“اے لڑکی …یہ کیا تمہیں اے ٹی ایم مشین نظر آ رہا ؟ کے جتنے پیسے تم بولو گی یہ نکال کر تمہارے ہاتھ پر رکھ دے گا ؟” حیدر پھر بیچ میں بولا تھا ” میں اتنے پیسے نہیں دے سکتا کچھ تو کم کرو ” اشعر نے ان دونو کو دیکھتے ہوئے کہا تھا جو ایک روپیہ بھی کم کرنے کو تیار نہیں تھی “ٹھیک ہے تم سات ہزار دے دو ” مناہل نے بے نیازی سے کہا تھا ” یار میں اتنے پیسے جیب میں لے کر نہیں گھومتا ..اگر ایسا کچھ سین تھا تو تم دونو مجھے پہلے بتا دیتی میں لے کر آ جاتا ” اشعر نے بے چارگی سے کہا تھا جبھی احمد بیچ میں آیا تھا ” کیوں فضول بحث میں ٹائم زاءیع کر رہے ہو تم لوگ ؟ ابھی رسم بھی کرنی ہے سب ویٹ کر رہے ہیں ..زر نور ..مناہل .پانچ ہزار لے لو ..کافی ہیں یہ ..منظور ہے ؟؟” ” نہیں منظور …سات ہزار ہی چاہیے ” زرنور نے لٹھ مار انداز میں کہا تھا ریسٹورانٹ والی بات بھولی نہیں تھی اسے حلانکے اتنی بڑی بات نہیں تھی جس کو وہ دل سے لگا کر بیٹھی تھی لیکن جس سے محبت ہو اس کی تو چھوٹی سے چھوٹی بات بھی اتنی بڑی لگتی ہے اور پھر وہ تو عشق کرتی تھی “اشعر کتنے ہیں تیرے پاس ؟؟” احمد اشعر کی جانب پلٹ کر بولا تھا “میرے پاس تو تین ہزار ہی ہیں ” “ٹھیک ہے نکال ” اشعر نے تین ہزار نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دئے تھے باقی کے چار ہزار احمد نے اپنی جیب سے نکال کر زرنور کے سامنے کئے تھے ” یہ لو …اب تو ہو گیا نہ تمہارا ٹیکس پورا ؟” زرنور نے ایک نظر احمد کے ہاتھ میں پکڑے پیسوں کو دیکھا پھر اس کو ” تمہارے پیسے نہیں چاہیے ” وہ کہ کر ان کا راستہ چھوڑ کر سائیڈ پر کھڑی ہو گئی تھی “بہت شکریہ …اب تم لوگ اندر آ سکتے ہو ” مناہل نے جلدی سے احمد کے ہاتھ سے پیسے پکڑے تھے ” ایسے نہیں آئیں گے ہم اندر …پہلے پھول پھینکو پھول …”حارث نے اس کو دیکھتے ہوئے کہا تھا “پھول ختم ہو گئے ہیں بندر ایسے ہی آ جاؤ ” مناہل نے بے نیازی سے کہا تھا “ہاہاہا …دیکھ حارث تجھے بندر بول رہی ہے …ہاہا ” حیدر اور ریاض ہاتھ پر ہاتھ مار کر قہقه لگا کر ہنس پڑے تھے “مناہل کی بچی .تمہیں تو میں بعد میں دیکھوں گا ” حارث اسے انکھوں ہی آنکھوں دھمکاتے ہوئے بولا تھا جو اس کو منہ چڑا کر زرنور کے ساتھ اندر چلی گئی تھی “ہاہاہا حارث تیری تو کوئی عزت ہی نہیں ہے ” وہ تینوں ہنسے جا رہے تھے ” احمد یہ تم لوگ مجھے اتنی آہستہ آہستہ سے کیوں لے کر جا رہے ہو ؟ کیا ہم تھوڑا سا جلدی نہیں چل سکتے؟ ” اشعر نے اپنے ساتھ چلتے احمد کے پاس جھک کر بظاھر مسکرا کر لیکن دانت پیستے ہوئے کہا تھا کیوں کے ان کے سامنے مووی مین اور فوٹو گرافر تھے ” صبر کر بچے اتنی بھی کیا جلدی ہے موت کے منہ میں جانے کی ” احمد نے مسکراتے ہوئے کہا تھا “
– – – “ماشااللہ …ببل کیا لگ رہی ہو تم ” زرنور نے لائبہ کے گال چومتے ہوئے کہا تھا جو مہرون میکسی میں مناسب سے میک اپ اور میچنگ جیولری کے ساتھ کوئی پری ہی لگ رہی تھی وہ دونوں اسے لینے آئی تھی “مناہل نے اس کے دونوں ہاتھو میں گلاب اور موتئے کے گجرے پہنا دئے تھے “چلیں ؟ اشعر صاحب سے ویٹ نہیں ہو رہا بے چین ہو رہے ہیں تمہیں دیکھنے کے لئے ” زرنور کے شرارت سے کہنے پر اس کے گال سرخ ہو گئے تھے “میں ٹھیک تو لگ رہی ہو نہ ؟” لائبہ نے آئنہ میں خود کا عکس دیکھتے ہوئے کہا “ارے میری شہزادی بہت پیاری لگ رہی ہو تم ” وہ دونوں اسے تھام کر لان میں لے آئ تھی اسٹیج تک جاتا ریڈ قالین پھولو سے بھرا ہوا تھا وہ پھولوں کے روش پر چلتی اسٹیج تک جا رہی تھی جہاں حیدر .تیمور اور ریاض کی سیلفیاں ہی ختم نہیں ہو رہی تھی “کمینو ..دفع ہو جاؤ ” اشعر دبی آواز میں ان کو اتنی بار کہ چکا تھا لیکن وہ لوگ نیچے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ” اوے …تو کہا جا رہا ہے ؟؟” حارث نے اشعر کو اٹھتے دیکھ کر کہا تھا ” لینے جا رہا ہو نہ لائبہ کو ” اس نے سامنے آتی ان تینوں کو دیکھ کر کہا تھا جن میں سے ایک پری لگ رہی تھی تو دونوں شہزادیاں ..”چپ کر کے بیٹھا رے ..ابھی وہ لوگ آدھے راستے میں بھی نہیں پہنچی ” حارث نے اس کا بازو پکڑ کر دوبارہ بٹھایا تھا ” اشعر کے برابر میں بیٹھے احمد کی نظر نیچے ایک ٹیبل کر گرد چیئر پر بیٹھی ایک لڑکی پر پڑی تھی جو دونوں ہاتھ سینے پر باندھے مسکرا کر اسے ہی دیکھ رہی تھی احمد کی آنکھوں میں شناسائی کی رمق ابھری تھی “اب تو کہا چلا ؟” حارث نے اہمد کو اٹھتے دیکھ کر پوچھا تھا ” آتا ہوں ” وہ مسکرا کر کہتا اسٹیج سے اتر کر اس لڑکی کی جانب بڑھ گیا تھا ” ان کے اسٹیج تک آتے ہی اشعر اپنی جگہ سے اٹھ کر آیا تھا اور لائبہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اوپر آنے میں مدد دی تھی وہاں موجود سب نے ہی ستائش سے ان کو دیکھا تھا جو ایک ساتھ بیٹھے بے حد پیارے لگ رہے تھے اشعر کے برابر میں بیٹھی اس کی امی نے کیس میں سے رنگ نکال کر اشعر کو پکڑائی تھی جس نے لائبہ کا نازک سا ہاتھ پکڑ کر انگوٹھی پہنا کر اسے اپنے نام کیا تھا پھر لائبہ نے بھی اسے رنگ پہنائی تھی سب تالیاں بجا رہے تھے اشعر کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا جبھی ریڈ وردی میں ملبوس ویٹرز نے بوفے اسٹینڈ پر کھانا لا کر رکھنا شروع کر دیا تھا حیدر کی آنکھیں چمک اٹھی تھی اس نے اپنی آستینوں کو فولڈ کرنا شروع کر دیا تھا ریاض کی نظر پڑ گئی تھی اس پر ” یہ کیا کر رہا ہے ؟” اس کا اشارہ استین فولڈ کرنے پر تھا ” تیاری ” اس نے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا تھا ” انسان بن ..سسرال ہے اشعر کا .یہاں ہم اپنی اصلیت نہیں دکھا سکتے “ریاض نے افسوس سے کہا تھا حیدر نے منہ بسورتے ہوئے آستین دوبارہ نیچے کر لی تھی “تو کسے ڈھونڈ رہا ہے ؟” حارث نے تیمور کو دیکھتے ہوئے کہا تھا جو پورے لان میں گردن گھما گھما کر دیکھ رہا تھا وہ سب اسٹیج سے اتر آئیں تھے اور اب ایک ٹیبل کے گرد کرسیوں پر بیٹھے تھے “میں اس لڑکی کو ڈھونڈ رہا ہوں ..کیا پتا دکھ جائے ” “کون سی لڑکی ؟” ریاض نے نہ سمجھی سے پوچھا تھا ” وہی ..یونی والی ” “اچھا ..اچھا وہ چیشمش ..مم میرا مطلب تھا کے بھابی ..ہاں بھابی ” حیدر نے گڑبڑا کر کہا تھا “ابے تو واقعی سیرئیس ہے ؟” ریاض نے حیرت سے کہا “تمہیں کیا لگتا ہے کیا میں اب تک مذاق کر رہا تھا ؟” تیمور نے ناراضگی سے کہا تھا “ایسے تو ..تو اسے ڈھونڈتا ہی رہ جائے گا ..میری بات مان تو احمد نے بلکل ٹھیک مشورہ دیا تھا تجھے ” حارث نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا تھا “اس کی بات بھی سن لو ذرا ..میں نے تو صرف اس سے مشورہ ہی مانگا تھا اس بھائی نے تو پورا دو گھنٹے کا لیکچر مجھے دے دیا ..کےکوئی ضرورت نہیں ہے کسی فضول جہنجھٹ میں پڑنے کی اگر لڑکی پسند ہے تو اس کے گھر جا..بات کر شادی کی ..اگر مان گئے تو ٹھیک ورنہ اس کا پیچھا چھوڑ دے …اور اب اسے خود کو ہی دیکھ لو اتنی دیر سے اس لڑکی کے سات کیسے ہنس ہنس کر باتیں کئے جا رہا ہے “تیمور نے منہ پھلا کر کہتے آخر میں لائٹو سے سجے درخت کے پاس کھڑے احمد کو دیکھتے ہوئے کہا تھا “ویسے میں نے بھی پہلی دفعہ احمد کو کسی لڑکی کے ساتھ اتنا فرینک ہوتے دیکھا ہے ..کیا چکر ہے حارث ؟” ریاض نے بھی حیرت سے کہا تھا “غلط سمجھ رہے ہو تم لوگ ان کا ریلیشن بکل بھی ایسا نہیں جیسا تم سوچ رہے ہو …ایکچلی کافی ٹائم بعد ملے ہیں نہ تو بس اسی لئے ” حارث نے ہنستے ہوئے کہا تھا اور تھوڑی دور کھڑی مناہل سے بات کرتی زرنور کی نظر بھی احمد کے ساتھ کھڑی اس لڑکی پر پڑی تھی جس نے کالے رنگ کے گھٹنے تک آتے کم گھیر والے سیلولیس فراک پر تنگ سا پاجامہ پہنا ہوا تھا گوری رنگت نیلی آنکھوں اور تیکھے نقوش والی وہ لڑکی بلا شبہ بے حد حسین تھی ” اوہ.. تو یہ سٹون مین بھی ایک عدد گرل فرینڈ رکھتا ہے ” زرنور نے تہیر سے کہا تھا اسے بلکل بھی اچھا نہ لگ رہا تھا احمد کا اس لڑکی سے ہنس ہنس کر باتیں کرنا “ویسے مجھے بھی حیرت ہے کے احمد تو اتنا الرجک ہے لڑکیوں سے پھر اس کے ساتھ اتنی فرینکنس سمجھ نہیں آ رہی …خیر چھوڑو ..آؤ ہم کچھ کھا لیتے ہیں مجھے تو بہت بھوک لگ رہی ہے “مناہل اسے لئے بوفے اسٹینڈ کی جانب بڑھ گئی تھی
– – – “پسند آ گیا تھا تمہیں ڈریس ؟؟” اسٹیج پر اب صرف وہ دونوں ہی بیٹھے تھے جبھی اشعر نے مسکرا کر لائبہ سے پوچھا تھا اور اس سے پہلے کے وہ کوئی جواب دیتی اسٹیج پر آتا حیدر بول اٹھا تھا “ہاں بھئی ..کیا باتیں ہو رہی ہیں ؟؟” وہ سب آرام سے کھا پی کر اب آۓ تھے .”تم لوگوں کو کس نے بلایا ہے ؟” اشعر نے دانت پیستے ہوئے کہا تھا ” ہم کسی کی دعوت کا انتظار نہیں کرتے ..خود ہی پہنچ جاتے ہیں ” ریاض نے بے نیازی سے کہا تھا ” چل اوے ..کھڑا ہو ” ” کیوں بھائی .؟؟..میں دولہا ہوں ” اشعر نے حیرت سے حارث کو دیکھتے ہوئے کہا تھا “تیرے دولہا بننے میں ابھی کافی ٹائم ہے فلحال تو …تو اٹھ یہاں سے ہم نے سیلفی لینی ہے ” “ہاں تو لے لو سیلفی میں نے منع تھوڑی کیا ہے ” اشعر نے اپنے سامنے کھڑے ان سب کو دیکھتے ہوئے کہا تھا جو اسے اٹھانے پر بضد تھے “تیرے ساتھ نہیں لینی …بھابھی کے ساتھ لینی ہے ..تو اٹھ یہاں سے ” “اگر اپ سب کو کوئی جلدی نہیں تو کیا پہلے میں سیلفی لے سکتی ہوں ” ان سب نے ہی چونک کر اس کالے لباس والی لڑکی کو دیکھا تھا جو کچھ دیر پہلے احمد کے ساتھ کھڑی تھی ” واۓ نوٹ .مایا ..پلیز کم ” حارث نے مسکرا کر کہا تھا ” تھنکس حارث …لائبہ میرا تعارف نہیں کرواؤگی اشعر سے ؟ ” اس نے حارث سے کہنے کے بعد لائبہ کو دیکھا تھا “اشعر ..یہ مایا ہے میری کزن .کل ہی پیرس سے آئی ہے ” لائبہ نے مسکرا کے دھیمی آواز میں اشعر سے کہا تھا “آپ سے مل کر خوشی ہوئی …مایا ” اشعر نے ایک رسمی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر کہا تھا “مجھے بھی …یہ کون ہے حارث ؟” اس نے تیمور حیدر اور ریاض کی طرف اشارہ کر کے پوچھا تھا ” یہ میرے دوست کم بھائی زیادہ ہیں ..یہ حیدر ..یہ میرا گردہ ہے ..یہ تیمور میرا پھیپھڑا ہے اور یہ ریاض میرا جگر ہے ” حارث نے ہنستے ہوئےسب کا تعارف کروایا تھا ” اورتمہارا دل یقیناً احمد ہوگا ..ہے نہ ؟؟” اس نے مسکرا کر پوچھا تھا “ہاہا ..نہیں وہ تو میری جان ہے ..دل تو میرا کوئی اور ہے ” اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا “خیر ..بہت اچھا لگا آپ سب سے مل کر ” اس نے مسکراتے ہوئے ہاتھ ملانے کے لئے اپنا سفید نیل پالش اور بریسلیٹ سے سجا ہاتھ حیدر کے سامنے کیا تھا جسے وہ بے یقینی سے دیکھ رہا تھا “کیا واقعی ؟؟یہ مجھ سے ہاتھ ملا رہی ہے ؟؟ مجھ سے ؟؟” ریاض نے و کو ٹہکا دیا تھا جس نے دوبارہ ہوش میں آ کر اس کا ہاتھ تھاما تھا “مجھے بھی اپ سے مل کر بے حد خوشی ہوئی مس مایا ” حیدر کی بانچھیں کان تک پھیل گئی تھی “آپ مجھے صرف مایا کہ سکتے ہیں “اس نے ایک ادا سے کہا تھا ” اوکے صرف مایا ” “ہاہا ناٹی ..”اب وہ ریاض اور تیمور سے ہاتھ ملا رہی تھی
– – خیالوں میں دیکھو میری جو ہے بس گیا وہ ہے تم سے ملتا ہو بہو جانے تیری آنکھیں تھی یا باتیں تھی وجہ ہوئے تم جو دل کی آرزو تم اس ہو کے بھی …تم پاس ہو کے بھی احساس ہو کے بھی ….اپنے نہیں ایسے ہیں …ہم کو گلے …. تم سے نجانے کیوں کیسے بتاۓ …کیوں تجھ کو چاہیں .. یارا بتا نہ پاۓ وہ سوفٹ ڈرنک کا گلاس ہاتھ میں پکڑے پوری اس گانے کے بولو میں کھوئی ہوئی تھی اسے رہ رہ کر احمد کا اس لڑکی کے ساتھ باتیں کرنا یاد آ رہا تھا اور اسے احساس ہی نہیں ہوا کے کب احمد اس کے برابر والی چیئر پر آ کے بیٹھا تھا “زرنور ” احمد نے آہستہ سے اس کے قریب جھک کر اسے اپنی جانب متواجہ کیا تھا اس نے چونک کر احمد کو دیکھا تھا جو مسکراتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہا تھا زر نور کا دل کر رہا تھا کے وہ اس کے گال پر پڑتے ڈمپل کو چھو کر دیکھے “کہاں کھوئی ہوئی ہو ؟” احمد نے اس کی چمکتی گرین آنکھو کو دیکھا تھا “ک کہیں نہیں .تم کب آ ۓ ؟” اس نے خود کو سمبھالتے ہوئے کہا تھا احمد کی نظریں اسے کنفیوژ کر دیتی تھی ” میں تو کافی دیر سے یہاں بیٹھا ہوں تم نے نوٹس ہی نہیں کیا ” ” مجھے پتا ہی نہیں چلا ” اس نے گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا تھا جو وہ کافی دیر سے پکڑی ہوئی تھی لیکن زرنور کو یہ بھی نہیں پتا تھا کے احمد غلط بیانی سے کام لے رہا ہے کیوں کے وہ صرف پانچ منٹ پہلے ہی وہاں آ کر بیٹھا تھا “تم ناراض ہو کیا مجھ سے ؟” زر نور کو توقع نہیں تھی کے وہ اس طرح سے اس سے پوچھ لے گا جبھی گڑ بڑا کر بولی تھی “نن نہیں تو ..تمہیں ایسا کیوں لگا ؟؟” “مجھے تمہارے بی ہیوئیر سے ایسا لگا…تمہیں کوئی بات بری لگی ہے کیا میری ؟” احمد نے اس کے گلابی چہرے کو اپنی نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے پوچھا تھا اور ابھی وہ کچھ کہنے ہی لگی تھی کے مایا ان کے پاس چلی آئ “اوکے احمد …میں چلتی ہوں اب ” اس نے صرف احمد کو مخاطب کر کے کہا تھا “اتنی جلدی جا رہی ہو ؟” ” ہاں بس کافی ٹائم ہو گیا ہے میں چلو گی اب ” ” چلو میں ڈراپ کر دیتا ہوں تمہیں ” احمد نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا ” ارے نہیں میں چلی جاؤنگی ..تم انجوے کرو اپنے فرینڈز کے ساتھ ” اس نے مسکرا کر کہا تھا ” کوئی مسلہ نہیں ہے میں ڈراپ کر دو گا تمہیں ..چلو “…ایکسکیوز می نور .پھر بات ہوگی “اس نے مایا سے کہنے کے بعد زر نور سے کہا تھا جس نے چہرے پر جبری مسکراہٹ سجا کر سر اثبات میں ہلایا تھا زرنور کو بلکل بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا احمد.. اتنا عجیب پر اسرار سا کبھی اتنا فرینڈلی ..اور کبھی ایسے کے جیسے جانتا ہی نہیں تھوڑی دیر پہلے جو احمد اسے اچھا لگ رہا تھا اب وہی احمد مایا کے ساتھ جاتا ہوا بہت برا لگ رہا تھا وہ پرسوچ انداز میں ان دونوں کو پورچ تک جاتا دیکھ رہی تھی “
– – – “مناہل ” وہ کافی دیر سے زر نور کو دیکھ رہی تھی جو نجانے کس سوچ میں گم تھی پھر احمد کو دیکھ کر اس کی چمکتی آنکھوں نے اسے حیران کیا تھا پھر مایا کا وہاں آنا اور احمد کا اس کے ساتھ جانا اور زرنور کا پھر سے اداس ہو جانا وہ سب نوٹس کر رہی تھی وہ زرنور کے پاس جانے کا سوچ ہی رہی تھی کے جبھی حارث کے پکارنے پر چونک کر پلٹی تھی جو دونوں ہاتھو کو پشت پر باندھے نیچلا لب دانتوں تلے دباۓ مسکراہٹ دبانے کی کوشش کر رہا تھا “کیا ؟” اس نے سوالیہ نظرو سے حارث کو دیکھا تھا اس نے اپنے ہاتھ کی بند مٹھی اس کے سامنے کی تھی “ذرا بتاؤ تو اس میں کیا ہے “وہ شرارت سے پوچھ رہا تھا ” دیکھو میرے سات کوئی گیم کھیلنے کی ضرورت نہیں ہے ” مناہل نے اسے وارن کرتے ہوئے کہا تھا ” قسم سے کوئی مذاق نہیں ہے ..دیکھو تو سہی اس میں کیا ہے ” وہ مشکوک نظرو سے اسے دیکھتی تھوڑا سا جھکی تھی تاکے اس کی مٹھی کو دیکھ سکے لیکن جیسے ہی اس نے سر جھکایا حارث نے فوراً سے اپنی مٹھی میں بند بہت سی گلاب کی پتیاں اس کے چہرے پر پھینکی تھی “اہ ” وہ بوکھلا کر پیچھے ہوئی تھی “یہ کیا حرکت ہے حارث ” وہ خفا ہوئی تھی ” یہ بدلہ ہے اس کا جو تم نے مجھے بندر کہا تھا ” حارث نے ہنستے ہوئے خود کو گھورتی مناہل پر اپنے دوسرے ہاتھ میں موجود پھولوں کو بھی اس کے چہرے پر پھینکا تھا ” تم سچ میں بندر ہو حارث ” وہ ناراضگی سے کہتی اپنے بالوں میں اٹکی پتیاں نکال رہی تھی “ہاہ ….پھر سے بندر بولا مجھے ؟؟” حارث نے مصنوئی حیرت سے کہا تھا “یہ لے حارث ” حیدر نے دانت نکالتے ہوئے ایک پھولوں سے بھری پلیٹ حارث کو پکڑائی تھی وہ پلیٹ ہاتھ میں پکڑے مسکرا کر ابرو اچکا اچکا کر مناہل کو دیکھ رہا تھا جیسے پوچھ رہا ہو ” پھینکو؟؟ ..ہاں پھینکو ..پھول ؟؟” “حارث یہ نہیں کرنا ” مناہل نے اسے گھور تے ہوئے وارن کیا تھا “اوکے ..اوکے .. نہیں پھینک رہا ….دیکھو میں نے پیچھے کر لی پلیٹ ” حارث نے مسکراتے ہوئے پلیٹ اپنے پیچھے کر لی تھی “اچھا مناہل …بات تو سنو ” وہ جانے لگی تھی جبھی حارث نے اسے روکا تھا وہ اس کو دیکھ رہی تھی جس نے جلدی سے پلیٹ اپنے سامنے لا کر مناہل کے چہرے پر پھینکی تھی “بھاگ .حیدر ” اور ہنستے ہوئے حیدر کے ساتھ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا تھا “اف ..بدتمیز ….” وہ پہلے تلملائی تھی پھر خود بھی ہنس پڑی تھی
– – – “یار یہ منگنی کا فنکشن کتنا بورنگ ہوتا ہے .ایک تو یہ ڈی جے گانے بھی ایسے لگا رہا ہے جیسے ..خود تو یہ یہاں آ گیا اور اس کی ہیروئن پچھلی صدی میں ہی رہ گئی …اب کچھ بول بھی نہیں سکتے کے اپنا علاقہ نہیں ہے ” ریاض نے منہ بنا کر کہا تھا ” جا .حیدر تو ہی کوئی ڈانس وانس دکھا دے ..قسم سے اب تو مجھے بھی بوریت کے دورے پڑنے لگے ہیں ” حارث نے منہ پر ہاتھ کر جمائی روکتے ہوئے کہا تھا “او بھائی ..آرام دے لے اپنی گردن کو ..جس حساب سے تو اس کو گھماۓ جا رہا ہے نہ .دو منٹ بعد یہ نیچے گری ہوئی ہوگی “ریاض نے تیمور کو دیکھتے ہوئے کہا تھا جس کو ابھی بھی لگ رہا تھا کے انوشے کہیں نہ کہیں سے نکل کر اس کے سامنے آ کر کھڑی ہو جاےگی “ارے نہیں ریاض ..پھر تو یہ آئیڈیل کپل بن جائیں گے ..ایک کی تو چار چار آنکھیں اور ایک کا سر ہی نہیں ہاہا ” حیدر نے قہقه لگاتے ہوئے کہا تھا ” تم لوگوں کو مسلہ کیا ہے اسک کے چشمے سے ؟ کیا انسان چشمہ نہیں لگاتے ؟” تیمور نے حیدر کو گھورتے ہوئے پوچھا تھا ” نہیں ..نہیں ..لگاتے ہیں بلکل لگاتے ہیں …بلکے انسان ہی تو چشمہ لگاتے ہیں ..ورنہ چڑیلیں تو صرف سیلفیاں لیتی ہیں ” ریاض نے ہنستے ہوئے اسٹیج کی طرف دیکھ کر کہا تھا جہاں مناہل اور زرنور لائبہ کے ساتھ سیلفی لے رہی تھی “دیکھ حارث مناہل کو چڑیل بول رہا ہے یہ ” حیدر نے فورآ اس کی جانب توجہ دلائی تھی “یار اس میں میرا کیا قصور ہے کے ان کو دیکھنے کے بعد میرے ذہن میں ان کے نام سے پہلے لفظ چڑیل آتا ہے ” ریاض نے معصومیت سے کہا تھا “بیٹا اگر ان کو پتا چل گیا نہ کے تم سب ک ان کو پیٹھ پیچھے کیا کیا بولتے ہو ……آخری دن ہوگا تمہارا اس دنیا میں “حارث نے ہنستے ہوئے کہا تھا “ہاہاہا ..پتا ہے جبھی تو پیٹھ پیچھے بولتے ہیں ..اور صاف بات ہو بھئی ان کے منہ پر ان کو چڑیل بولنے کی ہمّت ..مجھ میں تو نہیں ہے ” تیمور نے ہنستے ہوئے کہا تھا “مناہل اور لائبہ کا تو ٹھیک ہے ..آسان موت ماریں گی ..لیکن یہ نور بانو …دس دفہ بلڈنگ سے پھینکے گی دس دفہ مارے گی ..اور پھر بھی دل نہ بھرا تو سمندر میں دھکا دے دیگی ..یا پھنکے سے لٹکا دیگی ..میں تو دعا کرتا ہوں کے کسی ٹرک کے نیچے آ کر مر جاؤ …بس نور بانو کے ہاتھ موت نہ آے میری ” حیدر ہنستے ہوئے کہے جا رہا تھا اس کی ہنسی کو بریک تیمور کی آواز نے لگائی تھی ” ارے زرنور تم کھڑی کیوں ہو ؟ آؤ ..آؤ بیٹھو نہ ” تیمور اپنے سامنے بیٹھے حیدر کے سر کے اوپر دیکھتے ہوئے بولا جیسے زرنور حیدر کے پیچھے ہی تو کھڑی ہو حیدر کو سانپ سونگھ گیا تھا وہ اسٹیچو بن گیا تھا “زرنور بیٹھو نہ یہاں …” ” آؤ …آؤ زرنور بیٹھو نہ ” ریاض اور حارث بھی بولے جا رہے تھے “بیٹا حیدر تو ..تو گیا کام سے ” جل تو .جلال تو کا ورد کرتے اس نے ڈرتے ڈرتے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا ” لیکن یہ کیا ؟زرنور تو کہیں نہیں تھی اس نے اسٹیج پی دیکھا تو وہ مناہل کے ساتھ وہیں بیٹھی تھی “بچ گیا میں ” اس نے اطمینان بھری سانس خارج کی تھی اور دوسرے ہی لمحے وہ تیزی سے ان کی جانب پلٹا تھا “کمینو …ابھی ہارٹ فیل ہو جاتا میرا ” وہ غصّے سے ان کو گھورتے ہوئے بولا جو اس پر ہنسے جا رہے