زمر : تمہیں مجھ سے نفرت نہیں ہوتی؟ فارس : مجھے آپ سے نفرت کیوں ہو گی؟ زمر : میں نے چار سال پہلے تمہیں قید میں ڈالا تھا۔ فارس : آپ نے سات سال پہلے مجھے قید میں ڈالا تھا۔
فارس چند لمحے اسے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا۔ پھر چہرہ جھکاۓ اپنا ہاتھ ہٹا کر دیکھا، ہتھیلی کے کٹ سے بہتا خون رک چکا تھا۔ اسی طرح اس نے زمر کا ہاتھ اوپر کیا اور لبوں سے لگایا۔ آنکھیں بند کیے چند لمحے، چند سانسیں۔ پھر چھوڑ دیا اور دو قدم پیچھے ہٹا۔ اپنا خیال رکھا کریں۔
“میں خوش ہوں،فارس!” “میں بھی خوش ہوں۔” “تم کیوں خوش ہو؟” “کیونکہ میرے آفس میں دو بہت خوبصورت لڑکیاں کام کرتی ہیں اور۔۔۔” “فارس غازی!”
“فارس تم مجھے اصل والی محبّت کرتے ہو نا؟” “نہیں چائنہ والی۔”
ہزبینڈ ڈیریست۔۔۔یونیورسٹی کلاسز میں ہر وقت مجھے دیکھنے اور میری محبّت میں گرفتار ہونے کے بجاۓ تھوڑا بہت پڑھ لیا ہوتا تو آج یہ قانون یاد ہوتا۔۔۔۔چچ چچ۔
میں آپ سے نفرت نہیں کرتا، اور محبت کرنا چھوڑ نہیں سکتا۔
میں آپ سے محبت کرتا ہوں لیکن آپ کو پسند نہیں کرتا۔
کیا میں آپ کو “تم” کہہ کر بلا سکتا ہوں؟ “ہرگز نہیں” وہ ہلکا سا مسکرا کر اس کی طرف جھکا۔۔۔ ٹھیک ہے جیسے “تم” چاہو
فارس : محترمہ! آج رات ڈنر پہ چلیں گی میرے ساتھ؟ زمر : آپ کون؟ فارس : آپ کا نکما بےروزگار دو لوگوں کا قاتل جیل پلٹ شوہر جس نے آپ کی دولت کے لیے آپ سے شادی کی تھی۔ آٹھ بجے بکنگ کروا دوں؟ زمر : بل کون دے گا؟ فارس : ظاہر ہے آپ۔۔۔ میں تو كماتا ہی نہیں ہوں۔ زمر : کروا دو۔۔۔ہونہہ!
تم ہمیشہ میرے سامنے محتلف روپ میں آتے ہو۔ پہلے میرے رشتے دار تھے۔ پھر اسٹوڈنٹ بنے۔ پھر میرے مجرم۔ پھر ایک کاغذی انتقامی رشتے کا ایک پرزہ۔ پھر سعدی کے لیے میرے پاٹنر۔ پھر ایک بے گناہ انسان کی حیثیت سے میرے سامنے کھلے۔پھر میرے کلائنٹ بنے ۔اب شوہر بن جاؤ گے۔پتہ نہیں پھر کس روپ میں سامنے آؤ گے؟ کیا ابھی بھی کچھ ایسا ہے جو میں نہیں جانتی تمہارے بارے میں؟ ہاں یہی کہ تمہارے کلائنٹ کا تمہاری فیس ادا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
اس نے نرمی سے اسے اپنے قریب کیا، پھر اس کا سر اپنے کندھے سے لگا کر چند لمحے تھپتھپاتا رہا۔پھر بہت محبت سے دھیرے سے بولا “آئی ہیٹ یو چڑیل”
جو میرا ہے وہ میرا ہی رہے گا۔ موت کے علاوہ کوئی چیز ہمیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتی۔
فارس: کافی پیو گی؟ زمر: وہ سر جھکاۓ ذرا سا مسکرائی.۔ ( واہ فارس غازی آپ آہ میرے لیے کافی بنائیں گے۔) اور چہرہ اٹھایا “شیور” ۔ فارس تھینکس۔ میری کافی میں چینی مت ڈالنا اور کافی زیادہ ہو۔ زمر: ایک منٹ۔ہم میں سے کون کافی بنا رہا ہے؟ فارس: زمر بی بی ابھی میں اتنا زن مرید نہیں ہوا کہ رات کے ساڑھے گیارہ بجے،اپنی بیوی کے لیے کافی بناؤں۔ اس لیے آپ بنائیں گی۔ وہ کبھی نہ اٹھتی مگر اس نے اسے آپ کہا تھا۔عرصے بعد۔ اچھا لگا تھا۔ بظاہر کاغذ پٹح کر اٹھی صرف اس لیے بنا رہی ہوں کیونکہ میرا اپنا دل چاہ رہا ہے۔