mirándote Tengo que bailar contigo hoy (DY) Vi que tu mirada ya estaba llamándome Muéstrame el camino que yo voy (Oh) Tú, tú eres el imán y yo soy el metal Me voy acercando y voy armando el plan Solo con pensarlo se acelera el pulso (Oh yeah) Ya, ya me está gustando más de lo normal Todos mis sentidos van pidiendo más Esto hay que tomarlo sin ningún apuro Despacito Quiero respirar tu cuello despacito Deja que te diga cosas al oído Para que te acuerdes si no estás conmigo Despacito Quiero desnudarte a besos despacito Firmo en las paredes de tu laberinto Y hacer de tu cuerpo todo un manuscrito (sube, sube, sube) (Sube, sube) Quiero ver bailar tu pelo Quiero ser tu ritmo Que le enseñes a mi boca Tus lugares favoritos (favoritos, favoritos baby) Déjame sobrepasar tus zonas de peligro Hasta provocar tus gritos Y que olvides tu apellido (Diridiri, dirididi Daddy ابے ڈھکن ..کتنی دفعہ سناۓ گا تو
یہ گانا ..بند کر اس کو ..میرے کان میں بھی اب سائیں سائیں ہونے لگی ہے ..” جب حیدر نے پانچویں دفعہ ایک ہی گانا لگایا تو ریاض نے منہ بنا کر اس کو کہا “ابے ریاض ..تجھے پتا ہے کیوں نہیں اچھا لگ رہا ہے یہ گانا ؟ کیوں کے تو دل سے نہیں سن رہا ہے ..تو غور سے سن اور دل سے محسوس کر ..پھر تجھے اچھا لگے گا ..” “ابے جا نہ اس پسیتو پسیتو کو میں کیا محسوس کروں ؟ نہ جانے کون سے بنگالی نے یہ گانا گیاہے ..مجھے مل جائے ایک دفعہ …پھر دیکھیو …” ریاض نے پھر سے منہ بگاڑ کر کہا حیدر کو تو گہرا صدمہ پہنچا تھا ” دیکھ ریاض دیسپسیتو کو کچھ مت بول ..یہ پہلا گانا ہے جو مجھے پسند آیا ہے .. اس کو کچھ بولے گا نہ تو اچھا نہیں ہوگا پھر ..” حیدر نے انگلی اٹھا کر کہا ” ا”ابے چل.پاگل ..” ریاض نے ہاتھ جھلا کر کہا اور پھر وہاں سے اٹھ کر وہ زین کے پاس آ گیا تھا جو کافی کا کپ ہاتھ میں پکڑے سپ لے رہا تھا “زین بھائی ..ایک بات تو بتاؤ یار ..” زین نے چونک کر ریاض کو دیکھا جو پلیٹ میں چکن رول اور کیچپ لیے کھڑا تھا جو ابھی اس نے آتے ہوئے حسن کے ہاتھ سے زبردستی جھپٹی تھی “پوچھو یار تم نے کب سے اجازت لینی شروع کر دی ..؟” زین مسکراتے ہوئے اس کی جانب متوجہ ہوا ” میرا سنگل ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن تم کیوں ابھی تک اکیلے ہو؟تم نے بھی کیا ساری زندگی کنوارہ ہی رہنا ہے ؟” ریاض نے رول پر کیچپ لگاتے ہوئے کہا “ارے بھئی ..ہمیں کہاں شوق ہے اکیلے گھومنے کا ؟ وہ تو بس کوئی گھاس ہی نہیں ڈالتی ،..” آج تو زین بھی موڈ میں تھا ورنہ وہ اس ٹوپک پر بات نہیں کرتا تھا ” گھاس ڈالنے والی بات کو تو رہنے دے بیٹا ..سب پتا ہیں مجھے تیرے چکر..”احمد بھی اپنا کپ لئے ان کے پاس آ کھڑا ہوا تھا ” تجھے پتا ہے ریاض ..دو سال سے رنگ اپنے پاس رکھ کر بیٹھا ہے ..لیکن اسے دے نہیں رہا ہے ..” احمد کی بات پر ریاض نے حیرت سے زین کو دیکھا تھا ” امپاسبل ..یونین کونسل کا صدر ..ایک لڑکی کو پرپوز کرنے سے ڈر رہا ہے ..یقین نہیں ہوتا مجھے تو ..” اس کی حیرت کم نہیں ہو رہی تھی “ریاض یار غلط مت سمجھو تم ..اس کی تو عادت ہے بکواس کرنے کی ..” زین نے آنکھوں ہی آنکھوں میں احمد کو دھمکایا تھا “میں بکواس کر رہا ہوں ؟ دکھاؤں پھر میں اس کی تصویر ؟؟” احمد نے بھی جوابآ اس کو دھمکی دی ..” “سدھر جا تو احمد ..مار کھاۓ گا ورنہ مجھ سے ..” زین نے کہتے ہوئے زور سے کہنی احمد کو ماری تھی جس سے اس کے ہاتھ میں پکڑے کپ سے تھوڑی سی کافی چھلکی تھی “احمد نے اسے ایسے دیکھا جیسے کہ رہا ہو کے ..”اچھا بیٹا .یہ بات ہے ..لو ابھی دیکھو .میں کیا کرتا ہوں ” “اوے حیدر …یہاں آ جلدی ..” اس نے تیز میوزک کے شور کی وجہ سے حیدر کو زور سے آواز دی تھی “ابھی آیا باس ..” حیدر نے بھی وہیں سے چیخ کر کہا اور زین احمد کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کچا چبا جاۓ گا ..”احمد کے بچے ..چھوڑوں گا نہیں میں تجھے ..روک جا ..تیرے بھی اٹلی والے افئیرز کی ساری کہانی بھابھی کو نہ سنائی تو نام بدل دیو میرا ..” وہ چہرہ پر ہاتھ پھیرتا اس کو دھمکی دیتا حیدر کے آنے سے پہلے پہلے وہاں سے کھسکا تھا کیوں کے اگر حیدر کو یہ بات پتا چل جاتی تو اس نے تو ..زین بھائی زین بھائی ..کر کے اس کی جان کھا جانی تھی احمد اور ریاض ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس پڑے تھےزین پولیٹیکل سائنس میں ڈبل ماسٹرز کر رہا تھا جب کے احمد ایم بی اے کی ڈگری لے چکا تھا اسی لئے حیدر وغیرہ سب ان سے جونئیر تھے جبھی زین کو بھائی کہتے تھےلیکن احمد کے ساتھ دوستوں کی طرح ہی رہتے تھے حیدر نے گانا چینج کر کے اپنے ہیڈ فونز اتار کر ٹیبل پر رکھے ..اور بیس بڑھا کر وہ چیئر چھوڑ کر اٹھا اور ان دونوں کے پاس آیا تھا “جی فرماۓ دولہا بھائی ..کیسے یاد کیا ؟” حیدر نے آتے ہی احمد سے پوچھا ” میں تیرا دولہا بھائی کہاں سے ہو گیا حیدر ؟” اس نے حیرت سے پوچھا ” “ارے تو نور بانو بہن ہے نہ میری ..اب جیسے بھی ہے .چڑیل ہے بھوتنی ہے ..لیکن اب بہن ہے ..اسی لئے ..” اس نے ریاض کی ہاتھ میں پکڑی پلیٹ میں سے ایک چکن رول اٹھایا تھا “”نیتے آدمی ..وہاں ساری کی ساری ٹیبلز ہر طرح کے کھانوں سے بھری پڑی ہیں لیکن تیری نیت میری پلیٹ پر ہی کیوں خراب ہوتی ہے ؟” اس نے گھور کر کہا ” ابے چل ..تیری کون سی پلیٹ ہے یہ ؟ تونے خود حسن سے چھینی تھی ..” حیدر نے کہتے ہوئے اس کے ہاتھ سے پوری پلیٹ ہی جھپٹ لی ..”ہاں تو دولہا بھائی ..کس لیے یاد کیا تھا ؟” وہ دوبارہ سے احمد کی طرف متوجہ ہوا ” میں کہ رہا تھا کے ..یہاں اتنی ساری لڑکیاں ہیں .کیوں نہ کسی کے ساتھ ..ریاض کا نکاح پڑھوا دیتے ہیں ..” احمد کی بات پر جہاں حیدر کا قہقہ چھوٹا تھا وہیں ریاض کے حلق میں رول اٹک گیا تھا بڑی مشکل سے اس نے رول کو نیچے اتارا ..” “میری تو دل کی بات کہ دی یار …تم سب تو سیٹل ہو گئے ..بس میری شدید خواہش ہے کے ریاض کا گھر بس جائے ..تاکے مجھے بھی چین کی نیند آجاۓ ..” “کیوں؟ تجھے شادی نہیں کرنی کیا ؟” احمد نے کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا “ابے کہاں یار اس گدھے کا گھر بسانے سے زیادہ مجھے اپنا گھر بسانے کی خواہش ہے لیکن …کیا کروں یہ گھر والی ملتی ہی نہیں ..” اس نے منہ بسور کر کہا “اوہو .تو بس لڑکی پسند کر ..شادی کروانا میرا کام ہے ..” احمد نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا “ابے یہ ہی تو سارا مسلئہ ہے ..مجھے ایک پسند نہیں آتی ..آج ایک پسند آتی ہے تو کل دوسری پر دل آجاتا ہے ..اب سب سے تو شادی نہیں کر سکتا نہ؟؟” حیدر کے اپنے ہی مسلئے تھے “ہاہا ..تیرا علاج صرف ایک بندے کے پاس ہے ..روک ابھی بلاتا ہوں ریاض آواز لگا ذرا اشعر کو ..” احمد نے ریاض کو کہا ” “اس بیچارے کو تو میری بھابھیاں دو گھنٹے سےگھیر کر بیٹھی ہیں .. لگ رہا ہے آج تو اس پر فرد جرم عائد کر کے ہی چھوڑیں گی ..” ریاض نے ہنستے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھ کر کہا جہاں ایک ٹیبل کر گرد زرنور لائبہ اور مناہل اشعر کے ساتھ بیٹھی تھی ..”مجھے لگتا ہے کے اشعر کو میری اشد ضرورت ہے ..” حیدر نے پلیٹ دوبارہ ریاض کو پکڑائی اور جلدی سے وہ ان لوگوں کی ٹیبل کے پاس گیا تھا “اگر تم لوگ سائیڈ پر ہو کر کھڑے جاؤ تو بڑی مہربانی ہو گی …یوں تو نہیں کے صدیوں کی بھوکی عوام کا پیٹ بھرنے کرنے کے لئے ہماری مدد کرو ..بلکے اور ہماری مشکلاات بڑھا رہے ہو ..” تیمور نے ہاتھ میں ٹرے پکڑے احمد اور ریاض کے پاس آ کر کہا تھا اس کو تو پہلے ہی غصّہ چڑھا ہوا تھا کیوں کے انوشے کہیں نظر نہیں آ رہی تھی ابھی بھی وہ تپ کر بولا احمد اور ریاض ہنستے ہوئے سائیڈ پر ہو کر کھڑے ہو گئے تھے۔ “ارے یار شادی کرنا کوئی جرم تھوڑی ہے ..؟ ” “ہاں تو تمہیں اتنی جلدی کس بات کی ہے آخر ؟ صبر نہیں کر سکتے ؟ منگنی بھی تو ہوئی ہے نہ شادی بھی ہو جائے گی ” اشعر کے کہنے پر زرنور نے اس کو گھور کر کہا ” تمہاری تو ہو گئی ہے نہ شادی ..اسی لئے بول رہی ہو ..لیکن جس کی نہیں ہوئی ہے اس سے پوچھو نہ اس پر کیا گزرتی ہے ..” اشعر نے منہ بنا کر کہا ” اللہ .اللہ ..اتنے اتاولے کیوں ہو رہے ہو تم شادی کے لئے .؟” “یار مناہل ..صدیوں سے بس منگنی ہی کر کے بیٹھا ہوں .” “نا شکرے ہو تم ..ریاض سے ہی کچھ سیکھ لو ذرا اس کی تو منگنی بھی نہیں ہوئی ..حتیٰ کے کوئ گرل فرینڈ بھی نہیں ہے ..وہ تو بیچارہ کچھ نہیں کہتا ..” زرنور نے پھر سے اس کو گھور کر کہا لائبہ تو مسکراہٹ دباۓ سینڈویچز کھا رہی تھی “”مجھے خبر ملی تھی کے اشعر تجھے چڑیلوں نے اغوا کر لیا ” حیدر نے اس کے ساتھ ہی چیئر گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے تشویش سے پوچھا ” “بلکل سہی سنا ہے ..ان دونوں نے مجھے نہیں لائبہ کو اغوا کیا ہوا ہے ..” اشعر منہ بگاڑ کر بولا “اب دیکھو ذرا ..کتنا پیآرا موسم ہو رہا ہے ..اتنا رومانٹک ماحول ہے ..اب بندہ اپنی منگیتر سے بات بھی نہیں کر سکتا ..مجال ہے جو دو سیکنڈ کے لیے بھی اس کو اکیلا چھوڑ دے ” اشعر کی شکایاتیں ختم نہیں ہو رہی تھی “اس کا تو بھائی ایک ہی حل ہے ..ان دونوں کے بھوتوں کو بلا کر ان کر حوالے کردے دونوں کو ..پھر تو اور تیری چڑیا آزاد ..آرام سے جہاں چاہیں اڑتے پھر نہ ..” “مجھے شادی کرنی ہے حیدر شادی ..” اشعر اپنی بات پر زور دے کر بولا ” “ابے تو کیا یہاں نکاح پڑھواۓ گا ؟” “وہ تو میں ..” حیدر کی بات پر وہ گڑ بڑا گیا تھا “وہ تو میں ..کیا ؟ ہاں کیا ؟ تجھے شرم نہیں اتی اشعر .؟ یہاں تیرے بھائی شدید کنوارے بیٹھے ہیں ..اور تجھے شادی کی پڑی ہے ..نہیں ہو گی تیری شادی ..جب تک ہماری منگنیاں نہیں ہو جاتی ..میں نے کہ دیا بس ..” حیدر ہاتھ اٹھا کر کہتا اس کے پاس سے اٹھ کر مناہل کے پاس جا کر بیٹھ گیا تھا ” میری بھابھیوں ..مجھے اپنی سائیڈ پر قبول کرو ..” “غدار ..یہ امید نہیں تھی مجھے تجھ سے ..اللہ کرے تو کنوارہ ہی رہے ..” اشعر نے اس کو گھور کر کہا “نور ..میرا سیل فون دینا ..” احمد نے ان کے پاس آ کر کہا تھا “ابے تجھے کیا ہوا ؟” اس نے حیرت سے اشعر کے پھولے ہوئے منہ کو دیکھ کر کہا ” “یہ کہ رہا ہے کر اگر اس کی شادی نہ کی گئی تو ..یہ یونی کی چھت سے کھود کر اپنی جان دے دے گا ..” حیدر کے کہنے پر وہ بے ساختہ ہنسا تھا “ارے تو مسلئہ کیا ہے پھر ؟ سسر صاحب نہیں مان رہے کیا ؟.” زرنور نے اپنے کلچ میں سے اس کا فون نکال کر اسکو دیا تھا “ارے بھائی ساس سسر سب راضی ہیں ..بس یہ تیری بیوی ہے نہ .. بیٹھ کر ورغلا رہی ہے اس کو ..کے ابھی شادی مت کرو ..پہلے اپنی پڑھائی ختم کرو ..اور یہ ساتھ میں مناہل بھی مل گئی ..” اشعر نے منہ پھلا کر کہا جب کے زرنور اور مناہل تو اس الزام پر اس کو تیز نظروں سےگھور نے لگی تھی “اب کیا شادی کے بعد نہیں ہو سکتی پڑھائی ؟ ” “ابھی تو تم پڑھنے دیتے نہیں ہو شادی کے بعد کیا خاک پڑھنے دو گے اس کو ؟ لائبہ کوئی ضرورت نہیں ہے ابھی سے شادی کرنے کی ..” زرنور نے صاف کہ دیا تھا اشعر نے احمد کو ایسے دیکھا تھا جیسے کہ رہا ہو ..”کچھ کر یار ..سمبھال اپنی والی کو ..” “اٹھ اشعر ..تو چل میرے ساتھ ” احمد نے ہنستے ہوئے اس کا بازو پکڑا تھا “لیکن یار ..” “ابے چل نا ..” وہ اس کو لئے وہاں سے چلا گیا تھا مناہل کا لبوں تک لے جاتا کپ .سامنے کا منظر دیکھ کر وہیں رہ گیا تھا جہاں حارث وائٹ شلوار قمیض میں آستینیں فولڈ کیے دو پلیٹیں ہاتھ میں پکڑے علینہ سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا جیسے نہ جانے کتنی پرانی دوستی ہو دونوں کی اس نے غصے میں کپ دوبارہ ٹیبل پر پٹخا تھا “ان کی ٹیبل کے پاس سے گزرتےتیمور نے مزے سے حیدر کو کھاتے دیکھ کر وہ روکا تھا ” ابے حیدر ..چل کھڑا ہو یہاں سے جب سے آیا ہے ..یہاں سے وہاں بس گھومے جا رہا ہے اور کھاۓ جا رہا ہے کوئی کام وام بھی کر لیا کر ..چل باہر جا ..اور دیکھ کر اگر کشمیری چاۓ بن گئی تھی ہے تو لے کر آ ..وہاں سب سے آگے کی جو دو ٹیبلز ہے ان پر دے دیو ..چل جا نا اب ..” تیمور کے کہنے پر وہ منہ بسورتا ہوا وہاں سے اٹھا تھا ریفریشمنٹ کے سارے سامان کی تیاری آرٹس کلاس میں کی جا رہی تھی آستین چڑھاتا وہ ہال سے باہر آیا تھا وہ دوسری طرف جانے ہی لگا تھا کے اس کی نظر اس کے سیدھے ہاتھ کی طرف سے آتی یشفہ پر پڑی تھی لمحے کو حیدر کے ابرو اٹھے تھے اس کے قدم وہیں پر تھم گئے تھے ..اس نے تنگ سے پاجامے پر چھوٹی سی گھٹنوں تک آتی گھیر دار گولڈن کلر کی فراک پہن رکھی تھی دوپٹہ مفلر کی طرح ہی گردن سے لپیٹا ہوا تھا پونی ٹیل کی بجاۓ اس کے گہرے کالے بال اسٹریپس میں کٹے کمر پر بکھرے ہوئے تھے آج تو اس نے شوز کی جگہ کم ہیل والی گولڈن کلر کی ہی سینڈل پہن رکھی تھی ..جس کی وجہ سے وہ دو تین دفعہ گرتے گرتے بچی تھی شوز میں تو وہ آرام سے جلدی جلدی چل لیتی تھی لیکن ہیل میں اسے آرام آرام سے چلنا پڑ رہا تھا اور اسی وجہ سے وہ خود کو بار بار کوس رہی تھی “اف یشفہ ..کیا ضرورت تھی ہیل پہننے کی ؟ اس سے اچھا تو میں شوز ہی پہن لیتی ..فضول کی مصیبت گلے پڑ گئی ..” بڑبڑاتے ہوئے اس کی نظر بھی سامنے کھڑے حیدر پر پڑی تھی جو پورا اس کی طرف متوجہ تھا یشفہ کے لب بھینچ گئے تھے “کول ڈاؤن یشفہ ..کول ڈاؤن ..” گہری سانس لے کر خود کو پر سکون کرتی وہ دوبارہ چلنے لگی ..”اف بد تمیز کہیں کا ..گھورے ہی جا رہا ہے ..جیسے کوئی عجوبہ ہوں میں ..” وہ دل ہی دل میں تلملا رہی تھی اس طرح کی ڈریسنگ اس نے پہلے بار کی تھی جبھی اتنا اکورڈ لگ رہا تھا چلتے ہوئے نہ جانے کیسے اس کا پیر رپٹا تھا وہ خود کو سمبھال نہیں پائی تھی منہ کے بل دھڑام سے نیچے گری حیدر نے حیرت سے اس کو دیکھا پھر بے حد مشکل سے اس نے اپنا قہقے کا گلہ گھونٹا تھا وہ قدم قدم چلتا اس کے پاس آیا ایک پیر زمین پر ٹیک کر دوسرا پیر کھڑا کئے وہ اس کے پاس نیچے بیٹھا “چہ ..چہ ..بلندی پر پہنچنے کی خواہش انسان کو ایسے ہی منہ کے بل گراتی ہے یشفہ ڈئیر ..” اس کے چہرے پر آۓ بالوں کواپنی انگلی سے پیچھے کرتے ہوئے حیدر نے اس کو دیکھتے ہوئے کہا جس کا چہرہ اہانت سے سرخ پڑنے لگا تھا اس نے غصے سے اس کا ہاتھ جھٹکا “تمہیں کہا کس نے تھا آج لڑکی بن کر آنے کو ؟” وہ استہزایا انداز میں کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا “تم تو جینز اور شوز میں ہی ٹھیک ہو …یہ لڑکیوں والے ڈریس.. ہیلز ..یہ سب سوٹ نہیں کرتا تم پر ..خیر چلو آجاؤ ..” حیدر نے کہتے ہوئے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا جیسے اسے سہارا دینا چاہتا ہو یشفہ نے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو نظر انداز کر دیا زمین پر ہاتھ رکھتی وہ خود اٹھنے لگی حیدر نے کندھے اچکا کر بڑھاۓ ہوئے ہاتھ کو اپنے بالوں میں پھیرا تھا یشفہ کو پتا تھا کے اگر وہ اس کا ہاتھ تھامنے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھاتی بھی تو اس نے ایسے ہی کرنا تھا کپڑے جھاڑتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی “مجھ پر کیا سوٹ کرتا ہے اور کیا نہیں ..یہ میں اچھی طرح سے جانتی ہوں ..تم اپنے کام سے کام رکھو تو بہتر ہو گا ..” اپنے ہاتھوں سے پر سے گرد ہٹاتے ہوئے اس نے گھور کر کہا ” وہ کیا ہے نہ یشفہ جی ..” انگوٹھے اور انگلی سے وہ کان کی لو مسلتا این اس کے سامنے آیا تھا ” اپنے کام سے کام ..اب میں رکھ نہیں سکتا ..کیوں کے تم میرے سارے کام خراب کر دیتی ہو ..اب مجھ سے کوئی بھی کام ٹھیک سے نہیں ہو پاتا ..اور تمہیں پتا ہے کیوں ؟….چلو چھوڑو ..پھر کبھی بتاؤں گا …” “اس فضول بکواس کا مقصد ؟؟” یشفہ نے چھبتے ہوئے انداز میں پوچھا “نہ تو یہ بکواس ہے اور نہ ہی یہ فضول ہے ..بس غور کرنے کی بات ہے ساری ” ” تمہیں پتا ہے تمہارا مسلئہ کیا ہے حیدر ؟” اس نے دونوں بازوں سینے پر باندھتے ہوئے کہا “جی جی بتاۓ ..کیا مسلئہ ہے میرے ساتھ ؟؟” حیدر نے اپنے دونوں ہاتھ پشت پر باندھتے سر کو تھوڑا سا اس کی طرف جھکایا تھا جیسے غور سے اس کی بات سننا چاہتا ہو ” یشفہ اس کو گھورتے ہوئے پیچھے ہوئی تھی ” تمہارا نہ یہاں کا حصّہ ..” اس نے انگلی سے اپنے سر پر دستک دی “خالی ہے پورا ..جبھی تمہیں کوئی بات سمجھ نہیں آتی انسانوں والی ..تمہیں پتا ہے کس چیز کی ضرورت ہے ؟ کسی پاگل خانے میں ایڈمٹ ہونے کی ..بہتر ہوگا وہاں چلے جاؤ تم .تاکے یہاں کے لوگوں کو سکون ملے ..” “ہمم ..تو تم کہنا چاہ رہی ہو کے ..یشفہ حمین ..حمزہ حیدر علی سے پریشان ہو گئی ؟” اس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا ” اگر بات کو اپنے مطلب کا رنگ چڑھا کر تمہیں خوشی ملتی ہے تو ..ہو جاؤ خوش ..” اس نے شانے اچکاۓ “ویسے میرے دوست کہتے ہیں کے تم مجھ سے بھی دو ہاتھ آگے ہو ..تو اس کا مطلب تو پھر یہ ہوا کے مجھ سےزیادہ ….تمہیں پاگل خانے جانے کی ضرورت ہے ..”حیدر کے شرارت سے کہنے پر وہ اس کھا جانے والی نظروں سے دیکھتی آگے بڑھی تھی ” ہنہ فضول انسان …” دو قدم ہی چلی تھی کے اس کی کلائی حیدر کے ہاتھ کی گرفت میں آئی تھی “میدان چھوڑ کر بھاگ جانے والے بزدل ہوتے ہیں ڈاکو رانی ..” یشفہ نے پلٹ کر ایک غصیلی نگاہ اس پر ڈالی “میرے پاس گن ہے حیدر ..” وہ چبا کر بولی اور حیدر فلک شگاف قہقه لگا کر ہنس پڑا اس نے نا گواری سے اس کو ہنستے ہوئے دیکھا ” اوہ واؤ ..تمہارے پاس گن ہے ..؟ لیکن مجھے کیوں بتا رہی ہو ؟” اس نے ہنسی ضبط کرتے ہوئےکہا “اس لئے کے ابھی تو چھ گولیاں اس گن میں ہی ہیں ..لیکن کسی بھی لمحے تمہارے اندر بھی ہو سکتی ہیں “یشفہ نے کہتے ہوئے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچنا چاہ تھا لیکن حیدر کی گرفت مظبوط تھی “اوہ ..میں تو ڈر گیا ..” وہ ہونٹوں کو گول کرتے ہوئے بولا ” “تمہیں ڈرنا بھی چاہیے ..اور ہاتھ چھوڑو میرا ..” “تمہیں پتا ہے میں کون ہوں یشفہ ؟ حیدر نے اس کی بات نظرانداز کرتے ہوئے کہا “ہاں پتا ہے مجھے ..تم ایک پاگل خانے سے بھاگے ہوئے شخص ہو ..” وہ غصّے سے بولی “یہ تو مجھے بھی نہیں پتا تھا ” ” کیا چاہتے کیا ہو تم آخر ؟ “اس نے چیخ کر کہا “”شش …آہستہ بولو ..اگر کسی نے تمہیں میرے ساتھ ایسے دیکھ لیا تو .تمہیں پتا ہے نہ پھر کیا کہانی بنے گی ؟” اس نے شرارت سے کہا “لگتا ہے کے گزرے ہوئے دن بھول گئے ہو تم “یشفہ نے چبا کر کہا “گزرے ہوئے دنوں کا ایک ایک لمحہ میرے ذہن پر نقش ہے اور تمہارا دیا ہوا ایک ایک نقصان مجھے یاد ہے ..جن کا بدلہ میں تم سے ایک ساتھ ہی لوں گا ..لیکن تمہارا دیا ہوا ایک نقصان اتنا بڑا ہے کے میں چاہ کر بھی اس کو بھول نہیں سکتا ..” وہ کھوۓ کھوۓ انداز میں بولا “تمہیں کبھی محبّت ہوئی ہے یشفہ ؟” “مجھے نہیں پتا یہ فضول چیز کیا ہوتی ہے “یشفہ نے کہتے ہوئے اس کے ہاتھ سے اپنی کلائی کھینچی تھی ” بلکل ..تھوڑی دیر پہلے تک مجھے بھی نہیں پتا تھا ..لیکن اب اچھے سے پتا چل گیا ہے ..” کہنا کیا چاہتے ہو ؟ ” ” مجھے محبّت ہو گئی ہے یشفہ ..” “اوہ ..تو تمہیں محبّت ہو گئی ہے حیدر ؟” اس نے ابرو اٹھا کر اس کو کہا “ہاں ..اور مجھے یہ بھی پتا چل گیا ہے کے وقت رکنا کسے کہتے ہیں ؟ ہوائیں کیسے چلتی ہیں ؟ سانس کیسے تھم جاتی ہے دھڑکنوں میں ایک دم ہی شور کیوں مچنے لگتا ہے ؟” یشفہ کو جھٹکا لگا “یا اللہ ابھی تک تو ٹھیک تھا یہ ..یہ اچانک کیا ہو گیا ..”اس نے آسمان کی طرف دیکھا اب ہلکا ہلکا اندھیرا پھیلنے لگا تھا مغرب کا بھی وقت ہونے لگا تھا وہ مشکوک اندز میں اس کو دیکھنے لگی پھر اس کے پاس آئی جو ابھی تک اس کے چہرے کو ہی دیکھ رہا تھا یشفہ نے زور سے اس کا گال تھپتھپایا “حیدر ..بھوت چڑھ گیا ہے تم پر ؟” وہ سرگوشی میں بولی وہ بے ساختہ ہنسا تھا “ہاں بھوت چڑھ گیا ہے میرے سر پر ….محبّت کا ” اس نے نچلا لب دانتوں تلے دبا کر کہا یشفہ کا منہ حیرت سے کھلا اس نے جلدی سے اپنے کھلے ہوئے بالوں کو گول مول کر کے جوڑا بنایا اور گردن میں لپٹے ہوئے دوپٹے کو نکال کر سر پر اوڑھا ” جلدی اندر چلو حیدر ..تم پر سایہ ہو گیا ہے ..ویسے ہی مغرب کا وقت ہو رہا ہے چلو جلدی ” حیدر ہنستا چلا گیا “تم ..تم بہت خوبصورت ہو یشفہ …” حیدر نے کھوۓ ہوئے انداز میں کہتے ہوئے ہولے سے اس کے گال کو چھوا تھا …یشفہ کو تو اس کو دیکھ کر خوف ہونے لگاپہلے تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی دوسرے ہی لمحے وہ تو اس کو چھوڑ چھاڑ فورآ اندر کی جانب بھاگی “ہئیے ہئیے ..تیز گام ..کہاں بھاگی جا رہی ہو ؟” وہ حارث سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی “اوے..وہ تمہارا ….تمہارا پاگل دوست …وہ سچ میں پاگل ہو گیا ہے ” وہ پھولی سانسوں ک درمیان بولی ” پاگل دوست ؟؟ اوہ اچھا ..حیدر کی بات کر رہی ہو ..لیکن وہ تو پہلے سے پاگل ہے ..” حارث نے آرام سے کہا ” ارے نہیں …اس پر.. اس پر بھوت چڑھ گیا ہے ..سایہ ہو گیا ہے اس پر ..وہ وہاں ہنسے جا رہا ہے ..اسے لے کر آؤ اندر ..” ” ارے وہ ایسے ہی ڈرامے کرتا ہے ” اس نے ہاتھ جھلایا ” “او ہو ..تم سمجھ نہیں رہے ..وہ مغرب کے وقت کھلے آسمان کے نیچے کھڑا تھا وہ بھی اتنا ڈھیر سارا پرفیوم لگا کر ..اور تمہیں نہیں پتا ..مغرب کے وقت جنّاتوں کا گزر ہوتا ہے ..مجھے لگتا ہے اس پر کسی جن نے قبضہ کر لیا ہے ..” “کیا واقعی میں ؟؟” حارث نے چونک کر کہا “ہاں ہاں …سچ میں ” وہ زور دے کر بولی “ہاہاہا…اف یشفہ …کیا تمھیں واقعی میں لگتا ہے اس پر کسی جن کا سایہ ہو سکتا ہے …؟ اس پر ؟ حیدر پر ؟ہاہا ..” یشفہ نے غصّے سے اس کو ہنستے ہوئے دیکھا “میں جھوٹ نہیں بول رہی ..اگر تمہیں یقین نہیں آتا تو جاؤ دیکھو اس کو جا کر ” وہ ناراضگی سے کہتی ہوئی اندر ہال میں چلی گئی ..حارث ہنستے ہوئے باہر آیا جہاں حیدر گراؤنڈ میں دونوں ہاتھ سینے پر باندھے کھڑا تھا حارث اس کے پاس چلا آیا “حیدر …وہ کہ رہی ہے کے تجھ پر سایہ ہو گیا ہے ؟” اس نے سنجیدگی سے پوچھا “حیدر نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھا کر اس کو دیکھا اور پھر آثبات میں ہلایا “ہاں ..مجھ پر سایہ ہو گیا ہے ….محبّت کا ..” اس نے مسکرا کر کہا “محبّت کا سایہ ؟؟ تجھے محبت ہو گئی ہے حیدر ؟؟” وہ حیرت سے بولا “ہاں حارث ..مجھے محبت ہو گئی ہے ..وقت رک گیا ہے ..میرا دل بدل گیا ہے .” وہ کہتے ہوئے اس کے گلے لگ گیا “یہ کیا بول رہا ہے پاگل ؟” اس نے حیرت سے کہا ” “مجھے پتا چل گیا ہے آج کے محبّت کسے کہتے ہیں ..””پاگل ..یہ کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے ؟” “نہ جانے میرے دل کو یہ کیا ہو گیا ..ابھی تو یہیں تھا ابھی کھو گیا ..” حیدر کو گنگناتے دیکھ حارث کو پکّا یقین ہو گیا تھا کے یشفہ ٹھیک کہ رہی تھی اس پر واقعی کسی جن کا قبضہ ہو گیا ہے ” حیدر ..منع کیا تھا نہ میں نے تجھے ..مت لگایا کر اتنا پرفیوم ..اور اوپر سے تو یہاں آ کر کھڑا ہو گیا وہ بھی اس وقت ..چل اندر چل ..جلدی ” حارث نے اس کا بازو پکڑا “ابے تو پوچھے گا نہیں کے کس سے ہوئی ہے مجھے محبت ؟” “پوچھوں گا سب پوچھوں گا ..ابھی اندر چل تو ..” حارث اسے زبردستی اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھا تھا .. محبّت تو بس لمحوں کا کام ہوتی ہے ..محبّت یہ نہیں دیکھتی کے وہ شخص آپ کو کیسا لگتا ہے ..اگر اس سے آپ کو شدید نفرت بھی ہو تو تب بھی آپ کو اپنے دل میں اس کو وہ مقام دینا ہی پڑتا ہے جو آپ نے آج تک کسی کو نہیں دیا ..محبّت تو دھیرے دھیرے اپنا اثر چھوڑتی ہے اور آخر میں بلکل ہی بے بس کر دیتی ہے… لڑکی نہیں ہے وہ جادو ہے اور کہا کیا جائے رات کومیرے خواب میں آۓ وہ زلفیں بکھراۓ آنکھ کھلی تو دل چاہا ..پر نیند مجھے آجاۓ بن دیکھے یہ حال ہوا ہے..دیکھوں تو کیا ہو جائے … احمد اور اشعر نے معنی خیزی سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا پھر ریاض کو جس نے ابھی ابھی یہ گانا لگایا تھا “ریاض بھائی ..خیریت ؟؟ ” “ہاں خیریت ہے ..کیوں کیا ہوا ؟” “خیریت ہے تو پھر یہ گانا ؟” اشعر کا مطلب وہ سمجھ گیا تھا “ابے یار اس حیدر نے اس پسیتو ..بادشاہ اور ہنی سنگھ کے گانے سنا سنا کر کان پکا دئے تھے ..اسی لئے یہ کم میوزک والا لگایا ہے ..” اس نے والیوم بڑھاتے ہوئے کہا ” لیکن مجھے تو کوئی اور ہی مامعلہ لگ رہا ہے کیوں احمد ؟ ” اشعر نے شرارتی انداز میں کہا “”ہاں بلکل …” اس نے بھی ہاں میں ہاں ملائی “یار ..اب پھر سے شعروع مت ہو جانا تم دونوں “اس نے منہ بنا کر کہا جتنا وہ اس موضوع سے بچنے کی کوشش کرتا یہ لوگ اتنا ہی اس کے پیچھے پڑتے تھے “ریاض ..تونے کب سے ایسے گانے سننے شروع کر دئے ؟” تیمور نے ان کے پاس چیئر پر بیٹھتے ہوئے کہا “حد ہو گئی ہے …ایک گانا کیا لگا دیا تم لوگ تو پیچھے ہی پڑ گئے ..” ریاض نے ناراضگی سے کہتے ہوئے پھر سے دیسپسیتو لگا دیا ” اس کو کیا ہوا ؟” تیمور نے حیرت سے اشعر اور احمد سے پوچھا جنہوں نے مسکراہٹ دباتے ہوئے لاعلمی سے شانے اچکا دئے ” تیمور کا فون بجنے لگا تھا اس نے جیب میں سے نکال کر سکرین کو دیکھا تھاجہاں “انوش کالنگ “کے الفاظ چمک رہے تھے وہ حیران ہوتے سائیڈ پر آیا تھا کیوں کے ایسا تو پہلی بار ہوا تھا جب انوشے نے اسے خود سے کال کی تھی “انوش ..ٹھیک ہو تم ؟ اور آئی کیوں نہیں تم آج ؟” اس نے کال یس کرتے ہی بغیر سلام دعا کے تشویش سے پوچھا ” ہاں .میں ٹھیک ہوں ..مجھے کچھ بات کرنی ہے تم سے ..میں یونی میں ہی ہوں ..لائبریری کے باہر ..وہاں آجاؤ جلدی ..” اس نے کہتے ہوئے فون بند کر دیا تھا تیمور الجھن میں پڑ گیا تھا… وہ سب حیرت سے اس پر جھکے کھڑے اس کو دیکھ رہے تھے جو کرسی کی پشت سے ٹیک لگاۓ دونوں ہاتھوں کا تکیہ بنا کر پیچھے کر کے ان پر اپنا سر رکھے بیٹھا مسکراۓ جا رہا تھا “”ابے اوے …پاگل ہو گیا ہے تو ؟؟” اشعر نے حیرت سے اس کو دیکھ کر کہا ” میں مست ہوا ..برباد ہوا . عشق کا کلمہ یاد ہوا ……”حیدر اس کو دیکھ کر گنگنایا تھا “اوے حارث ..کیا کھلا پلا دیا تونے اس کو ؟ .ابھی تک تو ٹھیک تھا یہ ..” احمد نے حیدر کی یہ حالت دیکھتے ہوئے حارث سے پوچھا جو میکرونی کھا رہا تھا ” ابے مجھے تو یہ خود ایسے ہی ملا تھا ..باہر کھڑا تھا کھلے آسمان کے نیچے.. میں اٹھا کر اندر لے آیا تب سے ایسا ہی ہے …” حارث نے شانے اچکا کر کہا اور پھر سے میکرونی کھانے لگا ” “ابے اوے …ہوش میں سالے ..یا لگاؤں میں تیرے دو تھپڑ …اور یہ ہنسے کیوں جا رہا ہے تو ؟؟.” ریاض نے اس کو گھور کر کہا ” “ہوئے بےچین پہلی بار ..ہم نے راز یہ جانا . محبّت میں کوئی عاشق کیوں بن جاتا ہے دیوانہ ..” وہ پھر سے گنگنایا ..” احمد نے پانی سے بھرا گلاس اس کے چہرے پر پھینکا ..وہ ہڑبڑا کا سیدھا ہوا ..” اب آیا تجھے ہوش ؟؟ اترا سر سے عشق کا بھوت ؟؟” ” ابے ..یہ کیا کیا احمد …” وہ اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے چیخا ..” “اب بتا ..کی بکواس کر رہ تھا ؟” “بکواس تھوڑی کر رہا تھا ..سچ کہ رہا تھا …عشق ہو گیا ہے تیرے بھائی کو …” وہ پھر سے مسکرانے لگا ” احمد ..کیا میں یہ حرکت کر لوں ؟؟” اشعر نے ہاتھ میں پانی سے بھرا جگ پکڑتے ہوئے اس سے پوچھا .” “اجازت ہے ..” احمد نے فری ہینڈ دے دیا تھا “اوے …ابےاشعر ..پاگل ہو گیا ہے تو ؟ مت کر یہ ..دیکھ میں کہ رہا ہوں پیچھے ہو جا ..اچھا نہیں ہو گا پھر …ابے اشعر …” اس سے پہلے کے وہ اس پر پانی پھینکتا ..وہ بوکھلاکرچیختے ہوئے وہاں سے بھاگا تھا_ “کیا ہوا انوش ؟ خیریت تم نے یہاں کیوں بلایا ؟” تیمور نے اس کے پاس آ کر کہا جو ریلنگ سے ٹیک لگاۓ دونوں ہاتھ سینے پر باندھے کھڑی تھی اس کو آتے دیکھ وہ سیدھی ہوئی تھی تیمور کو اس کی آنکھیں سرخ لگی جیسے وہ روتی رہی ہو “انوش ..ٹھیک ہو نہ تم؟ِ” تیمور نے تشویش سے پوچھا اس نے محض سر آثبات میں ہلایا “تم نے کہا تھا کے تمہیں مجھ سے محبّت ہے ..” “کہا تھا نہیں ..اب بھی کہتا ہوں .آئی رئیلی لو یو یار .” وہ کہتے ہوئے دو قدم اس کے پاس آیا تھا انوشے بھی دو قدم پیچھے ہوئی تھی تیمور نے شدّت سے اس کے گریز کو محسوس کیا تھا “اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو ..اپنے عمل کے تم خود ذمہ دار ہو میں نے تمہیں نہیں کہا تھا مجھ سے محبّت کرنے کے لئے ..اس میں میری کوئی غلطی نہیں ہے ..جو بھی کیا ہے تم نے اپنی مرضی سے کیا ہے ..” “انوش ..کیوں وضاحت کر رہی ہو ..صہیح سے بتاؤ مجھے کیا بات ہے ،” اس نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا .اسے گھبراہٹ ہونے لگی تھی جیسے کچھ غلط نہ ہو جائے “میری شادی ہے تین مہینے بعد..” اس نے لگی لپٹی لگے بغیر کہا تیمور کو اپنی سمتاعتوں پر یقین نہیں آیا تھا “کیا …کیا کہا تم نے ؟” میری شادی ہونے والی ہے تیمور ..بہتر ہو گا کے تم مجھ سے اب دور رہو ..میں نہیں چاہتی کے تمہاری وجہ سے میری آنے والی زندگی پر کوئی اثر پڑے ..” کتنی مشکل سے وہ یہ الفاظ ادا کر رہی تھی ..صرف وہی جانتی تھی “تم …مجھ سے جان چھڑانے کے لئے جھوٹ تو نہیں بول رہی ؟” تیمور کو لگ رہا تھا جیسے وہ مذاق کر رہی ہے ” کیا تمہیں لگ رہا ہے کے میں جھوٹ بول رہی ہوں ؟؟” انوشے کے سرخ پڑتے چہرے سے تیمور کو یہ یقین کرنا ہی پڑا تھا کے وہ سچ بول رہی ہے ” اگر بلفرض تم سچ بھی بول رہی ہو تو ..تم اپنے پیرنٹس کو منع کر دو اس رشتے کے لئے ..میں جلد ہی اپنی مما کو تمہارے گھر بھیج دوں گا ..” “تمہیں ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے …جہاں میری شادی ہو رہی ہے ..میری ..مرضی ..سے ہو رہی ہے ..” اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا “انوش ..میں نے تم سے کہا ہے نہ کے تمہاری شادی صرف اور صرف مجھ سے ہوگی ..اگر تم دلہن بنو گی تو صرف میری ..سنا تم نے صرف میری …” اس نے خود پر ضبط کرتے ہوئے انگلی سے اپنے سینے پر دستک دیتے ہوئے کہا “میں تمہاری جاگیر نہیں ہوں تیمور ولید ..” اس نے چبا کر کہا تیمور نے جھٹکے سےاس کا ہاتھ پکڑ کر ریلنگ سے لگاتے ہوئے اس کے دائیں بائیں ہاتھ جماۓ تھے ” تم …محبّت ہو میری انوشے …اور اپنی محبّت اتنی آسانی سے میں کسے کے نام نہیں کر سکتا ..” اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا “تمہاری محبّت کی میری نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے ..” “انوش مجھے غصہ مت دلاؤ تم ..اگر تم ابھی بھی صرف مذاق کر رہی ہو تو .پلیز ختم کرو اسے ..مجھے بلکل بھی نہیں پسند ..” وہ ناگواری سے بولا “تم ہو کون ..جو میں تم سے مذاق کروں ؟ اور پلیز ..دور رہ کر بات کرو ..” انوشے کا اشارہ اس کے ہاتھوں کی طرف تھا جو اس نے ابھی بھی اس کے دائیں بائیں جما رکھے تھے ” میں کون ہو تمہارا ؟ِ یہ تم اچھی طرح سے جانتی ہو ..اگر تم جان کر بھی انجان بننا چاہتی ہو تو ..میں بتا دوں تمہیں کے …میں عاشق ہوں تمہارا ..اور ہونے والا شوہر بھی ..” اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس نے کہا “میرے ہونے والے شوہر کا نام ارسلان ہے تیمور نہیں ..” انوشے نے بھی اسی کے انداز میں کہا ” اگر ایک دفع بھی اور تم نے اس کا نام لیا نہ انوش .خدا کی قسم .. ..زندہ زمین میں گاڑ دوں گا میں اسے ..” تیمور کے جبڑے بھینچ گئے تھے انو شے کو خوف ہونے لگا تھا اس کے انداز سے چہرہ بھی ضبط کے مارے لال ہونے لگا تھا “جو سچ ہے وہ میں نے تمہیں بتا دیا ..بہتر ہو گا کے تم بھی اس حقیقت کو قبول کر لو ..”انوشے نے کہتے ہوئے اس کا ہاتھ ہٹایا تھا “کب ہے تمہاری شادی ؟” تیمور کے اس سوال پر اسے حیرت ہوئی تھی اس نے چونک کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا تھا جس کر تاثرات میں کوئی فرق نہیں آیا تھا ” تین مہینے بعد …ہمم …نکاح پر نکاح جائز نہیں ہوتا نہ انوش؟ ..تو پھر میں ابھی اس وقت تم سے نکاح کر لیتا ہوں …پھر تمہاری تین مہینے بعد والی شادی بھی کینسل ہو جاۓ گی ..اور تم بھی ہمیشہ کے لئے میری ہو جاؤ گی ” انوشے نے لب بھینچ لئے تھے …”ایک بار کہ دیا نہ میں نے کے نہیں ہے مجھے تم سے محبّت …سمجھ نہیں آتی تمہیں ؟؟” “میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہو ..تب مانو گا میں …” “مسلئہ کیا ہے تمہارے ساتھ ؟کیوں تم مجھے سکون سے سانس نہیں لینے دیتے ؟؟ جب ایک دفعہ کہ دیا ہے تم سے کے میں نہیں شادی کرنا چاہتی تم سے ..تو کیوں پیچھے پڑے ہو میرے ؟ “وہ رو پڑی تھی “میں نے بہت …بہت مشکل سے خود کو تم سے دور رکھا ہے تیمور …ہاتھ جوڑتی ہوں میں تمہارے سامنے ..خدا کے …خدا کے لئے میری زندگی سےدور چلے جاؤ ..اور امتحان مت لو میرا ..ایک مان کی …محبّت کی ..امید کی زنجیر میں بندھی ہوں میں ..جسے چاہ کر بھی نہیں توڑ سکتی ..مجھے وعدہ پورا کرنا ہے اپنے مرحوم بابا کا ..انہوں نے ..زبان دی تھی اپنی بہن کو ..کے میری شادی ..ان کے بیٹے سے ہو گی ..بچپن میں ہی ..میری منگنی ہو گئی تھی ..اور اب ..شادی بھی ہونے والی ہے ..اسی لئے …چلے جاؤ تیمور پلیز …چلے جاؤ ” انوشے نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے ہوئے تھے آنسوؤں سے اس کا چہرہ بھیگ چکا تھا اور تیمور کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا “جسے وہ صرف اپنی ملکیت سمجھتا آیا تھا وہ تو نہ جانے کب سے کسی اور کی امانت تھی یہی بات تیمور کو سوئی کی طرح چھبے جا رہی تھی ” ..آسان نہیں ہو گا میرے لئےبھی ..لیکن میں ..میں بھول جاؤں گی تمہیں …تم بھی کوشش کرنا ..اتنا مشکل نہیں ہے یہ ..میں ..دعا کرونگی کے ..تمہیں جلد ہی کسی اور سے محبّت ہو جائے ..اور میری محبّت تمہارے دل سے نکل جائے …خدا حافظ تیمور …” انوشے نے بھیگی آنکھوں سے آخری دفعہ اس کے چہرے کو دیکھا تھا جو اس کے دل میں بس چکا تھا ..جس سے پتا نہیں اسے کب محبّت ہو گئی تھی ..تیمور کی شدّتوں نے کب اسے اپنا بنا لیا اسے خبر نہ ہو سکی تھی اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھڑایا تھا اور آخری دفعہ اس کی ساکت خالی خالی سی آنکھوں میں دیکھا ..”آئیم سوری تیمور ….” یہ آخری بات تھی جو اس نے کہی .کہ کر وہ رکی نہیں تھی وہاں سے نکلتی چلی گئی تھی تیمور نے کرب سے اپنی آنکھیں بند کر لی تھی انوشے نے اسے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تھاکے کہیں اس کا دل پھر سے اس کے ساتھ دغا نہ کر جائے تیمور کا دل خون کے آنسوں رو رہا تھا اس کے پاس اتنا اختیار بھی نہیں تھا کے وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر جانے سے روک لیتا …ہمیشہ کے لیے اسے اپنے دل میں چھپا لیتا ..اسے لگ رہا تھا کے وہ بے جان سا وہاں کھڑا ہے ..اس کا دل ..اس کی جان اس کے پاس نہیں تھی ..ایک آنسو اس کی آنکھ میں سے نکل کر اس کے گریبان میں جزب ہو گیا تھا ” تیمور …!!” احمد کی آواز پر اس نے مڑ کر اسے دیکھا تھا اور کچھ بھی کہے بغیر وہ اس کے سینے سے جا لگا تھا وہ خود کو رونے سے روک نہیں پا رہا تھا “حوصلہ کر یار …ایسے ہمّت تھوڑی ہارتے ہیں …” احمد اسےخود میں بھینچے ہوئے تھا “وہ کیوں نہی سمجھتی احمد ؟ زندگی ہے وہ میری ..نہیں رہ سکتا میں اس کے بغیر…” وہ اس کے کندھے پر سر رکھے ..بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا…. ” احمد ..میں اشعر کے ساتھ جا رہا ہوں زرنور کو تو لے آنا ..” حارث نے احمد کے پاس آ کر کہا تھا جو زین کے ساتھ کھڑا تھا “اور مناہل ؟” “لائبہ لے آۓ گی اسے ..ٹھیک ہے پھر ہم دونوں نکلتے ہیں ..” “چل ٹھیک ہے ..میں آدھے گھنٹے تک آؤں گا ” “اوۓ حارث ..جلدی کر یار ” اشعر کے بلانے پر وہ چلا گیا تھا ” اوکے زین ..اب میں بھی چلتا ہوں ..سچ میں یار آج بے حد مزہ آیا ہر چیز اپنی جگہ پرفیکٹ تھی کسی چیز کی کمی نہیں تھی .اللہ تجھے ایسی بہت سی کامیابیآں عطا فرماۓ ..ا” “بس بس زیادہ فارمل ہونے کی ضرورت نہیں ہے ..” زین کہتے ہوئے اس کے گلے لگا تھا “اور ہاں ..اب انتظار مت کروا اسے ..رنگ دے دے اسے مجھے پتا ہے انکار نہیں کرے گی وہ ..” “دیکھوں گا ..” ” ابھی بھی دیکھوں گا ؟ رک جا بیجھتا ہوں ابھی اس کو تیرے پاس ..” احمد اسکو دھمکاتے ہوئے بولا “”اچھا میرے بھائی اچھا ..میں خود چلا جاتا ہوں اس کے پاس ..یہ لے میں جا رہا ہوں بس خوش ؟” زین کہتے ہوئے وہاں سے ہٹا تھا احمد بھی مسکراتے ہوئے پارکنگ میں آ گیا تھا جہاں ریاض حیدر مناہل اور لائبہ پہلے سے ہی موجود تھے زرنور کو دیکھ کر اس کے ابرو تن گئے تھے جو ان لوگوں سے قدرے فاصلے پر راحیل کے ساتھ کھڑی کوئی بات کر رہی تھی احمد کے قدم ان کی جانب ہی بڑھے تھے ” “چلیں نور ..دیر ہو رہی ہے ” اس نے زرنور کے گرد اپنے بازو پھیلا کر اپنے حصار میں لیتے ہوئے کہا ” “اوه ..ارمان خانزادہ ..کیسے ہیں آپ ؟” راحیل نے مسکراتے ہوئےہاتھ بڑھایا ” ارمان احمد خانزادہ ” اس نے سرد لہجے میں تصیح کرتے ہوئے ہاتھ بڑھادیا تھا لیکن مسکرانے کی ضرورت نہیں محسوس کی ” “ایکسکیوز می ..راحیل ..پھر ملاقات ہو گی ..” زرنور نے ہی جلدی سے کہا “اوکے زرنور ..گڈ باۓ ..” “یہ کیا حرکت تھی احمد ؟ میں بات کر رہی تھی اس سے ” راحیل کے جانے کے بعد اس نے ناراضگی سے احمد کو کہا ” جو بھی بات کرنی ہے مجھ سے کیا کرو..” “کیا ہو گیا ہے احمد ..کلاس فیلو ہے وہ میرا ..”اس نے منہ پھلا کر کہا اور اسکا ہاتھ بھی ہٹا دیا “اور میں شوہر ہوں تمہارا ۔۔میرے علاوہ کسی اور سے بات کرو گی تو اچھا نہیں لگے گا مجھے ..” احمد نے بھی اسی کے انداز میں کہا “ریاض ..چابی دے بائیک کی ۔۔.” “ہم کار میں نہیں جانے والے تھے ؟زرنور نے اسے ریاض کی بائیک کے پاس کھڑے ہوتے دیکھ کہا ” نہیں ..آج ہم بائیک پر جائیں گے ..” چابی کینچ کرتے ہوئے اس نے ہم پر زور دیتے ہوئے کہا “”اہم اہم ..” حیدر اور ریاض نے شرارت سے گلے کھنکھارے تھے” اوہ ہیلو ..میں کوئی نہیں جا رہی بائیک پر ..” اس نے بدک کر کہا ” “آج تو اسی پر جاؤ گی تم …اور تمہیں تو شوق بھی بہت ہے ہیوی بائیک چلانے کا ..” “ہاں تو چلانے کا ہے ..بیٹھنے کا نہیں ہے ..میں ..میں نہیں جاؤں گی اس پر ..” “چلانا بھی سکھا دوں گا میں ..تم بیٹھو تو سہی …ہ” احمد نے کہتے ہوئے اپنی گردن میں لپٹی اجرک شال نکال کر حیدر کو پکڑائی تھی “ارے میرے کپڑے تو دیکھو ..میں کیسے بیٹھوں گی ؟ زرنور نے بوکھلا کر کہا “ہاں تو ہم ہیں نہ مدد کرنے کے لئے ..” مناہل اور لائبہ جلدی سے بولی اور پھر اس کے چیخنے کی پرواہ کئے بغیر زبردستی اس کو بائیک پر بٹھایا تھا “اللہ اللہ ..میں مر جاؤں گی احمد …مت کرو پلیز ..” احمد کو بائیک سٹارٹ کرتے دیکھ اس نے رو دینے والے انداز میں کہا ” مجھے پکڑ لو نور ..گر جاؤ گی ورنہ ..” احمد نے اس کے ڈر کو خاطر میں لاۓ بغیر کہا ریاض اور حیدر محفوظ ہوتے ہوئے اس کی ویڈیو بنا رہے تھے “اور جیسے ہی احمد نے بائیک آگے بڑھائی زرنور کی زور دار چیخ نکلی تھی اس نے مظبوطی سے احمد کو پکڑ لیا تھا “”تم گرا دو گے مجھے احمد ..روکو بائیک ..” اس نے زور سے کہا تھا ” اگر تم نے چیخنا بند نہ کیا تو .میں واقعی میں گرا دوں گا تمہیں ..” “میں دیکھ لوں گی تمہیں اچھی طرح سے ..” وہ دانت کچکچاتے ہوئے بولی۔ “آرام سے مناہل آرام سے ..پتھر ہے آگے ..سائیڈ پر سے آؤ ..” لائبہ نے اس کا بازو پکڑ کر دوسری سائیڈ پر رخ کیا “افوہ لائبہ ..آخر تم لے جا کہاں رہی ہو مجھے ایسے ؟” مناہل نے جھنجھلا کر کہا کیوں کے لائبہ نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی اسی لئے اس کو سہارا دے کر چل رہی تھی “بس تھوڑا سا صبر کرو ..ابھی پتا چل جاۓ گا ..” “دیکھو اگر یہ کوئی شرارت ہے نہ تم لوگوں کی تو اچھا نہیں ہو گا پھر ” “ویل ..ہے تو شرارت ہی ..لیکن تمہیں پسند بھی بہت آۓ گی ..” لائبہ نے معنی خیزی سے کہا “مناہل یہاں سے ذرا پیر اوپر اٹھاؤ ..” “کیوں ؟ پتھر ہے کیا ؟” مناہل نے پوچھا ” نہیں پتھر نہیں ہے لیکن تم اٹھاؤ پیر ..” لائبہ کے کہنے پر اس نے ویسے ہی کیا ” ٹھیک ہے اب میں تمہاری پٹی ہٹا رہی ہوں ” اس نے کہتے ہوئے پیچھے جا کر مناہل کی پٹی کھول دی تھی اس نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولی سمندر کی لہریں ساحل پر اپنا سر پٹخ رہی تھی جنوری کی راتیں تو ویسے بھی گہری سیاہ اور صرف ہوتی ہیں ابھی بھی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھی اس نے اپنے دائیں بائیں دیکھا سمندر کی ٹھنڈی گیلی ریت پر جلتے ہوئے دیوں کا دل کا بڑا سا شیپ بنایا گیا تھا جس کے اندر گلاب کی پتیاں بچھی ہوئی تھی جن پر وہ دونوں کھڑے تھے “حارث …!!” اس نے حیرت سے اپنے سامنے کھڑے حارث کا نام لیا جو اس کے قریب آ کھڑا ہوا تھا “ہیپی برتھ ڈے مناہل ..” “تم ..تمہیں یاد تھا حارث ؟” “تمہیں کیا لگا تھا کے میں بھول جاؤں گا ؟ کیا ان گزرے ہوئے بیس سالوں میں کبھی ایسا ہوا ہے جو میں تمہاری برتھ ڈے بھول جاؤں ؟ وہ گولڈن ریپر والا گفٹ ..کسی عائشہ کے لیے نہیں ..تمہارے ہی لئے لیا تھا میں ..لیکن وہ وہیں پر رکھا ہے تم گھر جا کر لے لینا ..کیوں کے ابھی تمہیں تمہیں دینے کے لئے میرے پاس اس سے بھی زیادہ اسپیشل گفٹ ہے “حارث نے کہتے ہوئے اپنے جیب میں سے کالے رنگ کا مخملی کیس نکال کر اس میں سے ڈائمنڈ اور سرخ یاقوت کی بنی انگوٹھی نکالی مناہل پلکیں جھپکے بغیر اس کو دیکھ رہی تھی “تھوڑا سا فلمی ہے ..لیکن تمہیں پسند ہی اس طرح کی چیزیں ہیں تو ایسے ہی سہی ..” وہ کندھے اچکا تے ہوئے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا “اپنی پوری زندگی میں ‘میں نے صرف ایک لڑکی کو سوچا ہے ..صرف اسی سے محبّت کی ہے صرف اسے ہی چاہا ہے اور وہ صرف تم ہو مناہل .صرف تم ..میں نے اپنا دل اپنی جان تمہارے نام کر دیا ہے ..کیا تم اپنی زندگی میرے نام کر سکتی ہو ؟ ..مجھے تمہارا جواب پتا ہے لیکن میں پھر بھی تمہارے منہ سے سننا چاہتا ہوں .کرو گی تم مجھ سے شادی ؟ وہ اپنی آنکھوں میں شوق کا ایک جہاں آباد کئیے منتظر تھاچند لمحے تو وہ ساکن کھڑی رہی اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کے جو وہ دیکھ رہی ہے وہ کوئی خواب نہیں حقیقت ہے .. مناہل ایک دم ہی اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی اس کے ہونٹوں پر بھیگی مسکراہٹ تھی پورا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا “ہاں ..میں کروں گی تم سے شادی حارث ..ضرور کروں گی “وہ روتے ہوئے اس کے گلے لگی تھی “حارث اپنی آنکھیں بند کر کئیے مسکرا دیا تھا بلآخر اس کا مقصد آج پورا ہو گیا تھا “مناہل ..انگوٹھی تو پہنانے دو ..” اسکے شرارت سے کہنے پر وہ آنسو صاف کرتی الگ ہوئی تھی اور اپنا مخروتی ہاتھ اس کے سامنے کر دیا تھا جسے تھام کر حارث نے اپنے نام کی انگوٹھی اس کی انگلی میں سجا دی تھی “ہو گیا تمہارا خواب پورا ، اب خوش ؟” حارث نے دلچسپی سے اس کے چہرے پر بکھرے رنگوں کو دیکھ کر کہا “ہاں میں خوش ہوں ..بہت خوش ..آئی رئیلی رئیلی ..لو یو .حارث ” “لؤ یو ٹو میری جان ” اسنے محبت سے مناہل کا ہاتھ چوما “ “احمد …” زرنور نے اسے اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا جو موبائل پر جھکا ہوا تھا “ہوں ..!!” اس نے بس اتنا ہی کہا ..سارے راستے زرنور اس سے لڑتے ہوئے آئی تھی ابھی بھی وہ دونوں کار سے ٹیک لگا کر کھڑے تھے “احمد ….” اس نے پھر سے کہا ” بولو یار ..سن رہا ہوں میں ” اس نے جھکے سر کے ساتھ ہی جواب دیا “اف ..جب تم میرے ساتھ ہوا کرو نہ تو اس کو جیب میں ہی رکھا کرو اپنی ..” زرنور نے ناراضگی سے کہتے ہوئے اس کے ہاتھ سے فون جھپٹ لیا اور آف کر کے اپنے کلچ میں ڈال لیا ” جو آپ کا حکم ..زوجہ محترمہ ..فرمائیں کیا کہنا ہے ؟” احمد نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھتے ہوئے اسکی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا “تم نے تو پرپوز نہیں کیا مجھے ایسے ..” زرنور کا اشارہ مناہل اور حارث کی طرف تھا احمد نے پہلے ان دونوں کو دیکھا اور پھر زرنور کو “پرپوز تو شادی کے لئے کیا جاتا ہے ..اور تمہاری شادی ہو نہیں گئی ؟” “میری شادی ارمان سے ہوئی ہے مجھے …احمد سے نکاح کرنا ہے ..کرو گے تم مجھ سے شادی ؟” زرنور نے نچلا لب دانتوں تلے دبا کر مسکراہٹ روکتے ہوئے کہا احمد اپنی پیشانی مسلتے ہوئے ہنس دیا “اگر میں انکار کر دوں تو ؟؟” اس نے معنی خیزی سے کہا “کر کے دکھاؤ تم انکار .گولیوں سے اڑا دوں گی ..” اس نے دھمکاتے ہوئے کہا ” ویٹ ویٹ ..کروں گا ..کروں گا میں تم سے شادی ..بس گولی مت چلانا ..”اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا پھر دونوں ہی ہنس پڑے تھے۔ “اشعر تم نے منگنی کیوں کی تھی مجھ سے ؟”لائبہ نے ہوا سے اڑتے ہوئے بالوں کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے پوچھا اشعر پہلے تو اس کی بات پر چونکا “کیوں کے دماغ خراب ہو گیا تھا میرا ..بھوت سوار ہو گیا تھا میرے سر پر کسی چڑیل سے شادی کرنے کا اسی لئے تم سے منگنی کی …”اشعر کے اتنے سکون سے کہنے پر اس کا منہ حیرت سے کھلا “جھوٹ بول رہے ہو نہ ؟” اس نے مشکوک انداز میں کہا “نہیں میں سچ کہ رہا ہوں ..تمہارے چہرے میں مجھے ایک چڑیل کی شکل نظر آتی تھی جبھی تو تمہیں پرپوز کیا تھا اشعر نے کہتے ہوئے لائبہ کا چہرہ دیکھا پھر قہقه لگا کر ہنس پڑا ” اف لائبہ ….محبت کرتا ہوں تم سے جبھی تو شادی کرنا چاہتا تھا ..لیکن تمہارے ابا جان ..”اس نے بات ادھوری چھوڑ کر سر جھٹکا “بابا کو ..میں نے ہی منع کیا تھا اشعر ..کیوں کے میں اتنی جلدی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی “اس نے نظریں جھکا کر کہا “جانتا ہوں میں ..” اشعر کے کہنے پر لائبہ نے چونک کر اس کو دیکھا “تم …پھر بھی ناراض نہیں ہو مجھ سے ؟” ” نہیں ..کیوں کے محبت میں زبردستی نہیں کی جاتی اگر انکار سسر یا ساس صاحبہ کی طرف سے ہوتا تو تب بات اور تھی ” “اگر میں ہاں کہ دوں تو ،،،،؟” اس دفعہ اشعر نے اس کی کاجل سے لبریز آنکھوں میں دیکھا “تو مجھے لگے گا کے تم مذاق کر رہی ہو .لیکن .اگر سچ کہ رہی ہو تو ..کل ہی برات لے آؤں گا پھر ” ” تیاری شروع کردو برات لانے کی اشعر ..دلہن مان گئی ہے تمہاری …” لائبہ اس کے تاثر ات دیکھ رہی تھی وہ پورا اس کی جانب گھوم گیا تھا “مزاق مت کرو لائبہ ..دھڑکن رک جائے گی میری ” وہ ہنس دی “مذاق نہیں کر رہی میں ..میں سچ کہ رہی ہوں ..شادی کے لئے تیار ہوں میں ..لیکن صرف اس شرط پر کے تم مجھے سکون سے پڑھنے دو گے “اوہ ..تھینک یو سو مچ لائبہ …مجھے تمہاری ساری شرطیں منظور ہیں ..تم نہیں جانتی کے تم نے مجھے کتنی بڑی خوشی دی ہے “اس نے فر ط جذبات سے کہا لائبہ نے مسرور ہوتے ہر اس کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے اپنی آنکھیں موند لی تھی اشعر نے بھی اسے اپنر حصار میں لے لیا تھا۔ ” میری بات مان ..یہ زمانہ دیوداس بننے کا نہیں ہے ..اگر شادی کرنی ہے تو لڑکی کے باپ کے پاس جا اور سینہ ٹھوک کر بول کے ..مجھے تمہاری لڑکی پسند ہے اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دو ..اگر ابّا نہ مانے تو ..بھگا کر لے آ لڑکی کو ..شادی ہم کروا دیں گے جب غصّہ ٹھنڈا ہو جاۓ ابّا کا ..تو جا کر معافی مانگ لینا… بس اتنی سی بات ہے “حیدر نے کہتے ہوئے ہاتھ جھلایا ” ابے حیدر کے بچے ..سارا مسلئہ ہی تو ابّا کا ہے ..” “ہاں بھائی وہ ہی تو کہ رہا ہوں میں ..تو ابّا کی فکر مت کر …ان کو ہم سمبھال لیں گے “ابے ڈھکن ..کیسے سمبھالے گا ابّا کو ؟؟ نہیں ہیں ابّا …اللہ کو پیارے ہو گئے …” تیمور نے دانت پیستے ہوئے کہا جہاں حیدر کھسیاہٹ کا شکار ہوا وہیں ریاض قہقه لگا کر ہنسا “ابے تو پھر اب کیا مسلئہ ہے ..؟ ابّا نہیں ہے تو اچھی بات ہے ..زیادہ محنت نہیں کرنا پڑیگی ..امّاں آسانی سے مان جاۓ گی ..” حیدر نے پھر سے نارمل ہوتے ہوئےکہا “امّآں بھی نہیں ہے ..” تیمور نے منہ لٹکا کر کہا ” “ابے یار ..نہ اماں ہے.. نہ ابّا ہے ..تو کیا جناتوں کے ساتھ رہتی ہے وہ ؟؟” حیدر نے گھور کر کہا “نانی کے ساتھ رہتی ہے ..لیکن پھوپھو اور ان کے بیٹے نے یہاں کام خراب کیا ہوا ہے ” ” ابے تو یہ کون سا کوئی بڑا مسلئہ ہے ؟..بیٹے کو اٹھا لیتے ہیں ..دو چار گھنٹے میں اس کا دماغ ٹھیک کر دیں گے ..پھوپھو کا خود ہی سیٹ ہو جاۓ گا ..اور خود ہی پیچھے بھی ہٹ جائیں گے وہ لوگ ..پھر چشمش تیری ..”ریاض نے آرام سے سارا منصوبہ ترتیب دیا “اتنا آسان نہیں جتنا تم لوگ سمجھ رہے ہو …” “اتنا مشکل بھی نہیں ہے .چاند پر تھوڑی چلی گئی ہے وہ جو تجھے مل نہیں سکتی ..تو ٹینشن مت لے ہو جاۓ گی تیری شادی ..” ریاض نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کو تسلی دی تھی “سچ کہ رہے ہو ؟؟” “ہاں یار بلکل سچ کہ رہے ہیں ..اگر دوست ہی دوست کے کام نہ آۓ تو کیا فائدہ ایسی دوستی کا ؟” ” حیدر ..ریاض ..سچ میں اگر تم دونوں نہ ہوتے تو ..کسی فوٹ پارتھ پر بیٹھا رو رہا ہوتا میں ..” تیمور نے خوشی سے کہتے ہوئے ان کو گلے لگایا ..” حارث اور مناہل کو دیکھ کر حیدر کے دل نے شدت سے دعا کی تھی کے کاش ..یشفہ بھی اس کے ساتھ ہوتی تیمور کی شادی کروانے کے بعد اس کا ارادہ اپنی سیٹنگ کرنے کا بھی تھا وہ مسکراتے ہوئے تیمور سے الگ ہوا ” چل موٹے ..نکال اپنا “اوپو ” کا فون .. ” ” پہلے کام تو پورا کر پھر تجھے ڈبہ پیک لے کر دوں گا ..” تیمور نے یقین دلاتے ہوئے کہا “ابے ڈھکن ..جب تو میں ایک نہیں دس فون لوں گا تجھ سے ابھی تو .تو اپنا فون نکال .مجھے سیلفی لینی ہے ..میں اپنے آئی فون سے لے لیتا ..لیکن تجھے تو پتا ہے کے وہ اس ڈاکو رانی نے توڑ دیا ہے ” حیدر کے معصومیت سے کہنے پر تیمور نے اس کو اپنا فون دے دیا تھا “کیا خیال ہے ..ان چڑیا اور کبوتروں کو بھی بلا لیں ؟؟” ریاض نے ان لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ” رہنے دے ان کو …ان لوگوں نے ہم کو بلایا .جو ہم ان کو بلائیں ..”حیدر نے فرنٹ کیمرہ آن کرتے ہوئے کہا “اوے تیمور ..مسلئہ حل ہو گیا ہے نہ اب تیرا ..ٹھیک کر اپنا منہ ..لگ رہا ہے کے کسی نے دو تھپڑ مار کر کھڑا کیا ہے ” ” اچھا ایک منٹ رک ..” تیمور نے جلدی سے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ رگڑا تھا ” اچھا بیٹا ..ہمارے بغیر سیلفی …” وہ لوگ سمندر کی طرف رخ کئے کھڑے تھے اسی لئے ان کو پتا نہیں چلا کے کب حارث نے آکر ریاض اور تیمور کی گردن میں ہاتھ ڈالا ” ہاں تو اب تم لوگ گھر بار والے بننے جا رہے ہو ..دوست کہاں سے یاد آئیں گے تم کو ” حیدر کے منہ بسور کر کہنے پر وہ ہنس پڑا “ڈرامے باز …مجھے دے فون ..میں لیتا ہوں سیلفی …” “پہلے ایک سیلفی میں ہم تینوں کی لوں گا ..کیوں کے اس کا اسٹیٹس مجھے ڈالنا ہے ” تین کنوارے ..” “ارے بھئی ..میں بھی تو ابھی کنوارہ ہی ہوں ..مجھے بھی شامل کرو اس سیلفی میں ” حارث کے کہنے پر اس نے ہنستے ہوئے ایک پکچر کلک کی تھی “آجاؤ بھائی لوگ ..یہاں سیلفی سین آن ہو چکا ہے …” حارث نے پیچھے مڑ کر احمد اور اشعر کو بھی بلایا تھا “”اشعر کو نہیں لوں گا میں اپنی سیلفی میں ..” حیدر نے اس کو آتے دیکھ کہا ” کیوں بے ..میری کون سی دشمنی ہے تیرے ساتھ ؟؟” اشعر نے حیرت سے کہا ” “ابے تو بہت موٹا ہے ..پوری سکرین پر تو آجاتا ہے ..ہمیں جگہ نہیں ملتی پھر ..” “میں موٹا ہوں ؟؟؟” اس نے اپنی ابرو اٹھا کر کہا ” رک ابھی تجھے بتاتا ہوں …” اشعر کے کہتے ہوۓ اس کو مارنے کو لپکا تھا ب”بچاؤ ..بچاؤ …موٹا میرے پیچھے لگ گیا …” حیدر اس سے پہلے ہی وہاں سے چیخ کر کہتے ہنستےہوئے بھاگا تھا ..وہ سب کھلکھلا کر ہنس پڑے تھے ..آسمان پر چمکتے چاند نے بھیاللہ سے ان کی دوستی ہمیشہ سلامت رکھنے کی دعا کی تھی …..