“اوے ..مبارک باد دو اپنے بھائی کو ..نوکری مل گئی مجھے ” حارث .حیدر .تیمور اور اشعر گراؤنڈ میں سیڑیھوں پر بیٹھے تھے جبھی ریاض آ کر جوش سے بولا “ابے ..تجھے کس پاگل نے نوکری دے دی ؟” تیمور حیرت سے بولا تھا “ایک نیوز چینل کے پریڈیوسر نے آفر کی ہے “وہ مسکرایا تھا “نیوز چینل پر ؟؟ کام کیا ہے ؟” اشعر نے پوچھا تھا ” بھوت ڈھونڈنے کا ” وہ ہنستے ہوئے بولا تھا “ہیں ؟؟؟ بھوت ڈھونڈنے کا ؟؟” وہ سب نہ سمجھی سے اسے دیکھ رہے تھے ” اوہو..تم لوگوں نے “وہ کیا ہے ” تو دیکھا ہوگا نہ ؟؟ یہ بھی اسی طرح کا پروگرام ہے ” کوئی تو ہے ” یہ پہلے دو لڑکے وقاص اور رمیز کررہے تھے پھر انہوں نے چھوڑ دیا .مجھے رمیز کے بھائی نے بتایا تھا میں نے اپلاۓ کیا تھا تو کل ہی کال آ گئی “ریاض خوشی سے بولا تھا “تم میں سے کوئی چلے گا؟؟” او ..رضو ..کوئی چلے نہ چلے ..مجھے تو ضرور لے کر جانا یار مجھے بڑا شوق ہے بھوتوں سے باتیں کرنے کا “حیدر اشتیاق سے بولا تھا “ٹھیک ہے آج شام کو ہی جانا ہے ..تو چل لینا میرے ساتھ ..تم تینوں چلو گے ؟” ریاض نے حیدر سے کہنے کے بعد ان تینوں سے بھی پوچھا تھا تیمور تو سامنے دیکھ رہا تھا جہاں انوشے اسی دن والی لڑکی کے ساتھ کھڑی کوئی بات کر رہی تھی اور وہ اتنی مہویت سے اسے دیکھ رہا تھا کے اس نے ریاض کی بات ہی نہیں سنی “مجھے تو کوئی شوق نہیں بھوت ڈھونڈنے کا ” ” اور میرے پاس بھوتوں سے بات کرنے کے علاوہ اور بھی بہت سے ضروری کام ہیں ” اشعر اور حارث دونوں ہی نے منع کردیا تھا “اوۓ واپس آجا یار ..چلی گئی وہ “حیدر نے تیمور کے سامنے ہاتھ ہلا کر کہا تھا تیمور نے چونک کر حیدر کو دیکھا اور پھر دوبارہ سامنے واقعی وہ وہاں سے جا چکی تھی ” ہاں …ریاض کیا کہ رہا تھا تو ؟” تیمور نے گہری سانس لے کر ریاض سے پوچھا تھا ” کچھ نہیں بھائی پہلے تو جا کر کسی بابا وابا سے دم درود کروا جھاڑو پھروا کر تو پہلے اپنا بھوت اتر وا ” ریاض نے حارث کے ہاتھ سے پیپسی پکڑتے ہنستے ہوئے کہا تھا “تونے کیا ایگریمنٹ سائن بھی کر لیا ” اشعر نے اس سے پوچھا تھا جو حیدر کے ساتھ ہی بیٹھ چکا تھا “نہیں ابھی تو ٹرائل پر رکھا ہے ..ایک دو پروگرامز تو ایسے ہی ہونگے اگر ٹھیک کر لئے تو پھر اگریمنٹ سائن ہوگا ” اس نے پیپسی کا گھونٹ بھرتے ہوۓ کہا تھا “یہ بھی ٹھیک ہے ….تو کتنے لوگ جا سکتے ہیں ؟؟” ” یار میں نے تو پوچھا تھا کے میرے دو چار دوست بھی ہیں ..ان کو بھی لے آؤں کیا ؟ تو کہا کے ” ہاں ہاں سب کو لے آو ..جس نے اچھا کیا اسی کو رکھ لینگے ” ہاہا ..بیٹا پھر تو کہیں اور ٹرائی کر کیوں کے یہ کام تو صرف حیدر ہی اچھے سے کر سکتا ہے “تیمور نے ہنستے ہوئے کہا تھا ” کہ تو ٹھیک رہا ہے تو ” وہ بھی ہنسا تھا “تو پھر ڈن ہے ..تیمور اور حیدر تم دونوں چلو گے نہ ؟؟” اس نے ان دونوں سے پوچھا تھا ” ہاں ہمارا تو پکا ہے ” دونوں ہی نے حامی بھر لی تھی جبھی حیدر کی نظر سامنے سے آتی زر نور اور مناہل پر پڑی تھی زرنور فائل سینے سے لگاۓ مناہل سے زور زور سے کوئی بات کر رہی تھی پیچھے اس کا بڑا سا دوپٹہ پوری یونی کی جھاڑو دیتا ہوا آرہا تھا جب وہ دونوں ان کے پاس آ ئی تو حیدر جلدی سے اٹھ کر زرنور کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا اور اس کے نیچے لٹکتے دوپٹے کو اٹھا کر پہلے جھاڑا اور پھر اسے زرنور کے ہاتھ میں دے دیا ” پاکستان کی حفاظت ہمارا مقصد…… اور ہمارا ……منشور ہے قائد اعظم سے وعدہ کیا تھا کے زندگی کی آخری سانس تک پاکستان کی حفاظت کریں گے …پاکستان زندہ باد “حیدر آنکھوں میں شرارت لئے ایک ہاتھ سینے پر رکھے سنجیدگی سے اس کو بولتا آخر میں نعرہ لگا کر سیلوٹ کرتا دوبارہ اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا تھا اور زرنور حیرت سے اپنے ہاتھ میں پکڑے دوپٹے کو دیکھ رہی تھی دوسرے ہی لمحے اس نے اپنے سر پر ہاتھ مارا تھا “یہ کیا کر دیا میں نے ؟؟” اس نے ایک نظر اپنے کپڑوں کو دیکھا تھا گرین کلر کی ٹائٹس پر وائٹ کلر کی لونگ شرٹ پر گرین اور وائٹ کنٹراس کا بڑا سا دوپٹہ اور تھوڑی سی ہری کانچ کی چوڑیاں پہنے کھڑی تھی کانوں میں بھی سفید رنگ کے ٹاپس پہنے تھے جس میں ہرے رنگ کا نگ لگا ہوا تھا صرف ایک بیج کی کمی تھی ورنہ تو وہ پوری چودہ اگست کے فنکشن میں جانے کے لئے تیار لگ رہی تھی “زر نور تمہیں دیکھ کر تو …..نغمے پڑھنے کا دل کر رہا ہے ” تیمور نے ہنستے ہوئے کہا تھا “یار آج کے دن کون سا پاکستان آزاد ہوا تھا ؟” وہ سب اس کو دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے “تم لوگوں سے کس نے کہا کے گرین اور وائٹ صرف چودہ اگست کو ہی پہنتے ہیں؟ ” وہ تپ گئی تھی ان لوگوں کی ہنسی سے ” نور بانو .مسکراؤ یار تمہاری پکچر لے رہا ہوں میں …اور پھر اسے فیس بک پر پوسٹ کروں گا ہیش ٹیگ “محب وطن پاکستانی ” ہیش ٹیگ “نومبر میں چودہ اگست ” ہاہا ” حیدر نے اپنا موبائل نکال کر اس کے سامنے کر دیا تھا “حیدر بند کرو اسے ” وہ چیخی تھی ” تمہاری سمجھ میں نہیں آ رہا حیدر ؟؟” زرنور نے اپنی فائل چہرے کے سامنے کر لی تھی “دفع ہو جاؤ ” وہ ان سب کو گھورتی پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی تھی ” ” ارے زرنور روکو یار ” ” انسان بن جاؤ تم لوگ ” مناہل بھی ان کو گھورتی زرنور کے پیچھے گئی تھی
“اوے …وہ دیکھ وہ رہی ” تیمور اور ریاض لائبریری کے دروازے پر کھڑے اچک اچک کر انوشے کو دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے کیوں کے ریاض نے اسے اندر جاتے ہوئے دیکھا تھا وہ دونوں بھی اس کے پیچھے پیچھے چلے آۓ تھے جبھی میز پر کتابیں پھیلاۓ رجسٹر پر جلدی جلدی کچھ لکھتی انوشے ریاض کو نظر آ گئی تھی جبھی اس نے تیمور سے کہا تھا ” جا …جا اندر بات کر اس سے جا کے ” “پاگل ہو گیا ہے کیا ؟ گلہ دبا دےگی وہ میرا ” تیمور بدکا تھا ” تو پھر تو لینے کیا آیا ہے یہاں ؟جب بات ہی نہی کرنی تو ” ریاض نے اس کو گھورا تھا ” تو جا اندر …تو بات کر اس سے ” ” ابے گدھے …میں کیا بات کرو گا اس سے ؟ تو خود جا نہ ” ” رضو…رضو ..تو سمجھ نہیں رہا …وہ تجھے جانتی ہے ..مجھے نہیں …اس لئے تیرا گلہ نہیں دباۓ گی ” تیمور نے اسے سمجھاتے ہوئے لائبریری کے اندر دکھیلا تھا وہ بے چارہ لڑکھڑاتا اس کو گھورتا انوشے کی ٹیبل کے پاس ایا تھا “کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں ؟” وہ اس کے سامنے والی کرسی کو پکڑے کھڑا تھا انوشے نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ” مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو ؟ اپنے گھر سے لے کر تھوڑی آئی ہوں میں “وہ لٹھ مار انداز میں کہتی پھر سے اپنا کام کرنے لگی تھی ”اس کا مطلب ہے کے ہاں بول رہی ہے “ریاض خود سے کہتا کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا ”اوہ۔۔۔تو آپ بھی ناولز پرھتی ہیں؟“ ریاض نے اس کے ہینڈ بیگ کے پاس رکھی جنت کے پتے اور آب حیات دیکھ کر اشتیاق سے کہا تھا انوشے نے صرف سر اٹھا کر ایک نظر اس کو دیکھا تھا اور پھر سے لکھنے میں مشغول ہو گئی تھی ریاض کی نظر اس کی فائل پرپڑی تھی جو ٹیبل پر کھلی پڑی تھی جس پر اس کا نام لکھا تھا ”اوہ تو ۔۔۔انوشے عظیم نام ھے اس چشمش کا “ وہ دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کے چلو کچھ تو پتا چلا “آپ کو پتا ہے کے میری تین فیمیلز دوست ہیں ان کو بھی آپ کی طرح نا ولز پڑ ھنے کا بے حد شوق ہے انفیکٹ وہ تو یے ناولز پڑھ بھی چکی ہیں اور۔۔۔۔۔۔۔“ ریاض اپنی ہی دھن میں کہے جا رہا تھا اور وہ اپنا سامان سمیٹ کر بیگ میں ڈالتی کھڑی بھی ہو گئی تھی ”ارے آپ جا رہی ہیں؟“ریاض نے اسے اٹھتے دیکھ کر کہا تھا لیکن اس نے کوئی جواب نہی دیا بس ایک تیز نظر اس پر ڈال کر لائٕبریری سے باہر آ گٕی تھی جہاں تیمور یہاں سے وہاں چکر کاٹ رہا تھا انوشے کو دیکھ کر وہ مسکرایا تھا لیکن وہ اس کو گھورتی وہاں سے چلی گئی تھی اس کے جانے کے بعد ریاض بھی باہر آ گیا ”اوے۔۔کیا بات ہوئی تیری ؟“ تیمور نے بے صبری سے پوچھا تھا ”ابے ۔۔۔۔بہت نک چڑی اور پراوٕڈی قسم کی ہے سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتی ۔۔۔خیر نام تو بہت پیارا ہے اس کا “ ریاض نے منہ بسور کر کہا تھا ”جلدی بتا پھر کیا نام ہے اس کا ؟”بتا رہا ہوں نہ ..صبر تو کرلے ” ۔۔۔بول نہ۔۔۔اب بک بھی دے“ تیمور نے تپ کر اسے دیکھا تھا ” بلقیس بانو“اس نے مسکراہٹ دباتے ہوے کہا ”بلقیس بانو؟؟“ تیمور کو کچھ عجیب سا لگا تھا یہ نام“ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زرنور اپنی کلاس لےکر باہر نکل رہی تھی جبھی اس کا فون بجا اس نے بیگ میں سے نکال کر دیکھا جہاں ”ماما کالنگ“ کے الفاظ جگمگا رہے تھے ”ہیلو۔۔۔اسلام علیکم۔۔۔۔جی ماما خیریت؟۔۔۔آپ نے فون کیا “ وہ موبائل کو کان اور کندھے کے بیچ میں دباۓ اپنی نوٹ بک بیگ میں رکھ رہی تھی ”وعلیکم اسلام ۔۔۔ہاں خیریت مجھے بتانا تھا کہ ۔۔۔۔۔وہ سمیر کا فون آیا تھا ۔۔۔وہ تم سے ملنے آرہا ہے “ زارا بخاری نے رسان سے کہا تھا ” کیا مطلب؟؟ وہ یہاں آرہا ہے؟ ۔۔۔یونی؟“ وہ چونکی تھی ”ہاں“ ”کیا ہو گیا ہے ماما ۔۔وہ یہاں کیسے آ سکتا ہے؟ پاگل تو نہیں ہے وہ؟۔۔اور آپ نے اسے منع کیوں نہیں کیا؟“ وہ آہستہ آواز سے چیخی دیکھوں زرنور ۔۔۔۔کوی الٹی سیدھی حرکت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔اور اگر تم نے مس بی ہیو کیا اس کے ساتھ تو اچھا نہیں ہوگا پھر “ انھوں نے اسے تنبہ کی تھی ”لیکن ماما میری بات تو ۔۔۔۔ہیلو۔۔ہیلو۔۔۔ماما آپ سن رہیں ہیں؟ ہیلو ۔۔۔۔“ اس نے اپنا فون دیکھا جو سوئٕچ اوف ہو چکا تھا ”اس کی بیٹری بھی ابھی ختم ہونا تھی ؟؟؟“ اس نے غصہ سے موبائل کو بیگ کے اندر پٹخا تھا ” میں کیا کروں اس سمیر امیر کا؟ یہ بلا آخر پیچھا کیوں نہیں چھوڑتی میرا ؟ “اس کا پارہ ہائی ہونے لگا تھا جبھی اس کے ذہن میں جھماکا ہوا تھا ۔۔حیدر۔۔۔ہاں ایک حیدر ہی ہے جو اس سے میری جان چھڑوا سکتا ہے “۔۔لیکن دوسرےہیٕ لمحہ اس کی مسکراہٹ سمٹی تھی ”وہ بدتمیز تو مجھے دیکھتے ہی پھر سے نعرے لگانا شروع کر دیگا “ اس نے کوفت سے اپنے ہرے سفید حلیہ کو دیکھا تھا ”خیر کوئی نی ۔۔مشکل وقت میں گدھے کو ہی باپ بنانا پرتا ہے “ وہ خود کو تاویلیں دے کر پر سکون کرتی کینٹین کی جانب بڑھی تھی ۔۔جانتی تھی کہ وہ بھوکا وہیں ملےگا ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ “منحوس آدمی ….اگر میرے پیٹ میں نہیں جانا تھا تو بول دیتا …ایسے ڈوب کے مرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ ” حیدر کینٹین میں بیٹھا چاۓ میں بسکٹ ڈوبا ڈوبا کر کھا رہا تھا لیکن وہ اپنے موبائل پر آۓ فنی میسج کو پڑھنے میں اتنا مشغول ہو گیا تھاکے نتیجآ اس کا چا ۓ میں ڈپ کیا ہوا بسکٹ اس میں ہی غوطہ زن ہو کر غائب ہو چکا تھا اس کا دل خراب ہو گیا تھا کپ کو سائیڈ پر رکھے اب وہ صرف بسکٹ کھا رہا تھا جبھی ایمن اس کے پاس آئی تھی ” حیدر تم نے شاہ ویز کو کہیں دیکھا ؟ میں اتنی دیر سے اسے ڈھونڈ رہی ہوں ..نہ جانے کہاں چلا گیا ” وہ پریشانی سے بولی تھی ” شاہ ویز کو ؟ ….ہاں میں نے دیکھا تو تھا اسے ….کہاں دیکھا تھا ؟ کہا دیکھا تھا ؟ ہاں …میں نے اسے بائیو لیب کی بیک سائیڈ پر حریم کے ساتھ جاتے دیکھا تھا ” وہ جیسے سوچ سوچ کر بولا تھا اور حریم کا نام سن کر ایمن کے چہرے پر غصہ صاف دکھائی دے رہا تھا “شاہ ویز …یہ تم نے اچھا نہیں کیا ” وہ دانت پیستی وہاں سے چلی گئی تھی اور لائبریری میں بکس اشو کرواتے شاہ ویز کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کے حیدر نے کس آندھی طوفان کو اس کے پاس بھیجا ہے “حیدر …بات سنو میری ” زرنور اس کے پاس آ کر اپنا بیگ اور فائل ٹیبل پر پٹخنے کے سے انداز میں رکھ کر خود بھی کرسی پر گر سی گئی تھی “ارے…پاکستانی فلیگ ..تمہیں کیا ہوا ؟” حیدر نے حیرت سے اسے دیکھا تھا “مدد چاہیے تمہاری “..”تمہیں میری مدد چاہیے ؟؟ مذاق نہ کرو نور بانو ..” اس نے بسکٹ کا پیکٹ اس کے سامنے کیا تھا ” میں مذاق نہیں کر رہی حیدر ..مجھے سچ میں تمہاری مدد چاہیے ” زرنور نے اس کا بڑھآیا ہوا ہاتھ سائیڈ پر کیا تھا ” اچھا چلو بتاؤ کیا مسلہ ہے ؟” ” ایک لڑکا ہے…. سمیر .. تھوڑی دیر میں وہ یہاں آنے والا ہے ..مجھ سے ملنے ..مما چاہتی ہیں کے میں اس سے شادی کروں ..لکین مجھے وہ پسند نہیں …اب تم کچھ ایسا کرو کے وہ خود ہی مجھ سے شادی سے منع کر دے ” زرنور نے تفصیل سے اسے بتایا تھا جو بسکٹ کھاتا سنجیدگی سے سن رہا تھا ” ایک مخلصآنہ مشورہ دوں ..میں تمہیں ؟؟” وہ پوچھ رہا تھا “کیا ؟؟” زر نور نے نہ سمجھی سے اسے دیکھا تھا “تمہاری مما ٹھیک کہ رہیں ہیں ..شادی کرو اس کے ساتھ اور سسرال جاؤ …خود بھی سکون سے رہو ..اور ہمیں بھی رہنے دو ” وہ اب بھی سنجیدگی سے بولا تھا “بہت شکریہ ..لیکن مجھے ضرورت نہیں تمہارے کسی مشورے کی..جو میں کہ رہی ہوں صرف وہ ہی کرو ” “مجھے کیا ملیگا ؟؟” “جو تم بولو گے ” ” ٹھیک ہے …مجھے آواری میں ڈنر چاہیے ” اس نے اپنی شرط رکھی تھی ” اوکے ڈن ” اس نے بھی حامی بھر لی تھی ” لیکن میری ایک اور شرط بھی ہے ” اس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا تھا ” وہ کیا ؟؟” “تمہیں پہلے کچھ کہنا پڑے گا ” ز” کیا کہنا پڑے گا ؟” ” یہی کے …حیدر تم بہت اچھے ہو…دنیا کے سب سے پیارے انسان تم ہو …اور مجھے بے حد اچھے لگتے ہو …یہ کہو پہلے ” ” دماغ تو نہیں خراب ہو گیا تمہارا ؟؟” وہ پہلے چونکی تھی پھر زور سے چیخی تھی بھئی پہلے تم یہ کہو گی ..پھر ہی میں تمہارا کام کروں گا ..ورنہ نہیں ” وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا لیکن آنکھوں میں ناچتی شرارت صاف نظر آ رہی تھی “حیدر …یہ دو شرطیں ہو گئی ہیں …” وہ تپ کر بولی تھی ” اچھا چلو ..آواری میں ڈنر کینسل …تم صرف یہ بول دو ” ” اوکے …حیدر تم ….!!” ” ایک منٹ …ایک منٹ ….ہاں اب بولو ” حیدر نے اپنے فون میں ویڈیو کیمرہ آن کر کے اس کے سامنے کر دیا تھا زرنور نے اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ کر بہ مشکل اپنے غصے کو کنٹرول کیا تھا دل کر رہا تھا کے یونی کی چھت سے چار پانچ دفع دھکّا دے دے کیوں کے ایک دفع میں تو کچھ ہو گا نہیں اس کا ” حیدر تم بہت اچھے ہو ..دنیا …کے ..سب…سے ..پیارے انسان ہو تم …اور مجھے…. بے حد اچھے ….لگتے ہو “وہ دانت پیستے ہوئے چبا چبا کر بولی تھی ” ویری گڈ …بس مسکرائی نہیں تم …ایسا لگ رہا تھا کے …جیسے میں نے زبردستی بلوایا ہے تم سے ” اس نے ویڈیو سیف کرتے ہوئے کہا تھا اور زرنور ..کھا جانے والی نظروں سے اس کو گھورتی صرف اس انتظار میں تھی کے ..کب اس سمیر نامی بلا سے اس کی جان چھوٹے ..اور پھر وہ اس حیدر کی جان اپنے ہاتھوں سے لے —– —— —— حارث ..تم یہاں ہو ..اور میں ساری یونی میں تمہیں ڈھونڈ رہی تھی ” مناہل بولتی ہوئی کلاس میں آئی تھی جہاں حارث اکیلا بیٹھا نوٹس بنا رہا تھا “کیوں ڈھونڈ رہی تھی تم مجھے ؟؟” اس نے جھکے سر کے ساتھ ہی جواب دیا تھا ” مناہل نے اس کی نوٹ بک پر ایک ڈیری ملک چاکلیٹ اور ایک چھوٹا سا کاغذ رکھا تھا جس پر مارکر سے “آئم سوری ” لکھا تھا” یہ کس لئے ؟؟” اس نے سر اٹھا کر مناہل کو دیکھا تھا جو اس کے سامنے ہی کھڑی تھی “وہ …..میں نےصبح پانی…پھینکا تھا نہ …تم پر ” وہ شرمندہ سی بولی تھی حارث نے اس کو دیکھنے کے بعد ..چاکلیٹ اور پیپر سائیڈ پر کیا اور پھر سے اپنا کام کرنے لگا “حارث ..میں سوری کر رہی ہو نہ تم سے ” اس نے اپنا ہاتھ بھی اس کی نوٹ بوک پر رکھ دیا تھا “تنگ نہیں کرو مناہل …کام کرنے دو مجھے ” اس نے تھوڑی سختی سے کہا تھا “پہلے میرا سوری ایکسپٹ کرو ” “اچھی زبردستی ہے ” حارث نے اس کو گھورتے ہوئے کیلکولیٹر اٹھایا تھا “جب تک تم مجھے معاف نہیں کرو گے ..میں تب تک میں یہیں کھڑی رہوں گی ” “کھڑی رہو ..میری بلا سے مجھے کیا ؟ ” اب وہ نمبر پریس کر رہا تھا مناہل نے اس کے ہاتھ سے کیلکولیٹر جھپٹ لیا تھا “کیا مسلہ ہے تمہارے ساتھ مناہل ؟ کام کیوں نہیں کرنے دے رہی تم مجھے ؟ جب چاہا بدتمیزی کر لی ..جب چاہا آ کر سوری بول دیا ..دوسرے کی فیلنگز کا کوئی خیال ہی نہی ہے تمہیں ” حارث غصہ سے بولا تھا “میں معافی مانگ تو رہی ہو تم سے ” مناہل نے پہلی دفع اسے اتنے تیز لہجے میں بات کرتے دیکھا تھا “ضرورت نہیں ہے …مجھے تمہاری معافی کی …بہتر ہوگاکے چلی جاؤ یہاں سے ” وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی حارث نے اسے کبھی مذاق میں بھی نہیں ڈانٹا تھا اور کہاں آج اتنے غصے میں نظر آ رہا تھا “تم ڈانٹ رہے ہو مجھے ؟؟” اس کی آنکھو سے ٹپ ٹپ آنسوں گرنے لگے تھے “ہاں میں ڈانٹ رہا ہوں تمہیں …اور تم اسی قابل ہو کے تمہیں ڈانٹا جائے ” وہ سرد نظرو سے اس کو دیکھ رہا تھا تھا آنسوں اس کے چہرے پر تواتر سے بہہ رہے تھے “حارث تم ….!! ” وہ آنسوں بھری آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی ” غلطی بھی خود کرتی ہو اور پھر رونا بھی شروع کر دیتی ہو ” وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھا پین کو انگلی اور انگوٹھے کے درمیان گھماتے ناراضگی سے بول رہا تھا “سچ میں حارث ….میں نے صرف مذاق کیا تھا ” وہ الٹے ہاتھ کی پشت سے اپنا بھیگا ہوا گال صاف کرتے ہوئے بولی تھی لیکن آنسوں تھے کے بہے جا رہے تھے “اگر ٹھنڈے پانی کا جگ تم نے صرف مذاق میں پھینکا تھا تو …غصے میں کیا سمندر میں پھینک دوگی مجھے ؟؟” حارث حیران تھا اسے یقین نہیں تھا کے صرف اتنے سے روڈلی بے ہیو کرنے پر وہ رونے لگ جاۓ گی وہ بے چین ہو گیا تھا اس کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ کر “آئندہ نہیں کروں گی ” مناہل کی آنکھیں اور ناک بے حد سرخ ہو چکی تھی “سوری بولو پہلے …..کان پکڑ کر ” وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا تھا “آئم سوری حارث …ویری سوری …آیندہ کبھی بھی تم سے بد تمیزی نہیں کروں گی ” اس نے جلدی سے اپنے کان پکڑ لئےتھے وہ کان پکڑے کھڑی بھیگے چہرے کے ساتھ بولتی اتنی معصوم لگ رہی تھی کے حارث کو افسوس ہونے لگا تھا کے اس نے کیوں رلا دیا اسے وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا تھا ..اور جیب سے رومال نکال کر اس کے آنسو صاف کرنے لگا تھا ” چپ ہو جاؤ .یار ….بہت بری لگتی ہو تم روتے ہوئے ” وہ نچلا لب دانتوں تلے دباتے ہوئے بولا تھا وہ رونا بھول کر حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی ” ایسے کیا دیکھ رہی ہو ؟؟ سچ کہ رہا ہوں ..بہت بری لگ رہی ہو …ناک دیکھو ذرا ..کیسے جوکر کی طرح لال ہو رہی ہے ” “تم نے رلایا تھا مجھے ” وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر پھر سے رونا شروع ہو چکی تھی “مناہل …قسم سے یار میں نے صرف مذاق کیا تھا …مجھے کیا پتا تھا کے تم سیریس ہی ہو جاؤ گی ” “وہ صرف مذاق تھا ؟؟” وہ چونک کر اسے دیکھ رہی تھی ” اور نہیں تو کیا ….میں تم پر غصہ کر سکتا ہوں کیا ؟؟؟” وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا “تم پاگل ہو کیا ؟؟” وہ بے یقینی سے اس کو دیکھتی دوسرے ہی لمحے اس کے سینے پر اپنے نازک ہاتھوں کے مکے برسانا شروع ہو چکی تھی “میری جان نکل رہی تھی حارث …اور تم کہ رہے ہو کے وہ سب مذاق تھا ؟؟” …بہت برے ہو تم حارث بہت زیادہ …. میں کبھی بھی بات نہیں کروں گی تم سے ….سب سے شکایات کرونگی تمہاری …تم نے رلایا تھا مجھے …غصہ بھی کیا تھا مجھ پر ” سب سے زیادہ دکھ تو اسے اپنے بےوقوف بن جانے پر تھا ” ارے …ارے ..مناہل میری بات تو سنو ..” وہ خود کو بچا نہی رہا تھا اس سے ..آرام سے اس کی مار کھا رہا تھا “مجھے کوئی بات نہیں سننی تمہاری …اور اگلی دفع صرف پانی نہیں پھینکو گی میں تم پر بلکے ….تیزاب پھینکو گی ..” ہاہا …جنگلی بلّی ” وہ ہنسا تھا “تم نے پھر جنگلی بلّی کہا مجھے ؟؟” اس نے ایک زور دار پنچ حارث کے کندھے پر مارا تھا اور پھر اپنا سر بھی اس کے کندھے پر رکھ دیا تھا ” دیکھنا تمہیں تو میں چھت پر سے دھکا دو گی “وہ سر سر کرتی بولی تھی حارث جو کا تو کھڑا رہ گیا تھا اسے یقین نہیں آ رہا تھا کے مناہل اور وہ بھی اس کے اتنے قریب ؟؟ اگر یہ کوئی خواب تھا تو ..وہ دعا کر رہا تھا کے یہ خواب کبھی ختم نہ ہو ..وہ ساری زندگی ایسے ہی اس کا سر اپنے کندھے پر رکھے کھڑا رہے وہ خود کو بہت بے بس محسوس کر رہا تھا اس وقت ..خود پر کنٹرول کرتے وہ اس کا سر نرمی سے سہلانے لگا تھا جبھی کلاس میں داخل ہوتے تیمور کی نظر ان دونوں پر پڑی تھی وہ ٹھٹھک کروہیں رک گیا تھا ” اہم ..اہم …لو برڈز ..تم دونوں غلط جگہ پر غلط سین کریٹ کر رہے ہو …اور اگر بھول گئے ہو تو میں یاد دلا دو کے .یہ …یونی ور سٹی ہے ..اور یہاں اچھے بچے پڑھنے کے لئے آتے ہیں ….چلوشاباش ….ہوش میں آؤ ” تیمور نے کہتے ہوئے تالی بجا کر ان کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا وہ دونوں ہی چونکے تھے مناہل جھٹکے سے اس سے الگ ہوئی تھی ” بکواس نہیں کرو تیمور “مناہل نے اس کو گھورتے ہوئے رومال سے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تھا جو حارث کا ہی تھا “لو بھئی …اب اگر سچ بولو تو… وہ بھی لوگوں کو بکواس لگتی ہےاگر کوئی بھی انسان تم دونوں کو اس پوزیشن میں دیکھے گا تو یہی سوچے گا نہ گے ..تمہارے بیچ….. کچھ کچھ ہے ” تیمور شرارت سے بولا تھا “حارث …تم کچھ کہ کیوں نہیں رہے اسے ؟؟ کب سے فضول بولے جا رہا ہے ” مناہل حارث کی جانب پلٹی تھی جس نے جلدی سے اپنی مسکراہٹ دبائی تھی “تم چھوڑو اسے مناہل …پاگل ہے یہ تو ” ” چہ …چہ …افسوس ہوا حارث ..تو اتنی جلدی بدل جائے گا ..مجھے نہیں پتا تھا ..یاد کر حارث ..یاد کر ….کبھی تو مجھے اپنا پھیپھڑا کہا کرتا تھا ..اور آج تو ..تونے میرا دل ہی توڑ دیا ” وہ غمگین لہجے میں بولا تھا ” ہاہ .,…تھوڑی سی تنہائی کیا مل جائے لوگوں کو ….ہوش ہو کھو بیٹھتے ہیں اپنے ” اس نے رومال سے اپنی آنکھیں رگڑتی مناہل کو دیکھ کر شرارت سے کہا تھا ” تمہارے ہوش تو میں ابھی ٹھکانے لگاتی ہوں …”وہ اس کو غصے سے گھورتید ڈیسک پر پڑی حارث کی موٹی سی کتاب اٹھا کر اس کو مارنے کو لپکی تھی ” حد ہے یار …لوگوں سے سچ بھی ہضم نہیں ہوتا ” تیمور اسے اپنی جانب آتا دیکھ کر ہنستے ہوئے کہ کر وہاں سے باہر کی جانب بھاگا تھا اور عین اسی وقت اشعر اور ریاض کلاس میں داخل ہو رہے تھے ریاض تو بوکھلا گیا تھا تیمور کو اپنی جانب آتا دیکھ ..وہ تو جلدی س سائیڈ پر ہو گیا تھا لیکن اس کے پیچھے آتے اشعر کو نہیں پتا تھا کے کیا طوفان اس سے ٹکرانے والا ہے تیزائی میں آتا تیمور اشعر سے بری طرح سے ٹکرایا تھا اور تصادم اتنا زبردست تھا کے وہ دونوں ہی کلاس کے باہر جا کر گرے تھے اشعر بیچارہ نیچے فرش پر لیٹا تھا اور اس کے اوپر تیمور تھا “اللہ …اللہ ..توڑ دی میری کمر …اندھے تجھے کیا یہ ہی جگہ ملی تھی ریس لگانے کے لئے ؟” اشعر کراہتے ہوئے بولا تھا ” ہٹ جا موٹے ..کیا جان نکالے گا میری ؟؟” اشعر چیختے ہوئے بولا تھا کیوں کے وہ اٹھ ہی نہیں رہا تھا “یہاں کیا ہو رہا ہے بھئی ؟؟؟” زرنور حیرت سے نیچے لیٹے تیمور اور اشعر کو دیکھ کر بولی تھی “دوستانہ تھری کی شوٹنگ ” ریاض ہنستے ہوئے بولا تھا تیمور اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے کھڑا ہو گیا تھا “بیٹا حارث …تجھے اللہ پوچھے گا ..ایسی خطرناک بھابی تونے دی ہے توبہ .قتل کرنے کا اتنا شوق ہے اسے کے اپنے ہونے واے دیور کا بھی خیال نہیں اسے …تو بچ کر رہنا ..کہیں ایسا نہ ہو کے سوتے ہوئے تیری ہی گردن اڑا دے ” اس نے حارث سے کہنے کے بعد مناہل کو دیکھا تھا جو خونخوار نظروں سے اسے ہی گھور رہی تھی “اب تم ہی بتاؤ زر نور ..میں نے تو صرف یہ کہا تھا کے .لوگو کو تھوڑی سی تنہائی کیا …..!!!!” “تیمور تم نہیں بچوگے مجھ سے ” مناہل اس کی بات کاٹ کر چیخی تھی “اوکے اوکے ..مناہل میں اس خبر کو لیک نہیں کروں گا ..قسم سے صرف ان لوگوں کو بتاؤ گا “تیمور کاریڈور میں کھڑے ان سب کی طرف انگلی سے اشارہ کرتا وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا تھا “کیا چکر ہے بھئی ؟؟؟” وہ سب مشکوک انداز میں ان دونوں کو گھور رہے تھے “شک مت کرو یار …اس کو بس غلط فہمی ہو گئی ہے ..اور کچھ نہیں ” حارث نے سر کھوجاتے ہوئے کہا تھا “بات تو کچھ اور ہی لگ رہی ہے بیٹا ..خیر وقت آنے پر پتا چل ہی جائے گا ” ریاض نے معنی خیزی سے کہا تھا جبھی اس کا فون بجا تھا اس نے جیب سے نکال کر دیکھا تو حیدر کا تھا اس نے یس کر کے کان سے لگا لیا تھا ” ہیلو ..ہاں بول کیا ہوا ؟…اچھا ٹھیک ہے ..زر نور حیدر بات کرے گا تم سے ” اس نے اپنا فون اس کو دے دیا تھا ” کیا ہوا حیدر ؟؟” ” یار نور بانو ….یہاں ایک ٹو پیس میں ملبوس براؤن بالوں والا مجنوں دیکھا گیا ہے ..جو زرنور… زرنور کرتا پوری یونی کے چکر کاٹ رہا ہے ..کہیں یہ وہی بد نصیب اور پھوٹی قسمت والا شخص تو نہیں جو تم سے ملنے آنے والا تھا ؟” “کہاں ہو تم اس وقت ؟؟” اس اپنی ریسٹ واچ دیکھتے ہوئے پوچھا تھا “وقت کا تو بڑا پابند ہے یہ ” تمہارے ہی ڈیپارٹمنٹ کے باہر اس پر نظر رکھے کھڑا ہوں ” ” ٹھیک ہے ..آ رہی ہوں میں ” اس نے فون بند کر کے ریاض کو دیا تھا —- —– —– —– “بات سنو بھائی …” حیدر نے اپنے سامنے سے گزرتے سمیر کو آواز دے کر روکا تھا”جس نے رک کر اپنے گلاسیس اتار کر اس نوجوان کو دیکھا تھا جو جینز پر بلیک کلر کھوپڑیوں کی شکل بنی ہی ٹی شرٹ پہنے بہت سنجیدہ سا نظر آتا تھا ” میں نے آپ کو پانچویں دفع یہاں سے گزرتےہوئے دیکھا ہے ..کچھ کھو گیا ہے کیا ؟؟” حیدر سنجیدگی سے بولا تھا “ویل کھچ کھویا تو نہیں ہے میرا ..لیکن میں یہاں کسی سے ملنے آیا تھا ..کافی دیر سے ڈھونڈ رہا ہوں لیکن وہ مجھے مل نہیں رہی …شاید آپ جانتے ہو ..زرنور بخاری نام ہے ان کا ..جرنلزم کے ڈیپارٹمنٹ میں ہوتی ہیں وہ ” ” ارے وہ ہی جو ..ماسٹرز کے لاسٹ ائیر میں ہیں ؟” “جی وہی ” ” اس کا تو میں کلاس فیلو ہوں”حیدر ہلکا سا مسکرایا تھا ” تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کے وہ اس وقت مجھے کہاں ملے گی ؟” “یہ تو میں نہیں جانتا ..کیوں کے یہ فری پیریڈ ہوتا ہے ..اور نور بانو ..فری پیریڈ میں اپنی کتابیں سر پر رکھ کر پوری یونی کا ایک چکر لگاتی ہے ” وہ اسی انداز میں بولا تھا “ایکسکیوز می ….” اس نے نہ سمجھی سے کہا تھا ” آپ کیا ان کے فرینڈ ہیں ؟؟” حیدر نے پوچھا تھا ” فرینڈ تو نہیں ..لیکن میں ان کا ہونے والا فیانسی ہوں ” وہ مسکرایا تھا “مائی گاڈ …تم اس کے ہونے والے فیانسی ہو ..اور اس نر تمہیں ابھی تک اپنا رئیل نام ہی نہیں بتایا ” حیدر حیرت سے بولا تھا “کیا مطلب ؟.اس کا نام تو زرنور ہے نہ ؟ ” ” اصلی نام تو اس کا نور بانو ہی ہے ..لیکن وہ خود کو زرنور کہلوانا زیادہ پسند کرتی ہے ” “میری اور ان کی اتنی فرینڈ شپ نہیں ہے …شاید اس لئے نہ بتایا ہو ” اس نے وجہ پیش کی تھی “کیا آپ تو اس کےکلاس فیلو ہو نہ.. تو کیااس کے بارے میں مجھے کچھ بتا سکتے ہیں ..آئی مین اس کی نیچر وغیرہ کے بارے میں ” “نیچر کا کیا پوچھتے ہو یار …ابھی دو دن پہلے کی بات ہے ..وہ سیڑھیاں دکھ رہی ہیں ؟؟” “ہاں دکھ رہی ہیں تو ؟؟” ” تو یہ کے اس نے وہاں سے ایک لڑکے کو صرف اس بات پر دھکا دے دیا کے اس نے نوٹس مانگے تھے نور بانو سے ……