور نے سادگی سے کہا تھا “اچھا رہتی کہاں ہے ؟” اس دفہ حیدر نے پوچھا تھا “میں نہیں جانتا ” اس نے اسی انداز میں کہا تھا ” او بھائی ….کس بے نام و نشان سے محبّت کرلی تونے ؟ نام تو پوچھ لیتا کم از کم ” ” نام پوچھنے کا موقع ہی نہی ملا ” اس نے دکھ سے کہا تھا ” اوے .دیوداس ..سیدھی طرح سے بتا ساری بات ..کہاں ملے تم دونو ..کیا کیا باتیں ہوئی .جلدی بتا ” حیدر کے کہنے پر اس نے ساری بات ان کو بتا دی تھی جو سنجیدگی سے اس کو سن رہے تھے “یار میں کیا کرو اب ؟” تیمور نے بے چارگی سے ان سب کو دیکھا “تو شرم کر تیمور …ناک ہی کٹوا دی تونے تو ” ریاض نے افسوس سے کہتے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ مارا تھا ” ابے تجھے ضرورت ہی کیا تھی اس کے پیچھے جانے کی ؟ کیا امپریشن پڑا ہوگا اس پر تیرا ؟” حارث نے بھی اس کو گھورا تھا “یار کہ تو رہا ہوں کے میں جان بوجھ کر تھوڑی گیا تھا اس کے پیچھے ..پتا نہیں کیا ہو گیا تھا “اس نے برا مان کر کہا تھا ” چل اب کیا چاہ رہا ہے تو ؟” حیدر کے پوچھنے پر وہ جلدی سے بولا تھا “دوستی ” “دوستی کو تو بھول جا اب تو ..جو حرکت تونے کی ہے نہ اس سے تو وہ تجھے کوئی تھرڈ کلاس عاشق ہی سمجھے گی ” اشعر کہتے ہوئے کھڑا ہو گیا تھا “اب تو کہاں جا رہا ہے ؟” ” بھائی میری منگنی ہے آج اور تم لوگوں نے مجھے یہاں بٹھایا ہوا ہے ” ” چپ کر کے بیٹھ جا اشعر پہلے میرا مسلہ حل کر پھر جانا .اور ویسے بھی منگنی رات کو ہے تو ابھی سے جا کر کیا کرے گا ؟” تیمور نے اس کا ہاتھ پکڑ کر دوبارہ بیٹھا لیا تھا “یار اشعر .حارث تم دونوں تو کافی ایکسپرٹ ہو اس معاملے میں .تم ہی میری مدد کرو ” تیمور نے بے چارگی سے کہتے ان دونوں کو دیکھا تھا جو اس کی بات سن کر ہاتھ پے ہاتھ مار کر ہنس پڑے تھے “رہنے دے بھائی تجھ سے نہیں ہوگا ..بڑے دل گر دے کا کام ہے لڑکی پٹانہ ” حارث نے ہنستے ہوئے کہا تھا “یار تم لوگ میری بات کو سیرئیس ہی نہیں لے رہے ” تیمور نے بڑا سا منہ پھلا لیا ” اچھا چل بتا کیا کریں ہم ؟” ” بس تم لوگ اچھا امپریشن ڈالو اس پر میرا ” “بھائی یہ کام تو تو ہی کر سکتا ہے ہم کیسے کریں گے ؟” ریاض نے حیرت سے کہا تھا “مجھے نہیں پتا کیسے .لیکن یہ کام تم لوگوں کو ہی کرنا ہے ” .جبھی تیمور کی نظر کینٹین میں آتی انوشے پر پڑی تھی اس کے ساتھ کوئی اور لڑکی بھی تھی ” او .وہ رہی وہ لڑکی …دیکھو وہ رہی ” تیمور دبی آواز سے چیخا تھا “کدھر ہے ؟ کدھر ہے ؟” وہ چاروں چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگے ” ارے وہ دونوں جو ابھی ابھی آئی ہیں ” تیمور نے کہتے ہوئے مشکل سے حیدر کو پکڑ کر دوبارہ کرسی پر بٹھایا تھا جو کھڑے ہو کر پوری کینٹین میں گردن گھوما گھوما کر دیکھ رہا تھا “ان دونوں میں سے کون سی ہے ” ریاض نے ان دونو کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا جو کاؤنٹر کے پاس کھڑی تھی “کالے کپڑو والی…بیٹھ جا بندر “اس نے پھر حیدر کو بٹھایا ” “مجھے بھی دکھا دو ” “ابے سالے ان دونوں نے ہی کالے کپڑے پہنے ہوئے ہیں ..کچھ اور بتا ” ریاض نے اس کو گھورتے ہوئے کہا تھا “اس نے چشمہ پہنا ہوا ہے ” وہ دونوں کولڈ ڈرنکس اور بر گر لئے پلٹی تھی جبھی انوشے کی ساتھ والی لڑکی کی نظر ان پر پڑی تھی ” حارث اور اشعر تو ان کو ایک نظر دیکھ کر اپنی مسکراہٹ دباتے موبائل پر جھک گئے تھے ریاض تو تقریبا اپنی پوری آنکھیں کھلے ان کو دیکھ کم اور گھور زیادہ رہا تھا اور حیدر ان کو دیکھنے کی نہ کام کوشش کر رہا تھا کیوں کے بیچ میں اشعر کا سر آ رہا تھا “اشعر کے بچے اپنا سر نیچے کر ” حیدر نے اس کو گھورا تھا جس نے مسکراتے ہوئے اپنا سر نیچے کیا تھا تیمور نے تو ان کو دیکھ کر ہی اپنا منہ دوسری طرف کر لیا تھا کے کہیں انوشے کی نظر نہ پڑ جائے اس پر ” وہ دونوں تو کینٹین سے چلی گئیں تھی پیچھے حیدر اور ریاض ہنسی سے بے حال ہوتے ایک دوسرے پر گر رہے تھے “ابے سالے تجھے اس پوری دنیا میں صرف یہ چشمش ہی ملی تھی ؟” ریاض نے ہنستے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا تھا “ہمیں تو تیرا چشمہ لے ڈوبا صنم …ہاہاہا ” حیدر کی بات پر اشعر اور حارث بھی قهقہ لگا کر ہنس پڑے تھے “ہاہاہا مجھےتو لگتا ہے کے اس کی چار آنکھوں نے ہی تجھے پاگل کیا ہے ” وہ چاروں بے تحاشا ہنس رہے تھے “جبھی اشعر کی نظر تیمور پر پڑی جو خشمگیں نظروں سے ان سب کو گھور رہا تھا “اوے ..چپ کر جاؤ تم لوگ ” اشعر نے مسکراہٹ دباتےان سب کو مصنوئی گھور تے ہوئے کہا تھا ” ان لوگوں نے ہونٹو پر انگلی رکھ لی تھی اور ابھی تیمور کچھ کہنے ہی لگا تھا کے وہ سب پھر سے ہنس پڑے ” سیر ئیسلی تیمور ..چشمش ؟؟ہاہاہا ” جا رہا ہوں میں یہاں سے کمینو ہنس لو تم لوگ ” تیمور ان کو گھورتے ہوئے کھڑا ہو گیا تھا جبھی حارث نے اس کو پھر سے بیٹھا تھا ” بیٹھ جا یار تیمور ” ” مجھے تو یہ سمجھ نہیں آ رہا کے اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے ؟” اس نے تپے ہوئے انداز میں کہا تھا “ٹھیک ہے تیمور ..اس کو پٹانا ہے نہ ؟؟ تو فکر مت کر ہم سب مل کر پٹا لینگے اس کو ” ریاض نے ایک ہاتھ سینے پر رکھتے تسلی دیتے ہوئے کہا “اوے ” تیمور نے اس کو گھورا تھا ” بھائی تیرے لئے ..تیرے لئے پٹائیں گے نہ ” ریاض نے گڑ بڑا کر کہا تھا “یار تم لوگ کچھ کر کیوں نہی رہے ؟؟ اتنی دیر سے یہاں بیٹھ کر باتیں ہی کئے جا رہے ہو ” تیمور نے ناراضگی سے کہا تھا ” تو کیوں ہتھیلی پر سرسوں جمانا چاہ رہا ہے ؟ صبر کرلے تھوڑا ” اگر وہ کہیں انگیجڈ ہوئی تو ؟” ” جب بھی بولنا فضول ہی بول نہ ” تیمور نے حیدر کو گھورا تھا “تم لوگ کچھ کر کیوں نہیں رہے ؟” اس نے بےبسی اور غصّے سے کہا تھا ” تو بھائی تو کیا چاہ رہا ہے ؟ ہم کیا کراۓ کے غنڈ ے بن کر اس کو چھیڑنے جا ۓ ..اور تو آ کر ہم کو مار کر اس کو بچا ۓ “ریاض نے اس کو گھورا تھا ” پہلے تو مجھے یہ بتاؤ ..اگر اس میشن میں میں شہید ہو گیا تو .تو لائبہ کو کیا جواب دیگا ؟ یہ چار انکھوں والے بہت تیز ہوتے ہیں .بندہ دیکھ کر ہی پہچان لیتے ہیں “اشعر نے جیسے ان کو خاصی اہم معلومات سے آگاہ کیا تھا “میری بات مان تیمور ..تو ان چکروں میں مت پڑ ..ورنہ صبح شام ان دونوں کی طرح اس کے پیچھے لٹو کی طرح گھومتا ہی رہے گا .مجھے اور حیدر کو دیکھ کتنے مزے میں ہیں نہ لڑکی نہ ٹینشن ” ریاض نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا ” اوے پہلے میری سیٹنگ کروادو چیشمش کی دوست سے ” حیدر نے دانت نکالتے ہوئے کہا تھا ” انسان بن جا حیدر …اب چشمش نہیں بولنا ” تیمور نے اس کو گھورتے ہوئے وارن کیا تھا ” میرا مطلب تھا کے اگر دوست کو پہلے پٹا لیں تو بھابی کو پٹانا آسان ہو جائے گا نہ ” حیدر نے وضاحت دی تھی اور تیمور کے ذہن میں جھماکہہ ہوا تھا وو جلدی سے اشعر کی جانب پلٹا تھا “اشعر ..تیری منگنی ہے رات کو ” وہ جوش سے بولا تھا ” ہاں مجھے پتا ہے ” اس نے اطمینان سے کہا تھا “اشعر تو سمجھا نہیں ..تیری منگنی ہے رات کو ” تیمور خوشی سے تمتما تے چہرے کے ساتھ اپنی بات پر زور دے کر بولا ” او بھائی ..مجھے پتا ہے میری منگنی ہے رات کو ..تو اگے تو بول ” “تو اس لڑکی کے پاس جا اس کو انوائٹ کر رات کو انے کے لئے ” تیمور جوش سے بولا تھا اور وہ چارو اس کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے ان کو “بلو وہیل ” کھیلنے کے لئے بول رہا ہو “تو چاہ رہا ہے کے میں اس لڑکی کے پاس جا کر اس کو انوائٹ کرو ؟” اشعر نے سیدھے ہوتے ہوئے سنجیدگی سے کہا تھا ” اس نے زور سے سر اثبات میں ہلایا تھا ” میں اسے کہوں.. مس میں اپ کا نام نہیں جانتا ..میں یہ بھی نہیں جانتا کے اپ کون ہے کہا رہتی ہیں ..لیکن میری رات کو منگنی ہے اور میں چاہتا ہوں کے آپ آۓ …یہیں چاہ رہا ہے نہ تو؟” اشعر تیمور کو سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا ” ہاں ..ہاں .میں یہی چاہ رہا ہوں ..یہی چاہ رہا ہوں ” وہ اب بھی جوش سے بولا تھا ” ایک لگاؤ گا میں تیرے ..ہوش ٹھکانے آ جائے گے ..نہ جان نہ پہچان دعوت دینے پہنچ جاؤ اسکو …سالے .تجھے تو صرف دھمکی دی ہے میرا تو وہ سچ میں سر پھاڑ دے گی ” اشعر نے اس کو گھورتے ہوئے کہا تھا جس کا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا ” تو میں اور کیا کروں ؟” تیمور نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا تھا جبھی حارث کے فون کی مسیج ٹون بجی تھی اس نے ٹیبل پر پڑے فون کو اٹھا کر دیکھا احمد کا مسیج تھا ..وہ مسیج پڑھ کر کھڑا ہو گیا تھا ” چل تیمور .تو میرے ساتھ چل ..احمد آگیا ہے باہر پارکنگ میں ویٹ کر رہا ہے ہم دونوں مال جا رہے ہیں تو بھی ہمارے ساتھ چل وہ تیرے مسلے کا حل نکال لے گا ..چل شاباش جلدی کھڑا ہو ” حارث نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا کیا تھا “ حیدر .ریاض جب تک تم دونوں اس گدھے کو لے کر سیلون جاؤ ..تھوڑی صفائی کرواؤ اس کی ..کتنا گندا ہو رہا ہے ” ایسے جائے گا منگنی کرنے ؟” حارث نے اشعر کو گھورا تھا ” کیا ہو گیا ہے یار ..ابھی صبح ہی تو نہا کر آیا ہوں ” اشعر نے حیرت سے کہا تھا “میں تو کہتا ہوں کے اس کو باتھ ٹب میں بہت سارا تیزاب ڈال کر ڈوبا دیتے ہیں شام تک ایسا صاف ہو کر نکلے گا ” حیدر نے سنجیدگی سے کہا تھا ” میری بات مان تو سیلون کو چھوڑو ..اس کو لے کر لانڈری چلتے ہیں وہاں اس کو واشنگ مشین میں ڈال کر دو تین چکر دینگے نہ تو خود ہی صاف ہو جائے گا “حیدر اور ریاض سنجیدگی سے اشعر کوپر سوچ نظروں سے دیکھتے بول رہے تھے “تو کیا بولتا ہے حارث .کیا کریں اس کے ساتھ ؟” اب وہ دونوں حارث کو دیکھ رہے تھے “مجھے تو یہ دونوں طریقے ہی ٹھیک لگ رہے ہیں پہلے اس کو تیزاب والے ٹب میں ڈوبا دینا پھر مشین میں گھوما دینا اگر پھر بھی فرق نہ پڑے تو پہلے کسی کار پینٹر سے اس کی گھیسائی کر وا لینا پھر اس کو ٹب میں ڈوبانا “حارث بھی گہری سنجیدگی سے اس کو دیکھتے ہوئے بول رہا تھا “پ “چل ..ریاض پکڑ اس کو ..پہلے گھیسائی ہی کروا لیتے ہیں اس کی “حیدر نے سنجیدگی سے کہا تھا “پاگل ہو گئے ہو کیا تم لوگ ؟” اشعر حیرت سے چیخ پڑا تھا اور دوسرے ہی لمحے وہ تینوں اشعر کی ہوائیاں اڑتی شکل دیکھ کر قہقه لگا کر ہنس پڑے تھے ” اوے مذاق کر رہے تھے ہم ..تیری شکل دیکھ ہاہاہا ” “کمینو میری جان نکال دی تھی تم نے ” وہ بھی ہنس پڑا تھا “ویسے بھی کھلتی رنگت اور کھڑے نقوش والے اشعر کو ضرورت ہی نہیں تھی کی تیاری کی وہ ایسے ہی بہت ہینڈسم لگتا تھا ” اچھا اب مذاق ختم کرو اور نکلو یہاں سے تین تو تم لوگوں نے یہیں بجا دئے ” حارث ان لوگوں سے کہتا تیمور کے ساتھ پارکنگ کی جانب چلا گیا تو وہ تینوں بھی کھڑے ہو گئے ” بیچارہ تیمور ..کیسا مجنوں ہو گیا ہے اس چیشمش لیلیٰ کے پیچھے ” حیدر کے کہنے پر وہ دونوں ہنس پڑے تھے ” بیٹا جب تجھے محبت ہوگی نہ تب پتا چلے گا ” اشعر نے ہنستے ہوئے کہا تھا ” اللہ نہ کرے.. کے کبھی مجھے محبّت ہو ” وہ تینوں باتیں کرتے ہوئے باہر آ گئے تھے “ – – – – لو بھئی بنو رانی آ گیا تمہارا ڈریس ” مناہل لائبہ کے ہاتھوں پر مہندی لگا رہی تھی جبھی زر نور مسکراتے ہوئے ایک بڑا سا ڈبہ اٹھاۓ چلی آئ اس کے پیچھے ملاذمہ بھی تھی جس نے باقی سامان اٹھا رکھا تھا زرنور اور مناہل صبح سے ہی لائبہ کے گھر پر آئ ہوئی تھی لائبہ اکلوتی تھی جبھی ان دونوں نے سارا کام سمبھالا ہوا تھا “دکھاؤ زری ..کیسا ہے ڈریس “مناہل نے اشتیاق سے پوچھا زرنور نے ڈبہ بیڈ پر رکھ کر اس میں سے ڈریس نکال کر ان کے سامنے کیا تھا مہرون کلر کی نیچے تک آتی میکسی تھی جس کا فرنٹ پورا بھرا ہوا تھا اس کے گلے اور دامن پر نگینے لگے ہوئے تھے آستن پر بھی چھوٹے نگینو کا کام ہوا تھا دوپٹے کے چوڑے سے بارڈر پر بھی یہ ہی نگینے لگے تھے پوری میکسی اس طرح سے جگمگا رہی تھی جیسے اس میں ہیرے جڑے ہو ان تینوں نے ہی ستائش سے دیکھا تھا “کیا بات ہو اشعر کی پسند کی ” زر نور نے کہتے ہوئے احتیاط سے ڈریس کو الماری میں لٹکا دیا تھا “ویسے مجھے نہیں لگتا تھا کے اس کی اتنی اچھی پسند ہو سکتی ہے “مناہل نے ہنستے ہوئے کہا تھا اور پھر سے اس کے مہندی لگانے لگی “کیا یہ سب بھی اشعر کی پسند کا ہے ” زر نور نے لائبہ سے کہتے ہوئے بیڈ پر پڑے سامان کی طرف اشارہ کیا تھا جس میں ڈریس کے ساتھ کے میچنگ کی جیولری .سینڈل چوڑیاں وغیرہ تھی “نہیں یہ سب تو بھابی اور انٹی کی پسند کا ہے ” “جو بھی ہو ساری چیزیں ہی زبردست ہیں ” زر نور نے ستائش سے کہا تھا “چلو ببل ہو گئی تمہاری مہندی پوری اب یہاں آرام سے بیٹھی رہو ..ہلنا نہیں ” مناہل نے اسکی مہندی کو فائنل ٹچ دیتے ہوئے کہا تھا جو مہندی پوری ہوتے دیکھ کر اٹھنے لگی تھی “یار میں دو گھنٹو سے یہاں بیٹھی ہوں ..ذرا باہر کا کام دیکھ آؤ ” لائبہ دوبارہ اٹھنے لگی تھی لیکن مناہل نے اسے دوبارہ پکڑ کر بیٹھا دیا تھا “کوئی ضرورت نہیں ہے کام وام دیکھنے کی ..ہم دونوں ہے نہ ..تم بس آرام سے بیٹھو ” جبھی لائبہ کی امی ملاذمہ کے ساتھ کمرے میں آئ تھی جس کے ہاتھ ٹرے تھی “کب سے کام میں لگی ہو تم دونوں ..چلو اب کچھ کھا لو ” انہو ں مسکراتے ہوئے کہا پھر ملاذمہ کو اشارہ کیا جس نے ٹرے ٹیبل پر رکھ دی تھی ” سچ میں آنٹی چاۓ کی تو مجھے بے حد طلب ہو رہی تھی ” زر نور نے ہنستے ہوئے ٹرے میں سے چاۓ کا کپ اٹھایا تھا “مجھے پتا چل گیا تھا جبھی لے آئ .” وہ بھی مسکرا کر کہتے لائبہ کی مہندی دیکھنے لگی
– – – ایم امپریسڈ …ویری امپریسڈ ..تم نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے .تم جیسا انسان تو میں نے آج تک نہی دیکھا ..سچ میں کمال کے انسان ہو تم ” تیمور نے پیچھے سے آ کر ایک زور دار تھپڑ حیدر کے سر پر مارا تھا جو آدھے گھنٹے سے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا خود کی تعریفیں کئے جا رہا تھا ” تجھ جیسا خود پسند انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا ..شرم کر لڑکیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تونے تو ” ریاض نے بھی تاسف سے کہا تھا “یار میری گھڑی ڈھونڈ کر دے دو ..مل نہی رہی مجھے ” اشعر نے پریشانی سے کہا تھا وہ سب اس وقت اشعر کے گھر پر اس کے روم میں تیار ہو رہے تھے اور نفاست پسند اشعر کو اپنے کمرے کا حال دیکھ دیکھ کر غش آ رہے تھے ایک چیز بھی ٹھکانے پر نہیں تھی پورا کمرہ جنگ کے بعد کا منظر پیش کر رہا تھا “منگنی ہونے کی خوشی نے تو تجھے اندھا کر دیا اشعر ” حارث نے اس کو گھورتے ہوئے ڈریسنگ پر پڑی گھڑی اٹھا کر اس کے ہاتھ میں دی تھی “یار میں نے تو پانچ دفع دیکھا تھا ..مجھے کیوں نظر نہیں آئی ؟” اشعر نے نہ سمجھی سے کہا تھا “سہی کہ رہا ہے حارث صرف منگنی کی خوشی میں تو اندھا ہو گیا شادی میں تو پاگل ہی ہو جائے گا ” ریاض نے خود پر پرفیوم کا سپرے کرتے ہوئے کہا تھا “ایسی بھی بات نہیں اب ” وہ جھینپ گیا تھا “حد ہے لڑکوں ..تمہاری تیاری ختم نہیں ہوئی ابھی تک ؟” جبھی احمد نیوی بلو کلر کی شلوار قمیض پر بلیک کلر کی چادر گلے میں ڈالے داخل ہوا تھا اس کو اندر آتے دیکھ اشعر اس کے سامنے جا کھڑا ہوا تھا “احمد تو بتا ..ٹھیک تو لگ رہا ہوں نہ میں ؟” اشعر وائٹ شلوار قمیض پر مہرون کلر کی واسکٹ پہنے بہت پیارا لگ رہا تھا لیکن وہ اپنی تیاری سے مطمئن نہیں تھا “سچ میں اشعر تو شہزادہ لگ رہا ہے ” احمد نے ایک نظر اس کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا “چل تو کہتا ہے تو مان لیتا ہوں ” وہ بھی ہنس دیا تھا “جلدی کرو تم لوگ انکل غصّہ کر رہے ہیں ” احمد نے ان لوگوں کو دیکھتے ہوئے کہا تھا جن کی تیاری ہی ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھی ان سب نے شلوار قمییض پہنی ہوئی تھی ریاض نے براؤن کلر کی تیمور نے فیروزی حارث نے بلیک …ان تینوں نے احمد کی طرح ہی بلیک کلر کی چادر گلے میں ڈالی ہوئی تھی جس کا ایک سرا آگے لٹک رہا تھا اور ایک پیچھے ..یہ اشعر کا ہی آئیڈیا تھا ..حیدر کی لاکھ منت کرنے کے با وجود بھی وہ چادر کے لئے نہیں مانا تھا اس لئے اس نے اشعر کی طرح ہی وائٹ شلوار قمیض پر نیلے رنگ کی واسکٹ پہنی ہوئی تھی
– – – “زرنور اور مناہل اس وقت استقبالیہ پر کھڑی مہمانوں کو ریسیو کر رہی تھی ساری ارینجمنٹ لان میں کی گئی تھی ایک طرف اسٹیج بنایا گیا تھا اور مہمانوں کے لئے کرسیاں اور ٹیبلز لگائی گئی تھی ہر ٹیبل پر مختلف رنگوں کے تازہ پھولوں کا بوکے رکھا تھا ایک طرف ساؤنڈ سسٹم کا بھی انتظام تھا جس میں دھیمے سرو میں بجتے گانے ماحول پر ایک سحر سا طاری کر رہے تھے سارے لان کو برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا کافی عمدہ سجاوٹ کی گئی تھی زرنور اور مناہل نے ٹخنو تک آتے گھیر دار فراک پہن رکھے تھے زرنور کا کلر گلابی تھا اور مناہل کا ہرا لائٹ سے میک اپ میں ہلکی پھلکی جیولری پہنے وہ دونوں ہی بے حد پیاری لگ رہی تھی جبھی دو لینڈ کروزر اور ایک ہیوی بائیک آگے پیچھے آ کر رکی تھی ایک گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر احمد تھا اس کے ساتھ اشعر اور پیچھے کی سیٹو پر اشعر کی بھابی ..امی اور بہن بیٹھے تھے دوسری گاڑی کی ڈرا ئیونگ سیٹ پر حارث تھا اس کے ساتھ اشعر کے والد تھے اور پیچھے اشعر کا بھائی روحیل اور حیدر بیٹھے تھے اور ہیوی بائیک پر تیمور اور ریاض ہیلمٹ پہنے سوار تھے سارے راستے تیمور بائیک کو اڑاتے ہوئے لایا تھا زرنور .مناہل اور لائبہ کی کزنز نے پھولوں کی پتییاں نیچھاور کر کے اشعر کی فیملی کا استقبال کیا تھا ان کے اندر جانے کے بعد جب وہ سب بھی جانے لگے تو مناہل اور زرنور جلدی سے ان کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی ” کہاں چلے دولہے میاں؟ پہلے نیگ نکالو ” زرنور نے کہتے ہوئے اشعر کے سامنے ہتھیلی پھیلائی تھی ” تم دونوں یہاں بھی پہنچ گئیں ؟؟ کہا تھا نہ کے صرف جمرات کو آیا کرو ” حیدر نے ان کو تیز نظرو سے دیکھتے ہوئے کہا ” تم چپ کرو ..تم سے بات نہیں کی ہم نے جوکر ” مناہل نے اس کو گھورتے ہوئے کہا ” مجھے جوکر کہا ؟” حیدر نے مصنوئی حیرت سے کہا “دیکھ تیمور تیرے بھائی کو جوکر بول رہی ہیں یہ دونوں ” دوسرے ہی لمحے اس نے تیمور کا بازو جھنجوڑتے ہوئے کہا تھا “ایک جوکر دوسرے کو جوکر بول رہا ہے ..ہاہاہا “تیمور نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا تھا ” یار منگنی پر کون سا نیگ ہوتا ہے ؟جب برات لے کر آئیں گے تب مانگنا ..ابھی تو جانے دو ” ” جی نہیں …جب تک نیگ نہیں دو گے ہم نہیں جانے دیں گے ” حارث کے کہنے پر مناہل جلدی سے بولی تھی “کوئی مسلہ نہیں ہے ..کرسیاں لگوا دو ہمارے لئے ہم یہیں بیٹھ جائیں گے ” ریاض نے بے نیازی سے کہا تھا “اس کے لئے آدھا نیگ دینا پڑے گا ” زرنور نے بھی اسی کے انداز میں کہا تھا “اچھا بتاؤ ..کتنے پیسے چاہیے ؟” اشعر نے کہتے ہوئے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تھا جبھی حیدر چیخا تھا ” اوے ..باہر نکال ہاتھ ..تو کیا ان کی دھمکیوں میں آ رہا ہے ..کوئی ضرورت نہیں ہے ان کو پیسے دینے کی ” “تم پھر بیچ میں بولے ” زرنور نے حیدر کو گھورا تھا ” دیکھو اشعر جب تک تم دس ہزار ہمارے ہاتھ پر نہیں رکھو گے ہم تمیں یہیں کھڑا رکھیں گے ” مناہل نے حتمی انداز میں کہا تھا اشعر کے ساتھ ان سب کی آنکھیں بھی حیرت سے کھلی تھی ” تم دونو کو پتا بھی ہے کے دس ہزار میں کتنے زیرو آتے ہیں ؟ صرف ایک انگوٹھی پہنانے کے اتنے پیسے ؟ چل اشعر گھر چل …کل یونی میں پہنا دینا انگوٹھی ہم وہیں تیرے لئے تالیاں بجا دیں گے ..تیرے پیسے تو بج جاۓ گے نہ ” حارث نے ان دونوں کو گھورتے ہوئے کہا تھا ” اشعر تم پیسے دے رہے ہو یا نہیں ؟” زرنور نے ان سب کو نظر انداز کرتے اشعر کو دیکھتے ہوئے کہا تھا “