“اوے ..تیمور ..چل ٹھیک کر لے اپنا منہ ..اتنی دفع تو تجھے سوری بول دیا …اب کیا ناک رگڑ کر معافی مانگو ؟؟” تیمور نے ایک غصیلی نظر حارث پر ڈالی تھی اور پھر دوبارہ رخ موڑ لیا اشعر اور حارث نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئی اشارہ کیا تھا “اچھا میری بات سن “اشعر نے تیمور کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا جس کو اس نے جھٹک دیا تھا “مجھے تم لوگو کی کوئی بات نہیں سننی …دفع ہو جاؤ یہاں سے ..سچ میں یار آج میری جان چلی جاتی وہ موٹے میرا سر کاٹ کر چوک پر لٹکا دیتے …میرے کباب بنا لیتے …اور تم لوگ مجھے وہیں مرنے کے لئے چھوڑ کر بھاگ گئے ” وہ غصّے سے بولا تھا ” بھلا ہو اس حیدر کا جس نے میری جان بچائی اور جس کی وجہ سے میں یہاں زندہ بیٹھا ہوں ” وہ ان سب کو گھورنے کے بعد حیدر کی طرف اشارہ کر کے بولا تھا جو ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر گردن اکڑا کر بیٹھا تھا “یہ بات تو دیکھ تو بھی جانتا ہے کے ..اگر ہم وہاں سے نہیں بھاگتے تو ..تیرے ساتھ ہمارا سر بھی اس بولٹن چوک پر لٹکا ہوتا “ریاض کی بات پر اس نے ناراضگی سے اس کو دیکھا تھا ” فالتو میں لٹکا ہوتا …؟؟،..یہ حیدر ہے نہ ..جس طرح اس نے مجھے بچایا ..تم لوگوں کو بھی بچا لیتا “حیدر کی گردن کچھ اور اکڑی تھی “اچھا چھوڑ نہ یار ….چل معاف کردےاب ..یہ لے تیرے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں ..اب تو مان جا ” حارث نے کہتے ہوئے سچ مچ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دئے “میری بلا سے اب تم لوگ ناک سے لکیریں کھینچو ..یا سمندر میں چھلانگ لگا دو …میں اب تم لوگو سے بات نہیں کرنے والا ” تیمور منہ پھلا کر بولا تھا ” تو پھر کیا میرے ساتھ پروگرام کی شوٹنگ کے لئے بھی نہیں چلے گا ؟” “وہاں جانے سے کس نے منع کیا ہے ؟ میں نے تو صرف بات نہ کرنے کے لئے کہا ہے “اس نے رخ موڑے ہی جواب دیا تھا”او ..تیمور …چل معاف کردے ان کو ,..کب سے تو معافی مانگ رہے ہیں تجھ سے ..اوے تم لوگ چلو ایک ساتھ معافی مانگو اس سے ” حیدر بور ہو گیا تھا سپر ہیرو بنے اور گردن اکڑاۓ اکڑاۓ اس لئے وہ ان تینوں سے بولا تھا “آئم سوری یار ..پکا وعدہ آئندہ کبھی بھی تجھے اکیلا چھوڑ کر نہیں بھاگے گے ..تیرے ساتھ ہی مر جائے گے ..لیکن تجھے چھوڑ کر نہیں جائے گے “وہ سب ایک ساتھ بولتے باری باری اس کے گلے لگے تھے اشعر نے تو اس کا گال ہی چوم لیا تھا “اوے چل …پیچھے ہٹ ..لائبہ نہیں ہوں میں ” وہ اپنا گال رگڑتے ہوئے بولا تھا جس پر اشعر ہنس پڑا تھا “زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے …میں نے صرف حیدر کے کہنے پر تم سب کو معاف کیا ہے ..اور بیٹا بدلہ تو میں تم سب سے ضرور لوں گا ” “ہاہا ..جتنے چاہے بدلے لے لینا ” ان سب نے مل کر تیمور کو ایک ساتھ گلے لگا کر بھینچ لیا تھا “اوے …پیچھے ہٹو کمینو …میری جان نکل رہی ہے..یہ کون سا طریقہ ہے پیار کرنے کا ؟ ” وہ چیخے جا رہا تھا لیکن وہ لوگ اس کو چھوڑ نہیں رہے تھے بے تحاشا ہنسے جا رہے تھے —- —- —- “مناہل …اگر تمہیں میرا لیپ ٹاپ چاہیے تھا تو تم مجھ سے پوچھ کر لے لیتی ..وہاں میں سارے کمرے میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پریشان ہو گیا اور تم یہاں بچوں والے کارٹون دیکھ رہی ہو؟ ” حارث لاؤنج میں داخل ہوتے مناہل کو دیکھ کر بولا تھا جو نیچے کار پیٹ پر سوفے سے ٹیک لگاے گود میں حارث کا لیپ ٹاپ رکھے بیٹھی تھی جس میں وہ باربی کی مووی دیکھ رہی تھی اس کے ساتھ ہی دو چپس کے پیکٹ اور سوفٹ ڈرنک کا کین رکھا تھا مناہل نے لیپ ٹاپ سے نظرے ہٹا کر حارث کو دیکھا تھا جو وائٹ شلوار قمیض میں ہمیشہ کی طرح سمارٹ اور ہینڈسم لگ رہا تھا “پہلی بات تو یہ کے ..کیا میں کوئی دادی اماں ہوں جو باربی کی مووی نہیں دیکھ سکتی ؟ اور دوسری بات …میں کیوں تم سے پوچھ کر لیتی لیپ ٹاپ ؟ تم بھی تو بغیر پوچھے میری چاۓ پی جاتے ہو میری چپس کھا لیتے ہو میں کچھ کہتی ہوں کیا تمہیں ؟” ” یار میں تو کہ رہا تھا کے ..وہ میرا لیپ ٹاپ ہے .. تمہیں مجھ سے پوچھ کر لینا چاہیے تھا …ویسے بھی جب کسی کی چیز لیتے ہیں تو ..اس سے پوچھ کر لیتے ہیں “حارث نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کشن اپنی گود میں رکھتے ہوئے کہا تھا ” اللہ …حارث ..یہ تم نے ہمارا تمہارا کہاں سے سیکھ لیا ؟ کتنے تنگ دل اور خود غرض ہو گئے ہو تم ..عمیر بھائی ..سب سے پہلے تو آپ اپنے اس بھائی کو سٹریچر پر لٹا کر اس کا دل نکالے کتنا چھوٹا ہو گیا ہے ” مناہل نے حارث کو گھورنے کے بعد عمیر سے کہا تھا جو سامنے سنگل صوفے پر بیٹھا ٹاک شو دیکھ رہا تھا “میرا دل تو صرف چھوٹا ہوا ہے ..لیکن تمہارا دل تو کالا سیاہ پڑ چکا ہے کالا سیاہ ” حارث نے اس کے پاس پڑا چپس کا پیکٹ اٹھاتے ہوئے کہا تھا جس کو اس نے فورآ ہی جھپٹ لیا تھا “یہ میری چپس ہے ” مناہل نے تیز نظرو سے اس کو دیکھا تھا ” دیکھا …دکھا دیا نہ تم نے اپنا کالا دل ہونے کا صبوت؟ تم مجھے اپنی پچاس روپے کی چپس دینے کو تیار نہیں ..تو پھر میں کیوں تم کو اپنا بیس ہزار کا لیپ ٹاپ دے دوں ؟” حارث نے اس کی گود میں پڑا لیپ ٹاپ جھپٹ لیا تھا ” واپس کرو حارث …مجھے مووی دیکھنی ہے ” مناہل نے دوبارہ اس کے ہاتھ سے جھپٹنے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے ہاتھ پیچھے کر لیا تھا “بھائی دیکھ رہے ہیں آپ اس کے ڈبل اسٹینڈرڈ کو ؟” حارث نے اس کو گھورتے ہوئے کہا تھا “تم ” مناہل نے غصّے سے کشن کھینچ کر حارث کے منہ پر مارا تھا “مناہل کی بچی ” حارث بھی غصے سے اس کی جانب بڑھا تھا ” عمیر بھائی ….” وہ زور سے چیخی تھی “انف گائیز …کیا ہو گیا ہے تم دونوں کو ؟ کیوں لڑ تے ہو تم لوگ اتنا ؟اشنہ اور زین سے ہی کچھ سیکھ لو …وہ بھی اتنا نہیں لڑتے ہوں گے ..جتنا کے تم دونوں ..جب دیکھو ایک دوسرے کے پیچھے پڑے رہتے ہو چاہے لڑائی کی کوئی وجہ ہو یا نہ ہو …..تم دونوں ڈھونڈ ہی لیتے ہو “عمیر نے غصّے سے ان دونو کو دیکھا تھا اور اس کے ایک دم سے بولنے پر وہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ پر شرمندہ ہو گئے تھے “تھوڑی دیر کے لئے میں یہاں بیٹھا تھا تاکے سکون سے نیوز دیکھ لوں ..لیکن تم دونوں …ابھی تک ٹین ایجرز سمجھتے ہو خود کو ؟..حارث …دو مناہل کولیپ ٹاپ .. “عمیر نے حارث سے کہا تھا”لیکن بھائی ….!!” میں کیا کہ رہا ہوں تم سے حارث ؟” وہ اپنی بات پر زور دے کر بولا تھا “اس نے غصّے سے مناہل کو لیپ ٹاپ دیا تھا”ٹھیک ہے اب میں لڑتے ہوئے نہ دکھوں تم دونوں کو ” عمیر کہتے ہوئے دوبارہ صوفے پر بیٹھ کر ریموٹ سے چینل سرچ کرنے لگا تھا ” بھائی …” ” اب کیا ہے حارث ؟” “بھائی ..لیپ ٹاپ تو لے ہی لیا ہے مجھ سے ..اب ….چپس تو دلا دیں ” ” مناہل دے دو اس کو چپس ” عمیر نے مناہل سے کہا تھا جو دوبارہ کارپیٹ پر بیٹھ کر لیپ ٹاپ آن کر چکی تھی اس نے تیز نظرو سے حارث کو گھورتے ہوئے نہ چاہتے ہوئے بھی چپس کا ادھ کھایا پیکٹ اس کو دیا تھا جس کو حارث نے جھپٹ لیا تھا “شرم کرو مناہل ..ایک تو تم نے آدھا پیکٹ مجھے دیا ہے ..اس پر بھی نظر لگا رہی ہو ” “اب تم لے کر دکھاؤ ..مجھ سے اپنا لیپ ٹاپ ” مناہل کے دھمکی دینے والے انداز پر اس نے قہقہ لگایا تھا —- —– —- ” زر نور نے چاۓ کا کپ لا کر زارا بخاری کے سامنے رکھا تھا جو کسی گہری سوچ میں گم تھی “کیا ہوا ہے مما ؟…کیا سوچ رہی ہیں آپ ؟” “آں …کچھ نہیں ..”وہ جیسے چونکی تھی “کچھ تو ہوا ہے مما ..کیوں کے آپ ایسے تب ہی بیٹھتی ہیں ..جب کچھ سوچ رہی ہوتی ہیں ” وہ ان کے سامنے ہی بیٹھ گئی تھی ” آج ….مسز یزدانی کا فون آیا تھا ” “تو ؟؟ کیا وہ آنے کے لئے کہ رہی ہیں ؟” زر نور نے انجان بن کر پوچھا تھا “نہیں..لیکن وہ ” “تو پھر کیا ہوا مما ؟؟” …انہوں نے…انہوں نے تمہارے اور سمیر کے …..رشتے سے معذرت کر لی ہے “وہ گہری سانس لے کر بولی تھی ” اس کا دل خوشی سے بھنگڑے ڈالنے کو چاہ رہا تھا یہی بات تو وہ سننا چاہ رہی تھی لیکن وہ اپنی امڈ آنے والی خوشی کو کنٹرول کیے سپاٹ چہرے کے ساتھ بیٹھی رہی “تو کیا ہوا مما ؟؟ اس میں اتنا سیڈ ہونے والی کیا بات ہے ؟” وہ اٹھ کر ان کے پاس آگئی تھی “تمہارے لئے یہ پرپوزل بلکل پرفیکٹ تھا زری ..” وہ اداسی سے بولی تھی “اوفوہ ..مما ..چھوڑے نہ اس بات میں بھی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوگی ..اور وہ سمیر ..وہ تو مجھ میں انٹرسٹڈ ہی نہیں تھا ” تمہیں کیسے پتا “زارا بخاری نے چاۓ کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا تھا “میں نے خود اسے ایک فارنر لڑکی کے ساتھ ڈیٹ مارتے …آئی مین .ڈنر کرتے دیکھا ہے “تو یہ کوئی اتنی بڑی بات تو نہیں ہے ..وہ ساری زندگی باہر رہا ہے ..اب ظاہر ہے ماحول کا کچھ تو اثر ہوگا نہ ؟” انہوں نے گھونٹ بھرتے ہوئے کہا تھا اور زرنور جیسے چونکی تھی “چھوڑیں مما …سمیر کا ٹوپک اب بند کرتے ہیں …اور مجھے یہ بتاۓ کے ہمارے ایسے کون سے رشتے دار ہیں جو پاکستان سے باہر رہتے ہو “”پاکستان سے باہر ؟؟ …نہیں ..ایسے تو کوئی بھی نہیں ہے ..لیکن تم کیوں پوچھ رہی ہو ؟ وہ حیرت سے بولی تھی ” مما کوئی ایک دو تو ہوگے نہ ؟” ” نہیں بھئی ..شہر سے باہر ضرور ہونگے لیکن پاکستان سے باہر …میرا نہیں خیال کے کوئی ہے ” “لیکن …اس نے تو کہا تھا کے ….وہ ہمارا رشتے دار ہے ..اور ہم بھی اس کو جانتے ہیں ..انفیکٹ مما …وہ تو آپ کو خالہ کہ رہا تھا ” ” وہ کون بھئی ؟؟ کس نے کہا ہے تم سے یہ سب ؟” “ارمان…ارمان نے کہا ہے مما ….اس نے کال کی تھی مجھے …اور جب میں نے پوچھا تو کہا کے …وہ اٹلی میں رہتا ہے “ارمان ؟”وہ جیسے چونکی تھی “کیا نام بتایا اس نے پورا ؟” “ارمان خانزادہ ” زارا بخاری فورآ سیدھی ہوئی تھی اور حیرت زدہ سی زر نور کو دیکھ رہی تھی “کیا ہوا مما ؟ اتنی سرپرائزڈ کیوں ہو گئی آپ ؟ …”اس نے ان کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلایا تھا “میں نے تو اس سے پوچھا بھی تھا کے ہمارا اور تمہارا کیا رشتہ ہے ؟..لیکن اس نے کچھ بتایا ہی نہیں ..کہا کے کل بتاۓ گا .اور چاہو تو اپنی مما سے پوچھ سکتی ہو ..اب آپ بتاۓ مما ..ہے کون یہ ارمان ؟؟”اب وہ سینٹر ٹیبل پر رکھے ہوئے میگزین ترتیب سے رکھتی کہ رہی تھی “زری ..تمہیں کنفرم ہے کے اس نے اپنا نام ارمان ہی بتایا تھا ؟”آ فکورس مما ..مجھے پتا ہے اس نے اپنا نام یہی بتایا تھا زارا بخاری حیرت سے اس کو دیکھ رہی تھی جو نیچے کارپیٹ پر گھٹنو کے بل بیٹھی تھی “مما اب بتا بھی دے کے کون ہے وہ ؟” ” تم نے پوچھا نہیں اس سے ؟” “کہ تو رہی ہوں کے ..میں نے پوچھا تھا اس سے ..لیکن اس نے کہا کے کل بتاۓ گا ..اور آپ کو پتا ہے مما …وہ جو آپ مجھ سے پوچھ رہی تھی کے ..زری تمہیں یہ پھول کون بھیجتا ہے تو …وہ بھی اس نے ہی بھیجے تھے اور ہاں …وہ تو آپ کو خالہ بھی کہ رہا تھا ..لیکن آپ کی تو کوئی بہن ہی نہیں ہے نہ ؟؟” اس نے اپنا کام ختم کر کے زارا بخاری کو دیکھا تھا اور دوسرے ہی لمحے وہ چونکی تھی “کیا ہوا ہے مما ؟؟ کیوں رو رہی ہیں آپ ؟” وہ جلدی سے اٹھ کر ان کے پاس صوفے پر آ کر بیٹھی تھی جن کا چہرہ آنسووں سے بھیگا ہوا تھا “نہیں ..کچھ نہیں ہوا ” انہوں نے اپنے آنسوں صاف کے تھے ” “تو پھر آپ رو کیوں رہی ہیں مما ؟..رکیں میں پانی لے کر آتی ہوں ” وہ پریشانی سے کہتی باہر جانے لگی تھی لیکن دروازے میں کھڑے عباد بخاری کو دیکھ کر چونکی تھی ” ارے ..السلام و علیکم پاپا آپ کب آے ؟” وہ کہتے ہوئے ان کے پاس آئی تھی اور ان کے ہاتھ سے بریفکیس لیا تھا “بس ابھی ابھی ” “چلیں آپ فرش ہو جائے ..جب تک میں آپ کے کے لئے سٹرونگ سی چاۓ بنا کر لاتی ہوں ” وہ کہتے ہوئے کچن کی جانب چلی گئی تھی اور عباد بخاری کی آواز پر زارا بخاری بھی چونکی تھی انہوں نے سر اٹھا کر عباد بخاری کو دیکھا تھا اور دوسرے ہی لمحے وہ جھٹکے سے اٹھ کر ان کے پاس آئی تھی “عباد ..عباد آپ کو پتا ہے .ار ..ارمان کا فون آیا تھا “وہ آنسوں بھری آنکھوں سے مسکراتے ہوئے جوش سے بولی تھی “میں نے سب سنا ہے زارا …” ان کے چہرے پر بھی آسودہ سی مسکراہٹ تھی “دیکھا نہ آپ نےعباد ..ارمان .ارمان ..ہمیں بھولا نہیں ہے …اسے سب یاد ہے اور ..اور عدیل نے بھی اس سے کچھ نہیں چھپایا ..”خوشی سے ان کی آواز کانپ رہی تھی “میں نے کہا تھا نہ تم سے کے ..زرنور کے لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ..خدا نے ہماری بیٹی کا نصیب اس کے ساتھ ہی لکھا ہے وہ ان کے آنسوں صاف کرتے ہوئے بولے تھے _ __ وہ ایک متوسط علاقہ تھا چھوٹے چھوٹے گھروں والا لیکن وہاں کی گلیاں کافی کشادہ تھی اور علاقہ بھی قدرے صاف ستھرا تھا ایسے میں ایک نیوز چینل کی ڈی ایس این جی وین اور ایک جیپ گلی کے آخر میں میں بنی اس پراسرار عمارت کے سامنے آ کر رکی تھی جو خاصی خستہ ہال اور بوسیدہ سی نظر آتی تھی ایک گہری جامد خاموشی تھی جو اس عمارت اور پورے علاقے پر طاری تھی رات کے کوئی دو سوا دو بجے کا وقت تھا ایسے میں جھینگروں کے بولنے کی آوازیں ماحول کو خاصا خوفناک بنا رہی تھی حیدر بیگ کندھے پر ڈالتا جیپ سے نیچے کھودا تھا “اوے ..یہ کہاں لے آے تم لوگ مجھے ؟” تیمور پریشانی سے اندھیرے میں ڈوبے اس علاقے کو دیکھ رہا تھا ریاض بھی ڈرائیونگ سیٹ سے نیچے اتر آیا تھا اس نے اپنی وائٹ ڈریس شرٹ اتار کر بیگ میں رکھ لی تھی اندر اس نے بلیک کلر کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی جس پر “کوئی تو ہے ” لکھا تھا اس کو دیکھ کر تیمور نے بھی اپنی جیکٹ اتار دی تھی ..ان سب نے ہی وہ ٹی شرٹ جینز کے اوپر پہنی ہوئی تھی وین میں سے تین لڑکے اترے تھے دو کیمرہ مین اور ایک ہیلپر کے طور پر ساتھ آیا تھا جس نے بیک کیمرہ رہنا تھا علاقے کے لوگوں سے پوچھ تاچ کر کے اور اس عمارت کی ہسٹری وہ لوگ شام کو ہی معلوم کر کے چلے گئے تھے جس کے مطابق تو یہ عمارت پہلے ایک مقامی سینٹر ہوا کرتا تھا جس کو ایک بیوہ عورت چلا رہی تھی .جہاں دن میں کئی لڑکیاں گھرداری ..کھانا پکانا ..اور سینا پیرونا سیکھتی تھی علاقے میں صرف ایک ہی سینٹر ہونے کی وجہ سے کافی چلتا تھا اور اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی تھی لیکن کسی نے حسد میں آ کر اس سینٹر میں آگ لگوا دی تھی ..اپنی سالوں کی محنت کو جلتا دیکھ کر اس عورت کو کافی گہرا صدمہ ہوا تھا پھر بعد میں اس کوپتا چل گیا تھا کے اس سینٹر کو اس کے چھوٹے بھائی نے ہی جلایا تھا غصے میں اس بیوہ عورت نے دھوکے سے اپنے بھائی کو اسی سینٹر میں بلا کر قتل کر دیا تھا اور پھر خود بھی کچھ عرصے بعد ہارٹ اٹیک کے باعث یہ دنیا چھوڑ گئی لیکن اب لوگوں کا کہنا تھا رات کو اس عمارت میں سے عجیب و غریب سی آوازیں آتی ہیں ..جیسے اس عورت کا بھائی منگلو گانا گا رہا ہو یا کبھی رو رہا ہو ..اس لئے لوگوں پر ایک خوف سا طاری تھا اور وہ سب رات کو بارہ بجے سے پہلے ہی اپنے گھروں میں چلے جاتےاور تو اور دن میں بھی کبھی اس عمارت کے اس پاس نہیں جاتے تھے کیمرہ مین سلمان نے لوہے کی بھاری راڈ سے دروازے پر لگا بڑا سا تالا دو تین ضربوں میں توڑ دیا تھا — — — زرنور ایک چھوٹی ٹرے میں دو نوڈلز کے باؤل رکھ کر لاؤنج میں آئی تھی جہاں بازل سوفے پے نیم دراز ٹی وی دیکھ رہا تھا “بازل ..ریموٹ دو مجھے ” اس نے ٹرے ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا تھا “بجو یار .ابھی تنگ نہیں کرے …میں مووی دیکھ رہا ہوں ” ” مجھے بھی تو ڈرامہ دیکھنا ہے “تو آپ اپنے کمرے میں دیکھیں نہ ” ” میرے روم کی سکرین خراب ہو گئی ہے ..پتا نہیں کیا ہو گیا ہے آن ہی نہیں ہو رہی ہے .”اس نے ایک باؤل بازل کو پکڑاتے ہوئے کہا تھا “لیکن بجو ..یہ مووی مجھے بے حد پسند ہے …اور آج تو اتنے دنوں بعد لگی ہے .پلیز دیکھنے دے نہ ” وہ معصومیت سے بولا تھا “اچھا جاؤ ..تم میرے لیپ ٹاپ میں دیکھ لو ” اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا تھا ” ہیں ..سچی ؟؟..میں دیکھ لوں لیپ ٹاپ میں ؟” وہ خوشی سے بولا تھا “ہاں جاؤ دیکھ لو …لیکن صرف یہ مووی …اس کے علاوہ اور کچھ نہیں …سمجھ گئے نہ ؟” “ہاں ہاں سمجھ گیا ” وہ ریموٹ زرنور کو دیتے ہوئے اپنا نوڈلز کا باؤل اٹھا کر اس کے کمرے کی جانب بھا گا تھا بازل کے پاس خود کا لیپ ٹاپ یا موبائل نہیں تھا اور ایسا کبھی شازر و نادر ہی ہوتا تھا کے زرنور اس کو اپنا لیپ ٹاپ استعمال کرنے دے —- —– —– “باہر سے وہ عمارت جتنی خستہ حال دکھتی تھی اندر سے اس کی حالت اس سے بھی زیادہ خراب تھی وہ لوگ ایک بڑے سے ہال کمرے میں کھڑے تھے جہاں جا بجا کچرا دھول مٹی .جلا ہوا فرنیچر .ٹوٹے ہوئے دروازے کھڑکیاں .رنگ اڑی دیواریں اور ہر جگہ لٹکتے مکڑی کے جالے تھے ” اس بابا نے کیا کہا تھا …کے کتنے سال پرانی عمارت ہے یہ ؟ ” تیمور نے کیمرہ سیٹ کرتے فہد سے پوچھا تھا “یہی کوئی دس پندرہ سال پرانی ” ” ہم ..تو مطلب اتنے عرصے سے اس عورت کا بھائی منگلو یہاں پر رہ رہا ہے ..اور اس سست آدمی سے اتنا نہیں ہوتا کے یہاں کی صفائی ہی کر لیا کرے ” تیمور نے نہ پسندیدگی سے ارد گرد پھیلی گندگی کو دیکھا تھا “اوے …یہ کیا بول رہا ہے ؟ ابھی منگلو کی روح آ کر تیرا کام تمام کر دیگی ” ریاض نے اس کو گھرکا تھا “کیا تم لوگ تیار ہو ؟ میں ریکارڈنگ آن کر لوں ؟” سلمان نے ان تینوں سے پوچھا تھا “ہاں ٹھیک ہے ” ہیلپر جاثم نے ان کی شرٹسس میں مائک لگا دئے تھے ریاض اپنے بال ٹھیک کرتا کیمرے کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا “سٹارٹ ؟؟” اس نے فہد اور سلمان سے پوچھا تھا فہد اس کے سائیڈ پوز پر کھڑا تھا اور سلمان اس کے سامنے ” ہاں ” ان دونوں نے اس کو اشارہ کر کے کیمرہ آن کر لیا تھا ” السلام و علیکم ناظرین ..”وہ کیا ہے” …سوری “کوئی تو ہے” …کی ٹیم کے ساتھ میں ہوں آپ کا ہوسٹ …ریاض چوہدری ..اور یہ ہیں میرے ساتھ تیمورحمدان “ریاض نے اپنے ساتھ کھڑے تیمور کی طرف اشارہ کیا تھا جس نے سر تک ہاتھ لے جا کر سلام کیا تھا “اوے حیدر ..یہاں آ ” اس نے دبی آواز میں حیدر کو بلایا تھا جو ہاتھ کی پشت سے دیواریں بجا بجا کر چیک کر رہا تھا “اور وہ ہیں ہمارے ساتھ ..”حیدر علی ” فہد نے کیمرہ گھما کر حیدر کو فوکس کیا تھا وہ تیمور اور ریاض کے بیچ میں آ کر کھڑا ہو گیا تھا “اسلام و علیکم ناظرین …کیسے ہے آپ ..اس کمینے نے میرا آدھا تعارف کروایا ہے ..یہ ہمیشہ میرا ایک نام کھا جاتا ہے ..خیر میں بتاتا ہوں …میرا پورا نام ہے ..حمزہ حیدر علی….آپ سوچ رہے ہوں گے کے ..باقی کے دونوں کہاں ہے ؟ تو پریشان نہ ہو ..کیوں کے یہ تینوں نام میرے ہی ہے ..وہ کیا ہے نہ کے ..امی میرا نام حمزہ رکھنا چاہتی تھی ..ابو حیدر ..اور دادا علی ..اس لئے یہ تینوں ہی نام میرے ہیں اور مجھے بے حد پسند بھی ہیں اب آپ مجھے کچھ بھی کہ سکتے ہیں ان تینوں ناموں کے علاوہ بھی …اور ہاں …اپنا سر نیم تو میں نے بتایا ہی نہیں ..میرا سر نیم …..!!!!” تیمور نے زور سے اس کو کہنی ماری تھی ” چپ کر جا …تیرا رشتہ لے کر نہیں آۓ ہیں ہم ” اس نے حیدر کو گھورا تھا “کیا ہو گیا ہے یار . .تم دونوں کو ؟؟ …ریکارڈنگ ہو رہی ہے ” ریاض نے ان دونوں کو کہا تھا “کوئی مسئلہ نہیں ہے …یہ پروگرام ابھی لائیو نہیں جا رہا …میں بعد میں ایڈیٹنگ کر کے نکال دوں گا ” پیچھے سے جاثم بولا تھا “چلو خیر ہے …جی تو ناظرین ..میں کہ رہا تھا کے “ریاض کیمرہ میں دیکھتے ہوئے بول رہا تھا ” یہ جگہ جو آپ دیکھ رہے ہیں جہاں ہم کھڑے ہیں ..یہ اس عمارت کا وہ ہال کمرہ ہے ..جو آج سے تقریبآ دس بارہ سال پہلے ایک مقامی سینٹر ہوا کرتا تھا ..” پوری کہانی سنانے کے بعد ریاض بولا تھا ” جی تو ناظرین ..جیسے کے میں نے کہا کے ..منگلو کے مرنے کے بعد اس کی روح آج بھی یہاں گھومتی پھرتی اور گانے گاتی نظر آتی ہے ..ایسا اس علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے ..تو ہم کوشش کریں گے کے منگلو کی روح سے بات ہو سکے ..تاکے ہم اس سے پوچھے کے ..جو باتیں اس کے بارے میں مشہور ہیں ..وہ واقعی میں سچ ہے یا صرف ایک ..افواہیں ہیں “ابھی ریاض اور کچھ کہنے ہی والا تھا کے پیچھے سے ایک شور بلند ہوا تھا جیسے کسی نے کوئی بھاری سی چیز نیچے فرش پر ماری ہو “کیا ہے وہاں ؟” وہ سب سیڑ ہیوں کی جانب بھاگے تھے “اوے ..کیمرہ ..میری طرف کرو ” حیدر نے سلمان سے کہا تھا جبکے فہد وہاں پڑے ایک لکڑی کے تختے کی کوریج کر رہا تھا “دیکھا ….دیکھا …آپ نے ناظرین …ہم آپ سے مذاق نہیں کر رہے تھے ..منگلو کی روح یہاں سچ میں ہے ..اور اس نے ابھی ابھی ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے ..آئیے ..ہم اس سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں ” حیدر کیمرے میں دیکھتا اپنے لہجے کو پراسرار بناتا .جوش سے بول رہا تھا ریاض نے اپنے بیگ سے گھوسٹ میٹر نکال لیا تھا جو اوول شیپ کا چھوٹا سا تھا “دیکھیں ..دوستو …اب میں اس میٹر کو آن کرنے لگا ہوں ..اب ہم یہاں منگلو کی روح سے کچھ سوالات پوچھیں گےاور …!!!” او ریاض …پہلے منگلو کو بتا تو دے کے “یس” اور “نو ” کے لئے کون سا بٹن پریس کرنا ہے ” حیدر ریاض کے کان میں گھس کر بولا تھا “ارے ہاں …اوے کیمرہ بند کرو ایک منٹ ..چلو رہنے دو ..تم ایڈٹ کر کے نکال دینا ….ہاں تو بھائی منگلو …پہلے میری بات سنو …” ریاض چھت کی طرف منہ کر کے بولا تھا “میں تم سے ایک سوال پوچھو گا .اگر تم نے اس کا جواب “یس” میں دینا ہو تو یہ گرین والا بٹن پریس کرنا اور اگر “نو” میں دینا ہو تو ” یہ ریڈ والا ” ٹھیک ہے سمجھ گئے نہ ؟؟ اب ہمارا کام نہ خراب کر دینا بلکل ٹھیک ٹھیک جواب دینا ” “ابے سالے ..تو اوپر دیکھ کر کیوں بول رہا ہے ؟ منگلو کیا تجھے پنکھے پر بیٹھا نظر آ رہا ہے ؟” حیدر نےریاض کے چہرے پر ٹارچ کی روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا “او ..ہٹا اس کو میرے منہ پر سے..میں تو اس لئے اوپر دیکھ کر بول رہا ہوں کے یہ جو روحیں ہوتی ہے نہ ..یہ زمین پر نہیں چلتی بلکے ہوا میں اڑتی رہتی ہیں اس لئے “ریاض نے کہتے ہوئے اپنا گھوسٹ میٹر اس لکڑی کے تختے کی قریب کر دیا تھا ” جی تو ناظرین دیکھا آپ نے ..کچھ دیر پہلے جو شور بلند ہوا تھامیرا خیال ہے کے وہ اسی تختے کا تھا کیوں کے آواز یہیں سے آئی تھی اور یہاں پر اس سے زیادہ بھاری چیز ہمیں نظر نہیں آرہی ہے ہم منگلو سے ..سوری اس کی روح سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں …منگلو صاحب ..کیا آپ یہاں پر موجود ہیں ؟ “ان سب کی نظریں اس گھوسٹ میٹر پر تھی جس کوریاض پکڑے کھڑا تھا “منگلو صاحب ..ہم آپ سے مخاطب ہیں …کیا آپ یہاں پر موجود ہیں ؟ ..اگر ہیں تو ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلاۓ “..”ابے گدھے ..احساس تو اس نے دلا دیا ہے ..اس کو بول آنسر دے آنسر ..” “جی منگلو صاحب ..ہمیں آنسر دیں..کیا آپ یہاں پر ہیں ؟ “میٹر بلکل خاموش تھا نہ اس میں سے ریڈ لائٹ جلی ..اور نہ ہی گرین …”مجھے تو لگتا ہے کے اس کو یہ میٹر استعمال کرنا نہیں آرہا جبھی تو جواب نہیں دے رہا ” تیمور نے اپنا خیال ظاہر کیا تھا ” ریاض مجھے دے یہ میٹر ..” حیدر نے کہتے ہوئے ریاض سے وہ میٹر لیا تھا “دیکھ بھائی مانگلو …!!” “ابےمانگلو نہیں ہے ..منگلو ہے منگو ,,,!!” ریاض نے اس کو کہا تھا ..”اچھا تو بھائی ..مانگلو …!!” “ابے پھر مانگلو…؟؟ بول تو رہا ہوں کے منگلو ہے اس کا نام منگ ..لو ..” ریاض اپنی بات پر زور دے کر بولا تھا ” “ابے بھئی …مجھ سے نہیں لیا جاتا اس کا نام ..اوے مانگلو ..ٹانگلو ..جو بھی ہے تو …. غور سے سن میری بات ..دوبارہ نہیں بتاؤ نگا ..یہ جو ریڈ بٹن ہے ..ہاں یہ چھوٹا سا .اس کو ….!!!اوے میری بات سنو تم لوگ ..یہ روحوں کا تو کوئی وجود ہی نہیں ہوتا یہ تو ہوا ہوتی ہے ہوا …اس کا ہاتھ تو اس میٹر سے آر پار ہو رہا ہوگا ..جبھی تو وہ بیچارہ جواب نہیں دےپا رہا ” حیدر ان سب کو دیکھتا بول رہا تھا “بات تو ٹھیک ہے ..لیکن یار پھر اس نے اتنا بھاری تختہ کیسے اٹھا لیا ؟یہ بھی تو سوچنے کی بات ہے نہ ؟” فہد نے کہا تھا “چلو یہ تو ہم اس سے ضرور پوچھیں گے ” ریاض نے دوسرا میٹر اپنے بیگ سے نکالا تھا جبھی سامنے دیوار پر لگی پینٹنگ کا جائزہ لیتے تیمور کو ایک جھٹکا لگا تھا اور وہ منہ کے بل زمین پر جا گرا تھا “تیمور …!!!” وہ سب چیختے ہوئے اس کی طرف بھاگے تھے سلمان اور فہد نے اپنے کیمرے اس کی طرف کر دیے تھے “انسان بن جا ..منگلو …تیرا اور میرا مذاق ہے کیا ؟ جو تونے مجھے دھکا دے دیا ..دوبارہ ایسی حرکت مت کر یو ” وہ غصّے سے بولتا اپنے کپڑے جھاڑتا اٹھ کھڑا ہوا تھا “دیکھا ناظرین آپ نے ..ابھی ابھی مانگلو کی روح نے ہمارے ساتھی کو جان سے مارنے کی کوشش کی ہے اس پر قاتلانہ حملہ کر کے “حیدر سلمان کے سامنے کھڑا بول رہا تھا “ہاں تو تیمور ..کیسا لگا تمہیں ؟..میرا مطلب ہے کے کیسا محسوس ہوا تم کو جب اس نے تمہیں دھکا دیا ..کیا اس نے تم کو ہاتھوں سے دھکا دیا ؟” حیدر تیمور کو دیکھتا سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا جس نے فورآ سے اپنے تاثرات بدلے تھے “میں تو …یہاں پر کھڑا ..اس پینٹنگ کو دیکھ …رہا تھا …جبھی کسی نے مجھے زور سے پیچھے سے.. دھکا دیا …لیکن اس وقت تو …میرے پیچھے کوئی بھی نہیں تھا “تیمور اس طرح سے بول رہا تھا کے جیسے اس کی سمجھ میں نہ آیا ہو کے اس ساتھ ہوا کیا ہے ؟” یار تم لوگ ٹھیک سے کرو نہ ..صاف لگ رہا ہے کے ایکٹنگ کر رہے ہو ..تھوڑے سے نیچرل ایکسپریشن تو دو ” جاثم ناراضگی سے بولا تھا “اچھا اچھا ٹھیک ہے …حیدر اور تیمور تم دونوں سلمان کے ساتھ اس کمرے میں جاؤ ..میں فہد کے ساتھ یہیں رکتا ہوں ” ریاض نے باری باری کہا تھا “یار یہ تو تین منزلہ عمارت ہے …اوپر نہیں جائے گے کیا؟ “حیدر نے پوچھا تھا “نہیں لاسٹ میں صرف سیڑہیوں کی کوریج کریں گے ..اوپر جانا رسکی ہو سکتا ہے ..کیا پتا اوپر منگلو اپنا پورا خاندان آباد کے بیٹھا ہو.. “جاثم نے منع کر دیا تھا ریاض اپنا میٹر لے کر اس پینٹنگ کے پاس پہنچ گیا تھا اور اس پر ٹارچ کی روشنی ڈال کر دیکھ رہا تھا جس میں دیکھنے لائق کچھ بھی نہیں تھا صرف ایک لڑکی کے چہرےکاا سکیچ تھا ساری تصویر بے رنگ تھی لیکن اس کی آنکھوں میں سے گرتے آنسوں کا رنگ گہرا سرخ تھا ریاض غور سے اس تصویر کو دیکھ رہا تھا جبھی ایک چھوٹا سا کینڈل اسٹینڈ آ کر ٹک کر کے اس کے سر پر لگا تھا ..اس کی چیخ بلند ہوئی تھی — — — — وہ ہلکے سے دروازہ کھولتی اندر داخل ہوئی تھی اور آہستہ سے چلتی اس کے بیڈ کے پاس آئی تھی جہاں وہ سر تک بلینکیٹ اوڑھے بے خبر سو رہا تھا مناہل نے اس کے چہرے پر سے بلینکیٹ ہٹایا تھا “حارث …حارث …” وہ اس کو آوازیں دے رہی تھی لیکن وہ شاید گہری نیند میں تھا “یہ اتنی جلدی سوتا تو نہیں ہے ..پھر آج کیسے سو گیا ؟” مناہل نے سائیڈ ٹیبل پر پڑے پانی کے گلاس میں س تھوڑا سا پانی لے کر چند چھینٹے اس کے چہرے پر مارے تھے لیکن وہ تب بھی نہیں اٹھا تھا بس ہلکا سا کسمسا کر کروٹ بدل کر سو گیا تھا “ڈھیٹ کہیں کا ” اس نے سوتے ہوئے حارث کو گھورا تھا پھر اپنا چہرہ اس کے کان کے قریب لے جا کر ہلکی آواز سے چیخی تھی تاکے آواز کمرے سے باہر نہ جاۓ “حا..ر..ث …اٹھو ….!!!” “کون ہے …کک کون ہے بھائی ؟؟؟…!!!” وہ ہڑ بڑا کر اٹھا تھا “شش ..چپ کرو بندر ..میں ہوں مناہل ” اس نے حارث کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کو چیخنے سے روکا تھا “وہ حیرت سے آنکھیں پھیلائیں اس کو دیکھ رہا تھا “یہاں کیا کر رہی ہو اس وقت ؟؟” وہ اس کا ہاتھ اپنے ہونٹوں پر سے ہٹاتے ہوئے حیرت سے بولا تھا”میرے ساتھ چلو تم ” “کہاں پر چلوں ؟؟” “میں تمہیں سمندر میں پھینکنے جا رہی ہوں …چلو میرے ساتھ ” وہ اس کو گھورتے ہوئے بولی تھی جو اس کو حیرت سے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا تھا “پاگل ہو گیا ہے تو حارث …پاگل ..صبح شام اس بھوتنی کو دیکھتا رہتا ہے ..اب تو وہ تجھے نیندوں میں بھی یہاں ناچتی ہوئی نظر آ رہی ہے ..سوجا …حارث سوجا ” وہ خود سے کہتا دوبارہ سے بلینکٹ اوڑھ کر لیٹ گیا تھا “افف …” مناہل نے اپنے سر پر ہاتھ مارا تھا اور پھر سے اس کا بلینکٹ کھنچا تھا “اٹھ جاؤ .حارث ….تم کوئی خواب نہیں دیکھ رہے …میں سچ میں کھڑی ہوں یہاں ” مناہل نے اس کے گال تھپتھپاۓ تھے “اس بھوتنی کو بھی چین نہیں ..پہلے میرا جینا حرام کیا ہوا تھا ..اب نیندیں حرام کرنے آگئی.. خود تو وہاں آرام سے سی رہی ہو گی ..اور یہاں اس کا بھوت میری نیند خراب کرنے پر تلا ہوا ہے “حارث نیندوں میں بڑ بڑایا تھا تب مناہل نے غصّے میں زور سے اس کے بال کھنچے تھے جس سے وہ چیخ پڑا تھا اس نے جلدی سے حارث کے منہ پر دوبارہ سے ہاتھ رکھا تھا ” آواز بند کرو اپنی …گلہ دبادونگی میں تمہارا …اگر دوبارہ چیخے تو ..” وہ اس کو تیز نظروں سے گھورتی ہوئی بولی تھی تب حارث نے اپنی آنکھیں رگڑ کر اس کو دیکھا تھا جو واقعی میں اس کے اوپر جھکی ہوئی کھڑی تھی “کیا ہوا ہے مناہل ؟.. اتنی رات کو یہاں کیا کر رہی ہو تم ؟وہ حیرت سے بولا تھا مناہل نے اپنا ہاتھ ہٹالیا تھا “مجھے نیند نہیں آ رہی …آئسکریم کھانے کا دل کر رہا ہے …اور جب تک کھاؤنگی نہیں ..مجھے نیندبھی نہیں آنے والی ..اس لئے میرے ساتھ چلو …اور کھلا کر لاؤ مجھے آئس کریم ” حارث نے پہلے گھڑی کو دیکھا تھا اور پھر اس کو ” پاگل تو نہیں ہو گئی ہو تم ؟ رات کا ڈیڑھ بج رہا ہے اور تم کو آئسکریم کھانے جانا ہے وہ حیرت سے چیخ پڑا تھا ” افوہ …!! آہستہ بولو …ابھی سب جمع ہو جائے گے یہاں پر “جاؤ جا کر سو جاؤ …میں کوئی نہیں جا رہا تمہارے ساتھ …اتنی رات کو آئسکریم کھانے جانا ہے پاگل کو …ہنہ ..” “اے ..یہ پاگل کس کو بول رہے ہو تم ؟ آئسکریم کیا پاگل کھاتے ہیں ..؟؟” ” ہاں تو اتنی رات کو کوئی پاگل ہی ہوگا جو آئسکریم کھانے جائے گا ..” “حارث میں کچھ نہیں جانتی ..مجھے بس آئسکریم کھانا ہے …لے کر چلو مجھے ” ” مناہل …جا کر سو جاؤ .تنگ مت کرو ..یہ کوئی وقت نہیں آئسکریم کھانے کا ..جاؤ اپنے کمرے میں ” وہ دونوں ہاتھ اپنی کمر پر جما کر کھڑی ہو گئی تھی ” تم ..چل رہے ہو …میرے ساتھ ؟ ” نہیں جا رہا ..کیا کر لوگی اب ؟؟” سیریسلی حارث …تم مجھ سے ضد کر رہے ہو ؟؟”یا اللہ …میں کیا کروں اس ضدی چڑیل کا ؟؟؟..نہ جانے کون بیٹھا ہوگا تمہارے لئے اس وقت اپنا آئسکریم پارلر کھول کر حارث اس کو گھورتے ہوئے بلینکٹ ہٹا کر اٹھ کھڑا ہوا تھا کیوں کے جانتا تھا کے اس سے ضد کرنا فضول ہےاب یہ جب تک آئسکریم کھاۓ گی نہیں ..اس کو چین نہیں آےگا …اور نہ ہی اس کو چین سے سونے دیگی “ اس نے نماز پڑھ کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھاۓ ہی تھے کے اس کا فون بجنے لگا تھا لیکن اس نے دھیان نہیں دیا .کیوں کے جانتی تھی کے کس کا فون ہوگا ..اس نے اطمینان سے دعا مانگ کر اور جاۓ نماز تہ کر کے الماری میں رکھی تھی اور دوپٹہ اتار کر گلے میں ڈالتے بیڈ پر پڑا اپنا موبائل اٹھایا تھا جو بدستور بجے جا رہا تھا اس نے نفی میں سر ہلاتے گہری سانس لے کر یس کیا تھا “السلام و علیکم ..” “وعلیکم سلام ..کیسی ہیں آپ محترمہ .؟؟” اشعر کی چہکتی ہوئی آواز آئی تھی “حد ہے اشعر ..تمہیں اور کوئی کام نہیں ہے ؟ جب دیکھو فون کر کے تنگ کرتے رہتے ہو ..اور پھر جب تک اٹھاؤ نہ ..تم بند ہی نہیں کرتے “وہ ناراضگی سے بولی تھی “یار میں نے تو بس تمہاری خیریت پوچھنے کے لئے فون کیا تھا ” “تمہیں پتا ہے کے ..صبح سے تم کتنی بار میری خیریت پوچھ چکے ہو ؟” “بار بار کہاں کرتا ہوں فون …صرف ابھی تو کیا ہے …” “صرف ابھی ..!!؟؟”وہ چیخی تھی “صبح سے کوئی دس بارہ فون کر چکے ہو تم …صرف خیریت پوچھنے کے لئے ” “اوہو ..میڈم ..سارا حساب کتاب رکھا ہوا ہے ” وہ ہنسا تھا ” ظاہر ہے ..اب ایک گھنٹے میں مجھے تمہاری تین سے چار کال ریسیو کرنا پڑیگی تو حساب خود ہی پتا چل جائے گا ” ..”ایک تو ..تم لڑکیاں …کسی بھی حال میں خوش نہیں ہو ..کال کرو تو مسئلہ نہ کرو تو بھی مسئلہ….خوش ہو جاؤ ..اب میں تمہیں کل سے ایک کال بھی نہیں کروں گا ..” وہ خفگی سے بولا تھا “او ہیلو ..ایسے کیسے کال نہیں کرو گے ؟؟” “تمہیں اچھا نہیں لگتا نہ ..اس لئے میں اب نہیں کروں گا ” “بھئی میرا وہ مطلب تھوڑی تھا ” وہ جلدی سے بولی تھی “اگر میں تم کو اب اچھا نہی لگتا لائبہ تو صاف صاف کہ دو ” اشعر نروٹھے انداز میں بولا تھا “یہ کسی فضول بات کر رہے ہو اشعر ؟؟” “تمہیں میرا کال کرنا اچھا نہیں لگتا ..مجھ سے بات کرنا اچھا نہیں لگتا ..تو ٹھیک ہے ہم اس رشتے کو یہیں پر …!!!” “اشعر …” اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی لائبہ چیخی تھی “اشعر تم.. تم غلط سمجھ رہے ہو ..” وہ بے چین ہو گئی تھی “میں کچھ غلط نہیں سمجھ رہا ..صاف کہ دو تم ..بیزار ہو چکی ہو مجھ سے “وہ جان بوجھ کر اسے تنگ کرنے لگا تھا “ا شعر پلیز ..آئم ویری سوری ….میرا مقصد تمہیں ہرٹ کرنا نہیں تھا ..اور تم اچھی طرح جانتے ہو کے یہ رشتہ ہم دونوں کی مرضی سے قائم ہوا تھا ” “جی نہیں ..یہ رشتہ صرف میری مرضی سے قائم ہوا تھا ..تم تو راضی ہی نہیں تھی ..منگنی کرنے پر …” “ہاں تو اس لئے نہ کے ..پہلے میری اسٹڈی کمپلیٹ ہو جائے “بہانے مت بناؤ لائبہ …” “پلیز اشعر یقین کرو میری بات کا ..میں صرف تمہیں تنگ کر رہی تھی ..تمہیں ہرٹ کرنے کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتی …” “ٹھیک ہے میں نے کر لیا تمہاری بات کا یقین …اب بند کر رہا ہوں میں فون ” ..”اچھا …اچھا ..میری بات تو سنو ..”بولو ” ” کہیں ….لنچ پر چلیں ؟؟” وہ صرف اس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لئے بولی تھی “ہاں ٹھیک ہے ..تم پانچ منٹ میں تیار ہو کر نیچے آجاؤ ..میں کب سے تمہارے گھر کے باہر کھڑا ہوں ” “ہیں ؟؟؟” وہ چونکی تھی ..”تم میرے گھر کر باہر کھڑے ہو ؟” وہ حیرت سے بولی تھی “جی محترمہ ..اگر یقین نہیں آتا تو …ذرا کھڑکی کا پردہ ہٹا کر باہر جھانکئے ” لائبہ نے جلدی سے کھڑکی کے پاس آ کر پردہ ہٹا کر نیچے دیکھا تھا جہاں اشعر واقعی میں اپنی بلیک مرسیڈیز کے ساتھ ٹیک لگا کر آنکھوں پر ڈارک گلاسیس لگاۓ نیوی بلو شلوار قمیض پہنے کھڑا تھا لائبہ کو دیکھ کر اس نے مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلایا تھا “یہاں کیا کر رہے ہو تم ؟” “میں نے تمہیں اسی لئے تو فون کیا تھا ..لیکن تمہاری شکایتیں ہی نہی ختم ہوتی ” “اتنی دیر سے تو کیا تم مذاق کر رہے تھے ؟؟” اس نے اشعر کو گھورتے ہوئے کھینچ کر پردے برابر کر دئے تھے “اور نہیں تو کیا …” وہ ہنسا تھا ..” ہاہ ..اب اکیلے ہی جاؤ لانچ پر ..میں نہیں جا رہی تمہارے ساتھ ” وہ ناراضگی سے بولی تھی ” اوکے ڈئیر …صرف پانچ منٹ ہیں تمہارے پاس …جلدی سے ریڈی ہو کر نیچے آجاؤ …”اشعر نے کہتے ہوئے فون بند کر دیا تھا “بد تمیز ..” لائبہ فون کو گھورنے کے بعد الماری کھول کر ڈریس سلیکٹ کرنے لگی تھی۔ “ابے پاگل آدمی ..تو مجھ سے ہی کچھ سبق سیکھ لیتا ..اس گھٹیا پینٹنگ کو دیکھنے پر اس منگلو ٹنگلو نے مجھے دھکا دے دیا ..پھر تو کیا چیز ہے ؟” ریاض اپنا سر پکڑے کھڑا تھا کچھ زیادہ ہی زور سے لگ گئی تھی اس کے وہ سب ہی اس کو گھیر کر کھڑے تھے “یار میں تو صرف یہ دیکھ رہا تھا کے جب دس سال پہلے یہ عمارت جلی تھی تو تقریبآ سب کچھ ہی جل کر تباہ ہو گیا تھا لیکن یہ پینٹنگ …بلکل سہی کیسے ہے ؟؟..نہ اس پر کسی قسم کی کوئی گرد .مٹی ہے اور نہ ہی جالے ..یہ بات سمجھ نہیں آئی میرے “اس نے سر سہلاتے ہوئے کہا تھا “اے کیمرہ ..آن کرو ..”حیدر نے سلمان اور فہد سے کہا تھا “جی ناظرین …بریک کے بعد ہم واپس آ چکے ہیں ..اور یہ دیکھیں ..کے ہمارے اس معصوم اور نہتے ساتھی ریاض پر ..ابھی کچھ دیر پہلے منگلو نے اٹیک کیا ہے ..ہمارا یہاں آنا شاید اس کو پسند نہیں آیا …اور اگر پسند نہی آیا تو …ہم کیا کریں ؟؟ہمیں بھی تو اپنا کام کرنا ہے نہ ؟”وہ ایک ہاتھ جینز کی جیب میں ڈالے کھڑا بول رہا تھا جبھی اس کے دوسرے ہاتھ میں پکڑا میٹر بجنے لگا تھا ..وہ چونکا تھا .وہ باقی سب بھی اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے ” دیکھیں ..دیکھیں ..ناظرین ..یہاں ہمیں ریڈینگ ملنا شروع ہو چکی ہے .یہ میٹر آواز کرنے لگا ہے اس کا مطلب ہے کے یہاں پر کوئی ہے ..اب وہ منگلو ہی ہے یا کوئی اور ..یہ تو ہم اسی سے پوچھیں گے …اے ہیلو ..کون ہے …کون ہے یہاں پر ؟؟کیا تم منگلو ہو ہمیں جواب دو ..اے گونگے بہرے سنائی دے رہا ہے ..تجھ سے بات کر رہا ہوں میں ..کون ہے یہاں پر ؟؟دیکھوں ..ہم یہاں پر تمہارے ساتھ کوئی چھپن چھپائی کھیلنے نہیں آئیں ہیں ..جواب دو جلدی …کیا منگلو ہو تم؟ ..!!!” ابے کیوں ڈانٹ رہا ہے اس کو حیدر .ناراض ہو جائے گا وہ ؟ تیمور نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کو شانت کیا تھا “تو اور کیا کروں ؟..اتنی دیر سے ہم یہاں اس کو ڈھونڈ رہے ہیں ..اور اس کے ڈرامے ہی نہیں ختم ہو رہے “حیدر ناراضگی سے بولا تھا “اچھا چل ..اس کمرے میں چلتے ہیں ..شاید وہاں کوئی ریڈنگ مل جائے ” “یہاں پر کیوں جواب نہیں دے رہا ؟؟” ..”چھوڑ نہ حیدر ..اس کا گھر ہے اس کی مرضی ..چل آجا .” تیمور نے اس کو ساتھ لے جانا چاہا تھا “نہیں .تو ریاض کے ساتھ رک ..میں اکیلا جاؤں گا سلمان کے ساتھ ” “پاگل ہو گیا ہے کیا …؟؟..اگر اللہ نہ کرے کوئی ایسی ویسی بات ہو گئی تو …ہم تو ہوں گے نہ کنٹرول کرنے کے لئے ؟” “تو سلمان ہوگا نا میرے ساتھ ” …” وہ تو ریکارڈنگ کرے گا نہ ؟” ..”چھوڑ دے تیمور …حیدر تو جا سلمان کے ساتھ ..” ریاض نے تیمور کا بازو پکڑ لیا تھا “وہ دونوں دائیں جانب ایک کمرے میں چلے گئے تھے ..”وہ بچہ تھوڑی ہے ..جو تو پریشان ہو رہا ہے …” ریاض نے تیمور سے کہا تھا “ابے تو مجھے اس کمینے …حیدر کی فکر تھوڑی ہے ..” “تو پھر ؟؟” ریاض نے اسے نہ سمجھی سے دیکھا تھا “مجھے تو اس بیچارے منگلو ٹنگلو کا خیال ہے ..ابھی وہ مرنے کے بعد روح تو بنا ہوا ہے ..لیکن اس حیدر سے کوئی بئعید نہیں ..نہ جانے کیا کر گزرے اس کے ساتھ ..اور تجھے نہیں پتا .. وہ حیدر …مولوی کے پاس گیا تھا یہاں آنے سے پہلے نہ جانے پانی پر کون کون سے دم کروا کر اور کتنےتعویز وہ اپنے ساتھ لے کر آیا ہے ..اب تو اس ٹنگلو ..سوری منگلو کا اللہ ہی حافظ ہے ..مرنے کے بعد دوبارہ سے مرے گا بیچارہ ..” “اوے ..تو سہی بول رہا ہے ..جا بھئی جاثم ..تو اس کے پاس جا ..وہ کہیں پنگا نہ لے لے اس سے …ورنہ لینے کے دینے پڑ جائینگے …”ریاض نے جاثم سے کہا تھا۔ “دیکھیں بی بی جی آج پھر کسی نے آپ کے لئے پھول بھیجے ہیں “وہ نوڈلز کھاتے ہوئے ڈرامہ دیکھ رہی تھی جبھی سکینہ کی آواز پر چونکی تھی “پھول …!!!”وہ باؤل ٹیبل پر رکھ کر جلدی سے اٹھ کر سکینہ کے پاس آئی تھی جو لاونج کے دروازے کے پاس ہی کھڑی تھی “آج تو میں نے اس لڑکے کو پکڑ ہی لیا تھا جی ..آخر کو جو اس کے ہاتھ پھول بھجوا رہا ہے ..اس کو تو پتا ہوگا نہ جی ؟؟” لیکن اس نے تو کچھ پھوٹا ہی نہیں منہ سے اور میں تو ،،،،!!” ” افوہ …چپ کرو سکینہ کورئیر والوں کو تھوڑی نہ پتا ہوتا ہے کے کون کس کو کیا بھجوا رہا ہے ؟ ان کا کام تو بس ایک سے چیز لے کر دوسرے بندے تک پہنچانہ ہوتا ہے ” “ہیں ؟؟؟ ..کیا مطلب بی بی جی ؟؟”سکینہ نے نہ سمجھی سے اس کو دیکھا تھا “ارے بھئی ..تمہارے سمجھنے کی بات نہیں ہے …تم جاؤ اپنا کام کرو ..” زرنور نے اس کے ہاتھ سے بوکے لے لیا تھا “ٹھیک ہے جی …” وہ بولتی ہوئی چلی گئی تھی گلاب کے پھولوں میں سے بھینی بھینی سی خوشبو اٹھ رہی تھی زر نور نے پھولوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا تھا جبھی اس میں سے ایک گلابی رنگ کا چھوٹا سا کارڈ نیچے گرا تھا اس نے چونک کر ایک ہاتھ میں بوکے پکڑے دوسرے ہاتھ سے جھک کر وہ کارڈ اٹھاکر دیکھا تھا جس پر بہت ہی خوبصورت رائٹنگ میں ایک تحریر لکھی تھی اس نے حیرت سے اس کو کارڈ کو پڑھا تھا دوبارہ اور پھر سہ بارہ اس نے بار بار اس کو پڑھا تھا کے شاید اس کو پڑھنے میں کوئی غلطی ہو رہی ہو ..لیکن اس میں وہی لکھا تھا جس کو وہ سمجھنا نہیں چاہ رہی تھی اس کے ہاتھ سے بوکے نیچے گر گیا تھا “یہ یہ کیا ہے ؟؟؟…..!!!”اس کا وجود زلزلوں کی زد میں تھا آنکھوں میں سے گویا چنگاریاں سی نکل رہی تھی وہ تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھی تھی چارو طرف اس کی متلاشی نظریں اپنے فون کو ڈھونڈ رہی تھی جبھی اس کو بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر لیمپ کے ساتھ رکھا اپنا فون نظر آگیا تھا اس نے جلدی سے جا کر اپنا فون اٹھایا تھا اس کے ہاتھ کانپنے لگے تھے غم و غصّے سے اس کا برا حال ہو رہا تھا سیو کونٹیکٹس میں جا کر اس نے کل والا انٹرنیشنل نمبر ڈائل کیا تھا گہری سانسیں لے کر وہ اندر اٹھتی غصّے کی لہروں کو دبا رہی تھی دو بیل جانے کے بعد وہاں سے کال کاٹ دی گئی تھی اس نےپھر سے ڈائل کیا تھاجو دوبارہ سے کاٹ دی گئی تھی وہ بار بار اسی نمبر پر کال ملا رہی تھی لیکن ہر بار وہاں سے کال کٹ کی جا رہی تھی اس نے غصّے میں دیوار پر موبائل مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کے وہ بجنے لگا تھا اسی نمبر سے کال تھی اس نے یس کا بٹن دبایا تھا “میرے خیال سے بوکے موصول ہو چکا ہے آپ کو ۔۔۔”ارمان کی خوبصورت سی آواز سپیکر میں سے آئی تھی “بکواس بند کرو اپنی ….اور اگر یہ تم نے مذاق کیا ہے نہ میرے ساتھ ..تو میں بتا دوں تمہیں کے ..بہت ہی گھٹیا ترین مذاق ہے یہ ۔۔”اس کی آواز سن کر وہ چیخی تھی “کیا کہا مذاق ۔۔؟؟؟…..نہیں بھئی تمہارا اورمیرا مذاق ہے کیا ؟؟…تم نے مجھ سے ہمارا رشتہ پوچھا تھا نہ ؟ تو میں نے بتا دیا ….” “جھوٹ مت بولو ….آج تک ہم دونوں ایک دوسرے سے ملے نہیں …ایک دوسرے کو دیکھا نہیں …بات تک نہیں کی ..پھر تم کیسے کہ سکتے ہو کے ہمارے بیچ یہ رشتہ بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔۔” “اس لئے میں نے کہا تھا تم سے کے اپنے پیرنٹس سے پوچھ لو…” “دیکھو میری …میری بات سنو .تم …تم مذاق کر رہے ہو نہ ؟؟” اس کو ابھی بھی موہوم سی امید تھی کے شاید وہ ایسے ہی تنگ کر رہا ہو اس کو “میں جھوٹ کیوں بولوں گا تم سے ؟؟..جو سچ ہے ..وہ میں نے بتا دیا تمہیں ….اور رہی بات یہ کے ..ہم آج تک نہیں ملے …تو یہ غلط ہے …ہم ایک نہیں کئی دفع ایک دوسرے سے مل چکے ہیں …اب اگر تم اپنے ذہن پر زور دو تو تمہیں یاد آجاۓ گا ..” “لیکن تم …تم تو اٹلی میں رہتے ہو نہ ؟؟” “تو تم کیا سمجھتی ہو کے ..اٹلی میں رہنے والے کبھی پاکستان نہیں آ سکتے ؟؟؟” “میری بلا سے تم اٹلی میں رہو یا جہنم میں …بس میری زندگی سے دفع ہو جاؤ ..مجھے کبھی بھی اپنی شکل مت دکھانا ..اور نہ ہی کال کرنا …” اس نے غصے سے فون بند کر دیا تھا وہ اشتعال انگیز انداز میں اس چھوٹے سے گلابی کارڈ کو دیکھ رہی تھی جبھی میسج ٹون بجی تھی اس نے دیکھا تو اسی نمبر سے میسج تھا “میں اب کال نہیں کروں گا بلکے ….خود ملنے آؤں گا ….” “بھاڑ میں جاؤ تم ….” اس نے کھینچ کر اپنا فون ڈریسنگ ٹیبلپ پر مارا تھا جس سے اس کا شیشہ چکنہ چور ہو گیا تھا ایک شور سا بلند ہوا تھا اس کی آنکھوں میں سے آنسوؤں کی لڑیاں سی جاری ہو گئی تھی اسے ارمان کے نام پر زارا بخاری کا چونکنا اور پھر رونا یاد آیا تھا وہ روتے ہوئے بیڈ سے ٹیک لگا کر نیچے کار پیٹ پر بیٹھ گئی تھی “احمد …..!!” وہ سر گھٹنوں میں دے کر بے تحاشہ رونے لگی تھی۔ “کمینے دو دن کا کہ کر گیا تھا تو اور اب پورا ہفتہ ہونے کو آیا ہے …ابھی تک شکل نہیں دکھائی تونے ..” وہ اپنے کمرے کی ٹیرس پر ایک ہاتھ ریلینگ پر جماۓ دوسرے ہاتھ سے فون کان سے لگاۓ تھوڑا سا جھکا کھڑا نیچے دیکھ رہا تھا جہاں لان میں مناہل پائپ سے پودوں کو پانی دے رہی تھی اس کے غصّے سے بولنے پر وہ ہنسا تھا ” سچ میں حارث کبھی کبھی تو مجھے اپنا دوست کم اور محبوبہ زیادہ لگتا ہے …” “ہاہا ..محبت تو میں تجھ سے ویسی ہی کرتا ہوں …” “تیری انہی حرکتوں نے ہم دونوں کو بدنام کیا ہوا ہے ” وہ بھی محفوظ ہوا تھا ” ہاہا …خیر یہ بتا کب تک واپس آۓ گا ؟۔۔۔یہاں سب اداس بیٹھے ہیں تیرے لئے کے نجانے احمد کہاں غائب ہو گیا …اور کچھ لوگوں کا تو بہت ہی برا حال ہے …” “بیٹا میں سب سمجھ رہا ہوں کے یہ تو …کچھ لوگوں ….کسے بول رہا ہے …” “جان کر انجان بننے کی عادت گئی نہیں تیری …” حارث بھی ہنسا تھا ” “کبھی کبھی یہ عادت مجھے بہت فائدہ دے جاتی ہے …خیر یہ بتا ..دلہن ماں گئی تیری ؟؟” “نہیں بھئی ..اس نے کہاں اتنے آرام سے مان جانا ہے ..میں نے تو ڈر کے مارے اس سے ابھی تک بات ہی نہیں کی ..کے کہیں غصّے میں وہ مجھے چاند پر ہی نہ پہنچادے “حارث نے ہنستے ہوئے مناہل کو دیکھا تھا جو لان کے پرنٹڈ سوٹ میں بالوں کا جوڑا بناۓ کھڑی اب مالی پر برس رہی تھی “تونے کیا پھر ساری زندگی کنوارہ ہی رہنا ہے ؟؟” ” نہیں یار مجھے کنوارہ مرنے کا کوئی شوق نہیں ..لیکن اس ضدی شہزادی کو مجھے اسی کے انداز میں ہینڈل کرنا پڑیگا جس کے لئے کچھ ٹائم تو لگے گا …خیر اب تو ہی اپنی شادی کی بریانی کھلا دے …” “تھوڑا صبر کر تجھے اچھی والی بریانی کھلاؤں گا ” احمد نے ہنستے ہوئے سگریٹ کا ایک گہرا کش لیا تھا ” سدھر جا احمد ..تجھے کتنی دفع کہا ہے کے چھوڑ دے یہ گندی عادت ..لیکن تیری کچھ سمجھ میں ہی نہیں آتا ..لگتا ہے تیری رپورٹ کرنا پڑےگی مجھے اب …” “ہاہا کس سے کرے گا ؟؟” اس نے ایک اور کش لیا تھا “اسی گرین آنکھو والی بلی سے ..وہی سبق سکھاۓ گی تجھے ..” “ہاہ ..میں ڈر گیا .یہ لے میں نے پھینک دی سگریٹ …” اس نے سچ میں سگریٹ ایش ٹرے میں مسل دی تھی “بیٹا اس کو تو پہلے ہی تجھ سے اتنی شکایاتیں ہیں سارے بدلے ایک ساتھ ہی لے گی تجھ سے ” حارث نے ہنستے ہوئے کہا تھا ” مجھے کوئی اعتراض نہی ..” وہ بھی ہنسا تھا “اللہ اللہ ..اتنی محبت ؟؟؟” “محبت نہیں اسے کچھ اور کہتے ہیں …” “ہاں ..ہاں کمینے میں سمجھ گیا اسے… آئی ..ایس ..ایچ ..کیو ..والا عشق کہتے ہیں ” حارث کے کہنے پر اس نے قہقہ لگایا تھا “تو اتنی سمجھدارو والی باتیں کیسے کر لیتا ہے حارث ؟؟” ..”ارے بھئی ہمیں بھی اس عشق نے نکما کر دیا ..ورنہ آدمی ہم بھی بڑے کام کے تھے “اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا “ہاہا ..اوکے عاشق صاحب ..اب کچھ ٹائم اپنی محبوبہ کو بھی دیجئے ..اور ہماری جان بخشی کیجیے …تاکے ہم بھی کچھ دیر وہاں دعا سلام کرلیں ..” “ایک دفع فون کر کے تو تیرا دل بھرتا نہیں ہے ..جا کر لے فون ..تو بھی کیا یاد کرے گا …” “سچ میں حارث ..بہت کمینہ ہے تو …”وہ ہسنے لگا تھا “ہاہا ..یہ تو مجھے پتا ہے تو اور کچھ بتا …” “کچھ اور تو میں تجھے بعد میں بتاؤں گا ..وہ بھی تفصیل سے ..ابھی میں فون رکھتا ہوں ..” “چل ٹھیک ہے ..لیکن دو دن بعد تو مجھے یہاں نظر آنا چاہیے …” “دو دن بعد کیوں ؟؟ میں تجھے کل ہی نظر آجاؤں گا ..چل خدا حافظ …” “اوکے خدا حافظ ..” حارث نے بھی کال کاٹ دی تھی اور ریلینگ چھوڑ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا کیوں کے نیچے لان میں سے مناہل شاید اندر جا چکی تھی تو اب حارث کا وہاں کھڑے ہونے کا کوئی مطلب نہیں تھا۔ ارے بھائی …یہ کیا کر رہے ہو تم ؟؟” سلمان نے نہ سمجھی سے حیدر کو دیکھا تھا جو دیوار سے کان لگا کر کھڑا تھا “شش چپ کرو ..!!” ” میرے بھائی وہ منگلو دیوار میں تھوڑی نہ گھس کر بیٹھا ہو گا ..”حیدر نے ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا تھا “مجھے لگتا ہے کے ..اس دیوار کے پار ….دوسری دنیا ہے …” وہ پر اسرار انداز میں بولا تھا جبکے سلمان ہکا بکا کھڑا رہ گیا تھا “د.دوسری دنیا ؟؟…کیا بول رہے ہو یار ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟؟” اس کو حیدر کچھ کھسکا ہوا لگا تھا “کیوں منگلو مرنے کے بعد دوبارہ سے زندہ ہو سکتا ہے تو کیا دوسری دنیا نہیں ہو سکتی ؟؟” “لیکن اس دیوار کے پار ؟؟؟” “تمہیں لگتا ہے کے اس دیوار کے پار دوسری دنیا نہیں ہے ؟؟”حیدر نے سلمان سے پوچھا تھا ” ہاں بلکل یہی لگتا ہے مجھے ..” “مجھے بھی یہی لگتا ہے …بلکے لگتا کیا مجھے پتا ہے کے اس دیوار کے پار کوئی دوسری دنیا ونیا نہیں بلکے صرف ایک کمرہ ہے ..لیکن …ہمیں دیکھنے والوں کو تو نہیں پتا نہ ؟؟” “کیا مطلب ؟؟” “مطلب یہ کے ..ان کو تو وہی سچ لگے گا نہ جو ہم بتاۓ گے ؟ان لوگوں نے کون سا یہاں آ کر چھان بین کر لینی ہے ” “او اچھا ٹھیک ہے .اب میں سمجھ گیا “اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا ” سمجھ گئے نہ ؟تو چلو اب جلدی سے کیمرہ ان کرو …جی تو میرے دوستوں ..بریک پر جانے سے پہلے جب میں اس دیوار سے کان لگا کر کھڑا تھا تو میں نے آپ سے کہا تھا ک مجھے اس دیوار میں سے کچھ عجیب و غریب سی آوازیں سنائی دی ہیں جیسے کے …میں کیسے بتاؤ ؟؟.ایک منٹ سوچنے دیں ….ہم ہم …ہاں ..آپ نے ٹام اینڈ جیری تو دیکھیں ہی ہوں گے ضرور دیکھیں ہوں گے ..تو جب جیری ٹام کو کوئی نقصان پہنچاتا ہے تو اس کی کیسے چیخ نکلتی ہے ..آپ سوچیں ذرا .ہاں آگئی یاد ؟؟ ایکسزیکلی ویسی ہی آواز مجھے اس دیوار میں سے سنائی دی ہے اور نہ جانے کیسی عجیب سی کشش ہے جو مجھے اپنی جانب کھینچ رہی تھی اور یہ تو میں نے آپ کو بتایا ہی نہیں کے جب ہم بریک پر گئے تھے تو میں ایسے ہی اس دیوار کو چیک کر رہاتھا اور آپ یقین نہیں کریں گے کے اس دیوار نے میرا آدھا ہاتھ کھا لیا ..سچ میں آدھا ہاتھ کھا لیا تھا میرا …مطلب جب میں نے دیوار پر ہاتھ رکھا تو وہ اندر چلا گیا ..اور مجھے ایسا محسوس ہوا کے جیسے اندر بہت زیادہ ٹھنڈ ہو ..جسم کو سن کر دینے والی ٹھنڈ اور جب میں نے ہاتھ باہر نکالا تو وہ نیلا پڑنے لگا تھا اور پھر خود ہی ٹھیک ہو گیا اور وہ جو ….!!” اس کا گھوسٹ میٹر پھر سے بجنے لگا تھا اس نے جلدی سے اس کو اپنے سامنے کیا تھا “اے ..کون ہو تم ؟”..جواب دو کون ہو تم ؟”کیا منگلو ہو ؟؟۔۔” خالی کمرے میں حیدر کی آواز گونج رہی تھی جبھی میٹر کا گرین بٹن خد بخود دبا تھا حیدر چونک گیا تھا اس نے میٹر کو دیوار کے ساتھ رکھے ایک سٹول پر رکھ دیا تھا “کیا تم یہاں اکیلے رہتے ہو ؟؟” اس دفع بھی گرین بٹن دبا تھا “اوہ ..تو اس کا مطلب ہے کے اکیلے ہی رہتے ہو ..تو یار کسی کو اپنے ساتھ رکھ لو تم اکیلے ہی اس اتنی بڑی عمارت میں چکراتے پھرتے ہو ..کوئی ساتھ ہو گا تو زیادہ مزہ آۓ گا ..خیر یہ بتاؤ .کیا تم نے ہی اس عمارت میں آگ لگوائی تھی ؟؟ ” اس بار ریڈ بٹن دبا تھا مطلب کے نہیں …حیدر میٹر کو تعجب س دیکھنے کے بعد کیمرے کی جانب گھوما تھا ” دیکھ رہے ہیں آپ ناظرین ؟؟ آتما بننے کے بعد بھی جھوٹ بولنے سے باز نہیں آیا یہ ٹنگلو…” ” ابے بھائی منگلو ہے …” سلمان پیچھے سے بولا تھا “ہاں وہی ٹنگلو ..” حیدر بےنیازی سے کہنے کے بعد دوبارہ میٹر کی جانب متوجہ ہوا تھا “منگلو میری بات سنو …مجھے پتا ہے کے تم منگلو ہو ..سلمان کو بھی پتا ہے کے تم منگلو ہو ..لیکن ہمیں دیکھنے والے ناظرین کو نہیں پتا کے تم منگلو ہو ..اس لئے تم کچھ ایسا کر کے دکھاؤ کے جس سے ان سب کو یقین آجاۓ ..بلکے تو ایسا کر کے …یہ دیکھ یہ میں نے اپنا ہاتھ ایسے پھیلا لیا ..اب تو اس پر ایک گرما گرم بریانی کی بھاپ اڑاتی پلیٹ لا کر رکھ دے ..بس یہ ہی ثبوت دے دے …سب کو یقین آجاۓ گا تجھ پر ” “یار تھوڑا خیال کرو ..یہ جن ہے جن …تمہارا کوئی کھویا ہوا یار تھوڑی ہے ..” سلمان کو ڈر لگ رہا تھا حیدر کی حرکتوں سے ..کہیں منگلو غصّے میں آ کر ان کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے “جن ہے تو کیا ہوا اپن کا تو یار ہی ہے …کیوں بے منگلو دوستی کرے گا مجھ سے ؟؟”میٹر میں سے گرین لائٹ جلی تھی وہ دونوں ہی چونکے تھے حیدر تو مذاق میں یہکہ رہا تھا اسے یقین نہیں تھا کے اس سوال پر بھی وہ کوئی رسپونس دیگا ” ابے دیکھ یہ تو ہاں بول رہا ہے …واہ بھئی منگلو تو تو بہت اچھا ہے ..لیکن تو کیسا جن ہے جو ایک پلیٹ بریانی کی نہیں کھلا سکتا اپنے دوست کو ؟؟..چل چھوڑ تو مجھے کوئی گانا ہی سنا دے سچ میں میرا بڑا دل کر رہا ہے تیری آواز سننے کو ..سنا دے یار کوئی اچھا سا …بلکے میں بتاتا ہوں کون سا … رک میں سوچ کر بتاتا ہوں ..ہم …ہاں تو سنا “دیسپسیتو “..یہ والا سنا یہ مجھے بے حد پسند ہے ..چل اوے ..سنا بھی دے اب ..اتنا بھی کیا شرمآنا ؟؟..بھئی سلمان تو اپنے کان بند کر ..شاید تجھ سے ہی شرم آرہی ہے اس کو ..اب تو سنا دے منگلووو …” حیدر نے دو منٹ انتظار کیا تھا لیکن نہ تو کوئی آواز سنائی دی تھی اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی آہٹ ” تو تو بھئی ..بہت ہی ڈھیٹ ہے منگو ..نہ تو مجھے گانا سنا رہا ہے نہ ہی بریانی کھا رہا ہے تو تو کسی کام کا ہی نہیں ہے ..اور تونے تو ابھی تک اپنی شکل بھی نہیں دکھائی مجھے ..بلکے رہنے دے تو مجھے اپنی شکل دکھانا بھی نہیں ..دس سال سے تو اس عمارت میں گندا سندا گھوم رہا ہے ..نجانے کتنا خوفناک ہو گیا ہوگا ..ویسے ایک بات تو بتا ..میں نے سنا ہے کے ..یہ جو آتمائیں ہوتی ہیں ..یہ اپنے ساتھ موم بتی لے کر گھومتی ہیں ..تو تم لوگوں کے پاس روز روز موم بتی آتی کہاں سے ہیں ؟؟ ہیں… کیا چوری کر کے لاتے ہو ؟؟اور میری بات مان تو …تو کسی فی میل بھوتنی کو اپنے ساتھ رکھ لے دونوں ایک ساتھ گھومتے رہنا ..ایک موم بتی پر گزارا ہو جائے گا ..اور ایک بات تو بتا منگلو …تیری کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے کیا ؟ …شرما کیوں رہا ہے ..نہیں ہےتو بتا دے …میرے پاس بہت ساری ہیں ایک دو کے نمبر تجھے بھی دے دوں گا ..بول چاہیے ؟؟” حیدر …میرے بھائی یہ بھوت ہے ..یہ تم کیا باتیں کر رہے ہواس کے ساتھ ؟؟ ” سلمان کا دل کر رہا تھا کے وہ کیمرہ پھینک کر اپنا سر پیٹ لے “افوہ سلو …ایک تو تم لوگوں نے ہی ان بھوتوں کو سر پر چڑھا یا ہوا ہے ..صرف بھوت ہی تو ہے ..کون سا ہم کو کھاجائے گا ..یا ہم اس کو کھاجائیں گے ..ہم تو یہاں اس سے صرف کچھ باتیں کرنے آے ہیں ..باتیں کر کے اور حال چال پوچھ کر ہم چلیں جائیں گے کیوں کے کچھ کھلانا پلانہ تو اس نے ہے نہیں …اور اللہ معاف کرے ایسا کنجوس بھوت میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا ہے اور تو اور کنجوس کے ساتھ ڈھیٹ بھی اول نمبر کا ہے نا کچھ بولتا ہے نہ کچھ سناتا ہے نہ کچھ کھلاتا ہے …سن بے منگلو ..تو مجھے بلکل پسند نہیں آیا .” اب سلمان کا دل کر رہا تھا کے وہ اپنا سر پیٹنے کے بجاۓ کیمرہ مار کر حیدر کاہی سر پھاڑ دے اس نے کسی لڑکے کو اتنا بولتے ہوئے پہلی دفع دیکھا تھا ..اگر کوئی لڑکا “کسی” کے ساتھ بات کرے تو سمجھ میں آتا ہے لیکن یہ اکیلے میں کون بولتا ہے ؟ وہ بھی خود سے ..اور وہ بھی اتنا زیادہ ؟؟ حیدر دونوں ہاتھ کمر پر جماۓ نچلا لب دانتوں تلے دباۓ کچھ سوچ رہا تھا جبھی نہ جانے کہاں سے ایک چھوٹا سا پتھر اڑتا ہوا آ کر ٹک کر کے اس کے سر پر لگا تھا جس سے وہ بے ساختا چیخا تھا اس کو دیکھ کر سلمان کی چیخ بھی نکل گئی تھی “ابے او ..منگلو ٹنگلو …سچ بات سننے کا حوصلہ نہیں ہے توجا… جا کر دوبارہ سے مر جا ..میرے اوپر کیوں غصّہ اتار رہا ہے ؟…اور ایک بات تو بتا …یہ تیرا نام کس نے رکھا ؟؟ سچ میں اتنا گندا اتنا واہیات نام ہے تیرا ..انسانوں میں تو کوئی یہ نام رکھتا ہی نہیں ہے ..سواۓ جنگل میں رہنے والے جانوروں کے ..اور ایک بات کان کھول کر سن لے .تو نے اگر … آہ …!!!”ابھی وہ اور کچھ کہنے ہی لگا تھا تین چار پتھر ایک ساتھ آ کر اس کے لگے تھےس جیسے کسی نے تاک تاک کر نشانے لگاۓ ہوں .. “یہ دیکھ رہے ہیں آپ ؟…ہر طرف دھول مٹی ..کاٹھ کباڑ جلے ہوئے پردوں کی راکھ …ٹوٹا ہوا اور جلا ہوا فرنیچر ..ہر جگہ لٹکتے مکڑی کے جالے ..یہ سب دیکھ کر تو یہ ہی لگتا ہے کے یہاں کوئی انسان ہر گز نہیں رہتا ہوگا ..اور یہ تو آپ کو پتا ہی ہوگا کے جہاں انسان نہیں رہتے وہاں جنات رہتے ہیں ..اور پھر جب یہاں کوئی انسان نہیں رہتا تو اس عمارت میں سے آوازیں کس کی آتی ہیں ؟؟ یقینآ انہی جناتوں کی …ہمارے یہاں آنے کا مقصد ہی یہ جاننا تھا کے یہاں منگلو کے ساتھ اور کتنے لوگ ..سوری آتماۓ رہتی ہیں ..لیکن یہ ہم ابھی تک نہیں جان سکے کیوں کے وہ منگلو ابھی تک ہمارے ہاتھ نہیں لگا ..اور آپ کو یاد ہے تیمور کے جب ہم شام کو یا ریگینگ کے لئے آے تھے تو اس علاقے کے لوگوں نے ہم سے کیا کہا تھا ؟؟” تیمور اور ریاض فہد کر کیمرے میں دیکھتے سنجیدہ صورت بناۓ کھڑے بول رہے تھے “جی جی ریاض ..ہاں مجھے بلکل بھی نہیں… یاد …کیا کہا تھا ان لوگوں نے ؟؟” تیمور نے سر کھجاتے ہوئے کہا تھا ریاض نے زور سے کہنی تیمور کو ماری تھی “اوہ ہاں ..نہیں یار اب بھی نہیں یاد آیا تو ہی بتا دے کیا بولا تھا ان لوگوں نے …” “بیوقوف میں خود ہی بھول گیا جبھی تو تجھ سے پوچھ رہا تھا ریاض نے دانت پیستے ہوئے کہا تھا “اوے جاثم …کمینے آدمی باہر نکل ….” جبھی حیدر آندھی طوفان کی طرح ایک ہاتھ سے اپنا سر پکڑے دوسرے ہاتھ میں ٹارچ سے یہاں وہاں روشنی ڈالتا اندر آیا تھا “کیا ہوا ؟؟؟” وہ چاروں ہی چونکے تھے تیمور اور ریاض کے پیچھے کھڑا جاثم ہاتھ میں ایک چھوٹی سی ڈیوائس پکڑے باہر آیا تھا اس کو دیکھتے ہی حیدر اس کے سر پر پہنچا تھا کمینے تجھے کہا تھا نہ میں نے کے صرف ایک ہی پتھر مارنا ..پھر کیوں تونے اتنے سارے مارے ؟؟….ہیں بول ..مارے تو مارے ..وہ بھی اتنے بڑے بڑے اور پھر سارے ایک ہی جگہ پر …ابے سالے ..تو کوئی شکاری ہے یا پھر ٹارگٹ کلر .؟؟ہیں ..ابھی میرا سر پھٹ جاتا ..میں مر جاتا..تو تو کیا جواب دیتا کیا منہ دکھاتا میرے ماں باپ کو ؟؟بول ..بول نہ ” ” ابے ہاں جا ثم کے بچے میں نے بھی تجھے کہا تھا کے جب تو وہ کینڈل اسٹینڈ میرے مارے تو آہستہ سے مارنا ..لیکن تونے اتنی کھینچ کر مارا کے میرا سر ابھی تک درد کر رہا ہے ..” ریاض نے اپنا سر سہلاتے ہوئے کہا تھا تیمور کو بھی کچھ یاد آیا تھا”ہیں بے جاثم ..جب میں وہ پینٹنگ دیکھ رہا تھا تو ..تونے بغیر بتاۓ مجھے دھکا دے دیا ..مجھے بتا نہیں سکتا تھا پہلے ؟ اور اگر میرا ہارٹ فیل ہو جاتا تو ؟؟ وہ تو شکریہ ادا کر تو میرا جو میں نے سیچویشن کو سمبھال لیا ..” “اجازت ہو تو کیا اب میں بھی کچھ بولوں ؟؟” جاثم نے طنز سے ان تینو کو دیکھا تھا جو اس کو ہی گھور رہے تھے “بول بھی دے ..اب کیا پلیٹ میں رکھ کر دعوت نامہ دوں ؟؟” حیدر نے دانت پیسے تھے “دیکھو تم دونوں کی ذمہ داری تو میں قبول کرتا ہوں کے چلو مجھ سے غلطی ہوئی لیکن حیدر …سچ میں یار میں نے صرف ایک ہی پتھر مارا تھا کیوں کے میں نے تم سے یہ ہی کہا تھا باقی کے جو تین چار تم کہ رہے ہو ..وہ میں نے نہیں مارے ” “تو پھر کیا اس مرے ہوئے منگلو نے مارے ہیں ..؟؟”ٹھنڈا ہو جا حیدر ..” ریاض نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا “اور یہ تو اوٹ پٹانگ سے جواب کیوں دے رہا تھا میٹر پر ؟؟ ہیں ..” “کون سے جواب بھائی ؟؟ میں نے کوئی جواب نہیں دئے ..کیوں کے یہ ڈیوائس ہی کام نہیں کر رہی تھی ..بھلے سے ان دونوں سے ہی پوچھ لو ..میں پیچھے کھڑا اس کو ہی چیک کر رہا تھا “جاثم نے گھوسٹ میٹر کو ایک ڈیوائس سے کنیکٹ کیا ہوا تھا جس سے وہ میٹر کو کنٹرول کر سکتا تھا “کیا ہو گیا ہے بھئی ؟؟ مجھے اس پر ریڈنگ مل رہی تھی گرین اور ریڈ بٹن خود بخود دب رہے تھے اور تم کہ رہے ہو کے ..تم نے اس کو کنٹرول نہیں کیا ..تو پھر کس نے کیا ہے ؟؟” حیدر نے تعجب سے کہا تھا “کہیں سچ میں تو ..منگلو .نہیں ہے ؟؟” فہد نے ڈرے ہوے انداز میں کہا تھا “او ے .چپ کر یہ بھوت ووت کچھ نہیں ہوتے ..یہ سب فلموں کی باتیں ہیں .”تیمور نے اسے ڈپٹ دیا تھا “مم مجھے ڈر لگ رہا ہے …”سلمان کی سرسراتی ہوئی آواز نکلی تھی ” مرد بن سلمان .مرد بن …” حیدر کو خود خوف ہونے لگا تھا لیکن خود کو بہادر ثابت کرتا بشاشت سے بولا تھا “ٹھاہ ہ ہ ….” جبھی برابر والے کمرے سے ایک شور بلند ہوا تھا جیسے کوئی بہت ہی بھاری چیز جھومر کی طرح زمین پر گر کر چکنا چور ہو گئی ہو “اللہ ہو اکبر …..امی …” تیمور چیختا ہوا باہر بھاگا تھا چیخ تو ان سب کی ہی بلند ہوئی تھی ڈر سب کے چہروں پر صاف نظر آ رہا تھا “کمینے جاثم …اگر حیدر کو کچھ ہوا تو …تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا میں ….” ریاض بھی چیختا ہوا تیمور کے پیچھے بھاگا تھا وہ چاروں ہکابکا کھڑے تھے جبھی ویسی ہی آواز دوبارہ سے آئی تھی اور سناٹے کو چیرتی پوری عمارت میں پھیل گئی تھی خوف کی ایک لہر ان کے اندر روڑ گئی تھی “ایک گھنٹے کا شو کافی ہے ..بھاگو تم لوگ ..کیوں اپنی موت کا انتظار کر رہے ہو ؟؟؟” جا ثم بھی چیختے ہوئے بھاگا تھا فہد اور سلمان بھی اپنے اپنے کیمروں کو سینے سے لگاۓ اس کے پیچھے گۓ تھے “مجھے تو لے چلوو و ….” حیدر زور سے چیخا تھا “آجا تو بھی ..اب کیا گود میں لے کر جاۓ تجھے ؟؟” جاثم بھاگتےبھاگتے چیخ کر بولا تھا تیمور اور ریاض تو جیپ میں بیٹھ کر سٹارٹ بھی کر چکے تھے وہ تینوں بھی اپنی وین میں بیٹھ کر وہاں سے نکل گئے تھے گرتے پڑتے حیدر نے کندھے پر سے بیگ اتار کر جیپ میں پھینکا تھا اور ابھی وہ بیٹھنے ہی لگا تھا کے اس کے ذہن میں جھاکا ہوا تھا ” اوہ شٹ ..میرا فون …میرا فون تو اسی کمرے میں رہ گیا …” “چھوڑ دے حیدر تو جلدی سے بیٹھ ..” “پاگل ہو گیا ہے کیا ریاض ؟؟؟ ستر ہزار کا فون ہے میرا ..اور تو کہ رہا ہے کے رہنے دے …”ابے حیدر سمجھنے کی کوشش کر وہ منگلو تجھے کھا جاۓ گا “مجھے کچھ نہیں پتا ..مجھے بس میرا فون چاہیے ..تم لوگ رکو میں بس ابھی لے کر آتا ہوں “حیدر کہ کر جانے لگا تھا جبھی تیمور اور ریاض نے اتر کر زبردستی اٹھا کر اس کو جیپ میں ڈالا تھا “اے ..یہ کیا کر رہے ہو ؟….چھوڑو مجھے ..چھوڑو …میں نہیں دوں گا منگلو کو اپنا فون …چھوڑو دو بھئی …وہ میرے فون کا غلط فائدہ اٹھاۓ گا …ہاۓ اللہ چھوڑ دوں بھائی …میرے فون پر پیٹرن بھی نہیں لگا ہوا ۔۔۔۔منگلو کمینے تو چھت سے گر جاۓ ..تیرے ہاتھ پیر ٹوٹ جاۓ …اللہ کرے تیری موم بتی بجھ جاۓ اور تو سیڑ ھیوں سے گر پڑے ..تیرے دانت ٹوٹ جاۓ ..تو پوپلا ہو جاۓ ..” وہ چیختا جا رہا تھا ڈرائیونگ کرتے ریاض نے تیمور کو اشارہ کیا تھا جس نے زبردستی حیدر کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اس کی آواز دبائی تھی۔ “زری میری جان یہ اتنی بڑی بات نہیں ہے ..” “سیر ئسلی مما یہ اتنی بڑی بات نہیں ہے ؟؟”وہ حیرت سے چیخ پڑی تھی پورے کمرے کا اس نے حشر نشر کر دیا تھا ایک چیز بھی اپنے ٹھکانے پر نہیں تھی بیڈ شیٹ صوفے پر پڑی تھی کشن سارے کمرے میں بکھرے ہوئے تھے ڈریسنگ ٹیبل کا سارا سامان ٹوٹا بکھرا نیچے کار پیٹ پر پڑا تھا پرفیوم کی ٹوٹی ہوئی بوتلیں اور اس کے استعمال کا سارا میک اپ کا سامان سب نیچے بکھرا پڑا تھا وارڈروب کے سارے کپڑے باہر تھے لیمپ ..اس کے ٹیڈی بیئرز ..شوز سینڈل ..اور شوپیز ..کچھ بھی اپنی جگہ پر نہ تھا اتنی توڑ پھوڑ کرنے کے بعد بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا “اور نہیں تو کیا ..اس میں اتنا غصہ کرنے والی کون سی بات ہے ؟؟” “کیا ہو گیا ہے مما آپکو ..؟ .یہ بات آپ کے لئے چہےچھوٹی ضرور ہوگی ..لیکن میرے لئے ہر گز نہیں ہے ..اور اپ نے مجھ سے یہ بات چھپائی مجھ سے ؟؟” وہ گہرے دکھ سے بولی تھی “میں تمہیں بتانے والی تھی زری .. ” “کب بتاتی ؟ جب آپ اس سمیر کے ساتھ مجھے رخصت کر دیتی تب بتاتی ؟؟ اگر وہ ارمان مجھے نہ بتاتا ..تو مجھے تو پتا ہی نہیں چلنا تھا ” ” زری یہاں آؤ ..میری بات سنو ” “مجھے کچھ نہیں سننا مما ..مجھے بس اتنا بتاۓ کے آپ دونوں نے مجھ سے پوچھے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کیسے کر لیا ؟؟” “شاباش ہے تمہیں زری ..دو سال کی بچی میں اتنی عقل ہوتی ہے کیا ..جو ہم تم سے پوچھ کر فیصلہ کرتے ” “تو پھر آپ لوگ دو سال کی بچی کا نکاح کس طرح سے کر سکتے ہیں ؟؟؟” ” میں کہ تو رہی ہوں تمہیں کے اس وقت حالات ہی کچھ ایسے ہو گئے تھے کے ہمیں یہ فیصلہ کرنا پڑا “میں کچھ نہیں جانتی مما …آپ بس اس کا نام ہٹائیں میرے نام کے آگے سے …” وہ ضدی لہجے میں بولی تھی رو رو کر اس نے اپنا برا حال کر لیا تھا آنکھیں اور ناک بے تحاشہ رونے کی وجہ سے سرخ ہو چکے تھے ابھی بھی اس کی آنکھوں میں بار بار آنسوں آ رہے تھے جن کو وہ ہاتھ کی پشت سے رگڑتی جا رہی تھی “زرنور ..میں کیا سمجھا رہی ہوں تمہیں اتنی دیر سے ؟؟” وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کے پاس آ کر گھٹنو کے بل بیٹھ گئی تھی اور ان کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا “پلیز مما ..کچھ کرے ..میں اس کے ساتھ… شادی ..نہیں کر سکتی …” وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی تھی “ہو سکتی نہیں …ہو چکی ہے …تم مانو یا نہ مانو زری …تم ارمان کے نکاح میں ہو ..” “میں نہیں مانتی اس نکاح کو ..میری مرضی سے نہیں ہوا تھا یہ سب ..” وہ غصّے سے بولی تھی “تم اپنے ماں باپ کے فیصلے کی مخالفت کر رہی ہو زری ؟؟” “مماپلیز ..سمجھنے کی کوشش کرے مجھے ..آپ تو میری ساری باتیں مانتی ہیں نہ تو یہ بھی مان لیں ..پلیز مما ..ختم کردے اس سب کو ..” وہ ان کی گود میں سر رکھے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی زارا بخاری کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کے وہ کیسے اس کو سمبھالیں ؟ وہ اس کا سر سہلانے لگی تھی گلابی رنگ کا وہ چھوٹا سا کارڈ ڈریسنگ ٹیبل پر مڑا تڑا پڑا تھا جو اس بوکے کے ساتھ آیا تھا بوکے کو تو اس نے اسی وقت ڈسٹ بن میں پھینک دیا تھا لیکن اس کارڈ کو نہیں پھینکا تھا جس پر ایک تحریر لکھی تھی ۔