“بتا دو نہ مجھے کے کیوں اتنی ہنسی آرہی ہے تم دونوں کو ؟؟” ریاض نے غصّے سے اشعر اور حارث کو دیکھا تھا جن کا ہنس ہنس کر برا حال ہو رہا تھا چہرے بے تحاشا سرخ ہو چکے تھے “اگر یہ تمہارے ساتھ ہوتا نہ تو تب پوچھتا میں بھی تم سے ” تیمور نے بھی ان کو گھورتے ہوئے کہا تھا “ابے یار تم لوگوں کو کہا کس نے تھا وہاں جانے کو ؟ا اور اگر چلے ہی گئے تھے تو کیا ضرورت تھی ایسے ڈرپوکوں کی طرح بھاگنے کی ؟ تھوڑی تو بہادری دکھاتے ” حارث نے ان لوگوں کو جیسے شرم دلائی تھی “تو کیا چاہ رہا ہے تو .؟ خود کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیتا ..لے بھئی منگلو کھا لے مجھے ..ڈنر سمجھ کر ” ریاض نے تپ کر کہا تھا “ریاض کمینے تو تو کچھ بول ہی مت ..تو ہی لے کر گیا تھا مجھے وہاں ..وہ تو قسمت اچھی تھی میری جو بچ گیا ..ورنہ بیٹھا ہوتا ابھی اس منگلو کے پیٹ میں …” تیمور نے اس کو گھور کر کہا تھا ” ابے چل ..میں کون سا تجھے ہاتھ پیر باندھ کر لے کر گیا تھا .. سالے تو اپنی مرضی سےگیا تھا “ریاض نے دانت پیسے تھے “تو تو ہی تو آ کر ناچ رہا تھا کے نوکری مل گئی نوکری مل گئی ..میں نے سوچا ذرا دیکھو تو جا کر کےکیسی نوکری ہے …” ” بس بیٹا ..تیرا حسد ہی تجھے لے ڈوبا ..” “اوے ..حسد کس بات کا ؟ ..اللہ نہ کرے اگر میں کبھی مارا مارا بھی پھر رہا ہوں گا نہ تو بھی یہ نوکری نہیں کروں گا “تیمور نے کانوں کو ہاتھ لگاے تھے “اچھا بس کرو ..تم دونوں تو لڑنا ہی شروع ہو گے..اور اس کو دیکھو ..حیدر ….اوے پاگل اٹھ جا ..کیا ہوا تجھے ؟؟ اشعر نے حیدر کا کندھا ہلایا تھا جو ٹیبل پر دونوں ہاتھ رکھے ان میں اپنا منہ چھپاۓ بیٹھا تھا ” “اس امیر زادے کو غم لگا ہوا ہے کے اس کا “ستر ہزار ” کا فون منگلو کے پاس رہ گیا “تیمور نے دانت پیسے تھے “ہیں …ستر ہزار کا فون ؟؟؟؟” اشعر اور حارث کی آنکھیں اور منہ کھلے تھے “ابے حیدر تونے کب خرید لیا اتنا مہنگا فون ؟؟؟” اشعر نے حیرت سے پوچھا تھا ” اوے اس کنجوس کی شکل ہے کیا اتنا ستر ہزار فون لینے والی ؟؟ مشکل سے ہی سترہ کا ہوگا ” ریاض نے منہ بنایا تھا “جتنے کا بھی ہو ہزاروں کا تو تھا نہ ؟؟” حیدر نے سر اٹھا کر ان سب کو دیکھا تھا ” دیکھا سچ بات منہ سے نکل ہی جاتی ہے ” تو میں نے کب جھوٹ بولا ہے ؟ ” “تونے کہا ہے نہ کے تیرا فون ستر ہزار کا تھا ” ” ہاں تو اس میں جھوٹ کیا ہے ؟ وہ ہے ستر ہزار کا ” ” دیکھ پھر سے جھوٹ بول رہا ہے ” ارے بھائی جھوٹ تھوڑی بول رہا ہوں ..وہ تو میں پیر سے” سترہ کو ستر کہتا ہوں ” اب اس میں تمہارے کند زہن کا قصور ہے .میری کیا غلطی ہے ؟؟” ان لوگوں نے پہلے اس کو بات کو سمجھنے کو کوشش کی تھی اور جب سمجھ آگئی تو حارث نے اس کے شانے پر تھپکی دی تھی ” واہ بھئی حیدر ..کیا کہنے تیرے ” “شکریہ ..” اس نے بے نیازی سے کہا تھا “اچھا بس ختم کرو اسن منگلو نامے کو ..کہیں آوٹنگ پر چلے .؟؟”اشعر نے ان سب سے پوچھا تھا ” کل ایک سیاسی پارٹی لانگ مارچ ریلی نکال رہی ہے ..ان کے ساتھ ہی چل چلیں گے ” حیدر نے اس کو کہا تھا ” میں نے آوٹنگ کے لئے کہا ہے ..مرنے کے لئے نہیں ..” “تو کیا ہوا ؟ بھلے سے مر جانا تو ..ویسے بھی تیری ہمیں کوئی ضرورت تو ہے نہیں ..اتنا بڑا ریسٹورانٹ ہے تیرے ماموں کا تجھ سے یہ نہیں ہوتا کے کسی دن اپنے بھائیوں کو کھانے پر ہی بلا لے .”ہنہ ..تجھے ہی تو بلاؤگا ..” ” ہاں ہاں ..ہمیں کیوں بلاۓ گا ..ہم لائبہ تھوڑی ہے ” ” ریاض نے بھی منہ بنایا تھا ” اوے حیدر وہ دیکھ …!!”تیمور جوش سے بولا تھا ” کیا دیکھوں ؟؟” “ابے وہ سامنے دیکھ .” تیمور نے کہتے ہوئے ساتھ ہی اس کا منہ پکڑ کر کینٹین کے دروازے کی طرف کر دیا تھا جہاں سے سامنے گراؤنڈ کا منظر نظر آ رہا تھا ” دیکھ لیا ؟؟؟” ” ہاں دیکھ لیا ..ہماری یونی کا گراؤنڈ ہے جو بہت بڑا خوبصورت اور ہرا بھرا ہے اور جہاں بہت سے سٹوڈنٹس چلتے پھرتے اور کھاتے پیتے نظر آتے ہیں “حیدر نے سر آثبات میں ہلاتے ہوئے کہا تھا “ابے گدھے ..میں تجھے اس بلقیس کو دکھا رہا ہوں ..” “کون بلقیس ؟؟” وہ سب ہی چونکے تھے “شرم کر تیمور ..اتنی جلدی تو کوئی کپڑے نہیں بدلتا جتنی جلدی تیری پسند بدل گئی ..کل تک تو ..تو چشمش چشمش کرتا تھا اور آج تو بلقیس کے پیچھے پڑ گیا “اشعر نے تاسف سے کہا تھا “ابے یار اس کا نام ہی بلقیس ہے ..بلقیس بانو .” “اوے تجھے کس نے کہا کے اس کا نام بلقیس ہے ؟؟” حارث نے حیرت سے پوچھا تھا “مجھے تو اس ریاض نے بتایا تھا ” تیمور نے ریاض کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا جس نے اپنی مسکراہٹ دبائی تھی “ابے اس کا نام بلقیس نہیں ہے ..انوشے ہے …” حارث نے کہا تھا ” تجھے کس نے بتایا اس کا نام ؟؟ اور اگر پتا تھا تو بتا نہیں سکتا تھا کیا ؟؟” تیمور نے حارث کو گھور کر کہا تھا “مجھے تو خود کچھ دن پہلے پتا چلا ہے ..اور مزے کی بات بتاؤ ؟؟ وہ زرنور کی فرینڈ ہے ” “زرنور کی فرینڈ کہا سے ہو سکتی ہے ؟ اس کا تو جرنلزم کا ڈیپارٹمنٹ ہے اور چیشمش کا آرٹس ہے “ریاض نے حیرت سے کہا تھا “اب یہ تو مجھے نہی پتا شاید یونی کی باہر کی دوست ہو ..””ابے چھوڑو ابھی اس سب کو …تم میں سے کوئی جائے اور اس کی مدد کرے ..” تیمور بولا تھا ” ابے کس کی مدد ؟؟” ” ارے اس چشمش .میرا مطلب ہے انوشے کی..اوے اشعر جا نہ .. ” ” ابے چل بھئی …بہت تیز ہے وہ.. ایسے گھورتی ہے توبہ ..” اشعر تو فورآ پیچھے ہوا تھا ” ” او حارث تو چلے جا یار مدد کر دے اس کی ثواب ملے گا تجھے ..” تیمور اب حارث کی جانب گھوما تھا ” نہیں بھائی مجھے ایسا ثواب نہیں چاہیے ..تو حیدر کو بھیج دے نہ ..” “مر جاؤ کمینو ..جا اوے حیدر تو ہی چلا جا ..لیکن دیکھ ..پہلے سے ہی کہ رہا ہوں میں تجھے کوئی گڑ بڑ نہیں ہونی چاہیے ..” ” اوے تو فکر ہی مت کر .بھابھی ہے میری تو …” حیدر کہتے ہوئے کھڑا ہو گیا تھا اس نے دوبارہ سے انوشے کو دیکھا تھا جو ایک ہاتھ میں چکن برگر پکڑے دوسرے ہاتھ سے فائل اپنے شولڈر بیگ میں ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی سیل فون پہلے سے کندھے اور کان کے بیچ میں پھنسا تھا ” او بات سن ..تو خود جا نہ ہمارا کیوں سین آن کر وا رہا ہے اس کے ساتھ ؟؟” “انسان بن جا حیدر ..بھابی ہے تیری ..جا جا کر مدد کر اس کی ” تیمور نے اس کو گھرکا تھا جو اس کو گھورتا انوشے کے پاس آیا تھا وہ سب سیدھے ہو کر بیٹھ گۓ تھے “ایکسکیوز می ..مس …کین آئی ہیلپ یو ؟؟” حیدر نے شائستگی سے پوچھا تھا “یا شیور ..” اس نے جلدی سے برگر اور فائل حیدر کو پکڑائی تھی اور کال کٹ کر کے فون آف کر کر پہلے اسے بیگ میں ڈالا پھر حیدر سے فائل لے کر اس کو بھی بیگ میں ڈال کر زپ بند کر دی “تھینک یو سو مچ ” اس نے خوش دلی سے کہا تھا “مینشن ناٹ بھائی …سوری سسٹر ..ویسے کیا آپ ایم اے فائنل کی سٹوڈنٹ ہیں ؟؟” حیدر نے شریفانہ انداز میں پوچھا تھا ” جی ..ایم اے فائنل کی ہی سٹوڈنٹ ہوں ۔۔” “اوے …ادھر آ ..جلدی آ ادھر ” حیدر نے ان لوگوں کی طرف رخ کر کے ہونٹوں کے دائیں بائین ہاتھ رکھ کر چیخ کر بولا تھا اور تیمور تو جیسے انتظار میں ہی بیٹھا تھا کے یہاں حیدر آواز لگاے اور وہاں وہ دوڑ لگا دے ..ابھی بھی وہ بھاگا بھاگا ان دونوں کے پاس پہنچا تھا اس کو دیکھ کر جہاں انوشے کی تیوریاں چڑھی تھی وہیں حیدر نے بھی ایک ابرو اٹھا کرتیمور کو دیکھا تھا “اس کو کیوں بلایا ہے تم نے ؟” انوشے نے حیدر کو تیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تھا “میں نے ؟؟ نہیں بھئی ..میں نے اس کو نہیں بلایا ..کیوں بھائی ..کیوں آے ہو تم ؟؟” “ابے حیدر ..تونے ہی تو آواز دی تھی مجھے ..” تیمور حیرت سے بولا تھا ” کیا کہ رہے ہو بھائی ؟؟ میں نے تم کو نہیں بلایا تھا شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے تمہیں ..میں نے تو اپنے دوست ریاض کو بلایا تھا ..تم کو نہیں …ویسے ہو کون تم ؟”حیدر سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا اور تیمور ہکا بکا کھڑا اس کی شکل دیکھ رہا تھا “حیدر کے بچے ..تونے مجھے ہی بلایا تھا ” اس نے دانت کچکچاۓ تھے “تمہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کے میں نے تمہیں بلایا تھا ؟؟ کیا میں نے تمہارا نام لیا تھا ؟؟ ” “نن نہیں لیکن …!!” “تو بس میں نے تم کو بلایا ہی نہیں ہے تم فضول میں یہاں چلے آۓ ..جاؤ بھاگو یہاں سے ..” حیدر نے کہتے ہوئے ساتھ ہی ہاتھ جھلا کر اسے جانے کا اشارہ کیا تھا اور تیمور کا دل کر رہا تھا کے اس کو کچا چبا جائے ..”فضول آدمی بند کر اپنے ڈرامے …” “کون سے ڈرامے بھائی ؟؟ جب میں نے تمہیں بلایا ہی نہیں تو تم کیوں چلے آۓ ؟؟..” “کمینے تو میرے ہاتھ تی لگ ایک دفع …ہتھوڑے سے پھاڑوں گا میں تیرا سر ..” تیمور نے اس کو گھورتے ہوئے کہا تھا “اے ..کیا دھمکی دے رہے ہو تم اس کو ؟؟ شرم نہیں اتی دوسروں کو بلاوجہ تنگ کرتے ہو ..کمپلین کروں میں تمہاری ؟؟…” انوشے نے حیدر کو سائیڈ پر کیا تھااور خود اس کے سامنے جا کر کھڑی ہو کے اپنے چشمے کے پیچھے چھپی بڑی بڑی آنکھوں سے تیمور کو گھورنے لگی تھی “نن ..نہیں ..دددھمکی نہیں دے ..رہا میں اس کو …” تیمور بیچارہ گڑ بڑا گیا تھا “اچھا تو کیا پھر لوری سنا رہے ہو تم اس کو ؟؟” اس نے فہمائشی انداز میں پوچھا تھا “ددیکھیں آپ میری بات سنیں …” “چپ کرو تم ..کوئی بات نہیں سننی مجھے تمہاری ..اور آیندہ اگر تم کسی کو تنگ کرتے ہوئے نظر آۓ نہ تو دیکھنا پھر اچھا نہیں ہوگا تمہارے ساتھ …” وہ انگلی اٹھا کر اس کو وارن کرتی حیدر کے ہاتھ سے اپنا برگر اور جھپٹ کر وہاں سے چلی گئی تھی تیمور نے گردن موڑ کر حسرت سے اس کو جاتے دیکھا تھا اور پھر پلٹ کر دوبارہ حیدر کو جو اس کو ہی دیکھ کر ہنس رہا تھا “کمینے تجھے تو نہیں چھوڑوں گا میں ….!”اس سے پہلے کے تیمور حیدر کی گردن جھپٹ لیتا حیدر چیختا ہوا وہاں سے بھاگا تھا ” اوے تیمور کیا کر رہا ہے ..؟؟میں دوست ہو تیرا …” “تو رک تو سہی میں بتاتا ہوں تجے ..”تیمور اس کو پکڑنے کے لئے اس کے پیچھے بھاگا تھا۔ “اب اٹھ بھی جاؤ لڑکی ..جان چھوڑ دو اپنے بیڈ کی ..دو دن سے تم اسی کی ہو کر رہ گئی ہو ” مناہل دروازہ کھول کر ٹرے میں سوپ کا پیالہ رکھے اس کے کمرے میں داخل ہوئی تھی جہاں وہ بیڈ پر بلینکٹ اوڑھے لیٹی تھی اس کو آتا دیکھ وہ بیڈ کی بیک سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی تھی “کیسی ہو تم مناہل ؟؟” اس نے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے اپنے انداز میں بشاشت پیدا کرتے ہوئے کہا تھا لیکن ناکام رہی تھی “میں تو ٹھیک ہوں لیکن تم مجھے بلکل بھی ٹھیک نہیں لگ رہی ..جلدی سے یہ سوپ ختم کرو اس کے بعد ڈاکٹر کے پاس چلیں گے ..” مناہل نے سوپ کا پیالہ اس کے سامنے کیا تھا جس کو اس نے ہاتھ سے پیچھے کر دیا تھا “میرا دل نہیں کر رہا ..یہ پینے کو” “کیا ہو گیا ہے زری تمہیں ؟؟انٹی بتا رہی تھی کے تم نے صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا رات کو بھی صرف دودھ پیا تھا ..کچھ کھاؤگی نہیں تو ٹھیک کیسے ہو گی ؟؟چلو شاباش جلدی سے پیو ..” سچ میں مناہل ..مجھے بلکل بھی بھوک نہیں ہے ابھی ..بعد میں پی لوںگی .” “بعد میں کب پیو گی ؟ ابھی ختم کرو اسے ..اور پھر بتاؤ مجھے کے کیا ہوا ہے تمہارے ساتھ ؟؟کیوں کر لی تم نے اپنی یہ حالت ؟ ” ” میں بیمار ہوں مناہل ..دیکھو بخار ہو رہا ہے مجھے ” اس نے ثبوت کے لئے اپنا ہاتھ بھی سامنے کر دیا تھا جس کو اس نے نظر انداز کر دیا تھا “پتا ہے مجھے کوئی بخار وخار نہیں ہے تمہیں اور نہ ہی تمہاری طبیت خراب ہے ..” “تو میں کیا پھر جھوٹ بول رہی ہوں ؟” “اس کا مجھے نہیں پتا ..فلحال تو تم اس کو ختم کرو .” “مناہل پلیز …!!” “کوئی پلیز ولیز نہیں ہے جلدی پیو اس کو ..اور تمہیں پتا ہے کے میں کتنی ضدی ہوں …”وہ ڈپٹ کر بولی تھی تب اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی سوپ پینا شروع کر دیا تھا اور چار پانچ چمچ لے کر ہی واپس کر دیا تھا “پورا تو پیو ..” “اور نہیں پیا جائے گا ..” “آدھا بھی نہیں پیا ..سینڈوچ بنا دوں ؟؟” “اس کے ضرورت نہیں ہے ..” وہ نڈھال سی ٹیک لگا کر بیٹھ گئی تھی “چلو پھر اب بتاؤ ..کیوں طبیعت خراب کر لی تم نے اپنی ؟.حیدر کا تو دل ہی نہیں لگ رہا تمہارے بغیر …”مناہل نے ہنستے ہوئے کہا تھا “ہاں مجھے کال کی تھی اس نے کہنے لگا کے ..کل اگر تم نہیں آئی تو پوری یونی کو اٹھا کر تمہارے گھر لے آؤں گا “وہ بھی ہنس دی تھی “زرنور کیا ہوا ہے تمہیں ؟؟ کیا زارا انٹی نے کچھ کہا ہے ؟؟” مناہل نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر نرمی سے پوچھا تھا جو بے حد سرد ہو رہے تھے “نہیں ..” اس نے نفی میں سر ہلاتے زور سے اپنی پلکیں جھپکی تھی “تو بتاؤ نہ یار کیا ہوا ہے پھر ؟؟ کیا مجھ سے بھی شئیر نہیں کرو گی ؟؟..” “ایسی بات نہیں ہے ” ضبط سے اس کا چہرہ گلابی پڑنے لگا تھا “تو کیا احمد نے کچھ کہا ہے ؟؟” “احمد …!!” اس نے زیر لب اس کا نام لیا تھا وہ اپنے آنسووں کو روک نہ سکی تھی اور ایک کے بعد ایک آنسو اس کے گالوں پھسلتے چلے گئے تھے وہ مناہل کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی تھی “زری ..زری کیا ہوا تمہیں ؟اس کے ایک دم سے رونے پر مناہل پریشان ہو گئی تھی “رو رو کر اس کی ہچکیاں بندھ گئی تھی تب مناہل نے پانی کا گلاس اس کو دیا تھا جس میں سے اس نے بامشکل دو گھونٹ ہی لیے ہوں گے زرنور گہری سانس لے کر خود کو رونے سے باز رکھ رہی تھی “ار ارمان …!!” “ارمان ؟؟ کون ارمان ؟؟” مناہل نے نہ سمجھی سے اس کو دیکھا تھا تب اس نے شروع سے لے کر آخر تک اسے ایک ایک بات بتاتی چلی گئی تھی مناہل بے یقینی سے اس کو دیکھ رہی تھی “زری ..کیا سچ میں ؟؟” اسے یقین نہیں آرہا تھا ” زرنور نے سر آثبات میں ہلایا تھا ” لیکن تم تو کہ رہی ہو کے زرا انٹی کی کوئی بہن نہیں ہے ..تو پھر یہ خالہ ؟؟” “مما کی بیسٹ فرینڈ تھی سیماب آنٹی.اور عدیل انکل پاپا کے ..آنٹی کو برین ٹیومر تھا انہی کی خوائش پر یہ نکاح ہوا تھا انکل ان کو ٹریٹمنٹ کے لئے اٹلی لے گئے تھے لیکن علاج کامیاب نہ ہو سکا اور ان کی ڈیتھ ہو گئی تب سے انکل دوبارہ پاکستان نہیں آۓ ہیں ” اس نے دوپٹے سے اپنی آنکھیں رگڑی تھی “یہ کوئی اتنی بڑی بات تو نہیں ہے جو تم دو دن سے اپنی یہ حالت کئے بیٹھی ہو ” “تم لوگوں کو یہ بات اتنی چھوٹی کیوں لگ رہی ہے ..سمجھ نہیں آرہا میرے ..” “تو اس میں مسئلا کیا ہے ؟؟اب تمہاری شادی کسی سے تو ہونا تھی نہ ؟ اب وہ ارمان ہو یا کوئی اور ..کیا فرق پڑتا ہے ؟ ” “تم لوگوں کو نہیں پڑتا لیکن مجھے پڑتا ہے اور …. بہت زیادہ …مجھے نہیں قائم رکھنا اس کے ساتھ کوئی بھی رشتہ …” ارمان کے ذکر پر کڑواہٹ سی گھل گئی تھی اس کے منہ میں “کیوں نہیں قائم رکھنا چاہتی تم اس کے ساتھ یہ رشتہ ؟؟” “مجھے نہیں پتا …” کیا احمد کی وجہ سے ؟؟” مناہل غور سے اس کو دیکھ رہی تھی جو احمد کے نام پر چونکی تھی ..” اح ..احمدکا یہاں کیا ذکر ؟؟ اور میں کیوں اس کی وجہ سے منع کروں گی ؟؟ ” اس نے نظریں چرائی تھی “دیکھو زرنور ..اگر ایسی کوئی بات ہے تو تم مجھے کھل کر بتاؤ نہ ..تاکے میں کوئی حل نکال سکوں ..” “نن نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے “اس نے ٹالنا چاہا تھا “تمہں کیا لگتا ہے زر نور ..اگر تم مجھے بتاؤ گی نہیں تو کیا مجھے کچھ پتا نہیں چلے گا ؟؟” “کہنا کیا چاہتی ہو تم ؟ ” ” کیا تم اس میں انٹرسٹڈ ہو ؟؟ ” “کیسی فضول بات کر رہی ہو تم ؟ میں کیوں بھلا اس میں انٹرسٹڈ ہوں گی ؟؟” وہ کہتے ہوئے بیڈ سے اٹھنے لگی تھی لیکن مناہل نے اس کو اٹھنے نہیں دیا تھا ” کیا ؟؟” زرنور نے سوالیہ نظرو سے اس کو دیکھا تھا “پہلے مجھے پوری بات بتاؤ ..” مناہل پلیز اس ٹوپک کو رہنے دو ..میں نے بہت مشکل سے خود کو کنٹرول کیا ہے “وہ بے بسی سے بولی تھی “میں وہی تو کہ رہی ہوں کے جو بھی تمہارے دل میں ہے تم مجھ سے شئیر کرو نہ ..””مجھے خود نہیں سمجھ آ رہا کے ہو کیا گیا ہے مجھے؟ ..”اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا تھا ” کیا …کچھ کہا ہے احمد نے تم سے ؟؟” “احمد …!!” اس نے چونک کر مناہل کو دیکھا تھا اور زور سے پلکیں جھپکی تھی “مناہل ….وہ ..وہ کچھ کہتا ہی تو نہی ہے مجھ سے “بلآخر اس نے ہتھیار ڈال دئے تھے تھک چکی تھی وہ بھی اب دل میں یہ بات چھپاۓ ” مجھے نہیں پتا یار کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ .لیکن ..لیکن مجھے احمد ….احمد چاہیے مناہل …..!!” ” کیا..یہ کیا کہ رہی ہو تم ؟؟” مناہل نے حیرت سے اس کو دیکھا تھا جو کتنی بکھری ہوئی لگ رہی تھی “وہ کیوں نہیں دیکھتا مجھے ؟ مناہل کیا میں بہت بری ہوں …؟؟اچھی نہیں لگتی میں اس کو ؟؟ بتاؤ نہ مناہل …لیکن میں کیا کروں ؟؟ وہ قابض ہو چکا ہے میرے دل و دماغ پر …اسے کہو نہ مناہل ..اسے بتاؤ کے وہ صرف میرا ہے ..صرف میرا ..” اس کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر نکلے تھے “مناہل تم تو میری اچھی دوست ہو نہ ..پلیز کچھ کرو.نہ تم ..مجھے.. مجھے وہ چاہیے ..میں نہیں رہ سکتی اس کے بغیر …کچھ کرو مناہل ..خدا کے لئے کچھ کرو …میں ..میں مر جاؤں گی اس کے بغیر …” وہ دم بخود سی اس کے منہ سے یہ اطراف سن رہی تھی اسے بلکل بھی اندازہ نہ تھا کے زرنور اتنی آگے جا چکی ہو گی مناہل نے اس کو گلے لگا لیا تھا “میری جان ..زرنور سمبھالو خود کو …” “آنکھوں میں تیری عجب سی عجب سی ادائیں ہیں ….” ” ابے ڈھکن ..ادائیں نہیں ہے چشمہ ہے چشمہ ..وہ بھی موٹے والا ..ہا ہا ہا …” دو گھنٹے بھاگنے کے بعد بھی وہ تیمور کے ہاتھ نہیں لگا تھا تب وہ تھک ہار کر دوبارہ کینٹین میں ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا تھا اور اب نہ جانے کہاں سے وہ ٹپکا تھا ” تو اپنا منہ بند ہی کرلے تو بہتر ہے ورنہ زاعع ہو جائے گا میرے ہاتھوں ” تیمور نے اس کو گھورتے ہوئے کہا تھا جو اس کے سامنے ہی کرسی کھینچ کر بیٹھ چکا تھا “ابے چل ..میرے اوپر کیوں رعب ڈال رہا ہے ؟ اگر ہمت ہے تو لے یہ پھول لے کر جا ..اور کر جا کر چیشمش کو پرپوز ..”حیدر نے کہتے ہوئے ساتھ ہی ایک گلاب کا پھول ٹیبل پر اس کے سامنے رکھا تھا تیمور نے پھول پر سے نظریں ہٹا کر اشعر حارث اور ریاض کو سوالیہ انداز میں دیکھا تھا مرد بن تیمور مرد بن ..جا کر بول دے اس کو کے تجھے شادی کرنی ہے اس سے ..اور ڈر کیوں رہا ہے ؟؟ لڑکی ہی تو ہے کیا کریگی زیادہ سے زیادہ تھپڑ ہی مارےگی نہ ؟ تو کیا ہوا کھا لیو ..” اشعر نے اس کی ہمت بندھائی تھی “اشعر ٹھیک کہ رہا ہے تیمور ..اگر وہ تجھے پسند ہے تو ..تو بتا دے اس کو ..ورنہ کوئی اور رخصت کروا کر لے جائے گا اسے ..اور تو ہاتھ ملتا رہ جائے گا ” “حارث تو کیا کہتا ہے ؟؟” تیمور کا دل نہیں مان رہا تھا “شاباش تیمور میرے بھائی ہمت کر ..اور جا کر سینہ ٹھوک کر بول دے اس کو ..کے صرف وہ ہی تیری دلہن بنے گی ..چل جلدی سے اٹھا یہ پھول ..اور جا اس کے پاس “وہ چارو مل کر اسے جوش دلا رہے تھے تیمور نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس پھول کو اٹھایا تھا اور کھڑا ہو گیا تھا “اوے رک ایک منٹ ..” حیدر نے بیٹھے بیٹھے کہا تھا “یہ شکل لے کر جائے گا نہ اس کے پاس تو ..جوتا کھینچ کر مارے گی تیرے منہ پر ..لگ رہا ہے کے کسی کو پرپوز کرنے نہیں بلکے مار کھا کر آ رہا ہے ..”حیدر نے گھر کا تھا “واقعی میں تیمور ٹھیک کر اپنی شکل اور ڈر کو نکال کر پھینک دے اپنے اندر سے ..وہ کھا نہیں جاےگی تجھے “حارث نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی تھی “ت تم لوگ بھی چلو میرے ساتھ .” “ہاں ہاں تو چل ہم تیرے پیچھے ہی آ رہے ہیں ..” “مجھے مجھے تھک نہیں لگ رہا ہے یہ سب ..” تیمور کو ڈر لگ رہا تھا “اچھا چل تو تھوڑی دیر کے لئے یہ سپوز کر لے کے چیشمش کی شادی ہو رہی ہے ریاض کے ساتھ ..” “اوے حیدر ..کیا بکواس کر رہا ہے یہ ؟؟” ریاض چیخا تھا ” “منہ توڑ دوں گا میں تیرا حیدر …” تیمور بھی غصّے سے بولا تھا “اچھا اچھا ریاض کے ساتھ نہیں ..کسی اور کے ساتھ ہو رہی ہے ..اب تو کیا کرے گا ؟؟”حیدر نے تیمور کو دیکھا تھا جس کی آنکھیں ایک دم ہی سرخ پڑنے لگی تھی ” جان سے مار دوں گا میں اس کو …” “اور انوشے بھابی کو کیا کہے گا ..اگر وہ بھی اس کے ساتھ شادی کرنا چاہے تو ؟؟” ” ایسا ہو ہی نہیں سکتا ..انوشے کی شادی میرے علاوہ کسی کے ساتھ ہو ہی نہیں سکتی ..” وہ مضبوط لہجے میں کہتا اس کو پھول کو اپنی مٹھی میں دباتا وہاں سے نکلتا چلا گیا تھا “ابے پاگل حیدر ..یہ کیا کر دیا تونے ؟ وہ کہیں کچھ الٹا سیدھا نہ کردے …”حارث کو ہول اٹھنے لگے تھے “اوے ریلکیس کرو کچھ نہیں کرے گا وہ چیشمش کے سامنے جاتے ہی بھیگا بلّا بن جائے گا ” حیدر نے مطمئن انداز میں کہا تھا۔ وہ گراؤنڈ میں الگ تھلگ گوشے میں بیٹھی تھی موسم خاصا پیآرا ہو رہا تھا آوائل سردیوں کے دن تھے ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھی اس کا موڈ بھی خوشگوار ہو گیا تھا آج حنا نہیں آئی تھی اس لئے وہ اکیلے ہی اپنی آسائمنٹ کمپلیٹ کر رہی تھی تیمور نے اسے دور سے ہی دیکھ لیا تھا جو درخت کے نیچے بیٹھی گلابی اور وائٹ فراک میں نازک سے فریم کا چشمہ لگاۓ مہکا سا پھول لگ رہی تھی ہمیشہ کی طرح اس کے بال کمر پر بکھرے تھے وہ کبھی بھی بالوں کو پونی یا جوڑے میں نہیں باندھتی تھی لیکن سر پر دوپٹہ اوڑھے رکھتی تھی وہ رہ ہی نہیں سکتا تھا اس کے بغیر ..یہ لڑکی اس کی زندگی بن گئی تھی “انوشے …!!!” وہ اس کے پاس آ کر استہقاق سے بولا تھا “اس نے چونک کر سر اٹھا کر اس کو دیکھا تھا جو جینز پر ڈریس شرٹ پر سیلولیس جیکٹ پہنے دونوں ہاتھ پشت پر باندھے سنجیدہ سا کھڑا تھا استہققانہ انداز میں ہی وہ اس کو دیکھ رہا تھا بلاشبہ وہ ایک وجہہ مرد تھا لڑکیاں مرتی تھی اس پر لیکن وہ جس پر مرتا تھا وہ تو کچھ سمجتی ہی نہیں تھی “کیامسئلا ہے ؟؟” “بات کرنی ہے آپ سے ..” “میں فارغ نہیں ہوں نظر آ رہا ہوگا تمہیں ..” “پلیز مجھے ضروری بات کرنا ہے ..” انوشے اپنا کام چھوڑ کر اس کے مقابل دونوں ہاتھ سینے پر باندھے کھڑی ہو گئی تھی اور سوالیہ نظرو سے اس کو دیکھنے لگی تھی اس کے صرف دیکھنے پر ہی تیمور کا جوش جھاگ کی طرح بیٹھنے لگا تھا “وہ مم مجھے کہنا تھا کے …!!” “منع کیا تھا نہ میں نے کے آئندہ شکل مت دکھانا مجھے اپنی …”وہ گھور کر بولی تھی “بولو جلدی کیا کہنا ہے ؟؟” وہ وہ مم مجھے …” تیمور کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کے کیسے اسے کہے ” اب بول بھی دو ..کیا وہ وہ کیے جا رہے ہو ” وہ ڈپٹ کر بولی تھی “ان انوشے ..وہ ..میں ..میں اپ کو ..” “افوہ ..ہکلآنا تو بند کرو پہلے” “وہ مجھے نہیں سمجھ آ رہا کے میں کیسے کہوں ؟؟” وہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر بے بسی سے بولا تھا انوشے کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی “کیا بکواس کر رہے ہو ؟؟ ساری یونی میں تم غنڈے بنے پھرتے ہو کبھی اس کو فضول میں مارا کبھی کس کو مارا .اور میرے سامنے تمہاری آواز نہیں نکل رہی ؟؟”وہ تیزنظروں سے دیکھتی ہی بولی تھی “ہاں تو آپ اتنا ڈانٹتی کیوں ہیں مجھے ؟؟” وہ منہ بسور کر بولا تھا “پاگل تو نہیں ہو گئے تم ؟؟ وہ حیرت سے چیخ پڑی تھی “میں ڈانٹتی ہوں تمہیں ؟ ” ” ہاں …” “کیا ..؟؟” ” ہاں ..مطلب نن نہیں ..میں تو کہ رہا تھا کے …!!” “چپ کرو تم…” وہ اس کی بات کاٹ کر بولی تھی جبھی تیمور کی نظر سامنے پڑی تھی جہاں اشعر حارث حیدر اور ریاض کھڑے تھے انوشے کی ان کی طرف پشت تھی حیدر اشارے سے تیمور کو کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا جو اس کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا ریاض نے کیاری میں سے پھول توڑ کر ہاتھ اونچا کر کے دکھایا بھی تھا اس کو کے پھول دے دے انوشے کو جو تیمور نے اپنے پیچھے چھپایا ہوا تھا “اوے فضول آدمی اب بول بھی دے .کیا پھول ہاتھ میں ہی لے کر کھڑا رہے گا ؟”حیدر نے دانت پیسے تھے “ابے حیدر تونے ٹھیک کہا تھا ..ہمارے سامنے تو ایسے چیخ چنگہاڑ کر گیا تھا اور اب دیکھ کیسے آنکھیں نیچے کر کے چپ چاپ اس شیرنی کی صلوا تیں سن رہا ہے ..”ریاض نے بھی انوشے کے ساتھ کھڑے تیمور کو دیکھ کر کہا تھا “ایسے تو اس کی کشتی پار نہیں لگنی .مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا ..” حیدر کے کہنے پر وہ تینوں ہی چونکے تھے “پاگل ہو گیا ہے کیا حیدر ..؟ کیوں پراۓ پھڈے میں ٹانگ اڑا رہا ہے ؟ تیرے بیچ میں جانے سے مسئلا اور خراب ہو جائے گا ..اسے خود حل کرنے دے اپنے مسئلے ..” اشعر نے اس کا بازو پکڑ لیا تھا “یار تم لوگ دیکھو تو سہی اس کی حالت ..لگ رہا ہے کے ابھی گر پڑے گا ..” حیدر اپنا بازو چھڑوا کر جلدی سے بھاگ کر ان دونوں کے پاس پہنچا تھا “السلام وعلیکم بھابی ..کیسی ہیں اپ ؟؟ یقینآ آپ بور ہو گئی ہوں گی اس سے ..ہے نہ ؟؟ کیوں کے یہ پاگل اتنی دیر سے آپ کو پکاۓ جا رہا ہے لیکن اس سے اتنا نہیں ہوتا کے سیدھے سیدھے “ول یو میری می ” بول دے ..اور میں جانتا ہوں کے یہ کہے گا بھی نہیں ..ڈرتا ہے نہ آپ سے دہشت بھی تو اتنی ہے آپ کی اس پر لیکن بندہ یہ دل کا بہت اچھا ہے تھوڑے سے تیڑھے دماغ کا ہے لیکن سچ میں آپ کو خوش بھی بہت رکھے گا اس بات کی تو میں گارنٹی دیتا ہوں آپ کو “تیمور حیدر کو اشارے کے جا رہا تھا کے چپ کر جا چپ کر جا ..لیکن وہ اس کو دیکھ ہی نہیں رہا تھا وہ صرف انوشے کی طرف متوجہ تھا جو حیرت سے منہ کھولے اس کو دیکھ رہی تھی “دیکھیں یہ غریب پھول بھی لے کر آیا تھا آپ کے لئے لیکن ہمّت ہی نہیں دینے کی …اوے تیمور …چل دے بھابی کو پھول ..دے بھی دے یار اب غصہ نہیں کریگی تجھ پر ..میں نے بات کر لی ہے ..دے دے نہ پھول …” تیمور امید بھری نظرو سے انوشے کو دیکھ رہا تھا “چل حیدر نکل اب یہاں سے …” “ہاں ہاں اب کون پوچھے گا حیدر کو ..معاملا جو سیٹ ہو گیا .. دیکھ بیٹا تو بعد میں تو مل مجھے ..خودغرض کہیں کے …” حیدر اس کو گھورتا ہوا ماتھے تک ہاتھ لے جا کر انوشے کو مسکرا کر دیکھتا وہاں سے بھاگا تھا تیمور دو قدم چل کر انوشے کے بلکل سامنے آ کر کھڑا ہو گیا تھا اور اپنے پیچھے چھپاۓ پھول کو اس نے اس کے سامنے کیا تھا “انوشے …میں اپ سے اظہار محبّت کرنا چاہتا ہوں ..لیکن اس سے پہلے میں آپ کو اپنا بنانا چاہتا ہوں ..کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی ؟؟” تیمور کے ہونٹوں پر دلفریب سی مسکراہٹ تھی انوشے نے ایک نظر اس کے ہاتھ میں پکڑے اس پھول کو دیکھا تھا اور پھر اس کو ..جس کی آنکھوں میں جگنو سے چمک رہے تھے دوسرے ہی لمحے اس نے زناٹے دار تھپڑ کھینچ کر اس کے منہ پر مارا تھا “تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے یہ کہنے کی..ہاں . ؟؟ اچھی طرح سے جانتی ہوں میں تم جیسے امیرزادو کو ..لڑکیوں کو تم نے سمجھ کیا رکھا ہے ؟؟ صرف ٹائم پاس ؟؟ ایک سے دل بھر گیا تو دوسری کے پاس اس سے بھی دل بھر گیا تو تیسری کر پاس ..میں کس نمبر پر ہوں؟ یہ بھی بتا دو ..تم جیسے تھرڈ کلاس عاشقوں پر تو میں تھوکنا بھی پسند نہیں کرتی .اور آخری بار کہ رہی ہوں میں تم سے ..آئندہ مجھے تنگ مت کرنا ورنہ سیدھے تمہیں اس یونی سے نکلوادوں گی میں ..کمزور مت سمجھنا تم مجھے …” وہ غصّے سے چبا چبا کر بولتی ایک کہر بھری نظر اس پر ڈال کر نیچے جھک کر اپنا سامان اور بکس سمیٹنے لگی تھی تیمور ایک ہاتھ گال پر رکھے بے یقین سا کھڑا تھا اس کی آنکھیں دھواں دھواں ہو رہی تھی چہرہ اہانت سے سرخ پڑنے لگا تھا وہ اس کے پاس سے ہو کر جانے لگی تھی لیکن تیمور نے پھرتی سے اس کا بازو پکڑ کر اپنے سامنے کیا تھا “میں کوئی گیم نہیں کھیل رہا آپ کے ساتھ ..سچ میں ..محبت کرتا ہوں میں آپ سے ..” “ہاتھ چھوڑو میرا …” وہ چیخی تھی اسے حیرت ہو رہی تھی ک تھپڑ کھانے کے بعد بھی کیسے دلیری سے اس کا ہاتھ پکڑے کھڑا تھا “آپ کو شادی کرنا پڑے گی مجھ سے ..” “میں نے کہا ہے نہ تم سے کے چھوڑو میرا ہاتھ ..” وہ خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس کی گرفت اتنی مظبوط تھی کے اس کو درد ہونے لگا تھا “نہیں چھوڑوں گا میں ..کرلیں جو کرنا ہے …” وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا بے خوفی سے بولا تھا انوشے نے لب بھینچ لئے تھے اور الٹے ہاتھ کا تھپڑ اس کے دوسرے گال پر مارا تھا “یہی اوقات ہیں میری نظر میں تمہاری ..آئندہ جب بھی مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرو تو ..ان تھپڑو کو ضرور یاد کر لینا ..وہ سرخ چہرے کے ساتھ چیخ کر بولتی ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر وہاں سر چلی گئی تھی تیمور نے اس کو پلٹ کر نہیں دیکھا تھا وہ وہیں کھڑا رہ گیا تھا انوشے اپنے دونوں ہاتھوں کو دبا رہی تھی جو لال ہو چکے تھے اتنی زور سے اس نے مارا تھا کے اس خود کے ہاتھ درد کرنے لگے تھے. “اوے ریاض ..گاڑی روک جلدی …روک نہ …” حیدر کے ایک دم سے چیخنے پر اس نے گاڑی کے بریک لگاۓ تھے “دیکھ حیدر جب تو میرے ساتھ کہیں جائے نہ تو انسانوں کی طرح بیٹھا کر ..ایک دم سے تو چیختا ہے میرا بیچارہ دل دھک دھک کرنے لگ جاتا ہے “ریاض غصّے سے بولا تھا “اوے ریاض چپ کر تو ..اور وہ دیکھ سامنے ..” ریاض نے اس کا سر پیچھے کر کے کھڑکی کا شیشہ نیچے کر کے باہر دیکھا تھا “کہاں دیکھوں ؟؟” “ابے وہ چاٹ کا ٹھیلہ دیکھ ..” “تونے اس لئے گاڑی رکوائی تھی ؟؟” “یار میں تو صرف یہ دیکھ رہا تھا کے ..چاٹ تو صرف چاچا بیچتے ہیں ..یہ چاچیوں نے کب سے چاٹ کے ٹھیلے لگانے شروع کر دیے ..؟” “ابے کون سی چاچی ؟؟” “ارے یار وہ کھڑی تو ہے چاچا کے ساتھ ..”ریاض نے غور سے دیکھا تو واقعی چاٹ والے انکل کے ساتھ ایک لڑکی بھی کھڑی تھی جس نے جینز پر ٹاپ پہن رکھا تھا لڑکی تو خاصی پیاری تھی جو ارد گرد سے بے نیاز مہارت سے چاٹ کی پلیٹیں بنا رہی تھی اور چاچا بےچارے سائیڈ پر کھڑے نہ جانے کیا کیا بولے جا رہے تھے جن کی وہ سن ہی نہیں رہی تھی “آجا ریاض ..چاچی کے ہاتھ کی بنی چاٹ کھا کر چلتے ہیں ..” حیدر نے شرارت سے کہتے ہوئے آنکھ ماری تھی “چھوڑ نہ حیدر ..وہ سب انتظار کر رہے ہوں گے ..” “اوہو ..صرف پانچ منٹ ہی تو لگیں گے ..چل آجا ..” حیدر کہتے ہوئے گاڑی سے نیچے اتر آیا تھا آنکھوں پر گاگلز لگاتا اور بال ٹھیک کرتا وہ اس ٹھیلے کے پاس پہنچا تھا جہاں پہلے سے دو چار لوگ کھڑے تھے اور وہ ان کو چاٹ کی پلیٹیں بنا کر دے رہی تھی “السلام و علیکم چاچی ..کیسی ہیں آپ ؟ حیدر نے ماتھے تک ہاتھ لے جا کر اس کو سلام کیا تھا جس نے چونک کر کہا تھا “ذرا دو پلیٹیں تو بنا دیں ..اور ہاں مرچیں تیز ..” “میں کیا تمہیں چاچی نظر آتی ہوں ؟؟” وہ گھور کر بولی تھی “اور نہیں تو کیا .چاٹ بنانے والے تو چاچا ہوتے ہیں .اور بنانے والی چاچی ..اس لئے تم ہوئی چاچی ..” حیدر آنکھیں گھما کر بولا تھا “اسٹاپ کالنگ می چاچی ..”وہ تپ کر بولی تھی “سوری سسٹر ..اسکی تو عادت ہے بکواس کرنے کی ..آپ پلیز دو پلیٹیں بنا دے .””ریاض کو مجبورآ اسی لڑکی کو بولنا پڑا تھا کیوں چاچا تو سائیڈ پر ہاتھ باندھے کھڑے تھے اور وہ ان کے پورے ٹھیلے پر قبضہ کیے ہوئے تھی وہ ان کو گھورنے کے بعد جلدی جلدی پلیٹ بنانے لگی تھی “یار چاچا..چھوٹی(ہیلپر ) تو آپ کے پاس پہلے سے ہی ہے ایک اور چھوٹے .. کی جگہ خالی ہے تو مجھے بھی رکھ لیں ..پلیٹیں صاف کر دیا کروں گا ..” حیدر نے کہا تو چاچا سے ہی کہا تھا لیکن نظریں اسی پر جمی تھی “ارے بیٹا کیا بات کرتے ہو ؟ میں تو خود اس لڑکی سے پریشان ہو گیا ہوں ..اتنی دیر سے اس کو منع کئے جا رہا ہوں لیکن یہ کچھ سنتی ہی نہیں ..اب تم ہی بتاؤ بیٹا .لڑکیاں بھی کبھی چاٹ بیچا کرتی ہیں کیا ؟؟ ” بوڑھے چاچا خاصے ناراض نظر آ رہے تھے “اب یہ تو آپ لوگوں کی غلطی ہے چاچا .آپ لوگ عورت کو آگے بڑھتا ہوا دیکھ ہی نہیں سکتے ..عورت چاہے تو کہاں سے کہاں پہنچ جائے ..لیکن آپ سب کی وجہ سے اسے ایک قدم پیچھے رہنا پڑھتا ہے “یشفہ نے چاٹ کے پلیٹیں ریاض کو پکڑاتے ہوئے کہا تھا “ابے چاچی تو بہت پیاری ہے ..آواز بھی کمال ہے ..”حیدر ریاض کے کان میں گھس کر بولا تھا “چپ کرجا پاگل ..سن لے گی تو ابھی چھ انچ کی ہیل تیرے سر پر برسانا شروع ہو جائے گی “ریاض نے اس کو کہنی ماری تھی حیدر نے ہنستے ہوئے اس کے ہاتھ سے پلیٹ لی تھی یشفہ نے اس کی بات سن لی تھی وہ ٹشو سے ہاتھ صاف کرتی پرسوچ نظروں سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی جو چاٹ کھانا شروع ہو چکے تھے یشفہ نے جلدی سے ٹشو پھینک کر کلچ میں سے اپنا سیل نکالا تھا اور ویڈیو کیمرہ آن کر کے ان پر فوکس کیا تھا “اے چاچی .یہ کیا کر رہی ہیں آپ ؟؟ “حیدر نے حیرت سے پوچھا تھا ” آج میں نے فرسٹ ٹائم چاٹ بنائی ہے نہ ..اس لئے جاننا چاہ رہی ہوں کے کیسی لگی ..ذرا بتاۓ تو سہی ..” “وہ اپنے اندر اٹھتی غصے کی لہر کو دبا کر آنکھیں پٹ پٹا کر بولی تھی “ارے چاچی ..کمال کر دیا ..کیا کہنے اس چاٹ کے ..ایسی چاٹ تو میں نے …!!” حیدر کھاتا جا رہا تھا اور بولتا جا رہا تھا جبھی مرچوں کا ایک تیز ریلہ اس کے منہ میں گھلا تھا اس کے کانوں میں سے دھواں نکلنے لگا تھا یشفہ نے چاٹ کے نیچے کٹی ہوئی اور پسی ہوئی مرچوں کا پورا پہاڑ چھپایا ہوا تھا “ابے تجھے کیا ہوا ؟؟”ریاض نے نہ سمجھی سے اس کو دیکھا تھا اس کی پلیٹ میں مرچیں نہیں تھی ..”ہاہ ….اف مرچیں ..مرچیں ..پانی دو پانی دو …ہاہ ..بہت مرچی ہے …پانی دو مجھے ..جلدی ..” حیدر پلیٹ کو ٹھیلے پر پٹختا ہونٹوں کو گول کئے ہاتھ کا پھنکا جھلتا پورے روڈ پر اچھل رہا تھا “اوہ ..کیا ہوا بیٹا ..کیا مڑچیں تیز ہو گئی چاچی سے ؟؟” یشفہ اپنی ہنسی کو کنٹرول کرتی مصنوئی حیرت سے بولی تھی حیدر کی آنکھوں سے پانی بہ رہا تھا تین گلاس پانی کے پینے کے بعد بھی مرچیں کم نہیں ہوئی تھی شوق شوق میں پوری آدھی پلیٹ کھا گیا تھا “تم ..تم ..تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا ..؟؟ اتنی مرچیں کون ڈالتا ہے ؟؟…اور بند کرو یہ ریکارڈنگ ..سمجھ نہیں آرہا ؟؟ کیا کہ رہا ہوں میں ..بند کرو اسے ..”حیدر اس کے سر پر پہنچ کر چیخ کر بولا تھا ضبط سے اس کا چہرہ سرخ پڑنے لگا تھا آنکھیں بھی لال ہو گئی تھی “ایکسکیوز می ..مجھ پڑ چلانے کی ضڑوڑت نہیں ہے ..ورنہ منہ توڑ دوں گی میں تمہاڑا ..میں نے تمہیں منع کیا تھا نہ مجھے چاچی مت بولنا ..لیکن تم نے میڑی بات نہیں سنی ..اب کچھ تو سزا ملنی چاہیے تھی نہ تمہیں ؟” وہ انگلی اٹھا کر اس کو بولتی ریکارڈنگ سیو کر چکی تھی “تیری تو ….!!” اس سے پہلے کے حیدر اس تک پہنچتا ریاض نے اس کا بازو پکڑ لیا تھا “پاگل ہو گیا ہے کیا حیدر ؟ چل یہاں سے ..” “اس کی ہمت کیسے ہوئی مجھے مرچیں کھلانے کی ؟ ایک تو مرچیں کھلائی اوپر سے ویڈیو بھی بنا لی میری …” حیدر اس کو گھورتا ہوا بولا تھا “”او ..تو تمہیں ویڈیو چاہیے ؟ چلو یو ٹیوب پڑ سے لے لینا ..بلکے ڑکو ..میں تمہارے سامنے ہی پوسٹ کڑ دیتی ہوں ..” اس نے کہتے ہوئے کلچ کو بازو کے بیچ میں دبآیا اور بالوں کو ایک ادا سے جھٹکتی دونوں ہاتھوں سے موبائل چلانے لگی تھی جبکے حیدر حیرت سے آنکھیں پھاڑے اس کو دیکھ رہا تھا اتنی بولڈ لڑکی اس نے شاید پہلی دفع دیکھی تھی جو زر نور سے بھی دو چار نہیں بلکے دس بارہ ہاتھ آگے تھی “دیکھوں آخری بار کہ رہا ہوں میں تم سے ڈیلیٹ کردو یہ ویڈیو .ورنہ ….!!” حیدر چباچبا کر بولا تھا ” وڑنہ کیا کڑ لو گے تم میڑا ؟؟” وہ بھی دوبدو بولی تھی “تم جانتی نہیں ہو مجھے ..حمزہ حیدر علی نام ہے میرا …ایم این اے کا بیٹا ہوں میں ایم این اے کا ..”حیدر نے رعب ڈالنا چاہا تھا مگر مجال ہے جو یشفہ کے تاثرات میں کوئی فرق آیا ہو ..”تو ..کیا کرڑو میں اگر تمہاڑا نام حیدڑ ہے تو ؟ اوڑ تم ایم این اے کے بیٹے ہو تو ؟” “دیکھ لڑکی میری بات سن ..ایک منٹ ایک منٹ ..کیا کہا تم نے مجھے ؟؟” پہلے تو غصے میں حیدر نے اتنا نوٹس نہیں کیا تھا لیکن اب وہ اپنے نام پر چونکا تھا “حیدڑ……!!!؟ ” اس نے نہ سمجھی سے حیدر کو دیکھا تھا “پھر سے بولو ..” “حیدڑ ..!!” اس کے دوبارہ سے بولنے پر حیدر کا قہقہ چھوٹا تھا “اے لڑکی پھر سے بولنا ایک دفع …” تمہاڑا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا ؟؟” یشفہ نے غصّے سے اس کو دیکھا تھا “نہیں بھئی ..میرا دماغ نہیں خراب ..بلکے تمہارا سسٹم خراب ہے ….دیکھ ریاض یہ لڑکی ..”ر ” کو “ڑ” بول رہی ہے ..ہاہاہا …” حیدر نے ہنستے ہوئے ریاض سے کہا تھا جو چاچا کے ساتھ ہی بیٹھا چاٹ کھا رہا تھا “اے ..ہسنا بند کڑو تم ..”وہ چیخی تھی “نہیں بند کڑوں گا ..کیا کڑلو گی تم ؟؟..ہاہا ….” “تم..تم نقل اتاڑ ڑہے ہو میڑی؟؟” غصے سے اس کی مٹھیاں بھینچ گئی تھی “ہاں میں تیڑی نقل اتاڑ ڑہا ہوں …” حیدر ہنس ہنس کر پاگل ہو رہا تھا “میں..میں پولیس میں ڑپوڑٹ کڑ دوں گی تیڑی …”وہ دھمکی دینے والے انداز میں بولی تھی ” جا جا کڑ دے ڑپوڑٹ ..میں کوئی ڈرتا تھوڑی ہوں تیڑے سے …” میں چھوڑوں گی نہیں تجھے …” غصے سے اس کا چہرہ سرخ پڑنے لگا تھا “ہاں ہاں مت چھوڑ ..یہ لے میرا ہاتھ پکڑ لے اپنے ساتھ لیجا مجھے …” حیدر نے کہتے ہوئے اپنا ہاتھ بھی آگے کر دیا تھا جس کو اس نے نظر انداز کر دیا تھا ریاض تو ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھامزے سے یہ بغیر ٹکٹ کا شو دیکھ رہا تھا دو پلیٹ تو وہ کھا چکا تھا یشفہ کا لال بھبھوکا چہرہ دیکھ کر حیدر کی ہنسی کو بریک لگے تھے “اچھا اچھا سوری ..لیکن ایک بات پوچھوں ؟؟ مذاق کے علاوہ ..ہاں ؟؟ِ” یشفہ نے اس کو کوئی جواب نہیں دیا تھا اسی طرح اس کو گھورتی رہی تھی “اچھا یہ تو بتادو کے تمہارا نام کیا ہے ؟ ..سمیڑا ؟ نہیں ؟ اچھا تو پھر ڑمشہ ؟…زڑینہ ؟ …اے لڑکی جا کہاں رہی ہو ؟نام تو بتا دو ..” وہ جانے کے لئے پلٹ گئی تھی جبھی حیدر چیخ کر بولا تھا “اچھا تو ڑشنہ ؟..ڑ بیعہ ؟ فڑیہا ؟ اڑیشمہ ؟ ” حیدر نے چن کر سارے” ر”والے نام لئے تھے وہ چلتے چلتے حیدر کی گاڑی کے قریب رکی تھی اور پلٹ کر اس نے ان دونوں کو دیکھا تھا اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی تھی اس نے اپنے ہاتھ میں پہنے بریسلیٹ کو اتارا تھا جس میں ایک چھوٹی سی چابی لگی تھی جس کو وہ اپنی مٹھی میں دبا کر اس کی گاڑی کے بونٹ پر ہاتھ پھیرتی ہوئی آگے نکل گئی تھی اور دور کھڑی اپنی کرولا میں بیٹھ کر اڑا لے گئی تھی “لڑکی تو اچھی خاصی ہے ..بس” ڑ ” نے کام خراب کر دیا ” حیدر نے ہنستے ہوئے ریاض کے ہاتھ پر ہاتھ مارا تھا “حیدر تونے اچھا نہیں کیا بے چاری کے ساتھ ” ریاض نے ہنستے ہوئے کہا تھا “ہاہا بیٹا اگر یہ “ڑ ” بیچ میں نہیں آتا نہ تو …میں اسی کو تیری بھابھی بناتا ” حیدر بھی ہنستا ہوا ڈارک گلاسیس آنکھوں پر لگاتا اپنی گاڑی کی طرف آیا تھا “میرے خیال سے تو یہ کوئی بیسویں یا اکسویں لڑکی ہے جس کو تونے مجھے میری بھابھی کے طور پر دکھایا ہے حیدر نے اس کی بات نہیں سنی تھی وہ چشمہ اتار کر آنکھیں پھاڑے اپنی گاڑی کے بونٹ کو دیکھ رہا تھا “ابے تجھے کیا ہوا ؟؟” ریاض نے حیرت سے اس کو دیکھا تھا جو اسٹیچو بنا کھڑا تھا “یا اللہ …یا اللہ ..وہ لڑکی نوے لاکھ کی گاڑی پر اسکریچ مار گئی ..”حیدر گہرے صدمے سے بولا تھا “ہیں ..یہ کیا بول رہا ہے ؟؟” ریاض نے اس کو ہٹا کر خود آگے جا کر دیکھا تھا جہاں واقعی میں ایک لمبا سے اسکریچ ایک کونے سے دوسرے کونے تک جا رہا تھا “آتے جاتے لوگوں سے فضول میں پنگے کرےگا تو یہ ہی ہوگا نہ ؟” …”میں بتا رہا ہوں تجھے ریاض …میں نہیں چھوڑوں گا اس کو ” حیدر نے غصے سے مٹھیاں بھینچ لی تھی “ہاں تو …تونے بھی تو کتنا مذاق بنایا تھا اس کا ” “تو کیا اتنا بڑا بدلہ لے گی ؟؟ “تجھے ہی شوق چڑھ رہا تھا چاچی کی کی چاٹ کھانے کا ..لے کھالے اب …” “مجھے کیا پتا تھا کے یہ چاٹ اتنی مہنگی پڑے گی مجھے ۔۔” بونٹ کو دیکھ دیکھ کر حیدر کو تپ چڑھ رہی تھی غصے سے اس کا برا حال ہو رہا تھا “اللہ …صرف ایک دفع ..صرف ایک دفع وہ لڑکی میرے ہاتھ لگ جائے …اپنے ہاتھوں سے اس کا گلہ دباؤں گا …..ریاض ….میری گاڑی …” بے بسی سے اس کی شکل رونے والی ہو گئی تھی ریاض نے تاسف سے اس کو دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا تھا۔ “یار میری تو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کے یہ ہو کیا رہا ہے ؟ ایک طرف زرنور بیمار پڑی ہے ..دوسری طرف وہ تیمور کمرے میں بند پڑا ہے ..اور اب یہ حیدر منہ سجا کر بیٹھا ہے ..ہو کیا گیا ہے تم لوگوں کو ؟” حارث نے ان لوگوں سے کہا تھا ریاض اور اشعر تو ایک طرف گاڑ ی سے ٹیک لگاۓ کھڑے تھے اور حیدر ریاض کی بائیک پر دونو پیر ایک طرف کئے سر جھکاۓ افسردہ سا بیٹھا تھا “زرنور کی حالت تو اب بہتر ہے ..بات ہوئی تھی میری لائبہ سے ..وہ تینوں تو آ رہی ہے اور تیمور کو تو کمرے میں ہی بند رہنے دے تو بہتر ہے دو چار دن اکیلے رہے گا تو خود ہی ٹھیک ہو جاۓ گا اور غصہ بھی اتر جاۓ گا اس کا اور رہی بات اس حیدر کی تو ..چھوڑ دفع کر اس کو ..ڈرامے ہی نہیں ختم ہوتے اس کے “اشعر نے کہتے ہوئے ہاتھ جھلایا تھا “ریاض بتا ان کو ..تونے تو دیکھا تھا نا میری گاڑی کا بونٹ ؟؟ “حیدر نے اشعر کو ناراضگی سے دیکھنے کے بعد ریاض سے کہا تھا “ہاں بھئی ..یہ کوئی ڈرامے نہیں کر رہا …واقعی میں وہ لڑکی اس کی گاڑی پر اسکرریچ ڈال گئی ہے “ریاض نے سر اثبات میں ہلایا تھا “اگر وہ لڑکی مجھے کہیں ملی نہ تو ..سات سلام پیش کروں گا میں تو اس کو ..” “اور میں تو بیتاب ہوں اس کو دیکھنے کے لئے جس نے ہمارے شیر سے پنگا لیا ..” اشعر اور حارث کے کہنے پر حیدر کے زہن میں جھپاک سے یشفہ کا سراپا آیا تھا دوسرے ہی لمحے اس نے سر جھٹک دیا تھا ..منہ ہی کڑوا ہو گیا تھا “اوے سات سلام میری طرف سے بھی …” ریاض کے کہنے پر اس نے ان سب کو گھورا تھا “ایسا کرو مجھے ہی توپ کے آگے باندھ کر اس کے گھر کے سامنے اڑا دو ..”حیدر نے تپ کر کہا تھا “ابے چھوڑ نہ حیدر ..خراب ہونے والی چیز تھی ..ہو گئی ..اب کیا تو اس کی گردن مارے گا ؟ “اشعر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا “اگر دس بارہ روپے کی چیز ہوتی تو چھوڑ بھی دیتا ..لیکن بات میری زندگی کی ہے ..تجھے پتا تو ہے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے مجھے میری گاڑی ..” وہ افسردہ سا بولا تھا جبھی ایک گاڑی ان کے پاس آ کر رکی تھی ..”لے آگئی چڑیلوں کی سواری ..” حیدر نے اس گاڑی کو دیکھنے کے بعد کہا تھا ” آہستہ بول ..ورنہ ان چڑیلوں سے پہلے ان کے بھوت تجھے مار گرائیں گے ..” ریاض نے اسے ڈرایا تھا “کیا ہوا ؟ہمیں دیر ہو گئی کیا ؟؟” لائبہ نے ڈرائیونگ سیٹ سے اترتے ہوئے کہا تھا ” نہیں ..نہیں تم لوگ تو ٹائم پر آتی ہوں ..ہم ہی پاگل پہلے سے آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں ..” حارث کے اطمینان سے کہنے پر ان کو اندازہ ہو گیا تھا کے وہ لوگ آج بھی لیٹ ہو چکی ہیں ..”اسے کیا ہوا ؟” زرنور نے حیرت سے اس طوفان کو دیکھا تھا جو کتنے آرام سے بیٹھا تھا بغیر حس و حرکت .مگر اداس سا ….” “آج اس نے آئینہ دیکھا ہے …” اشعر نے ہنستے ہوئے کہا تھا ” واقعی میں زرنور آج تو میں نے حیدر کا “فی میل ورژن “دیکھا ہے ..” ریاض بھی ہنسنے لگا تھا “کیا مطلب ؟” اس نے نہ سمجھی سے کہا تھا ” “نور بانو ..آج مجھے تمہاری گمشدہ بہن ملی تھی “ڑ بانو ” اور یقین کرو آج اس نے شدید ترین خوائش پوری کردی تمہاری ..اتنا بڑا نقصان کر گئی میرا ..” “مجال ہے جو کسی بات کا سیدھا جواب دے دو تم لوگ ..صرف اتنا پوچھا تھا کے …اس کو کیا ہوا ؟ جواب میں پوری کہانی سنادی تم لوگوں نے یہ نہیں بتایا کے ہوا کیا ہے ؟” لائبہ نے تپ کر کہا تھا “اوہو لائبہ بھابھی غصہ نہ کریں بھئی …اشعر کا بی پی شوٹ کر جاۓ گا ..دیکھیں ذرا کیسے بیچارے کا دل دھڑکے جا رہا ہے ..” حارث کے کہنے پر اشعر نے اس کو زور سے کہنی ماری تھی “ایک منٹ میں بتاتا ہوں ساری بات ..کیوں کے جائے وقوع پر میں ہی موجود تھا “ریاض نے کہتے ہوئے شروع سے لے کر آخر تک ساری بات ان کو کہ سنائی تھی “اب تم لوگ ہی بتاؤ ک غلطی کس کی تھی ..؟” ریاض نے ان تینوں سے پوچھا تھا جو خاصی متاثر نظر آ رہی تھی “اب تو تمہیں سبق مل گیا ہوگا نہ حیدر ؟؟” مناہل نے ہنستے ہوئے کہا تھا “کون سا سبق ؟؟ میں تو پسٹل جیب میں رکھ کر گھوم رہا ہوں ..جہاں ملی وہیں ٹھوک دوں گا ..” “میرے خیال سے تو تم کو اب عقل آ جانی چاہیے حیدر …” زرنور نے گاڑی سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا تھا “شکل سے تو اتنی معصوم لگ رہی تھی ..اور کام دیکھوں ..بلکل تم چڑیلوں کی طرح ..ہنہ ..” “یہ چڑیل کس کو بولا تم نے ؟؟” لائبہ نے آنکھیں نکالی تھی ” ارے لائبہ بھابھی نہیں یار ..آپ کو اور مناہل کو نہیں بول رہا ..میں نے صرف نور بانو کو کہا ہے ..”حیدر کے اتنے آرام سے کہنے پر زرنور نے اپنا گولڈن کلچ زور سے اس کے سر پر مارا تھا ” اہ ..اچھا بھئی نور بانو ..نہیں بولوں گا آئندہ تم کو چڑیل ..” حیدر نے سر سہلاتے ہوئے کہا تھا تب زرنور نے دوبارہ سے اس کے سر مارا تھا “اف یار ..اب کیوں مارا ؟؟” اس نے ناراضگی سے زرنور کو دیکھا تھا جو اس کو ہی گھور رہی تھی “منع کیا تھا نہ تمہیں کے مت بولا کرو مجھے ..نور بانو نہیں سمجھ میں آتی تمہارے ؟؟” “ہاں بس میرے ہی بولنے پر اعتراض ہے تمہیں ..وہ احمد بھی تو تمہیں نور کہتا ہے .اس کو تو تم کچھ نہیں بولتی ” وہ خفگی سے بولا تھا اس کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی تھی ایک لمحے کے لئے وہ رکی تھی ” تمہاری طرح آگے بانو نہیں لگاتا وہ ..سارے نام کا بیڑا غرق کر دیاتم نے ..” وہ ناراضگی سے بولی تھی “اوہو زرنور سے زیادہ نور بانو ہی اچھا ہے تمہارا نام اور تم پر سوٹ بھی بہت کرتا ہے ..میں نے پہلے بھی کہا تھا تمہیں ..لیکن تم سمجھتی ہی نہیں ..” “تم سے تو بات کرنا ہی مجھے فضول بحث لگتا ہےحیدر ..”اس نے کہتے ہوئے آنکھوں پر ڈارک گلاسیس لگاۓ تھے “جانتا ہوں جانتا ہوں ..میری پرسنیلیٹی ہی ایسی ہے کے لڑکیوں کی چلتی ہی نہیں میرے سامنے ..لیکن تمہیں پتا ہے نور بانو ..تم سے بات کر کے میرا موڈ خدبخود خوشگوار ہو جاتا ہے ٹینشن ریلیز ہو جاتی ہے میری ..ایسا لگتا ہے جیسے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو ..دور کہیں پرندے چہچا رہے ہو .ہلکی ہلکی بارش ہو رہی ہو …” “اور تمہیں پتا ہے میرے سر میں درد ہو جاتا ہے تم سے بات کر کے ..دل کرتا ہے دیوار میں دے کے مارلوں اپنا سر ..بس تم سے بات نہ کروں ..” “ہاں بھئی اب میری آواز احمد جیسی نہیں ہے تو ..تم کو تو بری ہی لگے گی ..اس کی آواز تو تمہیں بہت اچھی لگتی ہے ..اس دن بھی جب وہ گانا سنا رہا تھا تو کتنے شوق سے سن رہی تھی ..” ” اف ..تم کیوں بیچ میں لے کر آ رہے ہو اس کو بار بار ؟؟” اس کو غصہ آنے لگا تھا “حیدر خیال کر لے تھوڑا ابھی بیماری سے اٹھی ہے یہ دوبارہ سے اس کا بی پی ہائی ہو جائے گا “اشعر نے اس کو گھرکا تھا “ارے ہاں نور بانو …یہ تو بتاؤ کے تم بیمار کیسے ہو گئی ؟ ہاں ؟؟” حیدر نے مصنوئی حیرت سے کہا تھا “تمہیں کیا روبورٹ نظر آتی ہوں ؟؟” وہ غصے سے بولی تھی “اوہو یار ختم کرو نہ تم لوگ ..اوے حیدر چپ کر جا اب تو ..جب دیکھوں شروع ہو جاتا ہے ..حارث تو کال کر نہ احمد کو کہاں رہ گیا وہ ؟؟ اتنی دیر تو ہو گئی ..” ریاض نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا تھا “اس نے چار بجے کا کہا تھا مجھے ..صبح ہی تو وہ آیا ہے اور آتے ہی سو گیا تھا “حارث نے جیب میں سے فون نکالتے ہوئے کہا تھا “بس تو پھر وہ ابھی تک سو ہی رہا ہوگا ..” “نہیں اشعر ..اب ہر کوئی حارث کی طرح تھوڑی ہوتا ہے جس کی زندگی کا مقصد ہی صرف سونا ہو ..” “مناہل کے ناراضگی سے کہنے پر وہ ہنس پڑا تھا “میں کال کر کے دیکھ لیتا ہوں ” حارث نمبر ملانے ہی لگا تھا کے حیدر بول پڑا تھا “اس کی ضرورت نہیں ہے حارث ..وہ دیکھ آ گیا احمد ..” حیدر کو احمد کی سپورٹس بائیک نظر آگئی تھی اس نے دور دیکھتے ہوئے کہا تھا جہاں سے ہلکا ہلکا غبار اٹھ رہا تھا .جیسے کوئی تیزائی میں گاڑی چلا رہا ہو احمد بائیک کو چلاتا نہیں اڑاتا تھا اس نے ان لوگوں کے پاس آ کر بریک لگاۓ تھے اور ہیلمٹ اتار کر اپنے بال سنوارے تھے “ہیلو گائیز …” اس نے مسکراتے ہوئے ان سب کو کہا تھا جہاں اشعر اور حارث تو گاڑی سے ٹیک لگاۓ کھڑے تھے حیدر ریاض کی بائیک پر بیٹھا تھا اور ریاض اس کے ساتھ ہی کھڑا تھا اور وہ تینوں ایک ساتھ کھڑی تھی ان سب کا پروگرام آرٹس کونسل میں لگی ایکسیبیشن دیکھنے جانے کا تھا جو احمد کے دوست نے آرگنائز کی تھی جس نے ان سب کے لئے بھی پاسیس بھیجے تھے اور انوائٹ کیا تھا ایکسیبیشن کے بعد ان کا ارادہ “دو دریا” جانے کا بھی تھا زرنور نے ایک نظر اس کو دیکھا تھا جو ہمیشہ کی طرح فریش اور ہینڈسم لگ رہا تھا بلیک پینٹ پر وائٹ شرٹ اور بلیک ہی لیدر کی جیکٹ پہنے مفلر گردن کے گرد لپیٹے ہاتھوں میں بینڈز چڑھاۓ وہ سیدھا اس کے دل میں اتر رہا تھا “دیکھ لینا احمد …میرا ہی نصیب بنو گے تم ..” وہ دل ہی دل میں کہتی بے اختیاری میں اسے دیکھے جا رہی تھی تب ہی احمد نے اسے دیکھا تھا جو کالے رنگ کی فرآک میں دوپٹے کو مفلر کی طرح لپیٹے کھڑی تھی احمد کو لگ رہا تھا کے جیسے صدیاں بیت گئی ہوں اسے دیکھیں ہوئے “یار احمد تو کیا ہماری بھابھی کو ڈھونڈنے لگ گیا تھا جو اتنے دن لگا دئے؟؟” حیدر کے کہنے پر وہ ہنستے ہوئے اس کے گلے لگا تھا “ہاہا ..نہیں بھئی ..میں نے کہا تھا نہ تجھے کے ..تیری بھابھی پاکستان کی ہی ہو گی ” “تو یار اتنے دن کیوں لگا دئے پھر ؟؟ ” ریاض بھی کہتے ہوئے اس کے گلے لگا تھا “بس ایک ضروری کام پورا کرنا تھا ..” وہ اشعر سے ملنے کے بعد حارث کے گلے لگا تھا ” نظروں کو ذرا کنٹرول میں رکھ ..ورنہ چوری پکڑی جاۓ گی تیری ..” حارث نے ہنستے ہوئے آہستہ سے اس کے کان میں کہا تھا ” “تو ..جانتا تو ہے کے یہ میرے اختیار سے باہر کی چیز ہے ..” اس نے بھی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا تھا اور ساتھ ہی ایک مکّا اس کے پیٹ میں مارا تھا “آہ ظالم ..آتے ہی شروع کردی تونے غنڈہ گردی “ایک تو تم دونوں کا یارانہ نہیں ختم ہوتا ..” حیدر نے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا تھا “وہ ہنستے ہوئے اس سے الگ ہوا تھا “اور بھئی مناہل ..لائبہ کیسی ہو تم دونوں ؟؟” وہ ان کی جانب متوجہ ہوا تھا “ہم تو بلکل ٹھیک ہے اور بس اسی انتظار میں ہیں کے کب تم اپنی دلہن سے ہم کو ملواؤ .” لائبہ کے کہنے پر وہ ہنس پڑا تھا “انشااللہ بہت جلد …اور زرنور ..اب کیسی ہے تمہاری طبیعت ؟؟” مناہل نے زرنور کا ہاتھ پکڑ کر ہلکا سا دبایا تھا جو بے خود سی کھڑی تھی “اہاں اب ..ٹھیک ہوں میں ” اس نے جواب دینے کے بعد رخ ہی موڑ لیا تھا “(دیکھ لوں گا میں تمہیں ..) وہ دل ہی دل میں اس سے مخاطب ہوا تھا “کیا خیال ہے چلیں اب ؟؟” اس نے ان سب سے کہا تھا “ٹھیک ہے لیکن حارث تم ایسا کرو کے اس اسٹور سے کچھ کھانے کے لئے لے آؤ ..چپس اور کولڈڈرنک لے آؤ سینڈوچز اور نمکو کے پیکٹ بھی لے آنا ..” “کہو تو اس اسٹور کو ہی اپنی گاڑی کے پیچھے باندھ کر لے چلتا ہوں ..” “تمہیں پتا ہے حارث ..میں تمہاری طرح اتنا نہیں کھاتی ..اور ہم تینوں میں سے کسی نے بھی لنچ نہیں کیا ..اسی لئے کہ رہی تھی میں ..تم سے تو اتنا ہوتا نہیں کے خود ہی کچھ لا کر دے دو ..” وہ بے نیازی سے کہتی گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی تھی “تجھے کیوں ہنسی آ رہی ہے اتنی ؟؟” حارث نے حیدر کو گھور کر دیکھا تھا جو ہنسے جا رہا تھا “توبہ ..کتنا بھگو بھگو کر مارتی ہے …میں سمجھ سکتا ہوں حارث .محبت واقعی می اندھی ہوتی ہے ..” ریاض نے بھی ہنستے ہوئے کہا تھا “مجھے پتا ہے اگر محبت کی آنکھیں ہوتی نہ تو تب بھی اس کی پسند نہیں بدلنی تھی ..بہت پکا عاشق ہے یہ ..” “احمد نے ہنستے ہوئے کہا تھا “ہاہا ..لیکن تیرے جتنا نہیں ہوں نہ یار ….” وہ بھی ہنسنے لگا تھا “جاؤ بیٹا .حکم کی تعمیل کرو ..وہ لوگ نکل بھی چکی ہیں آگے ” “ابے اشعر ہماری زندگی تو لگتا ہے کے ایسے ہی حکم کی تعمیل میں گزر جاۓ گی “ہاہا فکر مت کر حارث ..صرف دو دن کی بات ہے یہ جو ہنس رہے ہیں نہ ہم پر ..ان کو بھی ہماری لائن میں کھڑا ہونے میں ٹائم نہیں لگے گا .تیمور تو آ چکا ہے …” ” صہیح بول رہا ہے تو اشعر …” ” احمد ایک بات تو بتا یار ..کبھی تو بائیک پر آتا ہے کبھی کار میں …تو برات کس پر لے کر جاۓ گا ؟” “گھوڑے پر …” اس نے حیدر کے پوچھنے پر مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا تھا “اوے تیرے پاس گھوڑے بھی ہیں ؟؟” ” پورا فارم ہاؤس ہے اس کا جس میں الگ سے اصطبل ہے .”حارث کے کہنے پر حیدر تو بےچین ہی ہو گیا تھا ” یار جتنا مجھے شوق ہے ہارس رائیڈنگ کا اتنا ہی زیادہ یہ گھوڑے مجھے نہ پسند کرتے ہیں ..جب بھی بیٹھتا ہوں ..سالے گرادیتے ہیں مجھے …” حیدر کے منہ بسور کر کہنے پر وہ سب ہنس پڑے تھے۔ وہ کافی دیر سے کال ٹراۓ کر رہی تھی پہلے تو نمبر بزی جا رہا تھا اور اب کاٹ دی جا رہی تھی کال اس نے لعنت بھیج کر فون کو بیڈ پر پھینک تھا اور الماری میں سے کپڑے نکال کر شاور لینے جا رہی تھی جبھی اس کا فون بجنے لگا تھا اس نے اٹھا کر دیکھا تو کسی دوسرے نمبر سے کال کی جا رہی تھی اس نے یس کر لیا تھا ” السلام و علیکم …خیریت فون کر رہی تھی مجھے ..یاد آرہی تھی کیا میری ؟؟” ” میری کال ریسیو کرنے میں کوئی مسئلہ ہے کیا تمہیں ؟ کیوں کاٹتے ہو تم میرا فون ؟؟” وہ اس کی بات نظرانداز کر کے غصے سے بولی تھی ” بس ایسے ہی ..خیر بتاؤ .کیوں کر رہی تھی کال ؟” “مجھے کچھ بات کرنا تھی تم سے ..” ” سن رہا ہوں …” “مجھے …ختم کرنا ہے اس ..رشتے کو …” “کون سے رشتے کو ؟” وہ انجان بن کر بولا تھا “تمہارے اور میرے نکاح کے رشتے کو ..” وہ چبا چبا کر بولی تھی “پوچھ سکتا ہوں کیوں ؟؟” وہ ٹھہر کر بولا تھا “نہیں ….” ” پہلے مجھے وجہ بتاؤ ..اگر معقول لگی تو پھر میں کچھ سوچ سکتا ہوں ” “میں تمہیں وجہ بتانا ضروری نہیں سمجھتی .بس جتنا کہا ہے اتنا ہی کرو ..پاپا کو فون کر کے کہو کے .تم ختم کرنا چاہتے ہو اس رشتے کو ” “لیکن میں تو ..ایسا نہیں چاہتا …” “تمہارے چاہنے یا نہ چاہنے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ..تم بس وہ کرو جو میں نے کہا ہے ..” ” آئم سوری ٹو سے بٹ ..آرڈرز تو میں خود کے بھی نہیں مانتا …اگر آپ ریکویسٹ کریں تو ….!!!” اس نے بات ادھوری چھوڑ دی تھی ” کیا کہا تم نے .میں ریکویسٹ کروں تم سے ؟؟” ” ہاں بلکل …” ” ماۓ فوٹ …” زرنور غصے سے بولی تھی “ویسے اس رشتے کو ختم کرنے کے بعد تمہیں کوئی افسوس تو نہیں ہوگا ؟؟” “میری کون سا تمہارے ساتھ اتنی اچھی کیمسٹری بنی ہوئی ہے جو مجھے افسوس ہوگا …” ” ہاں یہ بھی ہے ..لیکن معاف کرنا میں اس معاملے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ..جو کرنا ہے خود کرو ..” “اگر مجھے خود ہی کچھ کرنا ہوتا تو ..تمہیں کیوں کال کرتی ؟؟” وہ غصے سے بولی تھی “یہ تو تمہیں ہی پتا ہوگا …خیر میں مصروف ہوں ابھی.. بعد میں فون کروں گا ..” ” کر کے تو دکھاؤ …” اس نے غصے سےکہتے ہوئے فون کاٹ دیا تھا۔