اس نے نوٹس مانگے تھے نور بانو سے اور وہ لڑکا ابھی تک ہوسپٹل میں ایڈمیٹ ہے ..ویسے تو وہ کافی سویٹ نیچر کی ہے اب اس نے فضول میں تو اس کو دھکا نہیں دیا تھا نہ ؟؟ اس لڑکے کی ہی غلطی تھی جو اس نے نوٹس مانگے “سمیر کو کافی عجیب لگ رہا تھا کے صرف نوٹس مانگنے پر سیڑیھوں سے نیچے پھینک دیا “اور تو اور ..تمہیں پتا ہے کے ..جب اسے کلاس میں لیکچر سمجھ نہیں آتا تو وہ کیا کرتی ہے ؟” سمیر نے نفی میں گردن ہلائی تھی ” “وہ اپنی سیٹ پر کھڑی ہو کر پروفیسر کو دیکھ کر زور زور سے قہقه لگانا شروع کر دیتی ہے اور ایک دفع تو اس نے حد ہی کر دی کینٹین میں جا کر اس نے جو توڑ پھوڑ مچائی الامان ..پوری یونی جمع ہو گئی تھی وہ بھی صرف اس بات پر کے اسا ئیمنٹ کمپلیٹ نہ ہونے پر پروفیسر نے اسے ڈانٹ دیا تھا ..اب تم ہی بتاؤ یار ..کیا اس نے یہ ٹھیک کیا ؟ اگر پروفیسر پر غصہ تھا تو جا کر ان کا سر پھاڑتی ..بے چارے کینٹین والے بابا کا کیا قصور تھا جو ان کا نقصان کیا “سمیر کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کے وہ اس کی باتوں پر یقین کرے یا نہ کرے ..لیکن وہ اتنا سنجیدہ نظر آتا تھا کے مذاق کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی “اور تمہیں ایک راز کی بات بتاؤ ؟ حیدر اس کی جانب جھک کر بولا تھا ” کیا ؟؟” “تمہیں پتا ہے کے ….اس پر حاضری آتی ہے ” “ک کیا مطلب ؟؟” اس نے چونک کر حیدر کو دیکھا تھا ” اس پر دو جنّاتوں کا بھی قبضہ ہے ” حیدر اپنے لہجے کو پراسرار بنا کر بولا تھا ” جج جنات ؟؟؟…!!! کیا کہ رہے ہو ؟” اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی “ہاہ …اس گھر والوں نے تم سے یہ بات بھی چھپائی ؟؟؟؟” …وہ حیران ہوا تھا ” خیر میں کس لئے ہوں ؟؟ میں سب بتاتا ہوں تمہیں …تمہیں پتا ہے کے وہ رات کو دو بجے کیا کرتی ہے ؟؟ ” کک کیا کرتی ہے؟ ” سمیر کو ہلکا سا خوف ہونے لگا تھا ” وہ رات کو دو بجے کے بعد اپنے بال کھول کر بجھی ہوئی موم بتی لے کر پورے گھر میں گھومتی رہتی ہے ” بجھی ہوئی موم بتی کیوں ؟” وہ حیرت سے بولا تھا “یہ تو میں بھی نہیں جانتا ..لیکن جبھی تو وہ دیواروں سے ٹکرا تی پھرتی ہے چار دفع تو وہ سیڑہیوں سے بھی گر چکی ہے ..لیکن ….پھر بھی کچھ نہیں ہوتا اس کو …پھر سے اٹھ گھومنا شروع کر دیتی ہے اور مین گیٹ پر سے کھود کر روڈ پر نکل جاتی ہے “وہ باہر جا کر کیا کرتی ہے ؟” اس کو یقین نہیں آ رہا تھا ” بلیاں پکڑتی ہے ” “وہاٹ ؟؟ بلیاں ؟؟ یو مین کیٹس ؟؟ لیکن وہ ان کو پکڑ کر کیا کرتی ہے ؟؟” حیرت سے اس آنکھیں پھٹنے کو تھی “گلا دبا کر مار دیتی ہے ” حیدر سرد آواز میں بولا تھا ” “ایک ہفتے میں دو بلیوں کو تو وہ ضرور قتل کرتی ہے ” “وہ پاگل تو نہیں ہے ؟؟” وہ چیخا تھا ” “اے ..تم میری دوست کو پاگل تو مت بولو…اس کے ساتھ بس تھوڑا سا مسئلا ہے …ڈاکٹر نے کہا ہے کے اگر اس کے شادی ہو جائے تو تھرٹی پرسنٹ چانس ہے کے وہ نارمل ہو جائے ” ” صرف تھرٹی پرسنٹ ؟؟؟ اور باقی کا کیا ؟” وہ سرسراتی آواز میں بولا تھا “باقی کے سیونٹی پرسنٹ چانس ہے کے وہ اپنے شوہر کو بھی اسی طرح قتل کردے جس طرح سے بلیوں کو کرتی ہے ” وہ گہری سانس لے کر بولا تھا “آ ..آپ …آپ شاید مذاق کر رہے ہیں مجھ سے …ہے نہ ؟؟” وہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر ڈری ہی مسکراہٹ کے ساتھ بولا تھا “کیا میں ہنس رہا ہوں ؟؟ کیا میرے چہرے پر مسکراہٹ نظر آرہی ہے تمہیں ؟؟” حیدر سختی سے دانت پر دانت جما کر اپنے قهقوں کا گلہ دبا کر بولا تھا ..ضبط سے اس کا چہرہ سرخ ہونے لگا تھا “آ …نہیں تو ..لیکن آپ نے کہا تھا کے اس پر جنات بھی ہے .تو ان کا کیا ؟؟” “ان کا کیا …کچھ بھی نہیں ..وہ بھی تمہارے ساتھ ہی رہے گے …” “میرے ساتھ کیوں ؟؟” وہ بدکا تھا ” بھئی ..ابھی تو وہ نور بانو کے ساتھ رہتے ہیں لیکن جب اس کی شادی ہو جائے گی تو وہ تمہارے ساتھ رہے گی ..تو پھر ظاہر ہے کے اس کے جنات بھی تمہارے ساتھ ہی رہے گے نہ ؟؟” ….لیکن ایک بات کے تو ہنڈریڈ پرسنٹ چانس ہے ..وہ یہ کے …اگر اس کے جناتوں کو تم پسند نہ اے تو …وہ تم کو مار کر اپنی دنیا میں لے جائے گے ” ” وہاٹ ؟؟؟” وہ چیخا تھا “خیر اب میں چلتا ہوں ..اگر تمہیں میری باتیں جھوٹی لگے تو …تم بے شک اس کے پیرینٹس سے پوچھ کر کنفرم کر سکتے ہو ” ” بات سنو ” ابھی حیدر کو کچھ کہنے ہی لگا تھا کے اس کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا تھا وہ ڈر کر اچھلا تھا ” کّک کیا ہوا ؟؟” اس نے مڑ کر مقابل کو دیکھا تھا جس نے ہاتھوں میں بہت ساری کتابیں اٹھا رکھی تھی وہ عجیب سی نظرو سے سمیر کو دیکھ رہا تھا “تم پاگل ہو ؟؟” تیمور نے سمیر کو گھورتے ہوئے کہا تھا “وہاٹ ڈو یو مین ۔۔۔مسٹر ؟؟” “اگر پاگل نہیں ہو تو پھر یہاں اکیلے کھڑے کس سے باتیں کیے جا رہے ہو ؟؟” تیمور مشکوک انداز میں اس کو دیکھ رہا تھا ” “اکیلے کہاں …میں تو ان کے ساتھ بات کر رہا تھا ” اس نے ہاتھ سے اپنے پیچھے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا “پیچھے کوئی نہیں ہے ” تیمور نے ٹھنڈے انداز میں کہا تھا اس نے حیرت سے تیمور کو دیکھا تھا اور پھر پلٹ ک دوبارہ حیدر کو دیکھا تو وہ چونک گیا تھاجہاں واقعی میں کوئی نہیں تھا ” یہ …یہ کہاں گیا ؟؟ ابھی تو یہیں تھا وہ بلیک ٹی شرٹ والا ” وہ حیرت سے بولا تھا “یہاں کوئی بھی نہیں تھا …میں اتنی دیر سے تم کو دیکھ رہا تھا …تم اکیلے ہی بات کر رہے تھے …جاؤ گھر جا کر آرام کرو ” تیمور اس کو بولتا آگے چلا گیا تھا ” اے …میری بات سنو ..وہ سچ میں یہاں تھا ..میں پاگل تھوڑی ہوں ..جو اکیلے بات کروں گا ” وہ اس کو آواز دے کر بولا تھا لیکن تیمور جب تک آگے جا چکا تھا اور وہ حیرت سے گردن گھما گھما کر پورے کوریڈور میں اس بلیک ٹی شرٹ والے کو ڈھونڈ رہا تھا وہاں کوئی کلاس یا کوئی دروازہ نہیں تھا جہاں وہ جا سکتا تھا …پھر اتنی سی دیر میں وہ کہاں غا ئب ہو گیا تھا لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کے اس سے تھوڑے سے فاصلے پر ٹی شرٹ پر جیکٹ پہنے ریلینگ پر جھکے حیدر نے نیچے گراؤنڈ میں کھڑی زرنور کو میشن کمپلیٹ ہونے کا اشارہ کیا تھا سمیر کو اب حقیقتآ خوف ہونے لگا تھا۔ “اسلام علیکم …کیسے ہو سمیر ؟؟” وہ جو دیوار سے ٹیک لگا ۓ کھڑا کسی گہری سوچ میں گم تھا زرنور کی آواز پر چونکا تھا ” میں ..ٹھیک ہوں ” وہ غور سے اس کو دیکھ رہا تھا ” میں تمہیں کال کر رہا تھا …لیکن …تم نے ریسیو ہی نہیں کی ” ” ہاں وہ بیٹر ی ختم ہو گئی تھی …..اے .بات سنو تم ” زرنور نے سمیر کو کہنے کب وجاہت کو آواز دے کر روکا تھا جو ببل کھا کر اس کا ریپر زرنور کے پیروں کے پاس پھینک کر آگے چلا گیا تھا ” جی ” وہ رک کر اس کو دیکھنے لگا تھا ” اگر تم کو اس پوری یونی میں ڈسٹ بن نظر نہیں آتا تو …اس کچرے کو اٹھاؤ اور اپنے بیگ میں دفع کرو ….شرم نہیں آتی؟ …پڑھنے کی جگہ کو تم گندہ کر رہے ہو ؟…اٹھاؤ اس ریپر کو …اٹھاؤ ” وہ اس کو گھورتی چیخ چیخ کر بول رہی اور ساتھ ہی اس نے یہ کیا کے اپنے ہاتھ میں پکڑی دو موٹی کتابیں وجاہت کے سر پر ماری تھی وہ بیچارہ بوکھلا کر جلدی سے ریپر کو اٹھا کر اپنی مٹھی میں دباتا وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا تھا “ہاہ …نان سینس …ذرا تمیز نہیں ان لوگوں کو ” وہ بھونچکا رہ گیا تھا اس کی حرکت پر اب تو اس کو کوئی شک باقی نہ رہا تھا زرنور کے پاگل ہونے میں “چلو کینٹین چلتے ہیں ..وہی بات کریں گے ” وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی ” آ ..نہیں اب میں چلتا ہوں ایک ضروری کام یاد آگیا ہے پھر بات ہوگی ” “لیکن تم ابھی تو آۓ تھے ” وہ حیرت سے بولی تھی” ہاں ..میں دوبارہ آؤں گا ..ابھی چلتا ہوں …گڈ باۓ ” ” اوکے ایز یو وش ” اس نے کندھے اچکا دیے تھے وہ وہ گاگلز آنکھوں پر لگاتا وہاں سے چلا گیا تھا ” یاہو ..!!” اس کے جاتے ہی زرنور نے ایک زور دار نعرہ لگایا تھا “ “ہاں بول کیا ہوا ؟؟” وہ چارو ابھی کلاس لے کر نکلے تھے جبھی اشعر کا فون بجا تھا اس نے نمبر دیکھا تو تیمور کا تھا “یار ایک مسئلا ہو گیا ہے ” تیمور کی ڈری ہوئی آواز آئی تھی اشعر نے سپیکر آن کر دیا تھا ” کیسا مسئلا ؟؟” “وہ نہ …ڈیٹیل میں بتانے کا ٹائم نہیں ہے ..میں جا رہا تھا تو …سامنے ایک بائیک والا اور ایک کار والا ..دونوں لڑ رہے تھے ..بات اتنی بڑی نہیں تھی ..میں نے سوچا کے صلح کروا دیتا ہوں ..تو میں چلا گیا ان کے پاس ..اور ان سے بات کی ..وہ دونوں سن ہی نہیں رہے تھے ..بس لڑے جا رہے تھے ..جب میں چیخ کر بولا تو …اس بائیک والے نے ایک میرے بھی جڑ دیاتو ..مجھے بھی غصّہ آگیا ..میں نے بھی پھر اس کار والے کے ساتھ مل کر بائیک والے کو بہت مارا بہت مارا …لیکن اب مسئلہ یہ ہے کے …وہ کار والا تو بھاگ گیا ..اور اس بائیک والے نے مجھے پکڑ لیا اور فون کر کے اپنے بھائی لوگوں کو بلا لیا ..اب یہ سب مجھے مار کر میرا سر چوک پر لٹکا نے کی تیاری کر رہے ہیں ….بچالو ..مجھے ورنہ یہ لوگ مجھے سچ میں مار دیں گے…ان کے پاس چھریاں ..چاقو ..اور نہ جانے کون کون سے ہتھیار ہیں ” وہ کافی خوفزدہ لگ رہا تھا ڈر سے اس کی آواز بھی ٹھیک سے نہیں نکل رہی تھی “ابے تجھے بولا کس نے تھا .پراۓ پھڈو میں ٹانگ اڑانے کو ؟ بیٹھا رے بیٹا تو وہیں ..یہی ہونا چاہیے تیرے ساتھ ” اشعر غصّے سے بولا تھا ” تیری ہڈیوں میں سکون نہیں ہے کیا ؟ ..جب دیکھو کسی سے پٹ پٹا کر آجاتا ہے ..بعد میں تو ہمیں بھی گھسیٹ لیتا ہے ..مفت میں پھر ہمیں بھی مار کھانی پڑتی ہے ” حارث بھی غصے سے بولا تھا ” یار آج تو مدد کر دو ..قسم سے …اپنی قسم کھاتا ہوں ..آئندہ کسی سے بھی نہیں لڑو گا..پکا وعدہ ” “.ا اوے ..تیمور ..تو چھوڑ ان کو …کس نے مارا ہے تجھے ؟ نام بتا نام ہاتھ کاٹ کر پھینک دوں گا ” حیدر نے جلدی سے اپنی آستین چڑھائی تھی ” تو نام کا کیا اچار ڈالے گا حیدر ؟…یہاں آ کر میری مدد کر …تم لوگ سمجھ کیوں نہیں رہے ؟؟ ….یہ سب کھا جائے گیں مجھے ” تیمور ذچ ہو گیا تھا “اچھا بتا کدھر ہے تو ؟” “بولٹن کے پاس ” ” اوے …تو بولٹن میں کیا لینے گیا تھا ؟؟” ریاض حیرت سے بولا تھا ” یہ لوگ مجھے اٹھا کر لے آے یہاں پر ” ” چل ٹھیک ہے ہم آ رہے ہیں” ریاض نے گاڑی تھوڑی دور ہی روک لی تھی اب وہ لوگ پیدل ہی اس طرف بڑھے تھے جہاں پانچ چھ آدمی تیمور کو گھیر کر کھڑے تھے اور ..اللہ معاف کرے وہ کوئی آدمی تھے ؟ نہ جانے کون سی قسم تھی آدمیوں کی ؟..سارے کے سارے تین چار سو کلو کے لمبے چوڑے مسٹنڈ ے سے تھے اور قد میں تو وہ ان سے بھی ڈبل تھے ہاتھوں میں چھریاں چاقو ..ڈنڈے ..اور نہ جانے کیا کیا اٹھا رکھا تھا ریاض تو ان کو دیکھ کر ہی الٹے قدموں واپس بھاگاتھا اور جبھی تیمور کی نظر پڑ گئی تھی اشعر پر “اوے ..اشعر میں یہاں ہو ..ادھر …اس موٹے کر پیچھے ..میری مدد کر یار ” وہ چیخ کر بولا تھا وہ سب اپنی لال انگآرہ آنکھوں سے اشعر کو گھور نے لگے تھے وہ تو ڈر کر دو قدم پیچھے ہٹا تھا “کک کون اشعر ؟؟بھائی میرا نام اشعر نہیں ہے ..اور میں تو اس کو جانتا بھی نہیں ہوں ….معذرت آپ کو ڈسٹرب کیا …اپ جاری رکھیں اپنا کام ” اشعر کہتے ہوئے جلدی سے ریاض کے پیچھے بھاگا تھا “حارث …تو تو کچھ کر یار ….تو میرا پکا دوست ہے ….بچا لے مجھے ان جنوں سے ” تیمور کی حالت خراب ہونے لگی تھی اب وہ سب حارث کو گھورنے لگے تھے “اوے ..تم جانتے ہو اس کو ؟؟” ان میں سے ایک لمبے بالوں والا اپنی کرخت آواز میں بولا تھا “نن..نہیں بھائی …کیسی باتیں کر رہے ہیں ؟؟ میں تو یہاں سے گزر رہا تھا ..تو سوچا کے آپ کی خیریت دریافت کر لوں …کیسے ہیں آپ ؟ …ٹھیک ہے ؟ ….اچھا میں چلتا ہوں …امی انتظار کر رہی ہوں گی….اللّہ حافظ “حارث تو کہ کر وہاں سے ایسا بھاگا کے پلٹ کر دوبارہ نہیں دیکھا “کمینو ….دکھا دی نہ تم نے اپنی اوقات ؟؟،،،،کیا اسی لئے مجھے بھائی بولتے تھے ؟ ہاۓ …مجھے ان دیووں کے پاس مرنے کے لیے چھوڑ گئے …اس حیدر سے تو مجھے کوئی امید ہی نہیں …اے اللہ ..تو ہی میری مدد کر ” وہ دونوں ہاتھ اٹھاۓ آسمان کو دیکھ رہا تھا “اے ..لڑکے …تو کس کے ساتھ ہے ؟ان تینوں کے ساتھ ؟..یا اس کے ساتھ ؟” ان میں سے ایک حیدر کو دیکھ کر بولا تھا جس نے جینز پر جیکٹ پہن رکھی تھی اور ہاتھوں میں بہت سارے بینڈز چڑھاۓ ..ایک ڈنڈا اپنے پیچھے چھپاۓ کھڑا تھا “میں…… اس لڑکے کے ساتھ ہوں ” وہ اطمینان سے بولا تھا جہاں وہ پانچوں چونکے تھے وہیں تیمور نے بھی جھٹ سے آنکھیں کھول کر اس کو دیکھا تھا “میرے کو تو لگا تھا کے ..تو بھی ان تینوں کی طرح بھاگ جائے گا …لیکن تیرے پاس تو جگرا ہے رے …..” لمبے بالوں والا اپنے پیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے بولا تھا “میرے دوست کو جانے دو …اس کی کوئی غلطی نہیں ہے ” “ارے کیسے کوئی غلطی نہیں ؟؟…ہمارے بھائی کو مار مار کر گال سوجا دیے اس نے ” موٹی توند والا چیخ کر بولا تھا ” حیدر نے اپنی چیٹخنی انگلی کان میں ڈال کر صاف کیا تھا “بہرہ نہیں ہوں میں .. آہستہ بولو …اور تمہارے اس بھائی نے فالتو میں میرے دوست کو مارا تھا ” وہ بے خوفی سے بول رہا تھا “تو یہ کون سا معصوم ہے ..اس نے بھی تو پلٹ کر مارا تھا نہ ؟” ایک چمک کر بولا تھا “تو کیا فضول میں مار کھاتا رہتا ؟؟” حیدر نے اس کو گھورا تھا “خیر …ہم اس کو نہیں چھوڑ سکتے ” ایک سنجیدگی سے بولا تھا “کیا کرو گے تم لوگ اس کے ساتھ ؟؟” حیدر بھی اسی سنجیدگی سے بولا تھا “ہم اس کا سر کاٹ کر چوک پر لٹکاۓ گے…اور باقی جسم کے کباب بناۓ گے “تیمور سن کھڑا رہ گیا تھا “یا اللہ ..بچا لے مجھے …ورنہ یہ موٹے کباب بنا لیں گے میرے ” وہ بلند آواز سے دعا کرنے لگا تھا “دیکھو میری بات سنو …غلطی کسی بھی ہو ..اس بات کو یہیں ختم کرتے ہیں..اس کو …..!!!! ” ” کیسے کرلے ختم .؟؟ ہیں ….کیسے کرلے ؟؟؟” پہلا والا پھر سے چیخ کر بولا تھا ” تجھے کہا ہے نہ کے آہستہ بول …سمجھ میں نہیں آتی تیرے ؟؟” حیدر اس کی جانب مڑ کر غصے سے بولا تھا ” اوے ..یہ غصہ کس کو دکھا رہا ہے ؟ نیچے کر آنکھیں …نیچے کر ” وہ پھر سے چیخ کر بولا تھا اور حیدر کی سمجھ نہیں آ رہا تھا کے کیا کرے اس نے اپنے پیچھے چھپاۓ ڈنڈے کو سامنے کیا تھا ” سالے …اب تو چیخ کر دکھا …سر پھاڑ دوں گا میں تیرا …اب چیخا تو …خاموش کھڑا رہ …انگلی رکھ منہ پر ” حیدر اس کو غصّے سے دیکھتے ہوئے بول رہا تھا وہ سب اتنے لمبے تھے کے حیدر کو اپنی گردن اٹھا کر بولنا پڑ رہا تھا پھر وہ لمبے بالوں والے کی طرف مڑا تھا ” لیڈر کون ہے تمہارا ؟”حیدر نے سنجیدگی سے اس سے پوچھا تھا جس پر وہ زور زور سے ہنسنے لگ گیا تھا جس کو دیکھ کر وہاں اس کے ساتھی بھی زور زور سے ہنسنے لگے تھے ” “اوے …یہ ہی ہے ہمارا ..لیڈر …جس کو تو سر پھاڑنے کی دھمکی دے رہا ہے ..ہاہاہا …” حیدر جہاں کا تہاں کھڑا رہ گیا تھا ” “حیدر کے بچے …بنا بنایا کام خراب کر دیا تونے ….اب میرے ساتھ تیرا سر بھی اس چوک پر لٹکے گا ” تیمور اس کو گھورتے ہوئے بولا تھا حیدر دوبارہ اس موٹی توند والے کی جانب گھوما تھا “آئم سوری یار …معاف کرنا …وہ نہ میرے کان میں کچھ مسئلا ہے ..جب کوئی اونچا بولتا ہے تو میرا کان درد کرنے لگتا ہے …اس لئے مجھے تھوڑا سا غصہ آگیا …لیکنمیں کہ رہا تھا کے …… بات کو یہی پر ختم کرتے ہیں آئندہ اگر اس نے دوبارہ تمہارے بھائی پر ہاتھ اٹھایا ..یا کسی کے بھی ساتھ یہ حرکت کی تو …میں خود اس کو تمہارے پاس چھوڑ کر جاؤ گا ..پھر تم بھلے سے اس کے تکے .کباب …جو دل کرے بنا لینا …لیکن ابھی جانے دو اس کو “حیدر کو خود پر حیرت ہو رہی تھی کے وہ اتنی بےخوفی سے کیسے بول رہا ہے موٹی توند والا اس کو پرسوچ نظرو سے دیکھ رہا تھا ” “ایسے کیسے جانے دے ؟ آج تو ہم اس کے کباب بناۓ گے ” لمبے بالوں والا چٹخارے لیتے ہوئے بولا تھا تیمور کو دیکھ دیکھ کر اس کے منہ میں پانی آرہا تھا اور اس بیچارے کا دل بند ہوا جا رہا تھا جبھی ان کے لیڈر نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا تھا ” ٹھیک ہے …آج پہلی اور آخری بار اس کو جانے دے رہے ہیں …لیکن اگلی بار اس نے یہ حرکت کی تو اس کے ساتھ تمہارا بھی پھر قورمہ بنے گا …سمجھ گئے نہ ؟؟” اب وہ قدرے آہستہ آواز میں بولا تھا “یہ کیا بول رہے ہو باس ؟؟” سب سے چھوٹے قد والے کو پسند نہیں آیا تھا اپنے باس کا فیصلہ “چپ کرو تم …اور گاڑی میں بیٹھو …” باس نے اس کو جھڑک دیا تھا اور پھر وہ حیدر کے پاس آیا تھا اور اپنی جیب میں سے ایک کالے رنگ کا چھوٹا سا کارڈ نکال کر اس کے سامنے کیا تھا ” میں تم کو اپنی گینگ میں شامل کرنا چاہتا ہوں ..کیوں کے تمہارے اندر ..گنڈوں والے جراثم ہیں ..خیر اگر تمہارا ارادہ ہو تو مجھ کو فون کرنا یہ میرا کارڈ رکھ لو ..” حیدر نے اپنی ابرو اٹھا کر پہلے اس کارڈ کو دیکھا پھر باس کو ” معاف کرنہ یار …لیکن اتنا عظیم کام کرنے کا ..میں خود کو اہل نہیں سمجھتا ” ” چلو جیسے تمہاری مرضی …یہ کارڈ رکھ لو …جب بھی ضرورت پڑے ..بس مس کال مار دینا جگو بھائی کو ” حیدر نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے کارڈ پکڑ لیا تھا پھر وہ سب اپنے ہتھیار سمیٹ کر جیپ میں بیٹھ کر وہاں سے چلے گئے تھے تیمور کو یقین نہیں آ رہا تھا کے وہ بچ گیا ہے ..وہ جلدی سے جا کر حیدر کے گلے لگ گیا تھا “حیدر …میرے دوست …میرے بھائی …تو میری جان ہے …ان تینوں کو تو اللہ پوچھے گا …لیکن تونے میری جان بچا کر بڑا احسان کیا مجھ پر ..سچ میں .تو ہیرو ہے میرا ہیرو ..”تیمور اس کو بھینچے کھڑا تھا “ابے سالے ..تو بھائی ہے میرا …وہ موٹے تجھے مار کر تکا پارٹی کرتے ..اور میں یہاں سکون سے بیٹھا رہتا ؟ ایسا تو نہیں ہو سکتا نہ ؟ ” وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا اور یہ بات تو صرف حیدر ہی جانتا تھا کے ….اس کا ارادہ بھی ان تینوں کی طرح بھاگنے کا تھا …لیکن اس نے تیمور کی بات سن لی تھی جب وہ دعایں مانگ رہا تھا اب بات عزت پر آگئی تھی ..وہ کیسے خود کو ڈرپوک کہلوا لیتا ؟؟” “بجو …آپ کا فون کب سے بے چارہ اکیلے پڑا بجے جا رہا ہے …” وہ کچن میں کھڑی چاۓ بنا رہی تھی جبھی بازل اس کا فون لے کر آیا تھا زر نور نے برنر اوف کر کے اس کے ہاتھ سے موبائل لے کر نمبر دیکھا تھا ..کوئی انجان انٹر نیشنل نمبر تھا ” یہ پاکستان سے باہر سے کون فون کر رہا ہے مجھے ؟” اس نے حیران ہوتے ہوئے یس کر کے فون کان سے لگا لیا تھا “ہیلو ……..ہیلو . ..ہیلو کون ہے ؟………آواز آ رہی ہے تمہیں میری ؟؟ ……ہیلو ” “ارمان….بات کر رہا ہوں ” وہ فون بند کرنے لگی تھی جبھی ایک مردانا آواز اس کے کان سے ٹکرائی تھی “کون ارمان ؟؟ ،،…اور کس سے بات کرنی ہے ؟” وہ حیرت سے بولی تھی “میں ارمان خانزادہ ہوں …اور مجھے تم سے بات کرنی ہے …زرنور ہو نہ تم ؟” “میں تو زرنور ہی ہوں ..لیکن میں آپ کو نہیں جانتی ….شاید رانگ کال ہے مسٹر ” “میرا نہیں خیال ” وہ مسکرایا تھا ” کس …لئے فون کیا ہے ؟؟” “بتایا تو ہے کے تم سے بات کرنی ہے ” “لیکن میں تو تم کو نہیں جانتی نہ ” “تمہارے پیرنٹس مجھے ….اچھی طرح سے جانتے ہیں ” “کیا کہا ؟؟ مما پاپا جانتے ہے تمہیں ؟” اس نے حیرت سے کہا تھا وہ سوچ رہی تھی کے ایسا کون سا رشتہ دار ہے ان کا جو پاکستان سے باہر رہتا ہو “تم مجھے نہی جانتی تو ..اس کا مطلب تو یہ ہے کے تمہارے مما پاپا نے تمہیں میرے بارے میں کچھ بھی نہی بتایا ” “دیکھو …تم سیدھی بات کرو نہ ..میں کچھ نہیں جانتی ..تم بتاؤ کون ہو تم ..کہاں رہتے ہو ؟..اور کیا رشتہ ہے ہمارا اور تمہارا ؟؟ “زر نور کو تجسس ہو رہا تھا کے یہ کون سا نیا رشتہ دار ہیں ان کا ..جس کو وہ نہیں جانتی …اس کا ننھیال اور دھدیال اتنا بڑا نہی تھا صرف گنتی کے دو چار ہی رشتے دار تھے یا پھر عباد بخاری کے دوست تھے اس کا نام توزرنور نے پہلی دفع ہی سنا تھا “ویل میں کون ہوں …یہ تو میں بتا چکا ہوں ..اور رہا سوال یہ کے ..میرا کیا رشتہ ہے تم سے …یہ میں کل بتا دوں گا ..خیر چاہو تو اپنے پیرنٹس سے پوچ سکتی ہو ..چلو اب میں رکھتا ہوں …آج تو میں نے ایسے ہی فون کر لیا تھا ..لیکن اگلی دفہ تفصیل سے بات ہو گی اور ….معذرت تمہیں ڈسٹرب کیا …” “اچھا بات تو سنو….!” وہ جلدی سے بولی تھی “ہاں سناؤ …”اس نے کال نہیں کاٹی تھی “وہ پھول …وہ ریڈ روزیز کا بوکے …کیا تم ہی بھیجتے تھے ؟؟” وہ ہنسا تھا اس کی آواز کی طرح اس کی ہنسی بھی مسحور کن تھی “اگر تمہیں لگتا ہے کے ..وہ پھول میں نے بھیجے ہیں تو …تمہارا خیال ٹھیک ہے …وہ میں نے ہی بھیجے تھے …زارا خالہ اور عباد انکل کو سلام کہ دینا میری طرف سے …دوبارہ فون کروں گا میں …اللہ حافظ ” اس نے فون کاٹ دیا تھا ” اور زرنور موبائل ہاتھ میں پکڑے حیران سی کھڑی تھی ” کون ہے یہ آخر …جس کومیں نہیں جانتی ” جبھی اس کے فون کی میسج ٹون بجی تھی ..اس نے دیکھا تو سمیر کا میسج تھا “یہ کیوں میسج کر رہا ہے اب ؟” اس نے کھول کر دیکھا تھا ” اسلام و علیکم ..کیسی ہیں آپ زرنور ؟۔۔اگر آپ مجھ میں انٹرسٹڈ نہیں تھی تو مجھ سے بات کر کے کلئیر کر سکتی تھی ..وہ سب کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور میں کوئی اتنا تنگ نظر نہیں ہوں جو آپ کے انکار کو آنا کا مسئلا بنا لیتا …خیر آپ پریشان نہ ہو …میری مدر آپ کے پیرنٹس سے معذرت کر لیں گی اس رشتے سے …لیکن مجھے اپ کے انکار کرنے کا طریقہ بے حد پسند آیا ..میری دعا ہے کے جس خوش نصیب کو آپ پسند کرتی ہیں …وہیں آپ کا نصیب بنے …آمین ” “یہ تو بہت سمجھدار ہے ..اور میں فضول میں اس سے ڈر رہی تھی …”وہ مسکرا دی تھی ….چلو ایک ٹینشن تو ختم ہوئی ..”