“تجھے دیکھا تو یہ جانا صنم …پیار ہوتا ہے دیوانہ صنم …” مناہل کے کان کھڑے ہو گئے تھے اس نے کن انکھیوں سے حارث کو دیکھا تھا جو موبائل پر جھکا گنگنا رہا تھا مسکراہٹ تو اس کے ہونٹوں سے جدا نہیں ہو رہی تھی دو چار دن سے وہ کافی بدلا بدلا لگ رہا تھا “حارث ..گاجر کا حلوہ کھانا ہے تم نے ؟” وہ کچن سے ہی آواز لگا کر بولی تھی جانتی تھی کے گاجر کے حلوے کا نام سن کر تو بھا گا بھاگا آے گا اور ہوا بھی یہی تھا اگلے دو منٹ میں وہ کچن میں موجود تھا “لاؤ جلدی سے دو ..کہاں ہے حلوہ ؟ کدھر ہے حلوہ ؟؟” وہ متلاشی نظروں سے سارے کچن میں دیکھ رہا تھا “تم جانتے ہو حارث ..میرے ہوتے ہوۓ تو تمہیں کوئی چیز بیٹھے بیٹھاۓ نہیں مل سکتی ..اسی لئے اگر حلوہ کھانا ہے تو یہ گاجرے تمہارے سامنے پڑی ہیں ان کو اٹھاؤ اور شروع ہو جاؤ کدوکش کرنا ..” اس نے سکون سے کہا تھا حارث نے ایک ابرو اٹھا کر اس کو دیکھا تھا جو کہنے کے بعد دوبارہ سے گاجرے چھیلنا شروع ہو چکی تھی “اے ہیلو ..میں کیوں کدوکش کروں ؟ حلوہ بنانا تمہارا کام ہے تو اس لئے ان کو چھیلو گی بھی تم .کدوکش بھی کرو گی تم ..اور بناؤگی بھی تم …” “اور تمہارا کام کیا ہے ؟ صرف کھانا ؟” ” ہاں صرف کھانا ..” ” ایسا تو ہو گا نہیں اب اگر حلوہ کھانا ہے تو ان کو کدوکش تو تم کو ہی کرنا پڑیگا ..” “بھئی مجھے کدو کش کرنا نہیں آتا نہ ..” “تو میں سکھا رہی ہوں نہ تمہیں ..تم بیٹھو تو سہی ..” “سوری مجھے نہیں سیکھنا ..” “ٹھیک ہے پھر حلوے کا نام بھی نہیں لینا تم ..” “بھئی مناہل کیا ہے ؟ یہ اتنی ڈھیر ساری گا جرے ہیں ..میں پاگل ہوں کیا جو ان کو کدوکش کرو ؟” “نہیں تو تم بتاؤ نہ ..کیا میں پاگل ہوں ؟ جو ان کو چھیلوں بھی کدوکش بھی کروں اور بناؤ بھی ..” “اچھا ..لیکن صرف آدھی کروں گا ..” “ٹھیک ہے پھر تمہیں حلوہ بھی دو چمچ ہی ملے گا ..” وہ بے نیازی سے بولی تھی “اچھا ایسا کرو چھیل میں لیتا ہوں کدوکش تم کر لو ..” ” نہیں …جو جس کا کام ہے وہ وہی کرے گا ..” “اف …!!” وہ اس کو گھورتا ہوا چیئر گھسیٹ کر بیٹھ گیا تھا موبائل کو اس نے سائیڈ پر رکھا دونوں ہاتھوں کی آستینیں چڑھائی اور باسکٹ کو اپنی جانب کھسکا یا تھا “دیکھو میں ابھی پانچ منٹ میں واپس آ رہی ہوں جب تک تم یہ ساری گاجریں کدوکش کر لو ..” وہ ہاتھ صاف کرتی اس کو کہتی ہوئی چیئر سے کھڑی ہو گئی تھی “ہاں ..مشین ہو نہ میں تو ..ہنہ ..” وہ اس کو تیز نظرو سے دیکھتا ہوا بولا تھا اس نے کوئی نوٹس نہیں لیا نظر انداز کرتی کچن سے چلی گئی تھی اور جب آدھے گھنٹے بعد اس نے واپس آ کر دیکھا تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی ایک ہاتھ سے موبائل پر ٹائپنگ ہو رہی تھی دوسرے ہاتھ سے گاجر کدوکش کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی تھی اور دھیان سارا چیٹنگ پر تھا اور یہ مسکراہٹ ؟؟ مناہل کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کے وہ کچھ دنوں سے اتنا مسکرانے کیوں لگ گیا تھا “حارث پاگل تو نہیں ہو گئے تم ؟” وہ اس کی آواز پر بری طرح چونکا تھا ” ک کیا ہوا مناہل ؟؟” “ایسے کام ہوتے ہیں ؟؟ ” “نہیں تو پھر کیسے ہوتے ہیں ؟؟” جواب میں اس نے بھی سوال پوچھا تھا “ابھی تمہارا ہاتھ کٹ جاتا .پہلے تو اس فون کو بند کرو اور پورے دھیان سے ان کو کدوکش کرو ..” ” دھیان لگانے سے کیا ہوگا ؟ کیا ان کا ذائقہ اچھا ہو جائے گا ؟” ” ہاں بلکل ..آپ انٹرس لے کر محنت لگن اور محبت سے جب کوئی چیز بناتے ہیں تو اس کا ذائقہ ہی الگ ہوتا ہے ..” ” واہ بھئی واہ ..کیا بات کہی ہے ..ویسے تمہاری کتاب کب آ رہی ہے مارکیٹ میں ؟ ” حارث نے گاجر کھاتے ہوئے پوچھا تھا “چپ کرو ..اور جلدی سے کام ختم کرو ..”وہ کہتے ہوئے بیٹھ گئی تھی اور دوبارہ سے گاجر چھیلنے لگی تھی “ایک منٹ۔۔۔ ” .وہ چونکی تھی “.کدوکش تو تم نے ایک بھی نہیں کی ..تو پھر چھیلی ہوئی گاجریں کہاں گئی .؟؟” اس نے باسکٹ کو دیکھتے ہوئے حیرت سے کہا تھا جس میں مقدار خاصی کم تھی ..” پتا نہیں کہاں چلی گئی ..میں تو تمہارے سامنے ہی موبائل پر مصروف تھا ” وہ انجان بن کرگاجر کھاتے ہوئے بولا تھا “حارث …مجھے اچھی طرح پتا ہے کے وہ کہاں گئی ہیں …” وہ دانت پیستے ہوئے بولی تھی ” ” ایسے مت دیکهو مناہل .سچ کہ رہا ہوں میں .اور تم تم ..چند گاجروں کے لئے مجھ پر شک کر رہی ہو ؟ چہ چہ ..”وہ افسوس سے بولا تھا “شک نہیں کر رہی مجھے پکا پتا ہے کے یہ تمہارا ہی کام ہے .کیوں کے تمہارے علاوہ کوئی دوسرا بھوت پریت تو یہاں بیٹھا نہیں ہے”وہ تپ کر بولی تھی ” اب تمہیں نہیں ملے گا حلوہ ..” ” مجھے تو ہمدردی ہو رہی ہے خود سے کے ساری زندگی تمہیں جھیلنا پڑے گا ..” ” تم کیوں جھیلوگے مجھے ؟” وہ حیرت سے بولی تھی ” بھئی جب تمہاری شادی ہی نہیں ہوگی تو ..تم تو یہیں رہو گی نہ ؟” “کس نے کہا کے میری شادی نہیں ہو گی ؟” ” کیوں کے تمہاری ڈیمانڈ کے مطابق تو جس لڑکے سے تم شادی کرنا چاہتی ہو ..وہ لڑکا کم .ماسٹر شیف پلس دھوبی پلس مالی پلس کام والی ماسی زیادہ ہونا چاہیے ..تو یہ ساری خوبیاں جس میں ہوگی ..وہ لڑکا تو نہیں لیکن خلائی مخلوق ضرور ہو سکتا ہے “حارث ہنستے ہوئے کہے جا رہا تھا اور مناہل کا گھورنہ جاری تھا “تمہارا اپنے بارے میں کیا خیال ہے حارث ؟” “کیا مطلب ؟” اس نے نہ سمجھی سے مناہل کو دیکھا تھا “یہ جتنے بھی کام تم نے گنواہۓ ہیں ان میں سے تقریبآ میں سارے ہی تم سے کروا چکی ہوں .جالے تم صاف کرتے ہو ..کپڑے تم پریس کرتے ہو ..جھاڑ پونچھ تم کرتے ہو ..ہر ہفتے مالی کے ساتھ لان کی صفائی ستھرائی بھی تم کرتے ہو …تھوڑا بہت کھانا پکانا وہ بھی میں نے تمہیں سکھا دیا …اب جب میں یہ سارے کام تم سے کروا سکتی ہوں تو کسی سے بھی کروا سکتی ہوں ..” وہ اطمینان سے بولی تھی اور حارث اس کی حاضر جوابی پر عش عش کر اٹھا تھا ” ہاہا …اب ہر کوئی حارث تو نہیں ہوتا نہ …میڈم ” وہ اپنے کالر کھڑا کرتے ہوئے فخر سے بولا تھا “ہنہ ..!!” وہ کان لپیٹ کر اپنا کام کرنے لگی تھی کیوں کے اب.حارث نامہ شروع ہونے والا تھا جو دو گھنٹوں سے پہلے رکنے والا نہیں تھا۔ “بی بی جی وہ کوئی صاحب آۓ ہیں..” وہ بیڈ پر لیٹی ناول پڑھ رہی تھی جبھی سکینہ نے آ کر اس سے کہا تھا ” کون صاحب ؟؟” “پتا نہیں جی .کہتے ہیں کے صاحب جی کے دوست ہیں ..میں نے ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا ہے ..” “ٹھیک ہے تم جاؤ ..اور چاۓ وغیرہ کا انتظام کرو “زر نور کہتے ہوئے بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی کپڑوں کی شکنیں دور کرتی اور دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھتی وہ ڈرائنگ روم میں آئی تھی “السلام و علیکم ..” اس نے صوفے پر بیٹھی اس شخصیت کو دیکھ کر سلام کیا تھا “وعلیکم سلام …کیسی ہے میری پیاری بیٹی ؟؟” انہوں نے اٹھ کر اس کو گلے لگایا تھا “میں ٹھیک ہوں لیکن ..آپ ؟” زرنور ان کی اتنی گرمجوشی پر حیرت سے بولی تھی وہ یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی کے اس نے ان کو کہیں دیکھا تو نہیں ہے؟ ” نہیں پہچانا تم نے مجھے ؟ ..ارے پہچانوگی بھی کیسے ؟ ہم اتنے عرصے بعد جو مل رہے ہیں ..خیر میں عدیل خانزادہ ہوں ارمان کا ڈیڈ ..” “ار ارمان کے ڈیڈ ..؟؟” اس نے حیرت سے ان کو دیکھا تھا جو پینٹ کوٹ میں ملبوس کافی ڈیسنٹ اور ڈیشنگ لگ رہے تھے اس عمر میں بھی کافی فٹ تھے مشکل سے ہی چالیس پینتالیس کے ہوں گے “میں تو اس نالائق سے کب سے کہ رہا تھا کے جا کر مل آۓ تم لوگوں سے لیکن میری سنتا ہی نہیں کہتا ہے کر ایک ہی بار جاؤں گا برات لے کر .” وہ ہنستے ہوئے کہ رہے تھے “خیر باقی سب کہاں ہے بھئی ؟” “وہ ..مما اور پاپا تو کہیں انوائٹ تھے وہاں گئے ہیں اور بازل ٹیوشن سینٹر گیا ہے ..آپ پلیز بیٹھے نہ ..” جبھی سکینہ چاۓ اور لاوازمات کی ٹرالی لے آئی تھی “اور پڑھائی کیسی چل رہی ہے تمہاری ؟” “الحمد لله انکل بہت اچھی چل رہی ہے ..” زرنور نے ان کو چاۓ کا کپ پکڑاتے ہوئے کہا تھا “کیا ہوا بھئی ..اتنی حیرت سے کیوں دیکھ رہی ہو ؟؟” وہ ان کے ایک دم سے پوچھنے پر گڑبڑا گئی تھی اور کچھ نہ بن پڑا تو یہ ہی کہ دیا ” نن نہیں انکل ..وہ آپ تو ساری زندگی ہی باہر رہے ہیں لیکن اردو تو آپ کی کافی اچھی ہے ..”وہ ہنس پڑے تھے ” ارمان کی مجھ سے بھی زیادہ اچھی ہے ..اتنا عرصہ اٹلی میں رہنے کے باوجود بھی میں پاکستان کو نہیں بھولا اپنی مٹی تو پھر اپنی ہوتی ہے پہلے تو سیماب کے بعد میرا آنے کا دل نہیں کیا اس کے بعد ارمان نے آنے نہیں دیا کہتا تھا کے جب جائیں گے تو پھر ہمیشہ کے لئے ہی جائیں گے اور اسی وجہ سے ہم باپ بیٹے میں ٹھنی رہتی تھی اور اب تو میں اس سے ڈیل کر کے آیا ہوں اور کہ آیا ہوں کے جب تم نے آنا ہو آجانہ میں تو جا کر شادی کی تیاری کروں .” “کس کی ..شادی ؟؟” وہ نہ سمجھی سے بولی تھی ” تمہاری اور ارمان کی بھئی ..بلکے شادی تو ہو چکی ہے یوں کہنا چاہیے کے رخصتی کی تیاری ..” زرنور کو لگ رہا تھا کے جیسے اس کا دل کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کے یہ ہو کیا رہا ہے اس کے ساتھ ؟جبھی ڈور بیل بجی تھی ” شاید مما پاپا آگئے ..میں دیکھتی ہوں ” وہ کہتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور باہر کی جانب گئی تھی۔ “حیدر علی ..اسٹینڈ اپ ..” “حیدر علی نہیں سر ..حمزہ حیدر علی ..” اس نے سر عامر کے کہنے پر کھڑے ہوتے ہوئے تصیح کی تھی “ہاں وہی کہا میں نے بھی ..حمزہ حیدر علی ..تمہاری آسائیمنٹ کہاں ہے ؟ سب نے جمع کروادی ہے بس تمہاری رہ گئی ہے ” “پتا نہیں سر ..” “کیا مطلب پتا نہیں ؟ کیا تم نے اسائیمنٹ بنائی تھی ؟ “نہیں بنائی تھی سر ..” ” جب میں نے کہا تھا کے لازمی بنانی ہے تو پھر کیوں نہیں بنائی ؟ ” ” دل نہیں کر رہا تھا سر ..” “کیا مطلب تمہارا دل نہیں کر رہا تھا ؟” ” مجھے نہیں پتا سر ..میں نے تو بہت سمجھایا تھا اس کو سر ..کے دیکھ بھائی بنانے دے مجھے اسائیمنٹ ورنہ سر ناراض ہوں گے ..لیکن اس نے میری بات ہی نہیں مانی سر ..مجھے دوسرے کاموں میں لگا کر رکھا .اس لئے میں بنا نہیں سکا …” “اپنے دل کو ذرا قابو میں رکھو ورنہ فیل ہو جاؤ گے …” “کوئی مسئلہ نہیں ہے سر ..ہو جائیں گے فیل ..” ” تم اپنے دوستوں سے پیچھے رہ جاؤ گے ..” “کوئی مسئلہ نہیں ہے سر ..رہ جائے گے پیچھے ..” “تمہیں کوئی جاب بھی نہیں دے گا پھر ..” “کوئی مسئلہ نہیں ہے سر …نہ دے جاب میں خود کا بزنس کر لوں گا ..” “حمزہ حیدر علی ..ابھی جو میں نے لیکچر دیا ہے ..کیا تمہاری سمجھ میں کچھ آیا ؟؟” “نہیں آیا سر …” “کیوں نہیں آیا سمجھ میں ؟ کیا کر رہے تھے تم اس دوران ؟؟” “جہاز بنا رہا تھا سر …” “جہاز بنا رہے تھے ؟؟” “جی سر ..یہ جو آپ کو ہر ڈیسک کے پاس جہازوں کی کریش لینڈنگ نظر آ رہی ہے ..یہ میری ہی تخلیق ہے ..” “تمہاری بہت کمپلین آ رہی ہیں میرے پاس ..کل بھی تم نے فضول میں وجاہت کو مارا تھا وجہ پوچھ سکتا ہوں ؟ ” ” فضول میں نہیں مارا تھا سر ..وہ تو میں نے اس سے کہا تھا کے میری اسائیمنٹ بنا دے ..لیکن اس نے میری بات نہیں مانی ..تو میرا ہاتھ اٹھ گیا اس پر ..” “بات تو تمہاری ..تمہارا دل بھی نہیں سنتا ..اس پر کیوں ہاتھ نہیں اٹھاتے ؟؟” ” دل تو بچہ ہے سر …اب آپ ہی بتاۓ کیا میں بچے کو مارتا ہوا اچھا لگوں گا ؟؟” پوری کلاس ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتی حیدر اور سر عامر کی مکالمہ بازی سن رہی تھی “تم اچھا پڑھتے ہو حیدر ..بس پتا نہیں کیوں بار بار لائن سے ہٹ جاتے ہو ..خیر اپنا بیگ اٹھاؤ اور لائبریری جاؤ ..آسئیمنٹ کمپلیٹ کرو اپنا ..” “میں لائبریری نہیں جا سکتا سر ..” “کیوں نہیں جا سکتے ؟ ” ” ڈر لگتا ہے سر ..” “ڈر لگتا ہے ؟ کس سے لگتا ہے ؟” ” لائبریری سے ہی لگتا ہے سر ..مجھے لگتا ہے کے جب میں وہاں جاؤں گا تو کتابوں کی بڑی بڑی الماریاں میرے اوپر گر جائے گی ..اور میں مر جاؤں گا ..” ” لیکن مجھے تمہاری اسامنٹ آج ہی چاہیے حیدر …” ” ڈونٹ وری سر ..آپ کو آج ہی مل جائے گی ..” ” خود بناؤ گے ؟؟” “نہیں سر …” “تو پھر ؟؟” ” ریاض سے بنواؤگا سر ..” “ریاض .کیا تم اس کی اسائیمنٹ بناؤ گے ؟؟” سر کے پوچھنے پر ریاض نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا ” میں نے تو خود احمد سے بنوائی ہے ..” “تم نے کیوں بنوائی احمد سے ؟ تمہارا دل بھی تمہاری نہیں سنتا کیا ؟ ” “ایسا ہی سمجھ لیں سر …” ” اور کس کا دل نہیں سنتا اس کی ؟” سر کے کہنے پر پوری کلاس نے ہاتھ کھڑے کردئے تھے ” لگتا ہے کے تم سب کے دل کا علاج کرنا ہی پڑے گا مجھے ..” کسی نے پوچھا ..” کیسے کریں گے سر ؟ کیا ہمارا دل نکالیں گے ؟؟” “ویل دل نہیں نکالوں گا ..بلکے تم لوگوں کا علاج مجھے تمہارے ہی انداز میں کرنا پڑے گا نیکسٹ ویک سے سیمسٹر سٹارٹ ہو رہے ہیں اس سے پہلے یونی کے یونین کونسل کی جانب سے آپ سب کے لئے ایک ٹی پارٹی کا اہتمام کیا گیا ہے اس لئے سیمسٹر سے پہلے پہلے جو تم سب کے اندر تمہارے دل کو کنٹرول کئے بیٹھا ہے اسے نکال باہر کرو اور دل لگا کر پڑھو ..مجھے سب کا رزلٹ اس بار بھی اچھا چاہیے ..” فکر ہی نہیں کریں سر ..آپ نے کہ دیا ..سمجھے ہو گیا ..” حیدر کے اطمینان سے کہنے پر سر دوبارہ اس کی جانب گھومے تھے ” اگر تمہاری اسائیمنٹ کمپلیٹ ہوئی تو ہی تم پارٹی میں آؤ گے حیدر ..ادروائز.نہیں ..” “یہ کیا بات کہ دی سر آپ نے ..اب تو میں گھر ہی نہیں جاؤں گا اسائیمنٹ کمپلیٹ کئے بغیر ..” “ویری گڈ حیدر ..لیکن سب سے پہلے تم ان سارے جہازوں کی لاشیں اٹھاؤ ..” “سوری سر ..یہ میں نہیں کر سکتا ..” ” اب یہ مت کہنا کے تمہارا دل نہیں کر رہا ..” ارے سر ..میں یہ ہی کہنے والا تھا ..لیکن اب آپ یہ مت کہیے گا کے جب تک میں ان لاشوں کو نہیں اٹھاؤگا آپ مجھے پارٹی میں نہیں آنے دیں گے ..” “ایکسزیکلی حیدر …میں یہ ہی کہنے لگا تھا “سر عامر بھی اسی کی انداز میں بولے تھے ” سرآپ تو… “بھائی ” بن گئے جو بات بات پر بوری میں بند کرنے والی دھمکی دیتا ہے ..” حیدر کے منہ بنا کر کہنے پر سر سمیت پوری کلاس ہنس پڑی تھی۔ “کیا ہوا تیمور ؟ طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ دو دن سے یونی بھی نہیں آ رہا ..” “بس ایسے ہی ..دل نہیں چاہ رہا تھا میرا ..” وہ ایک ہاتھ سے ڈرائیو کرتا دوسرے سے فون کان سے لگاۓ احمد سے بات کر رہا تھا ” ابھی کہاں پر ہے تو ؟” “گھر جا رہا ہوں ..راستے میں ہوں ..” ” ٹھیک ہے میں آتا ہوں ایک گھنٹے تک تیری طرف ..” “اوکے ..آتے ہوئے ایک لارج سائز پیزا بھی لیتے ہوئے آنا ..زیادہ چیز والا ..” “اچھا لے آؤں گا ..اللہ حافظ ..” اہمد نے ہنستے ہوئے فون کاٹ دیا تھا اس نے بھی فون بند کر کر ڈیش بورڈ پر ڈالا تھا اور جبھی اس کی نظر سائیڈ پر پڑی تھی اس نے چونک کر کھڑکی کا شیشہ نیچے کر کے باہر دیکھا تھا جہاں ایک طرف ایک گاڑی کھڑی تھی اور جس کا بونٹ اٹھاۓایک لڑکی جھکی کھڑی شاید کوئی خرابی چیک کر رہی تھی اور تھوڑی دور ہی دو تین اوباش لڑکے کھڑے آوازیں کس رہے تھے جبھی اس لڑکی نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا تھا اور اس کو دیکھ کر تیمور ٹھٹھکا تھا دوپٹہ سر پر اوڑھے اور چشمہ لگاۓ وہ لڑکی کوئی اور نہیں انوشے ہی تھی ..تیمور کی رگیں تن گئی تھی اس نے گاڑی کو ریورس کر کے اس کے پاس لے جا کر تھوڑی دور روکا تھا سیٹ بیلڈ ہٹا کر نیچے اترتا اور ایک جھٹکے سے گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہوئے آستینیں چڑھاتا ہوا وہ اس تک پہنچا تھا ” اے چیز بڑی ہے مست مست …اپنا نمبر تو دے دے ” ان میں سے ایک لڑکا اپنے ساتھی کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے بے ہمنگم طریقے سے ہنستے ہوئے بولا تھا “کیا کر رہی ہیں آپ یہاں پر ؟؟” وہ اس کے سر پر پہنچ کر غصے سے بولا تھا “فٹبال کھیل رہی ہوں ..نظر تو آ رہا ہوگا تمہیں ..” انوشے کا تو پہلے ہی دماغ گھوما ہوا تھا ان لڑکوں کی وجہ سے ابھی بھی تپ کر بولی تھی “کیا ہوا ہے گاڑی کو ؟؟” “اگر مجھے پتا ہوتا تو کیا ٹھیک نہ کر لیتی میں ؟؟” “ہر بات کا الٹا جواب دینا لازمی ہے کیا آپ پر ؟ ” ” الٹا سوال کرو گے تو جواب بھی الٹا ہی ملے گا نہ ؟” تیمور نے ایک انگلی اور انگوٹھے سے اپنی پیشانی مسلی تھی (یہ لڑکی تجھے پاگل کر دیگی تیمور ..” ) “اس وقت اکیلے نکلنے کی ضرورت ہی کیا تھی آپ کو ؟؟ ” ” غلطی ہو گئی مجھ سے ..آئندہ تم سے پوچھ کر نکلا کروں گی ..” “ابے ہیرو ..اس کو پہل ہم نے دیکھا تھا اس لئے ابھی ہماری باری ہے .تو نکل یہاں سے ” جبھی ایک لڑکا تیمور کے پاس آ کر بولا تھا اس کا تو خون ہی کھول اٹھا تھا ” تمیز نہیں ہے تجھے بات کر نے کی ؟” تیمور نے ایک پنچ اس کی ناک پر مارا تھا ” “سالے تیری تو …” وہ لڑکا پھر سے اس کی جانب بڑھا تھا اور ایک پنچ اسے مارنا چاہا تھا لیکن اس کا ہاتھ تیمور نے فضا میں ہی پکڑ لیا تھا اور ایک مکا اس کے پیٹ میں مارا تھا “تیمور …!!” انوشے چیخی تھی ” چھوڑو انہیں ..تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے ان سے لڑنے کی …چھوڑ دو تیمور ..میں کیا کہ رہی ہوں تم سے ؟؟” تیمور نے اس لڑکے کو دھکا دے کر دور پھینکا تھا اور انوشے کے پاس آیا تھا “بکواس بند کرو اپنی ..اور چپ چاپ گاڑی میں جا کر بیٹھو …”تیمور کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھی اور اس کے چہرے پر پھیلی سختی کو دیکھ کر انوشے کو اپنے اندر خوف کی ایک لہر اٹھتی ہوئی محسوس ہوئی تھی “گاڑی …گاڑی خراب ہے میری ..” وہ خود کو کنٹرول کرتی ہوئی بولی تھی ” انوشے …کیا تمہیں وہ سفید کلر کی کار کھڑی ہوئی نظر آ رہی ہے ؟ اگر نہیں تو بتاؤ مجھے ..میں خود تمہیں اٹھا کر اس میں ڈال آتا ہوں ..” وہ بہت ضبط سے بولا تھا ” تم …تم اس طرح چیخوں مت مجھ پر..ورنہ …!!” ” ورنہ ؟؟ کیا ورنہ ؟ تھپڑ تو مار ہی چکی ہو .اب کیا سر پھاڑوگی میرا ؟؟” تیمور کے غصے سے بولنے پر اس کو شرمندگی نے ان گھیرا تھا وہ اس کو گھور تی ہوئی اس کی گاڑی کی طرف جانے لگی تھی جبھی پیچھے سے آ کر ایک لڑکے نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا تھا وہ ڈر گئی تھی اور تیمور کا میٹر گھوم گیا تھا اس نے پیچھے کالر سے پکڑ کر اس لڑکے کو اپنی جانب کھنچا تھا اور پے در پے گھونسے اس کے چہرے پر مارے تھے انوشے تو یہ صورتحال دیکھ کر خوفزدہ ہو گئی تھی لمحے کی تاخیر کئے بنا بھاگ کر اس کی گاڑی کے پاس گئی تھی اور اندر بیٹھ کر جلدی سے لاک لگایا تھا “تیری ہمت کیسے ہوئی اس کو ہاتھ لگانے کی ؟ ہاں ..؟؟” وہ بول نہیں دھاڑ رہا تھا ایک تو پہلے ہی نیچے گرا کراہا رہا تھا اور دوسرے کو تیمور روئی کی طرح پیٹے جا رہا تھا اس لڑکے کا ہونٹ پھٹ گیا تھا سارا چہرہ لہو لہان ہو رہا تھا وہ تیمور کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگا تھا تب اس نے ایک جھٹکے سے اس کو چھوڑا تھا وہ دور جا کر گرا تھا “اگر اس کے اس پاس بھی نظر آۓ نہ تو پھر دیکھنا کیا حال کرتا ہوں میں تم لوگوں کا ..” تیمور نے ایک کہر بھری نظر ان پر ڈالی تھی جو گرتے پڑتے وہاں سے بھاگے تھے وہ اپنے ہاتھ جھاڑ رہا تھا جبھی انوشے بھی گاڑی سے نکل کر وہاں آ گئی تھی “تم کیوں آئی ہو باہر ؟؟” وہ اس کو دیکھ کر بولا تھا ” گھر جانا ہے مجھے ..” “میں چھوڑ دوں گا ..” “تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گی ..” تیمور نے ایک نظر اس کو دیکھا تھا جو ناراض سی کھڑی تھی اور دوسرے ہی لمحے اس نے انوشے کا بازو پکڑ کر اپنی جانب کھینچا تھا “تیمور …!!” اس نے حیرت سے اس کا نام لیا تھا ” کیوں نہیں جاؤ گی تم میرے ساتھ ؟” “چھوڑو مجھے..” “کیا مسئلا ہے تمہیں میرے ساتھ جانے میں ؟؟” ” چھوڑو مجھے تیمور ..تم پھر سے وہی حرکت کر رہے ہو ..” “تو پھر ؟ کیا کرو گی میرے ساتھ ؟ پھر سے تھپڑ مارو گی ؟مار لو.. جتنے دل چاہے مار لو ..لیکن آج …میں تمہیں ..نہیں چھوڑوں گا ..” “ہوش میں تو ہو تم ؟ یہ گھر نہیں ہے تمارا ” وہ چیخی تھی “جانتا ہوں گھر نہیں ہے میرا یہ ..لیکن تم کہو تو لے بھی جاؤں گا بتاؤ چلو گی میرے ساتھ میرے گھر ..؟” وہ خود کو چھڑوانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی تیمور نے سختی سے اس کی کلائی پکڑی ہوئی تھی “خدا کے لئے تیمور چھوڑ دو مجھے ..تماشہ مت بناؤ میرا ..” وہ روہانسی ہو گئی تھی وہ روڈ ویسے ہی سنسان رہتی تھی اور ابھی یوں تھا بھی دوپہر کا ٹائم اکا دکا لوگ بھی نہیں تھے “تماشہ نہیں عزت بنانا چاہتا ہوں اپنی ..بتاؤ کرو گی مجھ سے شادی ؟ ” “پہلے ہاتھ چھوڑو میرا ..” “اس کے بعد بتاؤ گی ؟” “نہیں …!!” “ٹھیک ہے پھر میں بھی نہیں چھوڑ رہا ..” وہ مزے سے بولا تھا انوشے کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کے اس کو ہو کیا گیا ہے ابھی تو وہ مرنے مارنے پر تلا ہوا تھا اور اب …!!” انوشے نے اپنا پیر زور سے اس کے پیر پر مارا تھالیکن حیران رہی تھی کیوں کے اس کو کوئی فرق ہی نہیں پڑا تھا تب انوشے نے اورزیادہ زور سے مآرا تھا لیکن اسے تب بھی کچھ نہیں ہوا تھا وہ اسی طرح اطمینان سے کھڑا اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا “یہ طریقے ….پرانے ہو چکے ہیں میڈم ..کچھ اور ٹرائی کریں ..” وہ اس کی طرف جھک کر بولا تھا انوشے تھوڑا پیچھے ہوئی تھی اور اپنے ناخن اس کے ہاتھ میں گڑا دئے تھے “آہ ..جنگلی بلّی …”وہ ہلکے سے چیخا تھا لیکن ہاتھ پھر بھی نہیں چھوڑا تھا “میں …دیکھ لوں گی تمہیں …!!” وہ غصّے سے بولی تھی تیمور اس کے انداز پر ہنس پڑا تھا “ہنس کیوں رہے ہو ؟؟” وہ چڑ گئی تھی جبھی وہاں سے ایک گاڑی گزری تھی اس میں بیٹھے منچلو نے ان دونوں کو دیکھ کر سیٹیاں بجائی تھی انوشے تو شرم سے پانی پانی ہو گئی تھی تیمور نے اس کے لال گلابی چہرے کو دیکھ کر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا اور دو قدم پیچھے ہو کر کھڑا ہو گیا تھا وہ اس کو حیرت سے دیکھنے لگی تھی “کیا ہوا ؟؟ پھر سے پکڑ لوں کیا ؟؟” اس کے شرارت سے کہنے پر وہ اس کو گھورتی ہوئی وہاں سے ہٹی تھی اور اپنی گاڑی کے پاس آئی تھی “یہ دیکھو ..تم نے میرا ہاتھ لال کر دیا ..” انوشے نے مڑ کر ناراضگی سے کہتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے سامنے کیا تھا جو سرخ پڑ چکا تھا “یہ میرے پکڑنے سے نہیں بلکے تمہارے مزاحمت کرنے سے ہوا ہے اگر تم چپ چاپ کھڑی رہتی تو…ایسا نہیں ہوتا….اچھا ہٹو میں دیکھ لیتا ہوں تمہاری گاڑی ..اگر ٹھیک ہو گئی تو اسی میں چلی جانا ورنہ …!!!” “ورنہ ؟ کیا ورنہ ؟ اگر ٹھیک نہیں ہوئی تو ..تمہارے ساتھ بھی نہیں جاؤں گی ..” وہ اس کی بات کاٹ کر بولی تھی “تو تمہیں کیا لگتا ہے ..کے اس سنسان روڈ پر تمہیں کوئی کنوینس مل جائے گی ؟” وہ گاڑی کا بونٹ اٹھاۓ اس پر جھکے جھکے ہی بولا تھا لیکن انوشے نے کوئی جواب نہیں دیا تھا صرف ایک تار ہی نکلا ہوا تھا جسے تیمور نے سیکنڈوں میں ٹھیک کر دیا تھا اب گاڑی سٹارٹ ہونے کے قابل ہو گئی تھی “کیا ہوا نہیں ہوئی ٹھیک ؟” اس نے تیمور کو بونٹ گراتے دیکھ کر پوچھا تھا ” نہیں ..تھوڑا زیادہ مسئلہ ہے میری سمجھ میں نہیں آرہا مکینیک ہی ٹھیک کرے گا “وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا تھا ” اب کیا ہوگا ؟”وہ پریشانی سے بولی تھی ” اب کیا ہوگا ؟؟ کچھ نہیں ہوگا ..گاڑی بھی حاضر ہے اور بدمعاش ڈرائیور بھی ..اب آپ کو میرے ساتھ ہی جانا پڑیگا ..آجائے محترمہ ..” اس نے گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول دیا تھا لیکن وہ نہیں بیٹھی تھی وہی کھڑی رہی تھی “کیا ہوا اعتبار نہیں ہے مجھ پر ؟” “بلکل بھی نہیں ..!” اس نے نفی میں سر ہلایا تھا ” اچھا ایسا کرو .میری گاڑی کو تم اپنی گاڑی سمجھ کر ڈرائیو کر لو اور مجھے لفٹ دے دو ..” تیمور نے حل پیش کیا تھا “فائدہ ؟؟ جانا تو مجھے پھر بھی تمہارے ساتھ ہی پڑیگا ..” وہ دانت پیستے ہوئے کہتی فرنٹ سیٹ پر جا بیٹھی تھی تیمور نفی میں سر ہلاتا ہنس دیا تھا اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتا ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا تھا آنکھوں پر گاگلز لگا کر اس نے کار سٹارٹ کی تھی ” یہ تمہارا غصہ ناک پر کیوں رہتا ہے ہر وقت ؟”وہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے اس کو دیکھ کر بولا تھا جو دروازے سے تقریباً چپک کر بیٹھی تھی “زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے مجھ سے ..اور یہ کیا تم تم لگا رکھی ہے ؟ہاں ؟؟” وہ اس کو گھورتی ہوئی بولی تھی “پہلے تو ڈر لگتا تھا اس لئے آپ کہتا تھا ..” “تو کیا اب نہیں لگتا ؟؟” “نہیں ..تھپڑ کھانے کے بعد نکل گیا ہے .” تیمور کے اتنے سکون سے کہنے کے بعد اسے پھر سے شرمندگی ہوئی تھی ” بار بار یاد دلانا ضروری ہے کیا ؟” “ساری زندگی دلاتا رہوں گا ..کے تم نے مارا تھا مجھے ” ” تم نے حرکت ہی کیوں کی تھی تھپڑ کھانے والی؟” “میں نے صرف ہاتھ پکڑا تھا ..” “ساری یونی کے سامنے ؟؟” “یارر ..سب کے سامنے پکڑو تو تمہیں اعتراض ہے ..اکیلے میں پکڑو تو تمہیں اعتراض ہے ..اب تم ہی بتاؤ کیا کرو ؟؟” “مجھے دیکھنا بند کرو اور سامنے دیکھ کر ڈرائیو کرو ..” “تم میرے برابر میں بیٹھو اور میں تمہیں دیکھوں نہ ؟؟ ایسا تو ہو نہیں سکتا ..اسی لئے کہ رہا تھا کے تم ڈرائیو کرلو ..مجھ سے ہو ہوگی نہیں ..” “تم سے تو ..بات ہی کرنا فضول ہے …!!” وہ غصّے سے بولتی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی تھی اور تیمور نے ہنستے ہوئے میوزک پلئیر آن کیا تھا “فلک سے پوچھ لو چاہے گواہ یہ چاند تارے ہیں نہ سمجھو اجنبی صدیوں سے ہم تو بس تمہارے ہیں محبّت سے نہیں واقف بہت انجان لگتی ہو ہمیں ملنا ضروری ہے حقیقت نہ سمجھتی ہو کوئی کیسے سمجھ پاۓ کسی کے دل کا افسانہ محبت میں کوئی عاشق کیوں بن جاتا ہے دیوانہ کسی سے پیار ہو جائے .کسی پے دل جو آجاۓ بڑا مشکل ہوتا ہے دل کو سمجھآنا … ہوئے بیچین پہلی بار ہم نے راز یہ جانا محبت میں کوئی عاشق کیوں بن جاتا ہے دیوانہ …!!” “سن رہی ہو انوش ؟…!! یہ شاعر تو میرے دل کی عکاسی کر رہا ہے “انوشے نے سختی سے دانت پر دانت جما کر خود کو کچھ بولنے سے روکا تھا اب اتنا تو وہ اچھی طرح جان گئی تھی کے اس سے بات کرنے کا مطلب تھا ..فضول بحث …!!” اس لئے خاموشی سے باہر دیکھتی رہی تھی “تمہیں پتا ہے میری امی کو بہت جلدی ہے اپنی بہو لانے کی ..انفیکٹ وہ تو اسی سال میری شادی کرنا چاہتی ہیں ..” “تو پھر ؟ کیا کروں میں ؟ مجھے کیوں بتا رہے ہو ؟” “میں تو اسی لئے بتا رہا ہوں تاکے تم شادی کی تیاری شروع کردو ..” “کس کی شادی کی ؟ِ” وہ حیرت سے بولی تھی ” ہماری شادی کی …!” “بکواس بند کر لو اپنی تیمور …! میں کہ چکی ہوں تم سے کے ہماری شادی نہیں ہو سکتی …!!” “کیوں نہیں ہو سکتی ؟؟ِ” “بس نہیں ہو سکتی ..” تیمور نے ایک جھٹکے سے گاڑی روکی تھی انوشے کا سر ڈیش بورڈ پر لگتے لگتے بچا تھا “گاڑی کیوں روکی تم نے ؟” “پہلے مجھے وجہ بتاؤ ..مجھ سے شادی نہ کرنے کی ..اس کے بعد ہی گاڑی چلاؤں گا ورنہ نہیں …!!” وہ ضدی انداز میں بولا تھا “بہت اچھی بات ہے ..بیٹھے رہو یہاں اکیلے ..جا رہی ہوں میں .. ” وہ اس کو گھورتی ہوئی دروازہ کھولنے لگی تھی جبھی تیمور نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا اور اس کی جانب جھک کر ہینڈل پر رکھا اس کا دوسرا ہاتھ ہٹا کر لاک لگا دیا تھا وہ حیرت سے خود پر جھکے تیمور کو دیکھ رہی تھی “کہا ہے نہ میں نے تم سے کے ..پہلے وجہ بتاؤ ..” “دور ہٹو مجھ سے ..” “نہیں ہٹوں گا …” “تم ..تم انتہائی بد تمیز انسان ہو ..” وہ غصے سے بولی تھی ” جانتا ہوں …” جبھی پیچھے آنے والی گاڑیوں نے ہارن دیا تھا تب مجبورآ اسے پھر سے گاڑی سٹارٹ کرنا پڑی تھی “قسمت ہی خراب تھی میری جو پہلے گاڑی خراب ہو گئی ..اور اب تم ..!!” “میری قسمت تو بہت اچھی ہے ..” وہ مزے سے بولا تھا ” “ویسے کیا خیال ہے میڈم ..کیا سارا دن آپ نے میرے ساتھ کراچی کی سڑکوں پر مٹرگشتی کرتے ہوئے گزارنا ہے ؟؟ ..اچھا .اچھا ایسے تو مت دیکھو اب .میں تو ایڈریس پوچھنا چاہ رہا تھا “تیمور کے پوچھنے پر اس نے ایڈریس بتا دیا تھا اور اگلے دس منٹ میں اس نے انوشے کے گھر کے سامنے گاڑی روکی تھی “تم کہاں جا رہے ہو ؟” اس نے حیرت سے اس کو سیٹ بیلڈ ہٹاتے ہوئے دیکھ کر کہا ” چاۓ پینے جا رہا ہوں ..تمہارے گھر ..” “لیکن میں نے تو تم کو نہیں بلایا .. “پتا ہے مجھے ..بہت بے مروت لڑکی ہو تم ..ایک تو میں نے تمہیں ان لڑکوں سے بچایا ..تمہاری گاڑی ٹھیک کی ..تمہیں لفٹ دی لیکن تم …بجاۓ میرا شکریہ ادا کرنے کے مجھے چاۓ پلانے کے دروازے سے ہی لوٹا رہی ہو ..” انوشے کو سچ مچ شرمندگی ہوئی تھی “دیکھو ..بہت شکریہ ..تمہارا تم نے جتنی بھی میری مدد کی لیکن چاۓ ..وہ میں تمہیں نہیں پلا سکتی ..اس لئے اب تم یہاں سے سیدھے گھر جاؤ.. اور گاڑی …گاڑی کب ٹھیک کی تم نے ہاں ؟ ” وہ یاد آنے پر جیسے چونک کر بولی ..”گاڑی ؟؟ وہ تو ..صرف ایک وائیر نکلا ہوا تھا ..وہ میں نے ٹھیک کر دیا تھا ..” تیمور مسکراہٹ دباتے سر کھجاتا ہوا بولا تھا “تم ..تم نے جھوٹ بولا مجھ سے ؟؟” وہ غصّے سے اس کو گھورنے لگی تھی “جھوٹ تو نہیں بولا میں نے ..بس سچ چھپایا ہے ..اچھا چلو ..آج تھوڑا کام ہے مجھے اسی لئے جا رہا ہوں لیکن اگلی دفع….. چا ۓ بھی پیوں گا اور کھانا بھی کھاؤں گا ..وہ بھی تمہارے ہاتھوں کا ..آخر کو تم نے میرا شکریہ بھی تو ادا کرنا ہے ..” وہ اس کو تیز نظرو سے دیکھتی ہوئی اپنا پرس سمبھال کر گاڑی سے نیچے اتر گئی تھی اور کھینچ کر دروازہ بند کیا تھا تیمور بھی ہنستے ہوئے گاڑی نکال لے گیا تھا …. حارث نے بال بناتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے میں سے مناہل کا عکس دیکھا تھا جو اس کے ہی بیڈ پر منہ پھلا کر بیٹھی تھی اور نارضگی سے ہی اس کو دیکھے جا رہی تھی “یار مناہل ..کیوں فضول ضد کر رہی ہو ؟ ” حارث نے برش رکھتے ہوئے کہا تھا “یہ فضول ضد ہےحارث ؟” “میرے لئے تو فضول ضد ہی ہے ..” “میں نہیں جانتی ..بس مجھے تمہارے ساتھ جانا ہے ..” “تم میرے ساتھ نہیں جا سکتی مناہل ..میں کتنی دفع تمہیں بتاؤ ؟” “تم ہر دفع ایسے ہی کرتے ہو ..خود تو تم چل جاتے ہو اور مجھے گھر پر بور ہونے کے لئے چھوڑ جاتے ہو ..” “نہیں تو تم مجھے بتاؤ نہ ..میرے ساتھ جا کر تم کرو گی کیا ؟؟ .انار جلاؤ گی یا پٹاخے پھاڑوگی ؟ یا پھر ون وہیلنگ کرو گی ؟” حارث نے تنگ آ کر اس کو کہا تھا ایک گھنٹے سے وہ اس کو سمجھا رہا تھا لیکن مجال ہے جو اس نے کان دھرے ہو “ہاں …اگر تم انار جلاؤ گے پٹاخے پھاڑوگے تو میں بھی کروں گی ..” وہ ضدی انداز میں بولی تھی ” اللہ ..اللہ ..مناہل ..لڑکیاں انار نہیں جلاتی ..” اس نے اپنا سر پکڑ لیا تھا “مجھے نہیں پتا حارث ..تم مجھے اپنے ساتھ لے کر جاؤ گے بس ..!!” “تم نے فائرورکس ہی دیکھنا ہے نہ ..تو ٹی وی پر دیکھ لو …!” “واہ ..واہ ..خود تو تم وہاں اصل میں آتش بازی دیکھو گے پٹاخے بھی پھاڑوگے انار بھی جلاؤ گے ..اور میں یہاں ٹی وی پر دیکھوں ؟؟” وہ شدید ناراضگی سے بولی تھی جبھی اسے باہر سے عمیر کے بولنے کی آواز آئی تھی “روکو …ابھی جا کر تمہاری شکایات کرتی ہوں عمیر بھائی سے ..” وہ اس کو دھمکاتی وہاں سے اٹھ کر لاؤنج میں چلی گئی تھی حارث اپنا سر تھام کر رہ گیا تھا یہ لڑکی اس کی سمجھ سے باہر تھی اور جب تک وہ اپنے جوتے لے کر لاؤنج میں آیا اس کی نظر سیدھی مناہل پر ہی پڑی تھی جو صوفے پر عمیر کے ساتھ بیٹھی تھی منہ بدستور پھولا ہوا ہی تھا “آپ ہی سمجھاۓ اس پاگل کو بھائی ..کہ رہی ہے کے نیو ائیر پر آتش بازی کرنے اور دیکھنے یہ بھی میرے ساتھ ہی جائے گی ..” “دیکھیں عمیر بھائی ..یہ بھی تو جا رہا ہے نہ ..پھر آپ مجھے کیوں نہیں جانے دے رہے ..؟؟” وہ ناراضگی سے بولی تھی “وہ لڑکا ہے مناہل ..اور یہ کام لڑکے ہی کرتے اچھے لگتے ہیں اور وہاں صرف لڑکے ہی ہوں گے ..تم کرو گی کیا وہاں جا کر ؟” عمیر نے بھی اس کو سمجھا نے کی کوششیس کی تھی “اگر تم نے جانا ہی ہے تو ..میں معلوم کر لیتا ہوں اگر کوئی کنسرٹ وغیرہ ہو رہا ہوگا تو تم زر نور اور لائبہ کے ساتھ وہاں چلی جانا “حارث نے صوفے پر بیٹھ کر شوز پہنتے ہوئے کہا تھا “تمہیں پتا ہے حارث ..مجھے نہیں پسند یہ کنسرٹ وغیرہ ..مجھے تمہارے ساتھ ہی جانا ہے “وہ اٹل لہجے میں بولی تھی “حارث اگر بچی کا دل کر رہا ہے تو تم لے جاؤ نہ اس کو اپنے ساتھ ..” حارث کی امی نے مناہل کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر کہا تھا “میں تو خود ریاض کی بائیک پر اس کے ساتھ ہی جا رہا ہوں امی ..اس کو کہاں بٹھاؤں گا ؟” اس نے جوتے پہنے کے بعد کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا “ٹھیک ہے پھر اپنی کار کی چابی دو مجھے ..” وہ مناہل کی بات پر ٹھٹھک گیا تھا ” تمہیں کیوں چاہیے چابی ؟” اس نے مشکوک انداز میں اس کو دیکھ کر کہا تھا “تو کیا کنسرٹ میں پیدل جاؤں ؟” وہ ناراضگی سے بولی تھی “تمہیں ڈرائیو کرنے کی ضرورت نہیں ہے ..زرنور کے ساتھ جانا ..” “مجھے آرڈر مت دو حارث ..”وہ تنک کر بولی تھی “ٹھیک ہے پھر تمہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے گھر میں بیٹھو ..” “دیکھ رہے ہیں بھائی آپ اس کو ؟؟” اس نے شکایاتی نظرو سے اس کو دیکھنے کے بعد عمیر سے کہا تھا ” مناہل چھوڑو اسکو ..تم میری گاڑی لے جاؤ ..”عمیر نے کہا تھا ” نہیں ..مجھے اسی کی گاڑی چاہیے …!” وہ پھر سے ضد کرنے لگی تھی “بھائی ..آج کتنا رش ہوگا سڑکوں پر اور اس کی ڈرائیونگ کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہے ..فضول میں یہاں وہاں مار دے گی یہ ” “چپ ہو جاؤ حارث ..اب ہر بات میں تمہاری نہیں چلے گی ..” وہ غصے سے بولی تھی “اچھا ٹھیک ہے میرے کمرے میں ہے چابی ڈریسنگ پر رکھی ہے جاؤ لے لو ..”حارث نے موبائل نکالتے ہوئے بے نیازی سے کہا تھا اور میسج پر احمد سے کسی کنسرٹ کے بارے میں پوچھنے لگا تھا جس کا میسج اگلے پانچ منٹ میں ہی موصول ہو گیا تھا حارث کن آنکھیوں سے ان سب کو باتوں میں لگا دیکھ کر اپنے کمرے میں آیا تھا “مناہل ..وارڈروب میں سے میری گرے والی جیکٹ دو ..” اس نے ڈریسنگ ٹیبل کے پاس کھڑی مناہل کو دیکھ کر کہا تھا “کوئی کام خود بھی کر لیا کرو .”وہ لٹھ مار انداز میں کہتی ہوئی الماری کے پاس آئی تھی اور جیکٹ نکالتے ہوئے اس کی نظر اندر رکھے ایک خوبصورت سے گولڈن ریپر میں پیک ہوئے گفٹ پر پڑی تھی مناہل نے حیرت سے اس گفٹ کو دیکھا تھا اور پھر اٹھا بھی لیا تھا “حارث .یہ کس کے لئے لیا ہے تم نے ؟” اس نے حیران ہوتے ہوئے حارث کو کہا تھا جو ابھی بھی موبائل پر ہی مصروف مسکرا رہا تھا مناہل کی آواز پر اس نے سر اٹھا کر اس کو دیکھا تھا اور پھر اس کے ہاتھ میں موجود اس گولڈن گفٹ کو دیکھ کر اس کی مسکراہٹ سمٹی تھی اس نے فورآ سے مناہل کے پاس پہنچ کر اس کے ہاتھ سے وہ گفٹ جھپٹا تھا “یہ کیوں نکالا ہے تم نے ؟ ” “میں تو …پوچھ رہی تھی کے ..یہ کس کے لئے لیا ہے تم نے ؟” وہ حیرت سے حارث کا یہ انداز دیکھ رہی تھی “عائشہ کے لئے لیا ہے “اس نے بے نیازی سے کہا تھا جبکے عائشہ کے نام پر وہ چونکی تھی “یہ عائشہ کون ہے ؟” اس نے حیرت سے پوچھا تھا “دوست ہے میری ..لیکن اب دوست سے کچھ بڑھ کر ہے ..” وہ مسکراتے ہوۓ بولا تھا “تم نے بتایا نہیں حارث ..کے تمہاری کوئی “لڑکی “بھی دوست ہے ” مناہل کی حیرت ختم نہیں ہو رہی تھی “ہر بات بتانے کی نہیں ہوتی ..مانو بلّی ..”حارث نے کہنے کے بعد اس گفٹ کو لاکر میں رکھ کر لاک لگا دیا تھا “یہ کون سی دوست ہے تمہاری ؟ اور یہ بنی کب ؟” “ابھی دیر ہو رہی ہے مجھے ..ریاض باہر ویٹ کر رہا ہے ..میں تمہیں بعد میں بتا دوں گا .بس اسے تم میری “دا ون “سمجھ لو ..امی سے کہوں گا بس جلد ہی رشتہ لے جانے کی تیاری کریں ..” آخر میں وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑا تا ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آیا تھا اور پرفیوم کی بوتل اٹھا کر خود پر سپرے کرنے لگا تھا اس نے شیشے میں سے مناہل کو دیکھا تھا جو حیران پریشان سی کھڑی تھی مناہل کو یہ سب عجیب لگ رہا تھا اور سہی معنوں میں بلکل بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا کیوں کے بچپن سے لے آج تک حارث پر وہ اپنا حق جتاتی آئی تھی اسے لگتا تھا کے بس اسی کی اجارہ داری ہے حارث پر لیکن ایک بات وہ بھول گئی تھی کے اگر اس کی شادی ہونا ہے تو پھر حارث کی بھی تو ہو گی نہ ؟اور ظاہر ہے تب وہ اسی آنے والی لڑکی میں دلچسپی لے گا اور یہ سوچ کر ہی مناہل بے چین ہو گئی تھی کے کوئی لڑکی اس کے سامنے حارث پر اپنا حق جاتاۓ اتنا آسان نہیں ہوتا اپنی ملکیت سے یوں دستبردار ہو جانا “کیا ہوا ؟جانا نہیں ہے تم نے ؟”حارث نے اس کے پاس آ کر اس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ ہلایا تھا تب وہ چونکی تھی “ہاں ..کیا ہوا ؟” اس نے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے حارث کو دیکھا تھا جو بلیک پینٹ اور وائٹ شرٹ میں ملبوس خوشبوؤیں بکھیرتا جانے کے لئے بلکل تیار لگ رہا تھا “میں پوچھ رہا تھا کے تم جا نہیں رہی ؟ صرف ایک گھنٹہ رہ گیا ہے بارہ بجنے میں اور ابھی احمد سے پوچھا تھا میں نے ..تو وہ بتا رہا تھا کے نیشنل اسٹیڈیم میں عاطف اسلم اور فرحان سعید کا کنسرٹ ہو رہا ہے .تمہیں تو پسند بھی ہے نہ یہ دونوں ؟ تو یہیں چلی جاؤ .. “نہیں ..اب دل نہیں کر رہا میرا ..” اسے اب کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا دل ایک دم ہی اچاٹ ہو گیا تھا ہر چیز سے ..”ابھی تو تم نے شور ڈالا ہوا تھا کے .تم نے جانا ہے ..اور اب منع کر رہی ہو کہو تو میں ڈراپ کر دیتا ہوں “حارث نے چہرے پر حیرت طاری کرتے ہوئے کہا تھا “بس موڈ نہیں اب میرا ..”وہ بے دلی سے اس کو جیکٹ ور چابی پکڑا کر کمرے سے چلی گئی تھی حارث دل ہی دل میں محفوظ ہوتا اس کی یہ حالت دیکھ رہا تھا پہلی ہی سیڑہی پر کامیابی ملنے پر وہ خود کو شاباش دے رہا تھا۔ “مجھے تو سمجھ نہیں آ رہا ہے کے زرنور .تم اتنی بدتمیز کیوں ہوتی جا رہی ہو ؟” “میں بدتمیزی کہاں کر رہی ہوں مما .؟ میں تو بس اتنا کہ رہی ہوں کے اب تو انکل خود ہی یہاں آ گئے ہیں ..تو آپ انہیں صاف صاف کہ دیں ..! ” “تم ہی بتاؤ کے میں کیا کہوں ان کو ؟ یہی کے میری بیٹی بہت نافرمان ہے ..اور ہم سے زیادہ سمجھ بوجھ ہے اس میں ہم سے بہتر فیصلے کر سکتی ہے وہ ..”زارا بخاری شدید ناراضگی سے بولی تھی “اب یہ مطلب تو نہیں ہے میرا مما ..” “تو بتاؤ پھر کیا مطلب ہے تمہارا ؟” “بس مجھے ارمان سے شادی نہیں کرنی ..کسے سے بھی کروا دیں ..بس اس سے نہیں کروں گی ..” “تمہیں مسئلہ کیا ہے ارمان سے شادی کرنے میں ؟؟ کسی اور سے بھی تو کرو گی نہ ؟ تو پھر ارمان سے ہی کر لو ” “مجھے ارمان سے ہر گز ہر گز شادی نہیں کرنی ..”وہ اٹل لہجے میں بولی تھی اور ابھی زارا بخاری کچھ کہنے ہی لگی تھی کے دروازے پر دستک ہوئی تھی ..وہ دونوں ہی چونکی تھی اور دروازے پر کھڑے عدیل خانزادہ کو دیکھ کر زرنور کو شرمندگی نے آن گھیرا تھا “زارا ..مجھے اپنی بیٹی سے اکیلے میں بات کرنی ہے ..” انہوں نے زارا بخاری کو مخاطب کر کے کہا تھا “جی ضرور بھائی صاحب ..”وہ زرنور پر ایک کڑی نگاہ ڈال کر کمرے سے چلی گئی تھی “زرنور بیٹا ..کوئی بھی فیصلہ فوری طور پر نہیں لیا جاتا ..مجھے بتاؤ کیا وجہ ہے ارمان سے شادی نہ کرنے کی ؟” وہ اپنے مخصوص دھیمے اور پروقار لہجے میں اس سے بولے تھے جس کا شرمندگی کے مارے سر ہی نہیں اٹھایا جا رہا تھا “(اف ..ان کے سامنے ہی ان کے بیٹے کو ریجیکٹ کے جا رہی تھی میں …افف )”زرنور ..میں تم سے بات کر رہا ہوں بیٹا ..کیا ارمان پسند نہیں ہے ؟” ” نن نہیں انکل ..ایسی بات نہیں ہے ..میں نے تو اس کو دیکھا ہی نہیں ہے ..”وہ جلدی سے بولی تھی ” “تو بیٹا جب تم نے اس کو دیکھا ہی نہیں اس سے ملی ہی نہیں .تو پھر اس کے بارے میں کوئی راۓ کیسے قائم کر سکتی ہو ؟” “نہیں انکل ..وہ بات دراصل …!” ” اچھا چلو رہنے دو .. جو بھی بات ہے مجھے پتا ہے کے صرف ارمان کو دیکھنے کے بعد ہی تمہاری راۓ بدل جائے گی …” عدیل خانزادہ نے مسکراتے ہوئے کہا تھا اور کوٹ کی جیب سے موبائل نکال کر اس پر گیلری کھولنے لگے تھے زرنور لب بھینچے ان کو دیکھ رہی تھی (بھلا ارمان کوئی احمد ہے کیا ؟ جو صرف اس کو دیکھنے پر ہی اس کی پسند بدل جاۓ گی )”یہ لو ..”انہوں نے اپنا سیل فون اس کو دیا تھا جو اس نے نہیں تھاما تھا “زرنور ..تمہیں میری بات پر یقین ہونا چاہیے بیٹا ..میں کوئی غلط نہیں کہ رہا ..اور ارمان.. تمہارے لئے کوئی نیا نہیں ہے .تم اچھی طرح سے جانتی ہو اسے ..یہ لو دیکھو اس کی تصویر ..اور اس کے بعد جو بھی تمہارا فیصلہ ہوگا وہ ہم سب کو قبول ہوگا ..ارمان کو بھی …” وہ اس کے ہاتھ میں فون دے کر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر باہر چلے گئے تھے “اور وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے ان کے فون کو دیکھ رہی تھی اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی موبائل سکرین کو اپنے سامنے کیا تھا “یہ …؟؟!!” اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں اس نے بے یقینی سے سلائڈ کر کے تین چار تصویریں دیکھی تھی جن میں صرف ایک ہی مسکراتا ہوا چہرہ تھا جو عدیل خانزادہ کے بقول ارمان خانزادہ کا تھا اور وہ چہرہ واقعی میں اس کے لئے نیا نہیں تھا کیوں کے …وہ …وہ احمد کا چہرہ تھا جسے اس نے سب سے زیادہ چاہا تھا گرے آنکھوں اور گہرے ڈمپل والا وہ احمد ہی تھا جو عدیل خانزادہ کے ساتھ دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈالے مسکراتے ہوئے کھڑا تھا اور دوسری تصویر تب کی تھی جب اس نے گریجویشن کلئیر کیا تھا کیوں کے اس میں وہ بلیک کوٹ ور ہیٹ پہنے ہاتھ میں ڈگری پکڑے کھڑا تھا عدیل خانزادہ کو دیکھ کر وہ جبھی تو چونکی تھی کیوں کے ان جا چہرہ زرنور کو جانا پہچانا لگا تھا ” ہم ایک دفع نہیں کی بار مل چکے ہیں ..اگر تم زہن پر زور دو تو تمہیں یاد آجاۓ گا ..” اسے ارمان کی بات یاد آئی تھی “ارمان تمہارے لئے کوئی نیا نہیں ..تم اچھی طرح سے جانتی ہو اسے ..” عدیل خانزادہ کی تھوڑی دیر پہلے کہی ہوئی بات اس کے آس پاس ہی کہیں گونجی تھی اس کی آنکھوں میں مرچیں سی لگنے لگی تھی اورایک کے بعد ایک آنسو اس کے گالوں پر پھسلتے چلے گے تھے “کتنی آسانی سے …کتنی آسانی سے اس نے مجھے بے وقوف بنا دیا …اور میں اس کی محبت میں پاگل کچھ سمجھ ہی نہ سکی کے ..کے کتنا بڑا گیم کھیل رہا ہے وہ میرے ساتھ .. تم نے میری محبت کی توہین کی ہے احمد …میں تمہیں۔۔ کبھی بھی…کبھی بھی معاف نہیں کروں گی ..” اس کا سر چکرانے لگا تھا ہوش و حواس سے بیگانا ہوتی وہ نیچے کار پیٹ پر گری تھی۔ سی ویو کی طرف جانے والے سارے راستے کنٹینرز لگا کر بند کر دئے گئے تھے پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری وہاں تعینات کر دی گئی تھی لیکن اس کے سامنے والی سڑک پر منچلوں کا ایک جم گفیر تھا جنہوں نے شور مچا مچا کر سارا آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا پوری روڈ نوجوانو سے بھری ہوئی تھی نۓ سال کو خوش آمدید کہنے کے لئے ساری تیاری مکمل کر لی گئی تھی سب بارہ بجنے کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے لیکن ابھی بارہ بجنے میں ٹائم تھا ایک بڑے سے ٹرک میں بہت سے ایکو نصب کئیے گئے تھے ایک عجیب سے حلیے والا ڈی جے بھی ٹرک میں چڑھا بیٹھا تھا جو اپ بیٹ میوزک لگا لگا کر دیوانوں کے جوش کو ہوا دے رہا تھا نیوز چینلز کی ڈی ایس این جی وینز بھی پہنچنا شروع ہو چکی تھی فل کوریج دی جا رہی تھی اس دفع سب سے زیادہ اور سب سے زبردست آتش بازی یہاں ہونے کا امکان تھا بارہ بجنے کے بعد ہیوی بائیک ریس اور سٹریٹ ڈانس کمپٹیشن کا بھی انقعاد کیا گیا تھا ہے مستی کے دن ہے چلو جھومے اور گائیں ہم سارے جو مل جائے تو بولو پھر کیا ہو غم حیدر کا بس نہیں چل رہا تھا ک وہ ٹرک پر چڑھے بیٹھے ڈی جے بابو کو دھکا دے کر نیچے پھینک دے اور خود چڑھ جاۓ وہ تو اشعر نے اس کا بازو مظبوطی سے پکڑا ہوا تھا “دیکھ اشعر …ہاتھ چھوڑ دے میرا .یہ جنگلی ڈی جے .مجھ سے بالکل بھی نہیں برداشت ہو رہا ..”حیدر دانت پیستے ہوئے بولا تھا آج تو لگ رہا تھا کے سارا کراچی ہی اٹھ کر اس سڑک پر آ کر جما ہو گیا ہو پیر رکھنے کی بھی جگہ نہ تھی “ابے یار ایک مسئلہ ہو گیا ..!” جبھی ریاض یہاں وہاں جھومتے مستانوں کو دھکا دے کر پیچھے ہٹاتا ان کے پاس آ کر پریشانی سے بولا تھا ” ابے تجھے کیا ہوا ؟” ان سب نے حیرت سے اس دیکھا تھا ” یار وہ جیکی ہے نہ .؟” “ہاں ہے تو پھر ؟” “وہ جس کا بھائی ہر دفع بائیک ریس جیت جاتا ہے ..” “ہاں تو پھر ؟؟” “یار وہ ہی جس کے لمبے لمبے بال ہیں ..” “ریاض بھائی ہمیں یاد آگیا ہے ..تو آگے تو بول ” “یار اس نے چیلینج دیا ہے کے اس بار ہم میں سے کوئی اس کو ہرا کر دکھاۓ ..” “یہ کیا بول رہا ہے ؟” “ایک لگاؤں گا میں تیرے حیدر …جب ڈیٹیل میں بتا رہا تھا تو تب بھی تجھے مسئلہ تھا اور اب بھی تجھے مسئلہ ہے ..سیدھی سی بات یہ ہے کے.. میں کھڑا تھا اس کے پاس ایسے ہی ..تو وہ شیخیاں بھگار رہا تھا اور سچ بتاؤ تو مجھے چڑا رہا تھا کے کوئی ہے نہیں جو اس کے بھائی کو ہرا سکے ..بس مجھے بھی غصہ آگیا تو میں نے بھی ….!” “کیا تونے بھی ؟” حیدر پھر بیچ میں بولا تھا “تو میں نے کہا کے میرا دوست ہے نہ احمد …وہ بھی ہیوی بائیک ریس کا چیمپئن ہے وہ بھی اٹلی کا …اور تیرے بھائی کو تو وہ یوں منٹوں میں ہراۓ گا ..” ریاض نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا تھا احمد جو دونوں ہاتھ سینے پر باندھے ایک پیر گاڑی کے ٹائیر سے لگاۓ کھڑا ان کی گفتگو سن رہا تھا چونک کر سیدھا ہوا تھا ” ایک تو مجھے اتنا برا لگتا ہے اس جیکی کا بھائی جیزی اوپر سے وہ اس کی اتنی تعریفیں کئے جا رہا تھا مجھ سے تو برداشت نہیں ہوا اسی لئے میں نے تیرا نام لے دیا احمد ..” “یار تو پہلے مشورہ ہی کر لیتا ..”احمد ناراض نظر آرہا تھا ” ابے بھائی وہ تو مجھے ریس کرنے کے لئے کہ رہا تھا اور تو جانتا ہے کے اگر میں ریس لگاتا تو وہ تو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ..اور سچی بات ہے بھئی ..مجھے صرف بائیک چلانی آتی ہے تیری طرح اڑانی نہیں آتی ..اور تو اٹلی میں بھی تو ریس کرتا تھا نہ ؟ اور جیتتا بھی تھا ..یار بھائی بات مان لے میری ..تیرے بھائی کی عزت کا سوال ہے …” “وہ سب تو ٹھیک ہے ریاض ..لیکن ریس سے پہلے مجھے پاور چاہیے ..” وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا تھا “کیسی پاور ؟” “یہ جتنے بھی لوگ یہاں پر ہے نہ اس سے ڈبل اٹلی میں میرے سپورٹرز ہوتے تھے اور جب ہزاروں لوگ مل کر آپ کے نام کے نعرے لگا ۓ تو پھر جتنے کا شوق اور جذبہ تو خود ہی پیدا ہوگا نہ ..چاہے سے آپ چیمپئن ہو یا نہ ہو …” “یہ کام تو تم لوگ مجھ پر چھوڑ دو ..اور احمد ..تو بس ریس جتنے کے لئے تیار ہو جا ..اور ایک دفع تو جیت گیا نہ پھر دیکھنا اس جیکی اور جیزی کی تو میں کیسی ہٹاتا ہوں ..” حیدر نے ایک ہاتھ سینے پر رکھے ان سب کو مطمئن ہونے کے لئے کہا تھا جبھی ڈی جے نے گانے بند کر دئے تھے اور کاؤنٹ ڈاؤن شروع کرنے کااعلان کیا تھا سب الرٹ ہو گئے تھے پٹاخے .انار اور راکٹ .بم نکال کر سڑک پر ڈھیر کر دئے گئے تھے تقریباً پچاس ساٹھ کے قریب شیشے کی خالی بوتلوں کو ایک لائن سے لگا کر ان میں راکٹ رکھ کر اس میں سے لٹکتے دھاگے پر لائٹر سے شعلے لگا دئے گئے تھے “ “…چھ ….پانچ ….چار ……”منچلوں کا جوش و خروش گنتی کے ساتھ بڑھنے لگا تھا “…تین …دو …ایک …..ہیپی نیو ائیر …!!” یہاں بارہ بجے اور وہاں بہت سارے راکٹ ایک ساتھ آسمان کی جانب بڑھے تھے سب نے یک زبان میں نۓ سال کو خوشآمدید کہا تھا آسمان کی فضاء گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور پٹاخوں کے شور سے گونج رہی تھی سب مہبوت ہو کر اس رنگین آسمان کو دیکھ رہے تھے جہاں ہرے .نیلے ..پیلے .لال اور نہ جانے کتنے رنگ سج چکے تھے نیوز چینلز کے رپورٹرز چیخ چیخ کر ایک ایک بات سے اپنے ناظرین کو آگاہ کر رے تھے جبھی ایک رپورٹر نے انار جلاتے حیدر کو جا لیا تھا “ارے یہاں آیئے ..آپ بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیجئے ..”میں ؟؟” حیدر نے چونک کر اس کو دیکھا تھا “ہاں ہاں ..آپ ہی.. آجاۓ جلدی آجاۓ ..” حیدر نے اپنے ہاتھ میں موجود بہت سے پٹاخوں کا پیکٹ تیمور کو پکڑایا تھا اور خود اپنے کپڑے جھاڑ تا اس کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا تھا “ارے ارے کیمرہ مین بھائی ..اپنا کیمرہ بند کرو ..مجھے بال تو ٹھیک کرنے دو ..” “ہم لائیو جا رہے ہیں …” رپورٹر نے بظاھر مسکرا کر مگر دانت پیستے ہوئے کہا تھا “اچھا ٹھیک ہے ..” وہ دونوں ہاتھ پشت پر باندھ کر کھڑا ہو گیا تھا ” ہاں بھئی جلدی پوچھو کیا پوچھنا ہے ..””ہاں تو بتایہے کے نۓ سال کو ویلکم کرنے کے لئے آپ نے کیا کیا تیاری کی ؟” ا رپورٹر خوشدلی سے بولی تھی ” شروع سے بتاؤں یا بیچ میں سے ؟” “شروع سے بتاییے ” “شروع سے تو پھر.. میری تیاری بھی آجائے گی …اپنے تیاری کے بارے میں بھی بتاؤں کیا ؟” “نہیں نہیں صرف ..نئے سال کے حوالے سے بتاۓ ..” “اچھا تو پھر ایسے بولو نہ کے بیچ میں سے بتاؤں …ہاں تو سنو …سب سے پہلے میں اپنے دوست کے ساتھ” نانا فائرورکس “پر گیا ….!” “یہ نانا فائرورکس کیا ہے ؟” وہ حیدر کی بات کاٹ کر بولی تھی ” پٹاخوں کی دکان ہے ..اب بیچ میں نہیں بولنا لڑکی ….ہاں تو پہلے میں نانا فائرورکس پر گیا وہاں سے پٹاخے خرید کر اپنے دوست ریاض کو دئے پھر ہم دونوں وہاں سے اشعر ..ایک منٹ روکو ..تم آدھے گھنٹے پہلے بھی میرے پاس آئی تھی نہ ؟ اور میں نے اپنی ساری تیاری کے بارے میں تمہیں بتایا بھی تھا ..تم پھر سے پوچھنے آگئی ؟” حیدر اس کو مشکوک انداز میں دیکھتے ہوئے بولا تھا “نہ نہیں ..میں وہ نہیں ہوں ” رپورٹر غصہ دبا کر بولی تھی “اچھا تو ..تم وہ نہیں ہو ..چلو کوئی نہیں ..ایک تو تم سب نیوز والوں کی شکلیں اتنی ملتی جلتی ہیں کے بندہ کنفیوژ ہو جاتا ہے ..بحرحال ..میں دوبارہ سے نہیں بتا رہا پہلے ہی اتنی دیر تک میں نے تفصیل سے اس کو بتایا تھا ..سچ بتاؤں تو ..مجھ سے ایک ہی بات دوبارہ ریپیٹ نہیں کی جاتی ..” “اچھا چلیں یہ بتاۓ کے نئے سال کے لئے آپ نے کیا کیا گول سیٹ کئے ہیں ؟ کون سے ایسے مقصد ہیں جو آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں ..؟” “اوہ تیری …یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں اصل میں نیو ائیر کو لے کر ہم اتنے ایکسائٹڈ ہو گئے تھے کے اس بارے میں سوچا ہی نہیں کے اگلے سال کرنا کیا ہے ؟ خیر اگلے سال بھی وہی کریں گے جو اس سال کیا ہے ..” “اچھا تو یہ بتاۓ پھر کے آپ نے اس سال ایسا کون سا کام کیا ہے جو آپ اگلے سال بھی کرنہ چاہتے ہیں ؟ ” ” مزے …!!” حیدر ہنستے ہوئے بولا تھا “لیکن ایک پلین تو میں نے یہاں کھڑے کھڑے ہی بنا لیا تھا اور وہ یہ کے اسی سال دسمبر میں ..میں ایک پٹاخوں کی دوکان تو ضرور کھولوں گا ..خوب منافع ہوگا ..اور ابھی ابھی میرے اندازے کے مطابق تو کروڑوں کے نہ سہی لاکھوں کے پٹاخے اور راکٹ تو میرے ملک کے معمار پھاڑ ہی چکے ہیں ..اور ایک بات تو یہ کے …!” “اچھا چلیں چھوڑیں اسوقت آپ کو ہماری نیوز سکرین پر پوری دنیا دیکھ رہی ہے ..کوئی پیغام دینا چاہیں گے ؟” “اوہ واؤ ..مجھے پوری دنیا دیکھ رہی ہے ؟ “حیدر خوشی سے بولا تھا ” ہاں تو دنیا والو ..کیسے ہو آپ سب ؟میری طرف سے آپ کو نئے سال کی مبارک ..آپ سب کے کیا کیا مقصد ہیں نئیے سال کے لئے ؟ میں نے تو اپنا بتا دیا پورا سال آرام کرنے کے بعد آخری کے مہینے میں پٹاخوں کی دوکان کھولوںگا ..اور خبردار …! جو کسی نے میرے آئیڈیا کو چرانے کی کوشش کی تو ..اور یار نئیے سال کی آمد ہے ..خوشی کا موقع ہے ..آپ سب گھر پر بیٹھ کر یہ بورنگ سا نیوز چینل دیکھ کر کیا تو انجوۓ کر رہے ہوں گے ..ذرا باہر نیکلیے آسمان کو اصل میں دیکھیں بلکے ایسا کریں کے ..ہمارے پاس ہی آجائیں ..مل کر پٹاخیں پھاڑیں گے اور راکٹ بھی جلائیں گے اور اس کے بعد ریس ….!!” ہمیں اور لوگوں کے تاثرات بھی جاننے ہیں ..آپ کا بے حد شکریہ ..”وہ اس کی بات کاٹ کر خود پر ضبط کرتے ہوئے بولی تھی (یہ لڑکا تو میری جاب کے پہلے دن کو آخری دن بنانے پر تل گیا ہے )…اس کو لگ رہا تھا کے اگر وہ ساری رات بھی کھڑی اس کی سنتی رہی نہ تو ..وہ ایسے ہی بولتا رہے گا .اور بولتے ہوئے تو وہ لگتا بھی اتنا پیارا اور معصوم سا تھا کے بس بیٹھ کر اس کو دیکھتے اور سنتے ہی جاؤ “حمزہ حیدر علی ..!” حیدر نے اطمینان سے کہا تھا “کیا ؟؟” اس نے ناسمجھی سے حیدر کو دیکھا تھا “نام لے کر شکریہ ادا کرو ..” حیدر کی فرمائش ..”آپ کا بہت شکریہ حمزہ حیدر علی ..ہمیں اور ہمارے ناظرین کو بے حد اچھا لگا آپ سے مل کر اور آپ کے تاثرات اور نئے سال کے پلین جان کر ..” وہ چبا چبا کر بولی تھی ” تمہارا بھی شکریہ سویٹ گرل ..میرا سارا ٹائم تم کھا گئی ..میں ایک بھی پٹاخہ اور انار نہ جلا سکا ..میرے دوستوں کمینوں نے سب ختم کر دئے ..لیکن پھر بھی ..تمہارا شکریہ ..” حیدر بے نیازی سے کہنے کے بعد وہاں سے ہٹ گیا تھا اور وہ محض اس کی پشت کو …….گھور کر رہ گئی تھی